Wednesday 30 January 2013

Bahmi Razamandi Burai ke liye jawaz nahi ban sakti

 باہمی رضا مندی برائی کے لیے جواز نہیں بن سکتی

                                    محب اللہ قاسمی 


    رب کائنات نے انسان کو وجودبخشاتو اس کی تمام بنیادی ضروریات کا لحاظ رکھتے ہوئے انتظامات کئے ۔ رہی بات جنسی خواہش کی تو یہ صرف ایک انسانی ضرورت نہیں بلکہ سماج کی تعمیر و تشکیل کا ذریعہ بھی ہے، اس کے لئے حیوانوں جیسا غیر مہذب طریقہ نہیں بتایا بلکہ سماج کے سامنے دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول اور نکاح کا طریقہ بتایا۔ اس کے بعد میاں بیوی کی ایک دوسرے کے تئیں ذمہ داریاں مقرر کردیں۔ مردوںکوقوی اور مضبوط بناکرانھیں صنف نازک کی حفاظت و کفالت کی ذمہ داری دی۔تو بیویوں کو بچوں کی پرورش اور دیگر گھریلو ذمہ داریاں دیں۔ پھران دونوںکوبے راہ روی سے بچنے کے لیے کچھ معاشرتی واخلاقی ضابطے بھی عطاکئے ،جن کے دائرے میں رہ کر وہ اپنی مشترکہ کوششوں سے صالح معاشرے کو پروان چڑھائیں تاکہ امن وامان کی فضاعام ہو اورترقی کی راہیں ہموارہوں۔

     مگرانسان جب ان قدرتی ضابطوں،فطری اقدار اورمعاشرتی اُصولوں سے بالاترہوکرصرف اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسرکرنے لگا توہ نہ صرف خود مشکلات سے دوچارہوا بلکہ وہ دوسروں کے لیے بھی باعث مصیبت بن کر معاشرے کی تباہی وبربادی کا سبب بنا۔
    مثلاًانسان کی ایک بنیادی ضرورت جنسی خواہش کی تکمیل ہے۔اس کے لیے الٰہی ضابطوںکوبالائے طاق رکھ کر زناوبدکاری کی راہ اختیارکرنا پھراس کے جوازمیں باہمی رضامندی اورمرضی کو دلیل بنا کرپیش کرنا،جو معاشرے کا ایک ناسوربن گیاہے۔ جب کہ پرامن معاشرے کی بقاوتحفظ اورتعمیروتشکیل کا صرف مذکورہ ضابطوں پر عمل کرنے میںہی مضمر ہے۔

     بے راہ روی کے اس ماحول نے ان بہت سی ان لڑکیوںاورخواتین کو بھی اپنی زدمیں لے لیاہے جو پاکدامنی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہیں اورمعاشرے کو اپنی صلاحیتوں اور کردار سے فائدہ  پہنچاناچاہتی ہیں۔مگروہ پراگندہ معاشرے کی شکارہوکراپنی قدریں فراموش کردیتی ہے یا ہوس پرست گروہ کا شکارہوکر تباہ وبربادہوجاتی ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو زنابالرضا جسے سماج اور قانون نے لیوان ریلیشن شپ کا نام دے کر جواز تو فراہم کردیا ہے لیکن حقیقت میں وہ زنابالجبرسے بھی زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ  وہ بہ آسانی چوردروازے سے معاشرے کو اپنی زد میں لے لیتاہے پھروہی طریقہ رائج ہوکر زنا بالجبرکی راہ ہموارکردیتاہے۔ اس سے اس کی سنگینی کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔
     اسلام کے احکام کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے ہراس طریقے کو ناپسنداورجرم قرار دیا ہے جس سے انسانیت کا نقصان ہو اور معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجائے۔ خواہ انسان وہ حرکت اپنی مرضی اورباہمی رضامندی سے ہی کیوںنہ کرے۔اسی لیے اسلام نے انسان کو اپنی مرضی کانہیںبلکہ احکام الٰہی کا پابندبنایا ہے اور کہا ہے کہ اسی میں اس کی بھلائی ہے۔

بدکاری کی قباحت
    رشتہ ازدواج(نکاح ،شادی)کے بغیر مردوزن کا باہمی جنسی خواہش کی تکمیل کرنا، خواہ رضامندی کے ذریعے ہو یا بالجبر زنا کہلائے گا۔جسے شریعت نے کھلی بے حیائی اورجرم قراردیاہے۔البتہ جس پر جبرکیاگیاہے وہ قابل گرفت نہ ہوگا ۔ زناکی قباحت اورحرمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی کا ارشادہے: ‘‘زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی) ہے۔اوربڑاہی برا راستہ ہے۔ ’’ (بنی اسرائیل :۳۲(
اس آیت میں انسانوںکوزنا کے محرکات سے بھی دورہنے کا حکم دیاگیاہے۔ چہ جائے کہ اس فعل بدکا ارتکاب کیاجائے ۔اسی لیے اسلام اجنبی خواتین سے میل جول،غیرضروری گفتگو، اوراختلاط سے بھی بچنے کی تاکید کرتا ہے، کیوںکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کوزنااورفحش کاری تک پہنچادیتے ہیں۔رضامندی سے انجام دی جانے والی یہ برائیاں انسان کو جبرتک بھی پہنچادیتی ہیں۔

    جس طرح خوبصورت پیکٹ میں کوئی بری اورگندی چیز رکھ دی جائے تواس سے اس کی حیثیت نہیں بڑھ جاتی ۔ اسی طرح مرضی اورباہمی رضامندی سے کسی جرم کا ارتکاب کرنے سے وہ درست اورقابل تعریف عمل نہیں ہوسکتا۔ ہمارے وطن عزیز میں کچھ لوگوںکا مانناہے جسے حکومت بھی تسلیم کرتی ہے کہ باہمی رضامندی سے اگر جنسی عمل انجام دیاجائے تووہ جرم نہیں ہے۔دلیل کے طورپر یہ کہا جاتا ہے کہ دوافراد کی رضامندی سے دوسروں کوکیاپریشانی ہے؟

 غورکرنے کی بات ہے کہ محض رضامندی کودلیل مان کرکیا کوئی جرم سرانجام دیا سکتاہے؟ اگرجواب اثابت میں ہو توپھر انسان بہت سی مشکلات میں مبتلاہوجائے گا اور انسانی زندگی تباہ وبربادہوجائے گی۔اس بات کوسمجھنے اورسمجھانے کے لیے بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں:
    ایک کشتی جودریا کے درمیان ہو اوراس میں کوئی معمولی سوراخ ہوجائے جس کو بند کرنا بہت زیادہ مشکل نہ ہوتواس پر سوارلوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اس سوراخ کو بند کرنا بہت ضروری ہوتاہے ۔اگرکوئی اسے بندنہ کرے ،بلکہ اس پر سوارمسافروں میںسے دواشخاص یہ کہیں کہ ہم دونوںنے باہمی رضامندی کے ساتھ اس میں سوراخ کیاہے۔اس لیے کسی کو بند کرنے کی اجازت نہیں ہے اورنہ کسی کوکچھ کہنے کا حق ہے ۔توکیا اس کی مرضی پرروک لگانے کے بجائے سارے لوگ ڈوبنے کے لیے تیارہوجائیں گے؟ نہیں ! بلکہ معمولی درجہ کاعقل رکھنے والا بھی ان دونوںکی مزاحمت کرے گااورسوراخ کو بند کرنے کی کوشش کرے گا۔

    اسی طرح ہم لوگ ریل یادیگر سواریوں پر سفرکرتے ہیںجس کے لیے ٹکٹ خریدتے ہیں ، اگرکوئی شخص بناٹکٹ کا سفرکرے اوریہ دلیل دے کہ میں نے ٹی ٹی سے سیٹنگ کرلی ہے،تودیگرمسافروں یا محکمہ ریلوے کو کیاپریشانی ہے تو کیا اس کی یہ بات قابل تسلیم ہے اور اس کایہ عمل جرم نہیں ماناجائے گا؟ اگرنہیں! توپھرآج سے ہی تمام لوگوںکو رضا مندی کے انوکھے طریقے کے ساتھ  بلاٹکٹ سفرکی اجازت مل جانی چاہیے ،ایسے میں کیا محکمہ ریل یا محکمہ نقل وحمل (ٹرانسپورٹ) چل سکے گا،اس کے اخراجات پورے ہوسکیں گے؟ یہ تو ایک محکمہ کا نظام ہے جو مذکورہ اُصول پر نہیں چل سکتا تو پورے معاشرے کا نظام محض دوافراد کی رضامندی سے کیسے چل سکتاہے۔

     آج خودپسندی اوراپنی مرضی کی پیروی نے انسانوںکوتباہی کے ایسے دہانے پر لاکھڑاکیاہے کہ ان کے دل سے احساس جرم نکل چکاہے ،معاشرے کی بقاوتحفظ کی باتوں سے ان کی آزادی میں رکاوٹ محسوس کی جانے لگی ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اچھاکام کرے اوربرے کام سے بچے ،یہی وجہ ہے کہ اسے خوشبوسے پیار اوربدبوسے نفرت ہوتی ہے۔ معاشرے میں کوئی شخص گندگی پھیلائے یا کوئی جانور کومار کر اپنے ہی دروازے کے سامنے رکھے ،جس سے کہ بدبو ہو اورتعفن پھیل جائے اور تنبیہ کرنے پر وہ کہے کہ یہ میری مرضی میں جیسے چاہوں رہوں جو چاہوںکروںتمہارے گھرمیں تومیں نے گندگی نہیں ڈالی ، پھرتمہیں کیاپریشانی ہے۔ توکیا اس کی یہ دلیل قابل قبول ہوگی اوراسے یونہی چھوڑدیاجائے گا ؟

     ٹھیک اسی طرح باہمی رضا مندی سے قائم کیاگیا جنسی تعلق محض دوانسانوںکا عمل نہیں ہے یا اس میں صرف دولوگوںکی مرضی پر بدکاری کوفروغ حاصل نہیں ہوگا بلکہ جب یہ وبا عام ہوگی توپھرجبروتشدد کی کیفیت کو جنم دے گی، اس کے نتیجے میں انسانیت کا خاتمہ ہوجائے گااور معاشرہ بدامنی کا شکارہوجائے گا، موجودہ دورمیں اس کامشاہدہ ہم اپنی کھلی آنکھوںسے کرسکتے ہیں۔

     آج خواتین کی عصمت دری اوران کے قتل کے واقعات نے بھیانک شکل اختیارکرلی ہے ،ظاہر ہے یہ سب اچانک نہیں ہوگیابلکہ غلط طریقوں اورفحاشی کے فروغ نے ایسا ماحول بنادیاکہ معاشرے کی کشتی میں نہ صرف سوراخ ہوگیاہے بلکہ تیزی سے اس میں پانی بھررہا ہے۔پھربھی لوگ بدکاری کے محرکات واسباب پر گرفت کرنے کے بجائے اس کی وکالت کرتے ہیں۔اس قسم کے منچلے ہوس پرست لوگوںکی گرفت کرنے کے بجائے انھیں مزیدکھلی آزادی دی جارہی ہے اور قانونی تحفظ فراہم کرکے بے حیائی کے محرکات کو فروغ دیاجارہاہے۔ ان حالات میں نہ صرف سماج کاشیرازہ منتشرہوگا بلکہ ملک تیزی سے زوال کی راہ پر جائے گا۔

بدکاری کے اثرات
    اگراس فعل بدکی روک تھام نہ کی گئی تو وہ بھیانک شکل اختیارکربیٹھے گا پھرمعاشرے پر اس کے بدترین اثرات پڑیں گے۔ چنانچہ ایڈس جیسی خطرناک بیماری ،غریبی اوربھک مری کی کیفیات اسی سے پیداہوتی ہیں ان پر غور کیا جاسکتاہے۔ آج سے ساڑھے چودہ سوسال قبل نبی رحمتؐ نے اس فعل بد کے نقصانات اوراثرات سے متنبہ کر دیا تھا۔اس کی قباحت بیان کرتے ہوئے آپ ؐ  نے ارشادفرمایاتھا:

’’جس قوم میں زناکاری اورسودخوری عام ہوجائے گی اس میں اللہ کا عذاب آنا لازمی ہے۔“ (شعب الایمان للبیہقی(
ایک جگہ اورارشادہے:
 ’’جس قوم میں علانیہ فحش کاری کا بازارگرم ہوجائے اس میں طاعون اورایسی بیماریاں عام ہوجائیں گی  جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں۔‘‘(ابن ماجۃ(
    یہی وجہ ہے کہ رسول اللہؐ نے مسلمانوں کو اس فحش کاری سے ڈراتے ہوئے دنیا و آخرت میں اس کے انجام بد سے آگاہ کیاتھا۔ آپؐ کا ارشادہے:
    اے مسلمانوں کی جماعت زنا سے بچو، اس لیے کہ اس(کے نتیجے) میں چھ خصلتیں ملتی ہیں تین دنیا میں اور تین آخرت میں، رہیں تین دنیاوی پریشانیاں: وہ ہیں چہرے کی رونق ختم ہونا، مسلسل فقراور عمر کی تنگی اوراس سے آخرت میں لاحق ہونے والی تین پریشانیاں یہ ہیں: اللہ تعالی کی ناراضی، بدترین مواخذہ اور جہنم میں داخلہ۔
)شعب الایمان للبیہقی،ذم الہوی لابن جوزی(

    خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جب انسان اس قدرتی نظام معاشرت سے بغاوت کرتے ہوئے من چاہی زندگی بسرکرے گا تواسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،جوکوئی قدرت  کے نظام حیات سے انحراف کرتے ہوئے ، خودساختہ طریقہ ایجادکرے گا تو وہ نت نئے مسائل سے دوچارہوگا،اگراس پر روک نہ لگائی گئی توپورا معاشرہ تباہی و بربادی کے سمندرمیں غرق ہوجائے گا اورکوئی اسے بچانے والا نہ ہوگا۔

Sunday 27 January 2013

نبی کریم ﷺ : بہ حیثیت قائد ورہ نما

نبی کریم ﷺ : بہ حیثیت قائد ورہ نما
محب اللہ قاسمی
اسلامی تعلیمات کی روسے حق گواورانصاف پسند قائد کی بڑی اہمیت اورفضیلت ہے۔ اس کے برعکس نام ونمود کے خواہاں اور مفادپرست قائد ورہنما  کا انجام دنیا میں ذلت اورآخرت میں عذاب جہنم ہے۔اگرمردمومن قیادت کی بات کرے گا توظاہر ہے کہ اس کے پیش نظر اسلامی قیادت کا ہی تصورہوگااورجب بات اسلامی قیادت کی ہوگی جس کی طرف آیات واحادیث اشارہ کرتی ہیں تواس زمرے میں تمام قائدوپیشواآئیں گے۔ایسی صورت میں ہمیں  نبی کریم ؐ کی سیرت سے استفادہ کرنا چاہیے۔
نبی کریمؐ کی سیرت طیبہ بے شمارپہلوؤں کی حامل ہے ۔آپ ؐ کے اندرجوبھی صفات تھیں وہ کمال درجہ کی تھیں۔ ان اوصاف کاملہ کے سبب آپ پوری انسانیت کے لیے نمونہ ہیں:لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃاس لیے اگرکوئی شخص ایک اچھا معلم بننا چاہتا ہے تواسے اپنے آپ کوآئیڈیل بناناہوگا۔ایک شخص خوداچھا والد،اچھا شوہر،اچھا داعی یا پھر اپنی قوم کا ہمدرد،مفکرومدبرقائداوررہنمابنناچاہتاہے تواسے چاہیے کہ وہ آپ کی پیروی کرے۔ اس موضوع پرغور کرتے ہوئے ہمیں کچھ بنیادی چیزوںکوسمجھنا ہوگا ۔ سب سے پہلے ہم اس بات پر غور کریں کہ قیادت کے معنی ومفہوم کیاہیں؟  قیادت کے معنی ہیں کہ اسلام جس اجتماعیت کا خواہاں ہے اس کوبرقراررکھتے ہوئے اعلیٰ مقصدکے حصول کی کوشش کی جائے ۔قرآن کریم میں ارشادالٰہی ہے:
إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلٰیٓ أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُواْ بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہٖ إِنَّ اللّہَ کَانَ سَمِیْعاً بَصِیْرا   oیَآٰ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوٓاْ أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ                                                                                                                             )النسائ:۵۸،۵۹(
مسلمانو،اللہ تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو،اللہ تم کو نہایت ہی عمدہ نصیحت کرتا ہے اوریقینا اللہ سب کچھ دیکھتاہے۔اے لوگوجوایمان لائے ہو،اطاعت کرو اللہ کی اوراطاعت کرورسول کی اوران لوگوںکی جوتم میں سے صاحب امر ہوں۔ (النسائ:۵۸،۵۹(
اسی طرح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
اذاکان ثلاثۃ  فی  سفر فلیؤ مر  احدہم  (ابوداؤد(
جب تین آدمی سفرمیں ہو تو ان میں ایک کو امیربنالیناچاہیے۔
کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ                                    )متفق علیہ(
تم میں کا ہرشخص ذمہ دار ہے، ہرایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں میں باز پرس ہوگی۔
مطلب یہ کہ جس طرح وقتی طورپر سفر کے دوران منزل مقصودتک پہنچنے کے لیے ایک امیرکارواں کامنتخب کرناضروری ہے اسی طرح اجتماعی زندگی کے قافلے کواعلیٰ مقاصدکے حصول کے لیے ایک قائدورہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔تاکہ وہ کام یابی سے ہم کنار ہوسکے۔ معلوم ہوا کہ قائد کی بڑی اہمیت ہے۔ جیساکہ قائد اعظم نبی کریم ؐ کا فرمان ہے جس کا مفہوم ہے کہ’امیرکی اطاعت کرواگرچہ وہ کالاحبشی ہی کیوںنہ ہو۔
قائد کے اوصاف
جس طرح سونا اپنی خوبیوںکی وجہ سے کھراقرارپاتاہے، اسی طرح قائداپنے اوصاف کی وجہ سے ایک کامیاب قائدو رہنما تسلیم کیا جاتا ہے۔ قائدورہنما کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایمان مضبوط ہو،وہ حسن اخلاق سے متصف ہو،حق گواورانصاف پسندہو،دوررس، امانت دارہو،قوم کا ہمدرد وغم گسارہواوردین کی حفاظت،دنیاکانظم، مظلوموںکوانصاف دلانا اورظالموںکوظلم سے روکنا جیسے واجبات کا پابند ہو۔تاکہ سلطنت کی ترقی ہو ، لوگوںکوامن واطمینان حاصل ہو اورفساد کا خاتمہ ہو۔ علامہ اقبال نے ان اوصاف کواس شعرمیںیکجاکرنے کی کوشش کی ہے:
نگہہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
حضورپرنورسرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بہ حیثیت قائدآپ کی امارت وحکومت، سیادت و قیادت ،دلیری وشجاعت اورکمال علم وعمل کی مکمل تصویر تھی۔اسی طرح وہ جہدو مشقت،صبروقناعت اورزہدوعبادت کابھی اعلی نمونہ تھی۔ آپؐ نے اپنی قائدانہ بصیرت سے اختلاف وانتشار،قتل وغارت گری ، بدکاری و بداخلاقی سے معمورفضاکوپاک کیا۔ امن واطمینان، اخوت اوربھائی چارہ اورانسانیت کادرس دے کرانسانیت کوایمان وحقائق کی روشنی سے منور کیا۔
آپ ؐ نے انسان کو اس کی حیثیت بتائی کہ اس کا سر،جن دیوی دیوتاؤں کے سامنے سجدہ ریز ہے ان سے ہزارگنابہترخوداس کی ذات ہے، جسے رب العالمین نے پیداکیاہے۔ لہٰذا عبادت خالق کائنات ہی کی ہونی چاہیے، نہ کہ کسی غیر کی یا خودتراشیدہ بتوںکی۔
            آپ ؐ نے اپنی قوم کے اندر پھیلے ہوے غروروتکبراور حسب ونسب پر فخر کو ختم کیا۔ آپ نے ان کے سامنے وضاحت فرمائی کہ ’تمام انسان آدم کی اولادہیں اور آدم مٹی سے پیداکیے گئے۔ اے لوگو!بلاشبہ تمھارا رب ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک ہے، جان لوکہ کسی کو کسی پرکوئی فضیلت اور برتری حاصل نہیںہے۔ سواے تقویٰ کے۔‘بہ حیثیت قائدورہنماآپ ؐکی پوری زندگی ظلم و ناانصافی کے خلاف برسرپیکار رہی۔
آپؐ مظلوم، بے کس اورلاچارکی حمایت کرتے تھے۔آپؐ نے لوگوںکو ظلم سے روک کر اور مظلوموں کو انصاف دلاکر ظالم اورمظلوم دونوںکی مددکی۔ اس طرح آپ نے ظلم وفساد کا سدباب کرکے انسانوں کو جینے کاسلیقہ عطاکیا۔
ایک قائد کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ مفتوحہ ممالک سے انتقام کے بجائے اسے سدھرنے اورسنبھلنے کا موقع دے۔ چنانچہ آپؐ نے فتح مکہ کے وقت انتقاماقتل عام نہیں کروایا،  بل کہ)لاتثریب علیکم الیوم ۔اذھبواوانتم الطلقائ(کی بشارت دی اور عفوو  درگزر کا اعلان عام کرکے ایساکارنامہ انجام دیا جسے تاریخ انسانی کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔
زمانہ جاہلیت کے رسم کے مطابق زندہ درگورکی جانے والی بچیوں کوزندہ رہنے کا قدرتی حق دلوایا اور اس کی پرورش وپرداخت کو لائق تحسین قراردیا اورایسا کرنے والے کو جنت کا حقدار ٹھہرایا ۔
میدان جنگ میں آپؐ نے ہمیشہ بہادری اوردلیری کامظاہرہ کیا۔آپ کا بارعب چہرۂ مبارک کبھی دشمنوںسے مرعوب نہیںہوا۔ایک موقعے پر آپؐ نے فرمایا:’انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب میں نبی ہوں، اس میں ذرابھی جھوٹ نہیں،میں عبدالمطلب کا بیٹا (پوتا) ہو یہ درس تھااستقامت وبہادری کا، جوقائد کا بہتر ین وصف مانا جاتاہے۔
مشاورت ایک کامیاب قائد کا وصف خاص ہے ۔آپ نے اس کے تصور کوعام کیا۔ چنانچہ جب بھی کبھی کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا فوراً آپ ذی صلاحیت اورتجربہ کارصحابہ کرامؓ کو اکٹھا کرتے اوران کے مشورے سے اس کا حل نکالتے ۔جب کہ آپ نبی اوررسول کی حیثیت سے بذات خود اقدام کرسکتے تھے۔مگرآپ ؐ نے اجتماعیت میںمشاورت کی اہمیت کوباقی رکھنے کے لیے یہ طریقہ عام کیا۔
آپؐ کی قائدانہ زندگی انسانیت کی تعمیر کے لیے وقف تھی ۔نفاذ قانون میںآپ ؐنے یکسانی برتی ۔دنیامیںکوئی ایسا نمونہ نظرنہیں آتا، جس نے مساوات اوربرابری کواس خوبی سے نافذ کیا ہو۔ دنیاکے ہر سماج میں کچھ لوگ قانون سے بالا ترہوکرجوجی میں آئے کرلیتے ہیں۔یہ روش انصاف کے سراسرخلاف اور سبب فسادہے۔ آپؐ نے اسلام کا ایسا قانون نافذکیاجس میںعرب وعجم ،امیر و غریب ،بڑے چھوٹے ،گورے کالے سب قانون کے سامنے برابر اور یکساں دِکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے ایک مجرمہ کے سلسلے میں حضرت اسامہ بن زیدؓ کی سفارش پر ارشاد فرمایا تھا کہ ’بخدااس کی جگہ فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تومیںاس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘۔
بہ حیثیت قائد آپ نے یہ تصوربھی عام کیاکہ رعیت کوحق ہے کہ وہ قائد کے ہراس کا م پر بازپرس کرے جوغیرضروری ہے۔آپ ؐ نے فرمایا:’ بہترین اسلام بیکارو غیرمناسب کام ترک کرناہے۔‘اسی طرح اگرکسی مزدورنے اپنا کام مکمل کیا ہے توفوراًاس کا حق دیاجائے۔آپ نے فرمان جاری کیا’مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل ہی اس کی مزدوری دے دی جائے۔   رعیت کے ساتھ حسن ظن اور حسن معاملہ سے پیش آیاجائے، اورغیراخلاقی رویہ اختیارنہ کیا جائے۔ نبیؐ کا فرمان ہے:
جوشخص چھوٹوں پہ شفقت اوربڑوں کا  ادب واحترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (ابوداؤد(
کوئی قائد جب کسی کوکسی معاملے کا والی بنائے توقرابت یاآپسی محبت کی بنیاد پر نہیں بل کہ اس کی اہلیت کی بنیادپر۔ آپ کے چچا عباسؓ نے کسی معاملے کی ذمہ داری طلب کی توفرمایا’ : اے میرے چچا! یہ ذمہ داری کسی کومطالبہ پرنہیں سونپی جاتی
اسی بناپر عمرؓ نے فرمایا’ : جس نے قرابت یاآپسی محبت کی بنیاد پر کسی کوولی یاامیربنایااس نے اللہ اوراس کے رسول کے ساتھ خیانت کی۔
قائد کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ان تمام چھوٹی چھوٹی باتوںپر نظررکھے جن کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ چنانچہ آپٖ نے بازارکا معائنہ کیا اور ناپ تول میں کمی کوناپسند کیا۔آپ ؐ نے اشیاے فروخت کی خوبی وخامی واضح کرنے کا حکم صادرکیا۔عام طورپر ہونے والے فساد زبان سے سرزدہوتے ہیں، اس لیے آپ نے گفتگوکے آداب سکھلائے اورحق گوئی کوایمان کا وصف قراردیا۔ جب کہ جھوٹ ،غیبت ،چغلی اورٹوہ میں لگے رہنے کو شیطانی عمل قراردیا۔صبروتحمل اورقناعت کو اپنایا اورفرمایاکہصبرمشکلات کوختم کردیتا ہے اورصبرکرنے والوں کے ساتھ اللہ ہوتا ہے۔  ‘‘یہ پاک اِرشاد عام لوگوں کودنیامیں مشکلات سے لڑنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
قائد کے لیے ضروری ہے کہ وہ افرادسازی کا فریضہ انجام دے۔ تاکہ قوم کی مختلف ضرورتوں کے لیے مختلف ذی استعداداورباصلاحیت افراد تیارہوں،جو آنے والے دنوںمیں قیادت کے فرائض انجام دے سکیں۔ آپ ؐنے فرمایا: انسان سونے چاندی کی کان کے مانند ہیں۔ علم وصلاحیت ایک نعمت ہے لہذا اس کا صحیح استعمال ضروری ہے،  جس کے بارے میں قیامت کے دن صاحب علم وبصیرت افرادسے بازپرس ہوگی۔
آپ ؐ ہمیشہ اپنی امت کے لیے فکرمندرہتے تھے اور اپنی ضرورتوں پران کی ضرورتوں کو ترجیح دیتے تھے۔ حتی کہ آپؐ نے بعض مواقع پربھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھا جسے دیکھ کرصحابۂ کرام اشکبارہوجاتے تھے۔پرعزم ،باہمت قائد کبھی مشکل حالات سے نہیں گھبراتے۔ چنانچہ آپؐ کو طائف میں نادانوں نے لہولہان کیا اور قوم کے لوگوں نے آپ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے شعب ابی طالب میں آپ کواورآپ کے خاندان کو نظربندکردیا،مگرآپ اپنے موقف پرجمے رہے اورآپ کے پایۂ استقلال میں جنبش تک نہیں آئی ۔ یہ ایک قائد کی تڑپ تھی کہ آپ ہمیشہ اپنی امت کی فلاح ونجات کے لیے دست بہ دعارہتے تھے اوربارگاہ الہیٰ میں ’’امتی امتی‘‘ کی صد الگاتے تھے۔
آپؐ نے یہ بھی احساس عام کیا کہ ہرشخص کسی نہ کسی حیثیت سے قائدو رہنما ہے۔  اسے اپنے ماتحتوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔  روز قیامت جب کوئی کسی کا نہ ہوگااس سے ان کے بارے میں بازپرس کی جائے گی ۔آپ ؐنے اپنے آخری حج میں صحابہ ؓ کو مخاطب کرکے ارشادفرمایا: ’ کیامیں نے تم لوگوں تک خداکا پیغام (دستور حیات)پوراپورا پہنچایا دیا ہے‘؟صحابہ نے جواب دیا:ہاں۔
یہ سیرت طیبہ کی محض ایک جھلک ہے ۔طوالت کے خوف سے تفصیل سے گریز کیاگیا۔ سیرت النبی  میں آپ کے عملی کردار کے بے شمارواقعے ایسے ہیں، جن میں کامیاب قائداپنے اوصاف، اپنے کرداراورفرائض تلاش کرسکتاہے۔ اگر قائدین امت اوررہنمایانِ ملت نے ان اوصاف کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے قوم وملت کی باگ ڈورسنبھالی توپھرخداکی مددونصرت شامل حال ہوگی اورانھیں ان کے اہداف اورنصب العین کے حصول سے کوئی روک نہیں سکتا۔ 
٭٭٭





Friday 11 January 2013


حیا -قلب وشعور کی زندگی
محب الله قاسمی
انسان کے اندرفطری طورپر حیاپائی جاتی ہے۔یہ ایک ایساپیمانہ ہے جس سے وہ خیروشرکو جانچتا اور پرکھتاہے ۔ اسی کی بنیاد پر وہ عملی اقدام کرتاہے اوراپنی زندگی کوباوقار بناتاہے۔ حیاانسان کا زیورہے جس سے اس کی شخصیت میں نکھار آتا ہے اوراس کی عزت نفس کی حفاظت ہوتی ہے ۔اسی وجہ سے اس کویہ بات ناگوار گزرتی ہے کہ کوئی اسے برا سمجھے یا اس کی عزت کو پامال کرے مگر جب اس کے اندر سے حیا نکل جاتی ہے تو اس میں اچھے برے کی کوئی تمیز باقی نہیں رہ جاتی ہے۔جیسے کسی انسان کی سونگھنے کی صلاحیت ختم ہوجائے توپھر اسے خوشبویا بدبوکااحساس نہیں ہوتا۔ حیا نہ ہوتوشیطان انسان پر پوری طرح حاوی ہو جاتاہے۔ پھر اس کے جی میںجو آتا ہے کرتا چلاجاتاہے۔ فارسی میں مثل مشہور ہے:
 "بے حیاباش ہرچہ خواہد کرد‘یعنی بے حیا ہوجاتوجوجی میں آئے کرد"
 بے حیائی سے معاشرہ سنگین مسائل سے دوچارہوجاتاہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایاہے :
لکل دین خلق و    خلق الاسلام الحیاء                 (مؤطا امام مالک وسنن ابن ماجہ(
یعنی ہردین کا ایک مزاج ہوتاہے اور اسلام کا مزاج حیاہے۔
    حیاء ایمان کا وہ شعبہ ہے جوانسان کوباادب اورمحتاط بناتاہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشادہے :
یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْء َاتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَیَ ذَلِکَ خَیْْرٌ ذَلِکَ مِنْ آیَاتِ اللّہِ لَعَلَّہُمْ یَذَّکَّرُونَ (اعراف:۲۶(
اے اولادِ آدم ، ہم نے تم پر لباس نازل کیاہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصوںکوڈھانکے اور تمہارے لیے جسم کی حفاظت اورزینت کا ذریعہ بھی ہو اوربہترین لباس تقوی کا لباس ہے۔
 ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں لباس تقوی حیا ہے۔
حیا کے سلسلے میں بہ کثرت احادیث موجود ہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
الحیاء من الایمان                                                                                    حیا ایمان کا حصہ ہے۔  (مسلم(
   اس سے معلوم ہوا کہ مومن بے حیا نہیں ہوسکتا۔ اسے کبھی پسند نہیںکرے گا کہ لوگ اسے بے شرم یا بے حیاسمجھیں۔کسی بھی برے کام کی انجام دہی سے قبل اس کی حیا اسے روکے گی ۔ اسی وجہ سے آپ ؐ نے بھی فرمایاہے:
الحیاء لایاتی الا بخیر                                 حیا خیرہی لاتی ہے۔ (بخاری )
حیا کی اہمیت کے پیش نظر آپﷺ نے مزید ارشادفرمایا:
ان الحیاء والایمان قرناء جمیعا،فاذا رفع احمدہما رفع الآخر۔(مشکوۃ(
بلاشبہ حیاء اورایمان لازم اورملزوم ہیں اگران میں کوئی ایک ختم ہوجائے تودوسری بھی ختم ہوجاتی ہے۔
   جب کسی انسان کے اندرسے حیا چلی جائے تویہ سمجھ لیناچاہیے کہ اللہ نے اس کی ہلاکت کا فیصلہ کرلیاہے۔نبیؐ کا فرمان ہے،’’اللہ جب کسی بندے کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے اس کی حیا چھین لیتا ہے،پھراس میں امانت داری باقی نہیں رہتی ،وہ خیانت کرنے والا ہو جاتا ہے۔ پھروہ اللہ کی رحمت سے دورہوجاتاہے۔(ابن ماجہ) حیاسے محروم ہوجانے کے بعد انسان ہرطرح کاکام کرنا شروع کردیتا ہے اسے گندہ سے گندہ کام کرنے میں بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔نبی ﷺ نے فرمایا:
اذالم تستح فاصنع ماشئت اگرتم میں حیا نہ ہو تو جوجی میں آئے کرو۔ (بخاری)
   گویابے حیائی سے انسان کی عقل پر پردہ پڑجاتاہے اور اس میں کوئی تمیز باقی نہیں رہتی۔حیا اللہ اس کے روسول اورنیک لوگوںکی صفت ہے۔ آپ ﷺ کاارشاد ہے:
ان اللّہ حیی ستیریحب الحیاء والستر    اللہ تعالیٰ باحیاء اور پردہ پسند ہے اورحیا اور پردہ پوشی کو پسند فرماتاہے۔ (ابوداؤد(
   ایک دوسری حدیث میں ہے آپ  ﷺ نے فرمایا:
بے شک تمہارا رب بڑا باحیا اور سخی ہے۔ اسے اپنے بندوں کے متعلق اس بات سے شرم آتی ہے کہ بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلائے اوروہ اسے نامراد واپس کردے۔ (سنن ابوداؤد،ترمذی ،ابن ماجہ)۔
   آپ ﷺ نے حیا کو رسولوںکی سنت بتایا ہوئے فرمایا:
اربع من سنن المرسلین الحیاء والتعطر  والسواک  والنکاح۔ (مسلم(
چار چیزیں پیغمبروںکی سنت ہے:حیائ،خوشبو لگانا، مسواک کرنا،اورنکاح ۔
   نبی کریم ﷺ بہت ہی باحیاتھے ایک صحابی بیان کرتے ہیں :
کان النبی ﷺ اشد حیاء من العذراء فی خدرہا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندرایک دوشیزہ سے بھی زیادہ حیاپائی جاتی تھی۔
    جس کے اندر حیاہوتی ہے وہ سب کا محبوب ہوتا ہے،اسی لیے کہا جاتاہے:
’’چہرے کی زندگی حیا ہے جیسے پودے کی زندگی پانی ہے۔‘‘
   یہی وجہ ہے کہ مومن کاحیا دارچہرہ تروتازہ دیکھائی دیتاہے جومخاطب کو قلبی سکون عطا کرتاہے۔یہ کتنے شرم کی بات ہوہے کہ ایک مومن اللہ کا محبوب ہونے کا دعویدارہواور گناہ کا مرتکب بھی ہو۔
   صحابہ کرامؓ نے نبی کریم ﷺ کی صحبت پائی چنانچہ آپؐ کی تربیت نے انھیں بھی حیا کا پیکربنادیا۔بعض صحابہ اس معاملہ  میں بہت نمایاں تھے۔ نبی کریم ﷺ حضرت عثمان ؓ کے بارے میں فرمایا :اصدقہم حیاء عثمان۔حضرت عمرؓکا قول ہے:
من قل حیاؤہ قل ورعہ ،ومن قل ورعہ مات قلبہ۔
جس شخص کے اندرحیاکے مقابلہ میں کمی آجائے اس کی پرہیزگاری میں بھی کمی آجاتی ہے اور جس کی پرہیزگامیں کمی آجائے تواس کا دل مردہ ہوجاتاہے۔
   عمربن عتبہ بن فرقد ،جوایک بڑے تابعی ہیں،ایک مرتبہ مسلمان فوجیوںکے درمیان رات میں نماز کے لیے کھڑے ہوئے کہ اچانک ایک درندہ حملہ آور ہوا دوسرے فوجی بھاگ کھڑے ہوئے مگر آپ کھڑے رہے اورنماز میں مشغول رہے۔حیرت انگیز طورپر درندہ نے آپ کونقصان پہنچایا۔بعدمیں جب فوجی واپس آئے اورانھوں نے دریافت کیاکہ آپ کیوں نہیں بھاگے توفرمایا: میں نماز میں تھا اورمجھے اللہ سے شرم آئی کہ اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے بھی اس سے ڈرنے کے بجائے درندہ سے ڈروں۔
   ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہاکی حیاکا یہ عالم تھا کہ ان کے حجرے میں حضرت عمرؓ کے دفن سے قبل وہ اس میں بغیر پردے کے داخل ہوجاتی تھی اس لیے کہ وہاں ان کے شوہر اللہ کے رسول ﷺ اوران کے والدمدفون تھے مگر جب حضرت عمرؓ اسی حجرے میں مدفون ہوئے تووہ اس میں جاتے وقت اپنے اوپرچادر ڈال لیتی تھی۔یہ سب حضرت عمررضی سےحیاکی وجہ سے تھا۔
   موجودہ دورکا جائزہ لیاجائے توجس قدرعریانیت کا عروج، اقدارکا زوال اوربے حیائی کارواج عام ہوا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے سے حیا کا فقدان ہو گیاہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانوںمیں وہ تمیز باقی نہیں ہے کہ وہ کسی بری چیز کوبرا کہہ سکیں ، انھیں سب کچھ اچھا ہی دکھتاہے۔ بچیاں عریا لباس زیب تن کرتی ہیں اور اپنے والدین کے سامنے گھر سے باہر نکل جاتی ہیں۔ والدین جانتے ہیں کہ یہ غیرشرعی ہے اور معاشرے کے فساد کا سبب بنے گامگرانھیں روکتے نہیں ،  بلکہ اس کے جواز میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ اس دورکا فیشن ہے یا پھر یہ کہ آج کے بچے مانتے ہی نہیںوغیرہ ۔ نتیجہ میں چھیڑچھاڑ،بدکاری اوربدتمیزی کے معاملات سامنے آتے ہیں۔ معاشرہ تباہ ہوتا ہے، جس کے واقعات آئے دن اخباروںکی زینت بنتے ہیں۔
   انسان کوجوچیز بے حیابناتی ہے وہ اس کی خواہشات نفس اوردنیاکی محبت ہے جوایمان کودیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔اس لیے ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے اورہراس کام سے بچنا چاپنے جوحیا اوروقار کے کے خاتمہ کا سبب بنے۔تبھی ہمارا ایمان مضبوط ہوگا اورہم اللہ کو منہ دکھانے کے لائق ہوں گے۔
٭٭٭



Tuesday 8 January 2013

Bimar Muashra aur Islami Talimat


بيمارمعاشرہ اور اسلامی تعلیمات کی ضرورت

 محب اللہ قاسمی 

       مریض کو دوا کا خوف دلاکر اسے بغیرعلاج مارنا ، اس کے ساتھ ہمدردی نہیں بلکہ دشمنی ہے۔جس طرح مرض کی شناخت ہوجانے کے بعد اس سے بچنے کے لیے لوگوںکو آگاہ کرنا اوراس سے پوری طرح دوررہنے کی تاکید کرنا معاشرے کو صحت مند بنانے کے لیے ضروری ہے ٹھیک اسی طرح انسانیت کے ضامن حیات نظام- اسلام - سے انسانوںکو ڈراکراس سے دور رکھنے کی کوشش سے انسانیت کی حفاظت نہیں بلکہ اس کی بربادی ہوگی۔

        موجودہ دورکے ماحول اورحالات نے آج پوری انسانیت کوایسا مریض بنادیاہے جس کے مرض کی شناخت کرنے اوراس کا  علاج بتانے سے گریز کیا جارہا ہے ،اس کواسلام اوراسلامی تعلیمات سے دوررکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔جب کہ معاشرے کے موجودہ مسائل اورانسان کے تمام فکری وعملی اوراخلاقی بیماریوںکا علاج صرف اورصرف اسلام کے پاس ہے۔ہم اپنے ملک عزیز ہندوستان کا جائزہ لیں تویہاں بھی بہت سی بیماریاں عام ہوگئیں ہیں جن سے بچنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں مگران کا مکمل علاج نہ ہونے کے سبب وہ بیماریاں دن پر دن بڑھتی جارہی ہیں۔مثلاً آج دنیا بھرمیں ایڈزجیسی خطرناک بیماری نے اپنی جگہ بنالی ہے اور ہماراملک بھی اس کی زد میں ہے۔اس بیماری کے اسباب ومحرکات تلاش کرلیے گئے ہیں اور بیماری سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقے بھی اختیارکیے جارہے ہیں مگر کوئی یہ کہنے کوتیارنہیں ہے کہ ناجائزتعلقات ہی اس خوفناک بیماری کی اصل وجہ ہے۔ خرابی کی ایک بڑی وجہ عریانیت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین برانگیختہ کرنے والے نیم برہنہ لباس میں مردوں کے دوش بدوش مخلوط پارٹیوں میں نظرآتی ہیں۔ یہ صورت حال نفسیاتی طورپر بہت سی بُرائیوں کو دعوت دیتی ہے جس کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ ناگہانی کیفیت اور بدسلوکی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔کبھی کبھی بات اس سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ پھر ہم واویلامچاتے پھرتے ہیں، جب کہ خودکردہ را علاج نیست۔  
     
        وطن عزیز کا باشندہ ہونے کے ناطے ہمارے لیے یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ یہاں خواتین کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ جب کہ عورتوںکوسیتااورلکشمی کے روپ میں دیوی کا درجہ دیاجاتاہے۔اس معاملے میں اب ہماری راجدھانی (دہلی) بھی شرمسار ہے، جہاں سے قانون کومنظوری حاصل ہوتی ہے اوراسے پورے ہندوستان میں نافذ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ طالبہ کے ساتھ زیادتی کا واقعہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی ایسے بہت سے واقعات فسادات کے دوران ہوتے رہے ہیں ان میں عورتوںکی عزت تارتارکی جاتی رہی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے صرف چند ہی جنسی جرائم میڈیاکے ذریعے نمایاںہوتے ہیںاوربہت سے معاملات کومتأثرہ خاتون پر دباؤبناکر پس پردہ ہی ختم کردیاجاتاہے ۔        

        یہ بات لائق تحسین ہے کہ اس شرمناک اوروحشیانہ واقعے کے خلاف عوام سڑکوںسے لے کر ایوان تک نہ صرف آواز بلندکررہے ہیں بلکہ ان مجرمین کے لیے پھانسی تک کی سزاکا مطالبہ کررہے ہیں اور سخت ترین قانون سازی کی بات بھی کی جارہی ہے۔  یہ چیز قابل غور ہے کہ بعض مسلم ممالک میں اسلامی شریعت کے مطابق جب بدکاروں،چوروں ،شرابیوںاور بھیانک جرائم میں ملوث افرادکو سزادی جاتی ہے تو مغربی ممالک سمیت ہندوستان میں بھی ان سزائوںکو اہانت آمیز،رسواکن اورظالمانہ قانون قراردے کر ہنگامامچایاجاتاہے،جب کہ یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ جہاں جہاں ان جرائم کے لئے سخت سزائیں دی جاتی ہیں وہاں ان کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

انسداد جرائم کی تدابیر
       آج حکومت کے ذمہ داروں کوبھی کچھ سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ وہ ایسے جرائم کے انسدادکے لیے کیا کریں۔تمام دانش وراورارباب حل وعقدان جرائم کاحل اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر تلاش کرتے ہیں۔ جرائم زدہ علاقوںکا تعین ،ان کی چوکسی، بسوں میںسی سی ٹی وی کیمرے اورلائٹ جلائے رکھنے کی تاکیداور اس فعل بدمیں ملوث افراد کواذیت ناک سزاکی بات کہی جارہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ ایسے وحشیانہ اور شرمناک فعل کو  انجام دینے والے مجرمین کو سخت ترین سزادی جانی چاہیے ۔مگرحل کے طورپرصرف یہی باتیں کافی نہیںہیں۔ شراب نہ پینے کی ہدایت کردینا یا بورڈ لگاد ینا کافی نہیں ہے۔ کیا بسوںمیں سی سی ٹی وی کیمرے لگادینے سے انسان کا ضمیراوراس کا کردار درست ہوسکتا ہے؟ ہرگزنہیں؟ اس لیے تمام دانش وران اورارباب حل و عقد کوچاہئے کہ سنجیدگی کے ساتھ اسلام  کے عائلی نظام، اخلاقی تعلیمات  اورتعزیراتی قوانین کابھی مطالعہ کریں،پھرانھیں عملی جامہ پہنائیں۔ کیوںکہ یہ محض نظریاتی چیزیں نہیں ہیں بلکہ آزمودہ ہیں۔

اسلام کی اخلاقی تعلیمات
       اسلام انسانوںکومعاشرتی زندگی تباہ وبربادکرنے والی چیزوںمثلاً ظلم وزیادتی ،قتل و غارت گری، بدکاری و بداخلاقی،چوری وزناکاری وغیرہ سے بازرہنے کی تلقین کرتاہے اورانھیں اپنے مالک اورپیداکرنے والے کا خوف دلاکر ان کے دل کی کجی کودرست کرتاہے۔آج معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ،فریب اور جعل سازی وغیرہ کی جو بیماریاں عام ہوگئی ہیں،صرف اسلامی تعلیمات ہی میں ان تمام مسائل کا حل موجودہے۔جس طرح ہمیں اپنی بہوبیٹیوں کی عزت پیاری ہے اسی طرح دوسروںکی عزت وناموس کاخیال رکھنابھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آزادی کے نام پر جس طرح خواتین کھلونے کی مانند استعمال کی جارہی ہیں اور گھراورحجاب کو قیدسمجھنے والی خواتین کس آسانی کے ساتھ ظلم وزیادتی کا شکار ہورہی ہیں، یہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔اس لیے اسلام نے خواتین کوایسی آزادی نہیں دی ہے جس سے وہ غیرمحفوظ ہوںاورنیم برہنہ لباس پہن کر لوگوں کے لیے سامان تفریح یا ان کی نظربدکا شکار ہوجائیں ۔ 

خواتین کے لیے اسلامی ہدایات
       اسلام نے خواتین کو علیحدہ طوربہت سی باتوںکا حکم دیا ہے اوربہت سی چیزوںسے روکاہے۔مثلاً انھیں اپنے  بناؤ سنگارکو دکھانے کے بجائے اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اورپردہ کرنے کولازم قراردیا :
 وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلَی جُیُوبِہِنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُن (النور:۳۱(

اور اے نبی ﷺ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوںکی حفاظ کریں، اوراپنا بناؤ سنگھارنہ دکھائیں بجزاس کے جوخود ظاہر ہوجائے، اوراپنے سینوںپر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں (النور:۳۱(
دوسری جگہ اللہ تعالی کافرمان ہے:
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُل لِّأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَاء  الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْْہِنَّ مِن جَلَابِیْبِہِنَّ ذَلِکَ أَدْنَی أَن یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْْنَ وَکَانَ اللَّہُ غَفُوراً رَّحِیْماً )سورۃ احزاب 59:)
’’اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اوراہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلولٹکالیاکریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالی غفور و رحیم ہے۔‘‘ (سورۃ احزاب:۵۹(
اسی طرح غیرضروری طور پر بازاروںمیں پھرنے کے بجائے گھروںمیں محفوظ طریقے سے رہنے اور عبادت کرنے کا حکم دیا:
 وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولَی وَأَقِمْنَ الصَّلَاۃَ وَآتِیْنَ الزَّکَاۃَ وَأَطِعْنَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ إِنَّمَا یُرِیْدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ الْبَیْْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرا۔ 
’’اپنے گھروں میں ٹک کررہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔  نماز قائم کرو، زکوۃ دو، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت نبی ﷺ سے گندگی کودورکرے اورتمھیں پوری طرح پاک کردے۔‘‘ (سورۃ احزاب:۳۳(
اس کے علاوہ خواتین کا ہروہ طرز عمل جو اجنبی مردوںکو ان کی طرف مائل کرے ،یا ان کی جنسی خواہشات کو بھڑکائے ،اسے حرام قراردیاگیاہے۔آپ ؐنے ارشادفرمایا:
ایما امرأۃ استعطرت فمرت علی قوم لیجدوا ریحہا فہی زانیۃ’’


ہر وہ خاتون جو خوشبو لگا کر کسی قوم کے پاس سے گزرے کہ وہ اس کی خوشبولے تو ایسی خاتون بدکار ہے۔ ‘‘(النسائی(
رسول اللہ  ﷺنے ایسی خواتین پر سخت ناراضی کا اظہارکرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
صنفان من اہل النار لم ارہما: نساء کاسیات عاریات، مائلات ممیلات، رؤوسہن کأسنمۃ البخت المائلۃ، لا یدخلن الجنۃ ولا یجدن ریحہا  (مسلم(
 ’’دوطرح کے انسان ایسے ہیں جن کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا:ان میں وہ عورتیں ہیں جو لباس پہنے ہوئے بھی ننگی ہیں، لوگوں کی طرف مائل ہونے والی اوراپنی طرف مائل کرنے والی ہیں،ان کے سرکھلے ہونے کی وجہ سے بختی اونٹنیوںکی کہان کی طرح ہے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکیںگی اورنہ ہی اس کی خوشبو پاسکیں گی۔‘‘ (مسلم(
       علامہ شیخ عبدالعزیز بن بازؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں:
’’یہ تبرج اورسفور اختیارکرنے والی عورتوںکے لیے سخت قسم کی وعیدہے: باریک اور تنگ لباس زیب تن کرنے اور پاکدامنی سے منہ موڑنے والی اور لوگوںکو فحش کاری کی طرف مائل کرنے والی عورتوںکے لیے ۔‘‘

مردوں کوتنبیہ

       اسی طرح مردوںکوبھی تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوںکی حفاظت کریں۔ غیرمحرم (جن سے نکاح ہوسکتاہے)  عورتوں کو ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھیں،اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اورزنا کے محرکات سے بچیںچہ جائے کہ زناجیسے بدترین عمل کا شکارہوں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لاتقربوا الزنا انہ کان فاحشۃ، وساء سبیلا۔

’’زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی )ہے۔اور براہی بڑا راستہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل :۳۲ (
   موجودہ دورمیں بوائے فرنڈاور گرل فرینڈکا رجحان عام ہوگیا ہے ،اسلام اس رشتے کو نہ صرف غلط قراردیتاہے بلکہ اجنبی خواتین سے میل جول،غیرضروری گفتگو،اوراختلاط سے بھی بچنے کی تاکید کرتا ہے،کیوںکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کو بدکاری اورفحاشی تک پہنچادیتے ہیں۔نبی رحمت نے اپنی امت کو اس سے روکا ہے:
ایاکم والدخول علی النساء عورتوں(غیرمحرم)کے پاس جانے سے بچو۔ (بخاری(

       اگرکوئی ناگزیرضرورت ہو یاکسی اجنبی عورت سے کچھ دریافت کرنا ہوتو پردے کے ذریعے ہی ممکن ہے ،قرآن کہتاہے:
اگر تمہیں کچھ مانگنا ہوتوپردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اوران کے دلوںکی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ (احزاب: ۵۳(
انسان کی تخلیق جس ساخت پر ہوئی ہے اس میں جنسی خواہش بھی رکھی گئی ہے جس کی تکمیل کے لیے اورعدم اسطاعت پر کنٹرول کے لیے جائزطریقہ (نکاح ،شادی روزہ وغیرہ) بتایا ۔نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
یا معشرالشباب من استطاع الباء ۃ فلیتزوج فانہ اغض للبصر واحصن للفرج ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء (بخاری(
’’اے نوجوانوںکی جماعت تم میں سے جو شخص نکاح کی قدرت رکھتا ہو اسے شادی کرلینی چاہئے اور(یہ طریقہ) نگاہوںکو نیچی رکھنے اورشرم گاہ کومحفوظ رکھنے کے لیے بہترہے اورجوشخص اس کی سکت نہ رکھتاہو اس کو روزہ رکھنا چاہیے اس لیے کہ یہ اس کی جنسی خواہش کو کچلنے کے لیے بہترہے۔‘‘ (بخاری(
معلوم ہوا کہ جس جوان شخص میں نکاح کی صلاحیت ہے اوروہ بیوی کے حقوق کی ادائی اور اس کے اخرجات برداشت کرسکتاہے اسے بلاتاخیرشادی کرلینی چاہیے۔ لیکن کسی وجہ سے شادی میں تاخیر ہوتواسے اپنی جنسی خواہش کو قابو میںرکھنے کے لیے روزہ رکھنا چاہیے۔ ایسے مومنوں کی تعریف کرتے ہوئے قرآن کہتاہے:
وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ (مؤمنون:5(
’’ )وہ مؤمنین کامیاب ہیں) جو لوگ اپنی شرم گاہوںکی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ (مؤمنون:۵ (
دوسری جگہ ارشادربانی ہے:
ولیستعفف الذین لایجدون نکاحاً حتی یغنیہم اللہ من فضلہ 
’’جولوگ نکاح کا موقع نہ پائیں انھیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیار کریں۔‘‘ (النور: ۳۳(
تعزیری قانوناس کے باوجود اگرکوئی شخص ڈھٹائی کرتے ہوئے خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور زیادتی کا جرم انجام دے توایسی صورت میں گویا اس نے معاشرے کوگندہ اورنسل انسانی کو تباہ وبربادکرنے کی کوشش کی ہے ۔اس لیے اس  کے مرتکب شخص کے لیے اسلام عبرتناک سزاکاحکم دیتاہے:
الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِئَۃَ جَلْدَۃٍ وَلَا تَأْخُذْکُم بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللَّہِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْن
زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالی اورروز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ اور ان کو سزادیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجو در ہے۔‘‘ (النور:۲ (
        مذکورہ سزااس شخص کے لیے ہے جو غیرشادی شدہ ہو اوراس کارفحش کوانجام دے، رہا شادی شدہ زانی تواس کی سزا رجم (سرِ عام پتھر مار کر ہلاک کرنا) ہے۔
معاشرے پربدکاری کے اثرات
       بدکاری کے بدترین اثرات اوراس کی قباحت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا:
اذا ظہرالزنا والربا فی قریۃ  فقد احلو بانفسہم عذاب اللہ (شعب الایمان للبیہقی(
’’جس بستی میں بدکاری اورسودخوری عام ہوجائے گی اس میں اللہ کا عذاب آنا لازمی ہے۔‘‘
ایک جگہ اورارشادہے:
لم تظہرالفاحشۃ فی قوم حتی یعلنوا بہا الا فشا فیہم الطاعون والاوجاع التی لم تکن مضت فی اسلافہم الذین مضوا )ابن ماجۃ(
)’’جس قوم میں علانیہ فحش کاری کا بازارگرم ہوجائے اس میں طاعون اورایسی بیماریاں عام ہوجائیں گی  جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں۔(ابن ماجۃ(‘‘
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ(ﷺ) نے مسلمانوں کو اس فحش کاری سے ڈراتے ہوئے دنیا وآخرت کے انجام بد سے آگاہ کیا۔آپؐ کا ارشادہے:
یا معشرالمسلمین ایاکم والزنا فان فیہ ست خصال ثلاث فی الدنیا ثلاث فی الآخرۃ، فاما التی فی الدنیا فذہاب البہائ، ودوام الفقر، وقصرالعمر، واما التی فی الآخرۃ: سخط اللہ، وسوء الحساب، ودخول النار۔
       اے مسلمانوں کی جماعت زنا سے بچوں، اس لیے کہ اس(کے نتیجے) میں چھ خصائل ملتی ہیں تین دنیا میں اورتین آخرت میں، رہے تین دنیاوی پریشانیاں: چہرے کی رونق ختم ہونا، مسلسل فقر، عمر کی تنگی اور تین آخرت میں: اللہ تعالی کی ناراضگی، بدترین مواخذہ اور جہنم کا داخلہ۔
 (شعب الایمان للبیہقی،ذم الہوی لابن جوزی(
جب معاشرے میں بدکاری عام ہوگی تو پھر پاک دامن خاتون کا تلاش کرنا آسان نہ ہوگا اورنہ ہی پاکباز مرد ملیں گے۔بدکاری کے اثر کا بین ثبوت ہمیں قرآن کریم سے ملتاہے جس نے ایسے بدترین انسان کے لیے اس کے ذوق کے مطابق فیصلہ سنایاہے:
الزَّانِیْ لَا یَنکِحُ إلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ (النور:۳(
’’زانی نکاح نہ کرے مگرزانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ۔ اورزانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگرزانی یا مشرک۔ اورحرام کردیاگیا ہے اہل ایمان پر ‘‘
     (النور:۳)مذکورہ اخلاقی تعلیمات اور تعزیراتی قوانین کے پیش نظر اتنا توواضح ہے کہ اسلام میں بدکاری کا تصور ہی محال ہے چہ جائے کہ کوئی اسلام کو مانتاہو اوراس فعل  قبیح کو انجام دے ، اس سے نہ صرف وہ شخص بدنام یا نامراد ہوتاہے جو اس میں ملوث ہے بلکہ معاشرے پر بھی اس کا بہت برااثرپڑتاہے حتی کہ اس فحاشی وزناکاری کے عام ہونے کے سبب معاشرہ قحط، رزق کی تنگی اورنت نئی بیماریوںکا شکار ہوجاتا ہے جس کا مشاہدہ ہم آج کرسکتے ہیں۔
اسلامی قوانین معقولیت پرمبنی ہیں
قرآن کا اعلان ہے :
ولکم فی القصاص حیاۃ  
تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے:(بقرۃ:179)
   قصاص بدلے کو کہاجاتا ہے ،جیسے کسی انسان نے کسی دوسرے انسان کو قتل کیاتو اس کے بدلے اس کو قتل کیاجائے گا۔ بظاہر اس میں ایک جان کا مزیداتلاف ہے مگرقرآن کہتاہے کہ اس میں زندگی ہے۔وہ اس طورپر ہے کہ دوسرے لوگ قتل جیسے سنگین جرم سے بچ جائیں گے۔اس معنی میں یہ آیت تعزیرات کے لیے بہت ہی معنی خیزہے۔کیوںکہ مجرم کو سزادینا مجرم پرظلم کرنا نہیں بلکہ جرائم کی روک تھام جو عین انصاف ہے کیونکہ جب اس نے کسی انسان کی جان ومال اور اس کی عزت وآبروکا احترام نہیں کیاتوگویاوہ یہ اعلان کررہاہے کہ اس کے ساتھ بھی احترام نہ کیاجائے بلکہ اسے سزادی جائے۔رہی بات تعزیرات اورسزاؤں کے رسواکن ہونے کی تو یہ واضح رہے کہ تعزیرات کسی اعزازمیں دی جانے والی چیز نہیں ہے، حساس لوگوںکے لیے سزارسواکن ہی ہوتی ہے۔ اسی لیے جرم کے مطابق ہی سزاکے درجات متعین کئے جاتے ہیں۔مثلا بہت سے مریض ایسے ہوتے ہیںجن کا معمولی مرض ہوتا ہے۔ان کا علاج بغیر آپریشن کے ہوسکتاہے جب کہ بعض مریض ان کا علاج عمل جراحت کے بغیرممکن نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر جسم کا کوئی عضو خراب ہوگیاہو اوراس کے جسم میںباقی رہنے سے دوسرے اعضا کے بھی متاثرہونے کا خطرہ ہوتودوسرے اعضاکو محفوظ رکھنے کی خاطراس عضو کوکاٹ کر الگ کردینا ہی بہتر ہوتا ہے۔اسی میں معقولیت اور معاشرے کی زندگی ہے۔    اسلام جرائم کو بالکل جڑسے اکھاڑنا پھینکنا چاہتاہے۔ اس لیے وہ انسانوں کو زیور اخلاق وکردارسے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ کاش دنیا والے انسانوں کو اسلامی تعلیمات سے ڈرانے کے بجائے اس کی تعلیمات کوسماج میں نافذکرنے کے لیے کوشاں ہوتے ۔اگروہ ایسا کرتے توان کی زندگی سکون واطمینان سے گزرتی اورہمارا معاشرہ صحت مندہوکر امن وامان کا گہوارہ ہوتا۔ll

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...