Sunday 24 February 2013

Badtareen Insan (The worst man)


بدترین انسان کی پہچان

انسان کی شخصیت اس کے عادات واطواراور افعال اورکردارسے نمایاںہوتی ہے ۔ انسان فطری طورپراپنا مصاحب اور دوست بھی ان ہی کو بناناپسند کرتاہے جو معاشرے میں اچھے ہوتے ہیں اوربرے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرتاہے۔ کیوں فارسی مثل مشہورہے۔ (صحبت طالع تراطالع کند) اور  جاپانی مقولہ ہے ’’ جب کسی شخص کا کردارتم پرواضح نہ ہوتواس کے دوستوں کو  دیکھو‘‘ اس سے اس کے معیارکا پتہ چلتاہے۔اس لیے معمولی سے معمولی عقل وشعور رکھنے والا انسان کبھی برے لوگوں کو  ا پنا  دوست بناناپسند نہیں کرتا بلکہ اس کی فحش باتوں اوربرے کاموں سے بچنے کے لیے اس سے دوری اختیارکرنے میں اپنی بھلائی محسوس کرتاہے ۔نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا:
 المومن مالف ولا خیر فیمن لایالف ولایولف
مومن محبت اورالفت کاحامل ہوتاہے اوراس شخص میں کوئی خوبی اوربھلائی نہیں جونہ خودمحبت کرے اورنہ لوگوں کواس سے الفت ہو۔(مسند احمد،بیہقی شعب الایمان(
 احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ نبی ﷺ نے جہاں اچھے لوگوںکے اوصاف اورخوبیاں بیان کی ہیں وہی برے اورناپسندیدہ لوگوںکی بھی پہچان بتادی ہے تاکہ ایسے لوگوںسے دوررہاجاتاہے۔
اس سلسلے میں ایک اصولی بات یہ ہے کہ ہروہ انسان جس میں کسی طرح کی خیرکی امید نہ رکھی جائے حتی کہ اس کے شرسے بھی لوگ محفوظ نہ ہوںتووہ شخص بدترین انسان مانا جائے گا ۔ کیوںکہ ایسی صورت میں وہ معاشرے کے فسادوبگاڑکا سبب بنے گا۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
تم میں بدترین شخص وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کونہ خیرکی امیدہو نہ اس کے شرسے لوگ محفوظ ہوں‘‘ (ترمذی باب الفتن(
بسااوقات انسان کسی برے شخص سے ملتا ہے مگراس کے ساتھ بہترانداز سے پیش آتاہے ،اس سے گمان ہونے لگتاہے کہ وہ معاشرے کا بہترین فردہوگا حالانکہ وہ بدترین انسان ہوتا ہے۔نبی کریمؐنے ایسے شخص کی وضاحت فرمادی ہے۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ؐ سے اجازت چاہی ، آپ نے فرمایاکہ اسے آنے کی اجازت دے دو،ساتھ ہی یہ بھی فرمایاکہ وہ معاشرے کا براانسان ہے۔جب وہ داخل ہواتوآپ نے ان سے نرم گفتگوکی ، اس کے جانے کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے دریافت کیا:اے اللہ کے رسول آپ نے تواس کے سلسلے میں ایسا ایسا فرمایاتھا، جب کہ آپ نے اس سے گفتگومیں نرمی اختیارکی ۔اس کے جانے کے بعد حضرت عائشہ نے نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:
اے عائشہؓ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قدرومنزلت میں سب سے براانسان وہ ہے جس کے شراورفحش کی وجہ سے لوگ اسے چھوڑ دیں یا اس سے دوری بنالیں۔(بخاری(
معلوم ہوا کہ معاشرے کے ایسے بدترین لوگوںکی شناخت واضح کرنا جوعلی الاعلان فسق وفجورکا ارتکاب کرتے ہیں اسے غیبت میں شمارنہیں کیاجائے گا ۔ کیوںکہ یہاں مقصود ہجونہیں بلکہ لوگوںکواس کے شرسے محفوط رکھنا ہے۔آئندہ سطروںمیں انسانوںکی مزیدچند علامتوںکا ذکر کیاجارہاہے جنھیں نبیؐ نے  بیان کیاہے۔تاکہ لوگ ان سے دوررہے اوراچھے برے کی تمیز کر سکیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:تم قیامت کے دن اللہ کے نزدیک لوگوںمیں سب سے بدترین انسان انھیں پاؤگے جو دورخی اختیارکرتے ہیں ۔(بخاری(
آپ نے اس کی مزیدوضاحت ان الفاظ میں فرمائی:
 ان  من  شرارالناس ذوالوجہین الذی  یاتی ہولاء بوجہ وہولاء  بوجہ۔ (مسلم(
یقینابدترین شخص وہ ہے جودومنہ رکھتاہو،کچھ لوگوںکے پاس ایک منہ لے کرجاتاہے اورکچھ لوگوںکے پاس دوسرامنہ لے کرجاتاہے۔‘‘
 ایسا شخص سچ اورجھوٹ کوملاکر لوگوںمیں فساد وبگاڑپیداکرنے کی کوشش کرتاہے ۔اسی وجہ سے اسے نفاق کی علامت قراردیا گیاہے۔ ایسے لوگ انسانیت کا دشمن اورمعاشرے کا ناسور سمجھاجاتاہے۔ایسا شخص لوگوںکی کمزوریوںٹوہ میں لگارہتاہے تاکہ ان کی اطلاع دوسرں کو دے۔اس طرح ان کے مابین قطع تعلق کا سبب ہے۔اسی وجہ سے اس کا دل حسداورکینہ کی آگ میں جلتارہتاہے۔
امام غزالی نے دوطرفہ باتیں بنانے والے کوچغل خوری کی خصلت سے بھی بدتر بتایا ہے ۔ چغلی میں آدمی صرف ایک کی بات کودوسرے کے یہاں نقل کرتاہے جب کہ یہاں دوطرفہ مخالفانہ باتیں پہنچائی جاتی ہیں۔قیامت کے دن ایسے شخص کے پاس دوانگاروںکی زبان ہوگی۔ ایسے شخص سے متعلق نبیؐ کا ارشاد ہے:
من کان لہ وجہان فی الدنیا،کان لہ یوم القیامۃ لسانان من نار(ابوداؤد(
جو شخص دنیامیں دوچہرے رکھتاہوگا،قیامت کے دن اس کے منہ میں دوانگاروںکی زبانیں ہوگی۔آپ نے ایسے بدترین شخص کی مزید وضاحت فرمائی :
شرارعباد اللہ المشاؤن  بالنمیمۃ ،  المفرقون بین الاحبۃ،  الباغون للبراء العیب   ( مسنداحمد(
 ’’اللہ کے بندوںمیں برے وہ لوگ ہیں جوچغل خوری کرتے ہیں،محبت کرنے والوںکے درمیان تفرقہ ڈالتے ہیں ،اور بھلے لوگوںمیں عیب تلاش کرتے ہیں۔‘‘
اس حدیث میں آپ نے بدترین شخص کی تین علامتیں بتائی ہیں۔ایک یہ کہ وہ چغل خوری کرتا ہے۔ تاکہ ایک شخص کی عیب جوئی کے سبب دوسرااس سے بدگمانی کا شکار ہوجائے۔ ایسے شخص کے متعلق ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا:
 لایدخل الجنۃ نمام (بخاری ومسلم(
چغل خورجنت میں نہیں جائے گا۔
دوسرا وہ شخص ہے جو لوگوںکے مابین محبت واخوت کو اختلاف وانتشارکے ذریعے تارتارکرنے کی کوشش کرتاہے۔تیسرا شخص وہ ہے جواس فکرمیں لگارہتاہے کہ کسی نیک آدمی میں کوئی عیب نکال کر اسے پھیلادے ۔تاکہ لوگوںمیں اس کی رسوائی ہو۔ بہ الفاظ دیگروہ  دوسرے انسانوں کی رسوائی کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
تمام انسانوںکاخالق و مالک اللہ ہے۔ وہی انسان کی ضرورتوںکوپوری کرتاہے ، لہذاانھیں اسی کے سامنے سجدہ ریزہونا چاہیے نہ کہ خداکے بالمقابل کسی دوسرے کوحاجت رواتسلیم کیا جائے ،جیساکہ مزاروںپر دیکھنے کوملتاہے ،یہ بندے کی سب سے بڑی سرکشی ہوگی ،ایسے شخص کو بھی حدیث میں بدترین انسان کہاگیاہے۔آپ کا ارشادہے :
ان شرارالناس الذین  یتخذون القبورمساجد ہم(مسنداحمد(
بدترین انسان وہ  ہی جوقبروںکومساجد(عبادت گاہ) بنالیتے ہیں۔
اس کائنات میں بہت سے انسان ایسے بھی ہیں جودوسروںکی دنیا بنانے میں بھول جاتے ہیں کہ وہ جوکچھ کرر ہے ہیں وہ صحیح ہے یا غلط ؟ اس طرح ان کی آخرت تباہ وبربادہوجاتی ہے۔ ان کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا:
من شرالناس منزلۃ عنداللہ یوم القیامۃ،عبداذہب اخرتہ بدنیا غیرہ (ابن ماجہ(
 قیامت کے دن اللہ کے نزدیک مرتبے میں برے لوگ وہ ہوںگے جو دوسرں کی دنیا بنانے میںاپنی آخرت خراب کرلیں گے(
قیامت کی علامتوںمیں سے ہے برائیاں عام ہوجایں گی اوران کا اتناکا چرچاہونے لگا کہ لوگ برے کاموںکوبرانہیں سمجھیں گے ، اس طرح برے لوگوں کی کثرت ہوجائے گی ۔اسی بات کی پیشن گوئی کرتے ہوئے آپ ؐ نے ارشادفرمایا۔
من شرارالناس تدرکہم الساعۃوہم احیائ( بخاری(
برے لوگوںپر پر قیامت کا وقوع ہوگا۔
مذکورہ تمام احادیث سے ایسے بدترین لوگوں کی شناخت بتائی گئی ہے جس کے متعلق آپ نے شرالناس ،شرارالناس ، شرارعباداللہ وغیرہ کہہ کرو ضاحت فرمائی ہے۔ان کے علاوہ جھوٹ ،غیبت ،بدکاری وبداخلاقی وغیرہ جیسے عمل کا مرتکب لوگ بھی بدترین انسان ہیں،کیوںکہ ایسے لوگوںسے بھی خیرکی توقع نہ کی جاتی اورنہ اس کے شرسے لوگ مامون نہ ہوتے ہیںلہذا وہ بھی بدترین انسان جن کو حدیث میں براکہاگیاہے۔
٭٭٭

Tuesday 12 February 2013

بہترین انسان کون ؟ Who is the best man


بہترین انسان کون ؟

اس کائناتِ رنگ وبومیں بہت سے انسان بستے ہیں۔ان میں کچھ اچھے ہوتے ہیںاورکچھ برے ۔ دنیا کا ماحول چاہے جتنا خراب ہوگیاہومگر آج بھی لوگ اچھے انسانوں سے محبت کرتے ہیں اوران کے پاس بیٹھ کر سکون ِقلب حاصل کرتے ہیں۔ برائیوں کے فروغ کے باوجود اچھائیوںکی طرف راغب ہوتے ہیںاوربرے لوگوںسے نفرت کرتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں رحم دلی قائم ہو۔کسی کوتکلیف پہنچے تو قریب اور دور ہرجگہ کے لوگ ہمدردی کے لیے جمع ہوجائیں ۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ اچھا انسان کون ہے ؟ انسان کے اچھے یابرے ہونے کا معیارکیاہے ؟
 نبی کریم ﷺ نے واضح انداز میںاس کاجواب دیاہے۔آپؐ کی تربیت کا ایک منفرد انداز تھا۔ ایک مرتبہ آپ نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ کیا میں تمہیں نہ بتادوں کہ تم میں سے بہترین انسان کون ہے؟۔ یہ بات آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائی ۔ صحابہ نے عرض کیا’’ اے اللہ کے رسول ﷺآپ ضرور ارشاد فرمائیں ۔ نبی ؐ نے فرمایا:
’’خیرکم من یرجی خیرہ ویومن شرہ  (ترمذی:باب الفتن(
          تم میں بہتر ین شخص وہ ہے جس سے دوسرے خیرکی امید رکھیں اور اس کے شر سے محفوظ رہیں۔
معلوم ہوا کہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے کے لیے نفع بخش ہو اورلوگ اس سے پوری طرح محفوظ ومامون ہوں۔ انسان کا مزاج ہے کہ وہ نفع کا خواہشمندہوتاہے اورنقصان اسے گوارانہیں ہوتا۔یہی مزاج اسلام کا بھی ہے وہ چاہتاہے کہ انسانیت کوفروغ ملے اور انسانوںکو کسی طرح کی کوئی تکلیف نہ دی جائے۔اسلام خدمت خلق کا وسیع تصورپیش کرتاہے۔جوانسان دوسرے انسانوں کو نفع پہنچائے وہی بہترین انسان ہے۔اللہ نے دنیاکی جتنی بھی چیزیں پیدا کیں وہ انسان کی خدمت میں لگی ہیں۔ آپؐ کا ارشادہے:
خیرالناس انفعہم للناس(بیہقی شعب الایمان(
لوگوںمیں سب سے بہتروہ ہے جو لوگوں کے لیے زیادہ نفع بخش ہو۔ 
انسان کو دوسری چیزوں کے مقابلے میں زیادہ مزیدنفع بخش ہونا چاہیے ،اسے دوسروںکوفائدہ پہنچانے کی کوشش کرنا چاہیے ۔نفع خواہ دین کا ہویا دنیا کا، البتہ دین کا نفع دنیاکے نفع سے بہترہے ۔ اگرکوئی شخص دین کی بات پہنچاتاہے ۔ انسانوں کو اللہ کے احکام کی تعلیم دیتاہے تو وہ شخص بہترین مانا جائے گا ۔
اگر کسی شخص نے کسی دوسرے انسان کی ضرورت پوری کی اوراس کے کام میں اس کی مددکی تو یہ بھی نفع پہنچانے کی ایک صورت ہے۔ اسے سخاوت یا ہمدردی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایسا شخص بھی اچھا انسان ماناجائے گا۔ اگروہ دوسرے کوکوئی نفع نہ پہنچائے توکم ازکم ان کوتکلیف بھی نہ پہنچائے ۔ اگروہ تکلیف پہنچانے سے بازنہ آئے تووہ شخص بدترین انسان ماناجائے گا۔نبی کریم ؐ اس کی وضاحت کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں :تم میں بدترین انسان وہ ہے جس سے خیرکی توقع نہ کی جائے اورنہ لوگ اس کے شرسے محفوظ ہوں۔(ترمذی:باب الفتن (
قرآن کریم اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے ۔یہ انسان کو بہترین انسان کی حیثیت سے زندگی گزارنے کی دعوت دیتی ہے ۔ خلوص کے ساتھ اس کی اشاعت کرنے والا یقینا اچھاانسان ہوگا، انسانیت کی تعمیراورترقی کا نسخہ قرآن مجید ہے اس میں پوری انسانیت کے لیے ہدایت ورہنمائی ہے۔ آپؐ کا ارشادہے:
خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ ،(بخاری(
 تم بہترین انسان وہ ہے جوقرآن سیکھے اور سکھائے۔
انسان اپنے کردارسے ہی اچھا یابراسمجھا جاتاہے ۔ ایک اجتماعی زندگی، جواسلام میں پسندیدہ ہے،اس کی تعمیرکی بنیاد ہی انسان کے اعمال اور کردار پر ہے اگر انسان کا رویہ اچھا نہیں ہوگا تونہ صرف اجتماعیت کی بقا ممکن نہیں ہے بلکہ معاشرے کا ماحول خراب ہوگا۔ نت نئے مسائل پیدا ہوں گے ۔ اجتماعیت ٹوٹ پھوٹ کربکھرجائے گی اوروہ معاشرہ ہی اختلاف و انتشار کاشکار ہوکر رہ جائے گا، جس پر انسانی زندگی کا چین وسکون موقوف ہے۔
انسان کے اچھے اعمال اس کی بہترین شخصیت کے غماز ہوتے ہیں ۔ جب نیک انسان دنیاسے چلا جاتا ہے توبھی ان اچھے کارناموں کو لوگ یادکرتے ہیں اوران سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اس کے اعمال حسنہ صدقہ جاریہ بن کراس کے قلب وروح کوٹھنڈک پہنچاتے ہیں۔اس لیے وہ شخص یقینابہترمانا جائے گا جس نے عمربھی لمبی پائی اوراعمال بھی اچھے کئے۔ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ ؐ سے ایک دیہاتی نے سوال کیاکہ اے اللہ رسولؐ  ’’من خیرالناس ؟  (لوگوںمیں بہترین انسان کون ہے؟)  آپ نے ارشاد فرمایا:
 ’’من طال عمرہ وحسن عملہ‘‘(ترمذی(
جس کی عمرلمبی ہواوراس کے کام اچھے ہوں۔
انسان کا کردار بنانے ،سنواراوراسے نکھارنے کے لیے ہی نبی کریمﷺ کی بعثت ہوئی۔آپ نے اپنا مشن واضح کرتے ہوئے فرمایا:
                     انمابعثت لاتمم مکارم الاخلاق،(مسند احمد(
’’میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجاگیاہوں۔‘‘اچھے اخلاق ہی سے انسان اچھا بنتا ہے۔آپؐ نے فرمایا:ان من اخیرکم احسنکم اخلاقا۔ بخاری ( تم میں بہترین انسان وہ ہے جو تم میںاخلاق کے اعتبارسے سب سے اچھاہو۔)اخلاق انسانیت کازیورہے اس سے شخصیت میں حسن پیداہوتاہے ۔نبی کریمﷺنے فرمایا
       البرحسن الخلق  (مسلم(
نیکی حسن اخلاق ہے۔
جوشخص بااخلاق ہوگا اس سے خیرکی ہی توقع کی جاتی ہے ۔ یہ صفت جس شخص کے اندرہے وہ بہترین انسان ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں،جن کا معاشرے میں بہت نام چلتاہے اوران کی تعریفیں ہوتی ہیں لیکن وہ اپنی ذاتی زندگی میں اور اپنے گھروالوں اور اہل وعیال کے لیے بہت برے ہوتے ہیں۔ان کے حقوق ادانہیں کرتے، ان کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے اوران کی اصلاح وتربیت سے غافل رہتے ہیں ۔ ایسے لوگ حقیقت میں اچھے انسان نہیں ہیں۔اچھے انسان وہ ہیں وجواپنے گھروالوں کے لیے بھی اچھا ہو۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
 خیرکم خیرکم لاہلہ وانا خیرکم لاہلی ۔ (ترمذی)
 تم  میں بہترشخص وہ ہے جواپنے اہل وعیال کے لیے بہترہواورمیں اپنے اہل وعیال کے بہتر ہوں۔
معاشرے کو پرامن بنانے اورانسانیت کو اس کے حقوق دلانے کے لیے عدل و انصاف کا قیام ناگزیرہے۔ جو شخص جونظام حیات کودرست رکھنے کے لیے انصاف کا علمبردار ہو اور اسے فیصلہ کرنے کاموقع ملے توغیرجانب دارہوکر پوری ایمانداری کے ساتھ انصاف کرے، وہ بہترین انسان ماناجائے گا۔نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
فان خیرالناس احسنہم قضاء    (ابن ماجہ(
’’بہترین انسان وہ ہے جوفیصلہ کرنے میں اچھاہو۔‘‘
انسانوں کے کچھ ایسے افعال وکردارہوتے ہیں جودوسرے لوگوںکے دلوںپر گہرے نقوش چھوڑتے ہیں ۔ان کی خوبی ان کی پہچان بن کرلوگوںکو راغب کرتی ہے۔نبی کریم ﷺ سے دریافت کیاگیا :
ای الناس افضل؟ قال :کل مخموم القلب ،صدوق اللسان۔(ابن ماجہ(
اے اللہ کے رسول بہترین انسان کون ہے؟ تو آپؐ نے ارشادفرمایاکہ جوصاف دل اور راست گوہو۔
آپﷺ کوجوامع الکلم کا اعزازحاصل ہے ۔آپ ؐ کا یہ کمال ہے کہ آپ مختصرگفتگومیں پوری بات کہہ دیتے تھے۔مذکورہ حدیث بھی اسی طرح کی ہے۔آپ ؐنے اپنے اس مختصرقول میں ان دوجملوں میں ایک اچھے انسان کی پوری شناخت واضح کردی ہے۔ صدوق اللسان سے مراد وہ شخص ہے جوقول وعمل ،نیت وارادے ، ایفائے عہد وغیرہ کے اعتبارسے سچا ہو۔جس کا دل آئینہ کی طرح صاف ہواوراس میں گناہ یاسرکشی نہ ہو۔ایسا شخص ایک صالح معاشرے کے لیے مفید ہوتاہے اس سے استفادہ کی خاطر لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوتے ہیں اس طرح وہ لوگوںمیں محبوب ہوتاہے۔
٭٭٭

Tuesday 5 February 2013


سکون قلب- انسان کی اہم ضرورت

اسباب وآلات کی اس کائنات میں انسانوں کی مختلف ضرویات ہیں،جن کی تکمیل کے لیے انھیں نہ معلوم کتنے مصائب و آلام کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ خاص طورسے موجودہ دور میں لوگوں نے اپنی زندگی کا ایک الگ معیارمتعین کر رکھاہے۔اسبابِ تعیش کے حصول کے مقصدنے انھیں اس قدرمصروف کردیاہے کہ ان کے پاس نہ وقت ہے اورنہ سوچنے کے لیے خالی دماغ ! اگرکچھ ہے توصرف مال ودولت کا حصول ،معیارزندگی کا خیال!جس نے انسانوںکی زندگی کو بے حال اور پرملال کردیاہے۔انھیں غم ہے توصرف اس بات کا کہ وہ دوسروںکی طرح امیرکیوں نہیں ! دھن ہے تو مال بٹورنے کا، اگر کچھ ہاتھ آگیا تو  مزید کی خواہش۔گویاانسان ہر حال میں بے حال ہے ،اس کا چین وسکون کہیں کھو گیا ہے، جولاکھ تلاش وجستجوکے باوجودبھی انھیں میسر نہیں!سب کچھ پاس ہوتے ہوئے بھی خالی ہے۔آرام آشائش کی تمام چیزوں کے باوجودبھی سکون قلب کا طلب گار ہے۔
انسان یہ بھول گیاہے کہ اگردنیا دارالاسباب ہے تو اس کائنات کا خالق مسبب الاسباب ہے۔اگرانسان یہ سمجھتاہے کہ دنیا کی تمام راحتیں ان ہی روپیوںپیسوںسے خریدی جاسکتی ہے تویہ اس کی بہت بڑی بھول ہے۔کیوںکہ ان راحتوں سکون کا مالک صرف اللہ ہے جو سوکھی روٹی کھلاکرچٹائی پربھی گہری نیندکی نعمت عطاکردیتاہے،جس سے مختلف اقسام کے کھانا کھاکرنرم گداز بستروں پرسونے والے محروم ہیں۔قلبی سکون کے حصول پر آج لاکھوںروپے صرف کئے جاتے ہیں ۔مگرعلاج نہ دارد!کوئی حل نہیں ملا۔
معلوم ہواکہ اصل راحت وسکون کہیں اورہے۔اس کے لیے تلاش کو صحیح سمت دینے کی ضرورت ہے ۔وہ صحیح سمت ہے اللہ کا ذکرجس کے متعلق اللہ  تعالی کا فرمان ہے:
الا بذکراللہ تطمئنّ القلوب (سورۃ رعد:۲۸)
خبردراہو! اللہ کی یادہی وہ چیز ہے جس سے دلوںکواطمینان نصیب ہواکرتاہے۔
اللہ نے انسانوںکی ہرطرح رہ نمائی کی ہے اوران کی جوبھی ضروریات ہوسکتی ہیں وہ تمام پیداکردی ہے ۔انسانوں کی سب سے بڑی ضرورت اطمینان قلب ہے۔اس کا حصول خدا سے تعلق کے بغیرممکن نہیں ہے ۔اگرانسان اللہ سے تعلق پیدا کرتاہے تواسے کسی ضرورت کا فکرمند نہیں ہوناچاہیے۔کیوںکہ رب العالمین سے اس کا تعلق ہے جوساری ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ اس طرح انسان یکسوہوجائے گاجواطمینان قلب کی لیے نہایت ضروری ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 فاذکرنی اذکرکم (البقرۃ:۱۵۲)’’تم مجھے یادکروںمیں تمہیں یادکروںگا۔‘‘
قرآن کی اس آیت میں اوران جیسی آیات میں جہاں ’ذکر‘کا لفظ آیاہے اس سے مراد ہے : ہروہ کام جسے اللہ نے انسانوں کے لیے ضروری قراردیاہے ، جس سے اللہ کاقرب حاصل ہو۔ ذکرزبان سے ہو جیسے اللہ تعالی کی تسبیح و تحمید اوراس کی عظمت کو بیان کرنا،یادل سے ہو،جیسے کائنات کی پھیلی ہوئی چیزوںمیں اللہ تعالی کی ذات اورصفات کے دلائل تلاش کرنا، یا پھراعضاء و جوارح سے ہو۔ جیسے اللہ کی اطاعت کرنامثلاخودکو نماز، روزہ ،حج اورزکوۃ وغیرہ عبادات کا پابند بنانا ۔
 انسان اگراللہ تعالی سے لولگائے ۔اس کی اطاعت کرے۔اس کواپنا حاجت رواں مشکل کشاسمجھے اورہرپل خداکویاد کرے،توپھر اللہ تعالیٰ اس کے مشکلات حل کرے گا اور ہرطرح سے اس کی مددفرمائے گا۔ اس طرح اللہ تعالی کی یادسے انسان مشکل حالات میں بھی قلبی سکون پاسکتاہے جو اس کے لیے بڑی کام یابی ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اذکراللہ کثیراً لعلکم تفلحون(جمعہ :۱۰)
اللہ کوکثرت سے یادکروتاکہ تم فلاح پاؤ۔
محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دلوںکوبھی زنگ لگتا ہے اوراسے بھی زنگ ایسے ہی کھاجاتا ہے جیسے لوہے کوزنگ کھاتا ہے۔دل کو بھی ایسی ہی پیاس لگتی ہے جیسے کھیتی کو پیاس لگتی ہے، وہ بھی ایسے ہی خشک ہوجاتا ہے جیسے کھیتی خشک ہوجاتی ہے۔لہذا قلب کو بھی ان چیزوںکی ضرورت ہوتی ہے جواس کے زنگ کودورکردے اوراس کی پیاس بجھائے۔علامہ ابن قیم ؒکا بیان ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے شیخ الاسلام علامہ ابن تیمہؒ سے سنا،وہ فرماتے تھے:اللہ کا ذکر دل کے لیے ایسے ہی ہے ،جیسے مچھلی کے لیے پانی،تواس مچھلی کا کیاحال ہوگا جوپانی سے جداہوجائے۔
معلوم ہوا کہ اللہ تعالی سے بندوںکا تعلق بہت گہرا ہونا چاہیے جس کا واسطہ ذکرہے ۔ اس لحاظ سے انسان کی سب سے بڑی ضرورت اللہ کا ذکرہے جو دلوں کوزندگی بخشتاہے اوراسے چین وسکون فراہم کرتاہے۔اس لیے لازما ہمہ وقت اللہ ذکرکرنا چاہیے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللَّہَ ذِکْراً کَثِیْراً oوَسَبِّحُوہُ بُکْرَۃً وَأَصِیْلاً
اے لوگوجوایمان لائے ہواللہ کوکثرت سے یادکرواورصبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہو۔)سورۃ احزاب:۴۲)
اس کائنات میں انسان ہرطرح اپنے دشمنوںسے گھراہواہے ،نفس امارہ اسے برائیوں پرآمادہ کرتاہے ،نفسانی خواہشات اورشیطان اسے ہلاکت کی اورلے جاتاہے ۔ایسے میںایک ایسے محافظ کی ضرورت ہوتی ہے جو انسان کو ان کے تمام دشمنوں سے محفوظ رکھے۔اس کے خوف سے دل پرسکون اورمطمئن رہے ۔اس کا یہ محافظ اللہ کا ذکراور اس کی کثرت ہے ۔
 وَالذَّاکِرِیْنَ اللَّہَ کَثِیْراً وَالذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّہُ لَہُم مَّغْفِرَۃً وَأَجْراً عَظِیْماً
کثرت سے ذکر(اللہ کویاد)کرنے والے مرداورکثرت ذکر کرنے والی عورتیں اللہ نے ان کی مغفرت اوران کے لیے اجرعظیم تیارکررکھاہے۔                (احزاب35)
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
مامن قوم یذکرون اللہ الا حفت بہم الملائکۃ، وغشیتہم الرحمۃ،ونزلت علیہم السکینۃ، وذکرہم اللہ فیمن عندہ۔
جو کوئی  جماعت اللہ کا ذکر کرتی ہے توفرشتے انھیں گھیر  لیتے، ان پر  رحمت سایہ فگن ہوجاتی ہے اور  ان پر سکینت (اطمینان قلب ) نازل ہوتی ہے، پھراللہ تعالی اپنی مجلس (فرشتوں)میں ان کا ذکر کرتاہے۔‘‘(مسلم ،ترمذی(
        ذکرالٰہی  دل کی زندگی ہے،شرح صدرکا طریقہ ہے،جس سے مصیبتیں ختم ہوتی ہیں اور غم دورہوتاہے۔ انسان کا دشمن شیطان دوربھاگ جاتاہے۔اللہ تعالی کو کثرت سے یادکرنا اس کے ربط وتعلق میں اضافہ کرتاہے ۔ذکرکے بغیرانسان کا دل مردہ ہو جاتا ہے ۔
مثل الذی یذکرربہ والذی لایذکرربہ مثل الحی والمیت
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اس کی مثال جواپنے رب کویادکرے اورجونہ یاد کرے زندے اورمردے کی طرح ہے۔  )متفق علیہ(
 ایک عام قائدہ ہے کہ انسان ان ہی چیزوںکویادرکھتا ہے جس کی اس کے نزیک اہمیت ہوتی ہے،ایسے میں اللہ سے زیادہ اہم بندوں کے نزدیک اورکون ہوسکتاہے ۔اس لیے انسان کو اس کا ذکرلامحالہ کرناچاہیے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
ولذکراللہ اکبر(عنکبوت :۴۵)
اللہ کا ذکرہرچیز سے بڑا ہے۔
اس طرح خداکا ذکراس کی عظمت کودل میں جاںگزیں کرتاہے جس سے انسان برے کاموںسے بچ جاتاہے ۔یہی برے اعمال انسانوں کے دلوں کو ملامت کرتارہتاہے جواس کی پریشانی اورتشویش کا باعث بنتاہے۔ اس لیے کامیابی اورسکون پانے کے لیے اللہ کا ذکر بہت ضروری ہے ۔ اس کی اہمیت کے پیش نظراللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
الا انبئکم بخیراعمالکم، وازکاہا عندملیککم، وارفعہا فی درجاتکم، وخیرلکم من انفاق الذہب والورق،  وخیرلکم من ان تلقواعدوکم فتضربوا اعناقہم ویضربوااعناقکم؟  قالوا: بلی،  قال: ذکراللہ                                                       (ترمذی ،ابن ماجہ(
’’کیامیں تمہیں وہ عم نہ بتاؤں جوتمہارے مالک (یعنی اللہ)کے نزدیک اچھا اورپاکیزہ ہے اورتمہارے درجات میں سب سے بلند اوراللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے تمہارے کفارکی گردنیں مارنے اوران کے تمہاری گردنیں مارنے سے بھی افضل ہیں۔صحابہ کرام ؓ نے عرض کیاکیوںنہیں ،اے اللہ کے رسولؐ آپ نے فرمایا:یہ اللہ کا ذکرہے۔‘‘
عربی کا مقولہ ہے’’ الانسان عبدالاحسان انسان احسان کا غلام ہوتاہے ۔اس لیے کوئی شخص اگرکسی کی مدد کرتا ہے تووہ اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ ہمہ وقت اسے یاد کرتاہے ،اس کے احسان کونہیں بھولتا۔ جب کہ اللہ تعالی کے اتنے احسانات ہے انسان اس کوشمارنہیں کرسکتاہے۔ مگراس کے باجودانسان اپنے مال واسباب اوراولادکی وجہ سے دنیاوی معاملات میں اس قدر منہمک ہوجاتاہے کہ وہ اپنے خداکوہی بھول جاتا ہے جن کے احسانات کے سہارے وہ جی رہا ہوتاہے اورتمام بھروسہ ان مادی اسباب پر کربیٹھتا ہے۔خودکوبڑاسمجھنے لگتا ہے ،جس کے نتیجے میں تکبرکا شکارہوجاتاہے ۔ یہی تکبرغضب الہی بن کراس کے زوال کا ذریعہ بن جاتاہے اور انسان خدا کی رحمتوںسے کوسودورہوجاتا ہے جواس کے دل کے بے چینی کا سبب بن جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے تنبیہ فرمائی :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَا تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلَا أَوْلَادُکُمْ عَن ذِکْرِ اللَّہِ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ(منافقون:۹)
 اے لوگو!جوایمان لائے ہو،تمہارے مال اورتمہاری اولادیں تم کواللہ کی یادسے غافل نہ کردیں۔جو لوگ ایسا کریں و ہی خسارے میں رہنے والے ہیں۔
دوسری جگہ ارشادہے:’’اورجومیرے ’’ذکر‘‘(درس نصیحت)سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیامیں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھااٹھائیں گے ۔(طہ:۱۲۴)
مولانا مودودیؒ اس کی تفسیرمیں لکھتے ہیں :
 ’’دنیامیں تنگ زندگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے تنگ دستی لاحق ہوگی ۔بلکہ اس کا مطلب ہے کہ یہاں اسے چین نصیب نہ ہوگا۔کروڑپتی بھی ہوگاتوبے چین رہے گا۔ہفت اقلیم کا فرماںرواںبھی ہوگا توبے کلی اوربے اطمینانی سےنجات نہ پائے گا۔اس کی دنیوی کامیابیاں ہزاروں قسم کی ناجائزتدابیرکا نتیجہ ہوںگی،جن کی وجہ سے اپنے ضمیرسے لےکرگردوپیش کے پورے اجتماعی ماحول تک ہرچیزکے ساتھ اس کی پیہم کشمکش جاری رہے گی جواسے کبھی امن واطمینان اورسچی مسرت سے بہرہ مند نہ ہونے دے گی۔) ‘‘ترجمہ قرآن مع مختصرحواشی صفحہ:۸۱۹)
حدیث قدسی ہے رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اللہ کہتاہے کہ میں بندہ کے گمان کے قریب ہوتاہوںجووہ مجھ سے کرتاہے۔ جب وہ مجھے یاد کرتاہے ،میں اس کے پاس ہوتا ہوں،جب وہ مجھے اپنے جی میں یادکرتاہے تومیں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہو، اگروہ لوگوںمیں میرا ذکر کرتا ہے تومیں بھی اسے بہترین جماعت میں یادکرتاہوں۔‘‘   (بخاری (
صحابہ کرام اورسلف صالحین کا طریقہ بھی یہی رہا کہ وہ سکون قلب کی ضرورت کے پیش نظرذکرالٰہی کوبڑی اہمیت دیتے تھے۔دیگرضروریات ان کے نزدیک ثانوری درجہ رکھتی تھی ،یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت علی ؓاورفاطمہ ؓ کی درخواست کہ انھیں خادم کی ضرورت ہے فرمایا:
 کیامیں تمہیں ایسی چیز کی رہنمائی نہ کردوجوتمہارے لیے خادم سے بہترہو؟جب تم اپنے بستر پر (سونے کے لیے )آؤ،تو 33 دفعہ سبحان اللہ 33 دفعہ الحمدللہ اور34 دفعہ اللہ اکبرپڑھ لیاکرو۔یہ تمہارے لیے خادم سے بہترہے۔(بخاری) حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ ان کا یہ عمل برابرجاری رہا۔
حضرب عبداللہ بن عباس ؓ نے فرمایاکہ:
الشیطان جاثم علی قلب ابن آدم ،فاذا سہا وغفل وسوس،فاذاذکراللہ خنس۔
’’شیطان اولاد آدم کے قلب پر سوار رہتاہے، جب وہ نسیان یا غفلت کا شکارہوتاہے تو شیطان اسے وسوسے میں ڈالتاہے، وہ جب اللہ کو یاد کرتاہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتاہے۔‘‘( اثر(
حضرت حسن بصری ؒکہتے ہیں:
لا تفقدوا الحلاوۃ فی ثلاثۃ اشیاء ،فی الصلوۃ ،فی الذکر،فی قرآۃ القرآن ،فان وجدتم ،والا فاعلموا ان الباب مغلق ۔
تین چیزوںکی چاشنی فراموش نہ کرنا۔نماز ،ذکراورتلاوت قرآن کی حلاوت اگرتمہیں میسرہو،ورنہ یادرکھوکہ دروازہ بند ہے۔
آج انسان جس قدرپریشان حال ہے اوراس کا ہرجگہ تذکرہ کرتاپھرتاہے ،کیا اس نے کبھی خداکے سامنے اپنی فریاد رکھی؟کبھی اس نے خداکے اس فرمان )صبراورنماز سے مددطلب کرو-قرآن)کوپیش نظررکھا ؟ جوخداکا ذکراور اس سے تعلق پیداکرنے کا ذریعہ ہے ،پھریہ دنیا کی چیزیں جس کی حیثیت اللہ کے سامنے مکھی کے پرکے برابرنہیں انسان کو قلبی سکون کیسے فراہم کر سکتا ہے!اللہ کے ذکرسے غفلت کی صورت میں شیطان اس پر سوار رہتا ہے جوطرح طرح کے وسوسوںسے اس کے دل کوپریشان رکھتاہے، تو اسے اطمینان قلب کیسے حاصل ہوسکتاہے؟اس لیے قلبی سکون کے حصول کے لیے اللہ کا ذکراس سے تعلق بہرحال ضروری ہے جوانسان کی اہم ضرورت ہے۔     ٭٭

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...