Tuesday 26 March 2013

Ulfat ke Khat-o-khal ko woh jaante hain Khub


غزل       محب اللہ رفیقؔ

الفت کے خط و خال کو وہ جانتے ہیں خوب
میری وفا شعاریوں کو مانتے ہیں خوب

دل کو شکستہ کرتے ہیں لیکن ہے یہ بھی سچ
پتھر نہیں ہے دل یہ مرا جانتے ہیں خوب

واضح ہیں ہم پہ دانش و بینش کے سب رموز
دانش کدے کے لوگوں کو پہچانتے ہیں خوب

نیت میں صدق ہے تو چلے آئیے یہاں 
ورنہ ہم ایسے ویسوں کو پہچانتے ہیں خوب

نقشہ ہی اس نگر کا نرالا ہے اے رفیقؔ
احباب بے رخی کی کماں تانتے ہیں خوب





Saturday 23 March 2013


انسان کا فلسفہ ٔحیات

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں آدم اوراس کی اولادکوپیداکیا اوراسے اپنا نائب وخلیفہ بناکر ایک عارضی زندگی عطاکی اوراس دارفانی میں بھیج دیا ۔ بعدازاں اس کی بقاتحفظ کے لیے وہ تمام چیزیں محدودوقت کے لیے بلاعوض اسے عطا کر دی۔ جس کا نظم ونسق کرنا اس کے قبضۂ قدرت سے باہرتھا۔جب مالک ارض وسمانے انسان کو یہ تمام سہولیات فراہم کردیں، تب اسے اپنا یہ پیغام سنایا:
وماخلقت الجن والانس الالیعبدون (سورۃ الذاریات:56)
میں نے انسان وجن کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیداکیاہے ۔
یعنی اس کا مقصد ِاصلی اظہار ِعبدیت ہے۔ یعنی خودکومالک حقیقی کا غلام بنا دینا ۔ لہٰذااس کا جوبھی حکم ہے اس کی بجاآوری ضروری ہے ۔خواہ بخوشی ہو یا بادل ناخواستہ۔
اگرانسان ایک لمحہ کے لیے غورکرے تواس سے معلوم ہوگاکہ وہ اپنی مرضی سے پیدانہیں ہوا،ورنہ وہ اس دارالامتحان آنے سے انکارکردیتااس لیے کہ وہ سمجھ جاتاکہ ابتلاوآزمائش کی ان خار دار وادیوں سے دامن بچاکر نکل جانا اور خواہشات ومرضیات کی مسلح فوج سے ٹکر اکر اپنی کامیابی و کامرانی کا جھنڈا لہرا دینا نہایت ہی مشکل ہے۔کیوںکہ پیدائش کے بعد اگرچہ متعینہ مدت تک والدین نے پرورش کی ذمہ داری نبھائی۔مگراس کے بعد خوداپنی اورآئندہ آنے والی نسل کی کفالت کابار اسے ہی اٹھانا پڑے گا ۔ چونکہ اللہ نے انسانوں کے مابین ایک قرابت اور رشتہ جوڑ رکھا ہے اورقدم قدم پر انھیں ایک دوسرے کا محتاج بنا دیاہے۔ایسے میں ان کے غروروتکبرکاکوئی جوازباقی نہیں رہ جاتا۔ کیوں کہ محتاج اور ضرورت مند متکبرنہیں ہوسکتا۔
اب انسان کے سامنے دوراستے ہیں،ایک تویہ کہ وہ اپنے مالک حقیقی کا صحیح انتخاب کرکے اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں لگ جائے ،یااپنی مرضیات کوخدابناکراللہ تمام احکام کو بالائے طاق رکھ دے اور من مانی زندگی گزارے۔ ان دونوںباتوںمیں کسی ایک کو اپنانے کا  اللہ تعالیٰ نے اس کو اختیاردیاہے۔ارشاد الٰہی ہے:
فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر                   (سورۃ کہف:29)
جوشخص چاہیے ایمان لائے اورجوچاہیے کفرکرے (ہرشخص کو اس کابدلہ ملے گا(
اس لیے انسان کو مجبور محض قرارنہیں دیاجاسکتا کیوںکہ اسی اختیارپراس کا حساب وکتاب ہوگا پھرسزاوجزاکا اعلان ہوگا۔ بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں پرانسانی قوت جواب دے دیتی ہے یاکوئی کام اس کی قدرت سے باہر ہوتا ہے تو ایسے مرحلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی گرفت نہیں ہوتی۔ خواہ اس کی حرام کردہ اشیاء ہی کیوںنہ ہوں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فمن اضطرغیرباغ ولا عاد فلااثم علیہ(البقرۃ: 173)
جوشخص پریشان اضطراری کیفیت میں مبتلاہو ،حدسے تجاوز نہ کررہاہوتواس پر (حرام کردہ اشیاء کے استعمال میں)کوئی گناہ نہیں ہے۔
اسی طرح اگراللہ تعالیٰ چاہتاتوانبیاء ورسل کودنیامیں نہ بھیجتا بلکہ اپنی کتاب پہاڑیاکسی پاک جگہ نازل کردیتا یافرشتہ بھیج کررہنمائی کرتا،مگراس نے ایسا نہیں کیاکیوںکہ ایسی صورت میں بندہ یاتوعملی طور پر مجبورِ محض بن جاتایاپھرفرشتے اوربندے کے درمیان مماثلت نہ ہونے کے سبب احکام ِ الٰہی  پر عمل کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہوتا۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے ابنیاء ورسل کا انتخاب  کیا،جوآدم کی نسل سے تھے۔انھوںنے لوگوں کے مابین آکرعملی طورپر ان احکام کی تفصیل واضح اندازمیں پیش کردی ان کی آخری کڑی محمدعربی ﷺ ہیں اورآخری کتاب قرآن کریم ہے ،جوایک مکمل نظام ِ حیات ہے۔اسی قرآن اور حدیث (آپؐ کی قولی وعملی زندگی) میں قیامت تک کے لیے تمام مسائل کا حل پیش کردیاگیاہے۔
ایسے مقام پر پہنچ کر بندے کے لیے کسی قسم کی معـذرت کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔ اس لیے بندہ اپنے ذہن ودماغ جس کے سبب وہ دنیا کو اپنی مٹھی میں کرلیناچاہتاہے اور چاند پر کمندے ڈالنے کے لیے کوشاں ہے،پرزوردے کرراہ ِ ہدایت کا انتخاب کرے اورعبدیت کے فلسفہ کوسمجھ کرغروراورتکبرکا دامن چھوڑدے۔اس لیے کہ تکبرخداکی چادر اورمالک ِ دوجہاں کی صفت ہے۔جب کہ بندے کی صفت اطاعت ہے جس کے سبب وہ سرخروئی حاصل کرسکتاہے ورنہ وہ بندہ نہیں رہے گابلکہ نافرمان ابلیس کی طرح ہوجائے گا جس کی سزاجہنم ہے۔
یہی وہ فلسفہ ٔ حیات ہے جس کوصحابہ کرامؓ نے سمجھا اورانھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحبت اختیارکی اوراپنی زندگی اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت میں گزاری۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ انسانوںکی بہترین جماعت بن گئے۔ ان کے لیے تمام مشکلات کا سامناکرنا اورجلاوطنی کی زندگی بسرکرنا آسان ہوگیا۔اس پر اللہ نے انھیں دونوں جہاںمیں فلاح وکامرانی عطا کی اور انھیں رضی اللہ عنہم ورضواعنہ کے اعزازسے نوازاگیا۔
واقعہ یہ الگ بات ہے کہ انسان کے لیے اس راہ ِ ہدایت سے گزرنامشکل ہے۔ کیوںکہ یہ دشوار گزارراستہ ہے جس میں انسانی مسائل نشیب وفرازکی طرح ہوتے ہیں ،اس سے تسلیم وواطاعت کے ساتھ گزرجانادشوارترین ہے۔نبیؐ نے فرمایا:’’الدنیا سجن المؤمن یعنی دنیا مؤمن کے لیے قیدخانہ ہے ۔ ا س کے برعکس من چاہی زندگی بظاہر نہایت ہی خوشگوار اور آسان معلوم ہوتی ہے۔ یہ عارضی اورپرلطف توہوتی ہے مگراس کا انجام دائمی سزا و عتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :(انااعتدنا جہنم للکافرین نزلا) ہم نے کافروں (نافرمانوں)کے لیے دردناک عذاب تیارکررکھا ہے۔
اب فیصلہ انسان کے ہاتھ ہے کہ وہ اپنی تخلیق کے فلسفے کو سمجھے اورراہ ہدایت کا انتخاب کرتے ہوئے اپنے بے نیازخالق ِ حقیقی کے سامنے سرتسلیم خم کرے، ایسا کرنے پر اس کو فرشتوں سے اعلیٰ مقام عطاکیاجائے گا۔     ٭٭

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...