Saturday 20 April 2013


ایثار- پرامن معاشرے کی اہم ضرورت

آج دنیا کے ماحول پرمادیت کا غلبہ ہے۔  خواہش نفس کی پیروی نے نیکی اوربدی کی پہچان کو بھی بدل دیاہے۔ خودغرضی نے انسانیت کی قدریں مٹادی ہیں۔معیار زندگی بلندکرنے کی ہوس نے لوگوں کوبدعنوانی کے جال میں پھنسا رکھاہے۔ انس و محبت کے خمیرسے پیدا کیا گیا انسان درندہ صفت حیوان بن گیاہے ۔ وہ ایک دوسرے کے خون سے اپنی پیاس بجھانے کے لیے بے قرارہے۔ امیرغریبوں،بے بسوںاورلاچاروں کے خون پسینے کا کار وبار کرنے لگا ہے اوراسی سے اپنی زندگی کی عالیشان عمارت کھڑی کرتاہے۔
خودغرضی نے پوری انسانیت میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیداکردی ہے۔ اس خطرناک مرض کایہ حال ہے کہ اسے کوساجاتاہے مگراس کے علاج کی فکر نہیں ہوتی ۔لیکن اس بیماری کا ایک یقینی علاج موجودہے جس نے ساڑھے چودہ سوسال قبل ایسے ہی پراگندہ ماحول کو خوشگوار فضامیں تبدیل کردیاتھا۔یعنی اسلام!  اس فضا کی عکاسی کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے  ؎
ہو خلق حسن یا کہ ہو ایثار وفا پیار
ہر چیز یہاں پر بہ صد انداز جلی ہے

اسلام نے انسانوں کو بتایا کہ مخلوق اپنے خالق کا کنبہ ہے (الخلق عیال اللہ) ۔  اسلام کی دعوت کا بنیادی سبق ایثار ہے۔

ایثارکی تعریف
انسان کا ا پنی ضرورت پر دوسروںکی ضروریات کو ترجیح دینا۔ مثلاً بھوک کی شدت کے باوجودکسی بھوکے شخص کو اپنا کھاناکھلانا۔ یہ ایثارہے۔
قرآن کریم میں اہل ایمان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہاگیاہے :
اور اپنی ذات پر دْوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (الحشر:9)
اس آیت کی شان نزول کے ذیل میں ایک واقعہ کتب حدیث میں مذکور ہے، جوبڑا مؤثر اورسبق آموز ہے۔ اس سے ایثارکی اہمیت کا اندازہ بہ خوبی لگایاجاسکتاہے:
ایک بار ایک فاقہ زدہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں حاضر ہوا، سوئے اتفاق سے اس وقت آپ ﷺ کے گھرمیں پانی کے سواکچھ نہ تھا، اس لیے آپؐ نے مجلس میں موجود صحابہ کرام کو مخاطب کرکے فرمایا:آج کی شب کون اس مہمان کا حق ضیافت ادا کرے گا؟ ‘‘ ایک انصاری صحابی جن کا نام ابوطلحہ ؓ تھا انھوں نے کہا ‘‘میں یا رسول اللہ ﷺچنانچہ وہ اس کو ساتھ لے کر اپنے گھر آئے، بیوی سے پوچھا کھانے کوکچھ ہے؟ بولیں صرف بچوں کا کھاناہےبولے بچوں کوتوکسی طرح بہلادو، جب میں مہمان کو گھرلے آؤں تو چراغ بجھادو اور میں اس پر ظاہر کروں گا کہ ہم بھی ساتھ کھارہے ہیں ، چنانچہ انھوں نے ایساہی کیا، صبح کو آپﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’رات میں تمہارے عمل سے اللہ تعالی بہت خوش ہوا ۔
 (بخاری ومسلم)
دوسروں کے دکھ دردکواپنا دکھ دردسمجھنا اور اپنی تکلیف کوبھول کردوسروں کی پریشانی دورکرنے کے لیے بے قرارہوجانا ہی ایثارہے، اس جذبہ کو ابھارنے کے لیے نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:
لایومن احدکم حتی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ                                            (متفق علیہ)
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن (کامل) نہیں ہوسکتا جب تک وہ دوسروں کے لیے بھی وہی چیز نہ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔(متفق علیہ)
سیرت نبوی ؐ کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی ایثاروقربانی سے عبارت تھی۔ رحمت عالم ﷺپوری انسانیت کے لیے ہمہ وقت بے قراررہتے تھے۔ان کی نجات کی فکر آپ ؐکو بے قراررکھتی تھی قرآن کہتاہے :
’’اچھا ، تو اے نبیؐ! شاید آپؐ ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہیں اگر یہ اس تعلیم (قرآن) پر ایمان نہ لائیں۔(کہف:6)‘‘
آپؐ اصحاب کی ضروریات کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ بیت المال میں کچھ آتاتو آپ تقسیم کردیتے تھے ،اگرکچھ نہ ہوتاپھربھی سائل کوواپس نہیں کرتے آپ فرماتے،جوکوئی اس کی مددکرے گا میں اس کا قرض داررہوںگا۔ایک موقع پر آپ ﷺ نے یہ اعلان فرمایا:
انا  اولی  بکل مؤمن من نفسہ،  من ترک مالا فلاہلہ،  ومن ترک دینا او ضیا عا  فالی وعلی۔ (مسلم)
جوکوئی مال واسباب چھوڑکر مرے گاوہ اس کے وارث کا حق ہوگا مگرجوکوئی قرض چھوڑکرمرے گا اسے میں اداکروں گا ۔
یہاں ٹھہرکر غورکرنے کی ضرورت ہے۔ آج دنیا میں ایسے کتنے ہی مقروض ہیں جو قرض سے پریشان ہیں۔ ان کے پاس اتناپیسہ نہیں ہوتا کہ اپناقرض اداکرسکیں ، ساتھ ہی دنیا میں ایسے بے شمارمال دارلوگ ہیں جواگرتھوڑی توجہ دیں توایسے لوگوںکا مسئلہ حل ہوجائے۔یاکوئی بیت المال کا مؤثرنظم ہے تواس قرض کی ادائیگی ہوجائے۔نبی کریم ؐکے بارے میں روایات میں آتاہے کہ اکثر فاقہ کشی میںکی نوبت آجاتی اور ایسا نہیں ہوتاکہ آپ نے تین روزتک مسلسل آسودہ ہوکرکھاناکھایاہو۔
حضرت عائشہ  ؓ فرماتی ہیں:
 ما شبع رسول اللہ ﷺ ثلاثۃ ایام متوالیۃ حتی فارق الدنیا، ولو شئنا لشبعنا، ولکنا کنا نؤثر علی انفسنا.
(بیہقی شعب الایمان)
نبی کریم ﷺتادم حیات کبھی مسلسل تین روز پیٹ بھرکرکھانانہیں کھایا،اگرہم چاہتے توخوب شکم سیر ہوسکتے تھے، لیکن ہم اپنے اوپر دوسروںکو ترجیح دیتے تھے۔
متعددروایات میں ہے کہ کوئی شخص آپ سے اپنی ضرورت کی کوئی چیز مانگ لیتا  تو اسے خود پر  ترجیح دیتے ہوئے وہ چیزاسے عنایت فرمادیتے تھے:
’’حضرت سہل بن سعد ؓ فرماتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک بنی ہوئی چادرلے کر آ:ی اور کہنے لگی ، اے اللہ کے رسول ؐمیں نے اسے اپنے ہاتھ سے بناہے تاکہ آپ کو پہناؤں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے قبول فرمالیا، پھرآپؐ اسے تہ بند کے طورپر باندھ کرہمارے درمیان تشریف لائے توایک صحابیؓ نے کہا: یہ آپؐ مجھے پہنادیں کس قدرخوبصورت ہے یہ چادر! آپؐ نے فرمایا: اچھا۔پھرنبی کریم ؐ مجلس میں بیٹھ گئے ،پھرواپس گئے اورا س چادرکواتارکرلپیٹا اور اس کو اس آدمی کے پاس بھیج دیا۔ پس لوگوںنے اس سے کہا:نبی ؐ نے چادراپنی ضرورت سمجھ کر پہنی تھی ،لیکن تم نے اسے  آپﷺ  سے یہ مانگ لیا اورتمھیں یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کسی سائل کوواپس نہیں کرتے۔ اس نے کہا ، اللہ کی قسم! میں نے یہ پہننے کے لیے نہیں مانگی ،میں نے تویہ اس لیے مانگی ہے تاکہ (آپ ؐ کے جسم مبارک سے لگی ہوئی بابرکت چادر)میرا کفن بن جائے۔راوی فرماتے ہیں کہ یہ چادر اس کے کفن کے ہی کام آئی۔‘‘ (بخاری)

ایثار اوراسوۂ صحابہؓ
 اثیارکے جذبہ کو  ہم صحابہ کرام ؓ کی زندگی میں بھی بدرجہ اتم دیکھ سکتے ہیں،  انھوں نے اسے اپنی زندگی کا وصف لازم قراردیاتھا ۔  حضرت ابوطلحہ کی مثال اوپر گزری۔  ایک دوسراواقعہ ،  جوبہت مؤثر اورسبق آموزہے ، بیشتر کتابوں میں اسے ایثارکے باب میں درج کیا گیاہے۔ یہ نادرمثال ہمیشہ انسان کے اندرایثار کی روح پھونکتی رہے گی۔
جنگ یرموک  میں حضرت عکرمہ ؓ ،حضرت حارث بن ہشام ؓ ،حضرت سہیل بن عمروؓزخم کھا کر زمین پر گرے اور اس حالت میں حضرت عکرمہ ؓ نے پانی مانگا،پانی آیاتودیکھا کہ حضرت سہیل ؓ پانی کی طرف دیکھ رہے ہیں ،بولے‘‘پہلے ان کو پلاآؤ حضرت سہیل ؓ کے پاس پانی آیا تو انھوں نے دیکھا کہ حضرت حارث ؓ کی نگاہ بھی پانی کی طرف ہے ،بولے‘‘ان کو پلاؤ نتیجہ یہ ہوا کہ کسی کے منہ میں پانی کا ایک قطرہ نہ گیا اورسب نے تشنہ کامی کی حالت میں جان دی۔
(اسوہ صحابہؓ ج:اول،ص:۱۵۶)
اگرکوئی ہم سے ہماری محبوب چیز مانگ لے توکیا ہم دے سکتے ہیں؟بسااوقات ایک چیز کئی لوگوںکوپسند ہوتی ہے ، جسے حاصل کرنا اپنا مقصدبنا لیتے ہیں ، کبھی کبھی وہ چیزاناکا مسئلہ بن جاتی ہے اور قتل وخوںریزی تک نوبت آجاتی ہے۔یہاں انسان کے ایثارکاامتحان ہوتاہے۔ صحابہ کے ایثار کی ایک نمایاں مثال یہ بھی ہے کہ حجرۂ عائشہ ؓ میں اللہ کے رسول ؐ اورحضرت ابوبکرؓ کی تدفین کے بعد صرف ایک قبرکی جگہ بچی تھی۔ حضرت عائشہ ؓ  نے اسے اپنے لیے خاص کررکھاتھا، لیکن جب حضرت عمرؓ نے ان سے وہ جگہ مانگ لی، تو انھوں نے ایثار سے کام لیتے ہوئے وہ جگہ ان کی تدفین کے لیے اسے دے دی ۔حضرت عائشہ ؓ خود بیان فرماتی ہیں:
کنت اریدہ لنفسی ولأوثرن بہ الیوم علی نفسی۔(بخاری)
میں نے خوداپنے لیے اس کو محفوظ رکھاتھا ،لیکن آج اپنے اوپرآپ کو ترجیح دیتی ہوں۔
حضرت عائشہ ؓ کا ایک اورسبق آموزواقعہ جوکی خواتین کے لیے بے حد موثرہے نقل کیاجاتاہے:
ایک مسکین نے حضرت عائشہ ؓ سے کوئی چیز مانگی جب کہ آپ ؓ روزے سے تھیں اورسوائے روٹی کے گھر میں کچھ نہ تھا، آپ نے خادمہ سے کہا کہ یہ روٹی اسی کو دے دو۔خادمہ نے کہا کہ اس کے علاوہ گھر میں کچھ نہیں ہے آپ افطار کریں گی؟پھربھی آپ نے یہی فرمایاکہ یہ اسے ہی دے دو۔چنانچہ خادمہ نے اس کو یہ روٹی دے دی۔شام کے وقت ان کے پاس ایک بکری کاپکاہواسالن ہدیہ کے طور پرآیا ۔ توعائشہ ؓ نے اس سے فرمایا کہ اس سے کھاؤ یہ اس ٹکڑے سے بہتر ہے۔    (بیہقی شعب الایمان ،فصل :ایثار)

 ایثار اسلامی معاشرے کی خصوصیت
جذبہ ایثار اسلامی معاشرے کی ممتاز خصوصیت تھی ۔صحابہ کرامؓ نے ہمیشہ دوسروںکے دکھ درد اورضروریات کومحسوس کرتے ہوئے ،انھیں خود پر ترجیح دی ۔اس بنا پر قرآن نے انھیں رحماء بینہم کا اعزازبخشاہے۔ چندواقعات درج ذیل ہیں:
(الف)   ایک مرتبہ حضرت عمربن الخطاب ؓنے ایک شخص کا واقعہ بیان کیا:
ایک شخص نے ایک بکری کا سرہدیہ کے طور پر کسی کے گھربھجوایا۔جس کو دیا گیا اس نے کہا کہ اسے میرے فلاں بھائی کو دے دو کہ وہ مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہے ، جس شخص کے پاس اسے بھجوایاگیا۔ اس نے اسے دوسرے کے گھربھجوادیا۔ اس طرح وہ مسلسل سات گھروں سے منتقل ہوتا ہوا دوبارہ اس پہلے شخص کے پاس پہنچ گیا۔
                                                                (بیہقی شعب الایمان ،فصل:ایثار)
(ب)   ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے چارسو دینار  سے بھرہوئی تھیلی، اپنے غلام کو دیتے ہوئے فرمایا کہ اسے حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح ؓ کے پاس لے جاؤ، پھر وہیں  کچھ دیر رکے رہوتاکہ تم دیکھ سکو کہ وہ کیا کرتے ہیں؟  حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح ؓنے پہلے تودعادی پھر تھیلی لی اور  اپنی باندی کو بلاکرکہا کہ اس تھیلی سے سات دینا رفلاں کو دے آ،  پانچ فلاں کو،حتی کہ سارامال تقسیم کردیا ،  اپنے لیے کچھ نہ رکھا۔ اسی مقدار کے دینار  حضرت عمرؓ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو بھی روانہ کیے۔ انھوں نے بھی ویسا ہی کیا  جیسا  کہ حضرت ابوعبیدہ ؓنے کیا تھا۔  حضرت معاذ ؓ  کی بیوی نے ان سے کہا  کہ بخدا ہم بھی مسکین ہیں۔  کچھ تو روک لیجئے، اس وقت تھیلی میں صرف دودیناربچے تھے سو ان کو دے دیے۔ غلام نے حکم کے مطابق آکر واقعہ کی تفصیلی خبردی تو حضرت عمرؓ اس سے بے انتہا خوش ہوئے ۔‘‘
(ج)   انسان کسی کو کوئی قرض دیتا ہے توپھر وہ اس کا حق ہے کہ وہ ایک وقت متعینہ پر اسے وصول کرلے ، اگر مقروض مجبوری یاتنگ دستی کی وجہ سے ادانہیں کرپارہاہے تو اسے مہلت دی جانی چاہیے ۔ بہر صورت قرض ایک حق ہے، جسے دینے والا وصول کرسکتاہے ۔اگر معاف کردے تو یہ ایثار کی ایک بڑی مثال ہوگی۔ایسا ہی ایک واقعہ حضرت قیس بن سعدبن عبادۃ کا ہے،جو فیاضی میں کافی مشہور تھے:
جب آپ ؓ بیمار ہوئے تو لوگوںکی ایک بڑی جماعت آپ کی عیادت کو نہیں آئی ، وجہ معلوم کی گئی توپتہ چلاکہ وہ آپ سے لیے گئے قرض کی ادائی نہ ہونے کے باعث شرمندگی کے سبب نہ آسکے ۔توحضرت قیسؓ نے فرمایاکہ اللہ کی رسوائی ہو ایسے مال پر جو لوگوںکوملاقات سے روک دے۔ پھرآپ نے یہ اعلان کروادیاکہ جن لوگوں پر ان کا قرض ہے وہ سب معاف ہے۔   (مدارج السالکین)

ایثارانفرادی وصف
ایثارزندگی کے ہرشعبے میں مطلوب ہے۔اس وجہ سے اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ یہ جس طرح مامورین کے لیے ضروری ہے ،اسی طرح صاحب امر کے لیے بھی ضروری ہے۔ ایک قائد بسااوقات بڑی آسانی سے کہہ دیتا ہے کہ رعایا کو ایثاراورہمدردی سے کام لیناچاہیے، لیکن خود اس کا رویہ اس کے برعکس ہوتاہے وہ خودکسی قسم کی قربانی اورایثارکے لیے تیار نہیں ہوتا،اس کی عملی زندگی اس کی باتوں کی تردیدکرتی ہے۔ چنانچہ اس کی بات میں کوئی تاثیرنہیں ہوتی۔دوسری طرف عوام اپنے قائدین سے ایثارکی توقع رکھتے ہیں مگر خود ان کی زندگی اس سے عاری ہوتی ہے۔
جب تک ایثار کی کیفیت تمام افراد میں پیدانہ ہوگی اس وقت تک شر وفسادکا ماحول نہیں بدل سکتا نہ بہتری کی توقع کی    جاسکتی ہے۔بلکہ خودغرضی کی آگ تیز ہوتی چلی جائے گی جس سے سماج جھلستارہے گا۔ایثارہی وہ پانی ہے جواس آگ کوبجھاسکتاہے۔

Monday 8 April 2013


زبان کے اثرات انسانی زندگی پر

معاشرے کے فسادوبگاڑکا اہم سبب زبان کا بے جااورغلط استعمال ہے۔ انسان کے جسم کا یوں تو چھوٹا سا عضوہے مگراس کے نقصانات بڑے بھیانک ہوتے ہیں ،جن سے بچ پانا بہت مشکل ہوتاہے۔عربی مقولہ ہے :
 اللسان جِرمہ صغیروجُرمہ کبیر
زبان جوعضو میں چھوٹا ہے لیکن اس کے گناہ بھاری اوربہت ہوتے ہیں۔
زبان سے انسان نہ صرف دوسروںکوتکلیف اورپریشانی میں ڈالتاہے بلکہ خودبھی بہت سی مصیبتوں سے دوچار ہوتاہے۔ انسانی زندگی پراس کا گہرا اثرپڑتاہے ۔ اگراس کا صحیح استعمال ہوتو انسان باوقار اور بلند کردار معلوم ہوتا ہے، اگراس کے استعمال میں بے احتیاطی ہو توانسان کواس کی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے اوروہ معاشرے میں ذلیل وخوارہوجاتاہے ۔
رسول اللہ  ﷺ کا ارشاد ہے :جب ابن آدم کی صبح ہوتی ہے تواس کے جسم کے تمام اعضازبان سے عاجزی ظاہرکرتے ہوئے کہتے ہیں
اتق اللہ فینا فانما نحن بک، فان اعوججت اعوججنا (ترمذی(
ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر، اگرتوٹھیک رہے گی توہم بھی ٹھیک رہیں گے اگرتونے کجی اختیارکی تو ہمارا بھی براحال ہوگا۔
ہرکام کا حسن یہ ہے کہ اسے معتدل اندازسے نجام دیاجائے ،اس میں افراط وتفریط گویا اس کام میں فساد ڈالنا اورخودکومصیبت میں مبتلا کرناہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا:خیرالامورعوازمہا ، اوساطہاوغیرہ۔اس لیے بہتریہی ہے کہ انسان اپنے کلام کومعتدل بنائے اور گفتگوکے آداب کوملحوظ رکھتے ہوئے اپنی زبان کوقابو میں رکھے۔نبی ؐ نے گفتگوکے متعلق ایک عام قائدہ بتایا ہے:
 من کان یومن باللہ والیوم الآخرفلیقل خیرا اولیصمت(مسلم (
جوشخص اللہ اوریوم اخرت پر ایمان رکھتاہے اسے اچھی گفتگوکرنی چاہیے ورنہ خاموشی اختیارکرنی چاہیے ۔
جو شخص زبان کی مصیبت سے بچناچاہتاہے ۔اسے آداب گفتگوکا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔گفتگو کے اداب میں سے ہے کہ غیرمفید گفتگوسے اجتناب اوربے جا کلام سے گریز کیا جائے،جیسا کہ عربی کا مقولہ ہے: لکل مقام مقال( ہر بات کا ایک مناسب وقت ہے) یہی وجہ ہے ،جب گفتگوکا کی جائے تواس کا خیال رکھا جائے کہ جوبات کہی جارہی ہے وہ سامع کی ضرورت ہے یا نہیں ،اسی طرح اس گفتگو کا کیا اثر ہوگا۔یہ سب سوچ لینا چاہیے ،کہاجاتاہے ،پہلے تولو پھربولو،تاکہ پتہ چلے کہ اس کی بات کا اس مقام پر کیا وزن ہے اور اس کی کیا حیثیت ہے؟
کثرت کلام کے بجائے مختصر ،مدلل اورواضح گفتگوکا اندازاپنایاجائے ۔عربی میں اسے’’ خیرالکلام ماقل ودل‘‘(بہترین گفتگو وہ ہے جومختصر اور مدلل ہو) سے تعبیرکیاجاتا ہیں۔ عموما انسان جب بات کرتاہے تووہ سامع کے وقت کا خیال نہیں رکھتا اور غیرضروری گفتگو کو طول دے کرسامع کو اکتاہٹ میں ڈال دیتاہے اس طرح اس کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور گفتگو بھی غیرمؤثر ہوتی۔
انسان اپنی زبان کی بے احتیاطی کے سبب بہت سے راز فاش کردیتاہے جوکہ امانت کا درجہ رکھتاہے۔اسے اسی خیانت کے نتیجے میں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔پھراسے غیبت ،چغلی اور کسی کی ٹوہ میںلگ کرادھرکی بات ادھرکرنے کی عادت پڑجاتی ہے ،جب اس کی یہ کیفیت معاشرے میں اجاگرہوتی ہے تو وہ کسی کومنہ دکھانے کے لائق نہیں رہ جاتا اورنہ لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں ۔ اس طرح ان کی نگاہوںمیںاس کی وقعت گھٹ جاتی ہے۔نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے:
من صمت نجا  (ترمذی(
’’جس نے خاموشی اختیارکی وہ نجات پاگیا‘‘
معلوم ہوا کہ اگر پریشانیوں سے بچناہے اورمقصدمیں کامیابی حاصل کرنا ہے تو بہتریہی ہے کہ کثرت کلام سے گریز کرتے ہوئے خاموشی اختیارکی جائے۔
لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا’’اگربولنا چاندی ہے توخاموش رہنا سونا ہے۔‘‘
اگرکسی کی تعریف یااس کی حوصلہ افزائی کرنی مقصودہے توتعریف میں ( غلو) حدسے تجاوز نہیںکرنا چاہیے،کیوںکہ ایسی حرکت ریا اورتملق کے دائرے میں آتی ہے جو انسان کوزیب نہیں دیتی ۔یہی حال مذمت کا ہے،کیوںکہ اس میں بھی غلوکرنا سختی اورانتقام کوجنم دینا ہے۔جب کہ انسان بہ حیثیت انسان قابل احترام ہے ،لہذا اس کے برے عمل کواسی حدتک براکہناچاہیے جواس کی ذات کومتأثر نہ کرے ورنہ ردعمل میں وہ مزیدفساد وبگاڑکا باعث بنے گا۔
انسان کی زبان کا تعلق دل سے بہت گہراہوتا ہے۔پہلے دل میں خیال آتاہے پھراس کا اظہارزبان سے ہوتاہے۔نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا:
لا یستقیم ایمان عبد حتی یستقیم قلبہ ،ولا یستقیم قلبہ حتی یستقیم لسانہ(مسند احمد(
 بندے کا ایمان اس وقت تک درست نہ رہے گا جب تک کہ اس کا دل درست نہ رہے ، اوراس کادل اس وقت تک درست نہیں رہتا جب تک اس کی زبان درست نہ ہو۔
اس لیے دوران گفتگو فحش گوئی سے اجتناب کرے کہ یہ انسان کے وقار کے خلاف ہے۔اس صورت میں وہ فحش اوربری باتوںکا مبلغ ہوگا۔اس کا دل بھی برائیوں کی طرف مائل ہوگا ،جواس بات کاثبوت ہوگا کہ اس کا دل نہایت گندہ ہے اوروہ معاشرے میں ذلیل سمجھاجائے گا۔اس طرح اس کا ایمان درست حالت میں نہ ہوگا۔
زبان کی اہمیت کے پیش نظر آپؐ نے ارشادفرمایا:
یا معاذ کف عنک ہذا واخذ بلسانہ…وہل یکب الناس فی النار علی مناخرہم الا حصائد السنتہم(ترمذی(
اے معاذ اسے قابو میں رکھوں(یہ کہتے ہوئے آپ ؐ نے اپنی زبان پکڑ ی)لوگوںکو جہنم میں ان کے منہ کے بل ان کی زبانوں سے کہی ہوئی باتوں کی بناپر ہی ڈالاجائے گا۔
گفتگوکی چند قسمیں ہیں:
گفتگویا توصرف نقصان پرمبنی ہو گی،جیسے جھوٹ ،جھوٹی گواہی، چغلی ،غیبت (۲)یا پھر خالص مفیدہوگی جیسے لوگوں کو بھلائی کی بات کہنا اوربری باتوں سے روکنا اوراللہ کا ذکر وغیرہ (۳) نقصاندہ ہو اوراس میں کوئی فائدہ بھی نہ ہو جیسے ،فضول اور لغوبات جس میں انسان کا وقت توضائع ہوتاہے فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔(۴)وہ گفتگوجس میں فائدہ اور نقصان دونوںکا امکان ہو،جیسے کوئی خیرکی مجلس ہواوراچھی گفتگوہورہی ہواس میں غیبت بھی ہوجائے جس کا ادراک نہ سکے ہو،ایسی گفتگومیں ریاکاری کا بھی اندیشہ ہوتا جس کا احساس نہیں ہوتا۔
گفتگوانسان کا ایک قیدی ہے مگر جب وہ اپنی زبان سے کچھ کہہ دیتاہے تووہ خود اس کا اسیربن جاتاہے۔اس لیے مومن کوہروقت یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جوکچھ بھی زبان سے بولتاہے وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں محفوظ کرلیاجاتاہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
مایلفظ  من     قول الا لدیہ رقیب عتید (ق:۱۸(
کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگراں موجودنہ ہو۔
انسان کو چاہیے کہ جب بھی کوئی بات کرتوپہلے یہ سوچ لے کہ وہ کیاکہہ رہاہے۔ کہیں ایسا تونہیں کہ وہ کوئی ایسی بات کررہاہے جوغضب الٰہی کا سبب بن جائے جس کا اخرت میں اسے رسوائی کا سامنا ہو۔اسی کے متعلق نبی کریمؐ نے فرمایا:
ان العبدلیتکلم بالکلمۃ من رضوان اللہ لایلقی لہا بالا یرفع اللہ بہا درجات، وان العبد لیتکلم بالکلمۃ من سخط اللہ لایلقی لہا بالا یہوی بہا فی جہنم(بخاری(
ایک شخص اپنے منہ سے اللہ تعالی کی خوش نودی کی کوئی بات نکالتاہے۔وہ اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا،لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے درجات کوبلندکردیتاہے۔ ایک دوسرا شخص اپنے منہ سے اللہ کی ناراضگی کی کوئی بات کہتاہے۔اسے وہ لاکھ اہمیت نہیں دیتا۔لیکن اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے جہنم میں ڈال دے گا۔
زبان کے متعلق صحابہ کرام بڑے حساس تھے ،وہ ان کے خطرات سے اچھی طرح واقف تھا ،ہمیشہ ان کو اندیشہ ہوتاتھا اسی وجہ سے وہ زبان کے متعلق بڑے محتاط تھے۔حضرت ابوبکرؓ نے اپنی زبان کوپکڑکرفرمایا:
ان ہذا اوردنی الموارد (رواہ مالک(
اس نے مجھے بہت سے مواقع پر ہلاکت میں ڈالا ہے۔
 ابوبریدہؒ کا بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس ؓ کودیکھا انھوں نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا :
ویحک قل خیرا تغنم  او اسکت عن سو تسلم  والا فاعلم  انک ستندم،  فقیل لہ : یا ابن عباس لم تقول ہذا؟   قال :انہ بلغنی ان الانسان ۔ لیس علی شی من جسدہ اشدحنقا او غیظا یوم  القیامۃ  منہ  علی لسانہ  الا ماقال بہ خیرا او املی بہ خیرا۔
تیرا برا ہو۔اچھی بات کہہ، فائدہ میں رہے گی،بری بات سے رک جا محفوظ رہے، ورنہ جان لے کہ عنقریب تجھے شرمندگی کا سامناکرنا پڑے گا۔کسی نے ان سے کہا: اے ابن عباس ایسی بات آٖ پ کیوں کہتے ہیں؟ فرمایا:مجھے معلوم ہوا ہے کہ روز قیامت انسان اپنے جسم کے کسی عضو پر زبان سے زیادہ غیظ وغضب کا اظہار نہیں کرے گا۔صرف اسی صورت میں وہ ایسا نہیں کرے گا کہ اس نے اس کے ذریعے اچھی بات کہی ہوگی۔
جلیل القدرصحابی مفسرقرآن عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے ۔فرماتے ہیں :
والذی لاالہ غیرہ، ماعلی ظہرالارض شی احوج الی طول سجن من لسان۔
’’اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبودنہیں ،روئے زمین پر کوئی چیزایسی نہیں جسے زبان سے زیادہ قابومیں رکھنے کی ضرورت ہو۔‘‘
زبان اللہ کی عطاکردہ عظیم نعمت ہے جس سے خداکی اطاعت اورجرم دونوںکا صدور ہوتا ہے اسی سے ایمان کا اظہار ہوتاہے اور کفرکا بھی ،یہ انسان کے افکار وخیالات کا آلہ ہے ۔ خیر و شر کی ترویج میں زبان کواہم مقام حاصل ہے ۔جس نے اس کا صحیح اور ضرورت کے مطابق استعمال کیا اور اسے شریعت کی لگام ڈالدی تو وہ کامیاب ہوا اورجس نے اس کی لگام ڈھیلی کردی اور اسے آزاد چھوڑدیا تو شیطان اس پر حاوی ہوکراسے اپنے مرضی کا شکار بنا لیتا اوروہ اپنی زبان کے برے استعمال کے سبب جہنمی ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا:
’’جوشخص مجھے دوڈھاڑوںکے درمیان کی چیز(زبان) اور دونوں رانوں کے درمیان کی چیز(شرمگاہ ) کی ضمان دے گا۔ میں اسے جنت کی ضمانت دیتاہوں۔(بخاری(
زبان کی ضمانت کا مطلب ہے کہ آئندہ وہ اپنی زبان سے ایسی کوئی بات نہیں کرے گا جو فسادیابگاڑکا سبب بنے ۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ انسان اپنی زبان کو ہمیشہ ذکر الٰہی سے تررکھے اور زبان سے اچھی اور شیریں گفتگو کا اہتمام کرے تاکہ وہ اپنی شخصیت پر اچھا اورگہرا نقوش چھوڑسکے۔

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...