Sunday 18 August 2013

Asal Dahshatgard kaun?

اصل دہشت گرد کون؟
محب اللہ قاسمی
mohibbullah.qasmi@gamil.com
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ یہ دنیا اور اس کی تمام چیزیں اللہ کی بنائی ہوئی ہے۔ اس کا شکر ادا کرتے ہوئے صرف اس کی عبادت کی جائے اور بندگان خدا کوان کا حق دیاجائے اور اس پر کسی قسم کی ظلم وزیادتی نہ کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک معمولی سی تکلیف دینے والی چیزکواگرراستے سے ہٹادیاجائے کہ اس سے کسی مسافر کو تکلیف نہ پہنچے تو یہ صدقہ یعنی نیکی کاکام ہے۔
الغرض اسلام کا مقصدہی قیام امن وسلامتی ہے،مگر افسوس کہ پچھلے کئی سالوں سے اس پر دہشت گردی کا الزام عائد کر کے بدنام کیاجارہاہے اور مسلمانوں کو حراساں کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے۔ خاص طور پر مسلم ممالک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔  جب کہ(المسلم اخوالمسلم کے تحت ) ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے اخوت کا رشتہ ہے اور حدیث پاک کی روسے وہ آپس میںایک جسم واحد کی طرح ہیں کہ اس کے ایک عضوکوکوئی تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم درد محسوس کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی گوشے میںاگر کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا مسلمان اس درد سے کراہنے لگتاہے۔آخریہ اسلام کا دشمن کون ہے اور کیوں مسلمانوں کوستایاجارہاہے؟
سب سے پہلے یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اسلام کا اصل دشمن کون ہے؟ قرآن کہتاہے ’’اسلام اورمسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہودہیں‘‘ (سورۃمائدہ:82) یہ یہود نہایت ہی شاطر،دھوکے باز اور انسان دشمن ہیں۔موجودہ دورمیں مصر کے حالات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جمہوریت کا پاسبان کہلانے والے امریکہ نے یہودیوں کی سازش کے تحت جمہوری طریقے سے پرمنتخب عوامی صدرمحمد مرسی کو چند افراد کے احتجاج پر برطرف کروایا ۔اس ناپاک منصوبے کو بروئے کارلانے کے لیے اس نے وہاں کی فوج کا سہارالیا۔ جب کہ منتخب صدرکی حمایت میں ایک ماہ سے  مسلسل ہورہے مصری عوام کے پرامن احتجاج کو نظرانداز کیاجارہاہے اور اب کریک ڈاؤن کے ذریعے بے دریغ ہزاروں بے قصور، نہتے جوانوں، معصوم شیرخوار بچوں، باعصمت ماؤں اور بہنوں کو شہید کیا جا رہا۔  ان زندہ انسانوں پر ٹینک چلا کر انھیں بے دردی سے مارا جارہاہے۔ جن کے ہاتھوں میں قرآن، دل میں اسلام کی عظمت اور زبان پر اللہ کا ذکر ہے۔ رمضان المبارک کی شب میں قیام لیل اور دن کے روزے رکھنے والے یہ مسلمان جنہوں نے اپنے گھروں سے الگ ہوکر میدان رابعہ عدویہ میں عید کا دن گزاراہو ان کومستقل نشانہ بنایاجارہاہے۔جس کی تصاویر دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتاہے کہ کیا یہ مسلمان ہوسکتے ہیں جو اپنے بھائیوں کے ساتھ اس طرح کاسلوک کررہے ہیں اور اپنی ماں اور بہنوں کی عصمت کی پروا کیے بغیر ان کے ساتھ نازیبا حرکت کررہے ہیں ۔ایسا لگتاہے ان فوجیوںمیں ضرور اسرائیلی سرایت کرگئے ہوں یا ان کو ذہنی غلام بنالیاگیاہو۔
اس کی وجہ واضح ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت اور نامناسب حالات پیداکرنے کی تمام ترکوششوں کے باوجود اسلام پسنداور مصرکے خیرخواہ نومنتخب صدرمحمد مرسی نے ایک سال کی قلیل مدت میں سابقہ حکومت کی برائیوں اور عوام کی بدحالی کو درست کرنے میں جس قدر تیزی سے کامیابی کی طرف گامزن تھے یہ بات اسلام دشمن کو بھلا کیسے برداشت ہوتی ،نتیجہ میں ان کو برطرف کردیاگیا۔
اس کی وجہ عالمی شہرت،عالمی قوت اورعظیم المرتبت ہونے کی خواہش رکھنے والے یہودکی مذکورہ آرزوہے،نبیؐ کے زمانے میں بھی یہود خودکو دیندار اور بڑے شمارکرتے تھے بقیہ کو ہیچ اورگرا ہواسمجھتے تھے ،حتی کہ اپنے دین اور مذہب میں بھی من مانی کرنے لگ گئے تھے۔ چنانچہ جیسے ہی آپ ؐ کونبوت سے سرفراز کیاگیا اور آپؐ رسالت کے اعلیٰ مقام پر فائزہوئے توان لوگوں نے آپؐ کی نبوت کا انکارکردیا جب کہ آپ ؐ کی آمدکی بشارت خودان کی کتابوںمیں بھی تھی۔  وہ صرف اس لیے کہ آپؐ چوں کہ ان کی قوم سے نہیں تھے اوریہ بھی کہ ایسی صورت میں ان کو شہرت اورمقبولیت کا شرف ان سے نکل کر دوسری قوم میں جاتا دکھائی دینے لگا تھا، جس پر وہ خود کوچھوٹا محسوس کرنے لگ گئے تھے جوان کے عناداورہٹ دھرمی کا سبب بنا۔
اس طرح ان یہودیوں کے دل میں انتقام کی آگ بڑھتی رہی جونبیؐ کے زمانے سے ابتک چلی آرہی ہے۔ جب حضورپاک ؐاپنے رفیق اعلی سے جاملے تب بھی ان کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی بلکہ رفتہ رفتہ اسلام کی خصوصیت نے عام لوگوں کے دلوںمیں گھرکرنا شروع کیا اوراسلام کی عالمی شہرت اورمقبولیت نے ان کے سینوںمیںاسلام کی نفرت کا شعلہ مزیدبھڑکادیا۔ پھران کی اسلام دشمنی اتنی بڑھ گئی کہ کفاراورمشرکین سے کہیں زیادہ وہ خوداس کے دشمن بن بیٹھے اوراپنے اس انتقام کی آگ بجھانے کے لیے دوسری قوموں کی مددلینی شروع کردی۔نتیجۃً قدرتی ذخائر ، پٹرول جیسی قیمتی چیز ابلنے اور اسلامی ممالک میں عرب ممالک کی اہمیت کے پیش نظر پہلے اس نے عرب ممالک پر اپنا تسلط جمانے کا منصوبہ تیار کیا اور وہاں کے حکمرانوں کو عیش آرام کے تکیے پر سلا کر حکومت کو کمزور بنادیا اورباہمی اختلاف وانتشار کی بیج بوکر حکمرانوں کے دلوںمیں حکومت کی خواہش کے جذبات کو ان کی مجبوری بنادیا اور ان کو ذہنی غلام بنا لیا گیااور حفاظتی انظامات کے نام پر اپنی فوج بٹھادی اور اس پر قبضہ جمالیا، یہی وجہ ہے کہ آج جب کہ مصرکوایک زمانے تک حسنی مبارک کی حکومت کی پریشانیوں اور ان کے ظلم ستم سے آزاد ہوکر نومنتخب صدرمحمد مرسی کی رہنمائی میں کامیابی کے منازل طے کرنے اورسکون کے ساتھ ترقی کی طرف گامزن ہونے کا موقع ملا، تو ان یہودیوں نے اسے اپنے ماتحت عرب ممالک حکمرانوں پر اپنا دھوس دکھایا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی وہی زبان بولنے لگے جو ان یہودیوں کا منشا تھااور یہ بھی اصل دہشت گردکو شہ دے کر پرامن مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہونے والے اپنے مصری بھائیوںکو ہی دہشت گرد قراردے رہے ہیں۔ عربوں کا جورویہ اب تک ان کے ساتھ رہاہے۔اس سے یہ بات بالکل صاف ہے کہ وہ ان یہودیوں کے غلام اور مصرمیں قتل عام کے ایک مجرم ہیں۔
آج مسلم دنیا کو اس بات پر شدید افسوس ہے کہ اس کا حکمراں کیا چاہتاہے ، اسے اسلام اور اس کا نظام پسند ہے ،یا عیش وآرام کی وہ کرسی جو اپنے ہزاروں بھائیوں کا خون بہانے اور ان اسلام دشمن لوگوںکے تلوے چاٹنے پر موقوف ہے۔کیا ان کا جسم شل پڑگیاہے کہ اس کے عضو کو کاٹا جارہا ہے اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا۔
اس طرح یہ یہود بے بہبود جنہوںنے نہ صرف مسلم ممالک کو ذہنی غلام بنارکھا ہے بلکہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور اسلام دشمن کا سردار ہونے کی حیثیت سے خود کو ہم چناں دیگرے نست سمجھ رکھا ہے اور اپنے زور ودبدبہ کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے مد مقابل جو صرف اور صرف اسلام ہی ہے ،کیوںکہ یہی اپنے اندرانسانیت کے لیے مکمل نظام حیات رکھتاہے ،اس سے خائف ہیں اور اس کو پسپا کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے،شام، عراق، افغانستان اور مصر وغیرہ اس سلسلے کی کڑیاں ہیں، جس کے لیے وہ ہر ممکن قوت جھونک کر یا مسلمانوںمیں نفاق کا بیج بو کر یا دیگر متشدد قومیں ان کو ہتھیار بنا کر چمنستان جیسے ہندوستان میں اپنے مفادکے لیے کام کرنا، جس کا نظارہ ہمیں ہندوستان میں بسنے والوں کے درمیان ہندو مسلم منافرت کی زہرفشانی کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
جیساکہ پہلے ذکرکیا گیا کہ اسلام جوکہ خدائی نظام ہے،اپنی خوبیوںاور امن وسلامتی کومتضمن ہونے کی وجہ سے شہرت اور مقبولیت کے اعلیٰ مقام کو پہنچا جو ہمیشہ بلند رہے گا۔ اس پرآپؐ کا فرمان ہے کہ’’اسلام بلند ہونے کے لیے ہے اسے کوئی زیرنہیں کرسکتا۔‘‘ایسے میں اگراس کا کتناہی بڑا دشمن خواہ وہ کسی بھی شکل میں کیوںنہ ہواسے مغلوب نہیں کرسکتا۔
یہاں کئی سوالات ہیں۔مثلاً عراق کے مسلمانوں کو تباہ کیا گیا۔  کیا اسلام مغلوب ہوگیا؟ افغانستان کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی گئی۔ کیا اسلام ختم ہوگیا؟ مصراور ہندوپاک میں سازشیں رچ کراس کوبرباد کرنے کی کوششیں جاری ہیں جس کے لیے بڑے تجربے بھی کیے گئے ۔ تو کیا پاکستان اور ہندوستان سے اسلام کے ماننے والے ختم ہوگئے؟ ان سب کا جواب یہی ہوگا کہ نہیں!اور ایساہرگزنہیں ہوگا۔ کیوں کہ اسلام انسانوں کا بنایاہوا نظام نہیں ہے اورنہ اس میں کسی قسم کی ظلم وزیادتی ہے کہ لوگ اس سے نفرت کرے، بلکہ اس کا جودشمن ہے وہ اس کے خلاف اپنے حربے استعمال کررہاہے، جس کے لیے وہ طرح طرح کی سازشیں رچتا ہے، تاکہ وہ اپنے انتقامی مشن میں میاب ہو۔اسے ہروہ چیز ناپسندہے جو اسلام کی خوبی ہے اوراس میں انسانوں کا مفادمضمرہو۔
اس پس منظرکوسامنے رکھتے ہوئے اب یہ طے کرناچاہیے کہ و ہی نظام قابل عمل ہوگا، جو تمام انسانوںکواس کے جینے کا پوراپوراحق دے اور کسی کوکسی دوسرے پرکسی طرح کی ظلم وزیادتی کا حق نہ ہو، سماج سے بے حیائی کا خاتمہ ہو،معاشرے میں امن وسکون کاماحول ہو۔یہ تب ہی ممکن ہے جب اسلام کوصحیح طرح سے پڑھااورسمجھاجائے اوراس پرعمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
تب ہی ہم یہ یقین کے ساتھ کہہ سکیںگے کہ خواہ امریکہ ہوجس نے انسانیت کا قتل عام کیا،یااقوام متحدہ جس میں امن پسندی کی بات کہی توجاتی ہے مگرہوتااس کے خلاف ہے،یاہندوستان کے امن وسلامتی کو پامال کرنے والے اسرائیل نواز ہندوستان کاایک گروہ جوقوم کی آپسی محبت اور بھائی چارگی کے ماحول کوخراب کرتے ہوئے ان میں قومیت کا بیج بو کر انسانیت کا گھلا گھونٹ رہاہے،جس کی مثال گجرات فساد ہو یا مکہ مسجدبم دھماکہ یا پھر اجمیرکا حادثہ ہو یا روزمرہ کے ہونے والے فسادات کی شکل میں دیکھنے کوملتی ہے۔یہ لوگ مفادپرست توہوسکتے ہیں مگرحق پرست اورامن پسندنہیں۔ یہی لوگ اصل میں دہشت گرد ہیں جو مفاد پرست میڈیا کے ذریعے عوام کی نگاہوںمیں دھول جھونک کر دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کے نام پرپوری دنیا میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔

اس لیے اس کے ا صل محرک،  جس ذکر کیا گیا اس کی سازشوں کو سمجھتے ہوئے مسلمانوں کو ہرممکن اپنی اجتماعیت کو برقرار رکھنا ہوگا۔ ایمانی حمیت کا ثبوت دیتے ہوئے اسلام کے نظام حیات اور غلبہ ٔ  دین کی سعی وجہدکرنے والوں کو،خواہ وہ  دنیا کے کسی حصے میں ہو ،اگر ان پر ظلم ہو تو اس کا احساس دوسرے مسلمانوں کو ہو اور وہ اس کے دفعہ کی کوشش کریں،انھیں بے یار و مدد گا نہ چھوڑیں اور ایک سچے پکے مسلمان ہوکر یکجہتی، باہمی اتحاد و اتفاق کا ثبوت پیش کریں تاکہ حق وباطل کا مقابلہ ہوتوحق غالب رہے۔

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...