Monday 31 March 2014

Maal ek Nemat Gharibon ka is men Huq



مسلمانوں  کے موجودہ معاشرے کاجائزہ لیاجائے تو اندازہ ہوتاہے کہ آج مسلمان ایمان واعمال کے اعتبارسے ہی نہیں  بلکہ ظاہری واسباب اور  اقتصادی حالات کے لحاظ سے بھی کمزور،بے بس اور لاچارہیں ،ان میں  سے جو صاحب مال واہل ثروت انھوں  نے مال کواپنی تجوریوں  میں  جمع کر رکھا ہے وہ غریبوں  کی ضرورتوں کو نظرانداز کرتے ہیں اور  صرف اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں  یا اسراف بے جا کے شکارہیں ۔
ان کے اندر دینی حمیت اور ایمان کی چاشنی نہیں  ہے جس کے سبب خداسے ان کی دوری بڑھتی جارہی ہے ۔ پہلے ان کے اندر دین کاجو جذبہ پایا جاتا تھااور جسے ان کی سب سے بڑی طاقت مانا جاتاتھا اب اس کافقدان نظر آتاہے ۔  اب وہ غیرقوموں کی طرح تعصب کاشکارہیں  جوان کے جمعیت کوکھوکھلا کررہاہے۔  ان کے اندرپہلے جیسااتحادواتفاق نہیں جو ایمانی اخوت کے سبب انھیں  ایک جگہ جمع رکھ سکے ۔ وہ مختلف گروہوں  اور  فرقوں  میں بٹے ہوئے ہیں  ۔ ہرگروہ اپنی ذات برادری کواولیت دیتاہے اور  اس کے پڑوس میں رہنے والا کوئی دوسرامسلم بھائی خواہ بے بسی اور لاچاری کے عالم میں مر رہاہومگر اسے پوچھتا تک نہیں  اور  اس کی مدد کے لیے کوئی اقدام نہیں  کرتا۔  جب کہ یہ اسلام کاطریقہ نہیں ۔ کیوں کہ ایمان جیسے مضبوط رشتے کے سبب تمام مسلمانوں  کا ایک دوسرے پرحق بنتاہے یہی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا ہے پھرہم الگ کیسے ہوسکتے ہیں ۔
مال ودولت کے سلسلے میں  مسلمانوں  کے درمیان دو طرح کے رویے پائے جاتے ہیں  ۔  کچھ لوگ ہیں  جو اپنی کوتاہ فہمی اور تنگ نظری کے پیش نظر مال کو جوکہ اللہ کی ایک نعمت ہے ،کچھ بھی اہمیت نہیں  دیتے وہ اسے ملعون گردانتے ہیں ۔ نتیجۃً وہ اس نعمت سے محروم رہ جاتے ہیں  اور اہل وعیال کی آہ و بکا کوسن کردستِ سوال درازکرنے پرمجبورہوجاتے ہیں ۔  عورتیں  اپنے معصوم بچوں  کی خاطراپنی عزت نیلام کربیٹھتی ہیں  یا زہر دے کرانہیں  موت کی دائمی نیندسلادیتی ہیں ۔  قرآن کریم میں  مال کو اللہ کا فضل قرار دیاگیاہے:
’’اذاقضیت الصلوٰۃ فانتشروافی الارض وابتغوامن فضل اللہ‘‘(الجمعۃ:۱۰  )
’’جب تم نمازسے فارغ ہوجاؤ توزمین میں پھیل جاؤ اور خداکافضل تلاش کرو۔ ‘‘(الجمعۃ:۱۰ )
پتہ چلاکہ مال کوئی گھٹیاچیز نہیں کہ اس سے آنکھیں  موندلی جائیں اور اس کی تلاش وجستجونہ کی جائے۔
خودحضورؐنے بھی اس کی اہمیت کواجاگرکرتے ہوئے فرمایاہے۔
’’ان اللہ یحب العبد الغنی التقی الخفی‘‘(مسلم) بلاشبہ اللہ مالدار متقی اور  پوشیدگی اختیار کرنے والے کو پسند کرتاہے۔
نبی کریم ﷺ اور کبارِ صحابہ ؓ کی حیات طیبہ پرنگاہ ڈالی جائے توانہوں نے بھی تجارت کی۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اتنے مالدار تھے کہ ان کی وفات کے بعدان کے پاس جوسوناتھااسے کلہاڑی سے کاٹ کروارثوں کے درمیان تقسیم کیاگیا۔ ان کی ہی شادی کے موقع پرآپ ؐ نے فرمایاتھاکہ ’’اولم ولوبشاۃٍ‘‘یعنی شادی ہوگئی تو لیمہ کرواگرچہ ایک بکری ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو۔  نکاح کے بعدولیمہ کرناسنت قراردیاگیا۔
حضرت مرزاجان جاناں ؒ کی نفاست اور اعلی معیاری طرز زندگی صوفیاکے مابین کافی معروف ومشہورہے ۔ ان کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ روزانہ نیالباس تبدیل کرتے تھے۔  اسی طرح حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی زندگی دیکھی جائے توعلم وعمل کے ساتھ ان کے پاس خدا نے مال ودولت بھی کافی فراوانی عطا کر رکھی تھی جس کاوہ مظاہرہ بھی کرتے تھے ۔ عمدہ لباس زیب تن فرماتے اور اپنے دوستوں پر بھی خوب خرچ کرتے تھے ۔  موصوف کا شمار کپڑوں کے بڑے تاجروں میں کیا جاتا تھا ۔ ان کے علاوہ بھی تاریخ میں  متعدد شخصیات کا تذکرہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو مال و دولت سے نوازا تھا اور  وہ بحسن وخوبی اس کاحق اداکرتے تھے۔ اس کے ذریعہ بہت سی دینی خدمات انجام دیتے تھے۔  رہی بات قرآن واحادیث میں  مال و دولت کی مذمت کی تویہ ان اموال کے سلسلے میں ہے جوحرام ہوں اور  جنھیں مفاخرت کے طورپرحاصل کیاجائے ،وہ اموال انسان کواپنے خالق ومالک کی یادسے غافل کردیں  ۔ جسکی کی کثرت کے لئے قلب ہمشہ مضطرب اور  پریشان ہویااس سے فقراء ومساکین کاحق ادانہ کیا جا رہا ہو۔  اللہ تعالی کافرمان ہے:
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تمہارے مال اور  تمہاری اولادیں  تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں ۔  جو لوگ ایسا کریں  وہی خسارے میں  رہنے والے ہیں ۔ ‘‘(المنافقون:۹)
اگرکسی کے پاس یہ مال نہ ہو تووہ ضررتوں کی تکمیل کے لئے دوسرے لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے گا، جس کی ممانعت ان احادیث میں  آئی ہے۔  آپ ؐ کی ایک مشہور حدیث ہے آپ نے ارشاد ہے :’’السوال ذل‘‘ دست سوال کرنا ذلت کی بات ہے۔
ا سی طرح وہ واقعہ بھی ذہن میں  رہناچاہئے کہ ایک شخص آپ ؐکی خدمت میں حاضرہوااوراپنی ضرورتوں کاسوال کربیٹھا ۔ آپ ؐ نے اس سے دریافت کیا :تمہارے پاس کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا :ایک چادراورایک پیالہ! آپ نے دونوں  چیزوں  کو طلب کیا اور  انھیں  صحابہ کرام کے درمیان بیچنے کی بولی لگادی ایک صحابی نے اسے خرید لیا۔ آپؐ نے حاصل شدہ رقم کو اس آدمی کے حوالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نصف رقم سے گھر کے لیے کھانے پینے کی چیزیں  خرید اور  نصف رقم سے کلہاری خریدلائو۔  چنانچہ اس نے ایساہی کیا ،پھرآپ ؐ نے اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ لگادیا اور حکم دیاکہ جنگل جاکر اس سے لکڑی کاٹواوربازارمیں فروخت کرو۔  اس نے ایساہی کیااس طرح اس کی اقتصادی حالت درست ہوگئی۔ اس واقعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ نے بازومیں  جب تک قوت دی ہے تواسے دوسروں کے سامنے نہ پھیلایاجائے بلکہ اس کااستعمال ہواوراسی سے کما کراپنی ضرورتیں  پوری کی جائے۔
بہرحال ان تمام باتوں کو مدنظررکھتے ہوئے یہ کہنابالکل صحیح ہے کہ مال اللہ کی نعمت ہے جودینی خدمات کی انجام دہی کابہترین وسیلہ ہے اور  ہماری اقتصادی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ بھی ۔ لہذاصرف توکل پرٹیک لگائے ہوئے سستی اور  کاہلی کا مظاہرہ کرنا ،مسلمانوں کے لئے کسی بھی درجہ مناسب نہیں ہے۔ بقول علامہ اقبال   ؎
                                       عالم ہے فقط مؤمن جانباز کی میراث    
                                        مؤمن نہیں  جو صاحب لولاک نہیں  ہے
٭٭٭

Sunday 30 March 2014



انسان اس دنیا میں جوبھی نیک عمل کرے گا آخرت میں  اللہ کی بارگاہ میں  اس کابہتراوراجرعظیم کی شکل میں  پائے گا۔ ان ہی نیک اعمال میں  سے ایک عمل صدقہ ہے ۔  اسلام میں  صدقہ کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے۔  اسے انسان اور جہنم کے مابین حجاب قراردیاگیاہے اور  وہ دنیا میں  بھی انسان کو بہت سی مصیبتوں سے محفوظ رکھتاہے۔  صدقہ کا ایک معروف ومشہورمفہوم ہے جو عام طورپر لوگوں کے ذہن میں  گردش کرتارہتاہے۔ وہ ہے صاحب ثروت اور  مالدار لوگوں  کا اپنامال اپنی جیب سے نکال کرغریب مسکین لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کی خاطر ان کی جھولی میں  ڈال دینا۔ اسے قرآن و احادیث میں  ’’انفاق ‘‘ (مال خرچ کرنے )کے لفظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کا صراحۃً حکم دیاگیا ہے اور  ایسا کرنے والے لوگوں کی تعریف وتوصیف بیان کی گئی ہے۔ صدقہ کے سلسلے میں  قرآن کا حکم ہے:
’’یہ صدقات تودراصل فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں  کے لیے جوصدقات کے کام پر مامورہوں ،اوران کے لیے جن کی تالیف ِ قلب ہو۔  نیز یہ گردنوں کے چھڑانے اور قرض داروں کی مددکرنے میں  راہ خدامیں  اور مسافرنوازی میں  استعمال کرنے کے لیے ہیں ۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا وبینا ہے۔  (توبہ:60)‘‘
جب نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذبن جبل ؓ کو یمن روانہ کیاتو جوچندباتیں  ہدایت فرمائیں  ان میں  ایک بات یہ بھی تھی ۔ آپ ؐ کا ارشادہے :’’ان کو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مال میں صدقہ کو فرض قراردیاہے، جوتمہارے مالداروں سے لیاجائے گا اور تمہارے غرباء کو دیادیاجائے گا۔ ‘‘    (مسلم )
اس آیت اور حدیث سے مرادزکوۃ ہے۔ دیگر آیات اور احادیث میں  صدقات نافلہ کا حکم آیاہے۔  اس لیے صدقات کی ادائیگی میں  سستی نہیں  کرنی چاہیے، بلکہ اس کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے خواہ وہ مقدارمیں  تھوڑاہی کیوں نہ ہو۔ کیوں کہ یہ گناہوں  کے بھڑکتے شعلوں کو ایسے ہی ٹھنڈاکرتاہے جیسے پانی آگ کے دہکتے انگارے کوسردکردیتاہے۔ اس حکم کی روشنی میں  صاحب حیثیت افراد، مستحقین پر خرچ کرتے ہیں اور اپنے لیے ذخیرہ آخرت کرتے ہیں ۔  لیکن صدقہ کا صرف یہی مفہوم مناسب نہیں ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشادہے: اتقوا النار ولوبشق تمرۃ ، فان لم تجدفبکلمۃ طیبۃ۔
’’جہنم کی آگ سے بچو اگرچہ ایک کھجورکے ٹکڑے سے ہی کیوں  نہ ہو، اگرتمہارے پاس کچھ نہ ہوتو اچھی گفتگو کے ذریعے ہی صحیح مگراس سے بچو۔ ‘‘ (بخاری)
اس حدیث میں  جہنم سے نجات کے دوطریقے بیان کیے گئے ہیں ۔  ایک ہے مال خرچ کرنا خواہ اس کی مقدارکتنی ہی کم سے کم ہو۔  دوسراطریقہ ہے۔  اچھی بات کہنا ، جو کہ ایک معنوی چیزہے۔ اس میں  کچھ مال خرچ کرنے کی ضرورت نہیں  ہوتی۔
اسی مفہوم کی ایک دوسری حدیث ہے ، جس میں  تفصیل سے صدقہ کی چند صورتیں  بتائی گئی ہیں ۔ آپ ؐ کا ارشاد ہے:
علی کل مسلم صدقۃ، قال : أرأیت ان لم یجد، قال: یعمل بیدیہ فینفع نفسہ و یتصدق، قال:قال : أرأیت ان لم یستطع، قال : یعین ذا الحاجۃ الملہوف، قال:قال : أرأیت ان لم یستطع، قال : یأمر بالمعروف اوالخیر،قال : أرأیت ان لم یفعل، قال: یمسک عن الشر فانہا صدقۃ ۔    (متفق علیہ)
’’ہرمسلمان پر صدقہ ہے،ایک صحابیؓ نے کہا جس کے پاس کچھ نہ ہو وہ کیا کرے؟ آپ ؐ نے فرمایا: وہ اپنے ہاتھوں سے کام کرے خود کونفع پہنچایا اور  صدقہ بھی کرے۔ صحابیؓنے کہا: اگروہ اس کی استطاعت نہ رکھتاہو؟ آپ ؐ نے فرمایا:لاچار،ضرورت مند کی مدد کرے،صحابیؓ نے کہا کہ اگر وہ اس کی بھی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔  آپ ؐ نے فرمایا: وہ نیکی اور بھلائی کا حکم دے ۔ صحابیؓ نے کہا کہ اگروہ اس کی بھی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔  آپ ؐ نے فرمایا: وہ دوسروں کوتکلیف پہنچانے سے باز رہے۔ ‘‘(متفق علیہ)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ تمام مسلمانوں پر ضروری ہے۔ اگرانسان خودکماکر اپنی اور ضرورت مندوں کی مدد کررہا ہے تو ایسا کرنا وہ اس کے لیے صدقہ شمار ہوگا مگروہ اتنابے بس اور لاچارہے کہ یہ ضرورت پوری نہیں  کرسکتا تواس صورت میں  کئی طریقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ حتی کہ اگروہ بھلائی کا حکم دے اور بری باتوں سے رکے تویہ بھی ایک قسم کا صدقہ ہے۔ صدقہ کا یہی وسیع مفہوم ایک دوسری حدیث سے بھی معلوم ہوتاہے۔ آپؐ نے فرمایا:
عن ابی ہریرۃ ؓ قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کل سلامی من الناس علیہ صدقۃ کل یوم تطلع فیہ الشمس:  تعدل بین اثنین صدقۃ، وتعین الرجل فی دابتہ فتحمل لہ علیہا او ترفع لہ علیہا متاعہ صدقہ، والکلمۃ الطیبہ صدقہ، و بکل خطوۃ تمشیہا الی الصلاۃ صدقۃ، وتمیط الاذی عن الطریق صدقۃ‘‘ (متفق علیہ)
      اس حدیث میں  آپؐ نے انسان کے جسم میں  پائے جانے والے جوڑوں کا ذکر کیا ہے۔  صحیح مسلم کی روایت سے اس کی تعداد360معلوم ہوتی ہے۔  آج ماہرین طب بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں ۔ حدیث کے مطابق روزانہ ان پر صدقہ واجب ہوتاہے۔ اس طرح ایک ہفتہ میں  تقریباًدوہزارپانچ سو بیس صدقات ہوئے۔  ان پر صدقہ کا حکم فرماتے ہوئے ، آپ ؐ نے ان کی ادائیگی کی مختلف صورتیں  بیان کی ہیں ۔  اس کے لیے آپ نے جوطریقے بیان فرمائے ہیں  وہ نہایت آسان ہیں جنھیں  امیر و غریب یکساں  طورپر انجام دے سکتاہے۔ مثلاً دولوگوں کے درمیان انصاف کرنا خواہ سمجھابجھاکر یا ایک فیصلہ دے کر۔ لوگوں کی مدد کرنا بایں  مثلاً ایک شخص کے پاس سواری تو ہے مگروہ خودسے اس پر سوارہونا اس کے لیے دشوار ہے اور کوئی ساتھ بھی نہیں  ہے جو اس کی مدد کرے تو ایسے شخص کو اس کی سواری پرسوار کرنے میں  مددکرنا، یا پھر اس کا سامان سواری پر رکھنا وغیرہ۔ حدیث میں  کلمہ طیب کوبھی صدقہ قراردیاہے۔ خواہ یہ اللہ کی تسبیح وتہلیل بیان کرکے ہو، یا لوگوں کے مابین اپنی گفتگومیں  اچھے اخلاق کے ساتھ اچھے انداز میں  نرم لہجہ اختیارکرکے ہو۔  نماز کے لیے مسجد کی طرف بڑھنے والے قدم کو بھی صدقہ میں  شمار کیا گیاہے ۔ اس میں  مسافت کی قید نہیں  ہے۔  اس کا فائدہ یہ ہے کہ جب انسان  اپنے گھرسے وضوکرکے نمازکے لییمسجدجاتاہے تو اللہ اس کے ہرقدم پر اس کے درجات کو بلند کرتاہے۔  آخرمیں  نبی کریم ؐ نے فرمایاکہ راستے سے تکلیف دہ چیزکو ہٹادینا بھی صدقہ ہے۔  یہ انسان کے لیے ایک اعلیٰ اخلاقی تعلیم ہے جس میں  دوسروں  کو تکلیف دینے سے بچناہی نہیں  بلکہ ہر اس چیزکو دورکردینا شامل ہے ، جو انسان کو راہ چلتے ہوئے تکلیف پہنچاسکتی ہے۔
اسی طرح صدقہ کی ایسی اور بھی بہت سی مثالیں  ہیں  جن میں  مال واسباب توصرف نہیں  ہوتے مگرانھیں  بھی صدقہ سے تعبیرکیا گیا ہے:مثلاً کوئی کمزور آدمی کنوے سے پانی نکال رہاہے۔ اس کا ڈول بھردے۔ یا کوئی مسافرراہ سے بھٹک گیاہے ، اس کی رہنمائی کردے ۔ یا کسی ضعیف وناتواں  کو راہ پارکرادے اور کسی کی بینائی کمزورہوگئی ہو، اس کی مددکردے ۔ اسی طرح خدمت خلق کی اور بھی دوسری صورتیں  ہوسکتی ہے جن میں  مال توصرف نہیں  ہوتا مگر ضرورت مندکی ضرورت ضرورپوری ہوجاتی ہے۔ حدیث میں  اس طرح کے عمل کو بھی صدقہ کہاگیاہے۔ حتی کہ کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا بھی صدقہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
تبسمک فی وجہ اخیک لک صدقۃ وامرک بالمعروف و نہیک عن المنکرصدقۃ وارشادک الرجل فی ارض الضلال لک صدق وبصرک للرجل الردی البصر لک صدقۃ و اماطتک الحجروالشوکۃ والعظم عن الطریق لک صدقۃ وافراغک من دلوک فی دلواخیک لک صدقۃ۔  (ترمذی)
’’ تیرا اپنے بھائی کے چہرے پر ہنسی بکھیرنا صدقہ ہے۔ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا صدقہ ہے ۔ گم کردہ راہ بھٹکے ہوئے مسافرکو راہ دیکھانا بھی تیرے لیے صدقہ ہے۔  کمزور بینائی والے شخص کی رہنمائی کرنا صدقہ ہے۔  پتھر،کانٹے اور ہدی کوراہ سے ہٹادینا ،تیرے لیے صدقہ ہے۔ اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے ڈول میں  پانی بھردینا بھی صدقہ ہے۔ ‘‘
اس روایت میں  انسانی ہمدردی کی بہت سی مثالیں پیش کی گئی ہیں ، جو بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔  انسان جب کسی سے ملتاہے تو اسے یہ خیال ہوتاہے کہ اس سے جومل رہاہے ،یا خودوہ کسی سے مل رہاہے تو پتہ نہیں  وہ کس کیفیت میں  ہے۔  جس سے عام پر جھجھک ہوتی ہے مگرجب وہ مسکراکرملتاہے تو یہ پریشانی ختم ہوجاتی ہے۔  اسی طرح دیگر اور بھی چیزیں جب انسان کسی کے لیے ایسا کرتاہے تواسے اندرونی طورپر بڑی خوشی ملتی ہے۔ یہ ایک اعلی اوصاف ہیں ،جن سے متصف انسان بااخلاق معلوم ہوتاہے۔  اس لیے آپ نے اس طرح کے عمل کوبھی صدقہ قراردیا ہے۔  جس کے دوررس نتائج سامنے آتے ہیں ۔ یہ اسلام کی بڑی خوبی ہے ،جواپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔
’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں  کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایاکہ روزانہ انسان کے ہرجوڑپر صدقہ ہے۔  تم دولوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرویہ ایک صدقہ ہے، کسی انسان کی اس کی سواری کے سلسلے میں  اس کی مددکردو کہ اس کو سوارکرادو، یا اس کا سامان اس سواری پر رکھ دو یہ بھی صدقہ ہے۔  اچھی بات بھی صدقہ ہے۔  ہر قدم جونماز کے لیے آگے بڑھا صدقہ ہے۔ راستے سے تکلیف دہ چیزکو ہٹادو یہ بھی صدقہ ہے۔ ‘‘
موجودہ دورمیں  لوگ ماحولیات کوبہتربنانے کے لیے درخت لگانے کی بات کرتے ہیں  اور اس پر کافی زوردیاجاتاہے ،جب کہ اس کی افادیت کے پیش نظرنبی کریم ﷺ نے چودہ سوسال قبل ہی اس کی اہمیت اور فوائد کی خاطر درخت لگانے کو صدقہ قراردیاہے ،کیوں کہ اس سے جہاں  ماحولیات پر بہتر اثر پڑتاہے وہیں اس سے عام جاندارکو بھی فائدہ ہوتاہے۔  اس تعلق سے نبی کریم کا ارشادہے:
مامن مسلم یغرس غرساً، الا کان ما أکل منہ لہ صدقۃ،  وما سرق منہ لہ صدقۃ، ولایرزؤہ أحد الا کان لہ صدقۃ۔      (ترمذی)
        ’’مسلمان کوئی درخت لگاتاہے اور اس میں  کوئی نقصان پہنچتا ہے کہ کسی نے اس سے پھل کھا لیا، تو یہ اس (درخت لگانے والے )کے لیے صدقہ ہے ۔  اسی طرح کسی نے اس سے چوری کرلی تو بھی یہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ ‘‘(ترمذی)
بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ مسلمان اگرکوئی درخت لگائے ،اور اس کوئی انسان ، چوپایایاپرندہ کھالے تویہ اس کے لیے قیامت تک صدقہ ہے۔
انسان اپنی بیوی کے پاس اپنی نفسانی فطری خواہشات کی تکمیل کے لیے جاتا ہے،جوافزائش نسل کا ایک طریقہ ہے ، مگر یہ عمل بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔  ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:
و فی بضع احدکم صدقۃ، قالوا یا رسول اللہ، ایاتی احدنا شہوتہ، ویکون لہ فیہا اجر،قال: أرأیتم لو وضعہا فی حرام أکان علیہ وزر؟ فکذالک اذاوضعہا فی الحلال ،کان لہ أجر۔
’’ضرورت کی تکمیل کے لیے انسان کا اپنی بیوی کے پاس جانا بھی صدقہ ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم میں  سے ہرایک یہ عمل اپنی شہوانی خواہشات کی تکمیل کے لیے کرتاہے توکیا اس میں  بھی اجرہے۔ آپﷺ نے ارشادفرمایا: تمہارا کیاخیال ہے اگروہ اپنی یہ ضرورت کسی حرام جگہ پوری کرتا تواس پر گناہ نہیں  ہوتا؟ اسی طرح اس نے یہ حلال طریقہ اختیارکیا ۔ لہذا یہ اس کے لیے باعث اجرہے۔ ‘‘(مسلم )

اس تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ صدقہ کی ادائیگی کی مختلف صورتیں  ہیں ۔ خواہ انفاق کے ذریعے ہو یا دیگرطریقوں سے اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔  صدقہ کے حکم کا مقصد یہ ہے کہ معاشرہ میں  کوئی ننگابھوکا نہ رہے اور  معاشرہ ہر طرح کی گندگی اور شرسے پاک اور پرامن ہو۔ تمام بندگان خداکی تمام ضروریات کی تکمیل ہو۔  اسی لیے نبی کریم ﷺ نے صدقہ کے سلسلے میں  ایک جامع بات بیان فرمائی:’’کل معروف صدقۃ‘‘(ہرنیک کام صدقہ ہے)اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ بھی واضح کردیاکہ ’’نیکی اور  بھلائی کے کسی بھی کام کو معمولی نہ سمجھو‘‘کیوں کہ یہ بھی صدقہ ہے۔ 

Tuesday 25 March 2014



امتحان آزمائش انسانی زندگی کاجوہرہے ۔ اسی سے اس کے اندرنکھار پیدا ہوتا ہے ۔  عربی کہاوت ہے :
عندالامتحان یکرم الانسان اویہان               امتحان کے بعد ہی انسان مکرم یا رسواہوتاہے۔
امتحان میں کامیابی مطلوب اور  پسندیدہ ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ خواہ مدارس سے جڑے ہوئے ہوں یاکالج یا یونیورسٹیوں  میں  زیرتعلیم ہوں سب کے لیے امتحان کی بڑی اہمیت ہے اور وہ ایسا محسوس بھی کرتے ہیں ، اب ان میں  جوطلبہ ہوشیار اور  ذی شعورہوتے ہیں ،وہ اس کی تیاری کرتے ہیں  اور اپنے معیارکوبلندکرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کی یہ جدوجہد لائق تحسین ہے۔ غورکرنے کا مقام ہے ،کیااخری امتحان جس کی تیاری کے لیے خدانے انسان کو پیدا کیا، پوری زندگی عطاکی،تمام ضروریات کے اسباب وسائل پیداکیے ۔  اس کے لیے ضروری نہیں  کہ وہ اس کی بھی تیاری کرے ۔ جس کاانعام دنیوی انعام سے لاکھوں گنا بڑھا ہوا ہے۔ اس انسان سے زیادہ بے وقوف وبدحواس کون ہوگا جو کمترکوبہترپرترجیح دیتاہے ۔
خداکی عطاکردہ یہ زندگی ایک عظیم نعمت ہے ،جوامتحان کے سادے اور اق کی طرح ہے، جس پر’’کل مولود یولد علی الفطرۃ‘‘ کی مہرلگی ہوئی ہے۔ جس کا موضوع ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘اورغرض وغایت ’’وَمَاخَلَقْتُ الجِنَّ وَالِانْسَ اِلَّالِیَعُبدُوْن‘‘ (سورۃذاریات:۵۶)ہے۔  میں  نے جن اور انسان کوصرف اپنی عبادت کے لیے پیداکیاہے۔  جسے لے کر پیدا ہونے والا ہر فرد بشراس دنیا میں  آتا ہے ،جوکہ دارالامتحان ہے۔  مگراس کے والدین جومختلف گروہوں  ،خاندان اور مذاہب کے ماننے والے ہوتے ہیں ، اس کے ورقِ حیات پر فطرت اسلام کی لگی مہر کو ہٹاکرکفروشرک ،یہودیت ونصرانیت وغیرہ کی مصنوعی مہرثبت کردیتے ہیں ۔
 فابواہ یہودانہ یجوسانہ اوینصرانہ۔ (الحدیث)پس اس کے والدین اسے یہودی بنالیتے ہیں  یانصرانی۔
اس طرح یہ بچہ اپنے والدین کے مذہب میں  شامل ہوجاتا ہے ۔ اس کا موضوع غرض و غایت سب کچھ بدل جاتا ہے۔ پھرجب یہ وہ بڑاہوتا ہے تواپنے آباء واجدادکی تقلید {حَسْبُنَا مَاوَجَدْنَا عَلَیْہ آبائَ نَا}(جس پرہم نے اپنے باپ کوپایاوہی ہمارے لے کافی ہے ۔ )کو دلیل مان کراسی پر قائم رہنا پسند کرتا ہے کوئی اگرغوروفکرکا سہارالیتا ہے تواپنا آبائی مذہب چھوڑ کر ’’فطرت اسلام‘‘کی مہر کو بدستورباقی رکھنا مناسب سمجھتا ہے جو ’’وضع الشی علی محلہ ‘‘کا عین مصداق ہے۔
یہ آزمائش اور امتحان کاسلسلہ اس کی وفات تک جاری رہتا ہے۔ مگرجب موت آجاتی ہے تواس کے بعدسوائے پچتاوے اور مایوسی کے کچھ باقی نہیں  رہتا۔
{حَتّٰی جَائَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ اِرْجِعُوْنِo لَعَلِّی اَعْمَلُ صٰلِحًا فِیْمَاتَرَکْتُ کَلّاَاِنَّہٰاکَلِمَۃٌ قَائِلُہَاوَمِنْ وَرَائِہِمْ بَرْزَخٌٔ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ}(مؤمنون: ۹۹)
ترجمہ :۔  ’’یہاں تک کہ ان میں  سے ایک کوموت آئی توکہا اے میرے رب ! مجھے دنیامیں واپس بھیج دے ،تاکہ جس کومیں  چھوڑآیاہوں اس میں  جاکرنیک عمل کروں (یادرکھو)ہرگزایسانہیں  ہوگا،یہ صرف ایک بات ہی ہے جسے وہ کہے گا‘‘۔
موت کے وقت اس پچھتاوے سے کچھ ہونے والانہیں  ہے ۔ اس لیے اسے چاہیے کہ اس دوران موضوع کومدنظررکھتے ہوئے اس کے تقاضوں  کوعملی طورپرانجام دیتا رہے۔  تاکہ وہ اس کے نامہ اعمال میں  درج ہوتاچلاجائے،جس میں  کامیاب ہونے والے ’’مومن‘‘اورناکامی (شیطان)کا شکارہونے والے ’’کافر‘‘دونوں کااندراج ہوتاہے۔ {یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ}(اٰل عمران: ۱۰)وہ وقت قابل رشک اور پرملال ہوگا،جس دن بہت سے چہرے روشن ہوں گے اور بہت سے سیاہ ہوں گے۔
اللہ کے قائم کردہ عدل وانصاف کے اس ترازوپرجو کچھ بھی رکھاجائے گا۔  بخوبی دیکھ لے گاوہ جان لے گا کہ اس نے کیا اچھے اعمال کئے اور کیا برے ،خواہ وہ ذرے کے برابرہی کیوں نہ ہو {فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرایرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرایرہ} (القران)پھر جس کے نیک اعمال زائد ہوں گے ،اس کا پلڑا بھاری ہوگااورجس کے نیک اعمال کم ہوں گے ،اس کا پلڑا ہلکا ہوگا ۔ جو اس کی کامیابی وناکامی کا معیارثابت ہوگا۔
{فَأَمَّامَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَھَوَفِیْ عِیْشَۃِ الرَّاضِیَۃِ وَأَمَّامَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُمُّہٗ حَاوِیَّۃ }۔ وقال تعالیٰ ایضا۔ ومن خف موازینہ فاولیک الذ ین خسروانفسہم بماکانواباٰیٰتنا یظلمون۔ (القارعۃ:۵)
آخرت میں  کامیاب ہونے والوں کاکے نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیاجائے گا اور خوشخبری بھی۔ {فَبَشِّرْہٗ بِمَغْفِرۃٍ وَأَجْرٍ  کَرِیْم}ان کا انعام جنت ہوگا۔
اِنَّ اللّٰہ یَدْخُلُ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوْالصَّالِحَاتِ جَنّٰتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الَانْہَارُ(الحج :۱۳)
ترجمہ:بلا شبہ اللہ تعالی مؤمنوں کواوران لوگوں کوجن لوگوں نے اعمال صالحہ کئے ایسے باغات میں  داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں  جاری ہوں  گی ۔
وہاں  اس کو نہ کوئی خوف ہوگا( کہ کہیں  موت اس کے انعام کے تلذذسے محرومی کا سبب نہ بن جائے )اورنہ وہ غمگین ہوں گے کہ( وہاں سے ان کو کچھ زمانے کے بعدنکال دیاجائے گا)۔
فَلَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوْن(بقرۃ:۳۸)
رہے ناکام لوگ توان کو بھی بشارت دی جائے گی مگردردناک عذاب کی۔
فَبَشِّرْہٗ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ (توبہ:۲۴)
یہ لوگ اپنے نامہ اعمال کو دیکھیں  گے اور کہیں  گے۔
{مَالِ لِہَذَاالْکِتَابِ لَایُغَادِرُصَغِیْرَۃً وَلَاکَبِیْرَۃً اِلَّاأَحْصٰہَا}
’’ اس نامہ اعمال کوکیا ہوااس نے میرے چھوٹے بڑے سب کئے کرتوت کودرج کرلیاہے‘‘۔ (کہف:۴۹)
ان کا مقام اور ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ آخر میں  ایک گروہ اور جماعت وہ ہوگی جو کامیاب تو ہوگی مگراعلیٰ نمبرات نہ ہونے کے سبب ان کو بھی عارضی طورپر جہنم میں  ڈالدیاجائے گا۔
یہاں  ٹھہر کرکچھ سوالات ذہن کے خانے میں  گردش کرتے ہیں  کہ یہ تقاضہ کیا ہیں ؟جو موضوع ،غرض وغایت سب کو محیط ہیں  جس کے سبب انسان اتنے بڑے انعام واکرام کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اس امتحان کی تیاری کے لئے کوئی توکتاب ہوگی جسکی تھیوری پریکٹیکل کو آسان کرسکے۔ اس کا کوئی ٹیچراورگائڈہوگا جس سے کچھ نوٹس گیس پیپر (Guess paper)تیارکئے گئے ہوں گے؟ان سوالات کاپیداہونا اہل فکرونظرہونے کی دلیل ہے ۔
بہرحال وہ مقتضیات       ’’آمَنُوْاوَعَمِلُوْاالصَّالِحَاتِ ‘‘       ’’ایمان لاؤاورنیک کام کرو‘‘
ہیں ،جن کا مطلب ہے خداکے وجودکوتسلیم کرنا کہ وہ سارے جہاں  کا رب ہے ۔ دنیا کاسارانظام اسی کے حکم سے چل رہا ہے اور محمدﷺکوخداکابندہ اور اس کارسول ماننا۔  اور یہ اقرارکرنا کہ آپ ؐکا  ہرقول فعل دلیل شرعی ہے ۔
)وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْہَویٰ اِنْ ہُوَ وَحْیٌ یُوْحیٰ((النجم:۳)
نیک کام انجام دینا کہ اس میں خداکی اطاعت شامل ہے اور برے کاموں سے دامن کو بچاکررکھنا کہ اس میں  خداکی نافرمانی اور اس کی ناراضی ہے، جوجہنم کاباعث ہے ،پھروہ نصابی کتاب مقدس’’قرآن مجید‘‘جو درحقیقت ناظم امتحان اور رب کائنات کاہی کلام ہے، جس کا مقصدلوگوں کوزندگی کی ناکام تاریک کوٹھری سے نکال کرکامیابی کے روشن باب پر لا کھڑا کرنا ہے۔
کِتَابٌ اَنْزَلْنَاہٗ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلیٰ النُّورِ   (ابراہیم : ۱)
یہ ایک کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے تاکہ وہ لوگوں کو تاریکیوں سے اجالے کی طرف نکال لائے۔
اس امتحان کی تیاری کیلئے خدانے گائڈس اور اساتذہ کے طورپر بہت سارے انبیاء ورسل کو دنیا میں  مبعوث کیا ،جن کی آخری کڑی محمدعربی ﷺہیں ۔
{یَااَیہَا النَّبیُّ اِنَّا اَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَنَذِیْراً وَدَاعِیاً اِلٰی اللّٰہِ بِاذْنِہ سِرَاجَاًمُنِیْراً}۔
جو اس درخواست کی تکمیل ہیں :
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِنْہُمْ یَتْلُوْعَلَیْہِمْ آیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ   (بقرہ:۱۲۹)
 ’’ اے ہمارے رب بھیجئے ان میں  ان ہی میں کاایک رسول جوان کے سامنے آپ کی کتاب کی تلاوت کرے اور ان کوکتاب وحکمت کی تعلیم دے‘‘۔
ہُوَاللّٰہُ الّذِیْ بَعَثَ فِی الأُمِّیِّیِّنَ رَسُوْالًا مِنْہُمْ یَتْلُوْعَلَیْہِمْ آیاتِہ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّہُمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْامِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَال مُّبِیْنَo۔ (جمعہ:۲)
’’وہی ذات ہے جس نے ان پڑھوں  میں  ،ان ہی لوگوں میں سے ایک رسول بھیجا، جواس کی آیات کی تلاوت کرتاہے اور انہیں  پاکیزگی سکھاتا ہے اور انہیں  کتاب وحکمت کی تعلیم دیتاہے اور وہ لوگ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں  تھے۔ ‘‘
اس احکم الحاکمین نے اپنے رسولوں  اور گائڈس کو جن قوموں  میں  بھیجا توانہی کی زبان میں  بھیجا تاکہ احکام ِالٰہی کے افہام وتفہیم کا معاملہ آسان ہو۔
وَمَااَرْسَلْنٰا مِنْ رَسُوْلٍ الّابِلِسَانٍ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ۔ (ابراہیم: ۴)
’’اورہم نے نہیں  بھیجا کسی رسول کومگراس کی قوم ہی کی زبان میں تاکہ وہ (میری بات کو)ان کے سامنے وضاحت سے پیش کردے۔  ‘‘
مذکورہ مقدس کتاب، جس کی بعض عبارات احکام سے متعلق تھیں ، آپ کی سیرت مبارکہ نے اس کے اجمال کی تفصیل کردی ۔ آپؐ کے جانثارصحابہؓ نے آپ سے وہ سب کچھ سیکھا اور اسے عملی طورپرانجام دیاجوہمارے لئے ’’نوٹس‘‘کی حیثیت رکھتا ہے،جس پر آپ ؐنے اطیعوااللہ واطیعواالرسول کو مزید وسعت بخشتے ہوئے ارشادفرمایاتھا: ’’الصحابۃ کالنجوم بایہم اقتدیتم اہدیتم۔  اور مااناعلیہ واصحابی‘‘ ( صحابہ ستاروں  کے مانند ہیں  تم ان میں  جس کی بھی اتباع کروگے راہ ریاب ہوجاؤگے)گویا یہ آپ کی طرف سے ہدایت بن گئی کہ اگرتمہاری زندگی کے شب وروز اس طرح گزریں گے توتمہیں  اعلیٰ نمبرات ملیں گے۔
مگران تمام کے بعد بھی انسان چوں کہ خطاو نسیان کامرکب ہے لہذاان سے غلطی اور  گناہ کاسرزدہوناعین ممکن ہے اس لئے خدانے اس کی اس کمزوری کے مدنظر یہ فرمان جاری کیا: ’’توبواالی اللہ توبۃ نصوحا‘‘لہذامیں  اگرکسی سے کوئی غلطی ہوجاے توفوراًاللہ کی طرف رجوع کرے اور اپنے کرتوت پرندامت اور شرمندگی کے ساتھ توبہ کرے ۔  خداچونکہ غافرالذنب وقابل التوب ہے۔ لہذاوہ اپنے ایسے بندے کوفوراًمعاف فرمادیتاہے۔ گویاتوبہ اس امتحان میں ہونے والی غلطیوں کومٹانے والا(Eraser)ہے۔
خداکے فرمان کو ’’قرآن ‘‘اس کے رسول کے اقوال وافعال کو ’’حدیث‘‘ اس نظام کو ’’اسلام‘‘اس کے ماننے والے کو ’’مسلمان‘‘اور اس کے طریقہ کارکو ’’اصول اسلام ‘‘کہا جاتا ہے۔  یہ فطرت انسانی کے لئے مکمل نظام حیات بن کر ظاہر ہوا ہے، جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں میں  {فہدیناہ النجدین(القران)}صحیح و غلط کے دوراستوں کی تمیز کرتے ہوئے لوگوں کوراہ مستقیم پر چلنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔  اس کی منزل کامیابی، مقصد اپنے خالق ومالک کا تقرب اور اس کا دیدار ہے، جواس کے امتحان میں  کامیابی کاعمدہ اور  اعلیٰ نتیجہ ہے۔
فمن کان یرجوا لقاء ربہ فلیعمل عملاً صالحاً ولایشرک بعبادۃ ربہ احداًo(کہف :۱۱۰)
 )تو  جو شخص اپنے خالق ومالک سے ملنے کی امید رکھتا ہے اسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں  کسی کو شریک نہ کرے)
٭٭٭

Sunday 23 March 2014

Woh Muazzaz the zamane men Musalman ho kar



کروٹ لیتاہوا زمانہ ،جس کیمصائب و آلام میں  گرفتار،ہرظلم وستم سہنے پر مجبور، ذلت ونکبت کے دلدل میں  پھنسی ہوئی اور  اپنے حقوق سے محروم، اس دھرتی پر وہ کون سی قوم ہے ،جن کے بیٹے آج ہتھکڑیوں میں  جکڑے ہوئے،جانوروں کی طرح پنجروں  میں  اور ناکردہ جرم کی پاداش میں  جیلوں کی تاریک کوٹھریوں میں بندہیں  ،ان کی مائیں  ماتم کناں  اور  بہنیں  نوحہ خواں  ہیں ، جن پر دشمن حملہ آورہے ،ان کے شعائرکا مذاق سرراہ اڑایا جارہا ہے، انھیں  اپنے پیغمبر کے تعلق سے اہانت آمیز باتوں کا سامناہے،جن کی پیروی کو قدامت پسندی کا طعنہ دیاجارہے؟ اور  اپنے شعائروکلچرکواپنانے والے افرادکو ’’دہشت گرد‘‘کی گالی دی جارہی ہے۔  تویقینا آپ کا جواب ہوگا کہ یہ ’’ مسلم ‘‘قوم ہے۔
صدیوں تک دنیا کی حکومت اس کے قبضے میں  رہی ،کوئی قوم ترچھی نگاہ ڈالنے کی تاب نہ رکھتی تھی، اس کے فرزنداسلامی جھنڈالے کرجدھر رخ کرتے بڑھتے ہی چلے جاتے تھے۔ وہ ہواؤں  کا رخ موڑدیتے ،ہرمیدان ان کے ہاتھ ہوتا۔ ان کی ایک صداپر جنگل کوجانوروں نے خالی کردیا، ان کے قدموں میں  سُپرطاقت(قیصروکسری )آگئی جن کے سپوتوں  کے عزم وحوصلے، جواں  مردی وبہادری وحکم رانی کے واقعات پڑھ کر بے ساختہ لبوں  سے یہ جاری ہوتا ہے۔  ع
وہ معزز تھے زمانے میں  مسلماں  ہو کر                  اور تم خوار ہوئے تارک قرآں  ہو کر
اگرہم غورکریں کہ آج ہم ثریاسے تحت الثری میں  کیوں پہنچ گئے ؟ تواس کا جواب ہوگا :
’’حب الدنیا وکراہیۃ الموت‘‘  (دنیا کی محبت اور موت سے نفرت )۔
آج ہمارے قلوب دنیا کی محبت اس کی رنگینیوں  سے الفت ،اس کے اسباب تعیش کے خوگر،موت سے متوحش ،خوف خدا سے خالی اور  ایمانی حرارت ،اسلامی جرأت وبے باکی سے محروم ہوگئے۔  یہی وجہ ہے کہ ہماری یہ بڑی تعدادبھی سمندر کے جھاگ کی مانندہوگئی ہے۔  ان حالات میں  خواب غفلت سے بیدار ہونے،گم کردہ مقام کے حصول پر کمربستہ ہونے ،احکام الٰہی وفرامین رسول کو حرز جان بنانے ، صحابہ وسلف وصالحین کوعملی نمونہ بنانے اور خدمت اسلام کے تئیں  کچھ کر گزرنے کے حوصلے کی ضرورت آن پڑی ہے۔
آج بہت سے مسلمان دیگر اقوام کی طرح اپنی کامیابی اور اپنے مسائل کا حل مادی اسباب اور  غیروں  کے طریقہ کار میں  تلاش کرتے ہیں  ۔ ان کے نظام زندگی کو اپنے لیے راہ منزل قرار دیتے ہیں  اور اپنی بودوباش ،رہن سہن ،انداز فکر اور اخلاق وکردار،طورطریقے کوغیراسلامی سانچے میں  ڈھال کر اس پہ رواں  دواں  ہیں ۔ حالانکہ انسان کی پسنداورناپسند اس کے ذوق ورجحان سے ہی ہوتی ہے۔ یہ کس درجہ کی مرعوبیت ہے کہ اسلامی تہذیب کا پاس ولحاظ نہ رکھا جائے اور  دوسروں کے کلچراوراس کے رسوم کو پسند کرکے اسے اختیارکیاجائے۔ ایساکرنے والے کے دل سے میں  اسلام کی روح نکل جاتی ہے اور وہ گویا اپنے طرززندگی سے غیراسلامی طریقہ اور شعارکو اسلام کے مقابلے میں  شعوری یا غیرشعوری طورپر بہترقراردے رہاہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس سے متنبہ کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
من تشبہ بقوم فہومنہم  (ابوداؤد)
’’جوشخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ اسی قوم میں  سے ہے۔ ‘‘
اس کا نتیجہ ہے کہ ریت پر تعمیر کردہ یہ محل ہوا کے چھونکوں سے اڑکر خشک وخاشاک کی طرح بکھرجاتاہے۔ پھر یہی لوگ حماقت میں  خود کومسلمان سمجھ کر خود کو اور اپنی قوم کو برابھلاکہتے ہیں ۔  جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
لا یزنی الزانی حین یزنی وہو مومن ،ولا یشرب الخمر حین یشرب وہو مؤمن، ولا یسرق حین یسرق وہو مؤمن، ولا ینتہب نہبۃ یرفع الناس الیہ فیہا ابصارہم حین ینتہبہا و ہو مؤمن۔      (بخاری)
’’زنا کرتے وقت زانی مومن نہیں  رہتا اور نہ شراب پیتے وقت وہ مؤمن رہتاہے۔  اسی طرح چوری کرتے وقت وہ مؤمن نہیں  رہتااورنہ اس وقت مومن رہتاہے جب کسی کا مال لوٹتاہے اور  لوگ دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔
مسلمان صرف کلمہ پڑھ لینے سے نہیں  بلکہ پورے اعتقادکے ساتھ خود اس نظام حیات کے سپرد کردینے کا نام ہے ،کیوں کہ
خردنے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں  نہیں  تو کچھ بھی نہیں
قرآن کریم میں  کئی مقامات پر مومنوں سے ایمان لانے کامطالبہ کیاگیا،جس پر سوال ہوتاہے کہ ایمان والے سے ایمان کا کیا مطالبہ ؟وہاں  اس کی تفسیربیان کی جاتی ہے کہ اللہ اپنے مومن بندوں کو ایمان کامل سے متصف دیکھنا چاہتاہے اس لیے اسے ایمان کامل کا حکم دے رہاہے۔ اسی طرح ایک آیت میں  اللہ نے بندوں کو پوری طرح اسلام میں  داخل ہوجانے کا حکم دیتاہے کہ اس میں  کوئی کجی یا کوتاہی نہ کرے بلکہ شرائع اسلام کا پابند بنے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
یا ایہاالذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ
اے مؤمنو!اسلام میں  پوری طرح داخل ہوجاؤ(سور بقرہ:208)
مسلمان سوچتاہے کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے اسے سربلندی حاصل ہونا چاہیے، عزت کامقام ملناچاہیے تواسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ واقعی مسلمان ہے یا نہیں  ؟ جس کا قرآن وعدہ کرتاہے:
لاتہنوا و لا تحزنوا وانتم الاعلون ان کتنم مؤمنین (آل عمران:139)
(تم نہ دل برداشتہ ہو اور نہ غم گین ہو،تم ہی سربلندرہوگے بشرط کہ تم مومن ہو)
یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ امت ایک بہترین امت جس کا امتیازی کام ’’امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ہے ۔  اگرامت اس فریضہ سے غافل ہوگی۔ تولامحالہ وہ  دوسروں  کے رسوم وبدعات میں  ملوث ہوگی۔  پھر اس کا جوانجام ہوگا وہ پوری امت کے لیے یکساں  طورپر ہوگا۔ جس طرح گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستاہے اسی طرح برے لوگوں  کے ساتھ اچھے لوگ بھی اس دائرۂ عذاب میں  شامل ہوں گے۔ موجودہ دورکی یہ پریشانیاں  ایک عذاب ہے،جس سے نجات کے لیے ہم اسلامی طریقے کے علاوہ دوسری تمام راہ اختیارکررہے ہیں ، جب کہ یہ کسی بھی طرح ممکن نہیں  ہے۔
اللہ تعالی نے مومنوں کے اوصاف بیان کیے ہم ان اوصاف اپنے اندرکیوں نہیں  تلاش کرتے ؟ صرف اپنے مسلم گھرانے میں  پیداہوجانے اور اپنے اسلامی نام کے ذریعے اپنا تشخص ڈھونڈتے ہیں  لیکن اسلام کی خوبیاں  حاصل کرنے کے لیے خودکو ان  اوصاف سے متصف نہیں  کرتے جومؤمنوں کی پہچان ہے جن سے انسان ایک بہترین انسان بنتاہے ۔ اللہ تعالی اپنے ماننے والوں کو اس صفت میں  دیکھنا چاہتاہے:
’’رحمن کے (اصلی) بندے وہ ہیں  جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں  اور  جاہل ان کے منہ آئیں  تو کہہ دیتے ہیں  کہ تم کو سلام۔  جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں  راتیں  گزارتے ہیں ۔  جو دعائیں  کرتے ہیں  کہ ’’اے ہمارے رب ،جہنم کے عذاب سے ہم کو بچالے، اس کا عذاب توجان کالاگوہے، وہ توبڑا ہی برامستقراورمقام ہے۔ ‘‘جوخرچ کرتے ہیں  تونہ فضول خرچی کرتے ہیں  نہ بخل،بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں  کے درمیان اعتدال پرقائم رہتاہے۔ جواللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں  پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں  کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ۔  یہ کام جوکوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا۔  قیامت کے روزاس کومکررعذاب دیاجائے گا اور اسی میں  وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑارہے گا۔  الا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کرچکاہو اور ایمان لاکرعمل صالح کرنے لگا ہو۔  ایسے لوگوں کی برائیوں کواللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑاغفوررحیم ہے۔  جوشخص توبہ کرکے نیک عملی اختیارکرتاہے وہ اللہ کی طرف پلٹ آتاہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے۔ (اوررحمن کے بندے وہ ہیں ) جوجھوٹ کے گواہ نہیں  بنتے اور کسی لغوچیزپران کا گزرہوجائے توشریف آدمیوں کی طرح گزرجاتے ہیں ۔  جنھیں  اگران کے رب کی آیات سناکر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کرنہیں  رہ جاتے۔  جودعائیں  مانگا کرتے ہیں  کہ ’’اے ہمارے رب ہمیں  اپنی بیویوں اور اپنی اولادسے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کوپرہیزگاروں کا امام بنا۔ ‘‘یہ ہیں  وہ لوگ جواپنے صبرکاپھل منزل بلند کی شکل میں  پائیں  گے۔  آداب وتسلیمات سے ان کا استقبال ہوگا۔  وہ ہمیشہ ہمیشہ وہاں  رہے گے۔  کیا ہی اچھا ہے وہ مستقر اور  وہ مقام۔ ‘‘    (سورہ فرقان: 63)
ان اوصاف کے حامل تھے وہ مسلمان جو معززرہے ، اس لیے مسلمانوں کوچاہیے کہ وہ اپنے علم وعمل ،گفتاروکردار،نشست و برخاست کومکمل طور پر اسلامی سانچے میں  ڈھالیں  اور اصلاح معاشرہ کے ساتھ ساتھ اقامت دین کی جدوجہد کریں ،اسلام دشمن کے ہر پروپگنڈے کا حکمت ودانش مندی سے دندان شکن جواب دیں ،اس کے بعد اگرکوئی گناہ یا غلطی سرزدہوجائے تو اللہ کی طرف رجوع کریں  اور اپنی غلطی پر نادم ہوکرتوبہ کریں ۔



Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...