Wednesday 2 April 2014

آمیزش یا خلوص

محب اللہ قاسمی *
آمیزش یا خلوص
اس ترقی یافتہ دور میں بظاہر مختلف اقسام کی چیزوں کی کثرت ہے اور ہر چیز وافر مقدار میں  میسر ہے ،چنانچہ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دور کونٹٹی (مقدار)کا ہے مگر یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ اس دورِکوننٹی میں کوالٹی (معیار)نہیں ہے۔اس صورت حال کا سبب ملاوٹ ہے ،جس نے کھر ے کوکھوٹا کیا ہے۔
ملاوٹ اشیاء خورد و نوش میں ہو تو براہ راست انسانی جسم کو متاثر کرتی ہے اور اگر دین وایمان میں ہو تو انسان کو دنیا و آخرت دونوںمیں ناکام و رسوا کرتی ہے۔آج ملاوٹ نے مزید آگے بڑھ کر خوبصورت پیکر میں پوشیدہ زہرکی شکل اختیار کرلی ہے، جو انسانی وجود کو فنا کے گھاٹ اتاردیتا ہے۔ایمان و عقائد میں خرافات و بدعات کی آمیزش ہوچکی ہے۔بعض مسلمانوں نے تو نام کے علاوہ ساراطور طریقہ غیر اسلامی اختیار کرلیاہے۔ گویا دودھ میں پانی نہیں بلکہ پانی میں دودھ ملایاگیاہے۔حالانکہ نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
من تشبہ بقوم فہومنہم  (ابوداؤد)
 ’’جوشخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ اسی قوم میں سے ہے۔‘‘
اگر ہم اس ملاوٹ کے مظاہر کا جائزہ لیں تو محسوس ہوگا کہ یہ ہماری عبادات و معاملات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ہمارے احساسات و جذبات اور نظریات میں بھی ملاوٹ ہے۔ ہماری دوستی محبت اورباہمی تعلقات بھی ملاوٹ کے شکارہیں۔کوئی چیز خالص نہیں ہے ۔ ریاکاری اور تصنع کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ اس منظر کی عکاسی کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے اپنے اشعار کے ذریعہ شکوہ کیاہے  ؎
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
اس دور کا انسان بظاہر دوستی تو خوب کرتا ہے مگر کیا اس دوستی میں خلوص ہے؟ کیا وہ کسی کا دوست ہونے کی بنا پر اس کا خیرخواہ ہے ، اس کا رازدار ہے؟یا یہ دوستی صرف ایک دکھاواہے، جس میں نفرت و عناد پوشیدہ ہے؟پڑوسی سے دعاء سلام ہے، مگر کیا اس میں خلوص ہے یا محض رسماً اداکیے جانے والے بول ہیں۔اگرسلام میں خلوص ہے تو مسلمانوں کا باہمی رشتہ مضبوط ہوگااور آپس میں وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند ہوںگے۔ پھر کامیابی کے بلند مقام تک پہنچنے میں کوئی چیز حائل نہ ہوسکے گی۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو پوری طرح اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ اسلام میں ملاوٹ ناپسندیدہ ہے جسے دھوکہ سے تعبیر کیاجاسکتاہے جو حرام ہے۔قرآن کریم کی درج ذیل آیات اس بات کی وضاحت کرتی ہیں ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
‘‘باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بنائو اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔‘‘ (البقرۃ:۴۲)
’’حقیقت میں تو امن ان ہی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔‘‘ (انعام:82)
’’دیکھو ! یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تاکہ اس سے چھپ جائیں۔ خبردار ! جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں ، اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی ، وہ تو اْن بھیدوں سے بھی واقف ہے جو سینوں میں پوشیدہ ہیں۔(ہود:5)
ان کویہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں، یکسوہوکر۔ نماز قائم کریں ،زکوۃ دیں یہی سچا دین ہے۔ (البینۃ)
 ایمانی اخوت اور باہمی تعلقات کے تئیںاسلام نے یہ وضاحت کی ہے کہ ان تعلقات کی بنیاد ایمان اور للہیت ہے جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اہل ایمان باہم اللہ کی خاطر آپس میں محبت کریں گے اور ایک دوسرے کے مخلص و خیرخواہ ہوںگے۔ایسے لوگ روز قیامت عرش الٰہی کے سائے میں ہوںگے۔اس مسئلہ میں ہم سیرت نبوی ﷺ سے بھی رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں ۔
 ایک مرتبہ آپ ﷺ کسی بازار سے گزرے تو وہاں ایک غلے کی بوری میں ہاتھ ڈالا اور اس غلے کو بھیگا ہوا پایا۔ پھر دکاندار سے فرمایا:اے غلہ والے یہ کیا ماجراہے ؟ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول ﷺ، بارش کی وجہ سے گیلا ہوگیا ہے۔فرمایاتو تم نے اسے غلہ کے اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لوگوں کونظر آتا۔ پھر آپ ؐ نے یہ ارشاد فرمایا:جس نے دھوکہ دھڑی کی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔  (ترمذی)
اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ کا وہ ارشاد مزید ہماری رہنمائی کرتاہے، جس میں آپؐنے فرمایا:جس کسی نے دکھاوے کی نماز پڑھی اس نے شرک کیا، جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا  اس نے شرک کیا اور جس کسی نے دکھاوے کی غرض سے صدقہ کیا اس نے شرک کیا۔‘‘(مسند احمد)
مذکورہ حدیث کی روشنی میں اپنے طرز عمل کا جائزہ لیں تو اندیشہ ہے کہ اکثر اوقات ہم خود کو خالی ہاتھ محسوس کریںگے۔ہمارے اعمال میںجھوٹ، فریب ،ریاکاری کی ملاوٹ ہوگی۔ریاکاری کے تعلق سے ہم اکثرغفلت کا شکار ہو جاتے ہیں جب کہ آپؐ نے اسے شرک اصغر قرار دیاہے ۔ واقعہ یہی ہے کہ اس دور میں ایمان کے ساتھ ریاکاری کی آمیزش بڑھ گئی ہے بہت کم دینی امور بلا ریا ، نمود ونمائش کے انجام پاتے ہیں۔ ایسے ریاکار لوگوں کی آخرت میں سخت بازپرس ہوگی ۔
ایک طویل روایت میںنبی کریم ﷺنے ریاکارشہید،عالم اور سخی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ روز قیامت سب سے پہلے ان کا مقدمہ پیش کیاجائے گا اور ان کے نیک اعمال کے باوجود ریاکاری کی آمیزش کے سبب انھیںمنہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیاجائے گا۔(مسلم)
اس کے برعکس مخلص اور صالح لوگوں کا بلندمقام ہوگا ۔ جو اپنی اس خصوصیت کے سبب عرش الٰہی کے سائے میں ہوںگے۔اس تعلق سے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’روز قیامت جب اللہ کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا سات قسم کے لوگ ایسے ہوں گے جو اس سائے میں ہوںگے۔ ایک انصاف پسند حکمراں،وہ جوان جو اللہ کی عبادت میں لگارہا۔وہ شخص جس کا دل مسجد میں اٹکا ہو۔وہ دوآدمی جو اللہ کی  خاطر باہم محبت کریں اور ان کا اکٹھااور جدا ہونا اللہ ہی کی خاطر ہو۔ ایک وہ شخص جسے ایک خوبصورت اورحسب نسب والی عورت نے اپنی طرف بلایا جس پر اس نے کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، ایک وہ شخص جس نے ریاونمود سے پاک ہو کر پوشیدہ طور سے صدقہ کیا حتی کہ اس کے بائیںہاتھ کو بھی معلوم نہیں ہوا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیاہے۔ ایک وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہہ پڑیں۔(متفق علیہ،عن ابی ہریرۃ)
مذکورہ بالا روایت سے ہمیں خلوص کی اہمیت کابخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا ۔ اسلام نے خلوص کو بڑی اہمیت دی ہے۔اسی کے پیش نظر امام بخاریؒ نے اپنی کتاب کا آغاز اس روایت سے کیاہے:
’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ ہر شخص کو اس کی (اچھی یا بری ) نیت کے مطابق اچھا یا برا بدلہ ملے گا۔ پس جس کی ہجرت ،اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہوگی ، اس کی ہجرت ان ہی کی طرف سمجھی جائے گی اور جس نے دنیا حاصل کرنے کے لیے یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے ہجرت کی تو اس کی ہجرت ان ہی مقاصد کے لیے ہوگی‘‘۔معلوم ہوا کہ ہر کام کے لیے اخلاص ضروری ہے۔ ہر نیک عمل میں اللہ کی رضا پیش نظر ہو۔ اگر کسی نیک عمل میں اخلاص کی بجائے کسی اور جذبے کی آمیزش ہوجائے گی تو عنداللہ مقبول نہیں ہوگا۔(ریاض الصالحین ص: 34)
صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں میں یہ چیز ہمیں ملتی ہے کہ ان کے اعمال میں اخلاص ہوتا تھا ۔ وہ ہمیشہ اپنے اعمال کا جائزہ لتے ۔ ذرا سا بھی ریا کا کو ئی شائبہ محسوس ہوتا تو خود ہی اسے منافقانہ عمل قرار دیتے۔ وہ تعداد کی قلت و کثرت کی پرواہ کیے بغیر ہر محاذ پر سینہ سپر ہوتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ دین دنیا میں کامیاب ہوئے۔اس دور کا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بنا جو رہتی دنیا کے لیے نمونہ ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ بھی صالح ،صحت مند اور مثالی معاشرہ ہو تو جس طرح ہم غذا یا دیگر اشیاء میں ملاوٹ کواپنی صحت کے لیے نقصاندہ تصور کرتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں اپنے اعمال کا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ دانستہ و نادانستہ طور پر کہیں ہم اس میں فسق و فجور کی آمیزش تو نہیں کررہے ہیں ، کہیں ہم راہ حق سے بھٹک تو نہیںگئے، جس کا ہمیں احساس بھی نہ ہواہو۔ ہم ہروقت باخبر رہیں اس لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’اے نبیﷺ ! ان سے کہو ، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔‘‘(کہف:104-103)    

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...