Thursday 26 June 2014

Ramazanul Mubarak aur Tazkiya Nafs


رمضان المبارک اور تزکیہ نفس
محب اللہ قاسمی
Mob- 9311523016    
Email: mohibbullah.qasmi@gmail.com

انسان عقل ،جسم اور روح کا مجموعہ ہے۔ ان میں روح کو ایک خاص قسم کی فضیلت حاصل ہے۔یہ روح اگر عقل اور بدن کو متوازن نہ رکھے ،بلکہ خود بہکنے لگے یا شیطانی وساوس اور برائیوں کی طرف مائل ہونے لگے تو اس کا اثر انسان کی پوری شخصیت پر ہوگا ۔پھر وہی انسان جسے اللہ نے اشرف المخلوقات بنایاتھا دنیا کا رذیل اور خسیس سمجھا جائے گا اور  جسے  اللہ نے زمین پر اپنا خلیفہ بناکر دنیا میں بھیجا تھا وہ نفسانی خواہشات کا غلام بن کر شیطان کی ترجمانی کرنے لگے  گا۔
اس لحاظ سے نفس ِانسان کا تزکیہ لازمی ہے تاکہ اس کی شخصیت کا ارتقاء ہواور وہ  اللہ کا قرب حاصل کرکے کامیابی کی منزل پاسکے۔

تزکیہ نفس کیا ہے؟
تزکیہ کے دومعانی ہیں:ایک معنی صفائی ،ستھرائی کے ہوتے ہیں جب کہ دوسرانمو ،زیادتی اور ارتقاکے ہیں ۔ ان دونوں معانی کاحاصل یہ ہوا کہ خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو بغض وحسد،حرص وہوس،نفرت وعداوت، کبر وتفاخر،بخل اور تنگ نظری جیسی گھٹیاصفات سے پاک رکھے اور اپنے اندر صدق وصفا،الفت ومحبت ،شفقت وعنایت ، فراخ دلی وفیاضی جیسی اوصاف حمیدہ کواپنے اندرپیدا کرے اور  پروان چڑھائے یہاں تک  کہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب اورقریبی ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی اختیار کی۔(الاعلیٰ:۱۴(
دوسری جگہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
یقینا فلاح پا گیا (کامیاب ہْوا ) وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا (پاک کیا)اور نامراد ہوا وہ جس نے اْسے دبا دیا۔ (آلودہ کیا)۔(الشمس:۹(
ہم سب جانتے ہیں کہ نفس انسان کاسب سے بڑا داخلی دشمن ہے۔ اگر اسے کنٹرول میں نہ رکھا جائے تو وہ اتنا جری ہوجاتاہے کہ خود انسان پر حاوی ہوکر اسے اپنے مرضی کا شکار بنالیتا ہے اور اس کوسرکشی پر آمادہ کر تاہے،دنیاوی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینے کے لیے اکساتا ہے،جو چاہتا ہے اس سے کرواتا ہے۔یہاں تک کہ  انسان اس کا غلام بن کر اس درجہ گرجاتاہے کہ اسے اپنی حیثیت کابھی احساس نہیں رہتی ۔اسی لیے نبی کریم ﷺ نے شرور نفس سے پناہ مانگی ہے۔
نعوذباللہ من شرورانفسنا و من سیات اعمالنا
ہم اپنے نفس کی شرارتوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔
دوسری جگہ آپ نے نفس کی بہت سی خرابیوں سے اللہ کی پناہ چاہی ہے۔آپ ؐ کاارشادہے:
اللہم انی اعوذبک من العجز والکسل، والجبن و البخل، والہرم عذاب القبر، اللہم آت نفسی تقواہا ووزکہا انت ولیہا و مولاہا، اللہم انی اعوذبک من علمٍ لا ینفع، و من قلب لا یخشع، و من نفس لاتشبع، و من دعوۃ لا یستجاب لہا‘‘ (مسلم(
مذکورہ طویل روایت درحقیقت دعا پر مبنی ہے۔ جس میں خاص طور سے ان برائیوں سے پناہ مانگی گئی ہے، جو عموماً نفس کے بہکاوے میں آ کرانجام دی جاتی ہیں، جس کا انجام انسان کی رسوائی اور ذلت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اس لیے جوشخص نفسپر کنٹرول رکھے گا، اسے متقی اوربہت بڑا بہادر سمجھا جائے گا۔ جس کی طرف آپ ؐ کاارشاد ہے:
لیس الشدید بالصرعۃ ، انما الشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب (بخاری(
پہلوان وہ نہیں جو میدان میں کسی کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو کنٹرول میں رکھے۔
علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں:
’’صوفیاء کرام کا اپنے طریقہ تزکیہ پر اختلاف کے باوجود اس بات پر اتفاق ہے کہ نفس انسانی قلوب کو اپنے پروردگارسے تعلق پیدا کرنے میںرکاوٹ پیدا کرتاہے۔ اور یہ کہ اللہ سبحانہ تعالی بھی ایسے شخص کے قریب نہیں ہوتا (جس کا نفس حائل ہو)جب تک کہ اسے ہٹانہ دیا جائے یا اس پر قابو نہ پالیا جائے۔‘‘  (اغاثۃ اللہقفان من مصادید الشیطان،ج:۱،ص:78-75(
ماہ رمضان نیکیوں کا موسم بہارہے۔اس ماہ مبارک میںہمیںتزکیہ نفس کا بھرپور سامان ملتا ہے۔جس میںتطہیرقلب اور تزکیہ نفس کے اسباب وذرائع سے بھرپور استفادہ کیاجاسکتا ہے۔ایک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے اس ماہ کی تفصیل بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اذادخل رمضان فتحت ابواب السماء و فی روایۃ فتحت ابواب الجنۃ و غلّقت ابواب جہنم و سلسلت الشیاطین و فی روایۃ فتحت ابواب الرحمۃ  (متفق علیہ(
’’جب رمضان کا مہینہ سایہ فگن ہوتاہے ، تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں (اسی سے متعلق دوسری روایت کے  الفاظ کچھ اس طرح ہیں کہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں) اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیںاور شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں۔‘‘ ایک اور روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔‘‘
اس حدیث سے واضح ہوتاہے کہ اس ماہ مبارک میں انسان کو تزکیہ نفس کے لیے ماحول ملتا ہے ،کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی۔ اگر انسان چاہے تو اس مہینے کے ماحول اور لوگوں کے رجوع الی اللہ کی کیفیت اور نیکی کی طرف دوڑنے کا جذبہ دیکھ کر خود اپنا انفرادی پروگرام بناسکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اللہ کی اطاعت اور بندگی کے ذریعہ اپنے نفس کی بگڑی ہوئی حالت کو درست کرسکتاہے۔
رمضان المبارک کی سب سے اہم عبادت روزہ ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ میں خود اس کا بدلہ ہوں۔ اللہ تعالی روزے دار کے بالکل قریب ہوتا ہے حتی کہ وہ اپنے بندے کے روزے کو اس درجہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے خالی معدے سے آنے والی بوکو اپنے لیے مشک سے بھی زیادہ عزیز قرار دیتا ہے۔ اگر دیکھاجائے تو روزے کی حالت میں انسان کا ایسا کیا عمل ہوتا ہے سوائے اس کے کہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک وہ کھانا ،پینا اورجنسی تعلق سے بچتاہے۔ مگر بندے کا شدت سے اس کی اطاعت کرنا اوربلاریا ونمود کے صرف اللہ کی خاطرروزے کی پابندی کرنا حتی کہ اس پابندی کے سبب اپنے اوپر اللہ کے تمام احکام کی پیروی کو لازم کرنے کی جوتربیت اس کے ذریعہ ملتی ہے وہ اصل ہے، جو اس عمل کو بہت محبوب بنادیتی ہے۔  اطاعت الہٰی کے لیے نفس کو تیار کرنا یہی تزکیہ ہے۔رسول اللہ ؐکا ارشاد ہے:
’’جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں‘‘۔       )بخاری ومسلم(
اس روایت کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ روزہ اس لیے نہیں ہے کہ سب رکھ رہے ہیں تو ہم بھی رکھ لیں بلکہ اسے اللہ کا حکم مان کر کہ وہ اس کا اجروثواب عطا کرے گا۔اس نیت کے ساتھ روزہ رکھاجائے تو انسان کے اندر حکم الٰہی کی اطاعت کرنا آسان ہوجاتاہے ،پھراللہ تعالی اس کو ایسی توفیق دیتا ہے کہ پوری زندگی اس کا فرماں بردار بن کر زندگی گزارنے لگتا ہے۔ یہی اس کے پچھلے گناہوں کی معافی کا مطلب ہے۔
رمضان المبارک کے روزے ہمارے نفس کا تزکیہ بایں طور بھی کرتے ہیں کہ ایک انسان جو مالدار صاحب ثروت ہے پھر بھی پورے دن بھوک وپیاس کی شدت سے اسے بھی گزرنا پڑتاہے جس طرح ایک غریب عام دنوں میں کس مپرسی کے ساتھ فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتاہے۔روزہ رکھنے والے کے پاس سب کچھ ہوتا ہے مگر وہ کھاپی نہیں سکتا۔ یہ درحقیقت اس احساس کے جذبہ کو پروان چڑھاتاہے کہ ایسے غریب لوگوں کی ضرورت پوری کی جائے ، ہم ان کے مشکل وقت میں کام آئیں۔ ان کا ہرطرح سے تعاون کیا جائے ۔بہ حیثیت انسان سب اللہ کے بندے اور آدم کی اولاد ہیں۔ اس لیے باہمی کدورت کو ختم کیاجائے۔ یہی کیفیت انسان کے اندر انفاق کے جذبہ کو ابھارتی ہے اور بغض وحسد،حرص وہوس،نفرت وعداوت،کبروتفاخر،بخل اور تنگ نظری ختم کردیتی ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے :
کان رسول اللہ اجودالناس ، وکان اجود مایکون فی رمضان حین یلقاہ جبریل، وکان یلقاہ فی کل لیلۃ من رمضان یدارسہ القرآن، فلرسول اللہ اجود بالخیر من الریح المرسلۃ  (مسلم(
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے۔ یہ سخاوت ماہ رمضان میں مزید بڑھ جاتی تھی جس وقت آپ کی ملاقات جبریل ؑ سے ہوتی تھی، آپؐ کی یہ ملاقات رمضان کی ہر شب میں ہوتی تھی جس میں ان کے ساتھ قرآن کریم کا دورکرتے ، آپ کی سخاوت آندھی سے بھی تیز ہوتی تھی۔ ‘‘
اس ماہ میں روزے دار کے افطارکا نظم کرنا بھی بڑا کار خیر ہے جومذکورہ خوبیوں کے علاوہ انسان کے اندر اللہ کے محبوب بندوں سے محبت کرنے اور کسی روزے دار کی ضرورت پوری کرنے کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من فطر صائما فلہ مثل اجرہ من غیر ان ینقص من اجرالصائم شیئ       )ترمذی(
’’جس شخص نے کسی روزے دار کو روزہ افطار کرایا اس کے لیے روزے دار کے اجروثواب میں کوئی کمی کئے بغیر روزے دار کے برابر ہی اجر وثواب ہے ۔‘‘
اس ماہ کو قرآن کریم سے خاص نسبت حاصل ہے ۔کیوں کہ اسی ماہ مبارک میں قرآن مجید کا نزول ہوا۔ آپؐ حضرت جبریل امین کے ساتھ رمضان کی شب میں قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ تراویح میں مسلسل کلام اللہ کی تلاوت ہوتی ہے۔ سی طرح روزہ اور قرآن کو سفارشی بھی قرار دیا گیا ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ قرآن کریم تزکیہ نفس کے اسباب میں سے ایک اہم بھی ہے۔حـضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی:
’’اور اے ربّ ، ان لوگوں میں خود اِنہی کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو ، جو انہیں تیری آیات سنائے ، ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔‘‘(البقرۃ:129(
قرآن کریم جو پوری انسانیت کے لیے سراپا ہدایت ہے اوررمضان کو قرآن کی مناسبت کے سبب لوگوں میں بکثرت اس کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا جاتاہے۔ مگر تلاوت قرآن پاک کو معانی ومفاہیم کے ساتھ سمجھنا بھی ضروری ہے تاکہ ہم اللہ کے احکام کو سمجھ کر اس پر عمل پیراہوں۔ دل کی صفائی جو تزکیہ نفس کے لیے بے حد ضروری ہے، جس کے لیے تلاوت کلام اللہ اور موت کا ذکر لازم ہے۔آپ ؐ نے ایک مثال سے اس کی وضاحت فرمائی :
ان القلوب لتصدأ کما یصدأ الحدید قیل و ما جلاؤہا قال تلاوۃ القرآن وذکر الموت
  (مشکوۃ، بیہقی شعب الایمان(
’’یقینا دل بھی زنگ آلود ہوتے ہیں جیسے لوہے کو زنگ لگتا ہے۔ پوچھا گیا اس کی صفائی کیسے ہوگی ؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا تلاوت کلام اللہ اور موت کو یاد کرنے سے۔‘‘
اس ماہ مبارک میں لوگ نوافل اور ذکر الہٰی کا بھی خاص اہتمام کرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ میں ثواب کا درجہ بڑھا دیاجاتاہے ، یعنی نوافل کا ثواب فرض کے برابر ملتا ہے اورفرائض کا سترگنااضافے کے ساتھ ثواب ملتاہے۔ اس سے  بھی بندوںمیں اللہ کی قربت پیداکرنے کی تربیت ہوتی ہے ، کیوں کہ انسان جب نماز میں ہوتا ہے۔تو وہ اللہ کے بے حد قریب ہوجاتاہے۔ اسی طرح جب انسان کا دل ذکر الٰہی سیترہوتا ہے تو دل کو زندگی ملتی ہے ورنہ اس پر بھی ویرانی اور پژمردگی پیدا ہوجاتی ہے۔ جب کہ تزکیہ کے لیے اطمینان قلب کے ساتھ دل کا صاف اوراس کا زندہ ہونا بے حد ضروری ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
الا بذکرالله  تطمئنّ القلوب (سورۃ رعد:۲۸(
’’خبردراہو! اللہ کی یادہی وہ چیز ہے جس سے دلوںکواطمینان نصیب ہواکرتاہے۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
مثل الذی یذکرربہ والذی لایذکرربہ مثل الحی والمیت       )متفق علیہ(
’’نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اس کی مثال جواپنے رب کویادکرے اورجونہ یاد کرے زندے اورمردے کی طرح ہے۔‘‘
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس ماہ مبارک کو انسانی تربیت کے لیے ایک تحفہ کے طور پر عطا کیا ہے تا کہ بندہ اس مہینہ میں بھر پور عبادت وریاضت کے ذریعہ اپنے نفس کی خاص طور سے تربیت کرے پھر وہ بقیہ دیگر مہینوں میں اللہ تعالی کے احکام کاپابند ہوکر زندگی بسرکرے اور اپنے نفس کو اوصاف حمیدہ سے آراستہ کرکے خود کوبلند کردارکا حامل بنائے ساتھ ہی ان تمام خصلتوں سے جو نفس کو مردہ بنادیتے ہیں یا اسے ذلت وپستی کی کھائی میں ڈھکیل دیتے ہیں ان سے بالکلیہ اجتناب کرے تاکہ وہ انسان اللہ کا محبوب بندہ ہوجائے۔
٭٭٭

Wednesday 18 June 2014

Khair o Shar ki Kashmakash


خیراورشرکی کش مکش
محب اللہ قاسمی
موبائل:  9311523016

اس کائنات میں چند روزہ زندگی کی مہلت لے کر آنے والا انسان، کشمکش ِ حیات سے گزرکرایک یقینی منزل (موت) تک پہنچتا ہے۔ انسانوں کے طرز زندگی اوران کو حاصل محدوداختیارات کو سامنے رکھاجائے تو بنیادی طور پر انسانوںکو دوگروہوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔
ایک گروہ میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اپنے جیون داتا ، خالق و مالک کی مرضی اور اس کی ہدایات کے مطابق گزاری ،اس پر وہ حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہوں گے اور اپنے اعمالِ خیر کا بدلہ پائیں گے۔ دوسرا گروہ ان کا ہے، جواپنی خواہشات کے پیچھے چل کر اپنے خالق و مالک سے بغاوت کربیٹھے ۔اس دارفناکواپنا آخری ٹھکانا مان کرقدرت کے اصول و احکام کی خلاف ورزی کرتے رہے۔

ان دونوں گروہوں کے طرز عمل کا مزید جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حق سے رسمی وابستگی کافی نہیں۔ بظاہر کامیاب اور لوگوں کی نگاہ میں صالح زندگی بسرکرنے والے بسااوقات عادات واطوار کے اعتبار سے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دراصل اللہ کی ناراضی اورجہنم کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ منافق یا گمراہ لوگوں کے زمرے میں آتے ہیں۔
دوسری جانب ایسے مخلصین بھی ہوتے ہیں جو دنیا میں بظاہربہت ہی معمولی زندگی بسرکرتے ہیں ،ان کی زندگی کس مپرسی سے دوچار ہوتی ہے اور مختلف آزمائشوں سے بھری ہوتی ہے۔ان کے ان حالات پر لوگ ترس بھی کھاتے ہیں مگر ان کی سعی رضاء الٰہی سے ہم کنار ہوتی ہے۔وہ ایمانی غیرت و حمیت سے سرشارہوتے ہیں۔
        ہم دیکھتے ہیں کہ معیار زندگی اور ٹھاٹ باٹ کی دوڑ میں بہت سے لوگ قدرت کے اصول اور اپنے خالق و مالک کی ہدایات کوبالائے طاق رکھ کربداخلاقی اور بدعنوانی کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں ۔ غضب بالائے غضب کہ یہ لوگ اسی کو کامیاب زندگی قرار دیتے ہیں۔ایسے لوگوں کی جھوٹی شان وشوکت اورنام نہاد عزت وعظمت کو دیکھ کر دوسروں میں ان جیسا بننے کی خواہش ابھر نے لگتی ہے ۔اس کے نتیجے میں شرور وفتن اورفساد و بگاڑ کا سیلاب تیزی سے آتا ہے جو اچھے اوربرے تمام لوگوں کو اپنے چپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اسی کا نتیجہ فساد فی الارض ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
     خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے اْن کو اْن کے بعض اعمال ،کا شاید کہ وہ باز آجائیں۔(الروم:۴۱(
یہ واقعہ ہے ہر فرد سماج سے جڑا ہواہوتا ہے ، لہذا اس کے اثرات سے وہ بچ نہیں سکتا۔ شر کا غلبہ ہو تو ہر طرف ہاہاکار مچنے لگتی ہے۔ لوگوں کوحق معلوم ہوتا ہے لیکن برائیوں کی روک تھام کی کوشش نہیں کرتے ۔یہ ایک بڑی ذمہ داری سے منہ موڑنا ہے۔ اللہ تعالی نے امت مسلمہ کے ہر فرد پریہ ذمہ داری عائد کی ہے۔ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ اچھے بھلے انسانوں کو بہترین امت کا خطاب عطا کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ (آل عمران:110(
’’تم بہترین امت ہوجوسارے انسانوںکے لیے وجودمیں لائی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہواوربرائی سے روکتے ہو اوراللہ پر کامل ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘  (آل عمران:110)
نبی کریم ﷺ اور ان کے جانثار صحابہ کرام ؓنے اس فریضہ کی بھرپور ادائیگی کے ذریعے واضح کردیا تھاکہ یہ امت اس وقت تک بہترین امت رہے گی جب تک کہ بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنے کاکام انجام دے گی۔نبی کریم ﷺ نے برائی سے روک تھام کے لیے درجات متعین کیے ہیں جو آپؐ کے اس ارشاد سے واضح ہیں:
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ، فان لم یستطع فبلسانہ، فان لم یستطع فبقلبہ وذالک اضعف الایمان(مسلم(
’’جو شخص تم میں سے کسی برائی کو (ہوتے )  دیکھے، تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل (روک) دے۔ اگر (ہاتھ سے روکنے کی) طاقت نہیں ہے تو زبان سے (اس کی برائی کو واضح کردے) اگر اس کی بھی طاقت نہ ہوتو دل سے(اسے براجانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔(مسلم)‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ جب امت نے اس ذمہ داری سے انحراف کیاتووہ مختلف مشکلات سے دوچار ہوئی۔پھر لاکھ دعائیں کی جائیں مگر وہ قبول نہیں ہوتیں ۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:
والذی نفسی بیدہ! لتأمرن بالمعروف، ولتنہون عن المنکر، او لیوشکنّ اللہ ان یبعث علیکم عقاباً منہ، ثم تدعونہ فلایستجاب لکم (ترمذی)
’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم ضرور نیکی کاحکم کرو اور ضرور برائی سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالی تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیج دے، پھر تم اس سے دعائیں کروگے لیکن وہ قبول نہیں کی جائیںگی۔‘‘(ترمذی)
جب تک بھلائیوں کا فروغ اوربرائیوں پر روک نہ ہو،تو معمولی چھوٹے گناہ بڑھ کربھیانک اور سنگین شکل اختیار کرلیتے ہیں پھر وہ انسانوں کوخدا کا باغی بنا تے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اہل ایمان مسلمان ہونے پر فخر کرنے کے بجائے احساس کمتری کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ جب کہ سربلندی اور کامیابی کی اصل اساس اسلام اور احکام اسلام کی پابندی ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر(بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنا) وہ فریضہ ہے جسے انجام دے کر یہ امت ایک صالح معاشرے کا قیام کرسکتی ہے ، تاریکیوں کا پردہ چاک کرسکتی اور پوری دنیا کو نورِ حق سے جگمگاسکتی ہے۔ اس فریضہ کو ترک کردینے کے نتیجے میں برائیوں سے لت پت ماحول نے لوگوں میں اچھے برے کی تمیز ختم کردی ہے۔ خیر اپنے ہی ماننے والوں میں اجنبی بن کر رہ گیا ہے ،جب کہ شر اپنے فتنہ انگیزیوں کے ساتھ ماحول پر چھاجانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کش مکش میں اگر خیر اجنبی بنا رہا ،اسے نہیں اپنایاگیااوراسے فروغ نہیں ملا تو یہ دنیا شروروفتن کی آماجگاہ بن کررہ جائے گی، جس میں انسانی گروہ تباہ برباد ہوجائے گا۔ضرورت ہے کہ ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہوں۔
اس کائنات میںچند روزہ زندگی کی مہلت لے کر آنے والا انسان، کشمکش ِ حیات سے گزرکرایک یقینی منزل (موت) تک پہنچتا ہے۔ انسانوں کے طرز زندگی اوران کو حاصل محدوداختیارات کو سامنے رکھاجائے تو بنیادی طور پر انسانوںکو دوگروہوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔
ایک گروہ میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اپنے جیون داتا ، خالق و مالک کی مرضی اور اس کی ہدایات کے مطابق گزاری ،اس پر وہ حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہوں گے اور اپنے اعمالِ خیر کا بدلہ پائیں گے۔ دوسرا گروہ ان کا ہے، جواپنی خواہشات کے پیچھے چل کر اپنے خالق و مالک سے بغاوت کربیٹھے ۔اس دارفناکواپنا آخری ٹھکانا مان کرقدرت کے اصول و احکام کی خلاف ورزی کرتے رہے۔

ان دونوں گروہوں کے طرز عمل کا مزید جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حق سے رسمی وابستگی کافی نہیں۔ بظاہر کامیاب اور لوگوں کی نگاہ میں صالح زندگی بسرکرنے والے بسااوقات عادات واطوار کے اعتبار سے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ دراصل اللہ کی ناراضی اورجہنم کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ منافق یا گمراہ لوگوں کے زمرے میں آتے ہیں۔
دوسری جانب ایسے مخلصین بھی ہوتے ہیں جو دنیا میں بظاہربہت ہی معمولی زندگی بسرکرتے ہیں ،ان کی زندگی کس مپرسی سے دوچار ہوتی ہے اور مختلف آزمائشوں سے بھری ہوتی ہے۔ان کے ان حالات پر لوگ ترس بھی کھاتے ہیں مگر ان کی سعی رضاء الٰہی سے ہم کنار ہوتی ہے۔وہ ایمانی غیرت و حمیت سے سرشارہوتے ہیں۔
        ہم دیکھتے ہیں کہ معیار زندگی اور ٹھاٹ باٹ کی دوڑ میں بہت سے لوگ قدرت کے اصول اور اپنے خالق و مالک کی ہدایات کوبالائے طاق رکھ کربداخلاقی اور بدعنوانی کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں ۔ غضب بالائے غضب کہ یہ لوگ اسی کو کامیاب زندگی قرار دیتے ہیں۔ایسے لوگوں کی جھوٹی شان وشوکت اورنام نہاد عزت وعظمت کو دیکھ کر دوسروں میں ان جیسا بننے کی خواہش ابھر نے لگتی ہے ۔اس کے نتیجے میں شرور وفتن اورفساد و بگاڑ کا سیلاب تیزی سے آتا ہے جو اچھے اوربرے تمام لوگوں کو اپنے چپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اسی کا نتیجہ فساد فی الارض ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
     خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے اْن کو اْن کے بعض اعمال ،کا شاید کہ وہ باز آجائیں۔(الروم:۴۱(
یہ واقعہ ہے ہر فرد سماج سے جڑا ہواہوتا ہے ، لہذا اس کے اثرات سے وہ بچ نہیں سکتا۔ شر کا غلبہ ہو تو ہر طرف ہاہاکار مچنے لگتی ہے۔ لوگوں کوحق معلوم ہوتا ہے لیکن برائیوں کی روک تھام کی کوشش نہیں کرتے ۔یہ ایک بڑی ذمہ داری سے منہ موڑنا ہے۔ اللہ تعالی نے امت مسلمہ کے ہر فرد پریہ ذمہ داری عائد کی ہے۔ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ اچھے بھلے انسانوں کو بہترین امت کا خطاب عطا کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ (آل عمران:110(
’’تم بہترین امت ہوجوسارے انسانوںکے لیے وجودمیں لائی گئی ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہواوربرائی سے روکتے ہو اوراللہ پر کامل ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘  (آل عمران:110)
نبی کریم ﷺ اور ان کے جانثار صحابہ کرام ؓنے اس فریضہ کی بھرپور ادائیگی کے ذریعے واضح کردیا تھاکہ یہ امت اس وقت تک بہترین امت رہے گی جب تک کہ بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنے کاکام انجام دے گی۔نبی کریم ﷺ نے برائی سے روک تھام کے لیے درجات متعین کیے ہیں جو آپؐ کے اس ارشاد سے واضح ہیں:
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ، فان لم یستطع فبلسانہ، فان لم یستطع فبقلبہ وذالک اضعف الایمان(مسلم(
’’جو شخص تم میں سے کسی برائی کو (ہوتے )  دیکھے، تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل (روک) دے۔ اگر (ہاتھ سے روکنے کی) طاقت نہیں ہے تو زبان سے (اس کی برائی کو واضح کردے) اگر اس کی بھی طاقت نہ ہوتو دل سے(اسے براجانے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔(مسلم)‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ جب امت نے اس ذمہ داری سے انحراف کیاتووہ مختلف مشکلات سے دوچار ہوئی۔پھر لاکھ دعائیں کی جائیں مگر وہ قبول نہیں ہوتیں ۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے:
والذی نفسی بیدہ! لتأمرن بالمعروف، ولتنہون عن المنکر، او لیوشکنّ اللہ ان یبعث علیکم عقاباً منہ، ثم تدعونہ فلایستجاب لکم (ترمذی)
’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم ضرور نیکی کاحکم کرو اور ضرور برائی سے روکو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالی تم پر اپنی طرف سے کوئی عذاب بھیج دے، پھر تم اس سے دعائیں کروگے لیکن وہ قبول نہیں کی جائیںگی۔‘‘(ترمذی)
جب تک بھلائیوں کا فروغ اوربرائیوں پر روک نہ ہو،تو معمولی چھوٹے گناہ بڑھ کربھیانک اور سنگین شکل اختیار کرلیتے ہیں پھر وہ انسانوں کوخدا کا باغی بنا تے ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اہل ایمان مسلمان ہونے پر فخر کرنے کے بجائے احساس کمتری کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ جب کہ سربلندی اور کامیابی کی اصل اساس اسلام اور احکام اسلام کی پابندی ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر(بھلائی کا حکم اور برائی سے روکنا) وہ فریضہ ہے جسے انجام دے کر یہ امت ایک صالح معاشرے کا قیام کرسکتی ہے ، تاریکیوں کا پردہ چاک کرسکتی اور پوری دنیا کو نورِ حق سے جگمگاسکتی ہے۔ اس فریضہ کو ترک کردینے کے نتیجے میں برائیوں سے لت پت ماحول نے لوگوں میں اچھے برے کی تمیز ختم کردی ہے۔ خیر اپنے ہی ماننے والوں میں اجنبی بن کر رہ گیا ہے ،جب کہ شر اپنے فتنہ انگیزیوں کے ساتھ ماحول پر چھاجانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کش مکش میں اگر خیر اجنبی بنا رہا ،اسے نہیں اپنایاگیااوراسے فروغ نہیں ملا تو یہ دنیا شروروفتن کی آماجگاہ بن کررہ جائے گی، جس میں انسانی گروہ تباہ برباد ہوجائے گا۔ضرورت ہے کہ ہم خوابِ غفلت سے بیدار ہوں۔


Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...