Wednesday 6 August 2014

عید الفطر- اظہارتشکراور خوشی کا دن

عید الفطر- اظہارتشکراور خوشی کا دن
عربی مہینہ شوال کی پہلی تاریخ کو  مسلمان ’عیدالفطر‘ مناتے ہیں۔یہ ماہ رمضان کے روزوں کی تکمیل اور اس تربیتی مہینے میں عبادات کی انجام دہی کے بعد اظہارتشکر کے طور پر خوشی منانے کا دن ہے۔ یہ ایک ایسااسلامی تیوہار ہے ،جو اپنے دامن میں فضل ورحمت ، فرحت ومسرت اور باہمی مؤدت ومحبت کا سامان لیے ہوئے ہے۔ یہ امت مسلمہ کے لیے سچی خوشی کا موقع ہے۔ اسی وجہ سے اس دن کا خاص طور سے اہتمام کیاجاتا ہے۔
عیدکے مشاغل
صبح کو غسل کرنا، نیا اور عمدہ لباس زیب تن کرنا،خوشبولگانا، دوستوں اور پڑوسیوں سے ملنا جلنا،خوشیاں منانا،مہمان نوازی کرنا اور جائز حدودمیں رہتے ہوئے مسرت کا بھرپور اظہار کرنا اس دن کے پسندیدہ مشاغل ہیں۔اس دن کے بارے میںنبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:  
لکل قوم عیدا وہذا عیدنا (مسلم)
’’ہر قوم کے لیے خوشی منانے کا دن ہے اور یہ ہمارے خوشی منانے کا دن ہے۔‘‘
 اس دن کا روزہ رکھنا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص اس دن خوشی منانے کے بجائے روزہ رکھ کر خود کو زیادہ متقی وپرہیزگار ظاہر کرنے کی کوشش کرے تو ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں نافرمان مانا جائے گا۔ جن پانچ ایام میں روزہ رکھنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ان میں ایک دن عید الفطر کا بھی ہے۔ اسی بنا پر علماء کرام کی رائے ہے کہ عید کے دن خوشیاںمنانا دین کی علامات (شعائردین) میںسے ہے۔ عید کے دن خوشی کے اس موقع کو فراموش کرنا، رنج والم کی کی فضا طاری کرنا اور مایوس رہنا کسی طرح مناسب نہیںہے۔اہل ایمان کا باہمی رشتہ اخوت پر مبنی ہوتاہے ، جوکلمہ لاالہ الا اللہ سے قائم ہوتی ہے۔لہذا عید سعید کے اس موقع پر کوشش یہ ہو نی چاہیے کہ ہم اپنے آس پڑوس میں کسی یتیم ، غریب بے بس اور محتاج کو تنہا نہ چھوڑ دیں، بلکہ اس کے احوال دریافت کریں،حتی الامکان اپنے تعاون سے اس کی ضرورت پوری کریں ۔اسی لیے زکوۃ اور صدقۂ فطرکا حکم دیا گیاہے تاکہ نادار بھی عید کی خوشی میں برابر کا شریک ہوسکے اور کوئی مسلمان عید کی دوستی اورانعامات سے محروم نہ ہو۔
بغض وعنادسے پرہیز
اسلام میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان سے قطع تعلق یا دل میں کینہ ،بغض وعداوت کے جذبات کی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خوشی کے اس دن میں جس طرح ہم غسل کرکے بدن صاف کرتے ہیں،نیالباس پہنتے ہیں ،ٹھیک اسی طرح اپنے دل کی  صفائی کی طرف توجہ بھی کرنی چاہیے۔ ہم اپنے بھائی کاخیرمقدم اور استقبال کریں۔ اس معاملے میں خود سے پہل کرنا زیادہ بہتر ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادہے : حقیقی صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو بدلہ چکائے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کی قرابت کو منقطع کر دیاجائے تو وہ اس قرابت کو قائم رکھے۔ (بخاری) اس لیے رشتہ داری کو نبھاتے ہوئے اعزا و اقارب سے ملنا ، خاص طور سے والدین سے ملاقات کرنا اور ان کے لیے عید کے فرحت وسرور کا سامان مہیا کرنا لازم ہے۔ یہ صلہ رحمی نہ صرف اس شخص کی عیدکو دوبالا کردیتی ہے بلکہ اس کے لیے کشادگی ٔ رزق اور عزوشرف کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:’’جو شخص یہ چاہتاہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی زندگی کی مہلت دراز ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک اور ان کے ساتھ احسان کرے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
عید کے دن مسنون عمل
            عیدگاہ میں جن لوگوں سے ملاقات ہو ان کو مبارکباد پیش کرنے کا بھی اہتمام کریں۔ جیسا کہ صحابہ کرام کامعمول تھا جب وہ عید کے دن آپس میں ملتے تو کہتے :تقبل اللہ منا ومنک (مسنداحمد)اللہ تعالی ہماری اور آپ کی (نیک کوششوںکو) قبول فرمائے۔عید کی مبارک باد کا تبادلہ باہمی محبت کے فروغ کا ذریعہ ہے ۔ عید کے دن تکبیر کہتے ہوئے عید گاہ میں ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے آنا مسنون عمل ہے۔ اس کی بہت سی حکمتیں بیان کی جاتی ہیں،مثلانیک کام کرتے ہوئے قدم مختلف راہوں پرپڑیںساتھ ہی زیادہ لوگوںسے ملنے کا موقع ملے اور اظہار مبارک باد کا عمل انجام دیا جائے۔
عید الفطر کی حقیقی خوشی
عید کی خوشی کن لوگوں کے لیے ہے؟کیا ان کے لیے جنھوںنے ایک مبارک مہینہ پایا اور اسے گنوادیااور اس سے استفادے کے لیے کوئی لمحہ نہ نکال سکے بلکہ خواہشات کی پیروی میں محرمات کے مرتکب ہوئے ؟نہیں ! بلکہ اس دن کی خوشی کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں ، جنھوںنے رمضان کے روزے رکھے،قیام لیل کا اہتمام کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے لیے اعمال صالحہ کی طرف سبقت لے جانے کی سعی مسلسل کرتے رہے۔جیساکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت(متفق علیہ) جس طرح انھیں رمضان میں روزہ افطار کرتے وقت اطاعت الٰہی پر ایک قسم کی فرحت میسر ہوتی ہے ،ٹھیک اسی طرح رمضان المبارک میں عبادات کو بحسن خوبی انجام دینے کے بعد اس ماہ کے اختتام پر ثواب کی امید میں انھیں ایک خوشی ملتی ہے۔ یہ اس کا اجرہے اور اللہ نہیں ہوتا اور اس روزے دار کی طرح ہے جو ناغہ نہیں کرتا(بخاری:۵۳۵۳) دوسری طرف عید الفطر کے موقع پر غریب بھی صبر و شکر سے کام لے کر قناعت کا تاج اپنے سر پر رکھیں۔اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ کریں کہ وہ ہمیں کیوں نہیں دیتا اور نہ اپنے بیوی بچوں کو دوسروں کے مال پر حسرت کرنے دیں۔پیوند لگے کپڑوں میں تقوی وصبر کے ساتھ جو شان ہے وہ ریشمی لباس میں نہیں۔اللہ تعالیٰ نے جن کو غریب بنایا ہے وہ مالداروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور وہ انبیاء کرام کے طریقے پر ہیں، اگر وہ صبر و شکر سے کام لیں اور لالچ یا سوال کی ذلت نہ اٹھائیں۔حضرت اسامہ بن زیدؓ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:’’میںجنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو (میں نے دیکھا کہ) اس میں داخل ہونے والے زیادہ ترمساکین ہیں اور مال دار لوگوں کو (حساب کے لیے) روکا ہوا تھا۔البتہ جہنمیوں کو جہنم کی طرف لے جانے کا حکم دے دیا گیا تھا(بخاری:۵۱۹۶) اس لیے عید کے دن اللہ تعالیٰ سے شکوہ شکایت کرنے کی ضرورت نہیں۔عام دن کی طرح یہ دن بھی گزر جائے گا۔رب کعبہ کی قسم دنیا کی رنگینیاں انہی کو ستاتی ہیں جو موت سے غافل ہیں اور اسی کو کل سمجھتے ہیں ، اس لیے ایک دن کی خاطر غریبی کو داغدار نہ ہونے دیں۔ اللہ تعالیٰ اس کا بہترین اجر عطا فرمائے گا۔(انشاء اللہ )
عید کی سنتیں:
غسل کرنا(۲)حسبِ استطاعت نئے کپڑے پہنا(۳)خوشبو لگانا(۴)کھجور کھانا،حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمؐ عیدالفطر کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں تناول فرماتے تھے۔ عموماًان کی تعداد طاق ہوتی تھی۔ (بخاری:۹۵۳۰)
(۵)عید گاہ پیدل جانا اور ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ اس سے ہر قدم پر ثواب ملتا ہے اور غیروں کو مسلمانوں کی اجتماعیت کا بھی احساس ہوتا ہے۔ حضرت ابورافعؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ عید کی نماز کے لیے پیدل تشریف لے جاتے تھے اور جس راستے سے جاتے تھے ،اس کے علاوہ دوسرے راستے سے واپس آتے تھے(ابنِ ماجہ:۱۳۰۰(
(۶) راستے میں تکبیریں (اللہ اکبر اللہ اکبر،لاالہ الا اللہ،واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد)پڑھتے ہوئے جانا ،ہم سب کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے،نوجوان طبقہ عموماً آپس میں ہوہااور دنیا بھر کی بکواس کرتا ہوا جاتا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد ہو اور دوسرے محسوس کریںکہ آج کوئی خاص دن ہے ۔اس سے غیروں پر رعب بھی پڑتا ہے۔یہ نہیں کہ مرے مرے انداز میں منہ لٹکائے چلے جا رہے ہیں۔
(۷) خطبہ سننا:نمازِ عید الفطر کے بعد امام خطبہ دیتا ہے ،اس کو سن کر جانا چاہیے،اکثر لوگ نماز ختم ہوتے ہی بھاگنے لگتے ہیں۔خطبے میں عید الفطر سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے،اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی معافی مانگی جاتی ہے، عالمِ اسلام اور بنی نوع انسانیت کی بھلائی کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں،جن کو قبولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔حدیثِ نبوی ہے:
نبیﷺ نے فرمایا! جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے اور پوچھتا ہے: اے میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزا ہے جو اپنا کام مکمل کر دے ؟فرشتے عرض کرتے ہیں:اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہےـ: ’’اے میرے فرشتو!میرے بندوں اور بندیوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ (نمازِ عید کی صورت میں) دعا کے لیے نکل آئے ہیں،میری عزت و جلال،میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم!میں ان کی دعائوں کی ضرور قبول کروں گا،اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے: بندو!  گھروں کو لوٹ جائو، میں نے تمہیں بخش دیااور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔نبیِ کریم ﷺ فرماتے ہیں! پھر وہ بندے (عید کی نماز سے) اس حال میں لوٹتے ہیں کہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔
خواتین کا عیدگاہ میں جانا
عید کی نماز کے لیے خواتین اور بچے بچیوں کو بھی لانا چاہیے۔حضرت امِ عطیہ ؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی کے روز پردہ نشین دوشیزائوں،چھوٹی بچیوںاور حائضہ عورتوں کو عیدگاہ کے لیے نکالیں البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں گی ، اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں گی۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ :بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جن کے پاس چادر نہیں ہوتی۔فرمایا! جس عورت کے پاس چادر نہ ہو ،وہ اپنی بہن سے لے لے(بخاری:۹۷۴(





[1]

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...