Monday 29 September 2014

قربانی کا مقصد،تقرب الٰہی اور تقوی کا حصول


                                        محب اللہ قاسمی 

قربانی ایک مختصر لفظ ہے ،لیکن انسانی زندگی میں  اس کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔  اس کی ضرورت انسان کو اپنی زندگی کے مختلف مقامات پر اور  مختلف انداز میں  پڑتی ہے۔ ساتھ ہی ہر قربانی کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصدہوتاہے ۔ انسان جواپنی زندگی زندگی کے مختلف مسائل میں  الجھا ہوتاہے،اسے قدم قدم پر قربانی دینی پڑتی ہے اور اس کے پیچھے اس کا کوئی نہ کوئی مقصد چھپا ہوتا ہے اور  مقصد جتناعظیم ہوتاہے قربانی بھی اتنی ہی بڑی ہوگی۔  مثلاًانسانی زندگی کا مقصد اطاعت الٰہی ہے جوتقرب الٰہی اور کیفیت تقوی کے بغیرممکن نہیں  اور  یہ تقرب الٰہی ،کیفیت تقوی کے بغیرحاصل نہیں  ہوتی۔  لہذا اطاعت کے لیے قربانی ضروری ہے۔
لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُم
’’نہ ان (قربانی کے جانوروں )کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں  نہ خون۔ مگراسے تمہارا تقویٰ پہنچتاہے۔ ‘‘  (سورۃ الحج:۳۷)

اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہے کہ اللہ کو مقصودان جانوروں کا خون یا ان کاگوشت نہیں  ہے ، بلکہ وہ اپنے بندوں کا تقوی دیکھنا چاہتاہے کہ وہ خداپر کس قدر یقین رکھتے ہیں  ؟اس کے احکام کی کس قدرپابندی کرتے ہیں اور  کس طرح وقت ضرورت قربانی پیش کرنے کو تیاررہتے ہیں ؟ تقوی کی صفت اللہ کوبے حدمحبوب ہے ، اسی صفت سے انسان نیک اعمال کوترجیح دے کرانھیں  اختیارکرتاہے۔  اگرکوئی شخص کسی عمل کو تقوی کی صفت کے ساتھ انجام دیتاہے تووہ خالصۃً للہ ہوتاہے۔ اس میں  ریا کا شائبہ نہیں  ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقوی کو ہی روزے جیسی اہم ترین عبادت کا مقصدقراردیاہے۔ اس طرح  ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ المُتَّقِیْنَ      ’’اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں (قربانی) قبول کرتاہے۔ ‘‘(سورۃ مائدہ:۲۷)

عیدالاضحی کا مقصدبھی جذبۂ قربانی کو بیدار کرنا اور اپنی عزیزسے عزیزترچیز کوحکم ربانی کے مطابق رضاء الٰہی کے حصول میں  قربان کرنے کا حوصلہ پیداکرنا یہی قربانی ہے ۔ اس سے ان کو یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی مقصد زندگی کے تمام شعبوں  میں  اپنی خواہشات پر رب کائنات کی مرضیات کو ترجیح دے۔  یہ دراصل انسان کی عملی زندگی کا ایک امتحان ہے، جس سے اس کے اندرنکھار اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ عربی کا مقولہ ہے۔ عندالامتحان یکرم الانسان اویہان ۔  جوشخص جس قدر آزمائش سے دوچارہوگا اور  اس میں  وہ خداکے احکام کو ترجیح دے گا وہ شخص اسی قدر اللہ کا محبوب اور اس کا عزیز تربندہ ہوگا۔ قربانی خداکے تقرب کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ جو قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے۔  قرآن کہتاہے:
وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیْمَۃِ الْأَنْعَامِ فَإِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ فَلَہُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ  o      ’’ہرامت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقررکردیاہے۔  تاکہ (اس امت کے) لوگ ان جانوروں  پر اللہ کا نام لیں  جواس نے ان کو بخشے ہیں ۔  (سورۃ الحج:۳۴)
اسے سنت ابراہیمی سے بھی تعبیرکیاجاتاہے۔ صحابہ ؓ نے نبیؐ سے پوچھا ،یارسول اللہ ؐ! یہ قربانی کیاچیز ہے؟آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:’’ یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ ‘‘  (ترمذی،ابن ماجہ)

قربانی کے مفہوم کو ہم حضرت ابراہیم ؑ کی بے مثال ،قابل رشک زندگی سے سمجھ سکتے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک شخص کوجس سے جتنی محبت اور  لگاؤ ہوتا ہے، وہ اسی طرح اپنے محبوب کا امتحان بھی لیتاہے ۔  اس کرہ ارضی پررونماہونے والے تاریخی واقعات پر ہم نگاہ ڈالیں توہمیں  بے شمار عاشقوں کے عشق کی رنگینیاں ، دلفریباں  اور جلوہ سامانیاں دکھائی دیتی ہیں ۔  عقیدت ومحبت ،الفت ومودت کی انگنت کہانیاں سننے کو ملتی ہیں اور عشق کے جنون میں  ڈوبے تخت وتاج ، مال واسباب لٹادینے والے ،پتھروں ،چٹانوں سے دودھ کی نہریں  جاری کرنے میں  اپنی تمام ترجدوجہد صرف کردینے والے عشق کے شہنشاہوں کی ہزاروں داستانیں  تاریخ میں  ملتی ہیں ۔

مگرفدائیت وللہیت ،استقامت وثبات قدمی،ابتلاوآزمائش سے لبریز،دل سوز،سبق آموزاورناقابل فراموش داستان جوخلیل اللہ کی ہے اور جوایثاروقربانی ، اطاعت ربانی اور مشیت خداوندی کی تعمیل کے جذبہ کی کار فرمائی ، اس عاشق الٰہی میں  ملتی ہے۔ دیگرعشاق کائنات اس سے بالکل خالی وعاری ہیں ۔

اس عاشق نے اپنے محبوب کی تلاش میں حسین کائنات اور ا س کی اور  گل ا فشانیوں کوچھان مارا ۔ اس تلاش وجستجومیں  اچانک اس کی نگاہ ایک تاریک شب کی سیاہ چادرمیں  لپٹے ہوئے ،ایکستارے پرپڑی توفرحت و انبساط سے اس کا حسین چہرہ کھل اٹھا ۔ اپنے جذبات  کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کی زبان پر ’’ہذاربی‘‘ کے کلمات آگئے۔ مگرجونہیستارہ اس  کی نگاہ سے اوجھل ہوا فوراً اس کی زبان حرکت میں  آئی اور  صاف طورپراس نے’’لااحب الافلین‘‘کہہ کر بے زاری کا اظہارکیا اس کے بعد اس نے روشن چاند دیکھا تو ’’ ہذاربی ‘‘(یہ میرارب ہے) کہہ کرپکاراٹھا، لیکن جب ہوہ بادلوں کی اوٹ میں  چلاگیا تو اس نے اس کو بھی خداماننے سے انکار کردیا۔  اس کے بعد جیسے ہی روشن صبح نے انگڑائی لیتے ہوئے اپنے چہرے سے نقاب کشائی کی توایک چمکتادمکتااورآفتاب اپنی تابناکی کے ساتھ رونماہوا،اس کے اس انداز اور  بڑے پن کودیکھ وہ ان الفاظ میں گویاہوئے’’ہذاربی ہذا اکبر‘‘ ۔ یہ میرا رب ہے ، یہ بہت بڑا ہے۔ مگریہ کیا سورج بھی غروب ہوگیا۔ یہ دیکھا تو اس نے اس سے بھی بے زاری ظاہر کردیا اور اعلان کردیاکہ یہ میرا رب نہیں  ہوسکتا۔

اس طرح اس عاشق نے اپنے خالق ومالک کو ڈھونڈلیا اور کہا کہ میرا رب تووہ ہے جس نے سورج،چاند ، ستارے اور کائنات کی تمام چیزوں کوپیداکیا ہے جو سارے جہاں  کا مالک ہے اور دنیا کی ہرچیز اس کی محتاج ہے۔ جب اس نے اپنے موحدہونے(خداکوایک ماننے والا)کا اعلان کیاتو سارے لوگ اس کے خلاف ہوگئے ۔  اب اللہ کی طرف سے آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہواتوہرجگہ آپ اپنی قربانی  پیش کرتے چلے گئے ۔ چنانچہ بت پرست گھرانے کاہوتے ہوئے ،بت شکن ہونے کے سبب انھیں  بادشاہ وقت نمرود کے حکم سے آگ میں  ڈالاگیا۔ مگرہوا یہ کہ جو آگ شعلہ اگل رہی تھی وہ آپ کے لیے گلشن رحمت بن گئی، پھراللہ نے بڑھاپے کی عمر میں  آپ کوایک نیک اور بردباراولادعطاکی ۔ لیکن پھر اس کے معاملہ میں  بھی آزمائش کی۔ اسے اولاً توغیرذی ذرع وادی میں  چھوڑدینے کا حکم ہوا۔ جب اس آزمائش میں  بھی آپ  کامیاب ہوگئے اور یہ لڑکاجب دوڑنے کھیلنے کی عمرکوپہنچا۔ تواس کو بھی راہ خدامیں قربان کرنے کا حکم ہوا۔ قرآن کریم نے کچھ اس انداز سے اس کا نقشہ کھینچاہے:
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّیْ أَرَی فِیْ الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ إِن شَاء  اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ o

’’وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑدھوپ کرنے کی عمرکوپہنچ گیاتو(ایک روز) ابراہیمؑ نے اس سے کہا’’بیٹا میں  خواب میں  دیکھتاہو کہ تجھے ذبح کررہاہوں ۔  اب توبتا تیرا کیاخیال ہے؟‘‘اس نے کہا’’اباجان !جوکچھ آپ کوحکم دیاجارہاہے اسے کرڈالیے۔  آپ انشاء اللہ مجھے صبرکرنے والوں میں  سے پائیں  گے۔ (سورۂ الصافات:۱۰۲)

آپ ؑاپنے جذبات وخواہشات کو بالائے طاق رکھ اس عظیم قربانی کی انجام دہی کے لیے بھی تیارہوگئے ۔ بچے کو ذبح کرنے کے لیے لٹایا اور گردن پر چھری پھیرنے کے لیے تیارہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب بندے کی اطاعت کا یہ جذبہ بے حد پسندآیا اور فرمایا:
فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ oوَنَادَیْْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمُoقَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّاکَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنoإِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلَاء الْمُبِیْنُ o

 ’’آخرکو جب ان دونوں   نے سرتسلیم خم کردیا اور ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کوماتھے کے بل گرادیا۔ اور ہم نے ندادی کہ اے ابراہیم ، تونے خواب کو سچ کردکھایا۔   ہم نیکی کرنے والوں  کو ایساہی جزادیتے ہیں ۔  یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی۔ ‘‘   (سورۃ الصافات:۱۰۳۔ ۱۰۶)

مگراللہ کا مقصدتواس جذبۂ اطاعت کو دیکھنا تھا ۔  بچے کی قربانی مقصودنہ تھی۔  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَفَدَیْْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ  oوَتَرَکْنَا عَلَیْْہِ فِیْ الْآخِرِیْنَ  oسَلَامٌ عَلَی إِبْرَاہِیْمَ  oکَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ  o
’’اورہم نے ایک بڑی قربانی فدیہ میں  دے کر اس بچے کو چھڑالیا۔  اور اس کی تعریف وتوصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں  میں  چھوڑدی۔  سلام ہے ابراہیم پر، ہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی جزادیتے ہیں ۔ ‘‘               (سورۃ الصافات:۱۰۷۔ ۱۱۰)

اگر غورکیاجائے تو اللہ کی طرف سے آج بھی مختلف مواقع پر قربانی کا مطالبہ ہوتاہے۔ مگرانسان اسے نظراندازکردیتاہے اور وہ بھول جاتاہے کہ ایسی ہی قربانی سے ہمارے نبی حضرت ابرہیم کو خلیل اللہ کا خطاب ملاتھا ۔ جب تک قرآن کی تلاوت کی جاتی رہے گی تب تک لوگ ان پر سلام بھیجتے رہیں  گے۔  اور  جب بھی عیدالاضحی کا تاریخی دن آئے گا لوگ ان کی تاریخ کو دوہرائیں گے۔ اس لیے جو لوگ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں  اور اپنی زندگی کا مقصد جانتے ہیں  ،وہ اطاعت الٰہی کے لیے تقرب الٰہی کی راہ اپنائیں  اور اس راہ میں  قربانی دینے پر تیاررہیں ۔ کیوں کہ آج بھی    ؎

آگ ہے، اولاد ہے، ابراہیم ہے، نمبرود ہے
کیا کسی کو، پھرکسی کا، امتحان مقصود ہے

Friday 12 September 2014

Zinda Dili زندہ دلی


زندہ دلی

          بذلہ سنجی،خوش طبعی اورمزاح اگر دل آزاری کاسبب نہ بنے توےہ زندہ دلی کی علامت ہے ،جونہ صرف انسان کی پژمردگی کو دور کرتی ہے بلکہ معاشرتی ماحول کو خوش گوار بناتی ہے اور اجتماعی مقاصدکے حصول میں عام لوگوں کی صلاحیتوںکوپرکھنے اوران سے کام لےنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اسلام نے انسان کے فطری مزاج کا بھرپورخیال رکھا ہے،اسی لیے وہ اسے گوشہ نشین ہوجانی یا انسانوں کی آبادی سے دور جنگلوںمیں چلے جانے کا حکم نہیں دےتااور نہ خوش طبعی سے دوررہنے کی تلقین کرتا ہے۔ بلکہ کسی غم زدہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے پر ابھارتاہے۔ تاکہ معاشرہ کے افراد باہم ایک دوسرے سے مربوط ہوںاوران کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی ہو۔
مزاح اورخوش طبعی کی تعریف عام لفظوںمیں کی جائے تو اس کے معنی ہنسی مذاق کو کہتے ہیں۔ مگر اس کی شرعی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے ، تعریف کی جائے تو مزاح ہر اس بات کو کہیں گے جوخوشی کا باعث ہو ،مگر وہ جھوٹی،پھوہڑپن پر دلالت کرنے والی اورغیر شرعی نہ ہو۔ اگر کوئی بات کسی کی دل آزاری کا باعث ہو تو اسے مزاح نہیں سخریہ یعنی مذاق اڑانا کہیںگے،جو حرام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سےرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ بارعب ہونے کے باجود مزاح فرمایاکرتے تھے اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی اجازت تھی۔ سیرت کے بہت سے واقعات اس کے شاہد ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت ام ایمن آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: یارسول اللہ مجھے ایک اونٹ عنایت فرمائیے کیوں کہ ہمارے پاس بار برداری کی لیے کوئی جانور نہیںہے۔“حضورﷺ نے فرمایا: میں آپ کو اونٹنی کا بچہ دوںگا۔ وہ کہنے لگیں:”یارسول اللہ میں اونٹنی کا بچہ لے کرکیا کروںگی“؟اس پر آپ نے فرمایا: ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتاہے۔ یہ سن کر پوری محفل زعفران زار ہوگئی۔
ایک مرتبہ ایک بوڑھی خاتون بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: ”یارسول اللہ ، دعا کردیجئے کہ میرا بھی داخلہ جنت میں ہو۔ “ ارشاد ہوا: کوئی بڑھیاجنت میں نہ جائے گی۔یہ سنتے ہی وہ خاتون رونے لگیں۔ حضور نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا:”کوئی عورت بڑھاپے کی حالت میں جنت میں نہیں جائی بلکہ جوان ہوکر جائے گی۔یہ سن کر وہ خاتون بے اختیار ہنسنے لگیں۔
ایک دفعہ ایک خاتون حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی:یارسول اللہ ، میرا شوہر بیمار ہے، اس کی شفایابی کے لیے دعا فرمائیے۔“حضور نے فرمایا: تمہارا خاوند وہی ہی جس کی آنکھ میں سفیدی ہے؟وہ حیران ہوگئیں اور جاکر اپنے شوہر کی آنکھیںغور سی دیکھنے لگیں۔ خاوند نے کہا: کیا بات ہے؟ کہنے لگیں: حضور نی فرمایاہی کہ تمہارے خاوند کی آنکھ میں سفیدی ہے“وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے: ”کیا کوئی ایسا آدمی بھی ہے جس کی آنکھ میں سفیدی نہ ہو؟“اب وہ حضور کے لطیف مزاح کو سمجھیں جس کا مقصد ان کی بیمار شوہرکی پژمردگی کو دور کرنا تھا۔
خادم رسول اللہ حضرت انس بن مالک ؓ کی چھوٹے بھائی جن کانام ابوعمیر تھا۔ جب وہ بچے تھے تو انھوں نے اےک ممولا پال رکھا تھا۔ اتفاق سے وہ ممولا مرگیا۔ ابوعمیر کو سخت صدمہ پہنچا اوروہ بہت افسردہ ہوگئے۔ حضور نے انھیں اس حالت میں دیکھا تو فرمایا:
یا اباعمیر ما فعل النغیر
اے ابوعمیر تمہارے ممولے کو کیا ہوا؟ حضور کا ارشاد سن کرابو عمیر ہنسنے لگے۔
بسا اوقات یہ بذلہ سنجی اور حسن مزاح سی لوگوں میں حاضرجوابی پیدا ہوتی ہے اوران کے اندرچھپی صلاحیتیںنکھرتی ہیں۔اس کا نمونہ ہم صحابہ کرام ؓمیں بخوبی دیکھ سکتی ہیں۔
ایک مرتبہ سرکار دوعالم ﷺ چند صحابہ کرامؓ کے درمیان جلوہ افروز تھے اور سب مل کھجوریں تناول فرمارہے تھے۔ اتنے میں وہاں حضرت صہیبؓ آگئے۔ ان کی ایک آنکھ آئی ہوئی تھی اور انھوں نے اس پر پٹی باندھ رکھی تھی۔ اگرچہ آشوبِ چشم میں کھجور کھانا مضرہوتاہے، لیکن حضرت صہیبؓ اس وقت سخت بھوکے تھے۔ وہ آتے ہی کھجوروں پر ٹوٹ پڑے۔حضور نے فرمایا:سبحان اللہ، تمہاری آنکھ دکھ رہی ہی اور تم کھجوریں کھارہے ہو۔انھوں نے عرض کیا :یا رسول اللہ میں اس آنکھ سے کھارہا ہوں جو اچھی ہے۔ان کا جواب سن کر حضور اس قدر ہنسے کہ دندان مبارک کا نور ظاہر ہونے لگا۔


Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...