Monday 22 December 2014

Islam Men Azmat-e-Insan ka Tahaffuz


اسلام میں عظمت انسان کا تحفظ

تمام انسان ،خواہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں رہتے ہوں، کسی بھی مذہب کو ماننے والے ہوں مگراللہ کا بندہ ہونے، اپنی تخلیق ،شکل وصورت اور آدم کی اولاد ہونے کی حیثیت سے برابر ہیں۔ جیسے درخت کی شاخیں بہت سی ہوتی ہیں ، لیکن اس کی  جڑ ایک ہوتی ہے۔اس لیے ان کا باہمی تعاون اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلو ک صالح معاشرے اور انسانیت کی بقا کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اسلام نے انسانوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنے اور باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے پر زور دیا ہے۔اس نے واضح کیا ہے کہ تمام انسان کو اللہ نے ہی پیدا کیا ہے۔ اس لیے ان سب کو اللہ سے ہی ڈرنا چاہیے:
یا ایہا الناس اتقوا ربکم الذی خلقم من نفس واحدۃ وخلق منہا زوجہا و بث منہما رجالا کثیراونساء
’’لوگو!  اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔‘‘ (النسائ:1)
 اللہ تعالی نے انسان کو اپنی دیگر مخلوقات پر فضیلت بخشتے ہوئے فرمایا:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلا         
(بنی اسرائیل: 70 (
’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ بنی آدم کو بزرگی (عزت) دی اور انھیں خشکی اور تری میں سواریاں عطاکیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت (فضیلت ) بخشی۔‘‘
(بنی اسرائیل: 70 (
اس لحاظ سے تمام انسان ایک آدم کی اولاد ہیں اور ان ہی کی نسبت سے ان کے درمیان تعلقات قائم ہیں ۔اس لیے کسی کو کسی پر کوئی فخرکی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔اللہ کے رسول ﷺ نے  تمام انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
یاایہا الناس الآان ربکم واحد وان اباکم واحد الآلافضل لعربی علی عجمی  ولالعجمی علی عربی ولالاحمرعلی اسود ولالاسودعلی احمرالابالتقوی۔ (مسنداحمد(
 اے لوگو!بلاشبہ تمہارارب ایک ہے اورتم سب کا باپ بھی ایک ہے۔جان لوکہ کسی عربی کوکسی عجمی پراورنہ ہی کسی عجمی کوکسی عربی پر،نہ کسی گورے  کوکسی کالے پر اورنہ کسی کالے کو کسی گورے پرکوئی فضیلت اوربرتری حاصل ہے ،سوائے تقوی کے ‘‘۔
انسان بہ حیثیت مخلوق اللہ کا کنبہ ہیں۔جس طرح ایک کنبہ میں مل جل کر خوش اسلوبی سے رہنے والا انسان اچھا مانا جاتا ہے ، اسی طرح اس دنیا میں امن و سکون اور محبت سے رہنے والا انسان اللہ کی نگاہ میں بہتر ہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الخلق عیال اللہ، فاحب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ (طبرانی(
’’مخلوق اللہ کا کنبہ ہے پس بہترین مخلوق وہ ہے جو اللہ کے بندوں کے ساتھ احسان اور بھلائی کا رویہ اختیار کرے۔‘‘
اس لیے انسان دین اور مذہب کی بنیاد پرانسانوں کے درمیان جنگ وجدال مناسب نہیں ہے۔ رنگ ونسل کی وجہ سے اختلاف و انتشاردرست رویہ نہیںہے۔ مال ودولت کی وجہ سے کسی کو باعزت و باوقار سمجھا جائے اور غربت و مفلسی کے سبب ذلیل وخوار کیاجائے یہ صحیح نہیں ہے۔بلکہ اچھے و برے کی اورعزت و شرافت کا پیمانہ یہ ہے کہ کون اللہ سے کتنا ڈرتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
یاایہاالناس اناخلقناکم من ذکرووانثی وجعلناکم شعوباً وقبائل لتعارفوا۔ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ۔   (الحجرات:۱۳)
’’اے لوگو!ہم نے تمہیںایک مرداورایک عورت سے پیداکیا۔(یعنی سب کی اصل ایک ہی ہے) اورتمہیںخاندانوںاورقبیلوںمیںبانٹ دیاتاکہ تم ایک دوسرے کوپہچانو،بے شک اللہ کے یہاںتم سب میںزیادہ عزت والا وہ ہے جوتم میںسب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہے۔‘‘(الحجرات:۱۳)
اس آیت کریمہ میں اللہ نے صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ تمام انسانوں کومخاطب کیا ہے اور ان کو یہ واضح پیغام ہودیا ہے کہ تمام انسانوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ،بلکہ سب کی تخلیق ایک ہی انداز سے ہوئی ہے۔ ان کا قبیلوں اور خاندانوں میں بانٹا جانا اس لیے نہیں ہوا کہ وہ اختلاف و انتشار کا شکار ہوں ، یا آپس میں لڑیں ،بھڑیں اور خوں ریزی کریں۔ یا خاندانی حسب و نسب کے غرور میں چور ہوکر دوسروں کو نیچا دسمجھیں بلکہ اس وجہ سے ہے تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی شناخت کرسکیں۔
اللہ تعالیٰ نے شرافت و سربلندی کا صرف ایک ہی معیار رکھا ہے اوروہ ہے تقوی، یعنی اپنے خالق و مالک کا ڈر ،مرنے کے بعد اپنے اعمال کی جوابدہی کا احساس۔ یہ معیار انسانوں کے دلوںکوباہم جوڑنے اور الفت ومحبت کے ساتھ رہنے کا پیغام دیتاہے۔نیک انسان اپنے کسی ذاتی مفاد کی خاطر کوئی ایسا اقدام نہیں کرتا جو اللہ کو ناپسند ہو بلکہ ہر حال میں وہ اپنے رب کی رضا کا خیال رکھتا ہے ۔یہ قابل رشک خصوصیت کسی کے اندر ہے تو وہ باوقار، قابل اعتبار اور لائق احترام ہے، خواہ وہ کسی معمولی گھرانے میں پیدا ہوا ہو۔ پھر ایسے لوگوں کااللہ تعالیٰ نگہبان ہوتا ہے۔ انھیں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہونے دیتا اور ان کی اس طرح مدد کرتا ہے کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا و یرزقہ من حیث لا یحتسب (الطلاق:2)
جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا ۔ اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا۔(الطلاق:2)
اگر ہم سیرت کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ آپﷺ نے کفار و مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ انسانیت کے تحفظ اور قیام امن کے لیے بہت سے معاہدے کیے تاکہ ظلم وستم کا سد باب ہو، خوں ریزی کو روکا جاسکے ، کوئی مذہب کسی کے لیے وبال جان نہ بنے ، کسی کو محض اس لیے نہ قتل کرے کہ وہ دوسرے مذہب کا ہے یا دوسرے قبیلے اور خاندان سے ہے۔بلکہ لوگ بہ حیثیت انسان آپس میں ایک دوسرے کا احترام کرے۔اس کے ساتھ ہی آپ ﷺ انسانیت کے دشمن پر بھی کڑی نظر رکھتے ،تاکہ کہیں کوئی فساد سر نہ اٹھاسکے اور انسانیت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔
انسان جب اپنی اس حیثیت کو بھول جاتا ہے یااحساس برتری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو فتنہ وفسادپر آمادہ ہوجاتا ہے۔ پھرحسد، کبر، غیبت ، چوری ،چغلی، قتل و غارت گری، بدکاری و بداخلاقی جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتاہے۔اس صورت میں اس کی اصلاح و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مولانا حالی ؔ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
آج انسان اپنی عظمت کھو بیٹھا ہے ، غلط جگہ پر اپنا معیار وقار تلاش کررہا ہے، دنیا کی عارضی عیش وآرام کو اپنی زندگی کا مرام(مقصد)بنا لیا۔ پوری طرح خواہش نفس کا غلام بن کر بے غیرتی اور بے عزتی کے حدود پار کررہاہے۔انسانی جان کا کوئی احترام باقی نہیں رہ گیا ہے۔انسان کے وہ سارے اخلاقی اقدار جن سے انسان اور شیطان میں امتیاز ہوگم ہوتے جارہے ہیں۔نتیجہ پوری دنیا تباہی کے دہانے پر آگئی  ہے۔ایسے میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ بہ حیثیت انسان لوگوں کا باہمی میل اور اس کے تعلقات خوشگوار ہوں اور بھولے بھٹکوں کو سیدھی سچی راہ دکھائی جائے،مذہب اور گروہ بندی کی بنیاد پر کسی قسم کی کوئی لڑائی نہ ہو ۔ انھیں اس نظام سے آگاہ کرایا جائے جو انسانیت کا خیرخواہ اور فلاح دارین کا ضامن ہے۔

Mohibbullah Qasmi 
321, Abul Fazl Enclave, Jamia Nagar, New Delhi-110025
Mob- 9311523016, Email: mohibbullah.qasmi@gmail.com




Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...