Friday 20 May 2016

رسول اکرمﷺ کی چار وصیتیں Char Wasiyaten



رسول اکرمﷺ کی چار وصیتیں

عن عبدللہ بن سلام قال: قال رسول اللہ ﷺ :یاا یہا الناس: أفشوا السلام ، وأطعموا الطعام، وصلوا الأرحام، وصلّوا باللیل والناس نیام، تدخلوا الجنۃ بسلام۔  (مسند احمد،ترمذی
اے لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور رات کو جب لوگ سورہے ہوں تونماز( تہجد ) پڑھو، (ایسا کرنے کی صورت میں)سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔ (احمد،ترمذی)

اس حدیث کے راوی حضرت ابویوسف عبداللہ بن سلامؓ ہیں۔ جو مدینے کے مشہور علمائے احبار (یہودی علمائ)میں سے تھے۔جب نبی کریمﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے ،تو لوگوں کا ہجوم آپ ﷺ کے دیدار کے لیے امڈ پڑا۔ اسی ہجوم میں یہ بھی شامل تھے۔نے آپؐ کا چہرۂ انور دیکھا تو کہنے لگے ،یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا اور اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔
مذکورہ حدیث کے سلسلے میں حضرت عبداللہ بن سلامؓ کا بیان ہے کہ یہ حضور کی پہلی گفتگو ہے جو انھوں نے آپ ؐ کی زبان مبارک سے سنی تھی۔
حدیث کے متن میںنبی کریم ﷺ نے امت کو چاراہم باتوںکی وصیت فرمائی ہے:
۱۔ سلام کو پھیلانا ۲۔کھانا کھلانا ۳۔صلہ رحمی کرنا ۴۔تہجدپڑھنا
ذیل میں اس حدیث کی مختصر تشریح پیش کی جارہی ہے۔
پہلی وصیت : سلام کو عام کرنا
سلام اللہ تعالی کے صفاتی ناموں میں سے ہے۔ اس کے معنی سلامتی کے ہیں۔ سلام محبت کی کنجی ہے،جس سے مسلمانوں کے درمیان باہمی تعلق میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے اجنبیت دور ہوتی ہے اور گھمنڈ جیسی بری خصلت جاتی رہتی ہے۔اس معلق آپ ؐ کا ارشاد ہے:
لاتدخلون الجنۃ حتی تومنوا، ولا تومنوا حتی تحابوا، اولا ادلکم علی شی اذا فعلتموہ تحاببتم : افشوا السلام بینکم (مسلم)
تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ مومن نہ ہوجاؤ اور تم اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو۔ کیا میں تمھیں ایسی چیز نہ بتا دوں جسے تم کرو تو آپس محبت کرنے لگو۔ اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔
معلوم ہوا کہ سلام اور محبت دونوں لازم اور ملزوم ہیں، اس سے ایمان مضبوط ہوتا ہے۔یہ اس امت کا شعار ہے ۔اس لیے جب بھی کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے ملے تو اسے ضرور سلام کرے۔ رسول اللہ ﷺ جن چیزوں کو مسلمانوں کے باہمی حقوق شمار کیا ہے ۔ سلام ان میں سے ایک ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فاذا دخلتم بیوتاً فسلموا علی انفسکم تحیۃ من عنداللہ مبٰرکۃ طیبۃ ۔(النور:61)
جب گھروں میں داخل ہو اکرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعائے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی بڑی بابرکت اور پاکیزہ ہے۔
پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ سلام میں پہل کی جائے ،بلند آواز سے سلام کیاجائے تاکہ سننے والا اس کا جواب دے سکے ۔ چھوٹا بڑے کو سلام کرے، سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے،تنہا شخص گروہ کو سلام کرے ، اسی طرح کسی جگہ پر پہلے سے کچھ لوگ موجود ہیں تو آنے والا سلام کرے۔ دارالعلوم دیوبند میں جب میں دورۂ حدیث کے سال میں تھا تو میں نے اپنے استاذمفتی سعید صاحب پالنپوری کو دیکھا کہ وہ درسگاہ میں داخل ہوتے وقت پہلے سلام کرتے اور ان سے یہ جملہ بھی سنا : السلام علی من دخل(داخل ہونے والا شخص سلام کرے) ۔
سلام نیکوں میں اضافہ کا باعث ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ایک مجلس میں ایک شخص آیا اور اس نے السلام علیکم کہا۔ آپؐ نے فرمایا: اسے دس نیکیاں ملیں۔ دوسرا شخص آیا اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا ، آپؐ نے فرمایا: اسے بیس نیکیاں ملیں۔ تیسرا شخص آیا ۔ اس نے ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ‘کہا تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: اس سے اسے تیس نیکیاں ملیں۔
ہر قوم اور تہذیب میںدو افراد کے باہم ملتے وقت اظہار محبت کے لیے الگ الگ جملے رائج ہیں ،ان میں اسلامی طریقہ اسلام کو سب سے زیادہ جامعیت حاصل ہے۔اس سے نہ صرفملنے والوں کے دلوںمیں محبت اور سرور پیدا ہوتا ہے بلکہ اسے سلامتی بھری زندگی کی دعا بھی ملتی ہے اور اس بات کا وعدہ بھی کہ تمہیں مجھ سے کوئی خوف نہیں تم میری زبان وہاتھ سب سے محفوظ ہو۔
دوسری وصیت : کھانا کھلانا
غریبو ں اور یتیموں کو کھانا کھلانا جنت میں داخلہ کا سبب ہے ۔اس سے انسان کے اندر فیاضی کی صفت پیدا ہوتی ہے اوربخل و حرص اور مال و دولت کی محبت جیسی بیماریاں دور ہوتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایاہے:
وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَیَتِیْماً وَأَسِیْراً oإِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللَّہِ لَا نُرِیْدُ مِنکُمْ جَزَاء وَلَا شُکُوراً (الدہر۔۸-۹)
اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں( اور کہتے ہیںکہ )ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلارہے ہیں ہم نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔
ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں توہمیں ایسے بہت سے غریب مسکین لوگ مل جائیں گے جنھیںکھانے کو غذا میسر نہیں ہے ۔وہ بھوکے سوجاتے ہیں۔جب کہ قریب ہی کسی شادی یا دیگر تقریب میں بہت سارا کھانا کوڑے اور کچڑے ڈھیرپر پھینک دیاجاتاہے۔اس طرح ایک مال دار گھرانہ تو خوب شکم سیر ہوکر کھاتا ہے مگر اس کا پڑوسی بھوکا سوجاتاہے۔ایسا کرنا ایمان کے بالکل منافی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے لوگوں کے تعلق سے ارشاد فرمایاہے:
لیس المومن بالذی یشبع وجارہ جائع الی جنبہ(مسلم)
وہ شخص مومن نہیں جو خود شکم سیر ہوکر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔
اس میں مہمان کی ضیافت بھی شامل ہے ، چنانچہ آپﷺ نے اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے کی پہچان یہ بتائی ہے کہ وہ مہمان نوازی بھی کرے:
من کان یومن باللہ و الیوم الآخر فلیکرم ضیفہ(متفق علیہ)
(جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان نوازی کرے۔)
تیسری وصیت : صلہ رحمی کرنا
رشتہ کو جوڑے رکھنا اور رشتہ داری کو نبھانا۔ایسی صفت ہے، جس کی قرآن و حدیث میں بہت تاکید کی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔:
وَاتّقُوا اللّٰہَ الَّذِی تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالأَرْحَامَ (النسائ:۱)
’’اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کوبگاڑنے سے پرہیز کرو۔‘‘
خاص طور پر والدین کے ساتھ حسن سلوک پر بہت زور دیا گیا ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانَا اِمّا یَبْلُغَنَّ عندک الکبر احدہما او کلہما فلاتقل لہما اوفٍ ولا تنہرہما و قل لہما قولا کریما(سورۃ : اسرائ23)
’’والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچے تو تم انھیں اف بھی نہ کہو اور نہ انھیں جھڑک کر بات کرو بلکہ ان کے سے احترام کے ساتھ بات کرو۔‘‘
صلہ رحمی کو دخول جنت کے علاوہ دنیا میںرزق کے اضافہ اور طول عمر کا سبب بھی قرار دیا گیا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
من سرہ ان یبسط لہ فی رزقہ او ینسألہ فی اثرہ فلیصل رحمہ(متفق علیہ)
’’جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ وہ اسکے رزق اور اس کی عمر میں اضافہ ہو تو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔‘‘
صلہ رحمی کی ضد قطع تعلق ہے۔ یعنی ذرا ذرا سی بات پررشتہ توڑلینا ،نفرت کرنا ، میل جول ختم کرلینا وغیرہ۔اس کے اثرات کو دیکھے تو یہ صرف تعلقات کو ختم کرنے تک محدود نہیں رہ جاتا بلکہ بسااوقات دل میں حسد اور کدورت کو ایسا جنم دیتا ہے جو بڑے فساد کا ذریعہ بن کر انسان کو ذلیل ورسوا بھی کردیتا ہے۔ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
لا یدخل الجنۃ قاطع الرحم (بخاری)
’’ قطع تعلق کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘
ہم اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ رشتہ داری میں ذراسی ناروابات یا کوئی تلخی ہوگئی توبس ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کرلیاجاتاہے اور معاملات کودرست کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ اسے اپنے لیے کسرشان سمجھا جاتاہے۔جب کوئی حسن سلوک کرتا ہے تو اس کے ساتھ حسن ِسلوک کی روش اپنائی جاتی ہے یہ تو بدلہ ہے، صلہ رحمی نہیں ہے۔ اس لیے نبی کریمﷺ نے واضح طور پر بتادیا :
لیس الواصل بالمکافی ولکن الواصل الذی اذا قطعت رحمہ وصلہا(بخاری)
’’وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو (کسی رشتہ دار کے ساتھ) احسان کے بدلے میں احسان کرتا ہے، بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے، جب اس سے قطع رحمی(بدسلوکی وغیرہ) کی جائے تو صلہ رحمی(حسن سلوک ) کرے۔ ‘‘
چوتھی وصیت : تہجد پڑھنا
جب انسان رات کے تہائی حصے میں وضوکرکے نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے ،اسے صلوٰۃ تہجد کہتے ہیں۔ اس نماز میں ریا کاری کا شائبہ نہیں ہوتا۔ بندہ اس وقت اللہ کے بالکل قریب ہوتا ہے۔اس سے تعلق اور قربت اس کے توکل میں اضافہ کرتا ہے جو ہر مشکلات کو صبر کے ساتھ جھیلنے کی صلاحیت بخشتا ہے۔اللہ تعالی اسے مقام محمود پر فائز کردیتا ہے:
و من اللیل فتہجد بہ نافلۃ لک عسی ان یبعثک ربک مقاماً محمودا
اور رات کو تہجد پڑھو! یہ تمہارے لیے فضل (اضافی) ہے، بعید نہیں کہ تمہارا رب تمھیں مقام محمود پر فائز کردے۔(سورۃاسرا: 79)
دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے:
تتجافا جنوبہم عن المضاجع یدعون ربہم خوفاً و طمعا و مما رزقنہم ینفقون (سورۃ سجدۃ:16)
ان کی پیٹھیںبستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرائض کے بعد جس نماز کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے، وہ تہجد ہے۔آپ ؐ نے اس تعلق سے ارشاد فرمایا:
افضل الصلوۃ بعد الفریضہ قیام اللیل(مسلم)
’’فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی ہے۔‘‘
تہجد آپؐ پر واجب تھی جب کہ امت پر یہ نفل ہے۔چنانچہ صحابہ ،تابعین اور سلف صالحین تہجد کا اہتمام کرتے تھے۔ ترمذی کی روایت ہے۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا :
علیکم بقیام اللیل فانہ دأب الصالحین قبلکم، قربۃ الی اللہ تعالی، مکفرۃ للسیات، ومنہاۃ عن الاثم ، مطردۃ للداء عن الجسد(ترمذی ،احمد)
اس حدیث کے آخری میں آپ نے تمام نصیحتوں اور وصیتوں کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:تدخلواالجنۃ بسلام، یعنی اگر تم ان ہدایات پر عمل کروگے تو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤگے۔ خلاصہ یہ کہ اللہ کے رسول ﷺ کی مذکورہ چارں وصیتوں کی پابندی کی جائے اور اسے عملی طور پر اپنی زندگی میں لایاجائے تو ہمارا معاشرہ خوش حال اور مثالی اور امن و امان کا گہوارہ ہوگا ۔اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اس حدیث پر عمل کی توفیق بخشے۔ آمین

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...