Tuesday 26 July 2016

تفریح طبع زدہ دلی کا نام ہے Zinda Dili


تفریح طبع زندہ دلی کے لیے ضروری

                                           محب اللہ قاسمی

بذلہ سنجی،خوش طبعی اورمزاح اگر دل آزاری کاسبب نہ بنے توےہ زندہ دلی کی علامت ہے ،جونہ صرف انسان کی پژمردگی کو دور کرتی ہے بلکہ معاشرتی ماحول کو خوش گوار بناتی ہے اور اجتماعی مقاصدکے حصول میں عام لوگوں کی صلاحیتوںکوپرکھنے اوران سے کام لےنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اسلام نے انسان کے فطری مزاج کا بھرپورخیال رکھا ہے،اسی لیے وہ اسے گوشہ نشین ہوجانی یا انسانوں کی آبادی سے دور جنگلوںمیں چلے جانے کا حکم نہیں دےتااور نہ خوش طبعی سے دوررہنے کی تلقین کرتا ہے۔ بلکہ کسی غم زدہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے پر ابھارتاہے۔ تاکہ معاشرہ کے افراد باہم ایک دوسرے سے مربوط ہوںاوران کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی ہو۔

مزاح اورخوش طبعی کی تعریف عام لفظوںمیں کی جائے تو اس کے معنی ہنسی مذاق کو کہتے ہیں۔ مگر اس کی شرعی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے ، تعریف کی جائے تو مزاح ہر اس بات کو کہیں گے جوخوشی کا باعث ہو ،مگر وہ جھوٹی،پھوہڑپن پر دلالت کرنے والی اورغیر شرعی نہ ہو۔ اگر کوئی بات کسی کی دل آزاری کا باعث ہو تو اسے مزاح نہیں سخریہ یعنی مذاق اڑانا کہیں گے،جو حرام ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سےرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ بارعب ہونے کے باجود مزاح فرمایاکرتے تھے اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس کی اجازت تھی۔ سیرت کے بہت سے واقعات اس کے شاہد ہیں۔

ایک مرتبہ حضرت ام ایمن آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: یارسول اللہ مجھے ایک اونٹ عنایت فرمائیے کیوں کہ ہمارے پاس بار برداری کی لیے کوئی جانور نہیںہے۔“حضورﷺ نے فرمایا: میں آپ کو اونٹنی کا بچہ دوںگا۔ وہ کہنے لگیں:”یارسول اللہ میں اونٹنی کا بچہ لے کرکیا کروںگی“؟اس پر آپ نے فرمایا: ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتاہے۔ یہ سن کر پوری محفل زعفران زار ہوگئی۔
ایک مرتبہ ایک بوڑھی خاتون بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی: ”یارسول اللہ ، دعا کردیجئے کہ میرا بھی داخلہ جنت میں ہو۔ “ ارشاد ہوا: کوئی بڑھیاجنت میں نہ جائے گی۔یہ سنتے ہی وہ خاتون رونے لگیں۔ حضور نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا:”کوئی عورت بڑھاپے کی حالت میں جنت میں نہیں جائی بلکہ جوان ہوکر جائے گی۔یہ سن کر وہ خاتون بے اختیار ہنسنے لگیں۔

ایک دفعہ ایک خاتون حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی:یارسول اللہ ، میرا شوہر بیمار ہے، اس کی شفایابی کے لیے دعا فرمائیے۔“حضور نے فرمایا: تمہارا خاوند وہی ہی جس کی آنکھ میں سفیدی ہے؟وہ حیران ہوگئیں اور جاکر اپنے شوہر کی آنکھیںغور سی دیکھنے لگیں۔ خاوند نے کہا: کیا بات ہے؟ کہنے لگیں: حضور نی فرمایاہی کہ تمہارے خاوند کی آنکھ میں سفیدی ہے“وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے: ”کیا کوئی ایسا آدمی بھی ہے جس کی آنکھ میں سفیدی نہ ہو؟“اب وہ حضور کے لطیف مزاح کو سمجھیں جس کا مقصد ان کی بیمار شوہرکی پژمردگی کو دور کرنا تھا۔
خادم رسول اللہ حضرت انس بن مالک ؓ کی چھوٹے بھائی جن کانام ابوعمیر تھا۔ جب وہ بچے تھے تو انھوں نے اےک ممولا پال رکھا تھا۔ اتفاق سے وہ ممولا مرگیا۔ ابوعمیر کو سخت صدمہ پہنچا اوروہ بہت افسردہ ہوگئے۔ حضور نے انھیں اس حالت میں دیکھا تو فرمایا:
’’یا اباعمیر ما فعل النغیر
اے ابوعمیر تمہارے ممولے کو کیا ہوا؟ حضور کا ارشاد سن کرابو عمیر ہنسنے لگے۔

بسا اوقات یہ بذلہ سنجی اور حسن مزاح سی لوگوں میں حاضرجوابی پیدا ہوتی ہے اوران کے اندرچھپی صلاحیتیںنکھرتی ہیں۔اس کا نمونہ ہم صحابہ کرام ؓمیں بخوبی دیکھ سکتی ہیں۔

ایک مرتبہ سرکار دوعالم ﷺ چند صحابہ کرامؓ کے درمیان جلوہ افروز تھے اور سب مل کھجوریں تناول فرمارہے تھے۔ اتنے میں وہاں حضرت صہیبؓ آگئے۔ ان کی ایک آنکھ آئی ہوئی تھی اور انھوں نے اس پر پٹی باندھ رکھی تھی۔ اگرچہ آشوبِ چشم میں کھجور کھانا مضرہوتاہے، لیکن حضرت صہیبؓ اس وقت سخت بھوکے تھے۔ وہ آتے ہی کھجوروں پر ٹوٹ پڑے۔حضور نے فرمایا:سبحان اللہ، تمہاری آنکھ دکھ رہی ہی اور تم کھجوریں کھارہے ہو۔انھوں نے عرض کیا :یا رسول اللہ میں اس آنکھ سے کھارہا ہوں جو اچھی ہے۔ان کا جواب سن کر حضور اس قدر ہنسے کہ دندان مبارک کا نور ظاہر ہونے لگا۔

Mohibbullah Qasmi



Sunday 24 July 2016

Story: Hamdard ہمدرد

کہانی: 
ہمدرد 
محمد محب اللہ 


’’دلاور ! اس پلاٹ پر کام جاری رکھنا۔یاد رہے کسی مزدور کی تنخواہ میں کمی نہیں ہونی چاہیے ساتھ ہی اگر کسی کی کوئی مجبوری ہو تو ضرور خبرکرنا۔ مجھے یہ بالکل پسند نہیں کہ غربت کی دلد ل سے نکلنے والا شخص غریبوں کے خون پسینے سے اپنا محل تو تعمیر کرلے مگر بدلے میں ان مزدوروں کو یاس و ناامیدی کے سوا کچھ نہ ملے۔ ‘‘میں پندرہ دن کے لیے گاؤں جا رہا ہوں۔ ماں کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔یہ کہتے ہوئے سوٹ کیس اٹھاکر ناصر اپنے دفترسے نکل ہی رہاتھا کہ منگلو چاچا نے کہا :

’’
صاحب جی ایک 15سال کا جوان لڑکا ریسپشن (استقبالیہ) پر کھڑا ہے۔ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ ‘‘ناصر نے پوچھا:’’اس سے پوچھا نہیں ، کیا بات ہے ؟‘‘
منگلو چاچا نے جواب دیا: ’’وہ پڑھائی چھوڑ کر کام کی تلاش میں بھٹک رہاہے۔مگر بات کرنے سے لگتا ہے کہ وہ تیز اور ہونہارہے۔‘‘

ناصر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’
اسے پڑھائی نہیں چھوڑنی چاہیے تھی!خیراسے بلاؤ۔یہ کہہ کرناصرواپس اپنے کیبن میں چلاآیااور اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔‘‘
منگلوچاچالڑکے کو لے کر حاضرہوا۔
لڑکے نے سلام دعا کے بعد ناصر کے سامنے اپنی بات رکھی:
’’میں ایک غریب ہوں، میرے کئی بھائی بہن ہیں اور والد کمائی سے لاچار ہیں۔ اس لیے میں نوکری کرنا چاہتاہوں۔‘‘

ناصر نے پوچھا:
’’ لیکن مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم پڑھائی کررہے تھے اور ذہین بھی ہو۔ پھر پڑھائی کیوں نہیں کی؟ ‘‘
لڑکے نے بڑی معصومیت کے ساتھ جواب دیا:
’’
اب آپ ہی بتائیے اب ایسی حالت میں میرا پڑھنا ضروری ہے یا گھر والوں کے جینے کے لیے بنیادی ضرورتیں پوری کرنا؟ میں ایک جوان ہوں۔ کام کرسکتا ہوں! تو پھر اپنے گھر والوں کے لیے نوکری کیوں نہ کروں۔ دو پیسے ملیںگے تو ان کو کچھ کھلاؤں گا۔ ورنہ ان کے بھیک مانگنے کی نوبت آئے گی، میں خود بھیک مانگ سکتا ہوں مگر میں اپنے والدین کو بھیک مانگتے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

اس کی باتوں نے ناصر کو گویا جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور وہ اپنی ماضی کی یا دوں میں کھو گیا۔
وہ پڑھنے میں تیز، بااخلاق اورملنسار لڑکا تھا۔اس کے والد اسے پڑھانا چاہتے تھے اس لیے اسے پٹنہ کے اچھے رہائشی اسکول میں بھیجا گیا تھا،جہاں وہ اب دسویں کلاس تک پہنچ چکا تھا۔ مگر ایک دن اس کے گھر سے ایک خط آیا جو اس کے لیے سر پر آسمان سے بجلی گرنے کے مانند تھا۔خیر خیریت کے بعد خط میں لکھا تھا:

’’تمہارا باپ اب بیماری کے سبب بہت معذور ہوگیا ہے ، تھوڑا بہت وہ کما کر بھیجتا ہے جو گھر کے اتنے اخراجات کے سامنے اونٹ کے منہ میں زیرا کے مانند ہے۔ اب ہم لوگ تمہارے تعلیمی اخراجات کیا پورے کریں یہاں گھر پر ہم لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی بھی ملنا مشکل ہو رہا ہے۔ دن بہ دن قرض پہ قرض کا بوجھ اور اس کا بیاج الگ ! ہم لوگ بہت مشکل میں ہیں۔تمہاری پیاری دادی‘‘

ناصرکا دل پوری طرح ٹوٹ چکا تھا وہ اور پڑھنا چاہتا تھا مگر جب بھی وہ لالٹین کے سامنے اپنی کتاب کھولتا اسے خط کے وہ سارے جملے کانٹے کی طرح اس کے جسم میں چبھتے ہوے محسو کرتا ۔وہ جلتے ہوئے لالٹین کو اپنا دل تصور کرنے لگا جس میں اس کا خون مٹی تیل کے مانند جل رہا تھا۔

دھیرے دھیرے پڑھائی سے اس کا دل ہٹنے لگا اور وہ زمانہ اسکالر شپ کا نہیں تھا یا اسے دیگر کسی کی جانب سے مالی امداد کا سہار ا میسر نہیں تھا ، پھر وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اب ان کتابوں کے اواراق پر لکھے ان حروف کو پڑھے اور اس کے گھر والے پریشان ہو کر اپنی زندگی تباہ کریں۔

پھر وہ کمائی کے طریقوں کے بارے میں سوچنے لگا، کبھی سوچتا کسی دوکان میں نوکری کرلوں مگر وہاں تنخواہ مہینے پر ملے گی، کبھی سوچتا کہ گاڑی کا کنڈکٹربن جاؤںیومیہ آمدنی ہوگی۔مالک سے بول کر روزانہ پیسے لے لیا کروں گا۔ پھر سوچتا کہ نہیں اس میں بھی چاہے محنت کتنی بھی کر لوںمتعین آمدنی ہوگی اور ماتحتی میں بھی رہنا ہوگا سو الگ ۔ اس لیے سوچا کیوں نہ ڈرائیور بن جاؤں اور کرائے سے آٹو لے کر گاڑی چلاؤں،کرایہ دے کر جو بچا سو اپنا اور خوب محنت کروںگا اور اپنے والدین اور گھر والوں کا فوری سہارا بن جاؤں گا۔ اس طرح اس نے پٹنہ میں ہی اسکول چھوڑ کر ڈرائیو نگ کر نا سیکھ لیا اس طرح وہ ایک اچھا ڈرائیور بن گیااور کمانے لگا۔

کچھ دن بعد جب گھر آیااور گھر والوں کو معلوم ہوا تو اس کے والد کو بڑی تکلیف ہوئی اس نے کہا :
’’بیٹے میں مانتا ہوں کہ میں بہت غریب ہو گیا ہوں اور اب مجھ سے اتنا کام نہیں ہو پاتا مگر !میں ابھی مرا نہیں ہوں۔پھریہ کیا کہ تم نے پڑھائی ہی چھوڑ دی۔ صبر کرتے یہ مشکل کے دن تھے گزر جاتے‘‘

ناصر نے کہا : ہاں ابا جان! اللہ تادیر ہم پر آپ کا سایہ قائم رکھے۔ میں جانتا ہوں کہ اس سے آپ کو تکلیف پہنچی ہوگی۔ مگر میں کیا کرتا ، میں آپ لوگوں کی پریشانی دیکھ نہیں سکتا ۔ اللہ نے چاہا تو دھیرے دھیرے سارے قرض ادا ہو جائیں گے اور آپ کو بھی کام کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔
ناصر گاڑی چلاتا رہا اور ایک ذمہ دار کی حیثیت سے اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے میں مصروف ہوگیا۔اب وہ دھیرے دھرے گاڑی چلانا چھوڑ کر تعمیر مکان کا کنٹریٹ لینا شروع کردیا اس طرح وہ بہت بڑا کانٹریکٹر اور بلڈرہوگیا۔’’حوصلہ بلڈرگروپس‘‘ کے نام سے اس نے اپنی کمپنی کھولی اور نہ صرف اپنے لیے بلکہ وہ لوگوں کا بھی ہمدرد بن کر سامنے آیا۔

آج وہ ایک بہت بڑی کنسٹرکشن کمپنی کا مالک بن چکا تھا۔ اس دوران اس کے والد کا انتقال ہوگیا اوروہ اپنی ماں بہن اور بھائیوں کی کفالت اور ان کی پوری ذمہ داریوں کو بہ حسن و خوبی انجام دینے لگا۔

سر آپ کہاں کھو گئے؟ اس غریب لڑکے نے ٹیبل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا:
ہاں………ہاں! تو تم کہہ رہے تھے…… کہ اپنی غربت کی وجہ سے پڑھنا نہیں چاہتے ۔خیر پریشان نہ ہو ۔ہمارے یہاں تو کوئی نوکری نہیں ہے البتہ تمہاری تعلیم کے سارے اخراجات اور گھروالوں کے لیے بھی حسب ضرورت ان کے اخراجات اب میں برداشت کروں گا۔

یہ سن کر اس کی آنکھیں ڈبڈبانے لگیں ۔ اس نے تعجب بھرے انداز میں کہا:
ہاں! سر!کیا ایسا ہو سکتا ہے؟آپ میرے اور گھر والوں کے اخراجات برداشت کریں گے؟
ناصر نے کہا: ہاں! مگر اس کے بدلے مجھے کچھ چاہیے ؟
لڑکا چونکا اور تجسس بھرے انداز میں پوچھا :
کیا؟۔۔۔۔۔۔۔کیا سر؟ کیا چاہیے؟میں تو کچھ دے نہیں سکتا !!

پھر ناصر نے کہا: تمہیں محنت سے اپنی تعلیم مکمل کرنی ہوگی اور اپنی پوری یکسوئی کے ساتھ ایک اچھا آفیسر بن کر دکھانا ہوگا۔بولو راضی ہو؟

اس نے کہا: بالکل سر ! آپ فرشہ صفت انسان ہیں، ہمارے لیے مسیحہ کے مانند ہیں۔میں یقینا آپ کے توقعات کے مطابق اپنی تعلیم مکمل کروں گا۔

ناصر نے اپنے منیجر کو بلا کر اس سے تفصیلات لے کر اس کے گھر ماہانہ رقم بھیجنے اور اس کے کسی اچھے اسکول میں داخلہ کی کارروائی مکمل کرنے کا حکم دیا۔

تبھی منگلو چاچا نے آواز دی:
حضور گاڑی آگئی! اور ناصر کا سامان اٹھا کر گاڑی میں ڈالنے کے لیے چل پڑا۔ ناصر نے اس لڑکے سے کہا : ٹھیک ہے۔ اللہ حافظ ! میں پندرہ دن کے لیے گھر جارہا ہوں آنے کے بعد تم سے تمہارے اسکول میں ملوں گا۔
Kahani: Hamdard Published by Bachon ki Dunya Oct 2016



Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...