Thursday 8 September 2016

مریض اسپتال اور زندگی Hospital patients and life

مریض اسپتال اور زندگی

                                           محب اللہ قاسمی


یہ خیال عام ہے کہ دنیا فطرت کے مطابق چلتی ہے، اگر ہم اس سے اعراض کرتے ہوئے سہولت کی خاطر غیر فطری طریقے اختیار کرلیں تو اندیشہ ہے کہ مصیبت میں گرفتار ہوجائیںگے۔ موجودہ دور میں وقتی سہولت کو ترجیح دیتے ہوئے غیر فطری طریقہ کار اختیار کرنے سے لوگ بالکل پرہیز نہیں کرتے۔ مثلا اشیاء خورد ونوش میں قدرتی غذاؤں کے بجائے ، جنک فوڈ وغیرہ کا کوگ خوب استعمال کرتے ہیں، گھنٹوں ایک ہی سیٹ پر بیٹھے بس کام کیے جاتے ہیں، کبھی کبھی تو پہلو بھی نہیں بدل پاتے ،اس کے نتیجہ میں معدہ کی کمزوری اور اعضاء جسم کا منجمدہوجانا لازمی ہے۔

یہی حال علاج معالجہ کا ہے۔ پہلے علاج معالجہ اور دیگر انسانی ضرورتوں کی بنیادی اشیاء کس قدر عام اور بہ آسانی دستیاب تھیں ۔اس وجہ سے لوگوں کو علاج میں زیادہ پریشانی نہیں ہوتی تھی اور نہ قدم قدم پر بڑی رقم خرچ کرنے کی نوبت آتی تھی، جس کے سبب عام انسان کے لیے اپنا علاج کروانا اتنا مشکل نہیںتھا، جتنا کہ اب مشکل ہوگیا ہے۔

اس غیر فطری زندگی کی تیز رفتاری نے طرح طرح کی بیماریاںپیدا کردی ہیں۔ مثلاً ایک بخار جسے ڈینگوکا نام دیا جاتاہے۔ آج کل عام ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ مچھر کا کاٹنا ہے۔ عام اور غریب انسان، جسے اپنا نام سلیقہ سے یاد ہونہ ہو مگر اس بیماری کے نام سے وہ بہ خوبی واقف ہے۔اس کا طریقۂ علاج کیا ہے وہ بھی جان لیجئے ،سب سے پہلے مریض کواسے ڈینگوٹسٹ کروانا ہوگا،جس میں پلیٹ لیٹ ٹسٹ بھی شامل ہے۔ بیماری ہویا نہ ہو یہ ٹسٹ لازمی ہے، جس کی لاگت تقریباً دو ہزار سے ڈھائی ہزار تک ہے۔جیسا مریض ویسی قیمت ، اس کے بعد مسلسل دوتین بار پلیٹ لیٹ کی جانچ ضروری ہے،جس کا خرچ ہر بار تقریباً ڈیڑھ سوسے دوسوتک ہے۔

 اس کے بعد نمبر آتا ہے دواؤں کا ، کھانے کی خوراک اتنی ہویا نہ ہومگر دوائوںکی خوراک ہر وقت پابندی سے لینا ضروری ہے۔آپ چاہے بیس سے تیس روپے کاکھانا کھائیں مگر ایک وقت کی دوا کی قیمت تقریباً سوسے دوسوروپے ضرور ہوگی ،جسے آپ بادل نہ خواستہ لینے پر مجبور ہیں ۔ ارے بھائی انگریزی نام کا بخار ہے ، اتنی آسانی سے تھوڑا ہی جائے گا۔اس کے لیے پیسوں کوقربان ہونا ہی ہے۔

جناب ابھی ڈاکٹر کی فیس باقی ہے۔ تقریباً پانچ سو سے سات سوروپے تک !ارے بھائی اے سی کا نظم ہے ، اتنی بڑی بلڈنگ ہے ، لفٹ اور دیگر بہت سی سہولیات ہیں، کیا ہوا اگر آپ نے ان کا استعمال نہیں کیا مگر چارج تودینا ہی پڑے گا نہ۔

اب ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ پہلے کی طرح محسن اور ممنون کا نہیں بلکہ ایک بکرے اورقصائی کا ہے ۔ پہلے علاج ہوتا تھا اب علاج بکتا ہے۔پہلے مریض کو جلد سے جلد رخصت دی جاتی تھی اور علاج کو لمبا کرنے سے گریز کیا جاتا تھا ، مگر اب مریض گویا ایک اے ٹی ایم کارڈ ہے لگاتے جاؤ ، پیسہ نکالتے جاؤ ۔ پھر اتنی جلدی اس پیسے فراہم کرنے والی مشین کو کیسے الوداع کہہ دیا جائے۔یہ تو ایک تجارت ہے جہاں انسان کی زندگی کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ خوف دلاکر یا پھر بیماری سے نجات کا دلاسا دے کر گو مریض کو مرنا پھر بھی ہے ۔ اپنی زندگی گزار کر یا اپنی صحت کے عوض ان کی من مانی قیمت چکاکر۔

پہلے طبیب نبض دیکھ کردرجہ حرارت بتادیا کرتے تھے۔ اب یہ کام مشین کرے گی، پہلے لوگ زبان اور مریض کی کیفیت دیکھ کر اس کا علاج کرتے تھے اب یہ کام جانچ کی مشین کرے گی ، تو بھائی اس کی قیمت بھی ہوگی۔ جب سب کام یہی مشین ہی انجام دے رہی ہے تو پھر ڈاکٹر کی ضرورت کیا ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے ، اتنا بڑا اسپتال ہے ، جس کا ایک مستقل نام ہے۔ اس کی حیثیت کا سوال ہے۔ رہی بات فیس کی تو فیس اگر کم رکھی گئی تو اسپتال کی حیثیت مجروح ہوگی، ڈاکٹر س کی ضروریات زندگی میں فرق آئے گا، پھر آپ کا علاج کیسے ہوسکے گا؟

یہاں ٹھہر کر سوچیں تو یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ اگر یہی بات ہے تو لوگ کیوں نہیں سرکاری اسپتالوں میں چلے جاتے ہیں وہاں تو علاج مفت ہوتا ہے۔ بات درست ہے مگر وہاںآپ کو کوئی پوچھے گا بھی نہیں جب تک کوئی آپ کا جاننے والا نہ ہو۔ اسی طرح وہاں کی صورت حال ایک انار اور سوبیمار کی سی ہے۔ ایسے میں معمولی درجہ کا عقل رکھنے والا انسان بھی اپنی قیمتی زندگی کی بقا کے لیے کچھ تو کرے گا اور لازماً اسے ان ہی پرائیوٹ اسپتالوں میں آنا ہوگا۔ جہاں معمولی بیماری کوبھی ہمیشہ سیریس کیس مانا جاتاہے اور طریقہ ٔعلاج وہی گراں جس کا ذکر کیا گیا۔

اب بتائیے کہ یہ ہے نا غیرفطری اور غیر اصولی زندگی! جہاں سب کچھ مشین کرتی ہے اور انسان کی مجبوری اور اس کے جذبات کو کیش کیا جاتاہے۔پورا پیشہ ٔ طب تجارتی ہوکر رہ گیاہے۔ جہاں مریض گراہک ہے، ڈاکٹر سوداگر اور اسپتال گویا دکان ہے۔

مگر زندگی کا ایک تصور وہ بھی ہے جس میںانسان کو اس کی فطرت سے روشناس کرایا جاتا ہے اور انسانوں کا باہمی تعلق الفت و محبت کا ہوتاوہاںاس انسان کو بہترین انسان قرار دیاجاتاہے جس سے لوگ خیر کی امید کریں اور اس سے کسی قسم کے شرکا کوئی اندیشہ نہ ہو۔وہ دوسروں کا ہمدر د وخیر خواہ ہو۔یہ ہے اسلامی زندگی جس نے انسانوں کو حیوانیت سے نکال کر انسانیت کے بلند مقام پر رکھا ہے۔جس میں دھوکہ دینا حرام تصور کیا جاتاہے چہ جائے کہ کسی کوتکلیف اور نقصان میںمبتلا کیا جائے۔

اللہ نے انسان کو معزز مخلوق بنایا، اسے قابل قدر اور باعث احترام بتایا۔اللہ کا قانون اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اللہ زمین پر کسی انسان کو راہ چلتے ہوئے کانٹا چبھے ، اس لیے راستے سے تکلیف دہ چیزکو ہٹادینے کو بھی شریعت نے صدقہ قرار دیا۔ چہ جائے کہ انسان ایک دوسرے کو دھوکہ دے اور قتل وغارتگری کے درپے ہو۔اللہ انسانوں میں اچھے اوصاف کو پسند کرتا ہے اور صالحین کا تذکرہ فرشتوں کے درمیان کرتا ہے۔ہدایت الٰہی کے مزاج کا تقاضہ ہے کہ انسانوں کے اندر ہمدردی اور محبت کا جذبہ بھرپور اور نمایاں طور پر ہو ،تاکہ اللہ کی خاص رحمتیں ان پر نازل ہوں ۔ ایسے اوصاف کے حامل لوگوں کے تعلق سے اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:

الراحمون یرحمہم الرحمن ارحمومن فی الارض یرحمکم من فی السماء    (ترمذی)
رحم وکرم اوردرگذرکرنے والوںپررحمن رحم کرتاہے۔لہذاتم زمین والوںپررحم کرو، آسمان والاتم پررحم کرے گا۔

اس حقیقت کیکسی شاعر نے بڑی اچھی ترجمانی کی ہے:
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

ہمدردی کیخوبی انسانوں کے درمیان باہمی الفت و محبت کو فروغ دیتی ہے۔ جب انسان کسی کے ساتھ ہمدردی کرتاہے اور اس کے دکھ درد کو اپنا درد سمجھتا ہے تو لوگوں پر اس کا غیرمعمولی اثر پڑتا ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں پر راج کرتاہے جب کہ مادیت کے حصول میں پھنسا انسان لاکھ کچھ حاصل کرلے مگر اسے یہ دولت حاصل نہیں ہوتی۔

دوسری جگہ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
 ’’  لایرحم اللہ من لایرحم الناس‘‘ جولوگوںپررحم نہیںکرتاخدابھی اس پررحم نہیں کرتا ہے۔ (مسلم)

اسلام دھوکہ کو پسند نہیں کرتا اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص لوگوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کرے۔اسی لیے وہ اس شیطانی عمل سے باز رہنے کی تلقین کرتاہے ۔ اللہ کے رسول کا ایک واقعہ سبق آموز  ہے۔

 ایک مرتبہ آپ ﷺ بازار سے گزرے ،وہاں ایک شخص غلہ بیچ رہا تھا۔ آپ نے غلے میں ہاتھ ڈالا تواس کو بھیگا ہوا پایا۔ آپؐ نے دکاندار سے فرمایا:اے غلہ والے یہ کیا ماجراہے ؟ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول ﷺ رات  بارش کی وجہ سے بھگ گیا تھا۔آپؐ نے فرمایا:تو تم نے  بھیگے ہوئے غلہ کو اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لوگوں کونظر آتا۔ پھر آپ ؐ نے یہ ارشاد فرمایا:

جس نے دھوکہ  دیا وہ ہم میں سے نہیں ۔  (ترمذی(
جب انسان میں دھوکہ دہی کی عادت پڑجاتی ہے تووہ لوگوں میں معیوب اورناپسندیدہ تصور کیاجاتاہے ۔ لوگ اس سے دور رہنے لگتے ہیں اور اس سے انسیت میں کمی آجاتی ہے ، جب کہ انسان یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس سے محبت کریں اور اس سے میل جول اور ہمدردی بھی رکھیں۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صاحب ایمان انسان کے ایک اچھے وصف ، کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
 المومن مالف ولا خیر فیمن لایالف ولایولف
مومن محبت اورالفت کاحامل ہوتاہے اوراس شخص میں کوئی خوبی اوربھلائی نہیں جونہ خودمحبت کرے اورنہ لوگوں کواس سے الفت ہو۔(مسند احمد،بیہقی شعب الایمان)

اگر انسان اسوۂ رسول ﷺ کو اپنائے اوراپنے خالق و مالک کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق زندگی گزارے تو پھر وہ کسی قسم کی پریشانی میں مبتلا نہیں ہوگا۔ طبیب بھی اپنی ذمہ داریاں بہ خوبی ادا کرے گا ، اس جھوٹی دنیاوی چمک دمک اور عیش پرستی کے حصول کومقصد نہیں بنائے گا۔ اس کے اندر یہ احساس بیدار ہوگا کہ وہ بھی ایک جسم رکھتا ہے، جس پر خود اس کا بھی کوئی اختیار نہیں ہے، وہ بھی  علاج کا محتاج ہوسکتا ہے یہ احساس ہو تو طبیب کومریض سے حاصل ہونے والے پیسے کی نہیں بلکہ اس کی جان کی فکر ہوگی ،دوسرں کے درد کو وہ اپنا درد تصور کرے گا اور مریض کے علاج کو گویا اپنا علاج مان کر پوری ہمدردی اور رعایت کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے گا۔ اس طرح انسان کی زندگی کی قیمت بھیڑ بکریوںکی سی نہیں ہوگی بلکہ وہ انمول ہوگی،جسے بچانے کی بھرپور کوشش بھی کی جائے گی۔تب صرف طبیب ہی نہیں بلکہ ہر پیشہ سے وابستہ انسان اسلامی تعلیمات کو اپنا کر یقینا اپنے کام میں پوری ایمانداری کا ثبوت دے گا۔اس طرح صرف ڈاکٹر ،مریض اسپتال ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پرامن اور خوشحال معاشرے کی طرف لوٹ آئے گی۔     ٭٭٭

Friday 2 September 2016

Materialism: Major obstacle to peace and humanity مادہ پرستی ۔ امن و انسانیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ


مادہ پرستی ۔ امن و انسانیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ
                                                                                                                        محب اللہ قاسمی
آج کی تیز رفتار دنیا بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کے بلند مقام پرپہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آرام وآسائش کی جدیدترسہولیات حاصل ہوگئی ہیں، انسان دنیا کو اپنی مٹھی میں کر نے اورچاندپر گھر بسانے کی سوچ رہاہے۔ لیکن دوسری طرف وہ امن و امان کا فقدان ہے۔ انسانیت دم توڑ رہی ہے۔انسان کا اخلاق و کرداراتنی پستی میں جاگرا ہے کہ اسے انسان کہنا گویالفظ انسان کی توہین ہے۔
 اگر ہم امن و امان اور انسانیت کی راہ میں کسی بڑی رکاوٹ کا ذکر کریں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انسان خدا ترس ہونے کے بجائے مادہ پرست ہوگیاہے۔

مال ودولت کا حصول اور مادہ پرستی، دو الگ الگ چیزہے۔ مال جو انسان کی ضرورت ہے ۔ کائنات اور اس کی تمام چیزیں انسانوں کی سہولت اور ان کی ضرورت کی خاطر پیداکی گئی ہیں مگر خود انسان اپنے مالک کی عبادت اور اس کی طاعت کے لیے پیدا کیاگیاہے۔ اس طرح مال کا حصول اس کی ضرورت ہے مگر مادہ پرستی اللہ کی عبادت و اطاعت کے خلاف ہے ۔اس صورت میں انسان اپنے خالق و مالک کی مرضی کو بھول کر وہ تمام کام کرتا ہے جو خود اس کے لیے بھی نقصاندہ اور امن عالم کے لیے خطرناک ہیں ۔ اس کو اس مثال کے ذریعے بہت آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کشتی خشکی میں توچلتی نہیں ،اسے پانی پر ہی چلایاجاتا ہے لیکن اگر کشتی میں پانی لبالب بھر جائے تو یہی پانی اس کشتی کو غرقاب کردیتا ہے۔

مادہ پرستی وہ مہلک مرض ہے جو انسانی اخلاق و کردار اور سماج کو متاثر کرتا ہے،پھر یہی بد اخلاق و بد کردار شخص رفتہ رفتہ الحاد کی طرف چلا جاتاہے اور اس کی عاقبت توخراب ہوتی ہی اس کا رویہ بھی سماج میں بے چینی اور فساد کا سبب بن جاتا ہے ۔وہ دنیا میں اپنی آرام و اسائش کے لیے وہ تمام کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ، جو انسان کو ذلیل و رسوا کرتا ہے اور معاشرہ میں بدامنی پھیلنے لگتی ہے۔ اللہ تعالی نے اس سے انسان کو متنبہ کیا ہے مادہ اور مادہ پرستی کو اسباب فریب قراردیتے ہوئے اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں، اولا د، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی او ر زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔‘‘(آل عمران:14(

مادہ پرستی نے انسان کے انسانیت کوبری طرح متاثرکیا ہے ،جس سے پورا معاشرہ فساد و بگاڑ کی آماج گاہ بن گیاہے۔انسان ہر چیز میں مادی مفاد کو سامنے رکھ کر اس کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ مادہ پرست انسان مادی ترقی، مال و زر اور اسباب کی کثرت کو زندگی کا معراج تصورکرتا ہے۔ اگر چہ وہ خدائی ضابطوں،انسانی رشتوں اور اخلاقی قدروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔چنانچہ انسانی زندگی میں توازن ، اعتدال اور ہم آہنگی قائم رکھنا دشوار ہورہاہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگرعلم عام ہوجائے ،لوگ زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ ہوجائیں تو سماجی زندگی بہترہوجائے ۔مگریہ بات حقیقت سے پرے معلوم ہوتی ہے ۔اس دورمیں علم پہلے کے مقابلہ میں زیادہ عام ہے ۔ تعلیم کا گراف بڑھ رہاہے۔مگر اخلاق و کردار کا گراف نیچے جارہاہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہاں اخلاقی تعلیم پرکم مادہ پرستی اور مادی تعلیم پر زیادہ زور دیاجارہاہے۔گویا تعلیمی مراکز انسانوں کو مشین بنانے کی فیکٹریاں ہیں،جہاں انسانی جذبات نہیں ہوتے بلکہ مادیت اور ان میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے گرسکھائے جاتے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ نے مادہ پرستی کے غلبے کو دیکھتے ہوئے اس کی خامی کو کچھ اس طرح پیش کیاہے ؂

یورپ میں بہت، روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات

معاشرے میں جھوٹ،رشوت ،دھوکہ دھڑی ، لوٹ کھسوٹ اورحقوق کی پامالی اسی مادہ پرستی کے کرشمے ہیں۔ کل تک لوگ غریبوں کی مدد کے لیے آگے آتے تھے، ان کی ضروریات کی تکمیل کوانسانی فریضہ سمجھتے تھے،غریبوں کوکھانا دینے کے بعدہی کھاتے تھے۔ہر کس و ناکس سے گفتگو کے دوران نرم لہجہ اختیار کرتے تھے۔اس سے ان کے اخلاق کی بلندی کا اظہار ہوتا تھا، مگر اب عالم یہ ہے کہ لوگ غریبوں کا استحصال کرتے ہیں۔مزدوروں کا خون چوس لینے کے بعد بھی ان کوپوری مزدوری نہیں دیتے۔گفتگو کے دوران ایسا سخت لہجہ استعمال کرتے ہیں کہ بسا اوقات معاملہ لڑائی تک جاپہنچتا ہے ۔ رشتہ داری نبھانا تو درکنار اپنے والدین پر خرچ کرنے کو بھی اپنامادی نقصان تصور کرنے لگتے ہیں ، اولاد ہوتے ہوئے بھی والدین بے سہاراہوتے ہیں۔جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات ہے کہ گفتگو میں نرمی رکھی جائے، مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی مزدوری دی جائے ،کسی پر ظلم نہ کیاجائے، کسی کے ساتھ دھوکہ نہ کیاجائے۔والدین کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے ۔ یہ وہ ا خلاقی تعلیمات ہیں، جنھیں رسول اللہ ؐ نے ایمان کا حصہ قرار دیاہے۔

مادہ پرستی نے انسانوں کو خونخوار حیوان بنادیا ہے ۔ بچوں کا اغواکرنا ، اس کے عوض ان کے والدین سے کثیر رقم کا مطالبہ کرنا ، ان کے ہاتھ پیر کاٹ کران سے بھیک مانگوانا۔ یہ سارے کام مال و دولت کے حصول اور مادہ پرستی کے جذبے سے ہی انجام دیے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر ی کی تعلیم حاصل کرنے کا مقصدعام لوگوں کو علاج معالجہ کے ذریعہ امراض سے شفایاب کرنا ہے،مگر مادہ پرستی نے ڈاکٹروں پر بھی ایسا جادو کیا ہے کہ وہ اپنے مقصد کو بھول جاتے ہیں اور مریضوں کے ساتھ ایک جلاد کی طرح معاملہ کرتے ہیں۔وہ نہ صرف یہ کہ علاج کے نام پر ان کے خون پسینے کی کمائی کو چوس لتے ہیں، بلکہ بسا اوقات ان کا غیرضروری آپریشن کرکے ان کے گردے تک نکال لیتے ہیں۔

مادہ پرستی نے خواتین کو بھی اپنے جھانسے میں لے لیاہے اور انھیں مستقبل کے سبزباغ دکھاکر سماج میں ذلیل اور رسوا کیاہے،اس بنا پرازدواجی زندگی تلخ ہورہی ہے۔مغرب کے تیار کردہ آزادی نسواں اور مساوات کے پر فریب جال میں پھنس کرعورتیں سرِراہ اپنے جسموں کی نمائش کرتی پھرتی ہیں۔معمولی معمولی چیز وں پر ان کی فحش تصاویراس بات کا بین ثبوت ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں چند ٹکوں کے عوض ان کی عزت و آبروسے کھلواڑ کیاجاتاہے۔

مادیت کے غلبے نے انسان کو اندھا ،گونگا ،بہرہ بنادیاہے۔ آنکھوں کو خیرہ کردینے والی مرغوباتِ دنیا نے مادیت پرستی میں ایسا اضافہ کیا ہے کہ انسان اپنا چین و سکون کھوبیٹھا ہے،اس کے پاس نہ وقت ہے اورنہ سوچنے کے لیے خالی دماغ !معیار زندگی کو بلند سے بلند کرنے کے خیال نے اسے بے حال اورپرملال کردیاہے۔اسے غم ہے توصرف اس بات کا کہ وہ دوسروں کی طرح امیرکیوں نہیں ہے؟ جب کہ وہ بھول گیا ہے کہ اس کائنات کے خالق کی ہر وقت اس پر نگاہ ہے۔اگرانسان یہ سمجھتاہے کہ مال وزر کی کثرت اسے معاشرے میں باوقار بنائے گی اور اس سے وہ ہر طرح کی راحت و اطمینان کو خرید سکتا ہے تو ؂      ایں خیال وہم و گمان است

آج اگر انسانوں کو امن و سکون و اطمینان نصیب ہوسکتا ہے تو وہ مال و دولت کے ڈھیر اکٹھا کرکے اور مادیت میں غرق ہوکر نہیں، بلکہ اپنے اخلاق وکردار کو سنوار کر اور دوسرے انسانوں کے حقوق اداکرکے  ہی وہ اس سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں۔تبھی امن و انسانیت کا فروغ ہوگا۔

Mohibbullah Qasmi
D-319, Abul Fazl Enclve, Jamia Nagar New Delhi-110025
Mob-9311523016


Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...