Monday 27 February 2017

Ghazal: Zindagani ka Maza Usne hi paya hoga

غزل

زندگانی کا مزہ اس نے ہی پایا ہوگا
جس نے سینے سے غریبوں کو لگایا ہوگا


جب بھی آتی ہے خوشی غم مجھے دے جاتی ہے
غم بھی لگتا ہے خوشی میں ہی سمایا ہوگا

آتش عشق ہے یہ، اس کو بجھا کر دیکھو
آندھیو! تم نے چراغوں کو بجھایا ہوگا

گو بلندی پہ پہنچ جائے مگر ہے مجرم
بے قصوروں کا لہو جس نے بہایا ہوگا

عزم و ہمت کو مرے آؤ گرا کر دیکھو
’آندھیو! تم نے درختوں کو گرایا ہوگا‘

ماں کی ممتا کا تو اندازہ نہیں کرسکتا
بھوکے رہ کر بھی تجھے اس نے کھلایا ہوگا

جس کو سینچا تھا رفیقؔ اپنا لہو دے کے کبھی
کیا خبر تھی کہ وہی پھول پرایا ہوگا


محب اللہ رفیقؔ

Wednesday 22 February 2017

Ghazal: Lakh Dushwar ho Chalna to magar hai peyare

غزل

لاکھ دشوار ہو چلنا تو مگر ہے پیارے
چلتے رہنا ہی تو جیون کا سفر ہے پیارے

جب کبھی تیز قدم میرے چلے رستے پر
یہ صدا آئی ٹھہر عشق نگر ہے پیارے

ماں کی خدمت سے کبھی پہلو تہی مت کرنا
اس کا ہر سانس ترے حق میں اثر ہے پیارے

بس اسی کوچے سے شیوہ ہے گزرنا میرا
جس میں ہر گام پہ الفت کا ثمر ہے پیارے

کلمہ شرک کو میں گیت سمجھ کیوں گاؤں
یہ تو ایماں کے لیے مثل شرر ہے پیارے

بیٹھ جانا نہ سیہ رات سے گھبرا کے کبھی
رات کے بعد ہی تابندہ سحر ہے پیارے

ملک و ملت ہی مری سوچ کا محور ہے رفیقؔ
وقف اسی راہ میںہر علم و ہنر ہے پیارے


محب اللہ رفیقؔ

Ghazal: Khab guhar dekhte rahe

غزل

ہم ارتقا کے شام و سحر دیکھتے رہے
اپنا بلندیوں پہ سفر دیکھتے رہے

قسمت میں جو لکھا تھا، وہی سب کو مل گیا
نادان تھے جو خواب گہر دیکھتے رہے

دشواریوں کا جب بھی ہوا سامنا کبھی
ماں باپ کی دعا کا اثر دیکھتے رہے

میری نگاہ عزمِ سفر پر رہی سدا
اہل ہوس تو زاد سفر دیکھتے رہے

میرے ہنر پہ ان کی نگاہیں نہیں اٹھیں
میرا دہ گھاس پھوس کا گھر دیکھتے رہے

منزل نہ مل سکے گی کبھی آپ کو رفیقؔ
پیروں کے چھالے اپنے ا گر دیکھتے رہیے


محب اللہ رفیقؔ

Sunday 19 February 2017

Ghazal Shak ki soye

غزل

بے سبب پہلے ہم کو سزا دی گئی
قید کی اور مدت بڑھا دی گئی

ہم ہی اہل وفا پاسبان چمن
اور تہمت بھی ہم پر لگا دی گئی

کوئی مجرم نہیں جانتے بوجھتے
شک کی سوئی ہمی پر گھما دی گئی

کوششیں صلح کی رائیگاں ہوگئیں
غیظ کی اور شدت بڑھا دی گئی

مال و زر باپ کے گھر سے لائی نہ تھی
اس لیے بنت حوا جلا دی گئی

وہ محبت ہی کرتا رہے گا سدا
دل میں جس کے محبت بسا دی گئی

اک سہارا تھی تاریکیوں میں رفیقؔ
ہائے وہ شمع بھی اب بجھا دی گئی

محب اللہ رفیقؔ


Friday 17 February 2017

Ghazal: Ahde wafa ko todna acha nahi laga

غزل


عہد وفا کو توڑنا اچھا نہیں لگا
اس نے کہا جو برملا اچھا نہیں لگا

وہ کھل کے میرے سامنے آئے نہیں کبھی
شاید انھیں بھی آئینہ اچھا نہیں لگا

اہل جنوں سے پوچھ لیا مقصد حیات
اہل ہوس سے پوچھنا اچھا نہیں لگا

انساں کا احترام نہ کرنا گناہ ہے
لوگوں کو یہ بھی فیصلہ اچھا نہیں لگا

ہم ان کے در پہ آگئے، کچھ بھی خبر نہیں
اچھا لگا ہے اور کیا اچھا نہیں لگا

شایستگی زباں میں نہ ہو جس کی اے رفیقؔ
اس کا زبان کھولنا اچھا نہیں لگا


محب اللہ رفیقؔ


Friday 10 February 2017

Urdu Ghazal: Sah nahi sakega


غزل

درد و الم کا مسکن اب ڈہہ نہیں سکے گا
آنکھوں کا خشک پانی اب بہہ نہیں سکے گا

جان حزیں تو لے لی سمع و بصر بھی لے لو
تم کو خراش آئے دل سہہ نہیں سکے گا

میں مانتا ہوں پیکر تو حسن کا نہیں ہے
لیکن بغیر تیرے دل رہ نہیں سکے گا

فکرِ معاش کیا ہے تو جان لے گا اے دل
دم توڑتا تیرا گھر جب رہ نہیں سکے گا

جس کے لیے گنوایا سب کچھ رفیقؔ تونے
حق میں ترے کبھی وہ  کچھ کہہ نہیں سکے گا


محب اللہ رفیقؔ




Ghazal: Jis Dil men ho

غزل 

جس دل میں بھی ہو جذبہ ایمان و شہادت کا
پھر خوف بھلا کیا ہو دشمن کی عداوت کا

آگے کبھی باطل کے سرحق کا جھکے کیسے
انجام ہو چاہے کچھ باطل سے بغاوت کا

دشمن تو ہمارے سب ہیں شیر و شکر دیکھو
اب چھوڑ بھی دو قصہ آپس کی عداوت کا

اللہ کی مرضی کو ترجیح دو خواہش پر
احساس تمھیں ہوگا ایماں کی حلاوت کا

تعلیم نبوت میں شامل ہے اخوت بھی
پیکر تو بنو لوگو الفت کا محبت کا

محب اللہ رفیقؔ

Mujrim ۔ Urdu Short Story

مجرم

                                                      محب اللہ

رات کا سناٹا تھا، دھڑام سے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی ،چوکیدار چوکنا ہوا ، اپنی لائٹ کی روشنی ادھر اُدھر دکھائی اچانک ایک شخص دکھائی دیا جو اپنے تھیلے میں کچھ لیے ہوئے دیوار پھاندنے کی کوشش کررہاتھا۔اس نے چور چور کی آواز لگائی اور فوراً اس کو دبوچ لیا۔ ڈاکٹر صاحب(گھر کے مالک) نیند سے جاگے اوربھاگے ہوئے آئے۔ فوراً پولیس کو بلایااور چور کو پولیس کے حوالے کردیا۔
آج عدالت میں چو ر کی پیشی تھی۔ جج صاحب آئے اور کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے کہا:’’ملزم کو عدالت میں پیش کیا جائے‘‘

ملزم کو پکڑے ہوئے پولیس آگے بڑھی۔

 ملزم نے ان سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے دبے لفظوں میں کہا :جو رشوت خور ہیں وہ میرا ہاتھ نہ پکڑے اور خود ہی آکر کٹگہرے میں کھڑا ہوگیا۔

وکیل نے ملزم سے سوال پوچھا:’’تمہارا نام کیاہے؟ ‘‘

ملزم:’’رمیش‘‘
وکیل:’’تمہارے والد کیا کرتے ہیں؟‘‘
ملزم:’’وہ اب دنیا میں نہیں ہیں‘‘
وکیل:’’تمہاری تعلیم؟‘‘
ملزم:’’تیسری کلاس پاس ہوں‘‘

وکیل جج کو مخاطب کرتے ہوئے:’’جناب والا! ہمارے دیش میں جرائم کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ لوگ پڑھتے لکھتے نہیں ۔ ایسے ہی بچے ،نوجوان گلی محلوں میں جمع ہوکر چور ،لٹریرے بن جاتے ہیں، جو سماج کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔

وکیل نے ملزم کو پھر سے مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا:’’تم اتنے بڑے ہوتم نے تیسری جماعت تک ہی پڑھائی کی، آگے کی تعلیم مکمل کیوں نہیں کی؟‘‘

ملزم:’’ میرے ماں باپ کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد میرے اسکول کی مہنگی فیس کون بھرتا ،جسے میرا باپ اپنی گھر کی ضروریات کاٹ کر پورا کرتا تھا۔ اسی طرح ان لڑکوں کاکھانا کھا کر جینا اور اپنے بیمار ماں باپ کو زندہ رکھنا بھی ضروری تھا جن کے درمیان میں پلا بڑھا تھا۔یہ زیادہ بہتر تھا یا اسکول جانا اور اسکول کی فیس ادانہ ہونے پر ڈانٹ سننا۔

وکیل صفائی نے جج سے درخواست کی:’’ جناب والا، میرے فاضل دوست کا ملزم سے ایسے سوالات کا کیا مطلب ہے؟‘‘

وکیل : ’’جناب ! میں عدالت میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ ان جرائم کی وجوہات کیا ہیں ، اس لیے ملزم سے میرا یہ سوال ضروری تھا۔‘‘
جج نے کہا:’’آپ ملزم سے متعلقہ سوال ہی پوچھیں!‘‘
وکیل: ’’تم نے ڈاکٹر صاحب کے گھر چوری کی ہے۔ تمہیں چوری کرتے ہوئے رنگے ہا تھ پکڑا گیا ہے۔ تمہارے پاس سے نقد ی کے علاوہ سونے کے زیورات بھی برآمد ہوئے ہیں۔ تم مجرم ہو!کیو ںیہ بات درست ہے یا نہیں؟ ‘‘
ملزم:’’ میں پکڑا گیا اس لیے چور ہوں!‘‘پھر ڈاکٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’اگر چور میں ہوں تو چور یہ بھی ہیں‘‘!

اس جملے سے عدالت میں سناٹاچھاگیا ۔ لوگوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگی۔ ڈاکٹر اور چور!۔
وکیل :’’جناب والا ! مجرم نے اقرار کرلیا ہے کہ وہ چور ہے۔ مگراپنے بچاؤ کے لیے اس نے ہمارے موکل ڈاکٹر کو چور ٹھہرایا۔‘‘

ملزم:’’ کیا ڈاکٹر صاحب مریضوں کو اپنے کمیشن کے چکر میں اضافی ٹسٹ، مہنگی دواؤں اور ہائی اسکور بل کے ذریعے نہیں لوٹتے؟ تو پھر مجھ میں اور ان میں کیا فرق ہے؟یہی نہ کہ میں رات کے اندھیرے میں یہ کام انجام دیتا ہوں اور وہ دن کے اجالے میں ۔

اب بتائیے !ڈاکٹر صاحب کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔ وکیل صاحب؟

وکیل کے جواب نہ دینے پر وکیل صفائی (ملزم کے وکیل) نے کہا:
’’جناب والا! یہ بات بہت اہم ہے ۔ لہذا میںملزم کی جانب سے ڈاکٹر صاحب سے کچھ سوال کرنا چاہتا ہوں ،مجھے اس کی اجازت دی جائے۔‘‘

جج نے اجازت دیتے ہوئے کہا:
’’ڈاکٹر کو عدالت میں پیش کیاجائے ۔‘‘

وکیل صفائی: ’’ہاں ! جیسا کہ ہمارے مؤکل نے آپ پر الزام لگایا کہ آپ بھی چور ہیں۔ تو میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کی بھی کوئی مجبوری ہے جو آپ نے ایسی حرکت کی ؟‘‘

ڈاکٹر اچانک ا پنے اوپر عائد الزام کو برداشت نہ کرسکا اور بناسوچے سمجھے بے ساختہ بول پڑا:
’’ جی جناب!دراصل بات یہ ہے کہ میرے گھروالے مجھے ڈاکٹر دیکھنا چاہتے تھے ۔انھوں نے مجھ پر کئی لاکھ روپے خرچ کیے ۔ ‘‘

وکیل :’’توکیا ان مریضوں کا خون چوس کرپیسا وصول کریںگے؟‘‘ اس پر قہقوں سے عدالت گونج اٹھی۔
ڈاکٹر:’’ کیا مریض کا علاج کرنے کے بعد معاوضہ لینا جرم ہے؟اور جب تک میرا یہ جرم ثابت نہ ہوجائے مجھے مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔‘‘مگر اس چورنے تومیرے ان روپیوں کو اڑالے جانے کی کوشش کی ہے۔ اس نے کون سی تعلیم حاصل کی تھی ، جاہل کہیں کا۔‘‘

جاہل کا طعنہ سن کر ملزم چورجھلایا:
’’ جب ہمیں پڑھ لکھ کر مجرم ہی بننا تھا تو اس سے بہتر تھاکہ میں جاہل رہا، میںکسی کی زندگی کوداؤ پر لگا کر اس کے جذبات کی قیمت تو نہیں وصول کرتا۔ معاوضہ لینا جرم نہیں بلکہ جرم مریض کو لوٹنا ہے، جو میں پہلے بتا چکاہوں۔

ٹھیک ہے میں چور ہوں اور اس نام کے ساتھ گالیاں سن کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر تا ہوں۔ مگر میں آپ جیسامہذب مجرم نہیں ، جو لوگوں کی زندگی سے کھیلتا اور اسے لوٹتا ہے اور نہ میں ان مجرموں کی طرح ہوںجو ملاوٹ کرکے دو کا دس بنا کر عالیشا ن زندگی جیتے ہیںاور معاشرے میں باعزت صاحب سمجھے جاتے ہوں۔‘‘

چور اور ڈاکٹر کی اس زور دار کی بحث سے عدالت میں شور ہونے لگا۔مجبوراً جج صاحب نے اپنا لکڑی کا ہتھوڑابجاتے ہوئے بولے: آڈر … آڈر ! جب تک کسی سے کچھ نہ پوچھا جائے وہ خاموش رہے۔ وکیل صاحب آپ اپنی جرح جاری رکھیں۔

ڈاکٹر کے وکیل نے ملزم رمیش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’ہاں تو تم اقرار کرتے ہو کہ تم نے ڈاکٹر صاحب کے گھر چوری کی ہے ؟کیوں کہ چوکیدار نے تم کو گھر سے بھاگتے ہوئے پکڑا ہے۔‘‘لہذا تم پر جرم ثابت ہوتا ہے۔‘‘

 اس پر ملزم نے جواب دیا:
’’ مجھ جیسے جاہل انپڑھ کو چور اچکا کہہ آپ لوگ بڑے فخر کرتے ہیں مگر آپ ہی بتایے کہ انھیں ڈاکٹر صاحب کو کیا کہیں جواپنی چارسوبیسی سے مریضوں کو لوٹتا ۔میں مانتا ہوں کہ بنا ثبوت کوئی مجرم نہیں ہے۔ توممکن ہے، کل ہمارے خلاف بھی کوئی ثبوت نہ ہو۔ عدالت کا فیصلہ مجھے منظور ہے۔‘‘


Mujrim Published by Umang Sunday


٭٭٭

Wednesday 8 February 2017

Bahmi Razamandi Buraye ke liye Jawaz Nahi

باہمی رضا مندی برائی کیلئے جواز نہیں

رب کائنات نے انسان کو وجودبخشاتو اس کی تمام بنیادی ضروریات کا لحاظ رکھتے ہوئے انتظامات کئے ۔ رہی بات جنسی خواہش کی تو یہ صرف ایک انسانی ضرورت نہیں بلکہ سماج کی تعمیر و تشکیل کا ذریعہ بھی ہے، اس کے لئے حیوانوں جیسا غیر مہذب طریقہ نہیں بتایا بلکہ سماج کے سامنے دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول اور نکاح کا طریقہ بتایا۔ اس کے بعد میاں بیوی کی ایک دوسرے کے تئیں ذمہ داریاں مقرر کردیں۔ مردوں کوقوی اورمضبوط بناکرانھیں صنف نازک کی حفاظت و کفالت کی ذمہ داری دی۔تو بیویوں کو بچوں کی پرورش اور دیگر گھریلو ذمہ داریاں دیں۔ پھران دونوںکوبے راہ روی سے بچنے کے لیے کچھ معاشرتی واخلاقی ضابطے بھی عطاکئے ،جن کے دائرے میں رہ کر وہ اپنی مشترکہ کوششوں سے صالح معاشرے کو پروان چڑھائیں تاکہ امن وامان کی فضاعام ہو اورترقی کی راہیں ہموارہوں۔ مگرانسان جب ان قدرتی ضابطوں،فطری اقدار اورمعاشرتی اُصولوں سے بالاتر ہوکرصرف اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسرکرنے لگا توہ نہ صرف خود مشکلات سے دوچارہوا بلکہ وہ دوسروںکے لیے بھی باعث مصیبت بن کر معاشرے کی تباہی وبربادی کا سبب بنا۔

مثلاًانسان کی ایک بنیادی ضرورت جنسی خواہش کی تکمیل ہے۔اس کے لیے الٰہی ضابطوںکوبالائے طاق رکھ کر زناوبدکاری کی راہ اختیارکرنا پھراس کے جوازمیں باہمی رضامندی اورمرضی کو دلیل بنا کرپیش کرنا،جو معاشرے کا ایک ناسوربن گیاہے۔ جب کہ پرامن معاشرے کی بقاوتحفظ اورتعمیروتشکیل کا صرف مذکورہ ضابطوں پر عمل کرنے میںہی مضمر ہے۔ بے راہ روی کے اس ماحول نے ان بہت سی ان لڑکیوںاورخواتین کو بھی اپنی زدمیں لے لیاہے جو پاکدامنی کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہیں اورمعاشرے کو اپنی صلاحیتوں اور کردار سے فائدہ  پہنچاناچاہتی ہیں۔مگروہ پراگندہ معاشرے کی شکارہوکراپنی قدریں فراموش کردیتی ہے یا ہوس پرست گروہ کا شکارہوکر تباہ وبربادہوجاتی ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو زنابالرضا جسے سماج اور قانون نے لیوان ریلیشن شپ کا نام دے کر جواز تو فراہم کردیا ہے لیکن حقیقت میں وہ زنابالجبرسے بھی زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ  وہ بہ آسانی چوردروازے سے معاشرے کو اپنی زد میں لے لیتاہے پھروہی طریقہ رائج ہوکر زنا بالجبرکی راہ ہموارکردیتاہے۔ اس سے اس کی سنگینی کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ اسلام کے احکام کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے ہراس طریقے کو ناپسنداورجرم قرار دیا ہے جس سے انسانیت کا نقصان ہو اور معاشرے کا نظام درہم برہم ہوجائے۔ خواہ انسان وہ حرکت اپنی مرضی اورباہمی رضامندی سے ہی کیوںنہ کرے۔اسی لیے اسلام نے انسان کو اپنی مرضی کانہیںبلکہ احکام الٰہی کا پابندبنایا ہے اور کہا ہے کہ اسی میں اس کی بھلائی ہے۔

بدکاری  کی قباحت
رشتہ ازدواج(نکاح ،شادی)کے بغیر مردوزن کا باہمی جنسی خواہش کی تکمیل کرنا، خواہ رضامندی کے ذریعے ہو یا بالجبر ’زنا‘ کہلائے گا۔جسے شریعت نے کھلی بے حیائی اورجرم قراردیاہے۔البتہ جس پر جبرکیاگیاہے وہ قابل گرفت نہ ہوگا ۔زناکی قباحت اورحرمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی کا ارشادہے: ’’زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی) ہے۔اوربڑاہی برا راستہ ہے۔‘‘(بنی اسرائیل :۳۲)

اس آیت میں انسانوںکوزنا کے محرکات سے بھی دورہنے کا حکم دیاگیاہے۔ چہ جائے کہ اس فعل بدکا ارتکاب کیاجائے ۔اسی لیے اسلام اجنبی خواتین سے میل جول،غیرضروری گفتگو، اوراختلاط سے بھی بچنے کی تاکیدکرتاہے،کیوںکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کوزنااورفحش کاری تک پہنچادیتے ہیں۔رضامندی سے انجام دی جانے والی یہ برائیاں انسان کو جبرتک بھی پہنچادیتی ہیں۔

جس طرح خوبصورت پیکٹ میں کوئی بری اورگندی چیز رکھ دی جائے تواس سے اس کی حیثیت نہیں بڑھ جاتی ۔اسی طرح مرضی اورباہمی رضامندی سے کسی جرم کا ارتکاب کرنے سے وہ درست اورقابل تعریف عمل نہیں ہوسکتا۔ ہمارے وطن عزیز میں کچھ لوگوںکا مانناہے جسے حکومت بھی تسلیم کرتی ہے کہ باہمی رضامندی سے اگر جنسی عمل انجام دیاجائے تووہ جرم نہیں ہے۔دلیل کے طورپر یہ کہا جاتا ہے کہ دوافراد کی رضامندی سے دوسروں کوکیاپریشانی ہے؟

 غورکرنے کی بات ہے کہ محض رضامندی کودلیل مان کرکیا کوئی جرم سرانجام دیا سکتاہے؟ اگرجواب اثابت میں ہو توپھر انسان بہت سی مشکلات میں مبتلاہوجائے گا اور انسانی زندگی تباہ وبربادہوجائے گی۔اس بات کوسمجھنے اورسمجھانے کے لیے بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں:

ایک کشتی جودریا کے درمیان ہو اوراس میں کوئی معمولی سوراخ ہوجائے جس کو بند کرنا بہت زیادہ مشکل نہ ہوتواس پر سوارلوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اس سوراخ کو بند کرنا بہت ضروری ہوتاہے ۔اگرکوئی اسے بندنہ کرے ،بلکہ اس پر سوارمسافروں میں سے دواشخاص یہ کہیں کہ ہم دونوں نے باہمی رضامندی کے ساتھ اس میں سوراخ کیاہے۔اس لیے کسی کو بند کرنے کی اجازت نہیں ہے اورنہ کسی کوکچھ کہنے کا حق ہے ۔توکیا اس کی مرضی پر روک لگانے کے بجائے سارے لوگ ڈوبنے کے لیے تیارہوجائیں گے؟ نہیں ! بلکہ معمولی درجہ کاعقل رکھنے والا بھی ان دونوںکی مزاحمت کرے گااورسوراخ کو بند کرنے کی کوشش کرے گا۔

      اسی طرح ہم لوگ ریل یادیگر سواریوں پر سفرکرتے ہیںجس کے لیے ٹکٹ خریدتے ہیں ، اگرکوئی شخص بناٹکٹ کا سفرکرے اوریہ دلیل دے کہ میں نے ٹی ٹی سے سیٹنگ کرلی ہے،تودیگرمسافروں یا محکمہ ریلوے کو کیاپریشانی ہے تو کیا اس کی یہ بات قابل تسلیم ہے اور اس کایہ عمل جرم نہیں ماناجائے گا؟ اگرنہیں! توپھرآج سے ہی تمام لوگوںکو رضا مندی کے انوکھے طریقے کے ساتھ  بلاٹکٹ سفرکی اجازت مل جانی چاہیے ،ایسے میں کیا محکمہ ریل یا محکمہ نقل وحمل (ٹرانسپورٹ) چل سکے گا،اس کے اخراجات پورے ہوسکیں گے؟ یہ تو ایک محکمہ کا نظام ہے جو مذکورہ اُصول پر نہیں چل سکتا تو پورے معاشرے کا نظام محض دوافراد کی رضامندی سے کیسے چل سکتاہے۔

 آج خودپسندی اوراپنی مرضی کی پیروی نے انسانوںکوتباہی کے ایسے دہانے پر لاکھڑاکیاہے کہ ان کے دل سے احساس جرم نکل چکاہے ،معاشرے کی بقاوتحفظ کی باتوں سے ان کی آزادی میں رکاوٹ محسوس کی جانے لگی ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ وہ اچھاکام کرے اوربرے کام سے بچے ،یہی وجہ ہے کہ اسے خوشبوسے پیار اوربدبوسے نفرت ہوتی ہے۔ معاشرے میں کوئی شخص گندگی پھیلائے یا کوئی جانور کومار کر اپنے ہی دروازے کے سامنے رکھے ،جس سے کہ بدبو ہو اورتعفن پھیل جائے اور تنبیہ کرنے پر وہ کہے کہ یہ میری مرضی میں جیسے چاہوں رہوں جو چاہوںکروں تمہارے گھرمیں تومیں نے گندگی نہیں ڈالی ، پھرتمہیں کیا پریشانی ہے۔ توکیا اس کی یہ دلیل قابل قبول ہوگی اوراسے یونہی چھوڑدیاجائے گا ؟ ٹھیک اسی طرح باہمی رضا مندی سے قائم کیاگیا جنسی تعلق محض دوانسانوںکا عمل نہیں ہے یا اس میں صرف دولوگوںکی مرضی پر بدکاری کوفروغ حاصل نہیں ہوگا بلکہ جب یہ وبا عام ہوگی توپھرجبروتشدد کی کیفیت کو جنم دے گی، اس کے  نتیجے میں انسانیت کا خاتمہ ہوجائے گااور معاشرہ بدامنی کا شکارہوجائے گا، موجودہ دورمیں اس کامشاہدہ ہم اپنی کھلی آنکھوں سے کرسکتے ہیں۔ آج خواتین کی عصمت دری اوران کے قتل کے واقعات نے بھیانک شکل اختیارکرلی ہے ،ظاہر ہے یہ سب اچانک نہیں ہوگیابلکہ غلط طریقوں اور فحاشی کے فروغ نے ایسا ماحول بنادیاکہ معاشرے کی کشتی میں نہ صرف سوراخ ہوگیاہے بلکہ تیزی سے اس میں پانی بھررہا ہے۔پھربھی لوگ بدکاری کے محرکات واسباب پر گرفت کرنے کے بجائے اس کی وکالت کرتے ہیں۔ اس قسم کے منچلے ہوس پرست لوگوںکی گرفت کرنے کے بجائے انھیں مزیدکھلی آزادی دی جارہی ہے اور قانونی تحفظ فراہم کرکے بے حیائی کے محرکات کو فروغ دیاجارہاہے۔ ان حالات میں نہ صرف سماج کاشیرازہ منتشرہوگا بلکہ ملک تیزی سے زوال کی راہ پر جائے گا۔

بدکاری کے اثرات
اگراس فعل بدکی روک تھام نہ کی گئی تو وہ بھیانک شکل اختیارکربیٹھے گا پھرمعاشرے پر اس کے بدترین اثرات پڑیںگے۔چنانچہ ایڈس جیسی خطرناک بیماری ،غریبی اوربھک مری کی کیفیات اسی سے پیداہوتی ہیں ان پر غور کیا جاسکتاہے۔آج سے ساڑھے چودہ سوسال قبل نبی رحمتؐ نے اس فعل بد کے نقصانات اوراثرات سے متنبہ کردیاتھا۔اس کی قباحت بیان کرتے ہوئے آپ ؐ  نے ارشادفرمایاتھا:
 ’’جس قوم میں زناکاری اورسودخوری عام ہوجائے گی اس میں اللہ کا عذاب آنا لازمی ہے۔‘‘(شعب الایمان للبیہقی(

ایک جگہ اورارشادہے:
 ’’جس قوم میں علانیہ فحش کاری کا بازارگرم ہوجائے اس میں طاعون اورایسی بیماریاں عام ہوجائیں گی  جو اس سے پہلے کبھی نہیں تھیں۔‘‘(ابن ماجۃ)

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہؐ نے مسلمانوں کو اس فحش کاری سے ڈراتے ہوئے دنیا و آخرت میں اس کے انجام بد سے آگاہ کیاتھا۔ آپؐ کا ارشادہے: اے مسلمانوں کی جماعت زنا سے بچو، اس لیے کہ اس(کے نتیجے) میں چھ خصلتیں ملتی ہیں تین دنیا میں اور تین آخرت میں، رہیں تین دنیاوی پریشانیاں: وہ ہیں چہرے کی رونق ختم ہونا، مسلسل فقراور عمر کی تنگی اوراس سے آخرت میں لاحق ہونے والی تین پریشانیاں یہ ہیں: اللہ تعالی کی ناراضی، بدترین مواخذہ اور جہنم میں داخلہ۔(شعب الایمان للبیہقی،ذم الہوی لابن جوزی(


خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جب انسان اس قدرتی نظام معاشرت سے بغاوت کرتے ہوئے من چاہی زندگی بسرکرے گا تواسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،جوکوئی قدرت  کے نظام حیات سے انحراف کرتے ہوئے ، خودساختہ طریقہ ایجادکرے گا تو وہ نت نئے مسائل سے دوچارہوگا،اگراس پر روک نہ لگائی گئی توپورا معاشرہ تباہی و بربادی کے سمندرمیں غرق ہوجائے گا اورکوئی اسے بچانے والا نہ ہوگا۔ll     

Urdu Short Story: Bebasi ka Karb

کہانی :

بے بسی کا کرب


       مہینے کی پہلی تاریخ تھی۔ میں بہت خوش تھا۔ عصر کی نماز سے فارغ ہوکر تیزی سے دفتر گیا، جلدی جلدی کام کیا اوربقیہ کام کو پنڈنگ فائل میں ڈال کر باس سے اجازت لی اور دفتر سے باہر نکل آیا۔ بازار پہنچ کر سبزیاں لیںپھر ایک مٹھائی کی دکان سے سموسے اورمٹھائی لی اور گھر کی طرف چل پڑا۔

گھرپہنچتے ہی بچوں نے اسے دیکھ کر شور مچانا شروع کردیا: ’’ابوآگئے! ابوآگئے!!‘‘
رضیہ نے سبزی کی تھیلی میرے ہاتھ سے لے کر ایک طرف رکھ دی۔
میں نے اس سے کہا:’’پلیٹ لاؤ اور سنو،ایک اچھی سی چائے بنانا۔‘‘
بچے پلیٹ کے اردگرد بیٹھ گئے ۔

 تبھی عامرنے جلدی سے مٹھائی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ایک رسگلہ اٹھا لیا، جس سے رس ٹپک رہاتھا۔
میں نے کہا: ’’رکوبیٹا…!‘‘ پھر اس کی گردن میں اپنا رومال باندھ دیا تاکہ اس کے کپڑے خراب نہ ہوں۔
 پھر کہا : ’’چلواب بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ ۔‘‘

اتنے میں رضیہ ٹرے میں چائے لیے ہوئے آگئی۔

بچوں کو اس طرح جلدی جلدی کھاتادیکھ میں نے کہا:’’رضّوآج مجھے ابو یاد آرہے ہیں۔ پتہ نہیں، وہ کس حال میں ہوںگے۔ جانتی ہو، جب ہم عامر کی طرح تھے تو میرے ابوروزانہ ہم لوگوں کے لیے مٹھائیاںلاتے،خوب کھلاتے اورجب ہم گھومنے جاتے تو ہمارے لیے من پسند  چیزیں بھی خرید دیتے تھے۔ہم لوگوں کو کبھی مایوس دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔آج میں پڑھ لکھ کر نوکری کے قابل ہوگیا ہوں اورچاہتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ رہیںاور اپنی شراب کی گندی عادت کو چھوڑدیںمگر وہ میری بات نہیں مانتے ۔ ان کی یہ عادت ہم سب کی پریشانی کا باعث بن گئی ہے۔ جس شخص نیمیں زندگی بھر ہم لوگوں کے لیے سب کچھ کیا،آج میں اتنا بے بس ہوں کہ چاہ کر بھی ان کے لیے کچھ نہیں کرپارہاہوں۔‘‘

باتوںباتوںمیں ہیمغرب کا وقت ہوگیا میںنے رضیہ سے کہا: ’’بچوں کو سنبھالو اورنماز کی تیاری کرو۔ بس مسجدسے نماز پڑھ کرآرہاہوں۔‘‘

یونہی دن گزرتے رہے ۔ میں کے دوبچے اورایک بچی تھی جو اب بڑے ہونے لگے تھے۔ اس کی آمدنی یوں تو کچھ خاص نہیں تھی،مگر پھر بھی کسی طرح گزر اوقات ہورہی تھی۔بچے ایک اسکول میں پڑھنے جاتے تھے ۔ وہ  پیسے بچا کر رضیہ کوبنابتائے اپنی والدہ کے نام گھر بھیج دیتاتھا۔

ایک دن بچوں نے ضدکی کہ وہ میلے میں گھومنے جائیںگے۔ میںنے منع کیا مگر جب بچوں نے ایک نہ مانی ، تب میں نے رضیہ سے پوچھا:
’’کچھ پیسے جمع ہوں تو دو؟میں تمھیں بعد میں واپس کردوںگا۔ بچوںکو گھمانے لے جانا ضروری ہے‘‘۔

پھر اس نے اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کیا۔
’’رضو!جانتی ہو،ایک بار ابو ہم سب کو لے کر ڈزنی لینڈ (مختلف مقامات پر لگنے والا بڑا میلہ) گھمانے لے گئے تھے۔ وہاں ہم لوگ بڑے بڑے جھولوں پر جھولے ،آئس کریم کھائی، ہوا مٹھائی بھی خریدی،بہت سے کھلونے بھی خریدے ۔ سب نے اپنی اپنی پسند کی چیزیں لی تھیں۔ مگرمیں کیا کروں، میرے پاس اتنے پیسہ نہیں ہے کہ میں بچوںکو وہ سب کچھ دے سکوں جو مجھے میرے ابونے دیاتھا۔ تمہیں وہ چیزیں خرید کر دو جوتمھیں پسند آئے۔ آج پھر مجھے ان کی جدائی کا کرب ستارہاہے۔اب بھی وہ اپنی گندی عادت چھوڑدیں اورہمارے ساتھ رہنے کو تیار ہوجائیںتو یہ بات میرے لیے تمام خوشیوں سے زیادہ بڑھ کرہوگی۔‘‘

تبھی عامر جوتے کے فیتے باند ھتے ہوئے بولا: ’’ابو! ہم تیار ہوگئے‘‘۔
ناصر بھی کچھ کہنا چاہ رہاتھا کہ سارہ اپنی توتلی آواز میں بولی: ’’ابوتلونا۔۔ دلدی تلونا!‘‘
اتوار کا دن تھا۔ میں گھر پر ہی تھا کہ دروازے پر ایک مانگنے والی عورت آئی، جس کے ساتھ دوبچے تھے۔ حسب معمول رضیہ نے پوچھا : ’’کیابات ہے ؟ ‘‘

مانگنے والی خاتون نے کہا: بھوک لگی ہے، اگر کچھ کھانا اور ان بچوںکے لیے پرانا کپڑاہو تو دے دو،بڑی مہربانی ہوگی۔
رضیہ نے کہا: ’’ٹھیک ہے کھانا میں دے دیتی ہوں،مگرکپڑے میرے پاس نہیں ہیں،کہیں اور سے مانگ لو‘‘۔
تبھی میںنے کہا:’’ارے رضو، عامر اور ناصرکے پرانے کپڑے اسے آجائیںگے وہ دے دو۔ان کے پاس تو اوربھی کپڑے ہیں۔‘‘ پھر رضونے بہ مشکل اسے وہ کپڑے اسے دے دیے۔

گھنٹے دوگھنٹے گزرے ہوںگے کہ مانگنے والی ایک اور خاتون آئی ،جو رو رو کر فریاد کر رہی تھی : ’’ہم لوگ غریب ہیں، بچی کی شادی کرنی ہے، تھوڑی بہت امداد ہوجائے تو بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘
رضونے کہا:’’ اب میں اسے کیا دوں؟‘‘
 تب میں نے کہا:’’ا سے سو روپے دے دو۔‘‘

اس پر رضیہ جھنجھلاکر بولی:’’ آپ کی یہ عادت ٹھیک نہیںہے۔ ایک تو میں ضرورت کے سامان کم کرکے بہ مشکل 10روپے 20روپے جمع کرتی ہوںاور آپ آئے دن ان میں سے کسی نہ کسی کو دلوادیتے ہیں۔ آخرہماری بھی تو ایک بیٹی ہے ، ہمیں بھی تواس کی شادی کرنی ہے۔ تمہارے ابوبڑے دانی تھے ،جوکچھ کمایا، سب کچھ لٹادیا،کیا ملاان کو؟ اب ایسی عادت میں پھنسے ہیں کہ کوئی ان کو اپنے ساتھ نہیں رکھتا۔‘‘

رضیہ کی یہ باتیں سن کر مجھے زورکا جھٹکا لگا، گویاکسی نے اس کے منھ پر زنّاٹے دار طماچہ رسید کیا ہو۔اسی وقت یہیں سے اس نے طے کرلیا کہ وہ اپنے بچوں اور بھائیوں کی ایسی نگرانی کرے گا کہ گندی عادتیں انھیں چھوبھی نہ سکیں۔
ارے، یہ کس کا سامان ہے ،نکالو! چلو چلو، آگے بڑھتے رہوبھائی۔اس شور و غل نے مجھے نیندسے جگادیا۔
رضیہ نے بھی اس کی نیند پر کہا:’’ اب اٹھیے بھی کتنا سوتے ہیں آپ ! اور یہ نیند میں آپ کیا بڑ بڑا رہے تھے؟‘‘
میں نے جواب دینے سے قبل کھڑکی سے جھانکا اور کہایہ تو نئی دہلی اسٹیشن ہے!تب اسے پتا چلا کہ وہ خواب دیکھ رہاتھا۔ پھر رضیہ سے کہا: ’’رضو! لوگ خواب میں اپنا مستقبل دیکھتے ہیں مگر میں اپنا ماضی دیکھ رہا تھا۔‘‘

اتنے میں اچانک عامر اس کے سامنے آکھڑا ہوا اور کہا :’’ چلئے ابو، گھر چلیں،وہیں ظہر کی نماز پڑھیں گے۔ آپ کے پوتے اکرم اورانورآپ کابے صبری سے انتظار کررہے ہیں۔‘‘
عامر کی بات ختم ہوتے ہی خالد نے کہا : ’’مگرناصر نہیں آیا؟‘‘
عامر:’’ابووہ کمپنی ویزاپر ابوظبی گھومنے گیاہے۔میں آپ کو فون پر بتانا بھول گیا تھا۔‘‘

تبھی عامر ایک شخص کو سگریٹ پیتا دیکھ بولا: ’’ ارے بھائی ،اپنے گھر جاکر پینا، کیوںاپنی اور دوسروں کی صحت کو خراب کررہے ہو۔‘‘

یہ جملہ سن کر خالد کو یقین ہوگیاکہ اس کی، بچپن کی تربیت میں کوئی کمی نہیں رہی۔ سب اسٹیشن سے باہر آئے ، اپنی کار  میں بیٹھے اور گھر کا رخ کیا۔


عامر نے حفظ کرنے کے بعد عصری تعلیم حاصل کی ۔بی ٹیک کے بعدوہ ایک بڑی کنٹرکشن کمپنی کا ایکزیکٹیو ڈائریکٹر بن گیاتھا۔ ناصر بھی ایم بی اے کرکے ایک مشہورکمپنی کا مینیجنگ ڈائرکٹر بن گیا تھا، جب کہ سارہ نے اردواور انگریزی سے ڈبل ایم اے کیا پھر اس کی شادی ایک عالم دین سے ہوئی ، جس کا کپڑوںکا بہت بڑا کاروبارتھا۔

Bebasi ka karb Inqulab Mumbai 18 July 2013


Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...