Friday 26 May 2017

Ramzan Mubarak

جمعہ کو چاند نہیں دیکھا گیا اس لیے انشاءاللہ ہم لوگ اتوار کو روزہ رکھنا شروع کریں گے.

 آپ تمام حضرات کو میری جانب سے رمضان المبارک کی پیشگی مبارک باد...
اللہ تعالٰی ہم لوگوں کو رمضان المبارک کی زیادہ سے زیادہ فیوض و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے اور ہماری عبادات کو قبول فرمائے. آمین 

محب اللہ قاسمی



Tameeri Adab aur Adeeb


تعمیری ادب اور ادیب
                                                    محمد محب اللہ

ادب معاشرے کا آئینہ دارہوتا ہے۔ ہر چیز کی طرح اس میں بھی عمل اور ردعمل کابھرپورعنصر موجود ہوتاہے۔اسے صحیح رخ دیا گیا تو پھر یہی معاشرے کی تعمیر اور اس کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکتاہے۔ جیسا کہ ادب کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے انسانوں کو باکردار بنایا اور معاشرے کو عروج بخشاہے، یہی ادب جب غلط رخ چلا تو اس سے نہ صرف سماج میں فساد و بگاڑ پیدا ہوا بلکہ معاشرہ اس کی خرابیوں سے تعفن زدہ ہوگیا ۔چکاچوندکردینے والی دنیاکی چمک دمک اورنمود و نمائش کی مدح سرائی نے  لوگوں کو مادہ پست اور اخلاقی اقدارسے عاری اور پستہ قدبنادیا۔ اپنے خوبصورت الفاظ و انداز کے پیرائے میں بنت حوا کی عزت و آبروپر وار کیا ، پھر مردو زن کے مساوات کا نعرہ دے کرانھیں سرعام بے آبرو کیا۔

       اس غلط رخ پر گامزن بے ادب بہ الفاظ دیگر ناجائز ادب نے تحریروں و تقریروں اور تمام اصناف ادب کو بے ادب کررکھا ہے۔اسے صحیح رخ پر لانے اورادب کو باادب بنانے کی کوشش کو اسلامی ادب کا نام دیا جارہاہے۔جب کہ ادب کو اسلامی اور غیراسلامی ادب کہنے کے بجائے  ادب کو اس صحیح رخ پر لانے کی ضرورت ہے جو اس کا معنی اور مفہوم ہے۔ ادیبوں اورادبی فلسفیوں نے ادب کی جو تعریفیں کی ہیں ،وہ پیش کی جارہی ہیں تاکہ اس کا صحیح مفہوم واضح ہو:

ادب عربی زبان کا لفظ ہے جومختلف اقسام کے معنی اور مفاہیم کا حامل ہے۔ بعثت رسول سے قبل یہ عرب میں لفظ ضیافت اور مہمانی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ بعد میں ایک اور مفہوم شامل ہوا جسے ہم مجموعی لحاظ سے شائستگی کہہ سکتے ہیں۔ عربوں کے نزدیک مہمان نوازی لازمہ شرافت سمجھی جاتی ہے، چنانچہ شائستگی ، سلیقہ اور حسن سلوک بھی ادب کے معنوں میں داخل ہوئے۔اسلام سے قبل خوش بیانی کو اعلیٰ ادب کہا جاتا تھا۔ گھلاوٹ ، گداز ، نرمی اور شائستگی یہ سب چیزیں ادب کا جزو بن گئیں ۔‘‘  (وکی پیڈیا ، زمرہ’’ادب‘‘)۔

کارڈ ڈینل نیومین کہتا ہے:
’’انسانی افکار ، خیالات اور احساسات کا اظہار زبان اور الفاظ کے ذریعے ادب کہلاتا ہے۔‘‘
  )وکی پیڈیا ، زمرہ’’ادب(‘’

       نارمن جودک کہتا ہے :
’’ادب مراد ہے ان تمام سرمایہ خیالات و احساسات سے جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔‘‘   (وکی پیڈیا ، زمرہ ادب(

 مولانا مودودیؒ اس کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’علمی لحاظ سے ادب کی تعریف اور ادیبوں اور فلسفیوں نے چاہے کچھ بھی کی ہو ، لیکن میرے ذہن میں ادب کا تصور یہ ہے کہ وہ حسن کلام اور تاثیرکلام کا نام ہے، جوچیز ادب کو عام انسانی گفتگوؤں اور تقریروں سے ممیز کرتی ہے وہ کلام کا حسن اور تاثیر ہے۔ جب انسان اپنی بات کو خوبصورت طریقے سے ادا کرتا ہے اور اتنے مؤثر طریقے سے ادا کرتا ہے کہ سننے والا اثرقبول کرے اور جو کچھ بات کرنے والا چاہتا ہے وہ اثر ڈال سکے ، اس نوعیت کے کلام کو ہم ادب کہتے ہیں۔‘‘(اسلامی ادب،ص:۱)

ادب اگر اپنے صحیح معنوں میں استعمال ہو تو وہ افکار وخیالات جو انسان میں شائستگی اور سلیقہ مندی پیدا کریں، جن کا اظہار نہ صرف انسانوں کی خوشی ومسرت کا باعث ہو اور انھیں قہقہوں میں ڈبوئے بلکہ انسانی اخلاق و کردار کے معیار کو بلند بھی کرے ۔ انسانوں کے خود ساختہ نظام زندگی کا بھرپور جائزہ لے ، اسے ایک ایسے نظام زندگی سے روشناس کرائے جو خوبصورت اور مؤثر انداز میں انسانی زندگی کے تمام مسائل کا قابل عمل حل بھی پیش کرے ۔یہ ادب کا خاصہ ہوگا۔

اس لحاظ سے ادب اور سماج کا رشتہ بہت گہرا ہے اور وہ بھی اسی بنیاد پر ہے کہ دونوں اپنی بہتری اور کمال کے لیے ایک دوسرے کے معاون ہوں اگر ان میں سے کوئی ایک درست ہو تو دوسرے کو بہتر بنانے میںاس کا اہم کردار ہوتاہے۔ اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ ادب کو بادب بنائے رکھنے میں معاشرے کی تعمیر ہے ورنہ یہ ادب بے ادبی کے سبب معاشرے کو پراگندہ کرسکتاہے۔اسی وجہ سے ادبا حضرات نے معاشرے کوبنانے ،سنوارنے اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بڑی کوششیں کیں ہیں۔

اگر ہم اپنے وطن ہندوستان کے تناظر میں صرف اردوادب کا جائزہ لیں جو تمام نشیب وفراز کا سفر کرتے ہوئے آج اس مقام پر پہنچا ہے، جہاں ذرائع ابلاغ اور ترسیل کے وسائل بہت عام ہوگئے ہیں۔ تو ہم محسوس کریں گے کہ  ادب کاخواہ وہ قدیم دور رہا ہو جس وقت ابلاغ و ترسیل کا دائرہ بہت محدود تھا ، مگر مال و اسباب سے لیث اور سونے کی چڑیا کہاجانے والا ہمارا وطن مدمست اور مگن تھا، جس کے سبب زیب و زینت، آرائش و آشائش کے اسباب کی فراوانی نے لوگوں کو مست کررکھا تھا۔ اس وقت ادب بھی اپنے دھن میں مگن اور خوشیوں کے گیت غزلوں اور نغموں میں چور ہوگیاتھا۔ راجا، مہاراجا کے فراخ دلی کے قصے بھی اپنے دامن میں لیے ہوا تھا تو وہیں ،گھرس اور بنیوں کے سودبیاج کے گھن چکر میں پھنسے غریبوں اور کسانوں کی بد حالی کی داستان بھی بیان کررہاتھا۔

اسی طرح ادب نے اس وطن عزیز کو جس کے گہوارے میں وہ کھیل رہا تھا جب انگریزوں کے ہاتھ غلام بنالیا گیا اوراور لوگوں نے ناکامی و نامرادی، ہر آن بے بسی و بے کسی کا پہرہ پایا ، اس دور میں بھی ادب نے لوگوں کے اندرجذبہ ،ہمت اور مشکلات سے ٹکراجانے کا جنون پیدا کیا اور ’انقلاب زندہ باد‘ جیسے دشمنوں کو للکار نے والے نعرے دیے۔حب الوطنی کے گیت نے لوگوں کو وطن سے ایسا جوڑدیا کہ وہ اسے اپنی جان سے عزیز ماننے لگے اور اس وطن عزیز کو غلامی کی بیڑیوں سے آزاد کرنے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی۔

جب کسی طرح وطن آزاد ہوگیا ،مگرملک کومختلف چیلنجزکا سامنا ہوا، منافرت کی بیج جو دشمنوں نے بوئے تھے، وہ پودا اب تناور ہوکر اپنے شاخین پھیلانے لگا۔ لوگ سب کچھ کھودینے کے بعد بھی آزاد ہند میں غلامی کی زندگی جی نے پر مجبور تھے ، ان مسائل سے ابھر نا بھی جنگ آزادی سے کم نہ تھا۔اس وقت بھی ادب نے سماج کو جوڑکر اسے ایسی قوت بخشی جس نے اس کشمکش کو دور کرنے اور مشرقی تہذیب و کلچر کے فروغ کے ساتھ ساتھ ظلم و ستم مٹانے اور انسانی اخلاقی اقدار کی بحالی میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی اور اپنی کوشش جاری رکھی۔یہ دورانیسویں صدی کا نصف آخر اور بیسویں صدی کا دور تھا، جسے  تحریک ریشمی رومال،علی گڑھ تحریک ،ترقی پسند تحریک  اور جدید یت کا دور کہا جاتا ہے۔

ادب کو ہر دور میں باادب رکھنے کی کوشش کی گئی اور اصناف ادب کی اصلاحات بھی ہوتی رہیں ۔ ان اصلاحی کوشش کرنے والوںمیں بڑے بڑے نامور ادبا ،شعراء اور انشاء پردازوں نے اپنی ادبی اور فنکارانہ صلاحیتوں سے سماج کے بکھرے ہوئے تانے بانے کو درست کرنے میں نمایاں کارنامہ انجام دیا۔جیسے علامہ شبلی ،حالی، سرسیداور ڈپٹی نذیر وغیرہ جن میں سے ہر ایک کو انجمن کہا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ علامہ اقبال،ابوالکلام آزاد،مولانا عبدالماجد دریابادی ،اکبر الہ آبادی ،مولانا مودودی،ابوالحسن ندوی،مناظر حسن گیلانی وغیرہ اسی طرح ایک مثلث کہی جانے والی ٹیم جیسے پروفیسر عبدالمغنی ،ابن فرید اور شبنم سبحانی ان کے علاوہ اور بہت سے ادبا حصرات جنھوں نے ادب کو صحیح سمت دینے کی بڑی حد تک کوشش کی اور اس کے لیے جی جان لگا دی ۔جنھیںاس تعمیری اور اصلاحی ادب کی پاسبانی حاصل تھی جسے اقبال،آزاد اور مودودیؒ نے بڑی محنت سے کھڑا کیا تھا۔ ان حضرات کی کتابوں اور تحریروں سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔جیسا کہ مولانا حالی نے انسان کو انسان بننے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا:

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

تو وہیں علامہ اقبال نے ادبا وشعراء کے اعصاب پر سوار خاتون  ،اس کے حسن وعشق کی قصیدہ خوانی پراظہار افسوس کرتے ہوئے کہا تھا:

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ! بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

سمت ِ ادب کو متعین کرنے پر زور دیتے ہوئے عبدالمغنی اپنی کتاب ’تنقیدمشرق‘میں فرماتے ہیں :

’’ فن کی جمال پسندی اور تصوف کی خیال پرسی کے بجائے تہذیبی وتخلیقی سرگرمیوں کو ایک محکم نظام فکر کی روشنی میں ایک واضح سمت اور متعین جہت دینے کی ضرورت ہے۔اس لیے ادبا و شعراء اپنی ذات کے گرداب سے نکل کر زندگی کی موجوںپر اپنے ذہن کا سفینہ چلائیں اور ساحل مراد کی طرف رواں ہوں۔گویا ادب کو بامقصد بنا نا ضروری ہے تاکہ زندگی کی کشتی کسی بھنور میں پھنس کر غرق آب نہ ہو۔‘‘

کیوں کہ ہندستانی ادب نے بھی مشکلات کے ادوار دیکھے ہیںاور انسانی مشکلات کا بخوبی جائزہ لیا ہے ، اس لیے ایسے ادب کی سخت ضرورت ہے جو کو انسان محض روٹی ،کپڑا اور مکان کی ضرورت پر ہی توجہ نہ دے بلکہ انسان کو اس کی پہچان بتاسکے ، اسے روحانی سکون کی ضرورت کا احساس دلائے اور اس کے سامنے اس کی زندگی کا مقصد واضح کرسکے۔ جس کے سامنے مقصد نہیں ہوتا وہ غلام ہوجاتا ہے ،یہی غلامی خواہ وہ ذہنی ہو یا جسمانی انسان کو ذلیل اور رسوا کردیتی ہے ۔ سماج میں جھوٹی عزت وشہرت اس کو اس سے بچا نہیں سکتی ۔ وہ لباس میں ہوتے ہوئے بھی ننگا ہوتا ہے۔

آج کے ایسے دور میں جہاں آزادیٔ اظہار رائے کی آڑمیں تہذیب و ثقافت کے نام پر ہر طرح کا فحش لٹریچر ہی نہیں بلکہ سمعی و بصری ذرائع عریانی و بداخلاقی پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور اس کا مقصد صرف اور صرف مادی دنیا کے سرمایہ داروں کی تجارتی منفعت کا تحفظ ہے۔ اسی موڑ پر ادب کے ذریعہ سماج کی تعمیر کرنے والے ادیب کی ذمہ داریاں کئی چند ہوجاتی ہیں۔ کیوں کہ ادبے ذہنی و فکری لحاظ سے سماج و معاشرہ کا معمار ہوتا ہے اور معمار کج دیوار کھڑی کرکے پختہ عمارت نہیں تیار کرسکتا۔ اسی لیے ادیب کو اپنا مثبت رول ادا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔یہی ہمارے سماج اور تہذیب و ثقافت کے لیے مفید ہوگا۔

Wednesday 24 May 2017

Short Story: Safar

سفر

سردی کا زمانہ تھا،رات کے پچھلے پہرراشد اٹھ بیٹھااور جلدی جلدی اپنا سامان پیک کرنے لگا۔اسے دہلی جانا تھا ۔ریلوے اسٹیشن گاؤں سے تقریبا سترکلومیٹر دور تھا،وہاں پہنچنے کے لیے اسے بس پکڑنی تھی۔فکرمعاش گاؤں کے اکثر لوگوں کو دور دراز شہروں کا سفر کر نے پر مجبور کردیتاتھا۔راشد بھی انہی لوگوں میں سے ایک تھا۔

راشد جب بھی دہلی یا اور کہیں جاتاتو گاؤں کے لوگ اپنے بیٹوں اور دیگر رشتہ داروں کے لیے کچھ سامان اس کے حوالے کردیتے جسے لے جانے کے لیے وہ بہ خوشی تیارہوجاتا۔

راشدکا ریزرویشن نہیں تھا، اسٹیشن پہنچ کر دہلی جانے والی گاڑی کے جنرل ڈبے میںسیٹ لینی تھی ۔وہ اپنے سامان کے ساتھ صبح ساڑھے پانچ بجے گاؤںکے قریب سڑک پر ایک جگہ کھڑا ہوگیا جہاں بسیں رکتی تھیں۔

بس اپنے وقت پردور سے ہی ہارن دیتی ہوئی آئی۔راشدنے ڈرائیورکو ہاتھ دکھایا ،گاڑی رکی۔وہ بس پر چڑھ گیا اور ایک سیٹ پر بیٹھ کر چادرتان لی۔تھوڑی دیرمیں اسے نیند آنے لگی۔

ان دنوں کافی لوگ الہ آباد گنگا اسنان کے لیے جارہے تھے۔ ہر اسٹیشن پرخلاصی زور زور کی آواز لگاتا اورسامان اٹھا اٹھا کر گاڑی میں رکھتا ،پھر سواریاں اپنی اپنی جگہ لے کر بیٹھ جاتیں۔

ابھی راشد کچی نیند میں تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ چند لوگوں نے گاڑی رکوائی اور دوبوڑھی خواتین اور ان کے ساتھ کچھ مرد و خواتین چڑھے اسی دوران ایک شخص نے کہا:
’’ ارے بھیا!ماما چاچی تہ ابھی نے کھے آئے ت سب کیسے جائب بس رکوا ب ہمنی ایک ساتھ ہی جائب۔ ‘‘(ماما اور چاچی تو ابھی آئی نہیں ،تو ہم لوگ کیسے جاسکتے ہیں۔

 کسی نے کہا : ارے ہاں اوسب ت ابھی تیاری کرت بارن (وہ سب تو ابھی تیاری ہی کررہے تھے)۔
 پھر جلدی جلدی سب لوگ اپنا اپنا سامان لے کر نیچے اتر گئے۔

ان لوگوں کی بولی اور معصومیت پر راشد کو ہلکی سی ہنسی آئی۔پھر وہ سو گیا۔
بس تیزرفتاری کے ساتھ دو گھنٹے میں ستر کلو مٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد منزل کو پہنچی ۔سارے لوگ اترنے لگے۔

راشد بھی انگڑائی لیتے ہوئے کھڑا ہوا اور اپنا سامان ڈھونڈنے لگا۔ایک بیگ ، جسے اس نے اپنے قریب رکھا تھا اٹھا یامگر وہ بوری جس میں گاؤں کے لوگوں کا سامان تھا،وہ اپنی جگہ پر نہیں تھی! اس نے دیکھا کہ اسی طرح کا ایک تھیلا قریب میں رکھا ہوا تھا ۔ اس کے علاوہ اور کوئی سامان کہیں بھی نظر نہیں آرہاتھا۔

وہ پریشان ہوگیا۔ اس نے سوچا کہ اگروہ اپنا سامان لے کر چلاگیا اور دوسروںکی امانت ان تک نہیں پہنچی تو وہ گاؤں والوںکے درمیان بے عزت ہوجائے گا اور لاپروااور خائن کہلائے گا۔اس نے اس بورے کو کھول کردیکھا تواندازہ ہوا کہ یہ ان لوگوں کا سامان ہے جو شردھا اور گنگا اسنان کے لیے جارہے تھے۔اس میں گھی کا ڈبہ ،لائی ، بوندی کا لڈو، چڑھاوے کا نیاجوڑا اور کچھ قیمتی چیزیں تھیں۔

فوراً راشد کی سمجھ میں آیا گیاکہ ہو نہ ہو راستہ میںایک سواری جلدی جلدی اتری تھی۔شایداس نے اپنا سامان اتارنے کے بجائے میرا ہی سامان اتارلیاہو۔ مگروہ کون لو گ تھے اور کہاں اترے تھے یہ معلوم نہ تھا۔
 راشد نے خلاصی سے کہا:بھائی! کسی نے غلطی سے میرا سامان اتارلیاہے اور اپنا سامان چھوڑگیاہے۔

اس نے کہا:’’ مجھے لگتا ہے کہ وہ فلاں جگہ کے لوگ تھے ،جو درمیان میں چڑھے تھے لیکن فورا اترگئے تھے ۔شاید اس جلد بازی میں انھوں نے سامان اتار لیا ہو۔‘‘

 پھر اس نے کہا:’’ میرے کاکا کی لڑکی وہیں رہتی ہے ان سے معلوم کیے لیتاہوں ۔‘‘

اس نے موبائل فون کے ذریعے ایک دوسرے گاؤں سے اس گاؤں کا فون نمبر لیاگیا۔ اس روٹ کا ڈرائیور اس علاقے کے لوگوں کو جانتا تھا۔ اس نے فوراً مختلف مقامات پر موبائل سے رابطہ کیا۔بالآخر ان مسافر وں کا پتہ لگ گیا ، ان لوگوں سے پوری تفصیلات بتائی گئی۔ پھر ان کو بتایاکہ آپ اسٹیشن آجائیں آپ کا سامان یہاں ہے ،آپ لوگ دوسرے مسافر کا سامان لے کر اترگئے تھے۔ ان لوگوں نے اپنا سامان چیک کیا تو بات صحیح نکلی۔

انھوں نے کہا :’’ ہم لوگ جیپ سے آرہے ہیں، آپ وہیںرہیں۔‘‘

 راشد کو اب اس بات کی بالکل فکر نہ تھی کہ اس کوٹرین میں سیٹ نہ ملے گی یاٹرین چھوٹ جائے گی۔بلکہ فکر یہ تھی کہ گنگا اسنان کے مسافروں کو اُن کا سامان مل جائے اور اسے اپنا، تاکہ وہ دوسروں کی امانت صحیح طریقہ سے ان تک پہنچادیں۔

 چارگھنٹے انتظار کے بعد وہ لوگ جیپ سے پہنچے ۔ سب لوگ گاڑی سے اترے اور راشد کو اس کا سامان واپس کیا اور اپنا سامان دیکھنے لگے۔

ایک عمردراز خاتون نے راشد کی داڑھی اور چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا :
’’بیٹوا!تو بہت اچھا لڑکاہے۔ بھگوان توہربھلاکرے ،  ہم ت سمجھنی کہ ہمر سامان غائب ہوگئل۔ (ہم سمجھے کہ ہمارا سامان غائب ہوگیا-

راشدنے ان کی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے خوشی کے آثار دیکھے اور اپنے تئیں ان کے اس رویہ سے فخرمحسوس کرنے لگا۔اسے لگ رہاتھا کہ وہ یہاں سب سے قدآور شخص ہے،جس نے بہت بڑا کام کیاہے۔ حالانکہ یہ اسلامی تعلیمات کے لحاظ سے ایک اخلاقی عمل ہے جو ایک مسلمان کا فریضہ ہے،جسے انجام دینا ہی تھا۔وہ گویا ہوا:
’’کاکی!  اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا ۔ اللہ ہی اپنے بندوں کی پریشانیوں کو دور کرتاہے۔خدا کا شکر ہے کہ ایک دوسرے کی پریشانی دور ہوئی۔اسلام ہمیں انسانیت کی تعلیم دیتاہے۔‘‘

گویااس نے اپنے رویہ اور مختصر سے بول میں اسلام کا پیغام ان کے سامنے رکھ دیا۔

 بات ختم ہوتے ہی وہ لوگ اپنے سامان کے ساتھ پھر سے جیپ میں بیٹھے اور ریلوے اسٹیشن کے لیے روانہ ہوگئے۔

شایددوسری گاڑی میںجگہ مل جائے ۔یہ سوچتے ہوئے راشد ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑا۔
محب اللہ 

٭٭٭

Saturday 13 May 2017

Ghazal: Jado se apni juda hua hai

غزل

جڑوں سے اپنی جدا ہوا ہے
مصیبتوں میں گھرا ہوا ہے


ترقی، تہذیبِ عصر حاضر
کہ انسان شیطاں بنا ہوا ہے


فقط دکھایا تھا آئینہ ہی
اسی پہ قائد خفا ہوا ہے


تلاش قاتل کی کرنے والو
تمہیں میں قاتل چھپا ہوا ہے


چٹائی پر بھی تھا کوئی رہبر
یہ قصہ گویا سنا ہوا ہے


وفا کا جس نے کیا تھا وعدہ
وہ دشمن جاں بنا ہوا ہے


ہمارے عہد وفا کا قصہ
آب زر سے لکھا ہوا


وہاں سنبھل کر رفیق چلنا

جہاں پہ کانٹا بچھا ہوا ہے

Wednesday 10 May 2017

Awareness Campaign on Muslim Personal Law




مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند

مسلم پرسنل لا بیداری مہم




نکاح کو آسان بنائیں

محب اللہ قاسمی

اسلام نکاح کو آسان بنانے پر زور دیتا ہے، اسی لیے جہیز، تلک  (شادی کے عوض بیٹی والوں سے رقم کا مطالبہ) اور بارات جیسے رسومات جن پر بڑی رقم خرچ کی جاتی ہے، اس رقم کے جمع کرنے میں بیٹی کے باپ کی عمر گزر جاتی ہے، جوان لڑکیاں شادی کے انتظار میں بوڑھی ہو جاتی ہے۔ کئی دفع دلہن زندہ جلا دی جاتی ہیں جب کہ اسلام میں اس طرح کے رسومات و خرافات کی کوئی جگہ نہیں ! ایسا کرنا گناہ ہے!!
معاشرے میں ایسے جرائم پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام کے عائلی قوانین کو جانیں اور عہد کریں کہ اپنے بیٹے بیٹیوں کی شادی میں اس طرح کے خرافات سے مکمل اجتناب کریں گے۔ اس کا عملی نمونہ بن کر سامنے آئیں نہ تو تلک و جہیز لیں اور نہ ہی دیں بلکہ اس کا مکمل بائیکاٹ کریں۔
تبھی ہمارا معاشرہ پر امن اور خوشگوار ہوگا۔
مسلم پرسنل لا بیداری مہم سے جڑیں۔

شریعت پر عمل بے حد ضروری

 محب اللہ قاسمی


کوئی قانون ہمیں اسلامی شریعت پر جو پوری انسانیت کے لیے مکمل نظام حیات ہے عمل کرنے سے نہیں روکتا. یہ ہماری اپنی کمی اور کوتاہی ہے کہ ہم نہ اسلامی تعلیمات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرتے ہیں بلکہ غیر اسلامی طریقہ زندگی کو اپنا کر ذلت و رسوائی کے دامن سے چمٹے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں خود ذلیل ہوتے ہیں اور اپنے رویے سے اسلام کو بدنام کرتے ہیں.
ہمیں اپنے عائلی قوانین کو جاننے اس پر عمل پیرا ہونے کی سخت ضرورت ہے. اس لیے علماء سے رابطہ کریں، دین اور شرعی احکام کو جانیں، اپنے گھریلو مسائل حل کرنے کے لیے دارالقضا اور شرعی پنچایت کا رخ کریں.
شادی بیاہ کو آسان بنائیں، تلک و جہیز اور بارات جیسی خرافات سے معاشرے کو بچائیں، میراث میں عورتوں کو ان کا حق دیں جو من جانب اللہ متعین ہے اور جن حضرات کو ایک سے زائد بیویوں کی ضرورت ہے اور وہ ان کا حق ادا کر سکتے ہیں تو وہ شرعی حدود کی پابندی کے ساتھ ضرور ایک سے زائد شادی کرے.
اللہ تعالٰی ہم سب کو دین کی سمجھ عطا کرے اور اس پر عمل کی توفیق بخشے. آمین
مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند
مسلم پرسنل لا بیداری مہم


نکاح ایک معاہدہ ہے

محب اللہ قاسمی


نکاح ایک معاہدہ ہے، جس کا مقصد زوجین کا پیار و محبت کے ساتھ معاشرتی نظام کو جاری رکھنا ہے۔جب کوئی شخص نکاح کرتا ہے تو وہ 
اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں شامل ہونے والی خاتون کا نان ونفقہ ،رہنے سہنے کا بندوبست کرے گا اور اس کے تمام حقوق زوجیت کو ادا کرے گا۔ اسی طرح خاتون کی جانب سے بھی یہ عہد ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو خوش رکھے گی ،لتسکنو الیہا(تاکہ تم اس سے سکون حاصل کرو)کے تحت اسے ذہنی و جسمانی سکون بخشے گی، شوہرکی غیر موجودگی میں اس کے مال و اسباب کے ساتھ ساتھ اپنی عزت و آبرکی حفاظت کرے گی جو شوہر کی امانت ہے۔
#مسلم پرسنل لا بیداری مہم
 مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند


اسلام زندگی گزارنے کا خدائی نظام

محب اللہ قاسمی


 اسلام انسانوں کے لیے رحمت ہے۔ زندگی کے تمام گوشوں کے بارے میں اسلام کے قوانین حکمت سے خالی نہیں ہیں۔ وہ انسان کی ضرورت اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ مثلاً قصاص کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

’’ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘(البقرۃ: 1799) بظاہر اس میں ایک انسان کے خون کے بدلے دوسرے انسان کا خون کیا جاتاہے۔ مگر اس میں حکمت یہ ہے کہ دوسرے لوگ کسی کو ناحق قتل کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔ اسی طرح زنا کرنے والے کو، اگر وہ غیر شادی شدہ ہے خواہ مرد ہو یا عورت،  سرعام سوکوڑے مارنے کا حکم دیاگیا ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ کوئی شخص زنا کے قریب بھی نہ جاسکے۔عوتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ ان کی عزت و آبرو کی حفاظت ہو۔ نکاح کو آسان بنانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ زناعام نہ ہو اور معاشرے کو تباہی اور انسانوں کو مہلک امراض سے بچایا جاسکے۔

یہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ ان کے خالق، کائنات کے مالک اور احکم الحاکمین کا بنایا ہوا قانون ہے۔ اس لیے ا س میں کسی کو ترمیم کی اجازت نہیںہے۔ اس میں کمی یا زیادتی کرنا اللہ کے ساتھ بغاوت ہے۔ یہی مسلمان کا عقیدہ ہے۔اسی طرح میاں بیوی کے درمیان کسی بھی صورت نباہ نہ ہونے کی شکل میں ان کا شرعی طریقہ سے جدا ہونا طلاق اور خلع کہلاتا ہے، جواسی قانون الٰہی کا حصہ ہے۔اس فطری قانون میں بھی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں، جسے معمولی عقل و شعور رکھنے والا ہر فرد بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔
مسلم پرسنل لا بیداری مہم
مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند


طلاق- نقض معاہدہ (معاہدہ توڑنا)

محب اللہ قاسمی

نکاح جو ایک معاہدہ ہے اب اس معاہدے میں کسی کی جانب سے کمی یا کوتاہی ہوجائے تو سب سے پہلے دیکھا جائے گا کہ یہ غلطی کس درجہ کی ہے، پھر اسے دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے اور فریقین کو سمجھانے بجھانے کے لیے دونوں جانب سے لوگ تیار کیے جائیں، جو شوہر کی اہمیت اور بیوی کی ضرورت پر گفت و شنید سے مسئلہ کو حل کرنےکی شکل نکالیں، اس کا ہر طرح سے علاج کرکے اسے درست کرنے کی کوشش کرے ۔ اس کے باوجود اگر کوئی صورت نہ بنے اور دونوں کی زندگی تلخ سے تلخ تر ہوجائے اورگھر جہنم کی تصویر بن جائے اور اس بات کا خوف ہو کہ وہ اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو اس آخری مرحلہ میں اسلام نے طلاق کے ذریعہ اس معاہدہ کو توڑنے کی اجازت دی ہے۔
طلاق سنجیدہ عمل
 اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’طلاق دو بار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو ۔ البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زَوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ۔ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے ، تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے۔ یہ اللہ کی مقررکر دہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو۔ اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کریں ، وہی ظالم ہیں۔‘‘ (البقرۃ229)
طلاق کا طریقہ
 طلاق کا طریقہ بھی مبنی بر حکمت ہے۔شوہر اس طہر کی حالت میں، جس میں اس نے بیوی سے جماع نہ کیا ہو ،طلاق دے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ مردکو غور خوض کرنے یا عورت کو بھی سنبھلنے کا موقع مل جاتا ہے ۔اس درمیان وہ رجعت(رجوع کرکے) یا اس نے دوطلاق دے دی ہے تو نکاح کر کے اسے رکھ سکتا ہے۔جب کہ تین طلاق یا ایک ساتھ تین طلاق دینے کی صورت میں یہ اختیار بھی ختم ہوجاتاہے۔اسی لیے عہد رسالت میں اسے بہت معیوب اور شریعت کے ساتھ کھیل جیسا عمل قرار دیا جاتا تھا، جب کہ عہد فاروقی میں اس عمل پر کوڑے مارے جاتے تھے۔ مگر تین طلاق واقع ہوجایا کرتی تھیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام میں بیداری لائی جائے کہ بے وجہ محض غصہ میں طلاق دینے سے بچیں اور اگر طلاق ناگزیر ہوجائے تو طلاق کا جو حسن طریقہ ہے اس پر عمل کرے۔ اسی میں اس کی اور قوم کی بھلائی ہے۔
#مسلم پرسنل لا بیداری مہم
مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند


صنفی عدل

محب اللہ قاسمی


مرد اور عورت کے درمیان مساوات ممکن نہیں اس کی کوشش حماقت ہے کیونکہ دونوں کے جنڈرس (صنفیں) الگ الگ ہیں... ہاں ان کے لیے صنفی عدل ضروری ہے اور اسلام میں اس کی پوری رعایت ہے...اسی لئے اسلام نے مرد و خواتین کے متعین حقوق کی ادائیگی کو لازمی قرار دیا ہے.
اس بات کو واضح طور پیش کرنے کی ضرورت ہے ورنہ عورتیں مساوات کے پر فریب نعروں میں مسلسل ہر طرح کے ظلم و استحصال کا شکار ہوتی رہیں گی...اس لئے انھیں اسلامی تعلیمات واقف کرنا ضروری ہے.
#مسلم پرسنل لا بیداری مہم
 مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند



احساس ذمہ داری

محب اللہ قاسمی


اسلام اجتماعی زندگی چاہتا ہے جو فطرت کا تقاضا ہے۔ انسان کا خاندانی نظام بھی انسانی فطرت کی عین ضرورت ہے۔ اس کے لیے ایک ایسا نظام درکار ہے جس میں ہر فرد کے اندر ذمہ داری کا احساس ہو اور وہ اس احساس ذمہ داری سے خاندان کو بہتر اور خوشگوار انداز سے پروان چڑھا سکے. اس لیے اسلام نے تمام انسان کو ذمہ دار قرار دیا ہے اور بہ حیثیت ذمہ دار وہ اپنی ذمہ داری ادا کر رہاہے یا نہیں اس لیے انھیں باز پرسی کا خوف دلا کر جواب دہی کا احساس دلایا۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
" كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا، وَالْخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ " فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ۔(بخاری)
’’تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے ماتحت لوگ اور رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی۔امیر اور خلیفہ ذمہ دار ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ مرد اپنے اہل خانہ کا ذ مہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیت کے سلسلے میں باز پرس ہوگی۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اوراس سے اس کی ذمہ داری سے متعلق بازپرس ہوگی۔ خادم اپنے آقا کے ساز و سامان کا ذمہ دار ہے، اس سے اس کی نگرانی سے متعلق باز پرس ہوگی۔ پس ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے ماتحت افراداور رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ ‘‘
ایک مرد اپنے گھر کا ذمہ دار ہے ۔ اس کے ذمہ اہل خانہ کی کفالت ، ان کی تربیت، ان میں دینی شعور بیدار کرنا، ان کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح وبہود کے ساتھ ان کی بنیادی ضرورتوں کا خاص خیال رکھنا اس کی ذمہ داری ہے۔اس کے لیےاگر وہ صحت مند ہےتواس کا محنت مزدوری کرکے حلال رزق حاصل کرنا جو اس کی اور اس کے اہل خانہ کی کفالت کرے اس پر واجب اور ضروری ہے۔اگر وہ اس کا خیال نہیں رکھتا تو اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کو تاہی کرنے والا ہوگا۔
اسی طرح عورت بھی ذمہ دار ہے ۔شوہر کے گھرمیں موجود نہ ہونے پر اس کے مال و اسباب کی حفاظت ، بچوں کی پرورش اور ان کی نگرانی کی ۔ اگر وہ اس کا خیال نہیں رکھتی تو وہ اپنی ذمہ داریوں کے تئیں غیر محتاط سمجھی جائے گی۔ اس سے بھی روز قیامت باز پرس ہوگی۔ گھر کا خادم، نوکر اور وہ سب جو ان کے ما تحت ہیں ، ان سے بھی باز پرس ہوگی کہ وہ اپنے مالک کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتا ہے، کس حد وہ اپنی ذمہ داریوں کواداکر رہا ہے ۔ وہ اپنے کام وقت پر انجام دے رہا ہے۔
اس کے علاوہ حدیث کی عمومیت کے پیش نظر ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنے احساس ذمہ داری کو بیدار رکھے اور وہ جس درجہ میں بھی ذمہ دار ہے اپنی ذمہ داری کی باز پرسی کا خیال رکھتے ہوئے بحسن خوبی اپنا کام انجام دے۔ اللہ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو بہ حسن خوبی انجام دینے کی توفیق بخشے ۔
#مسلم پرسنل لا بیداری مہم
 مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند



بیمار معاشرہ اور اسلامی تعلیمات

محب اللہ قاسمی
May 5 at 6:44pmNew Delhi

مریض کو دوا کا خوف دلاکر اسے بغیرعلاج مارنا ، اس کے ساتھ ہمدردی نہیں بلکہ دشمنی ہے۔ جس طرح مرض کی شناخت ہوجانے کے بعد اس سے بچنے کے لیے لوگوں کو آگاہ کرنا اوراس سے پوری طرح دوررہنے کی تاکید کرنا معاشرے کو صحت مند بنانے کے لیے ضروری ہے ٹھیک اسی طرح انسانیت کے ضامن حیات نظام- اسلام - سے انسانوں کو ڈراکراس سے دور رکھنے کی کوشش سے انسانیت کی حفاظت نہیں بلکہ اس کی بربادی ہوگی۔
موجودہ دورکے ماحول اورحالات نے آج پوری انسانیت کوایسا مریض بنا دیا ہے جس کے مرض کی شناخت کرنے اوراس کا علاج بتانے سے گریز کیا جارہا ہے،اس کواسلام اوراسلامی تعلیمات سے دوررکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جب کہ معاشرے کے موجودہ مسائل اورانسان کے تمام فکری وعملی اوراخلاقی بیماریوں کا علاج صرف اورصرف اسلام کے پاس ہے۔
ہم اپنے ملک عزیز ہندوستان کا جائزہ لیں تویہاں بھی بہت سی بیماریاں عام ہوگئیں ہیں جن سے بچنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں مگران کا مکمل علاج نہ ہونے کے سبب وہ بیماریاں دن پر دن بڑھتی جارہی ہیں۔ مثلاً آج دنیا بھرمیں ایڈزجیسی خطرناک بیماری نے اپنی جگہ بنالی ہے اور ہماراملک بھی اس کی زد میں ہے۔اس بیماری کے اسباب ومحرکات تلاش کرلیے گئے ہیں اور بیماری سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقے بھی اختیارکیے جارہے ہیں مگر کوئی یہ کہنے کوتیارنہیں ہے کہ ناجائزتعلقات ہی اس خوفناک بیماری کی اصل وجہ ہے اور اس خرابی کی ایک بڑی وجہ عریانیت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خواتین برانگیختہ کرنے والے نیم برہنہ لباس میں مردوں کے دوش بدوش مخلوط پارٹیوں میں نظرآتی ہیں۔ یہ صورت حال نفسیاتی طورپر بہت سی بُرائیوں کو دعوت دیتی ہے جس کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ ناگہانی کیفیت اور بدسلوکی کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی بات اس سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ پھر ہم واویلامچاتے پھرتے ہیں، جب کہ خودکرد را علاج نیست۔

انسدادجرائم کی تدابیر
 آج حکومت کے ذمہ داروں کوبھی کچھ سمجھ میں نہیں آرہاہے کہ وہ ایسے جرائم کے انسدادکے لیے کیا کریں۔ تمام دانشوراورارباب حل وعقد ان جرائم کاحل اسلامی تعلیمات سے ہٹ کر تلاش کرتے ہیں۔ جرائم زدہ علاقوں کا تعین ،ان کی چوکسی، بسوں میں سی سی ٹی وی کیمرے اورلائٹ جلائے رکھنے کی تاکیداور اس فعل بدمیں ملوث افراد کواذیت ناک سزاکی بات کہی جارہی ہیں۔ یہ درست ہے کہ ایسے وحشیانہ اور شرمناک فعل کو انجام دینے والے مجرمین کو سخت ترین سزادی جانی چاہیے۔ مگرحل کے طورپرصرف یہی باتیں کافی نہیں ہیں۔ شراب نہ پینے کی ہدایت کردینا یا بورڈ لگاد ینا کافی نہیں ہے۔ کیا بسوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگادینے سے انسان کا ضمیراوراس کا کردار درست ہوسکتا ہے؟ ہرگزنہیں؟ اس لیے تمام دانش وران کوچاہئے کہ سنجیدگی کے ساتھ اسلام کے عائلی نظام، اخلاقی تعلیمات اورتعزیراتی قوانین کابھی مطالعہ کریں، پھرانھیں عملی جامہ پہنائیں۔ کیوںکہ یہ محض نظریاتی چیزیں نہیں ہیں بلکہ آزمودہ ہیں۔

اسلام کی اخلاقی تعلیمات
 اسلام انسانوں کومعاشرتی زندگی تباہ وبربادکرنے والی چیزوں مثلاً ظلم وزیادتی ،قتل و غارت گری، بدکاری و بداخلاقی،چوری وزناکاری وغیرہ سے بازرہنے کی تلقین کرتاہے اورانھیں اپنے مالک اورپیداکرنے والے کا خوف دلاکر ان کے دل کی کجی کودرست کرتاہے۔آج معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ ، فریب اور جعل سازی وغیرہ کی جو بیماریاں عام ہوگئی ہیں،صرف اسلامی تعلیمات ہی میں ان تمام مسائل کا حل موجودہے۔
جس طرح ہمیں اپنی بہوبیٹیوں کی عزت پیاری ہے اسی طرح دوسروں کی عزت وناموس کاخیال رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آزادی کے نام پر جس طرح خواتین کھلونے کی ماننداستعمال کی جارہی ہیں، گھراورحجاب کو قید سمجھنے والی خواتین کس آسانی کے ساتھ ظلم وزیادتی کا شکار ہورہی ہیں، یہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔اس لیے اسلام نے خواتین کوایسی آزادی نہیں دی ہے جس سے وہ غیرمحفوظ ہوں اورنیم برہنہ لباس پہن کر لوگوں کے لیے سامان تفریح یا ان کی نظربدکا شکار ہوجائیں ۔

خواتین کے لیے اسلامی ہدایات
 اسلام نے خواتین کو علیحدہ طوربہت سی باتوں کا حکم دیا ہے اوربہت سی چیزوںسے روکاہے۔ مثلاً انھیں اپنے بناؤ سنگارکو دکھانے کے بجائے اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اورپردہ کرنے کولازم قراردیا :
 اور اے نبی ﷺ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوںکی حفاظ کریں، اوراپنا بناؤ سنگھارنہ دکھائیں بجزاس کے جوخود ظاہر ہوجائے، اوراپنے سینوںپر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں (النور:۳۱)

دوسری جگہ اللہ تعالی کافرمان ہے:
 ’’اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اوراہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلولٹکالیاکریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالی غفور و رحیم ہے۔‘‘ (سورۃ احزاب:۵۹)
اسی طرح غیرضروری طور پر بازاروںمیں پھرنے کے بجائے گھروںمیں محفوظ طریقے سے رہنے اور عبادت کرنے کا حکم دیا: ’’اپنے گھروں میں ٹک کررہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوۃ دو، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت نبی ﷺ سے گندگی کودورکرے اورتمھیں پوری طرح پاک کردے۔‘‘ (سورۃ احزاب:۳۳)
اس کے علاوہ خواتین کا ہروہ طرز عمل جو اجنبی مردوںکو ان کی طرف مائل کرے ،یا ان کی جنسی خواہشات کو بھڑکائے ،اسے حرام قراردیاگیاہے۔آپ ؐنے ارشادفرمایا:’’ہر وہ خاتون جو خوشبو لگا کر کسی قوم کے پاس سے گزرے کہ وہ اس کی خوشبولے تو ایسی خاتون بدکار ہے۔ ‘‘(النسائی)
رسول اللہ ﷺنے ایسی خواتین پر سخت ناراضی کا اظہارکرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’دوطرح کے انسان ایسے ہیں جن کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا:ان میں وہ عورتیں ہیں جو لباس پہنے ہوئے بھی ننگی ہیں، لوگوں کی طرف مائل ہونے والی اوراپنی طرف مائل کرنے والی ہیں،ان کے سرکھلے ہونے کی وجہ سے بختی اونٹنیوںکی کہان کی طرح ہے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گی اورنہ ہی اس کی خوشبوپاسکیںگی۔‘‘ (مسلم)
علامہ شیخ عبدالعزیز بن بازؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’یہ تبرج اورسفور اختیارکرنے والی عورتوںکے لیے سخت قسم کی وعیدہے: باریک اور تنگ لباس زیب تن کرنے اور پاکدامنی سے منہ موڑنے والی اور لوگوںکو فحش کاری کی طرف مائل کرنے والی عورتوںکے لیے ۔‘‘
مردوں کوتنبیہ
 اسی طرح مردوںکوبھی تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوںکی حفاظت کریں۔ غیرمحرم (جن سے نکاح ہوسکتاہے) عورتوں کو ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھیں،اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اورزنا کے محرکات سے بچیںچہ جائے کہ زناجیسے بدترین عمل کا شکارہوں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:’’زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی ) ہے۔اور براہی بڑا راستہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل :۳۲)
موجودہ دورمیں بوائے فرنڈاور گرل فرینڈکا رجحان عام ہوگیا ہے ،اسلام اس رشتے کو نہ صرف غلط قراردیتاہے بلکہ اجنبی خواتین سے میل جول،غیرضروری گفتگو، اوراختلاط سے بھی بچنے کی تاکید کرتا ہے،کیوںکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کو بدکاری اورفحاشی تک پہنچادیتے ہیں۔نبی رحمت نے اپنی امت کو اس سے روکا ہے: عورتوں(غیرمحرم)کے پاس جانے سے بچو۔ (بخاری)

اگرکوئی ناگزیرضرورت ہو یاکسی اجنبی عورت سے کچھ دریافت کرنا ہوتو پردے کے ذریعے ہی ممکن ہے ،قرآن کہتاہے: اگر تمہیں کچھ مانگنا ہوتوپردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اوران کے دلوںکی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ (احزاب: ۵۳)
اسلام جرائم کو بالکل جڑسے اکھاڑنا چاہتاہے۔ اس لیے وہ انسانوں کو زیور اخلاق وکردارسے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ کاش دنیا والے انسانوں کو اسلامی تعلیمات سے ڈرانے کے بجائے اس کی تعلیمات کوسماج میں نافذکرنے کے لیے کوشاں ہوتے ۔اگروہ ایسا کرتے توان کی زندگی سکون واطمینان سے گزرتی اورہمارا معاشرہ صحت مندہوکر امن وامان کا گہوارہ ہوتا۔ll
#مسلم پرسنل لا بیداری مہم
 مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند





صلہ رحمی خاندانی نظام کے لیے ضروری

محب اللہ قاسمی
May 6 at 9:08pmNew Delhi

خاندانی نظام کو بہتر اور مستحکم بنانے کے لیے صلہ رحمی یعنی رشتہ کو جوڑے رکھنا اور رشتہ داری کو نبھانا بے حد ضروری ہے۔ یہ ایسی صفت ہے، جس کی قرآن و حدیث میں بہت تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔:
وَاتّقُوا اللّٰہَ الَّذِی تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالأَرْحَامَ (النسائ:۱) 

 ’’خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کوبگاڑنے سے پرہیز کرو۔‘‘
خاص طور پر والدین کے ساتھ حسن سلوک پر بہت زور دیا گیا ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانَا اِمّا یَبْلُغَنَّ عندک الکبر احدہما او کلہما فلاتقل لہما اوفٍ ولا تنہرہما و قل لہما قولا کریما(سورۃ : اسرائ23)
 ’’والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچے تو تم انھیں اف بھی نہ کہو اور نہ انھیں جھڑک کر بات کرو بلکہ ان کے سے احترام کے ساتھ بات کرو۔‘‘

صلہ رحمی کی اہمیت کو بتاتے اسے دخول جنت کے علاوہ دنیا میں رزق کے اضافہ اور طول عمر کا سبب بھی قرار دیا گیا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
من سرہ ان یبسط لہ فی رزقہ او ینسألہ فی اثرہ فلیصل رحمہ(متفق علیہ)
 ’’جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ وہ اسکے رزق اور اس کی عمر میں اضافہ ہو تو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔‘‘
صلہ رحمی کی ضد قطع تعلق ہے۔ یعنی ذرا ذرا سی بات پررشتہ توڑلینا، نفرت کرنا ، میل جول ختم کرلینا وغیرہ۔اس کے اثرات کو دیکھیں تو یہ صرف تعلقات کو ختم کرنے تک محدود نہیں رہ جاتا بلکہ بسااوقات دل میں حسد اور کدورت کو ایسا جنم دیتا ہے جو بڑے فساد کا ذریعہ بن کر انسان کو ذلیل ورسوا بھی کردیتا ہے۔ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
لا یدخل الجنۃ قاطع الرحم (بخاری)
 ’’ قطع تعلق کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘

ہم اپنے خاندان اور معاشرہ کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ رشتہ داری میں ذرا سی ناروابات یا کوئی تلخی ہوگئی توبس ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کرلیاجاتاہے اور معاملات کودرست کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ اسے اپنے لیے کسرشان سمجھا جاتاہے۔ جب کوئی حسن سلوک کرتا ہے تو اس کے ساتھ حسن ِسلوک کی روش اپنائی جاتی ہے یہ تو بدلہ ہے، صلہ رحمی نہیں ہے۔ اس لیے نبی کریمﷺ نے واضح طور پر بتادیا :
لیس الواصل بالمکافی ولکن الواصل الذی اذا قطعت رحمہ وصلہا(بخاری)
 ’’وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو (کسی رشتہ دار کے ساتھ) احسان کے بدلے میں احسان کرتا ہے، بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے، جب اس سے قطع رحمی(بدسلوکی وغیرہ) کی جائے تو صلہ رحمی(حسن سلوک ) کرے۔ ‘‘

اللہ تعالی ہمیں اپنے خاندانی نظام کو مستحکم بنانے، باہم مل جل کر رہنے اور حسن سلوک کی توفیق دے آمین۔
#مسلم پرسنل لا بیداری مہم
 مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...