Saturday 17 June 2017

Hamd Bari Tala



حمد

                      محب اللہ رفیق
دل بنانے والے تو نے ضبط بخشا ہے مجھے
یہ ترا مجھ پر کرم محسوس ہوتا ہے مجھے

تیرے در کو چھوڑ کر جاؤں کہاں میرے کریم
یہ زمانہ اب ترا درویش کہتا ہے مجھے

غم کا بادل سر پہ ہے اور،  راہ بھی ہے پر خطر
بس سہارا ہی ترا منزل دکھاتا ہے مجھے

کچھ نہیں جھولی میں میری صاف ہے فرد عمل
اجر کے قابل تو بس تونے ہی سمجھا ہے مجھے

سوچتا ہوں میں یہ اکثر بعد از حمد و ثنا
کون اپنی حمد کی توفیق دیتا ہے مجھے

ہے پریشانی میں آسانی نہ گھبرا اے رفیقؔ
یہ کلام کبریا مژدہ سناتا ہے مجھے


Ramzan ka Aakhri Ashara aur Shabe Qadar



رمضان المبارک کا آخری عشرہ اورشب قدر

                                                                  محب اللہ قاسمی

اللہ تعالیٰ بے حد مہربان ہے۔وہ چاہتا ہے کہ بندہ ا س کے سامنے دست بدعاہو،گڑگڑائے اورمانگے کہ وہ اسے عطا کرے اگرہ وہ پہاڑ کے برابربھی گناہوں کے بوجھ تلے دباہو ،مگرخداکے حضورتوبہ کرے اوراس سے مغفرت طلب کرے تو اللہ اس کے تمام گناہوں کوبخش دے گا۔رمضان المبارک میں اللہ اپنے بندوں پر مزیدمہربان ہوتا ہے۔ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیتاہے۔ہرنیکی پر اجرکی برسات کرتاہے۔رمضان کے دوعشرے (رحمت، مغفرت) گزرچکے ہیں۔ اب آخری عشرہ باقی ہے۔جسے حدیث میں جہنم سے چھٹکارے کا عشرہ کہاگیاہے۔اس عشرے کی یہ فضیلت ہے کہ تلافی مابعد کے تحت غفلت کی چادرہٹاکر اس میں زیادہ سے زیادہ عبادت وریاضت کے ذریعے ہم خداکا قرب حاصل کریں اوراپنے گناہوں سے تائب ہوکر جہنم کی آگ سے چھٹکارے کی دعاکریں۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں (اللہ کی عبادت )میں جس قدرسخت محنت کرتے تھے اتنی اور کسی زمانے میں نہیں کرتے تھے۔(مسلم)حضرت عائشہ ؓ سے ہی ایک اورروایت ہے جسے بخاری نے نقل کیا ہے کہ جب رمضان کی آخری دس تاریخیں آتی تھی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمربستہ ہوجاتے تھے ۔ رات بھرجاگتے اوراپنے گھروالوںکوبھی جگاتے تھے۔

وہیں اس آخری عشرے کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ اللہ نے اسی کی طاق رات میں شب قدرجیسی ایک عظیم ترین رات رکھی ہے۔ جس کے تعلق سے خدا کا فرمان ہے ۔

’’بیشک ہم نے قرآن کو شب قدرمیں اتارا ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ شب قدرکیسی چیز ہے؟شب قدرہزارمہینوںسے بہترہے۔اس رات میں فرشتے اورروح القدس (جبریل ؑ)اپنے پروردگارکے حکم سے ہرامرخیرکولے کراترتے ہیں۔سراپاسلام ہے۔یہ شب قدر(اسی صفت وبرکت کے ساتھ)طلوع فجرتک رہتی ہے۔‘‘ (سوۂ قدر)

لیلۃ القدرکے معنی

قدرکے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ رات بہت ہی عظمت احترام کے قابل ہے کہ اس میں قران مجید کا نزول ہوا۔قدربمعنی تقدیرکے بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ فرشتے اس رات اپنے رب کے حکم سے ہر طرح کے احکام وفرامین لے کر نازل ہوتے ہیں۔اس رات اللہ اپنے بندوںکی تقدیرکے فیصلوںکی تفصیلات اپنے فرشتوںکے سپرد فرماتاہے جوکائنات کی تدبیر اورتنفیذامورکے لیے مامورہیں، اس میں ہرانسان کی عمراورموت اوررزق اوربارش وغیرہ کی مقداریں لکھی ہوتی ہیں، جسے لے کریہ ملائکہ اترتے ہیں۔آیت کریمہ میں اس رات کو ایک ہزارراتوں سے بہترقراردیاگیا ہے کہ یہ امت محمدیہ کے لیے بڑے ہی شرف کی بات ہے کہ اس رات کی عبادت اس کے لیے ایک ہزارراتوںکی عبادت کا درجہ قراردیاگیا۔

اس رات کی فضیلت

 نبی کریم ؐ نے بھی متعدداحادیث اس کی فضیلت بیان کی ہے ۔حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشا فرمایاکہ جوشب قدرمیں عبادت کے لیے کھڑاہوا(نمازیں پڑھیں،ذکرواذکارمیں لگارہا) تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔(متفق علیہ)

حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: شب قدرمیں وہ تمام فرشتے جن کا مقام سدرۃ المنتہی پر ہے ،جبرئیل امین کے ساتھ دنیا میں اترتے ہیں اورکوئی مومون مردیا عورت ایسی نہیں جس کو وہ سلام نہ کرتے ہوں،بجزاس آدمی کے جوشراب یا خنزیرکا گوشت کھاتا ہو۔

اس رت کی فضیلت کے حصول کے تعلق سے نبی کریمﷺ کا عمل دیکھاجائے توآپؐ اس رات کی برکت حاصل کرنے کے لیے بے حد جدجہد کرتے ہیں، جس چیز کی جتنی اہمیت ہوتی ہے ،اس کے لیے اتنی ہی کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔چنانچہ ایک حدیث میں حضرت ابوسعید خدری ؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا۔ آپؐ نے ایک ترکی طرز کے خیمے کے اندررمضان کے درمیان دس دن اعتکاف کیا۔اعتکاف ختم ہونے پرآپؐ نے اپنا سرمبارک خیمے سے باہر نکالا اورفرمایا: میں نے اس رات کی تلاش میںپہلے دس دن کا اعتکاف کیا پھرمیں نے بیچ کے دس دن کا اعتکاف کیا۔تب میرے پاس آنے والا آیا اورا سنے مجھ سے کہاکہ لیلۃ القدررمضان کی آخری دس راتوںمیں ہے۔پس جولوگ میرے ساتھ اعتکاف میں بیٹھے تھے انھیں چاہیے کہ وہ اب آخری دس دن بھی اعتکاف کریں۔مجھے یہ رات (لیلۃ القدر)دکھائی گئی تھی مگرپھربھلادی گئی اورمیں نے دیکھا کہ میں اس رات کی صبح کوپانی اورمٹی میں (برسات کی وجہ سے) نماز پڑھ رہا ہوں۔پس تم لوگ اسے آخری دس دنوںکی طاق تاریخوںمیں تلاش کرو۔( بخاری ومسلم )

آپؐ کا یہ طرز عمل اورشب قدرکی تلاش وجستجواہتمام اس کی اہمیت کا پتہ دیتا ہے۔ آپ کی پوری زندگی قرآن کی تفسیر ہے ۔مذکورہ واقعہ سے یہ بات بالکل درست ثابت ہوتی ہے کہ اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ معتکف کواس رات کی خیروبرکت سے مالامال کردیتا ہے۔ اس لیے کہ معتکف کا ہرعمل خداکی رضاکے لیے اسی کے دربارمیں حاضری کے ساتھ ہوتا ہے۔ جو عبادت میں شمار کیاجاتاہے۔لہذا آخری عشرے کی طاق راتیں بھی انھیں میسرہوتی ہیں جس میں شب قدرکوتلاش کرنے کا حکم ہے۔

شب قدرکی دعا

حضرت عائشہ صدیقہ ؓنے نبی کریم ؐ سے دریافت کیا کہ اگرمیں شب قدرکوپاؤںتوکیا دعاکروں۔آپ نے فرمایایہ دعاکرو’’اللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفْوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْف عَنِّی‘‘ اے اللہ آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اورعفوودرگزرکوپسند فرماتے ہیں میری خطائیں معاف فرمائیے۔(قرطبی)

لیلۃ القدرکا تعین

لیلۃ القدرسے متعلق اس بات کی توصراحت ہوتی ہے کہ وہ رمضان المبارک کے مہینے میں آتی ہے۔مگراس کی تاریخ کے سلسلے میںبہت سے اقوال ہیں ۔تفسیرمظہری میں ہے کہ ان سب اقوال میں صحیح یہ ہے کہ لیلۃ القدررمضان مبارک کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے مگرآخری عشرہ کی کوئی خاص تاریخ متعین نہیںبلکہ ان میں سے کسی بھی رات میں ہوسکتی ہے۔وہ ہررمضان میں بدلتی رہتی ہے۔

آخری عشرے کی طاق راتوںمیں تلاش کرنے کا حکم

جہاں تک تعین شب قدر کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں بہت سی احادیث ہیں۔جیسا کہ نبی کریم کا ارشاد ہے :تحروا لیلۃ القدرفی العشرالاواخرمن رمضان یعنی شب قدررمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو۔بخاری شریف کی ہی ایک اورروایت کے مطابق آپ کا ارشاد ہے :تحروالیلۃ القدرفی الوترمن العشرالاواخر من رمضان ۔یعنی شب قدرکو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوںمیں تلاش کرو۔اگرآخری عشرے کی طاق راتوں (۲۱۔ ۲۳۔ ۲۵۔ ۲۷۔ ۲۹) کومرادلیاجائے اور شب قدرکوان راتوںمیں دائراور ہررمضان میں منتقل ہونے والا قراردیاجائے تو  توایسی صورت تمام احادیث صحیحہ جوتعین شب قدرکے متعلق آئی ہیں جمع ہوجاتی ہیں۔ اسی لیے اکثرائمہ فقہانے اس کو عشرہ اخیرہ میں منتقل ہونے والی رات قراردیاہے۔

ایک مقولہ ہے ’’مَنْ جَدَّ وَجَدَ ‘‘جس نے کوشش کی اس نے حاصل کرلیا۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگرانسان محنت لگن اوریکسوئی کے ساتھ کوئی کام کرے تووہ اس کے بہترانجام کو پالیتا ہے ۔ انسان کی کوشش اسے حصول اہداف کے قریب لے آتی ہے ۔ایسے میں اتنی اہم ترین شب کی اگرکوئی قدرنہ کرے اوریونہی غفلت میں گزاردے تواس کے لیے پھرکوئی شب قدرنہیں اوروہ بڑاہی محروم ہوگا جواللہ تعالی کے اس عطیے سے لاپرواہے۔ایک حدیث کے مطابق جوشخص شب قدرکی خیروبرکت سے محروم رہا وہ بالکل ہی محروم اوربدنصیب ہے۔



Tuesday 13 June 2017

Jhalak de

مناجات……  محب اللہ رفیقؔ
خلافت کی جھلک دے


یارب میرے ایمان کو تو بام فلک دے
پابند رہوں عہد کا ہر گز نہ لچک دے

مومن کے ہر اک درد کو محسوس کریں ہم
ایمان کے رشتے میں  تو کچھ  ایسی کسک دے

باطل کے پنپنے کی کوئی بات نہ آئے
امت کی قیادت میں خلافت کی جھلک دے

دشمن بھی ہو محظوظ میری باتوں کو سن کر
’یارب مرے الفاظ کو پھولوں کی مہک دے‘

میرے دل تاریک کو بھی نور عطا کر
اخلاق میں تہذیب میں قرآں کی چمک دے

قائم رہوں میں دین پہ تا حشر خدایا
اسلام کی اللہ مجھے سیدھی سڑک دے



Jannat de Allah

مناجات……  محب اللہ رفیقؔ


مہر و محبت، خیر و صلابت دے اللہ
خوئے شرافت جذبۂ طاعت دے اللہ

دونوں جہاں میں عزت و عظمت دے اللہ
حمد و ثنا کی مجھ کو عادت دے اللہ

عام ترا پیغام کروں یہ خواہش ہے
لفظوں میں تاثیر و حلاوت دے اللہ

فخر یہ ہے ہیں تیرے نبی کی امت میں
خدمت دیں کی ہم کو سعادت دے اللہ

سامنے میرے پائے جہالت رک نہ سکے
ایسی صداقت اور جسارت دے اللہ

صدیق و فاروق، غنی و حیدر سی
اس امت کو پھر سے قیادت دے اللہ

سورج چاند ستارے سب مخلوق ترے
بھٹکے ہوؤں کو راہ ہدایت دے اللہ

کچھ بھی نہیں بس ادنیٰ بھکاری ہے یہ رفیقؔ
اس کو بھی تو اپنی جنت دے اللہ




Sunday 11 June 2017

Munajat : Malike Haqiqi

مناجات اے مالک حقیقی ……  محب اللہ رفیقؔ

در پر میں تیرے آیا اے مالک حقیقی
تو ہی ہے میرا داتا اے مالک حقیقی

بے کس پہ رحم کرنا اے مالک حقیقی
خالی ہے میرا کاسہ اے مالک حقیقی

تجھ ہی سے لو لگاؤں، امید تجھ سے باندھوں
تجھ پر رکھوں بھروسہ اے مالک حقیقی

دنیا میں تیرے بندے کم زور پڑ گئے ہیں
دے دے انھیں سہارا اے مالک حقیقی

دل کا چراغ روشن تیری ہی یاد سے ہے
ظلمت سے دور رکھنا اے مالک حقیقی

مشکل کشا بھی تو ہے، حاجت روا بھی تو ہے
تو سب کا ملجا، ماویٰ، اے مالک حقیقی



حمد رحمت تیری


حمد باری تعالی


بڑھ کے ماں باپ سے اللہ ہے شفقت تیری
منبع جود و سخا عام ہے رحمت تیری

کافروں کو بھی سدا رزق دیا ہے تو نے
تو ہے رحمن خدا عام ہے رحمت تیری

تیرے بندے ہیں سبھی،  سنتا ہے سب کی یا رب
بخششیں کرتا ہے ہر دل میں ہے عظمت تیری 

پل میں تو شاہ بنائے اور گدا بھی کر دے
جو بھی توچاہے وہ ہو جائے ہے قدرت تیری 

ظلم جتنا بھی یہ چاہیں کریں ظالم لیکن
ہے یقیں زیر کرے گی انھیں قوت تیری

تیرا بندہ یہ رفیقؔ آیا ہے در پر تیرے
شکر تو اس کو عطا کر یہ ہے نعمت تیری 



Friday 9 June 2017

اسلامی اخوت اور مصری مسلمان

اسلامی اخوت اور مصری مسلمان

محب اللہ قاسمی

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ یہ دنیا اور اس کی تمام چیزیں اللہ کی بنائی ہوئی ہیں۔ اس کا شکر ادا کرتے ہوئے صرف اس کی عبادت کی جائے اور بندگان خداکوان کا حق دیاجائے اوران پر کسی قسم کی ظلم وزیادتی نہ ہو۔اسے اس دنیا میں جینے کا پورا پورا حق دیاجائے ،یہی وجہ ہے کہ ایک معمولی سی تکلیف دینے والی چیزکوبھی راستے سے ہٹادیاجائے کہ  وہکسی راہ روکونقصان نہ پہنچائے ، صدقہ یعنی نیکی کاکام ہے۔

اس طرح اسلام کا مقصدہی قیام امن وسلامتی ہے،جو مکمل نظام حیات ہونے کے سبب بے ضابطہ غیرفطری زندگی گزارنے والے مجبور لوگوں کو اپنی آغوش رحمت میں لے لیتاہے۔ مگر افسوس کہ اس پر دہشت گردی کا الزام عائد کرکے،ایک مدت سے اسے بدنام کیاجارہاہے اور مسلمانوں کو حراساں کرنے کی ناپاک کوششیںکی جارہی ہیں۔ خاص طور پر مسلم ممالک کونشانہ بنایاجارہاہے۔ جب کہ(المسلم اخوالمسلم کے تحت ) ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے اخوت کا رشتہ ہے اور حدیث پاک کی روسے وہ آپس میںجسد واحد کی طرح ہیں کہ جسم کے ایک عضوکوکوئی تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم درد محسوس کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی گوشے میں اگر کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا مسلمان اس درد سے کراہنے لگتاہے۔آخریہ اسلام کا دشمن کون ہے اور کیوں مسلمانوںکوستایاجارہاہے؟

سب سے پہلے یہ واضح کردیناضروری ہے کہ اسلام کا اصل دشمن کون ہے؟قرآن کہتاہے ’’اسلام اورمسلمانوںکے سب سے بڑے دشمن یہودہیں‘‘ (سورۃمائدہ:82) یہ یہود نہایت ہی شاطر،دھوکے باز اور انسانیت دشمن ہیں۔موجودہ دورمیںمصر کے حالات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جمہوریت کا پاسبان کہلانے والے امریکہ نے یہودیوں کی سازش کے تحت جمہوری طریقے سے منتخب عوامی صدرمحمد مرسی کو چند افراد کے  ذریعہ احتجاج کراکر برطرف کروایا ۔اس ناپاک منصوبے کو بروئے کارلانے کے لیے اس نے وہاں کی فوجوںکا سہارالیا۔ جب کہ منتخب صدرکی حمایت میں ایک ماہ سے مسلسل ہونے والے مصری عوام کے پرامن احتجاج کو نظرانداز کیاجارہاہے اور اب کریک ڈاؤن کے ذریعے بے دریغ ہزاروںبے قصور،نہتے جوانوں، معصوم شیرخوار بچوں، باعصمت ماؤں اور بہنوںکوشہیدکیاجارہاہے۔ ان زندہ انسانوںپر ٹینک چلاکر انھیں بے دردی سے مارا جارہاہے۔جن کے ہاتھوں میں قرآن، دل میں اسلام کی عظمت اور زبان پر اللہ کا ذکر ہے۔ رمضان المبارک کی شب میں قیام لیل اور دن کے روزے رکھنے والے یہ مسلمان جنہوں نے اپنے گھروں سے الگ ہوکر میدان رابعہ عدویہ میں عید کا دن گزارا، ان کومستقل نشانہ بنایاجارہاہے۔جس کی تصاویر دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتاہے کہ کیا یہ مسلمان ہوسکتے ہیں جو اپنے بھائیوںکے ساتھ اس طرح کاسلوک کررہے ہیں اور اپنی ماؤں اور بہنوںکی عصمت کی پروا کیے بغیر ان کے ساتھ نازیبا حرکت کررہے ہیں ۔ایسا لگتاہے ان فوجیوںمیں ضرور اسرائیلی سرایت کرگئے ہوں یا ان کو ذہنی غلام بنالیاگیاہو۔

اس کی وجہ واضح ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت اور نامناسب حالات پیداکرنے کی تمام ترکوششوںکے باوجود اسلام پسنداور مصرکے خیرخواہ نومنتخب صدرمحمد مرسی ایک سال کی قلیل مدت میں سابقہ حکومت کی برائیوں اور عوام کی بدحالی کو درست کرنے میں جس قدر تیزی سے کامیابی کی طرف گامزن تھے یہ بات اسلام دشمنوں کو بھلا کیسے گوارا ہوتی ،نتیجہ یہ کہ ان کو برطرف کردیاگیا۔

اس کی وجہ یہودیوںکی عالمی شہرت،عالمی قوت اورعظیم المرتبت ہونے کی خواہش وآرزوکی تکمیل ہے،نبیؐ کے زمانے میں بھی جب آپؐ نبوت کے اعلیٰ مقام پر فائز نہیں ہوئے تھے، وہ خودکودینداراوربڑے شمارکرتے تھے بقیہ کوہیچ اورگراہواسمجھتے تھے ،حتی کہ اپنے دین اورمذہب میں بھی من مانی کرتے تھے۔ چنانچہ جیسے ہی آپ ؐ کونبوت سے سرفراز کیاگیا اورآپؐ رسالت کے اعلیٰ مقام پرفائزہوئے توان لوگوںنے آپؐ کی نبوت کا انکارکردیا جب کہ آپ ؐ کی آمدکی بشارت خودان کی کتابوںمیںموجود تھی۔ وہ صرف اس لیے کہ آپؐ چوںکہ ان کی قوم سے نہیں تھے اوریہ بھی کہ ایسی صورت میںانھیں شہرت اورمقبولیت کا شرف ان سے نکل کردوسری قوم میں جاتادکھائی دینے لگا تھا،جس پروہ ہتک وذلت محسوس کرنے لگ گئے تھے جوان کے عناداورہٹ دھرمی کا سبب بنا۔

اس طرح ان یہودیوںکے دل میں انتقام کی آگ بڑھتی رہی جونبیؐکے زمانے سے ابتک چلی آرہی ہے۔ جب حضورپاک ؐاپنے رفیق اعلی سے جاملے تب بھی ان کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی بلکہ جب رفتہ رفتہ اسلام کی خصوصیت نے عام لوگوںکے دلوںمیں گھرکرنا شروع کردیا۔اسلام کی عالمی شہرت اورمقبولیت نے ان کی اسلام سے بغض و عناد نے ان کے سینوںمیںمزید شعلہ بھڑکادئیے۔ پھران کی اسلام دشمنی اتنی بڑھ گئی کہ وہ کفاراورمشرکین سے کہیں زیادہ اس کے دشمن بن بیٹھے اوراپنے اس انتقام کی آگ بجھانے کے لیے دوسری قوموں کی مددلینی شروع کردی۔ قدرتی ذخائر ، پٹرول جیسی قیمتی چیز کے ابلنے اور اسلامی ممالک میں عرب ممالک کی اہمیت کے پیش نظر پہلے انھوں نے سرزمین عرب پر اپنا تسلط جمانے کا منصوبہ تیار کیا اور وہاں کے حکمرانوںکو عیش آرام کے تکیے پر سلا کر حکومت کو کمزور بنادیا اورباہمی اختلاف وانتشارکی بیج بوکر حکمرانوں کے دلوںمیں حکومت کی خواہش کے جذبات کو ان کی مجبوری بنادیا اور ان کو ذہنی غلام بنالیاگیااور حفاظتی انظامات کے نام پر اپنی فوج بٹھادی اور اس پر قبضہ جمالیا، یہی وجہ ہے کہ آج جب کہ مصرکوایک زمانے تک حسنی مبارک کی حکومت کی پریشانیوں اور ان کے ظلم ستم سے آزاد ہوکر نومنتخب صدرمحمد مرسی کی رہنمائی میں کامیابی کے منازل طے کرنے اورسکون کے ساتھ ترقی کی طرف گامزن ہونے کا موقع ملا، تو ان یہودیوں نے اسے اپنے ماتحت عرب ممالک حکمرانوں پر اپنا دھوس دکھایا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی وہی زبان بولنے لگے جو ان یہودیوںکا منشا تھااور یہ بھی اصل دہشت گردکو شہ دے کر پرامن مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہونے والے اپنے مصری بھائیوںکو ہی دہشت گرد قراردے رہے ہیں۔ عربوںکا جورویہ اب تک ان کے ساتھ رہاہے۔اس سے یہ بات بالکل صاف ہے کہ وہ ان یہودیوںکے غلام اور مصرمیں قتل عام کے ایک مجرم ہیں۔

آج مسلم دنیا کو اس بات پر شدید افسوس ہے کہ اس کا حکمراں کیا چاہتاہے ، اسے اسلام اور اس کا نظام پسند ہے ،یا عیش وآرام کی وہ کرسی جو اپنے ہزاروں بھائیوں کا خون بہانے اور ان اسلام دشمن لوگوںکے تلوے چاٹنے پر موقوف ہے۔کیا ان کا جسم شل پڑگیاہے کہ اس کے عضو کو کاٹا جارہا ہے اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا۔

اس طرح یہ یہود بے بہبود جنہوںنے نہ صرف مسلم ممالک کو ذہنی غلام بنارکھا ہے بلکہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور اسلام دشمن کا سردار ہونے کی حیثیت سے خود کو ہم چنا ںدیگرے نست سمجھ رکھا ہے اور اپنے زور ودبدبہ کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے مد مقابل جو صرف اور صرف اسلام ہی ہے ،کیوںکہ یہی اپنے اندرانسانیت کے لیے مکمل نظام حیات رکھتاہے ،اس سے خائف ہیں اور اس کو پسپا کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے،شام ،عراق،افغانستان اور مصر وغیرہ اس سلسلے کی کڑیاں ہیں، جس کے لیے وہ ہر ممکن قوت جھونک کر یا مسلمانوںمیں نفاق کی بیج بوکر یا کفاراورمشرکوںمیں متشدد قومیں ان کوہتھیاربناکرچمنستان جیسے ہندوستان میں اپنے مفادکے لیے کام کرنا، جس کا نظارہ ہمیں ہندوستان میں بسنے والوںکے درمیان ہندومسلم منافرت کی زہرفشانی کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

جیساکہ پہلے ذکرکیاگیاکہ اسلام جوکہ خدائی نظام ہے،اپنی خوبیوںاور امن وسلامتی کومتضمن ہونے کی وجہ سے شہرت اورمقبولیت کے اعلیٰ مقام کو پہنچاجوہمیشہ بلند رہے گا۔اس پرآپؐ کا فرمان ہے کہ’’اسلام بلند ہونے کے لیے ہے اسے کوئی زیرنہیں کرسکتا۔‘‘ایسے میں اگراس کا کتناہی بڑا دشمن خواہ وہ کسی بھی شکل میں کیوںنہ ہواسے مغلوب نہیں کرسکتا۔

یہاں کئی سوالات ہیں۔مثلاً عراق کے مسلمانوںکوتباہ کیاگیا۔ کیا اسلام مغلوب ہوگیا؟ افغانستان کونیست ونابودکرنے کی کوشش کی گئی۔ کیا اسلام ختم ہوگیا؟مصراوراب ہندوپاک میںسازشیں رچ کراس کوبرباد کرنے کی کوششیں جاری ہیں جس کے لیے بڑے تجربے بھی کیے گئے ۔ تو کیا پاکستان اور ہندوستان سے اسلام کے ماننے والے ختم ہوگئے؟ ان سب کا جواب یہی ہوگا کہ نہیں!اور ایساہرگزنہیں ہوگا۔ کیوں کہ اسلام انسانوںکا بنایاہوا نظام نہیں ہے اورنہ اس میں کسی قسم کی ظلم وزیادتی ہے کہ لوگ اس سے نفرت کرے، بلکہ اس کا جودشمن ہے وہ اس کے خلاف اپنے حربے استعمال کررہاہے، جس کے لیے وہ طرح طرح کی سازشیں رچتاہے، تاکہ وہ اپنے انتقامی مشن میں میاب ہو۔اسے ہروہ چیزناپسندہے جو اسلام کی خوبی ہے اوراس میں انسانوںکا مفادمضمرہو۔

اس پس منظرکوسامنے رکھتے ہوئے اب یہ طے کرناچاہیے کہ و ہی نظام قابل عمل ہوگا، جو تمام انسانوںکواس کے جینے کا پوراپوراحق دے اور کسی کوکسی دوسرے پرکسی طرح کی ظلم وزیادتی کا حق نہ ہو، سماج سے بے حیائی کا خاتمہ ہو،معاشرے میں امن وسکون کاماحول ہو۔یہ تب ہی ممکن ہے جب اسلام کوصحیح طرح سے پڑھااورسمجھاجائے اوراس پرعمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
تب ہی ہم یہ یقین کے ساتھ کہہ سکیں گے کہ خواہ امریکہ ہوجس نے انسانیت کا قتل عام کیا،یااقوام متحدہ جس میں امن پسندی کی بات کہی توجاتی ہے مگرہوتااس کے خلاف ہے،یاہندوستان کے امن وسلامتی کوپامال کرنے والے اسرائیل نوازہندوستان کاایک گروہ جوقوم کی آپسی محبت اوربھائی چارگی کے ماحول کوخراب کرتے ہوئے ان میں قومیت کا بیج بوکرانسانیت کا گھلاگھونٹ رہاہے،جس کی مثال گجرات فسادہویا مکہ مسجدبم دھماکہ یا پھراجمیرکا حادثہ ہویا روزمرہ کے ہونے والے فسادات کی شکل میں دیکھنے کوملتی ہے۔یہ لوگ مفادپرست توہوسکتے ہیں مگرحق پرست اورامن پسندنہیں۔یہی لوگ اصل میںدہشت گردہیں جومفادپرست میڈیا کے ذریعے عوام کی نگاہوںمیں دھول جھونک کر دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کے نام پرپوری دنیا میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔

اس لیے اس کے ا صل محرک،  جس ذکرکیاگیااس کی سازشوںکوسمجھتے ہوئے مسلمانوںکوہرممکن اپنی اجتماعیت کوبرقراررکھناہوگا۔ ایمانی حمیت کا ثبوت دیتے ہوئے  اسلام کے نظام حیات اور غلبہ ٔ  دین کی سعی وجہدکرنے والوںکو،خواہ وہ  دنیا کے کسی حصے میںہو ،اگر ان پر ظلم ہوتو اس کا احساس دوسرے مسلمانوں کو ہو اور وہ اس کے دفعہ کی کوشش کریں،انھیں بے یارومددگا نہ چھوڑیں اورایک سچے پکے مسلمان ہوکر یکجہتی، باہمی اتحادواتفاق کا ثبوت پیش کریں تاکہ حق وباطل کا مقابلہ ہوتوحق غالب رہے۔

Thursday 8 June 2017

Ramzan, Quran aur Fahme Quran


رمضان ، قرآن اور فہم قرآن
                                                                      محب اللہ قاسمی ،نئی دہلی

ماہ رمضان المبارک کے روزے دراصل ایک عظیم الشان نعمت پر تشکر کااظہارہے ، وہ نعمت ہے انسانوں کی ہدایت کے لیے قرآن کریم جیسی بے مثال کتاب الٰہی کا نزول۔اس کی وجہ سے رمضان کے روزے فرض کیے گئے اور دیگر مہینوں پر اسے فضیلت دی گئی۔اللہ تعالی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاہے:

’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے ، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے ، سختی کرنا نہیں چاہتا۔اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سر فراز کیا ہے ، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔‘‘(185)

اس لحاظ سے قرآن اور رمضان کا بہت گہرا تعلق ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؐماہ رمضان میں حضرت جبرئیل ؑکے ساتھ قرآن کا دور فرماتے اور بہ کثرت قرآن کی تلاوت کرتے۔چنانچہ ہم ماہ رمضان میں دیکھتے ہیں کہ نماز تراویح میں اور الگ سے بھی بہ کثرت اس کی تلاوت کی جاتی ہے ۔ رمضان اور قرآن کو اس طور پر بھی مناسبت حاصل ہے کہ یہ دونوں روز قیامت بندے کے حق سفارش کریں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’قیامت کے دن روزہ اور قرآن دونوں بندے کی شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا، اے پروردگار! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے پینے اور خواہش پوری کرنے سے باز رکھا۔ قرآن پاک کہے گا کہ میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے باز رکھا تو آپ میری اس کے لیے شفاعت قبول فرمالیجئے۔ چنانچہ دونوں بندے کی شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘(مسند احمد)
اس طرح قرآن کریم کاکی تلاوت اللہ تعالی اس کے ایک ایک حرف پراجرعطا کرے گا۔

اس میں شک نہیں کہ کلام پاک کی تلاوت اللہ کوبے حد محبوب ہے اور اس پڑھنا اور سننا دونوں کارثواب ہے ۔ اس کی ایک ایک آیت پر اجروثواب کا وعدہ ہے، مگریہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا فہم ، اس میں غوروتدبر اوراس پر عمل پیراہونا نہایت ضروری ہے۔یہی نزول قرآن کا منشا ہے:

کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ (ص:29(
’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو(اے نبی)ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غورکریں اورعقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔‘‘

نزول قرآن کا مقصد اس کے سوا اورکچھ نہیں کہ انسان اپنے رب کو پہچانے، اس کے بنائے ہوئے اصول وقوانین کے مطابق زندگی بسرکرے ،اس کی ہدایات کے مطابق اپنے افکاروخیالات اوراعمال وکردار کوصحیح رخ پر لگائے اورایک اچھا انسان بن کرقوم ومعاشرے کے لیے مفیدثابت ہو۔اس لیے اس کے علاوہ اورکوئی وہ اصول وقوانین مرتب کرنہیں سکتا۔اس لیے کہ جس نے دنیا اوراس کی چیزوںکوپیداکیاہے ،وہی جانتاہے کہ اس میں کون سی چیزبری ہے اور کون سی چیز اچھی ہے۔کس طرح اس کی اصلاح ہوگی اورکن وجوہ سے اس میں فساد وبگاڑواقع ہوسکتاہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ ہی دنیاکا نظام مرتب کرسکتاہے کوئی اورنہیں۔صرف اسی کی اطاعت سے انسان دونوںجہاں میں فلاح ونجات پاسکتاہے۔

قرآن مجید تمام انسانوںکوانھی تعمیری اورمثبت افکار کی دعوت دیتاہے۔ اس کائنات کی تمام مخلوقات میں سب سے افضل انسان ہے ۔وہی اس کا حق دارہے کہ وہ نظم مملکت کو سمجھے اورقرآن میں غوروتدبرسے کام لے۔اس لیے قرآن کے مخاطب تمام انسان ہے۔اس کا مخاطف صرف مسلمانوںکوقراردیناصحیح نہیں۔یہ قرآن کی آیت(ہدی اللناس - ’تمام لوگوںکے لیے ہدایت ہے‘)کے سرسرخلاف ہے۔قرآن عام لوگوںکو دنیا کی تخلیق اوراس نظام میں غوروفکرکی دعوت دیتاہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:

وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُولُنَّ اللَّہُ فَأَنَّی یُؤْفَکُونَ (61) اللَّہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ وَیَقْدِرُ لَہُ إِنَّ اللَّہَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ (62) وَلَئِن سَأَلْتَہُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَحْیَا بِہِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُولُنَّ اللَّہُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُونَ (63)(عنکبوۃ :63-61(

’’ان لوگوں سے پوچھوکہ زمین اورآسمانوںکوکس نے پیدا کیاہے اور چانداورسورج کوکس نے مسخرکیاہے تووہ ضرورکہیں گے کہ اللہ نے،پھریہ کدھرسے دھوکاکھارہے ہیں؟اللہ ہی ہے جواپنے بندوںمیں سے جس کا چاہتاہے رزق کشادہ کرتاہے اورجس کا چاہتاہے تنگ کرتاہے۔یقیناً اللہ ہرچیز کا جاننے والاہے۔اوراگرتم ان سے پوچھوکس نے آسمان سے پانی برسایااوراس کے ذریعہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کو جلااٹھایاتووہ ضرورکہیں گے اللہ نے۔کہو،الحمدللہ،مگران میں سے اکثرلوگ سمجھتے نہیں۔‘‘

اللہ نے انسان کودل ودماغ کی شکل میں ایک خاص قسم کی دولت عطا کی ہے۔قرآن کریم انسان کو اسی عقل وشعورکے استعمال کے لیے جھجھوڑتا ہے:افلایتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالہا(محمد :24)کیا ان لوگوں نے قرآن پر غورنہیں کیا یادلوںپران کے قفل چڑھے ہوئے ہیں۔

ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ اپنے بندوںکوتدبرقرآن کا حکم دیتاہے اورجولوگ اس کے محکم معانی میںغوروفکرسے اعرض کرتے ہیں ان کی سرزنش کرتاہے ۔

حسن بصری ؒفرماتے ہیں :نزل القرآن لیتدبر ویعمل بہ، فاتخذواتلاوتہ عملاً ،ای عمل الناس اصبح تلاوۃ القرآن فقط بلا تدبر ولا عمل بہ۔(مدارج السالکین:485/1)

قرآن اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس میں تدبرکیاجائے اورا سپر عمل کیاجائے ۔لیکن لوگوںنے اس کی تلاوت کوکام سمجھ لیا،بعض لوگوںکا کام بس یہ ہوگیاہے کہ بلاغوروفکراس کی تلاوت کرلیااس کی عمل کی طرف توان کی بالکل توجہ نہیں ہوتی۔

ابن قیم :لیس شی انفع للعبدفی معاشہ ومعادہ من تدبرالقرآن وجمع الفکرعلی معانی آیاتہ،(نضرۃ النعیم ص:909(
تدبرقرآن اورا سکی آیات پرتوجہ مرکوزکرنے سے زیادہ نفع بخش اورکوئی چیز نہیں ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:

قُل لِّمَنِ الْأَرْضُ وَمَن فِیْہَا إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ0  سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَذَکَّرُونَ 0 قُلْ مَن رَّبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ  0  سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ 0 قُلْ مَن بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْْء ٍ وَہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْْہِ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ  0 سَیَقُولُونَ لِلَّہِ قُلْ فَأَنَّی تُسْحَرُونَ (مومنون:89-84)

’’ان سے کہو،بتاؤ اگرتم جانتے ہوکہ یہ زمین اوراس کی ساری آبادی کس کی ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ کی۔کہو،پھرتم ہوش میں کیوںنہیں آتے؟ان سے پوچھو،ساتوںآسمانوںاورعرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟یہ ضرورکہیں گے اللہ۔کہو،پھر تم ڈرتے کیوںنہیں؟ ان سے کہو،بتاؤاگرتم جانتے ہوکہ ہرچیز پر اقتدار کس کا ہے؟اورکون ہے جوپناہ دیتاہے اوراس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟یہ ضرورکہیں گے کہ یہ بات تواللہ ہی کے لیے ہے کہو، پھر کہاں سے تم کو دھوکہ لگتاہے؟‘‘

خالی گھر شیطان کا ہوتا ہے ،اسی طرح خالی ذہن شیطان کی آماجگاہ ہوتی ہے۔یا یوںکہیے کہ جس چیزمیں خیرنہ ہو اس میں شر کا ہونا یقینی ہے۔کیوںکہ دنیا کی کوئی بھی شی خالی نہیں ہوتی حتی کہ خالی گلاس بھی خالی نہیں اس لیے کہ اگراس میں پانی نہ ہو،تو ہوااس میں اپنی جگہ بنالیتی ہے۔ٹھیک اسی طرح  اگرانسان نے اپنے افکار و خیالات کو مثبت رخ نہیں د یا یایونہی بنا سوچے سمجھے زندگی بسرکی تواس میں اورایک مویشی میں کوئی فرق نہیں ،کیوںکہ دونوںکا زندگی گزارنابے مقصدہے۔ جب کہ اللہ نے اس دنیا اوراس کی چیزوں کو بے مقصدپیدانہیں کیا۔اس لیے قرآن لوگوںکوغوروتدبرکی دعوت دیتاہے:
إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَابِ0 الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّہَ قِیَاماً وَقُعُوداً وَعَلَیَ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلا0
’’زمین اورآسمانوںکی پیدائش میں اوررات ودن کے باری باری سے آنے میں ان ہوش مندلوگوںکے لیے بہت نشانیاں ہیںجواٹھتے اوربیٹھتے،ہرحال میں خداکویاد کرتے ہیں اورزمین اورآسمانوںکی ساخت میں غوروفکرکرتے ہیں(وہ بے اختیاربول اٹھتے ہیں )پروردگار،یہ سب کچھ تونے فضول اوربے مقصدنہیں بنایاہے۔‘‘ (آل عمران:191-190
(
آج لوگ ایک نصابی کتاب کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اوران کے بچے ٹھیک سے سمجھ لیں اس کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں حتی کہ اسکول اورکالج کے بعد الگ سے کوچنگ سنٹر کا نظم کرتے ہیںتاکہ مزیدان میںگہرائی اورگیرائی پیداہواور وہ اسکول کے امتحان میں کامیاب ہوجائیں۔مگروہ اس بات پر کبھی غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالی کی نازل کردہ اور ہمیشہ کام آنے والی مقدس کتاب جس میں نظام زندگی کا رازمضمرہے اورجودنیاکے تمام مسائل کا حل پیش کرتاہے ۔  وہ کن تعلیمات پر مشتمل ہے وہ کبھی اس کی زبان کو سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے اورنہ اس میں گہرائی یا گیرائی سے کام لیناچاہتے ہیں،اسی طرح وہ لوگ جو اس زبان کوجانتے توہیں مگروہ قرآن کو سمجھ کرنہیں پڑھتے اورنہ اس میں غورفکرکرتاہیں، توبھلاوہ کیسے فلاح وکامرانی پاسکتے ہیں ،کیوںکرانھیں دنیامیں چین وسکون اور آخرت میں نجات مل سکتی ہے۔
نبی کریم نے فرمایا:ویل لمن قرأہا ولم یتفکرفیہا ’’ہلاکت ہے اس کے لیے جوقرآن کی آیات کی تلاوت توکرتاہے مگر اس میں غورفکرنہیں کرتا‘‘

لوگ شکایت کرتے ہیں کہ قرآن ہماری زبان میں نہیں ہے ،اس لیے ہم اسے سمجھ نہیں سکتے ۔یہ عجیب بات ہے کہ اگرکسی شخص کے پاس کسی بڑے لیڈر یا اہم شخصیت کا کوئی خط آجائے تواگرچہ وہ اس کی زبان میں نہ ہوتب بھی وہ اس کوسمجھنے کے لیے کوشش کرتا ہے اورجب تک اس کا مطلب سمجھ نہ اسے سکون نہیں ملتابلکہ ہراس شخص کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے جواس زبان کا جاننے والاہو ،تاکہ وہ اس کا مطلب سمجھادے۔مگرقرآن جس میں خالق کائنات نے ایک پیغام دیا ہے،جس میں دین ودنیادونوںکے فائدے ہیں۔ اس کے سمجھنے کے لیے کوشش نہیں کرتے بلکہ زبان کے نامانوس ہونے کا عذر کرتے ہوئے اسے یونہی بالائے طاق رکھ دیتے ہیں جوکسی بھی طرح درست نہیںہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُوراً  (الفرقان:30(
’’اوررسول کہے گا کہ اے میرے رب میری قوم کے لوگوںنے اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنالیاتھا۔‘‘
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن کثیر ؒفرماتے ہیں :ترک تدبرہ وتفہمہ من ہجرانہ)قرآن میں تفکروتدبرنہ کرنا قرآن کو چھوڑنے کے مترادف ہے۔

علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ ہجرقرآن کی چند قسمین ہیں : ان میں سے ایک قرآن میں تدبروتفہم سے کام نہ لینا ہے اوراس بات کی عدم معرفت ہے کہ  اللہ اس آیت کے ذریعہ اپنے بندوںسے کیاکہہ رہاہے۔(بدائع التفسیر:292/2)
نبی کریمؐ جن پر قرآن مجید کا نزول ہواتھا۔ان کا معاملہ یہ تھاکہ آپؐ قرآن بہت ٹھہرٹھہرکراورغوروتدبرکے ساتھ پڑھتے تھے۔ حضرت حذیفہ ؓبیان کرتے ہیں کہ وہ ایک رات آپ ؐ کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے ۔ آپؐ قرآن ترسیلاً تلاوت فرماتے ۔جب کسی تسبیح کی آیت سے گزرہوتاتوتسبیح کرتے ، اسی طرح کسی ایسی آیت سے گزرہوتاجس میں سوال ہے توآپ سوال کرتے یاکسی تعوذکی جگہ سے گزرتے تواللہ کی پناہ مانگتے۔(مسلم)

آپ ؐ قرآن میں غورو تدبرمیں اس قدرمحوہوجاتے کہ پوری پوری رات ایک ہی آیت کی تلاوت میں گزاردیتے تھے۔ مسنداحمد کی روایت ہے ،حضرت ابوذرؓبیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپؐ نے ایک ہی آیت پڑھتے پڑھتے صبح کردی۔وہ آیت تھی:(ان تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم۔(سورۃ مائدہ:118)اگرآپ انھیں سزادیں تووہ آپ کے بندے ہیں اوراگرمعاف کردیں توآپ غالب اورداناہیں‘‘۔

فہم قرآن کے سلسلے میں صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا۔واضح اورپختہ نظریہ تھا جس پر وہ عمل پیراتھے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی فرماتے ہیں:کان الرجل منا اذا تعلم عشرآیات لم یجاوزہن حتی یعرف معانیہن والعمل بہن(رواہ الطبری فی تفسیرہ:80/1)’’ ہم سے جوکوئی دس آیات پڑھ لیتاتووہ اس وقت تک آگے نہیں بڑھتاجب تک کہ وہ ان کے معنی اور مفہوم کو سمجھ نہ لے اوران پر عمل پیرانہ ہو۔‘‘

علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ جب کسی جگہ قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو اس کے سامع تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ایک وہ جوقرآن کی آیات کو غور سے سنتے ہیں اوران کا دل ودماغ انھیں سمجھنے میں لگ جاتاہے۔ایسے لوگ زندہ دل اورصاحب بصیرت ہیں،ان کے لیے قرآن نصیحت ہے جسے وہ اپنی عملی زندگی میں ڈھال کرخداکی خوشنودی تلاش کرتے ہیںدوسرے وہ لوگ جوقرآن سمجھ توسکتے ہیں مگران کا دل و دماغ حاضرنہیں ہوتا۔تیسرے وہ جو نہ قرآن کو غورسے سنتے ہیں اوران اس میں غوروتدبرسے کام لتے ہیں۔وہ اندھے اوربہرے لوگ ہیں۔
عام لوگوں کے ذہنوںمیں یہ خیال پیداکردیاگیاہے کہ فہم قرآن صرف علماء کا کام ہے ،عام لوگوںکا نہیں ۔مگریہ خیال بالکل غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے تو ایسی کوئی تخصیص  نہیں کی ۔بلکہ صراحت کی ہے کہ قرآن کا نزول تمام لوگوں کے لیے ہے۔

مولانا مودودیؒ قرآن کوسمجھنے اوراسے اپنی زندگی میں ڈھالنے کے لیے ایک عام فہم مثال بیان کرتے ہیں :
’’بتائیے اگرکوئی شخص بیمار ہو اورعلم طب کی کوئی کتاب لے کرپڑھنے بیٹھ جائے اوریہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دورہوجائے گی توآپ اسے کیاکہیں گے؟کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجواسے پاگل خانے میں،اس کا دماغ خراب ہوگیاہے؟مگرشافی ٔ مطلق نے جوکتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے ،اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ ہے۔آپ اس کوپڑھتے ہیں اوریہ خیال کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دور ہوجائیں گے ،اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ،نہ ان چیزوں سے پرہیزکی ضرورت ہے جن کویہ مضربتارہی ہے۔پھرآپ خوداپنے اوپربھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جواس شخص پر لگاتے ہیں جوبیماری دورکرنے کے لیے صرف علم طب کی کتاب پڑھ لینے کوکافی سمجھتاہے؟‘‘  (خطبات حصہ اول:20(

ابن مسعودؓنے تدبرقرآن اوراس پر عمل کے سلسلے میں غفلت کا خدشہ ظاہرکرتے ہوئے فرمایا:انا صعب علینا حفظ الفاظ القرآن، وسہل علینا العمل بہ ، وان من بعدنا یسہل علیہم حفظ القرآن ویصعب علیہم العمل بہ‘‘(الجامع لاحکام القرآن)

’’ہم لوگوںپر قرآن کا حفظ کرنا مشکل ،جب کہ اس پر عمل کرنا آسان ہے اورہمارے بعد لوگوںپر قرآن کا حفظ کرنا آسان ہوگا اوراس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔‘‘

قرآن جوکہ تمام لوگوںکی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے اگراسے سمجھ کرنہیں پڑھا گیااورغورفکرنہیں کیاگیاتو اس پر عمل مشکل ہوجائے گا پھریہ عام انسانوںکی رسوائی اورذلت کی بات ہوگی کہ ان کے پاس دین ودنیا کے تمام مسائل کا حل موجودہے ،پھر بھی وہ اس پر وہ عمل نہیں کرتے۔
٭٭٭

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...