Monday 12 February 2018

Masjid Allah ka Ghar hai


مسجد اللہ کا گھر ہے کسی کی جاگیر نہیں!

     ہم مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلے کے ساتھ ہیں اور فیصلے میں نقص نکال کر بورڈ کو کمزور کرنے کی ناکام کوشش کرنے والے درحقیقت منافقانہ رویہ اپنانے پر مصر ہیں۔مومن ایمان کا سودا نہیں کرتا چاہے 2019 میں بی جے پی جیتے یا ہارے ۔مومن ایمان سے ہے بی جے پی کی جیت ہار سے نہیں۔سب سے بڑا جرم اللہ کے گھر کو گرا کر اس جگہ مورتی ڈال دینا، اس کے بعد ہزاروں لوگوں کو شہید کردینا۔ پہلے تو اس کی باز پرس ہو اور مسجد گرانے والے مسجد کو دبارہ تعمیر کرائے پھر کوئی بات ہوگی۔ جب عدالتی کارروائی جاری ہے تو فیصلے کا انتظار کیا جائے.

    مسلمان امن پسند ہے امن چاہتا ہے مگر بے غیرت اور ایمان فروش نہیں کہ مسجد کا سودا کرلے۔ غیر مسلم تو کبھی ہم سے راضی نہیں ہوں گے تو کیا اس کے نتیجے میں ہم اپنا مذہب بدل لیں گے.شخصیات ہر زمانے میں پیدا ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی، جن کا ادب و احترام بھی ملحوظ رکھا جائے گا مگر اس وقت تک جب تک وہ اپنے رویے اور بیان سے امت کے دینی معاملہ اور متفقہ فیصلے کو نقصان نہ پہنچائے. یہ مسجد کا معاملہ ہے میری یا کسی اور کی زمین یا ملکیت کا نہیں کہ جہاں چاہا بدلین کرلیا جسے چاہا گفٹ کر دیا۔

    اگر ہم نے اس کا سودا کر لیا یا اس جگہ کو بت کدہ بنانے کے لیے دے کر مسجد کہیں اور شفٹ کرنے پر آمادہ ہوگئے تو ہم اپنے رب کو کیا منہ دکھائیں گے؟ اور جن لوگوں کو مسجد کے نام پر شہید کیا گیا، جب کہ ہم مسجد کے نام پر ایک تھپڑ کھانے سے کتراتے ہیں، کیا ہم ان کا خون یونہی ضائع کردیں گے؟ اور اپنا موقف بدلنے پر مجبور ہو جائیں؟ تو کل کسی اور مسئلہ پر ہم کیا کریں گے؟ 

    ہم اپنے دین اور شریعت کے ساتھ جینے کی آزادی ہے ہم اسی کے ساتھ جئیں گے اسی کے ساتھ مریں گے۔ الا یہ کہ ہم سے ہماری یہ آزادی چھین لی جائے.

    اسی لیے ہم انصاف کی خاطر عدالتی لڑائی لڑ رہے ہیں اور فیصلے تک انتظار کریں گے ، فیصلہ حق میں ہو یا مخالف ہم اسے قبول کریں گے، جس کے ہم مکلف ہیں.


Saturday 10 February 2018

Maulana Salman Sb



غلطی کس سے نہیں ہوتی مگر......!

مجھے نہیں لگتا کہ کوئی محترم مولانا سلمان صاحب کی صلاحیت، قابلیت اور بے باکی سے اختلاف کرتے ہوئے انھیں عام درجہ کا عالم سمجھتا ہوگا مگر معاملہ جب کہیں سے کہیں پہنچ جائے اور اس کا منظر اور پس منظر کچھ اور ہو جائے تو اس پر اختلاف اور تنقید کا حق ہونا چاہیے اور حمایتی حضرات کو یہ قبول کرنا چاہیے اور مولانا محترم سے اپنے موقف اور رویے پر نظر ثانی کے لیے کہنا چاہیے.

ورنہ مولانا محترم کے اصرار، اس پر جذباتی اور غیر دانشمندانہ ردعمل سے امت مزید انتشار کا شکار ہوگی اور اس دفعہ نقصان غیرمعمولی ہوگا.

10 فروری کو سارا دن چینل پر وہ میڈیا جو علماء کی بے عزتی کو اپنا فرض منصبی سمجھتا رہا اس نے مولانا سلمان صاحب کو لے کر جو ڈراما کیا ہے اور ان کی قصیدہ خوانی کی اور مولانا نے جس انداز سے اپنا موقف رکھا اور دوسروں کو رسوا کیا وہ انتہائی تکلیف دہ اور افسوس ناک رہا. ان ہی سب باتوں نے تو معاملہ اور خراب کیا ہے ورنہ غلطی کس سے نہیں ہوتی مگر ہوش میں آتے ہی انسان اپنی غلطی پر نظر ثانی کرلے وہی کامیاب ہے ۔مولانا بہت دور جا رہے ہیں پھر بھی واپسی ممکن ہے۔

اس وقت محترم مولا سلمان صاحب، ان کے بیان اور اس کے سبب مسلم پرسنل لا سے ان کی رکنیت سے اخراج کو لے کر امت کرب میں مبتلا اور انتشار کا شکار ہے. ایسے میں یہ نہ دیکھا جائے کہ کون ان کا حمایتی اور کون ان کے بیان کا مخالف بلکہ یری گزارش ہے کہ ان سب باتوں کو چھوڑ توجہ اس بات پر مرکوز کی جائے کہ کیسے مولانا سلمان صاحب کو اپنے موقف پر نظرثانی کے لیے آمادہ کیا جائے. اس وقت اس کی سخت ضرورت ہے. کیوں کہ مولانا بہرحال ایک اہم شخصیت ہیں.         

Madaris Islamia Jame Taleem ka Markaz



قلعہ ٔاسلام مدارس اسلامیہ کو جامع تعلیم کا مرکز بنانے کے لیے 

مخلصانہ عملی اقدام کی ضرورت

اسلام کی بقااور مسلمانوں کی دینی تشخص کی حفاظت پر  زور دینے  والے اس مضمون جسے معروف و متحرک عالم دین مولانا الیاس ندوی بھٹکلی صاحب نے بعنوان ’’اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تندجولا ں بھی‘‘تحریرکیا جوایسے  وقت میں جب کہ مدارس  سے  ناواقف نادان شیعہ  وقف کے چیئر مین وسیم رضوی نے مدارس کے  خلاف فتنہ  انگیز بیان دے کر امت میں بے چینی پیدا کردی تھی کافی مقبول ہوا ۔واقعی اس مضمون سے کچھ چیزیں حذف کردی جائیں تو اس مضمون کو امت کے اس ناگزیر  حالات میں حوصلہ بخش کہا جاسکتا ہے۔جس  سے عوام مدارس کی اہمیت اور ضرورت  کی وضاحت ہوتی ہے۔اس مضمون کا  ناقدانہ اور  مدلل تجزیہ ’’مدارس اسلامیہ، اہمیت و افادیت : چند قابل غور پہلو‘‘جسے معروف عالم دین مولانا مجیب الرحمٰن عتیق ندوی صاحب تحریر کیا ہے۔

دونوں مضامین اپنے آپ میں بہت خاص ہے جسے پڑھنے کی ضرورت ہےتاکہ قلعہ ٔاسلام مدارس اسلامیہ کو جامع تعلیم کا مرکز بنانےکے لیے کچھ عملی اقدام کی نشاندہی ہوجائے اور امت اس جانب خصوصی توجہ دے۔

اس لیے میں  نے دونوں مضامین بالاستعاب اور مکمل  پڑھے، اس  کے بعد محسوس ہوا کہ اول الذکر مضمون میں کچھ باتیں تھیں جومجھے بھی کھٹکیں جس کا ناقدانہ جائزہ لینا بہت ضروری تھا۔مثلاً مسجد اقصی میں خطبہ جمعہ کے وقت  کا واقعہ جس کا ثانی الذکر مضمون ’’مدارس اسلامیہ، اہمیت و افادیت : چند قابل غور پہلو‘‘میں بھرپور تعاقب کیا گیا ۔

اسی طرح عصری علوم سے یکسرمنہ موڑلینے  والی باتیں جو مضمون پڑھنے سےمحسوس ہوتی ہیں۔علامہ اقبال ؒ اورمفکر  اسلام ؒ کے اقتباسات جنھیں دلیل  کے طور پر پیش کیا گیا اور ان سے یکطرفہ  رائے قائم کی گئی ۔جس پر ثانی الذکر مدلل تجزیہ نے بہت کچھ واضح کردیا  ہے۔

دونوں مضامین کا خلاصہ پیش  کرتے ہوئےیہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مدارس اسلامیہ جو دینی قلع ہیں، اسلامی نظام کی ترویج و اشاعت  اوردعوت و تربیت کا مرکز ہیں،انھیں   قدیم علوم میں پختگی اور  بصیرت ،دینی تشخص ، حلال و حرام کے امتیاز کے ساتھ زمانوں کے جدید  تقاضوں سےبھی ہم آہنگ کیا جائے، جن سے علمائے کرام میں اتنی صلاحیت اور جامعیت آجائے کہ وہ مطلوبہ قائدانہ کرداربہ حسن و خوبی ادا کرسکے اور اسلامی نظام کی خصوصیات سےمعرفت خداوندی  کے ساتھ دنیا کو اخلاقی گراوٹ اور اقتصادی مشکلات سے نجات دلاسکے۔یہی مدارس اسلامیہ کا تشخص  ہونا چاہیے۔ تبھی جا کر موج تندجولاں بھی اٹھے گی اور مدارس اسلامیہ کی بھرپور اہمیت و افادیت لوگوں کے سامنے آئے گی۔

یہ  اسلامی نظام کی خصوصیت  ہے کہ وہ ہر زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنےاور اس کے مطابق اس کا ہر ممکن حل  پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہذا جس طرح بدلتے حالات میں اورہر دور  میں اسلاف نے زمانےکے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے نظام تعلیم کوبہتر بنانے کی کوشش کی ہے ہمیں بھی اس  کاخیال رکھتے ہوئے اس جانب توجہ دینی چاہیے ۔

واضح رہےکہ بسااوقات جو لوگ مدارس کے نظام ِتعلیم میں تبدیلی کو مدلل انداز میں پیش نہیں  کر پاتے  ہیں۔ اس کی وجہ ان کی دوسروں کے نظام تعلیم  سے مرعوبیت اور غیرمخلص ہونا ہے جو لوگ یکسر تبدیلی کے مخالف ہیں یا اس میں ذرہ برابر بھی تبدیلی (جو کہ عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئےبے حد ضروری ہے)کو براداشت نہیں کرپاتے اس کی وجہ ان کا  وہ روایتی نظریہ ہے جس سے ہٹنا نہیں چاہتے۔جس  سے ان  کایہ  اندیشہ ہے کہ اگر اس میں عصری علوم کی شمولیت ہوئی تو دھیرے  دھیرے مدارس اپنا وہ تشخص کھو دے گا، جو اس کی روح اور اس کے قیام کا مقصد ہے۔

اس طرح دیکھا جائے تو  معاملہ افراط و تفریط کا ہے، جب یہ رائے معتدل ہو  جائے اور  غوروخوض کے ساتھ مخلصانہ عملی اقدام کی طرف توجہ ہو تو بہت کچھ بدل  جائے گا ۔پھرمسلمانوں  کے زیر اثر وہ عصری درسگاہ جہاں دینی تعلیم کا فقدان ہے وہاں بھی دینی تعلیم کا چراغ روشن ہوگا اور مدارس اسلامیہ اپنے تمام خصوصیات کے ساتھ جامع تعلیم کا مرکز ہوگا۔        

محب اللہ قاسمی

  

Sunday 4 February 2018

Jashn Jamhuriyat par Jhanda: Bhgwa ya Tiranga?




جشن جمہوریت پر جھنڈا: بھگوا یا ترنگا ؟

       تین رنگوں (کیسریا سفید اور ہرا) سے بنا ہمارا جھنڈا ترنگا جسے انگریزوں کی غلامی سے آزادی کے بعد ہماری آن، بان اور شان کی علامت کو درشانے کے لیے ہمارے ملک عزیز ہندوستان ، کا قومی جھنڈا قرار دیا بنایا گیا اسی طرح حب الوطنی سے لبریز ایک ترانہ ہندی ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ جسے ایک زمانہ سے ہندوستانی عوام گاتے آ رہے ہیں اور ’’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ‘‘ جیسے بول سے باہمی محبت اور آپسی بھائی چارے کو فروغ دینے کوشش کرتا ہے۔ اسی لیے سب لوگ یہاں مل جل کر رہنا چاہتے کیوں کہ ’سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں‘۔
      ایسے میں بھگوا جھنڈا کا ٹکراؤ ترنگا سے ہوگا تو دنگا لازمی ہے پھر بھی لوگ بھگوا چھوڑ، ترنگا (یوم جمہوریہ کی مناسبت سے پروگرام میں ترنگا لہرانے والے مسلمان) کو ہی قصور وار ٹھہرانے کی سازش کر رہے ہیں. جب کہ سی سی ٹی وی فوٹج موجود ہے اور موقعہ واردات پر پہنچ کرلوگوں نے اس کی تصدیق کی کہ مسلمان بے قصور ہیں۔

      جی ہاں بات ہو رہی کاش گنج میں جشن جمہوریت کی جہاں مسلمانوں نے ترنگا پھہرانے کے لیے 26 جنوری کو ایک تیراہے پر پروگرام رکھا تھا۔ جپروگرام کے دوران ہی کچھ بائک سوار ہاتھ میں بھگوا لیے ترنگا یاترا نکال رہے تھے اس جگہ آپہنچے، اس طرح دو گروہ میں کہا سنی ہوئی اور معاملہ فساد اور آگ زنی تک جا پہنچا۔

      یہ کیا... کبھی ترنگا نہ پھہرانے کے الزام میں، کبھی بھگوا جھنڈا نہ لہرانے اور وندے ماترم نہ کہنے کی پاداش میں، کیوں مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے. کیوں ان کے گھروں، مکانوں اور دکانوں کو نذر آتش کیا جاتا ہے. ایک تو ویسے ہی بے روزگاری سے جنتا پریشان حال ہے. کچھ لوگ تھوڑی بہت محنت کر کے کچھ کرنا چاہتے ہیں، تو اسے بھی جلا کر خاک کر دیا جاتا ہے. ایسے میں کوئی پکوڑی کی ٹھیلی بھی لگا پائے گا۔ اسی دن کے لیے مجاہدین آزادی نے ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لئے قربانیاں دی تھیں
.
      ایسے میں ایک سوال جو ذہن آتا ہے کہ اب اب یہ طے ہوجائے کہ یوم جمہوریہ یا یوم آزادی کے جشن میں کون سا جھنڈا لہرایا جائے تاکہ آئندہ کوئی دوسرا کاش گنج نہ بنے اور ہندو مسلم فسادات نہ ہو، ہمارے بھائی چارے کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔کون ہے جو اتنا زہر بھر دیتا ہے ،جس کی وجہ سے لوگ تشدد کی راہ اپنا کر آگ زنی پراتر آتے ہیں۔

http://www.baseeratonline.com/58175.php

Saturday 3 February 2018

Khushi aur Gham

خوشی اور غم
احساس ہی انسان کو خوشی اور غم میں مبتلا کرتا ہے، جس کا تعلق دل سے ہے اگر انسان دل کو تقدیر پر راضی رکھ کر (جس کا فیصلہ اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے) اپنا حسن عمل جاری رکھے تو وہ اپنی زندگی زندہ دلی کے ساتھ جی لے گا اور غم کی حالت میں بھی خوشی کا پہلو تلاش کر لے گا. 

بہ صورت دیگر انسان بے جا فکر میں مبتلا ہو کر ہمیشہ غم و یاس کا شکار رہے گا اور اپنی جھوٹی خوشی کی تلاش میں اچھے برے کی تمیز کھو دے گا. پھر وہ طے نہیں کر پائے گا کہ خوش ہو یا غمگین!
محب اللہ قاسمی      

Keya yahi Insaniyat hai?



کیا یہی انسانیت ہے؟ یہی ترقی ہے؟
محب اللہ قاسمی
سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ جس قوم کا مذہب یہ کہہ رہا ہو کہ "بہ خدا وہ مومن نہیں جو خود آسودہ ہو کر سوئے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے." ... چہ جائے کہ اس بھوک کی وجہ سے کسی کی موت ہو جائے... انتہائی ذلت کی بات ہے... پوری ملت اس کی ذمہ دار ہے.

یوپی کے شہر مراد آباد کا واقعہ ہے 26 جنوری سے ایک روز قبل جب ملک میں جشن یوم جمہوریہ کی تیاری چل رہی تھی اسی رات جمعرات کی شب ایک ماں امیر جہاں نے سارا کھانا اپنی تین بیٹیوں کو کھلا دیا اور خود بھوکی سونے سے انتقال کر گئی. خبر کے مطابق وہ پندرہ دنوں سے بھوکی تھی جو کچھ پڑوسی سے ملتا تھا وہ اپنے بچوں کو کھلا دیتی تھی. اس رات بھی اسے پڑوسی سے چھ روٹیاں ملیں جو خود نہ کھا کر سب اپنی بچیوں کو کھلا دی. صبح جب ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا تو اسے مردہ قرار دیا گیا اور پوسٹ مارٹم کے مطابق یہ بتایا گیا کہ شدید ٹھنڈک اور بھوک سے اس کی موت ہوئی.

آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ ماہ قبل جھارکھنڈ کے ایک گاؤں میں گیارہ سال کی سنتوشی جو بیمار نہیں تھی بلکہ بھوک سے مرگئی، اس کی ماں کوئلی دیوی نے میڈیا سے بتایا کہ میری بیٹی بھات بھات کہتے مر گئی. اس کے گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا اور راشن کارڈ کا آدھار سے لنک نہ ہونے کی وجہ سے اسے راشن نہیں مل سکا.
ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ حکومت جو GST اور دیگر ٹیکس کے نام پر اتنے پیسے وصول کر رہی ہے، وکاس وکاس چلا رہی ہے وہ کہاں ہے؟ کیا یہی ڈیجیٹل انڈیا ہے؟ یہی بھارت بدل رہا ہے جہاں بھوک سے جنتا مر رہی ہو.. ہمارا سماج ان باتوں پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا نہ میڈیا والوں کو یہ سب مدعا نظر آتا ہے.
بدلتے بھارت میں کسان خود کشی کر رہا ہو، بے روزگاری اور مہنگائی کی شرح بڑھتی جا رہی ہو امن و امان پامال ہو رہے ہوں تو پھر ہم کون سی ترقی کا خواب دیکھ رہے ہیں. اگر دیش ترقی کر رہا ہے تو دکھنا چاہیے نا.. یا پھر یہی ترقی ہے؟ لالو نے ٹھیک کہا تھا کہ دیش کی غریب جنتا کو جینے کے لئے "ڈاٹا" نہیں "آٹا" چاہیے.



Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...