Sunday 15 July 2018

Darul Qaza aur Hindustani Musalman


دار القضاء اور ہندوستانی مسلمان

اپنے کچھ نادان دوست کہتے ہیں کہ ‏ہندوستان کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کو "دار القضاء" کے بجائے "فیملی کونسلنگ سینٹر" کا لفظ استعمال کرنا چاہئے. فیملی کونسلنگ سینٹر پر کسی کو اشکال بھی نہیں ہوگا۔

میرا کہنا ہے بھائی اگر ہم نماز کو پریر کہنے لگ جائیں تو بھی نماز پر پابندی لگانے والے لگانے کی ناپاک کوشش کریں گے. جنھیں مسلسل اٹھ جام سے کوئی شکایت نہیں انھیں 24 گھنٹے میں پانچ وقت کی اذان سے بھی پریشانی ہونے لگی ہیں۔ جب کہ پورا ملک جانتا ہے کہ دارالقضا کا نظام ہندوستان میں طویل عرصہ سے قائم ہے جو اب تک چلا آرہا ہے، جہاں پر فریقین کی رضامندی کے ساتھ عائلی مسائل اسلامی احکام کے مطابق حل کیے جاتے ہیں اور اس کےلیے انھیں دیگر سخت پنچایتوں کی طرح مجبور بھی نہیں کیاجاتا یہی وجہ ہے کہ جنھیں لگتا ہے کہ ان کے ساتھ یہاں انصاف نہیں ہوا تو وہ عدالت کا رخ کرتے ہیں۔ تو پھر اس میں پریشان ہونے کے بجائے خوش ہونا چاہیے کہ ہندوستان کی مسلم آبادی کو دیکھتے ہوئے مزید دار القضاء قائم کرنے سے عدالت پر بہت زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا بلکہ اس کا معاون ثابت ہوتا رہا ہے اور ہوگا جس سے مسلمانوں کے عائلی مسائل بہ آسانی حل ہوں گے. یہی وجہ ہے کہ اسے سپریم کورٹ نے بھی نہیں نکارا۔

مگر افسوس فرقہ پرست لوگ عنادا اور سیاسی لوگ سیاستا اور اپنے نادان لوگ حماقتا کچھ سے کچھ بولے جا رہے ہیں جیسے ان کا بولنا ضروری ہو! دار القضاء کو وہ شرعیہ کورٹ سمجھتے ہیں اور اس لفظ سے ماحول خراب کرنا چاہتے ہیں جو میڈیا والوں کی غلطی ہے۔ اس پر بات ہونی چاہیے نہ کہ ہم خود کو ہی بدلنےمیں لگ جائیں پھر کیا کیا چیز بدلیں گے نماز، روزہ، اسلامی احکام جو سارے کے سارے شرعی احکام ہیں۔
محب اللہ قاسمی

No comments:

Post a Comment

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...