Showing posts with label متفرقات. Show all posts
Showing posts with label متفرقات. Show all posts

Friday 10 February 2023

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری

محب اللہ قاسمی


انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہمی میل جول اور تعلق کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ دوسروں کے درد کو وہ اپنا درد محسوس کرتاہے۔ چوں کہ اسلام خود سلامتی ومحبت کا پیغام دیتاہے۔ اس لحاظ سے ہر اچھا انسان فطرتا لوگوں پر رحم کرتا ہے۔ ان کی مصیبت میں کام آتاہے۔ ان کی مشکلات آسان کرتا ہے اور ان کا سہارا بنتا ہے۔ اس لیے ایک حدیث میں ایسے لوگوں کی پہچان بتائی کہ بہترین انسان وہ انسان ہے جو دوسروں کے لیے نفع بخش ہو ۔


چند روز قبل ترکی اور شام میں زلزے کے شدید جھٹکے  نے قہر برپا کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں مکانات زمین بوس ہوگئے اور ہزاروں لوگوں کی موت واقع ہوگئی اور اب بھی ملبے کے ڈھیر میں پھنسے لوگوں کو نکالنے اور انھیں محفوظ مقامات پر لے جانے کی کوشش جاری ہے۔ان میں بچے بوڑھے جوان مرد و خواتین سب شامل ہیں۔ اس حادثے کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے۔کروڑوں اور اربوں کا نقصان ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ  جائے حادثات سے موصول ویڈیوز  نے جہاں انسانیت کو دہلا کر رکھ دیاہے۔وہی ان ویڈیوز اور تصاویر کی زبانی مصیبت کے شکار لوگوں کی راحت رسانی کا کام دیکھ کر خوشی بھی ہوئی جس میں مختلف ممالک کے لوگوں نے اپنی جانب سے اس امدادی کارروائی میں حصہ لیا ہے اور انسانیت کے تئیں درد مندی کا ثبوت پیش کیا۔ 

اس تکلیف دہ اور درد ناک وقت میں حکم راں کا اپنی رعیت کے لیے حوصلہ افزا، قوت بخش اور اللہ سے جوڑنے والا یہ بیان یقیناً اس شفا بخش مرہم پٹی کی طرح ہے جو گہرے سے گہرے زخم کو مندمل کرنے میں کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔ آپ نے کہا : ’’اللہ نے جو مقدر کیا تھا، جو اس کی مشیت تھی وہ اس نے کیا، جنہیں ہم نے کھو دیا انہیں ہم واپس تو نہیں کر سکتے، البتہ جنہوں نے اپنا گھر کھویا ہے انہیں ہم اطمینان دلاتے ہیں کہ آپ کو اپنے گھروں کی تعمیر نو کیلئے  ایک "لیرہ" بھی نہیں صرف کرنا پڑے گا ، جو گھر اپ نے کھویا ہے ہم آپ کیلئے ان سے بہتر گھر بنائیں گے، اگر کسی شخص کو ایک درخت کا نقصان ہوا ہے تو ہم اسے دس درخت فراہم کریں گے۔‘‘

 ترک صدر رجب طیب اردغان کی جانب سے وائرل ان کے ہمدردی اور تسلی بھرے مذکورہ پیغام  نے عام انسانوں کو جذباتی طور پر بہت متاثر کیا اور  عوام نے اس حادثے سے دوچار ہوئے لوگوں کے ساتھ ان کے لیے بھی دعائیں کی۔


مصیبت زدہ، آفت کے ماروں، بے بسوں ولاچاروں اور بے کسوں کی صداؤں پر لبیک کہنے والے اور مجبور وپریشان لوگوں کا سہارا بننے والے ہی واقعی وہ انسان ہیں جن سے انسانیت زندہ ہے جو بلاتفریق مذہب وملت دوسروں کی مدد کے لیے ہر دم تیار رہتے ہیں  اور جب کبھی ،جہاں کہیں بھی انسانیت کسی مصیبت یا آفت سماوی یا ناگہانی حادثہ کا شکارہوتو ان کا ہمدرد بن کر ان کومشکلات سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف ایک اچھے انسان کا بلکہ اس کام کو بہتر انداز میں پورا کرنے والے بہترین معاشرہ اوراچھے ملک کی پہچان ہے۔یہ ان لوگوں کی طرح نہیں ہوتے جو دوسروں کے کراہنے پر قہقہا لگاتے ہیں اور معصوم لوگوں پر گولے داغے جانے کے مناظر کو پاپ کان کھاتے ہوئے دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔جب کہ 

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو 

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں

یہ بات درست ہے کہ جس دل میں محبت نہ ہو ہمیشہ اس میں نفرت کے الاوے پھوٹتے ہوں وہ انسان کا دل نہیں پتھر یا اس سے بھی بد تر ہے۔ اس لیے آئیے ہم انسانی ہمدردی کا ثبوت پیش کرے اور یہ عہد کریں کہ اپنے اہل خانہ پڑوسی سے لے کر جہاں تک ممکن ہوسکے تمام لوگوں سے اظہار یکجہتی قائم رکھیں گے اور بہ حیثیت انسان ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آئیں گے اورنفرت کے مقابلے محبت کا پیغام عام کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس حادثے کے شکار ان تمام لوگوں پر رحم فرمائے اور انھیں اس زلزلے سے آئی مصیبت سے نجات دلائے جو ابھی بھی ملبے کے ڈھیر میں پھنسے ہوئے زندگی کی کشمکش میں ہیں اور ان تمام لوگوں کو اجر عظیم عطا کرے جو اس نازک گھڑی میں مصبیبت زدہ لوگوں کے ساتھ راحت رسانی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

Wednesday 17 October 2018

غربت سے خاتمے کا عالمی دن


غربت سے خاتمہ گرممکن نہیں پر اسے کم تو کیا جاسکتا ہے؟
17 اکتوبر کو دنیا بھر میں غربت کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن دنیا بھر میں غربت، محرومی اور عدم مساوات کے خاتمے، غریب عوام کی حالت زار اور ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے سمینار، مذاکروں، مباحثوں اور خصوصی پروگراموں کا اہتمام کیا جا تا ہے۔
یہ دن منانے کا سلسلہ  1993ء سے بدستور جاری ہے۔25 برسوں سے یہ عالمی دن منا یا جا رہا ہے۔ اس دن سے غربت کے خاتمے کیلئے عالمی طور پر کوششیں کی جاری ہیں لیکن آج بھی دنیا میں غریب افراد کی تعداد دو ارب سے زائد ہے جن کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے بھی کم ہے۔ا ٓج بھی غریب بے گھر اور کسم پرسی کی بدترین حالت میں جی رہے ہیں ۔
غربت کے خاتمے کے حوالے سے  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں باقاعدہ قرارداد منظور کی گئی تھی۔ عالمی بینک کی رپورٹ ”ورلڈ ڈیولپمنٹ انڈیکیٹر“ کے مطابق بھارت میں غربت کی شرح 68 اعشاریہ 7 فیصد ہے۔ ہندوستان میں سیاسی قائدین کی جانب سے غریبی کو دور کرنے کے مستانہ وار نعرے لگائے گئے،جن سے ان کی سیاسی دھاک قائم رہی  ساتھ ہی، غربت  بھی اپنے پاؤں پسارے وہی جمی رہی۔
دنیا کا سب سے زیادہ ترقی پذیر کہے جانے والے ملک امریکہ میں بھی 14 فی صد لوگ ہیں ۔غربت کی سب سے بھیانک شکل ہمیں ترقی پذیرممالک میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جس طرح ٹاٹا گروپ نے ہندوستان میں غربت سے خاتمے کے لیے قابل قدر کوشش کی اور غریبوں کو مواقع فراہم کیا جسے اقوام متحدہ نے بھی سراہا ہے، اسی طرح امریکہ میں بھی ان ہی کامو کرنے والوں نے عوامی سطح پر غربت کے خاتمے کے لیے کوشش کی۔ اگر انھوں نے اس میدا ن میں دلچسپی نہ دکھائی ہوتی تو امریکہ کا بھی گراف بہت نیچے ہوتا۔
غربت کے خاتمے کے لیے ایک طرف کمیونزم نے 80سال تک کوشش کی اور  بزور طاقت تمام افراد کو ایک سطح پر لانے میں اپنی پوری توانائی صرف کردی، تودوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام نے لوگوں کو مال و دولت حاصل کرنے کی پوری   آزادی دی، پھر بھی غربت سے خاتمے کا مقصد حاصل نہ ہوسکا ۔ کیوں  کہ دونوں افراط اور تفریط کے شکار تھے۔ نتیجہ میں ناکامی ہاتھ آئی۔ اسلام کا نظریہ اس سے بالکل الگ ہے ۔ اس کا ماننا ہے کہ معیشت کا سودی نظام، جو اللہ تعالی کو بے حد ناپسند ہے ، یہ عام معیشت کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اس سے  امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہو جاتا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ غریبی کو بالکل ختم نہیں کیا جاسکتا، کیو ں کہ یہ اللہ تعالی کا نظام ہے  ، اس میں  امیر و غریب دونوں رہیں گے، مگر غربت کو کم سے کم ضرورر کیا جاسکتا ہے ۔ کم از کم یہ تو ہو ہی جائے کہ ایک غریب انسان کوبھی دووقت کی روٹی  اور بنیادی ضرورت کا سامان میسر ہوجائے۔
غربت کو کم  سے کم کرنے میں سب سے بڑی وکاوٹ یہ ہے کہ امیر مالدار سے مالدار تر ہوتے جاتے ہیں اور غریبوں میں مال کی مناسب تقسیم نہیں ہوتی ۔ امیروں اور غریبوں کے درمیان جس قدر فاصلہ بڑھے گا غربت کی شرح میں اسی قدر اضافہ ہی ہوگا۔ اس کے لیے سودی نظام، استعماریت اور پونجی واد کو فروغ دینے کے بجائے غریبوں کے ساتھ مساوات برتنا اور ان کی حالت زار کو محسوس کرتے ہوئے، ان کی جان و مال کا تحفظ اور سرکاری منصوبوں  کے اعلانات کے مطابق ان تک اموال کی فراہمی اور انھیں روزگار سے جوڑنا بے  حد ضروری ہے۔ انتخابات کے وقت جھوٹے اور پرفریب نعروں اور وعدوں کے بجائے انھیں حقیقت کا جامہ پہنانا ہوگا۔  رشوت اور کرپشن جیسی بیماریوں کو ختم کرنا ہوگا۔تبھی  ملک سے غربت کو کم سے کم کرنے میں کامیابی مل سکے گی، ورنہ ملک کی ترقی کے دعوےکا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ پھر یہ سوال برقرار رہے گا        ؎
دولت بڑھی تو ملک میں افلاس کیوں بڑھا

Friday 12 October 2018

Sick society (بیمار معاشرہ اور تشخیصِ مرض)



بیمار معاشرہ  اور تشخیصِ مرض

خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور استحصال کا موضوع ہمیشہ زیر بحث رہا ہے اور اس وقت یہ metoo# کی تحریک مزید حساس موضوع بن چکا ہے. جس پر کھل کر گفتگو ہو رہی ہے. جب کہ آزادی نسواں کے پر فریب نعروں سے نسواں تک پہنچنے کی آزادی نے نت نئے مسائل پیدا کر رکھا ہے. اس پر کوئی گفتگو نہیں ہو رہی ہے. خواتین کی جانب سے دعوت نظارہ دینے والے غیر ساتر لباس اور مردوں کو رجھانے والی اداؤں پر کچھ نہیں کہا جا رہا ہے. مرد و زن کے متعینہ حقوق ہیں تو کچھ ان کے واجبات بھی ہیں جنھیں نظر انداز کیا جا رہا ہے.

اسی طرح قدرتی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، اختلاط مرد و زن، لیو ان ریلیش شپ اور اب ایڈلٹری (497) وغیرہ سے معاشرہ پر اس کے منفی اثرات پڑے ہیں اور پڑیں گے، جس سے نہ صرف عورتیں متاثر ہوتی ہیں بلکہ مرد بھی متاثر ہوتا ہے؟

ایسے میں اسلام کا نقطہ نظر واضح طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں ان تمام مسائل کا حل موجود ہے.اس لیے اسلامی تعلیمات کو عام کرنا بہت ضروری ہے.

پرامن اور خوشگوار زندگی گزارنے کا خدائی نظام ۔ اسلام

اسلام انسانوں کے لیے رحمت ہے۔ زندگی کے تمام گوشوں کے بارے میں اسلام کے قوانین حکمت سے خالی نہیں ہیں۔ وہ انسان کی ضرورت اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ مثلاً قصاص کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

’’ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘(البقرۃ: 1799) بہ ظاہر اس میں ایک انسان کے خون کے بدلے دوسرے انسان کا خون کیا جاتاہے۔ مگر اس میں حکمت یہ ہے کہ دوسرے لوگ کسی کو ناحق قتل کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔ اسی طرح زنا کرنے والے کو، اگر وہ غیر شادی شدہ ہے خواہ مرد ہو یا عورت، سرعام سوکوڑے مارنے کا حکم دیاگیا ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ کوئی شخص زنا کے قریب بھی نہ جاسکے۔ عوتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ ان کی عزت و آبرو کی حفاظت ہو۔ نکاح کو آسان بنانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ زنا عام نہ ہو اور معاشرے کو تباہی اور انسانوں کو مہلک امراض سے بچایا جاسکے۔ اس لیے وہ انسانوں کو پہلے اخلاقی تعلیم سے آراستہ کرتا ہے۔

اسلام کی اخلاقی تعلیمات
اسلام انسانوں کومعاشرتی زندگی تباہ وبرباد کرنے والی چیزوں مثلاً ظلم وزیادتی، قتل و غارت گری، بدکاری و بداخلاقی، چوری وزناکاری وغیرہ سے بازرہنے کی تلقین کرتاہے اورانھیں اپنے مالک اورپیدا کرنے والے کا خوف دلا کر ان کے دل کی کجی کودرست کرتاہے۔ آج معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ، فریب اور جعل سازی وغیرہ کی جو بیماریاں عام ہوگئی ہیں، صرف اسلامی تعلیمات کے ذریعہ ان تمام مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔

جس طرح ہمیں اپنی بہوبیٹیوں کی عزت پیاری ہے اسی طرح دوسروں کی عزت وناموس کاخیال رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آزادی کے نام پر جس طرح خواتین کھلونے کی مانند استعمال کی جارہی ہیں، گھراورحجاب کو قید سمجھنے والی خواتین کس آسانی کے ساتھ ظلم وزیادتی کا شکار ہورہی ہیں، یہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔ اس لیے اسلام نے خواتین کوایسی آزادی نہیں دی ہے جس سے وہ غیرمحفوظ ہوں اورنیم برہنہ لباس پہن کر لوگوں کے لیے سامان تفریح یا ان کی نظربد کا شکار ہوجائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی اسلامی احکام کو اپنے لیے قید سمجھ کر اس سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی وہ دنیا کی بد ترین اور ذلت آمیز بیڑیوں میں جکڑ کر قید کرلیا گیا ہے۔

یہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ کائنات کے خالق و مالک اور احکم الحاکمین کا بنایا ہوا قانون ہے۔ اس لیے ا س میں کسی کو ترمیم کی اجازت نہیں ہے۔ اس میں کمی یا زیادتی کرنا اللہ کے ساتھ بغاوت ہے۔ یہ بغاوت پورے سماج کو تباہ و برباد کردتی ہے۔ یہی مسلمان کا عقیدہ ہے۔ جسے معمولی عقل و شعور رکھنے والا ہر فرد بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔

خواتین کے لیے ہدایات
اسلام نے خواتین کو علیحدہ طوربہت سی باتوں کا حکم دیا ہے اوربہت سی چیزوںسے روکاہے۔ مثلاً انھیں اپنے بناؤ سنگارکو دکھانے کے بجائے اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اورپردہ کرنے کولازم قراردیا :
اور اے نبی ﷺ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوںکی حفاظ کریں، اوراپنا بناؤ سنگھارنہ دکھائیں بجزاس کے جوخود ظاہر ہوجائے، اوراپنے سینوںپر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں (النور:۳۱)

دوسری جگہ اللہ تعالی کافرمان ہے:
’’اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اوراہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلولٹکالیاکریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالی غفور و رحیم ہے۔‘‘ (سورۃ احزاب:۵۹)

اسی طرح غیرضروری طور پر بازاروں میں پھرنے کے بجائے گھروںمیں محفوظ طریقے سے رہنے اور عبادت کرنے کا حکم دیا: ’’اپنے گھروں میں ٹک کررہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوۃ دو، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت نبی ﷺ سے گندگی کودورکرے اورتمھیں پوری طرح پاک کردے۔‘‘ (سورۃ احزاب:
۳۳)

اس کے علاوہ خواتین کا ہروہ طرز عمل جو اجنبی مردوں کو ان کی طرف مائل کرے، یا ان کی جنسی خواہشات کو بھڑکائے،
اسے حرام قراردیاگیاہے۔آپ ؐنے ارشادفرمایا:’’ہر وہ خاتون جو خوشبو لگا کر کسی قوم کے پاس سے گزرے کہ وہ اس کی خوشبولے تو ایسی خاتون بدکار ہے۔ ‘‘(النسائی)


رسول اللہ ﷺنے ایسی خواتین پر سخت ناراضی کا اظہارکرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’دوطرح کے انسان ایسے ہیں جن کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا:ان میں وہ عورتیں ہیں جو لباس پہنے ہوئے بھی ننگی ہیں، لوگوں کی طرف مائل ہونے والی اوراپنی طرف مائل کرنے والی ہیں،ان کے سرکھلے ہونے کی وجہ سے بختی اونٹنیوںکی کہان کی طرح ہے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گی اورنہ ہی اس کی خوشبوپاسکیںگی۔‘‘ (مسلم)

علامہ شیخ عبدالعزیز بن بازؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’یہ تبرج اورسفور اختیارکرنے والی عورتوں کے لیے سخت قسم کی وعیدہے: باریک اور تنگ لباس زیب تن کرنے اور پاکدامنی سے منہ موڑنے والی اور لوگوں کو فحش کاری کی طرف مائل کرنے والی عورتوں کے لیے ۔‘‘

مردوں کوتنبیہ
اسی طرح مردوں کوبھی تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ غیرمحرم (جن سے نکاح ہوسکتاہے) عورتوں کو ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھیں، اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور زنا کے محرکات سے بچیں چہ جائے کہ زنا جیسے بدترین عمل کا شکارہوں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:’’زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی ) ہے۔اور براہی بڑا راستہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل :۳۲)

موجودہ دورمیں بوائے فرنڈاور گرل فرینڈ کا رجحان عام ہوگیا ہے، اختلاط مرد و زن، لیو ان ریلیش شپ اور اب ایڈلٹری (497) وغیرہ نے معاشرہ کو مزید متاثرہ کیا ہے۔ اسلام اس رشتے کو نہ صرف غلط قراردیتاہے بلکہ اجنبی خواتین سے میل جول اور غیرضروری گفتگو سے بھی بچنے کی تاکید کرتا ہے، کیوںکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کو بدکاری اورفحاشی تک پہنچادیتے ہیں۔نبی رحمت نے اپنی امت کو اس سے روکا ہے: عورتوں(غیرمحرم)کے پاس جانے سے بچو۔ (بخاری)

اگرکوئی ناگزیرضرورت ہو یاکسی اجنبی عورت سے کچھ دریافت کرنا ہوتو پردے کے ذریعے ہی ممکن ہے، قرآن کہتاہے: اگر تمہیں کچھ مانگنا ہوتوپردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اوران کے دلوںکی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ (احزاب:
۵۳)


اسلام جرائم کو بالکل جڑسے اکھاڑنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ انسانوں کو زیوراخلاق وکردارسے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ کاش دنیا والے انسانوں کو اسلامی تعلیمات سے ڈرانے کے بجائے اس کی تعلیمات کوسماج میں نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہوتے۔اگروہ ایسا کرتے توان کی زندگی سکون واطمینان سے گزرتی اورہمارا معاشرہ صحت مندہوکر امن وامان کا گہوارہ ہوتا۔
ll
محب اللہ قاسمی

Tuesday 9 October 2018

Delhi Yadgargar Shaam


دہلی کی یادگار شام

نماز اور ظہرانے کے لیے آفس سے باہر آیا پھر نماز ظہر اور کھانے سے فارغ ہو کر قیلولہ کے لیے لیٹا تو نیند آ گئی دفتر تین بجے جانا تھا اسی دوران میرے گاؤں کے پیارے دوست جی این کے اسکالر حبیب اللہ کا فون آیا کہ میں، ابوالکلام، صادق اقبال اور ذاکر اقبال کو لے کر آ رہا ہوں. پانچ بجے تک پہنچ جاؤں گا.. میں نے کہا: ہاں ہاں آؤ!

پھر میں دفتر جانے کی تیاری میں لگ گیا کہ اب سونا بے کار تھا. خیر سب لوگ آئے مگر ساڑھے پانچ بجے. سب نے چائے پی پھر سب کو لے میں اپنے کمرے میں چلایا آیا. کچھ دیر وہیں گفتگو کی.اسی دوران احمد عالم سے فون پر بات ہوئی اس نے کہا: آپ سب لوگ میرے یہاں ذاکر نگر آئیے. یہاں احمد اللہ (پرنس) بھی ہے سب کی ملاقات ہو جائے گی.

خیر ہم سب لوگ ذاکر نگر چلے گئے. وہاں پہنچے ہی تھے کہ معلوم ہوا لو فیکلٹی ڈی یو کے آصف اقبال آ رہے ہیں. حسن اتفاق دیکھتے ہی دیکھتے ہم سب گاؤں کے آٹھ لوگ جمع ہو گئے. سب لوگوں کا اس طرح اتفاقاً ملنا جس پر خوشی کے فطری آثار سب کے چہرے سے ظاہر ہو رہے تھے.

ہم لوگوں نے خوب گپ شپ کیا. فاطمہ چک اسمبلی کی یاد تازہ ہو گئی. مختلف موضوعات جس پر مختلف آراء، کھل کر اظہار خیال بڑا مزہ آیا.مصروف زندگی میں اس طرح اپنوں کے درمیان تبادلہ خیال سے جمود توڑنے، زندگی زندہ دلی سے جینے اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ ملتا ہے.

خیر عشا کی نماز بعد اجتماعی عشائیہ کا پروگرام ہوا جس میں فراخ دلی کے ساتھ مہمان نوازی کا شرف احمد عالم صاحب کو حاصل ہوا.احمد اللہ صاحب کی طرف سے یہ بات بار بار آئی کہ اس طرح کی ملاقات اتفاقی نہیں منصوبہ بند بھی ہونی چاہیے جس کی ہم سب نے تائید کی.

راقم الحروف کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ہم سب گاؤ والوں کے بھلے ہی مکان علیحدہ ہوں، الگ رہتے ہیں مگر ہم سب گاؤں والے گویا ایک گھر کے فیملی ممبر ہیں، جو سب آپس میں سکھ دکھ کے ساتھی ہیں.

معقول عشائیہ کے بعد ہم لوگوں نے کلہڑ (مٹی کا گلاس) والی چائے پی اور سلام کے ساتھ بادل نہ خواستہ جدا ہو کر ان خوشگوار یادوں کے ساتھ اپنی منزل کی اور چل پڑے.

یہ خوبصورت شام فاطمہ چک کے نوجوانوں کے نام تھی جو راجدھانی دہلی جیسے مصروف شہر میں ملاقات، گفت و شنید کے لیے اتفاقا جمع ہوئے.
محب اللہ قاسمی

Khabib 🆚 McGregor (world champion)


میرے ساتھ اللہ ہی کافی ہے۔فاتح فائٹر خبیب

ہرمسلمان کے لیے اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔ اس لیے وہ  اپنی زندگی کو اپنے رسول ﷺ کے فرمان کے مطابق اور انھیں اپنا آئیڈیل مان کر گزارنے کو نہ صرف عقیدت و محبت سے تعبیر کرتا ہے بلکہ اسی میں اپنی کام یابی بھی تصور کرتاہے۔

سیرت رسولﷺ کے حوالے سے یہ واقعہ بہت معروف ہے کہ  ایک موقع سے جب آپ ؐ کسی غزوہ میں شریک ہوئے، تو راستے میں ایک درخت پہ اپنی تلوار لٹکا کر اس کے سایے میں لیٹ گئے۔ تبھی ایک دشمن آیا اور آپ کی تلوار لے کر کہنے لگا: ’’ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟‘‘جواب میں آپ ؐ نے فرمایا :اللہ! یہ سنتے ہی تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور آپ نے تلوار اپنے قبضے میں لیا ۔اسی طرح مصارعت رکانہ کا واقعہ بھی کافی مشہور ہے جب ایک معروف پہلوان نے آپ کو کشتی لڑنے کی دعوت دے اور خود کو ماہراور تجربہ کار پہلوان مانتے ہوئے مقابلہ میں آپ کو شسکت دینے کی بات کی۔ سیرت کے اوراق گواہ ہے کہ آپ نے اسے تین بار پچھاڑا اور چت کردیا۔

ایسے ہی گزشتہ روز امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں UFC کے تحت مکے بازی کا خطر ناک مقابلہ ایک جاں باز مسلم فائٹر خبیب عبداللہ مینوپووچ نورماگدوف اور دنیا کے خونخوار ،خطرناک ترین مارشل آرٹسٹ کونر میگریگرکے ساتھ ہوا۔ میگریگر ایک معروف اور میدان فتح کرلینے والا خطرناک فائٹر تھا، مگر اسی قدر وہ ایک بد تمیز ،شریر اور مذہب اسلام کو حقیر سمجھنے والا نامعقول شخص بھی تھا۔ 

اگر خبیب کی ویڈیو، جو نیٹ پر دست یاب ہے، دیکھی جائے تو یقین ہو جائے گا کہ اسے مسلمان سے کتنی نفرت تھی اور وہ کس طرح خبیب کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آتا تھا اور اسے اس کے مذہب کو لے کر پریشان کرتا تھا اور اسے شراب پینے کے لیے پیش کرتا خبیب اسے حرام کہہ کر نکار دیتا تھا۔ وہ طاقت کے نشے میں چورخبیب کو حقارت آمیز انداز میں کہتا تھا کہ تم مجھ سے کسی صورت میں مقابلہ جیت نہیں سکتے۔ اگر تم میرے سامنے میدان میں آئے تو میں تمہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح مسل کر رکھ دوں گا ۔ تمہارا جان بچانا مشکل ہو جائے گا،جس پر خبیب صرف یہی کہتا تھا کہ میرے ساتھ میرا اللہ ہے ۔ میرے لیے یہی کافی ہے۔

ایسے میں یہ مقابلہ دنیا کا انوکھا مقابلہ بن گیا، جس پر عالم اسلام کی نگاہیں جمی ہوئی تھی۔ مقابلے کے وقت سب کے دل دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں کیوں کہ وہ اپنے فائٹر خبیب کو بہ ہر صورت اس مقابلے کا فاتح دیکھنا چاہتے تھے اور اس کے لیے دعائیں کر رہے تھے۔مقابلہ شروع ہوتے خبیب نے اسے پیٹا ،  اس پر خوب پنچ برسائے اور چوتھے راؤنڈ میں  اس کی گردن اس قدر دبوچی کہ اس خونخوار اور کبھی نہ ہارنے والےمیگریگرنے فوراً ہار تسلیم کرلی ۔

اس میچ کے ناظرین نے اس حیران کن مقابلہ اور گریگر کی ناقابل یقین شکست پر ایک مسلم بہادر کی تاریخی فتح  اور اس کے بعد خبیب کے انٹرویو کو دیکھ کر یقیناً بہت کچھ سبق حاصل کیا ہوگا اور مسلمانوں کا ایک بار پھر یہ احساس جاگا ہوگا کہ اسے اپنے سامنے رسولؐ کو اپنا آئڈیل مان کر وہی طریقہ اختیار کرنا چاہے جو دنیا کے ہر میدان میں ایک مسلمان کا ہونا چاہیے۔ہم سب خبیب کی اس کام یابی پر انھیں مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔
محب اللہ قاسمی

Saturday 21 January 2017

Bihar Men Sharab Bandi

بہار میں شراب بندی 

آج پورے بہار میں شراب بندی اور اس کے تئیں بیداری پیدا کرنے کے لیے جلوس نکالے جا رہے ہیں... شراب بندی کا فیصلہ انسانیت کے حق میں بڑا فیصلہ ہے...شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے. اسلام نے اسی لئے اسے حرام قرار دیا تاکہ انسانیت اس کے نقصانات سے بچ کر چین و سکون کی زندگی بسر کر سکے.
یہ حکم جس ریاست میں نافذ ہوگا وہاں کے لوگ امن و امان میں رہیں گے... جو خوشحالی کے لئے بے حد ضروری ہے.
 محب اللہ قاسمی
आज पूरे बिहार में शराबबंदी और उसके प्रति जागरूकता पैदा करने के लिए मानव श्रंखला का आयूजन किया जा रहा हैं ... शराबबंदी का फैसला मानवता के हित में बड़ा फैसला है ... इस्लाम ने इसी लिए इसे हराम करार दिया ताकि मानवता इसके नुकसान से बचकर शांति का जीवन व्यतीत कर सके।
यह शराबबंदी का आदेश जिस राज्य में लागू होगा वहां के लोग अमन शांति से रहेंगे ... जो समाज की तरक्क़ी और ख़ुशहाली के लिए बेहद जरूरी है।
 मोहिबुल्लाह कासमी

Sunday 15 May 2016

INTRODUCTION Book: ( Personality Development In light of Islam ) ''شخصیت کی تعمیر- اسلام کی روشنی تبصرہ

INTRODUCTION Book: ( Personality Development In light of Islam ) ''شخصیت کی تعمیر- اسلام کی روشنی تبصرہ

INTRODUCTION My Book ''Shakhsiyat ki Tameer Islam ki Raoshni Men'

باسمہ تعالیٰ

نام کتاب : شخصیت کی تعمیر- اسلام کی روشنی

مؤلف : جناب مولانا محب اللہ قاسمی

ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی۔۲۵
MARKAZI MAKTABA ISLAMI PUBLISHERS
D-307, Dawat Nagar, Abul Fazl Enclave, 
Jamia Nagar, New Delhi-110025
Phone: 91-11-26981652, 26984347
صفحات:  ۱۳۴ قیمت:  ۷۵ روپے
تبصرہ نگار: اشتیاق احمد قاسمی،استاذ دارالعلوم دیوبند

     اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اس کی ہدایت و رہنمائی کے ذرائع پیدا فرمائے۔ ایک تو انبیائے کرام کو مبعوث فرمایا۔ دوسرے ان کے ساتھ ہدایت نامہ عنایت فرمایا، واسطہ حضرت جبرائیل کا بنایا، انبیائے کرام کی صحیح تعداد صحیح رویات میں مروی نہیں، اسی طرح سے ہدایت ناموں(صحائف) کی تعداد بھی متعین نہیں۔ گویا بے شمار انبیائے کرام کو بے شمار صحائف عنایت فرمائے، تاکہ ان کی روشنی میں اپنی اپنی امت کو صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائیں۔ بڑی بڑی کتابیں چار بڑے بڑے پیغمبران پر نازل فرمائیں، غرص یہ کہ اللہ تعالی نے کتاب اللہ کے ساتھ رجال اللہ کا سلسلہ قائم فرمایا، رجال اللہ کا سلسلہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا اور کتاب اللہ کا سلسلہ قرآن پاک پر مکمل ہوگیا، اب قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت ، و رہنمائی کے لیے آیات قرآنی اور احادیث نبویؐ کافی ہیں، انھیں سے شخصیت کی تعمیر ہوگی اور ہوتی رہے گی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ اس موضوع کی محنت ،تقریر و تحریر دونوں گوشوں سے اہل علم کرتے رہے ہیں۔

ابھی میرے سامنے جناب محب اللہ قاسمی صاحب کی کتاب ہے۔ موصوف نے ہدایت انسانی کے لیے اس کی تصنیف کی ہے، مختلف موقعوں سے اخبارورسائل میں تذکیری مضامین لکھے ہیں، اس میں ایمانیات اور اخلاقیات سے متعلق اسلامی تعلیمات پر خامہ فرسائی کی ہے ۔ یہ کتاب ان ہی مضامین کا مجموعہ ہے۔پوری کتاب پر نظر ڈالنے کے بعد بڑی خوشی ہوئی کہ نوخیزقلم کار نے اپنے سوز دروں کو نہایت ہی سلیقے سے سپرد قرطاس کیا ہے، ان کو پڑھ کر قارئین متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔بہترین انسان بننے کے لیے کیا کیا کرنا چاہیے اور کن کن بہیمی صفات کو اپنا کر انسان بدترین بن جاتا ہے ، تخلیہ اور تحلیہ کی اصطلاح کو ذکر کیے بغیر مصنف نے اس موضوع کو تمام قارئین کے لیے بالکل آسان زبان میں لکھا ہے، زبان رواں دواں اور اسلوب متانت آمیز ہے۔

تصوف اور احسان کے موضوع کو تزکیہ ٔ نفس کے عنوان سے لکھا ہے، زندگی میں انقلاب صرف کتاب سے نہیں برپا ہوتا ہے، اس کے لیے صحبت صالحین بھی اسی قدر ضروری اور لازمی ہے۔ مذکورہ کتاب میں اس پہلو پر خاطر خواہ نہیں لکھا گیا۔ صفحہ نمبر ۴۴پر تھوڑا سا مواد ہے، مگر جس موضوع پر کتاب ہے ، اس میں اتنی مقدار کافی نہیں ہے۔ضروری تھا کہ اس کی حیرت انگیز انقلابی تاثیر پر بھی مواد اکٹھا فرما کر قارئین کو محظوظ کرتے ۔

اللہ تعالی موصوف کی محنت کو قبول فرمائے اور زبان و قلم سے دین حنیف کی خدمت کی توفیق بخشے۔کتاب کتابت ، طباعت، ٹائٹل اور زبان و بیان کے لحاظ عمدہ اور قابل قدر ہے۔ امید ہے کہ قارئین کی بارگاہ میں محبوبیت کا شرف حاصل کرے گی۔ و باللہ التوفیق!

Wednesday 4 May 2016

ظلم سے نفرت عدل سے محبت Hate evil, love justice

ظلم سے نفرت عدل سے محبت
                                                                      محب اللہ قاسمی
اس وقت دنیا کے حالات بہت ہی خراب ہیں۔ ایک طرف فرقہ پرستی کا بازار گرم ہے تو دوسری طرف عیش و عشرت میں ڈوبی قیادت جسے انسانوں کے امن وامان اور فلاح و بہبود کی کوئی فکر نہیں۔ جس کے نتیجہ میں ایسا ماحول بناہوا ہے کہ ظلم کوظلم نہیں سمجھاجاتا۔ عدل و انصاف کا فقدان ہے۔ انسانیت اور ہمدردی گویا ختم ہوتی جارہی ہے۔ دن دھاڑے بستیاں جلادی جارہی ہیں۔ عام شہریوں پر بم برسائے جارہےہیں۔ جیسے وہ انسان نہیں بلکہ کیڑے مکوڑے ہیں جن پر اسپرے کرکے بڑی بے رحمی سے انھیں دائمی نیند سلایا جارہاہو۔ عبادت گاہیں منہدم کرکے ان پر قبضہ جمالیاجاتا ہے۔ بے قصورلوگوں کو ملزم بنا کر قید کیا جارہاہے، پھرانھیں ناکردہ جرم کی پاداش میں انسانیت سوزتکالیف کا سامناکرنا پڑتاہے، انصاف کی عدالت سے جب تک بے گناہ ہونے کا فیصلہ صادر ہوتا تب تک ان میں سے کچھ انسان تو اپنی زندگی کی آدھی عمراندھیری کوٹھری میں بتاچکے ہوتے ہیں جب کہ کچھ انصاف کی امید میں اس جہاں کو الوداع کہہ کردنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
مگر نہ عدالت پوچھتی ہے کہ ان بے قصوروں پر جھوٹا الزام لگا کر اتنے عرصے تک جیل میں کیوں رکھا گیا اور نہ ان افسران کو اس گھٹیا حرکت پر سزا دی جاتی ہے۔ جب کہ وہ ملزم عدالت سے باعزت رہا ہوکر بھی سماج میں بے عزت اور بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ آخر کیوں ؟
عدالت پر اسی لیے تو بھروسہ کیا جاتا ہے کہ وہاں سے سب کو انصاف ملے گا مگر غور کیا جائے تو کیا یہ انصاف ہے؟

اگر نہیں ! تو ہمیں عدالت سے انصاف واقعی کا مطالبہ کرنا چاہیے ۔ اگر یہ مجرم نہیں ہے تو پھر ان واقعات و فسادات کے پیچھے کوئی تو مجرم ہے پھر اصل مجرم کو کیوں نہیں سامنے لایا جاتا تاکہ واقعی انصاف ہوسکے۔ ساتھ ہی ان قائدین کو جنھوڑنا چاہیے جو ہماری امن و حفاظت اور فلاح بہبود کی قسمیں کھا کر اقتدار کی سیج سجائے سوررہے ہیں۔
اس ظلم کے خلاف اجتماعیت کے ساتھ آواز لگانے کی ضرورت ہے ۔ ایسی آواز جو ہمارے قائدین کو خواب غفلت سے بیدار کرسکے اور ظالمین کو ظلم سے روک سکے اور مضبوط عدلیہ کے ساتھ انصاف کو بلندی حاصل ہواور ظلم کا خاتمہ ہوسکے۔ ورنہ ہم آپس میں ہی اختلاف و انتشار کے شکار رہیںگے جس کی وجہ سے آئے دن اس طرح کے واقعات رونما ہوتے رہیںگے اور یک بعد دیگرے ہم سب ظلم کا نوالہ بن جائیںگے۔
اللہ ہم سب کی حفاظت کرے ظلم سے نفرت اور عدل سے محبت کی توفیق دے۔

Thursday 26 February 2015

AAP se Musalman Khush Magar Maroob Nahin

عآپ کی کامیابی سے مسلمان خوش مرعوب نہیں

روم کے خلاف ایرانیوں کی زبردست فتح پر کفار مکہ خوش ہورہے تھے کہ وہ بھی بت پرست اور فارسی بھی مجوسی ہونے کے سبب آتش پرست تھے۔ جب کہ رومیوں کی شکست کے بعد دوبارہ اس کی فارس پر فتح کی پیشن گوئی پر مسلمانوں کا خوش ہونا مشرکین مکہ کے رد عمل میں تھا کہ رومی بھی اہل کتاب اور مسلمان بھی اہل کتاب تھے۔یہ خوشی اس لیے ہر گز نہ تھی کہ مسلمان رومیوں کی فتح سے مرعوب ہوگئے تھے اوراس خوشی میں مدہوش ہوکر وہ اپنا نصب العین بھول گئے تھے ۔
         واقعہ یوں ہے کہ صحابہ ؓنے عہد رسالت میں جب ایرانیوں کے خلاف رومیوں کی فتح کی پیشن گی خوشخبری قرآنی آیات کے ذریعہ سنی :
         الم ۔ رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہوگئے ہیں، اور اپنی اس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہوجائیں گے۔ اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ اور وہ دن وہ ہوگا جب کہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے۔اللہ نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ زبردست اور رحیم ہے۔ (الروم:۱۔۵)
 حضرت ابوبکر ؓ کفار مکہ کے درمیان مذکورہ آیات بار بار پڑھ کر سناتے تھے۔اس پر مشرکین مکہ نے کہا :” تمہارا نبی کہتا ہے کہ اہل روم چند سالوں کے اندر فارس والوں پر غالب آجائیں گے کےا یہ سچ ہے؟“ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے اس کے جواب میں کہا :” آپ نے سچ فرمایا“۔
         مشرکین مکہ نے کہا :” کیا تم اس پر ہمارے ساتھ شرط لگاتے ہو؟
         چنانچہ سات سال کے ساتھ چار جوان اونٹنیوں پر معاہدہ ہوگیا۔ ( یہ واقعہ شرط لگانے کی حرمت سے قبل کا ہے)
 جب سات سال گزرگیا اور کوئی واقعہ نہیں ہوا تو مشرکین بہت خوش ہوئے ۔ مگر مسلمانوں پر یہ بات شاق گزرنے لگی۔ جب اس بات کا ذکرآپ سے کیا گیا تو آپ نے دریافت کیا: ”تمہارے نزدیک بضع سنین (چند سالوں) سے کیا مراد ہے؟
ابوبکرؓ نے بتایا:” دس سال سے کم مدت ۔ “آپ نے فرمایا:” جاو ان سے مزید دوسال کی مدت کا معاہدہ کرلو۔
          چنانچہ انھوں نے شرط میں اضافے کے ساتھ ان کے درمیان مزید دوسال کی مدت کا معاہدہ طے کرلیا۔ابھی دوسال گزرے بھی نہ تھے کہ روم اور فارس دونوں کی باہم جنگ ہوئی جس میں رومیوں کو غلبہ حاصل ہوا۔اس سے مسلمانوں کی وہ خوشی دوبالا ہوگئی ،جس خوشی کا اظہار وہ چند سال قبل پیشن گوئی پر کر رہے تھے۔
          اس واقعہ کی تفصیل کے بعد مسلمان یقیناموجودہ حالات میں عام آدمی پارٹی کی کامیابی پر خوش ہوگاجس نے ہزاروں بے قصور انسانوں کے قاتل ، ظالم و جابر اور انسان دشمن’ زبر‘ پارٹی کو اس کی پہچان بتا کر ’زیر‘کیاہے۔جس پارٹی نے سنامی جیسی لہر بن کر اس وحشی انسان کے منصوبے پر پانی پھیر دیا،جوانسانیت کو منہ چڑھاتے ہوئے جھوٹی شہرت و مقبولیت کی بلند ی پر پہنچ رہا تھااورعام انسانوں کی جھونپوریوں کو خاکسترکرکے اس پر ظلم و بربریت کی فلک بوس عمارت کھڑی کر رہاتھا۔
         سبھی جانتے ہیں کہ یہ امر اتنا آسان نہ تھا مگر دنیا بھلے لوگوں سے خالی نہیں ہے۔ اچھی سوچ رکھنے والے اور اس پر جان نثار کرکے انسانیت کی بقااور اس کی تحفظات پر مرمٹنے والے لوگ آج بھی موجود ہیں۔ جو جہد مسلسل کے ساتھ اپنے مشن کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے ایڑی چوٹی زور لگادیتے ہیں۔ جس کی مثال اکثر لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔
         یہ الگ بات ہے کہ لوگوں کو تشویش ہے کہ یہ کامیابی ایک وقتی کامیابی تو نہیں جیسا کہ ماضی میں بھی دیکھنے کو ملاتھا۔پھربدعنوانی کو ہر سطح سے اکھاڑپھینکنے والی پارٹی اور ظلم کے خلاف عدل قائم کرنے کا عزم رکھنے والی پارٹی کی کامیابی کا اگلا مرحلہ کیا ہوگا؟ اس کی منصوبہ بندی کیا ہوگی؟ کس حدتک وہ فسطائی قوتوں کو زیر کرنے میں کامیاب ہوگی؟یہ کچھ سوالات ہیں جن کا فی الوقت کوئی جواب قبل ازوقت ہوگا۔
         مگر اتنا تو ہے کہ جس دل میں ذرا سی بھی محبت ، انسان دوستی ہوگی اور وہ انسانوں کی جان کا احترام کریں گے وہ لوگ اب اس صورت حال میں کسی نہ کسی حد تک ظالم کا ساتھ دینے سے کترائیں گے اور اس کی سوچ بدلنے پر مجبور کریں گے کہ انسان کو انسان تسلیم کرتے ہوئے اس کے تحفظ،امن وامان کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے، جس کے لیے ماحول کو سازگار بنایاجاسکے۔اس لحاظ سے اس پارٹی کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے اور اس کے ساتھ اس کے اچھے کاموں میں تعاون بھی کیاجاسکتا ہے جو اسے آئندہ بھی کامیابی سے ہم کنار کری گا۔
         اس لحاظ سے جب بھی ظلم وجابریت پر انسانیت کی جیت ہوگی ۔ مسلمانوں کو یقینا خوشی ہوگی اور یہ خوشی مرعوبیت کی بنا پر نہیں بلکہ اس پارٹی کی نیک تمناوں عوام کی خدمت گزاری اور ایک اچھے مقصد کے لیے عام آدمی سے ربط وتعلق کی بنیاد پر ہے۔ اس  کے عزم وحوصلے کی قدردانی کی بنیادپر ہے جو کام عزم و حوصلہ اور سیاسی بیداری کے ساتھ مسلمانوں کے کرنے کا بھی ہے، جس کے لیے مسلمان اپنے مشن اور نصب العین کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے دینی فریضہ کی ادائیگی بہ حسن و خوبی انجام دیتے رہیں ، تو انشاءاللہ من جد وجد کے تحت وہ بھی اس دنیا میں اپنے مشن میں غالب ہوںگے۔ ساتھ ہی اس پارٹی کو اسلامی تعلیمات سے روشناس بھی کرائی جائے جو دعوتی نقطہ نظر سے بھی بہت اہم ہوگا اور ہم اپنے اس مقصد کے حصول میں بھی بڑی مدد ملے گی ،جو مسلمان کی اصل خوشی کی بات ہوگی۔

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...