Showing posts with label Adab. Show all posts
Showing posts with label Adab. Show all posts

Tuesday 28 December 2021

Har ek baat pe kahte ho tum ke tu keya hai

مجھے تو پسند ہے ہی میرے بیٹے کو بھی چچا غالب کا یہ شعر بہت پسند ہے.
ہر یک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

Monday 9 August 2021

Ham Keun hain Pareshan Kabhi Ghaur Kiya hai


ہم کیوں ہیں پریشان کبھی غور کیا ہے
پڑھتے نہیں قرآن کبھی غور کیا ہے؟

جینے کا ہر انداز ہے ایمان سے عاری
کیا باقی ہے ایمان؟ کبھی غور کیا ہے؟

حالات سے گھبرا کے بکھرنا نہیں اچھا
تھمتا بھی ہے طوفان کبھی غور کیا ہے؟

تم شکر کرو اس کا ادا، دے گا وہ بے حد
کہتا ہے یہ رحمان، کبھی غور کیا ہے؟

فانی ہے جہاں اور حیات اس کی ہے فانی
پھر کیسا ہے ارمان کبھی غور کیا ہے؟

اعمال میں غفلت بھی ہے جنت کی طلب بھی
خوابیدہ مسلمان! کبھی غور کیا ہے؟

ہو ساتھ رفیق اپنے جو عشق شہِ بطحا
پھر زیست ہو آسان کبھی غور کیا ہے؟

محب اللہ رفیق قاسمی

Saturday 9 January 2021

Allama Iqbal Ka Paighaam Insaniyat ke Naam by Dr Mohd Rafat



ڈاکٹر محمد رفعت صاحب اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے آپ مختلف النوع صلاحیتوں کے مالک تھے۔ 
اسی لیے کسی بھی موضوع پر اظہار خیال کرنا آپ کے لیے مشکل نہ تھا۔  علامہ اقبال کا پیغام اس عنوان سے آپ نے بہت شاندار گفتگو کی ہے . آپ نے کہا کہ علامہ کا پیغام انسانی کی آزادی کا پیغام ہے کہ انسان خدا کا غلام ہو کسی انسان کا غلام نہ ہو۔
یہ آپ کے کثرت مطالعہ اور قوت حافظہ کی بات تھی۔  آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

Thursday 27 August 2020

Na Badla hai na Badlega mera Muslim Personal Law

مسلم پرسنل لا


ہر اک مومن کے دل کی ہے سدا مسلم پرسنل لا
نہ بدلا ہے نہ بدلے گا مرا مسلم پرسنل  لا
نہ بدلا ہے نہ بدلے گا مرا مسلم پرسنل  لا

بہت قوت سے رکھو تھام کر اسلام کا پرچم
چلو رب کی شریعت پرزمانہ ہو بھلے برہم
یہی قانون قدرت ہے یہی آقا کی چاہت بھی
اسی رہ پر تمہیں چل کر ملے گی کل کو جنت بھی


ہر اک مومن کے دل کی ہے سدا مسلم پرسنل لا
نہ بدلا ہے نہ بدلے گا مرا مسلم پرسنل  لا
نہ بدلا ہے نہ بدلے گا مرا مسلم پرسنل  لا


طلب عہدے کی ہے ہم کو نہ چاہت ہے  حکومت کی
ہمیں تو فکر ہے ہر حال بس اپنے شریعت کی
تم یکساں حکم نافذ کرنہیں سکتے ہو بھارت میں
لٹا دیں گے ہم اپنی جان بھی راہ شریعت میں


ہر اک مومن کے دل کی ہے سدا مسلم پرسنل لا
نہ بدلا ہے نہ بدلے گا مرا مسلم پرسنل  لا
نہ بدلا ہے نہ بدلے گا مرا مسلم پرسنل  لا


ہمارے عائلی قانون کوآسان رہنے دو
ہمارے ہاتھ میں قرآن ہے قرآن رہنے دو
شرافت سے رہو ورنہ بہت پچتاؤگے تم بھی
پریشاں ہم اگر ہوں گے سکوں نہ پاؤگے تم بھی


ہر اک مومن کے دل کی ہے سدا مسلم پرسنل لا
نہ بدلا ہے نہ بدلے گا مرا مسلم پرسنل  لا
نہ بدلا ہے نہ بدلے گا مرا مسلم پرسنل  لا


دلوں  میں جن کے رہتا ہے ہمیشہ نور ایمانی
ہے ان کی جان پرراہ شریعت کی نگہبانی
ہمارے حق میں یا تو فیصلہ تحریر سے ہوگا
نہیں تو فیصلہ اسلام کی شمشیرسے  ہوگا


ہر اک مومن کے دل کی ہے سدا مسلم پرسنل لا
نہ بدلا ہے نہ بدلے گا مرا مسلم پرسنل  لا
نہ بدلا ہے نہ بدلے گا مرا مسلم پرسنل  لا


شعور زندگی جس نے  زمانے کو سکھایا ہے
سبق ہم نے اسی مسلم پرسنل لا سے پایا ہے
مخالف لاکھ ہوجائے وہ کچھ بھی کر نہیں سکتے
جو ہم میداں میں آجائیں کسی سے ڈر نہیں سکتے


ہر اک مومن کے دل کی ہے سدا مسلم پرسنل لا
نہ بدلا ہے نہ بدلے گا مرا مسلم پرسنل  لا
نہ بدلا ہے نہ بدلے گا مرا مسلم پرسنل  لا
  (شاعر نامعلوم)












Saturday 16 May 2020

Shabe Qadar by Qari Siddique Ahmad Bandwi





نظم:شب قدر
کلام: قاری صدیق احمد باندویؒ
آواز: محب اللہ رفیق قاسمی
بہت پیاری نظم ہے آپ بھی سماعت کریں۔

Saturday 3 February 2018

Khushi aur Gham

خوشی اور غم
احساس ہی انسان کو خوشی اور غم میں مبتلا کرتا ہے، جس کا تعلق دل سے ہے اگر انسان دل کو تقدیر پر راضی رکھ کر (جس کا فیصلہ اللہ تعالٰی کے ہاتھ میں ہے) اپنا حسن عمل جاری رکھے تو وہ اپنی زندگی زندہ دلی کے ساتھ جی لے گا اور غم کی حالت میں بھی خوشی کا پہلو تلاش کر لے گا. 

بہ صورت دیگر انسان بے جا فکر میں مبتلا ہو کر ہمیشہ غم و یاس کا شکار رہے گا اور اپنی جھوٹی خوشی کی تلاش میں اچھے برے کی تمیز کھو دے گا. پھر وہ طے نہیں کر پائے گا کہ خوش ہو یا غمگین!
محب اللہ قاسمی      

Friday 26 May 2017

Tameeri Adab aur Adeeb


تعمیری ادب اور ادیب
                                                    محمد محب اللہ

ادب معاشرے کا آئینہ دارہوتا ہے۔ ہر چیز کی طرح اس میں بھی عمل اور ردعمل کابھرپورعنصر موجود ہوتاہے۔اسے صحیح رخ دیا گیا تو پھر یہی معاشرے کی تعمیر اور اس کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکتاہے۔ جیسا کہ ادب کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے انسانوں کو باکردار بنایا اور معاشرے کو عروج بخشاہے، یہی ادب جب غلط رخ چلا تو اس سے نہ صرف سماج میں فساد و بگاڑ پیدا ہوا بلکہ معاشرہ اس کی خرابیوں سے تعفن زدہ ہوگیا ۔چکاچوندکردینے والی دنیاکی چمک دمک اورنمود و نمائش کی مدح سرائی نے  لوگوں کو مادہ پست اور اخلاقی اقدارسے عاری اور پستہ قدبنادیا۔ اپنے خوبصورت الفاظ و انداز کے پیرائے میں بنت حوا کی عزت و آبروپر وار کیا ، پھر مردو زن کے مساوات کا نعرہ دے کرانھیں سرعام بے آبرو کیا۔

       اس غلط رخ پر گامزن بے ادب بہ الفاظ دیگر ناجائز ادب نے تحریروں و تقریروں اور تمام اصناف ادب کو بے ادب کررکھا ہے۔اسے صحیح رخ پر لانے اورادب کو باادب بنانے کی کوشش کو اسلامی ادب کا نام دیا جارہاہے۔جب کہ ادب کو اسلامی اور غیراسلامی ادب کہنے کے بجائے  ادب کو اس صحیح رخ پر لانے کی ضرورت ہے جو اس کا معنی اور مفہوم ہے۔ ادیبوں اورادبی فلسفیوں نے ادب کی جو تعریفیں کی ہیں ،وہ پیش کی جارہی ہیں تاکہ اس کا صحیح مفہوم واضح ہو:

ادب عربی زبان کا لفظ ہے جومختلف اقسام کے معنی اور مفاہیم کا حامل ہے۔ بعثت رسول سے قبل یہ عرب میں لفظ ضیافت اور مہمانی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ بعد میں ایک اور مفہوم شامل ہوا جسے ہم مجموعی لحاظ سے شائستگی کہہ سکتے ہیں۔ عربوں کے نزدیک مہمان نوازی لازمہ شرافت سمجھی جاتی ہے، چنانچہ شائستگی ، سلیقہ اور حسن سلوک بھی ادب کے معنوں میں داخل ہوئے۔اسلام سے قبل خوش بیانی کو اعلیٰ ادب کہا جاتا تھا۔ گھلاوٹ ، گداز ، نرمی اور شائستگی یہ سب چیزیں ادب کا جزو بن گئیں ۔‘‘  (وکی پیڈیا ، زمرہ’’ادب‘‘)۔

کارڈ ڈینل نیومین کہتا ہے:
’’انسانی افکار ، خیالات اور احساسات کا اظہار زبان اور الفاظ کے ذریعے ادب کہلاتا ہے۔‘‘
  )وکی پیڈیا ، زمرہ’’ادب(‘’

       نارمن جودک کہتا ہے :
’’ادب مراد ہے ان تمام سرمایہ خیالات و احساسات سے جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔‘‘   (وکی پیڈیا ، زمرہ ادب(

 مولانا مودودیؒ اس کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’علمی لحاظ سے ادب کی تعریف اور ادیبوں اور فلسفیوں نے چاہے کچھ بھی کی ہو ، لیکن میرے ذہن میں ادب کا تصور یہ ہے کہ وہ حسن کلام اور تاثیرکلام کا نام ہے، جوچیز ادب کو عام انسانی گفتگوؤں اور تقریروں سے ممیز کرتی ہے وہ کلام کا حسن اور تاثیر ہے۔ جب انسان اپنی بات کو خوبصورت طریقے سے ادا کرتا ہے اور اتنے مؤثر طریقے سے ادا کرتا ہے کہ سننے والا اثرقبول کرے اور جو کچھ بات کرنے والا چاہتا ہے وہ اثر ڈال سکے ، اس نوعیت کے کلام کو ہم ادب کہتے ہیں۔‘‘(اسلامی ادب،ص:۱)

ادب اگر اپنے صحیح معنوں میں استعمال ہو تو وہ افکار وخیالات جو انسان میں شائستگی اور سلیقہ مندی پیدا کریں، جن کا اظہار نہ صرف انسانوں کی خوشی ومسرت کا باعث ہو اور انھیں قہقہوں میں ڈبوئے بلکہ انسانی اخلاق و کردار کے معیار کو بلند بھی کرے ۔ انسانوں کے خود ساختہ نظام زندگی کا بھرپور جائزہ لے ، اسے ایک ایسے نظام زندگی سے روشناس کرائے جو خوبصورت اور مؤثر انداز میں انسانی زندگی کے تمام مسائل کا قابل عمل حل بھی پیش کرے ۔یہ ادب کا خاصہ ہوگا۔

اس لحاظ سے ادب اور سماج کا رشتہ بہت گہرا ہے اور وہ بھی اسی بنیاد پر ہے کہ دونوں اپنی بہتری اور کمال کے لیے ایک دوسرے کے معاون ہوں اگر ان میں سے کوئی ایک درست ہو تو دوسرے کو بہتر بنانے میںاس کا اہم کردار ہوتاہے۔ اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ ادب کو بادب بنائے رکھنے میں معاشرے کی تعمیر ہے ورنہ یہ ادب بے ادبی کے سبب معاشرے کو پراگندہ کرسکتاہے۔اسی وجہ سے ادبا حضرات نے معاشرے کوبنانے ،سنوارنے اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے بڑی کوششیں کیں ہیں۔

اگر ہم اپنے وطن ہندوستان کے تناظر میں صرف اردوادب کا جائزہ لیں جو تمام نشیب وفراز کا سفر کرتے ہوئے آج اس مقام پر پہنچا ہے، جہاں ذرائع ابلاغ اور ترسیل کے وسائل بہت عام ہوگئے ہیں۔ تو ہم محسوس کریں گے کہ  ادب کاخواہ وہ قدیم دور رہا ہو جس وقت ابلاغ و ترسیل کا دائرہ بہت محدود تھا ، مگر مال و اسباب سے لیث اور سونے کی چڑیا کہاجانے والا ہمارا وطن مدمست اور مگن تھا، جس کے سبب زیب و زینت، آرائش و آشائش کے اسباب کی فراوانی نے لوگوں کو مست کررکھا تھا۔ اس وقت ادب بھی اپنے دھن میں مگن اور خوشیوں کے گیت غزلوں اور نغموں میں چور ہوگیاتھا۔ راجا، مہاراجا کے فراخ دلی کے قصے بھی اپنے دامن میں لیے ہوا تھا تو وہیں ،گھرس اور بنیوں کے سودبیاج کے گھن چکر میں پھنسے غریبوں اور کسانوں کی بد حالی کی داستان بھی بیان کررہاتھا۔

اسی طرح ادب نے اس وطن عزیز کو جس کے گہوارے میں وہ کھیل رہا تھا جب انگریزوں کے ہاتھ غلام بنالیا گیا اوراور لوگوں نے ناکامی و نامرادی، ہر آن بے بسی و بے کسی کا پہرہ پایا ، اس دور میں بھی ادب نے لوگوں کے اندرجذبہ ،ہمت اور مشکلات سے ٹکراجانے کا جنون پیدا کیا اور ’انقلاب زندہ باد‘ جیسے دشمنوں کو للکار نے والے نعرے دیے۔حب الوطنی کے گیت نے لوگوں کو وطن سے ایسا جوڑدیا کہ وہ اسے اپنی جان سے عزیز ماننے لگے اور اس وطن عزیز کو غلامی کی بیڑیوں سے آزاد کرنے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی۔

جب کسی طرح وطن آزاد ہوگیا ،مگرملک کومختلف چیلنجزکا سامنا ہوا، منافرت کی بیج جو دشمنوں نے بوئے تھے، وہ پودا اب تناور ہوکر اپنے شاخین پھیلانے لگا۔ لوگ سب کچھ کھودینے کے بعد بھی آزاد ہند میں غلامی کی زندگی جی نے پر مجبور تھے ، ان مسائل سے ابھر نا بھی جنگ آزادی سے کم نہ تھا۔اس وقت بھی ادب نے سماج کو جوڑکر اسے ایسی قوت بخشی جس نے اس کشمکش کو دور کرنے اور مشرقی تہذیب و کلچر کے فروغ کے ساتھ ساتھ ظلم و ستم مٹانے اور انسانی اخلاقی اقدار کی بحالی میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی اور اپنی کوشش جاری رکھی۔یہ دورانیسویں صدی کا نصف آخر اور بیسویں صدی کا دور تھا، جسے  تحریک ریشمی رومال،علی گڑھ تحریک ،ترقی پسند تحریک  اور جدید یت کا دور کہا جاتا ہے۔

ادب کو ہر دور میں باادب رکھنے کی کوشش کی گئی اور اصناف ادب کی اصلاحات بھی ہوتی رہیں ۔ ان اصلاحی کوشش کرنے والوںمیں بڑے بڑے نامور ادبا ،شعراء اور انشاء پردازوں نے اپنی ادبی اور فنکارانہ صلاحیتوں سے سماج کے بکھرے ہوئے تانے بانے کو درست کرنے میں نمایاں کارنامہ انجام دیا۔جیسے علامہ شبلی ،حالی، سرسیداور ڈپٹی نذیر وغیرہ جن میں سے ہر ایک کو انجمن کہا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ علامہ اقبال،ابوالکلام آزاد،مولانا عبدالماجد دریابادی ،اکبر الہ آبادی ،مولانا مودودی،ابوالحسن ندوی،مناظر حسن گیلانی وغیرہ اسی طرح ایک مثلث کہی جانے والی ٹیم جیسے پروفیسر عبدالمغنی ،ابن فرید اور شبنم سبحانی ان کے علاوہ اور بہت سے ادبا حصرات جنھوں نے ادب کو صحیح سمت دینے کی بڑی حد تک کوشش کی اور اس کے لیے جی جان لگا دی ۔جنھیںاس تعمیری اور اصلاحی ادب کی پاسبانی حاصل تھی جسے اقبال،آزاد اور مودودیؒ نے بڑی محنت سے کھڑا کیا تھا۔ ان حضرات کی کتابوں اور تحریروں سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔جیسا کہ مولانا حالی نے انسان کو انسان بننے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا:

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

تو وہیں علامہ اقبال نے ادبا وشعراء کے اعصاب پر سوار خاتون  ،اس کے حسن وعشق کی قصیدہ خوانی پراظہار افسوس کرتے ہوئے کہا تھا:

ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ! بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

سمت ِ ادب کو متعین کرنے پر زور دیتے ہوئے عبدالمغنی اپنی کتاب ’تنقیدمشرق‘میں فرماتے ہیں :

’’ فن کی جمال پسندی اور تصوف کی خیال پرسی کے بجائے تہذیبی وتخلیقی سرگرمیوں کو ایک محکم نظام فکر کی روشنی میں ایک واضح سمت اور متعین جہت دینے کی ضرورت ہے۔اس لیے ادبا و شعراء اپنی ذات کے گرداب سے نکل کر زندگی کی موجوںپر اپنے ذہن کا سفینہ چلائیں اور ساحل مراد کی طرف رواں ہوں۔گویا ادب کو بامقصد بنا نا ضروری ہے تاکہ زندگی کی کشتی کسی بھنور میں پھنس کر غرق آب نہ ہو۔‘‘

کیوں کہ ہندستانی ادب نے بھی مشکلات کے ادوار دیکھے ہیںاور انسانی مشکلات کا بخوبی جائزہ لیا ہے ، اس لیے ایسے ادب کی سخت ضرورت ہے جو کو انسان محض روٹی ،کپڑا اور مکان کی ضرورت پر ہی توجہ نہ دے بلکہ انسان کو اس کی پہچان بتاسکے ، اسے روحانی سکون کی ضرورت کا احساس دلائے اور اس کے سامنے اس کی زندگی کا مقصد واضح کرسکے۔ جس کے سامنے مقصد نہیں ہوتا وہ غلام ہوجاتا ہے ،یہی غلامی خواہ وہ ذہنی ہو یا جسمانی انسان کو ذلیل اور رسوا کردیتی ہے ۔ سماج میں جھوٹی عزت وشہرت اس کو اس سے بچا نہیں سکتی ۔ وہ لباس میں ہوتے ہوئے بھی ننگا ہوتا ہے۔

آج کے ایسے دور میں جہاں آزادیٔ اظہار رائے کی آڑمیں تہذیب و ثقافت کے نام پر ہر طرح کا فحش لٹریچر ہی نہیں بلکہ سمعی و بصری ذرائع عریانی و بداخلاقی پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور اس کا مقصد صرف اور صرف مادی دنیا کے سرمایہ داروں کی تجارتی منفعت کا تحفظ ہے۔ اسی موڑ پر ادب کے ذریعہ سماج کی تعمیر کرنے والے ادیب کی ذمہ داریاں کئی چند ہوجاتی ہیں۔ کیوں کہ ادبے ذہنی و فکری لحاظ سے سماج و معاشرہ کا معمار ہوتا ہے اور معمار کج دیوار کھڑی کرکے پختہ عمارت نہیں تیار کرسکتا۔ اسی لیے ادیب کو اپنا مثبت رول ادا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے ۔یہی ہمارے سماج اور تہذیب و ثقافت کے لیے مفید ہوگا۔

Wednesday 23 December 2015

Urdu ka Ustad اردو کا استاد


اردو کا استاد
                                                                                      محب اللہ

            میرے ایک دوست نے بہت شوق سے اردو کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اسی سے بی ایڈ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے سرکاری نہ سہی پرائیویٹ اسکول میں نوکری تو مل ہی جائے گی۔

 کئی اسکولوں کا چکر لگایا۔مگر کہیں بھی ان کو ملازمت نہ مل سکی۔ ہرجگہ مایوسی ہاتھ آئی۔
ایک مرتبہ ایک اسکول پہنچے تو پرنسپل نے اس سے سوال کیا:

’’ آپ کیا پڑھائیں گے؟‘‘

انھوں نے بتایا :  ’’اردو ‘‘

 یہ سنتے ہی ان پر دوسرا سوال یہ داغ دیا گیا۔

’’جناب !کیا آپ کو انگریزی آتی ہے؟ آپ انگریزی بول سکتے ہیں؟ ‘‘

انھوں نے جواب دیا:’’ حضور! مجھے اردو پڑھانی ہے۔‘‘

 غصے میں آ کر پرنسپل نے کہا :’’ جو پوچھ رہا ہوں ،اس کا جواب دیجئے۔‘‘

 غصہ تو انھیں بھی آ رہا تھا پر خود کو سنبھالتے ہوئے بولے:
 ’’حضور والا! مجھے اتنی انگریزی نہیں آتی کہ انگریزی میں بات کر سکوں۔‘‘

 پرنسپل نے کہا :’’ پھر آپ کو اردو پڑھانے کے لیے نوکری نہیں مل سکتی۔‘‘

  کئی انٹرویو میں اس طرح کے سوالات  سن سن کر وہ پریشان ہو گیا تھا۔ اس نے جھنجھلا تے ہوئے کہا :
’’ کیا آپ اردو کو انگریزی میں پڑھوانا چاہتے ہیں؟ افسوس کہ آپ جیسے لوگ اردو کا فروغ نہیں چاہتے بلکہ اس کا گلا گھونٹ دینا چاہتے ہیں۔‘‘

 پرنسپل صاحب پشیماں ہو کر اس کامنہ تکتے رہ گئے۔

 کیبن سے باہر نکلتے ہوئے اس نے مجھ سے کہا :
’’تم بھی  یار کہاں کہاں مجھے لے آتے ہو۔ اردو کا استاد نہ ہوا کہ مذاق بن کر رہ گیا۔ پھر اس نے سارا قصہ مجھے سنایا۔،،
Top of Form


Tuesday 25 August 2015

Namaqool نامعقول

نامعقول

مئی جون کا مہینہ تھا۔ میں بس اسٹاپ پر بس کا انتظار کر رہا تھا۔

ایک شخص گرمی کی شدت اور پیاس سے بے چین دکھائی دے رہا تھا۔ اپنی وضع قطع اوررکھ رکھاؤ سے شریف معلوم ہورہا تھا۔ 👨‍💼😎

کچھ دیر بعد ایک شخص اس کے پاس آیا ۔ شاید وہ کسی علاقے کا پتہ پوچھ رہا تھا یا اسے کوئی اورضرورت تھی، جس پر وہ غصہ میں آگیا ۔ بات توتو میں میں تک پہنچ گئی، حتی کہ وہ بدکلامی پر اتر آیا اور گالی گلوج کرنے لگا۔😫😬

آواز سن کر میں اس طرف بڑھا۔🚶🏻‍♂
مجھے لگا کہ شاید گرمی کی شدت☀🌤  اور پیاس سے وہ مشتعل ہوگیا ہے۔ میں نے ان سے کہا:

’’بھائی صاحب! غصہ نہ کرو۔ گرمی شدید ہے ۔ لوپانی پی لو!!‘‘🚰

اس بات پر وہ اوربھی غضب ناک ہوگیا،😬 کہنے لگا:

’’نامعقول! تمہیں نہیں پتہ کہ میں روزے سے ہوں۔ مجھ سے پانی پینے کو کہتا ہے۔‘‘
                       محب اللہ

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...