Showing posts with label Dini wa Tarbiyati Mazmoon. Show all posts
Showing posts with label Dini wa Tarbiyati Mazmoon. Show all posts

Saturday 15 October 2022

Kitabcha: Quran ki Dawat e Fikr or Amal

 

قرآن کریم کی دعوتِ فکر و عمل

اس میں  کوئی شک نہیں  کہ کلام پاک کی تلاوت اللہ کو بے حد محبوب ہے، اس کا  پڑھنا اور  سننا دونوں  کار ثواب ہے ۔ اس کی ایک ایک آیت پر اجر و ثواب کا وعدہ ہے۔ مگریہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا فہم ، اس میں  غور و تدبر اور اس پر عمل پیرا ہونا نہایت ضروری ہے۔ یہی نزول قرآن کا منشا ہے تب ہی تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارے لیے اللہ طرف سے نازل کردہ قرآن پاک جو ہمارا دستور حیات ہے اس میں ہمارے لیے کیا ہدایات، احکام اور پیغام ہے؟

اس کتابچے میں اسی بات کی وضاحت  کی گئی اور عوام الناس کو قرآن کے مقصدِ نزول ہدی للناس تمام انسانوں کے لیے ہدایت پر لہذا قرآن کے پیغام کو جاننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔

اس کی پی ڈی ایف فائل ارسال کی جا رہی ہے۔ ضرور ملاحظہ فرمائیں۔

https://drive.google.com/file/d/1zTzu-_UNTbhPFMpsNhgtQnjeXZoG2pGb/view?usp=sharing
طالب دعا

محب اللہ قاسمی


Sunday 21 August 2022

Achchi kitab Achcha Sathi

 

اچھی کتاب، ایسا اچھا ساتھی ہے جو زندگی بدل دے

محب اللہ قاسمی

 انسان جب شخصیات کو پڑھتا ہے تو انھیں اپنی زندگی میں محسوس کرتا ہے۔ اس وقت اسے یہی خیال گھیرے رہتا ہے کہ میں بھی ان کے جیسا بنوں، خاص طور پر جب ایسی کوئی  کتاب بچپن میں پڑھی جائے۔ہم سب اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں کہ اچھی کتاب ایک بہترین ساتھی  موثر مربی ہے جو ہماری مناسب خطوط پر رہنمائی کرتی ہے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور سنوارنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ایسی ہی کتابوں میں سے ایک کتاب جو میرے سامنے آئی وہ اعلی شخصیات پر بڑےخوب صورت اور دل چسپ انداز کی پہلی کتاب تھی۔  اسےعربی زبان میں پڑھنے کا اللہ تعالی نے مجھے شرف بخشا ۔ داخل نصاب ہونے کے سبب میں اسے سبقاسبقا پڑھ رہا تھا۔

 

صحابی کون ہوتے ہیں ؟ یہ جانتا تو تھا، پھر یہ بھی معلوم تھا کہ صحابہ ؓدنیا کی بڑی نیک شخصیات اور بڑے  اچھے انسان تھے۔مگر ان کی زندگیاں کیسی تھیں ؟ آخر کیسے انھیں رضوان اللہ علیہم اجمعین کا الٰہی خطاب ملا؟ ان سب چیزوں سے نا واقف تھا۔ پہلے دن کا پہلاسبق ہی اتنا دل چسپ لگا اور اس قدر مؤثر تھا کہ پورا دن سوچنتا ہی رہ گیا؟

 

عنوان تھا

’’ سعید بن عامرجمحیؓ‘‘ 

ان ہزاروں انسانوں میں سے ایک نوجوان سعید بن عامرجمحی ؓ بھی تھا جو سرداران قریش کی دعوت پر مکہ سے باہر مقام تنعیم پر صحابی رسولﷺ حضرت خبیب بن عدی ؓ کے قتل کا تماماشا دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ جیسے روساء قریش کے پہلو بہ پہلو جا کھڑا تھا۔ زبردست ہجوم میں سعید بن عامر خبیب کو دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ خبیب کہہ رہا ہے "اگر تم لوگ چاہو تو قتل سے پہلے مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کا موقع دے دو" پھر سعید نے دیکھا کہ خبیب بن عدی نے قبلہ رو ہوکر دو رکعتیں پڑھیں۔ اور خبیب نے زعماء قریش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "واللہ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم میرے متعلق اس بدگمانی میں مبتلا ہوجاؤ گے کہ میں موت سے ڈر کر نماز کو طول دے رہا ہوں تو میں اور لمبی اور اطمینان کے ساتھ نماز پڑھتا"

 

آج کا سبق یہی ختم ہو گیا۔

 

اب میں پورے دن اسی خیال میں گم  رہا کہ آخر کیا ہوا ہوگا حضرت خبیبؓ کے ساتھ۔ کہیں واقعی ان ظالموں نے انھیں شہید کر دیا ہوگا، یا کوئی ایسی ترکیب ہوئی ہوگی جس سے وہ بچ گئے ہوں گے؟ خیر رات میں کچھ حصہ خود سے مطالعہ کرنے لگا۔ کیوں کہ آئندہ کا سبق پہلے سے ہی مطالعہ کر کے جانا اس کلاس کے استاذ محترم کی خاص ہدایت تھی۔ٹوٹے پھوٹے انداز میں جو کچھ پڑھا تو پتہ چلا:

 

سعید نے بہ چشم سر اپنی قوم کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ زندہ ہی خبیب کا مثلہ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتے جاتے ہیں۔

“کیا تم یہ بات پسند کرو گے کہ اس وقت محمد(ﷺ )تمہاری جگہ یہاں ہوتے اور تم اس تکلیف سے نجات پاجاتے”

 

خبیب نے جواب دیا(اور اس وقت ان کے جسم سے بے تحاشا خون بہ رہا تھا)’’ واللہ مجھے تو اتنا بھی گوارا نہیں کہ میں امن و اطمینان کے ساتھ اپنے اہل و عیال میں رہوں اور اللہ کے رسولﷺ کے پاؤں کے تلوے میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے”

 

یہ سنتے ہی لوگوں نے اپنے ہاتھوں کو فضا میں بلند کرتے ہوئے چیخنا شروع کر دیا۔ مارڈالو اسے، قتل کرڈالو اسے۔ پھر سعید بن عامر کی آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ خبیب نے تختہ دار ہی سے اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا: اَللّٰھُمّ احصَہم عَدداً وَاقتُلھُم بَددا وَلا تُغَادر مِنھُم اَحَدا "خدایا! انہیں ایک ایک کر کے گن لے،انہیں منتشر کرکے ہلاک کر اور ان میں سے کسی کو نہ چھوڑ" پھر انہوں نے آخری سانس لی اور روح پاک اپنے رب کے حضور پہنچ گئی۔ اس وقت ان کے جسم پر تلواروں اور نیزوں کے ان گنت زخم تھے۔

 

نوجوان سعید بن عامر جمحی، خبیب کی مظلومیت اور ان کے دردناک قتل کے اس دل خراش منظر کو اپنے لوح ذہن سے اک لمحہ کے لیے محو نہ کرسکا۔ وہ سوتاتوخواب میں ان کو دیکھتا اور عالم بیداری میں اپنے خیالات مین ان کو موجود پاتا۔ یہ منظر ہر وقت اس کی نگاہوں کے سامنے رہتا کہ خبیب تختہ دار کے سامنے بڑے سکون واطمینان کے ساتھ کھڑے دورکعتیں ادا کر رہے ہیں۔ اوراس کے پردہ سماعت سے ہروقت ان کی وہ درد بھری آواز ٹکراتی رہتی جب وہ قریش کے لیے بد دعا کر رہے تھے اور اس کو ہروقت اس بات کا ڈر لگا رہتا کہ کہیں آسمان سے کوئی بجلی یا کوئی چٹان گر کر اسے ہلاک نہ کر دے۔ پھر خبیب نے سعید کو وہ باتیں بتا دیں جو پہلے سے اس کے علم میں نہ تھیں۔ خبیب نے اسے بتایا کہ حقیقی زندگی یہی ہے کہ آدمی ہمیشہ سچے عقیدے کے ساتھ چمٹا رہے اور زندگی کی آخری سانس تک خدا کی راہ میں جدوجہد کرتا رہے۔ خبیب نے سعید کو یہ بھی بتادیا کہ ایمان راسخ کیسے کیسے حیرت انگیز کارنامے انجام دیتا ہے اور اس سے کتنے مخیر العقول افعال ظہور پزیر ہوتے ہیں۔

 

خبیب نے سعید کو ایک اور بڑی اہم حقیقت سے آگاہ کیا کہ وہ شخص جس کے ساتھی اس سے اس طرح ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں، واقعی برحق رسول اور سچا نبی ہے اور اسے آسمانی مدد حاصل ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سعید بن عامر کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیا۔ وہ قریش کی ایک مجلس میں پہنچا اور وہاں کھڑے ہوکر اس نے قریش اور ان کے کالے کرتوتوں سے اپنی لاتعلقی و نفرت اور ان کے معبودان باطل سے اپنی بیزاری و برات اور اپنے دخول اسلام کا برملا اور کھلم کھلا اعلان کر دیا۔

 

 اس کے بعد سعید بن عامر ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے اور مستقل طور پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت اختیار کرلی۔ غزوہ ٔخیبر اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمرکاب رہے اور جب نبی اکرم ﷺ اپنے رب کے جوار رحمت میں منتقل ہو گئے تو سعید بن عامر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دونوں خلفاء ابوبکر صدیق اور عمر کے ہاتھوں میں شمشیر برہنہ بن گئے اور انہوں نے اپنی تمام جسمانی اور نفسانی خواہشات کو خدائے تعالیٰ کی مرضیات کے تابع کر کے اپنی زندگی کواس مومن صادق کی زندگی کا نادر اور بے مثال نمونہ بنا کر پیش کیاجس نے دنیوی عیش و عشرت کے عوض آخرت کی ابدی و لافانی کامیابی اورفائز المرامی کو سودا کر لیا ہو۔

 

ایک بار وہ  حضرت عمر فاروق ؓکے دور خلافت کے ابتدائی ایام میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نصیحت کرتے ہوئے ان سے کہا:

 

“عمر! میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ رعایا کے بارے میں ہمیشہ خدائے تعالٰیٰ سے ڈرتے رہیے اور خدا کے معاملے میں لوگوں کا کوئی خوف نہ کیجئے اور آپ کے اندر قول و عمل کا تضاد نہ پایا جا ئے۔ بہترین قول وہی ہے جس کی تصدیق عمل سے ہوتی ہو‘‘

 

 انہوں نے سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا:

 

’’ عمرؓ! دور و نزدیک کے ان تمام مسلمانوں پر ہمیشہ اپنی توجہ مرکوز رکھیے جن کی ذمہ داری اللہ تعالٰیٰ نے آپ پر ڈالی ہے اور ان کے لیے وہی باتیں پسند کیجئے جو آپ خود اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے پسند کرتے ہیں اور حق کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرے کی بھی پروا نہ کیجئے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کو خاطر میں نہ لائیں‘‘

 

 سعیدؓ! یہ سب کس کے بس کی بات ہے؟ حضرت عمرؓ نے ان کی یہ باتیں سن کرکہا۔

 

یہ آپ جیسے شخص کے بس کی بات ہے جس کو اللہ تعالٰیٰ نے امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ دار بنایا ہے، جس کے اور خدا کے درمیان میں کوئی دوسرا حائل نہیں ہے" سعید نے کہا۔ اس گفتگو کے بعد خلیفہ نے سعید بن عامر سے حکومت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں تعاون کی خواہش ظاہر کی اور فرمایا: سعید میں تم کو حمص کا گورنر بنا رہا ہوں۔ ‘‘

 

عمرؓ ! میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے آزمائش میں نہ ڈالیے" سعید نے جواباً عرض کیا۔

 

 ان کا یہ جواب سن کر حضرت عمرؓنے قدرے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: "خدا تمہارا بھلا کرے ۔تم لوگ حکومت کی بھاری ذمہ داریاں میرے سر ڈال کر خود اس سے کنارہ کش ہوجانا چاہتے ہو، اللہ کی قسم میں تم کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا‘‘

پھر حضرت عمرؓ نے حمص کی گورنری ان کے سپردکیا۔

 

ایک مرتبہ حضرت عمر ؓنے ان کے لیے ایک ہزار دینار بھیجے، تاکہ ان سے وہ اپنی ضروریات پوری کریں۔ جب ان کی اہلیہ نے ان دیناروں کو دیکھا تو بولیں کہ اللہ  کا شکرہے کہ اس نے ہم کو آپ کی خدمت کرنے سے بے نیاز کر دیا۔ آپ اس رقم سے ہمارے لیے ایک غلام اور ایک خادمہ خرید دیں۔ یہ سن کر سعید نے کہا :

 

’’ کیا تم کو اس سے بہتر چیز کی خواہش نہیں؟ ‘‘اس سے بہتر؟ اس سے بہتر کیا چیز ہے؟اہلیہ نے پوچھا۔

 

’’یہ رقم ہم اس کے پاس جمع کر دیں جو اسے ہم کواس وقت واپس کر دے جب ہم اس کے زیادہ ضرورت مند ہوں۔‘‘ سعید نے بات سمجھائی۔ اس کی کیا صورت ہوگی؟اہلیہ نے وضاحت چاہی۔

 

سعید نے کہا :’’ ہم یہ رقم اللہ تعالٰیٰ کو قرض حسنہ دے دیں‘‘ اہلیہ نے کہا: ’’ہاں، یہ بہتر ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیردے‘‘

پھر سعید نے اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے ان تمام دیناروں کو بہت سی تھیلیوں میں رکھ کر اپنے گھر کے ایک آدمی سے کہا :

’’انہیں فلاں قبیلے، فلاں قبیلے کے یتیموں، فلاں قبیلے کے مسکینوں اور فلاں قبیلے کے حاجتمندوں میں تقسیم کردو‘‘

 

 اللہ تعالیٰ سعید بن عامر جمحی سے راضی ہو۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خودمحتاج اور ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔

 

اس سال میں مدرسہ جامع العلوم مظفرپورمیں عربی اول کا طالب علم تھا اور جس کتاب سے  صحابی رسول ؓ کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ ڈاکٹر عبدالرحمن پاشا کی کتاب ’’صورمن حیاۃ الصحابہ‘‘ ہے ۔ اس کتاب کی کئی جلدیں ہم لوگوں نے الگ الگ کلاس میں پڑھیں۔ اس وقت دل میں خیال آتا تھا کہ کاش کوئی اس کا خوب صورت ا ردو ترجمہ کر دیتا تو یہ عام مسلمانوں کے لیے، جو عربی نہیں جانتے، کس قدر مفید ہوتا ۔اور اس طرح میں پھر جب میں دارالعلوم دیوبند آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کاشاندار ترجمہ ’’زندگیاں صحابہؓ کی‘‘ کے نام سے 1994میں ہی شائع ہو چکا ہے۔ یہ ترجمہ ابوجاوید اقبال قاسمی صاحب نے کیا ہے ۔ اس مضمون میں اس سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی مصنف اور مترجم دونوں کو جزائے خیر عطا کرے اور قارئین کو کتاب سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے،اس عکس صحابہ ؓکوسامنے رکھ کر اپنی زندگی بنانے اور سنوارنے کی توفیق بخشے۔ آمین

***

Wednesday 3 February 2021

Adl o Insaf aur Qanoon ki Baladasti

 

عدل و انصاف اور قانون کی بالا دستی

محب اللہ قاسمی

کسی بھی ملک میں امن و سلامتی کے لیے  قانون کی بالا دستی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔اسی لیے جہاں مقننہ کو بہت ہی سوجھ بوجھ اور مفاد عامہ کا خیال رکھتے ہوئے  قانون سازی کاعمل انجام دینا چاہیے، وہیں عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدل و انصاف کے معاملے میں اپنا وقار برقرار رکھے اوراپنی حیثیت کو مجروح نہ ہونے دے ۔ وہ  کسی کے دباؤ میں آئے بغیر انصاف کا معاملہ کرے۔ تبھی عوام کی دلوں میں اس کے عزت  اور قدرومنزلت جا گزیں ہوگی اور اس کا وقار بحال ہو گا۔عوام و خواص میں سے ہرفرد جرم سے پہلے کانپ اٹھے گا۔پھرپولیس ہی نہیں، بلکہ عوام بھی قانون کی رکھ والے اور اس کے محافظ ہوں گے۔ مگر معاملہ جب اس کے برعکس ہو، جرم کا اطلاق مجرم کے نام، اس کے وضع قطع  کو  دیکھ کر کیا جائے اورعدل کے بجائے تعصب کا رویہ اپنایا جائے،  تو ایسی صورت میں بہت سے مسائل کھڑے ہوں گے، ہر طرف ظلم و ستم کا ماحول ہوگا، انصاف میں تعصب کا رویہ اور تاخیر مجرم کو مزید ڈھیٹ بنا دےگا، پھر معاشرہ میں بد امنی، فساد اور انارکی پھیلی گی۔بقول شاعر    ؎

اِس کے پیمانے میں کچھ ہے اُس کے پیمانے میں کچھ

دیکھ ساقی ہو نہ جائے تیرے میخانے میں کچھ

اس معاملے میں اگر ہم اسلام کامطالعہ  کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ عدل و انصاف کا علم بردار ہے۔اس کے یہاں کسی بھی صورت ظلم کی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ نےعدل و انصاف قائم کرنے کی سخت تاکید کی ہے اور حق و صداقت پر مبنی گواہی دینے کا حکم بھی دیا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:’’عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘۔

اس کا مزید ارشاد ہے:

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے گواہ بنو ،اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔ فریقِ معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب ، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے ۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔(النسا:135)

آپؐ عدل انصاف کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے، تاکہ معاشرہ میں امن و امان برقرار رہے۔ حلف الفضول کا واقعہ اس پر شاہد ہے۔جب دنیائے عرب میں حق تلفی،بدامنی اورفسادکا ماحول تیز ہو گیا تھا۔ ایسے حالات میں مظلوم و بے بس لوگوں کی فریادسنی گئی اور ایک تاریخی منشور لانے کے لیے قریش کے چند قبائل نے اقدام کیا،جس کا نام’حلف الفضول‘ ہے۔ جوقیام عدل و انصاف، بنیادی انسانی حقوق اوربے بسوں کی دادرسی کا تاریخ ساز معاہدہ قرارپایا۔نبیؐ اس معاہدہ کے ایک اہم رکن تھے۔ اس معاہدہ کے لیے آپؐ نے عین شباب میں بھرپور تعاون اورمؤثر کردار ادا کیا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ آپؐ نے دور نبوت میں ایک موقع پر ارشادفرمایاتھا:

”اس معاہدہ کے مقابلہ میں اگرمجھے سرخ اونٹ بھی دیے جائیں تومیں نہ لوں اورآج بھی ایسے معاہدے کے لیے کوئی بلائے تو میں شرکت کے لیے تیار ہوں۔“

نفاذ قانون میں کسی طرح کی کوئی لاگ لپیٹ اور قیل و قال کی گنجائش نہیں ہے۔اس معاملہ میں سیرت رسولؐ میں روشن مثالیں ملتی ہیں۔قبیلہ بنی مخزوم جو ایک معزز قبیلہ مانا جاتا تھا اس کی ایک خاتون نے چوری کی۔ لوگوں کا خیال ہوا کہ اس کو سزا نہ ملے۔ لہذا سزا ٹالنے کی سفارش کی گئی۔ اس سفارش پر آپؐ سخت ناگواری کا اظہار کیا پھر نہ صرف یہ کہ قانون نافذ کرتے ہوئے اس خاتون کا ہاتھ کاٹا گیا بلکہ اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جو فرمایا وہ فرمان قانون کی بالادستی کی اعلی مثال ہے: "اگر اس کی جگہ فاطمہ بنت محمد بھی چوری کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا." (مسلم)

اس لیے یہ بات بے جا نہیں کہ کسی بھی صالح اور معاشرہ کا دارو مدار اسی عدل پر ہے۔ اگر اس سے عدل نکل جائے تو پھر وہ مستحکم نہیں رہ سکتا ہے ،بلکہ وہ ریاست اور معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر تباہ ہوجائے گا ۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:

’’سیاست شرعیہ کی عمارت دوستونوں پر قائم ہے: ایک ہے مناصب اور عہدے اہل تر لوگوں کو دینا اور دوسرا ہے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا۔ انصاف ہی پر دنیا  ودین کی فلاح کا دار و مدار ہے ۔ بغیرعدل کے فلاح دارین کا حصول ناممکن ہے۔‘‘ (نضرۃ النعیم)

آج پوری دنیا اسی عادلانہ نظام کے انتظار میں ہے۔جسے رہبر انسانیت حضرت محمد ﷺ نےرب العالمین کے فرمان کے مطابق قائم کیاتھا، جسے دین  اسلام  کہا جاتا ہے۔اس نظام کے تحت اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو معاشرہ ہر طرح کے فتنہ و فساد سے مامون ہو  جائے گا۔ پھر کسی کا کوئی حق  مارا جائے گا نہ کسی کو ظلم و تشد اور تعصب کا شکار بنایا جائے گا۔ہر طرف امن و امان کاقیام ہوگا۔ آپسی محبت،باہمی مساوات اور انسانیت کا فروغ ہوگا۔

 *****

Sunday 13 December 2020

Islahe Muashra aur Matloob Inferadi Kirdar

 

اصلاح معاشرہ اور مطلوب انفرادی کردار

متاثر کن شخصیت کی اہم خصوصیات

محب اللہ قاسمی

    افراد سے بننے والا اچھا اور مثالی معاشرہ با اثر شخصیات اور متاثر کن رہ نما پر منحصر ہے۔ معاشرے کے افراد ایسی شخصیات سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کے قول و عمل کو دیکھتے اور پرکھتے ہیں، پھر اسے اپنے لیے رول ماڈل بناتے ہیں۔ اگر معاشرے میں مثالی اور متاثر کن شخصیات نہ ہوں جنہیں دیکھ کر خدا یاد آئے اور ان کی باتوں سے لوگ متاثر ہو کر اپنے اعمال و کردار پر توجہ دینے لگیں اور ان کے رویے سے متاثر ہو کر اپنے احوال و معاملات درست کرنے کی طرف راغب ہوں تو معاشرہ پُر امن اور خوش حال نہیں رہتا، وہ اخلاق کے اس معیار کو حاصل نہیں کر پاتا جو ایک اسلامی اور مثالی معاشرے کے لیے ضروری ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا شخص کہاں سے آئے گا یا ایسے افراد کہاں ملیں گے؟ تو یاد رکھیں کہ ایسے افراد کسی دوسری دنیا سے نہیں آتے بلکہ وہ سماج کا ہی حصہ ہوتے ہیں۔ اس امت کو خیر امت کہا گیا ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے لیے ہی برپا کی گئی ہے چوں کہ مومنین مخلصین و مصلحین کے سامنے زندگی کا ایک نصب العین ہوتا ہے جو انسانی زندگی کے مقصد حیات کو سمجھتے ہیں، انھیں اسلامی تعلیمات کا نہ صرف علم ہوتا بلکہ وہ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں، وہ انسانی زندگی اور اس کی حقیقت کو جانتے ہیں اور انھیں اپنی کمی و کوتاہیوں کا خیال بھی ہوتا ہے۔ وہ صرف فلسفیانہ گفتگو کے قائل نہیں ہوتے بلکہ انھیں علم و عمل کے امتزاج کا پورا ادراک ہوتا ہے، انھیں اس بات کا شعور ہوتا ہے کہ علم، عمل کے لیے ہی ہے۔ محض معلومات اکٹھا کرنا کسی عالم کا مقصد نہیں ہوتا۔ ان خوبیوں کو نکات کی شکل دی جائے جو متاثر کن شخصیت کے لیے ضروری ہیں تو انھیں چند حصوں میں تقسیم جا سکتا ہے۔

 

خلوص و للّٰہیت

    پہلی چیز خلوص ہے۔ کوئی بھی انسان اس وقت تک متاثر کن شخصیت نہیں بن سکتا یا وہ لوگوں کو متاثر نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اپنے عمل میں مخلص نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں تمام اعمال کا دار ومدار نیتوں پر رکھا گیا ہے، اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان اپنی نیت درست کرے تاکہ اس کا جو بھی عمل ہو وہ خالص ہو اور اللہ کے لیے ہو۔ اس میں کسی طرح کی ریا و نمود کی آمیزش نہ ہو۔ مثلاً دوستی ایک فطری اور جذباتی عمل ہے لوگ خوب دوستی کرتے ہیں، مگر کیا اس دوستی میں خلوص ہے؟ کیا وہ کسی کا دوست ہونے کی بنا پر اس کا خیر خواہ ہے؟ اس کا راز دار ہے یا یہ دوستی صرف ایک دکھاوا ہے جس میں نفرت و عناد پوشیدہ ہے؟ اسی طرح پڑوسی سے دعا سلام ہے، میل جول ہے، مگر کیا اس میں خلوص ہے؟ یا محض رسماً ادا کیے جانے والے بول ہیں۔ اگر سلام میں خلوص ہے تو مسلمانوں کا باہمی رشتہ مضبوط ہوگا اور وہ آپس میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند ہوں گے۔ کیوں کہ سلام باہمی محبت کی بنیاد ہے۔

 

    اسی طرح ایمانی اخوت اور باہمی تعلقات کے متعلق اسلام نے یہ وضاحت کی ہے کہ ان تعلقات کی بنیاد ایمان اور للّٰہیت پر ہے، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اہل ایمان باہم اللہ کی خاطر آپس میں محبت کریں گے اور ایک دوسرے کے مخلص و خیر خواہ ہوں گے۔ ایسے لوگ نہ صرف دنیا میں متاثر کن ہوتے ہیں بلکہ روز قیامت عرش الٰہی کے سایے میں ہوں گے۔ جب کہ الفت و محبت کا دکھاوا کرنے والا شخص جو دل میں بغض و نفرت پالے ہوئے ہو وہ متاثر کن نہیں ہوسکتا۔

 

    چنانچہ صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں میں یہ چیز ہمیں ملتی ہے کہ ان کے اعمال میں اخلاص ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہتے تھے۔ ذرا سا بھی ریا کا کوئی شائبہ محسوس ہوتا تو خود ہی اسے منافقانہ عمل قرار دیتے۔ وہ تعداد کی قلت و کثرت کی پروا کیے بغیر ہر محاذ پر سینہ سپر ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیتیں متاثر کن رہیں اور وہ دین و دنیا دونوں میں کام یاب ہوئے۔

 

انکساری و خیر خواہی

    انسان کی شخصیت کو نکھارنے اور اسے متاثر کن بنانے میں تواضع و انکساری اور خیر کا اہم کردار ہے۔ انسان جب سامنے والے کو دیکھتا ہے کہ وہ دوسروں کا احترام کرتا ہے، اس کے ساتھ بڑے پیار اور محبت بھرے انداز میں مسکراتے ہوئے تواضع کے ساتھ ملتا ہے۔ اسے اپنے علم و عمل اور تقویٰ کا غرور نہیں ہے۔ کوئی بھی اسے دعوت دے وہ انکار نہیں کرتا، مصیبت و پریشانی میں آواز دے وہ لبیک کہتا ہے۔ کوئی کچھ معلوم کرنا چاہے تو وہ اسے بڑے پیار سے سمجھاتا ہے۔ پڑوس میں کوئی بیمار ہو تو اس کی عیادت کو جاتا ہے، کسی کے گھر میں کوئی خوشی کا ماحول ہو تو اسے مبارک باد پیش کرتا ہے، حتی الامکان ضرورت مندوں کی ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے۔ اس کے اس رویے سے لوگ اس کے قریب آتے ہیں۔ ایسے تواضع اختیار کرنے والے شخص کی معاشرے میں نہ صرف عزت ہوتی ہے بلکہ وہ ایک متاثر کن شخصیت بن جاتا ہے۔ پھر وہ اصلاح و تربیت کا کام انجام دے تو اس کی باتیں با وزن ہوتی ہیں، جن پر لوگ نہ صرف کان دھرتے ہیں بلکہ اپنے لیے قول فیصل سمجھتے ہیں۔

 

    اس طرح اللہ تعالی معاشرے میں اسے ایک بلند مقام عطا کر تا ہے،جو درحقیقت اس حدیث کا مصداق ہے: وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ للہِ إِلاَّ رَفَعَهُ اللہ (مسلم) جس نے اللہ کے لیے تواضع و انکساری کی روش اختیار ی ہے اللہ تعالی نے اسے بلندی عطا کی ہے۔

 

قول و عمل میں یکسانیت

    ہر دور میں اس بات کی بڑی اہمیت رہی ہے کہ بندہ جو کہتا ہے، خود بھی اس کا خیال رکھتا ہے یا بڑی حد تک اس کی پابندی کرتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ صرف لوگوں کو نصیحتیں کرتا ہے، اصلاح و تربیت پر زور دیتا ہے اور بڑی بڑی باتیں کرتا ہے مگر عملی طور پر اس کا معاملہ بالکل برعکس ہے۔ بلکہ وہ ان باتوں کی پروا ہی نہیں کرتا یا جس کسی معاملے میں وہ خود زد میں آتا ہے وہاں وہ اخلاقیات کی ساری حدیں پار کر جاتا ہے۔ ایسے میں اس کی باتوں کا وہ اثر نہیں ہوتا جس سے لوگوں کے دل عمل کی طرف مائل ہو اور وہ بھی ان باتوں سے اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں مصلحین و مربیین کی بڑی تعداد میں یہ کوتاہیاں آ گئی ہیں۔نتیجہ معاشرہ میں اس کی اصلاح و تربیت کا وہ اثر نہیں دکھائی دے رہا ہے جو ہونا چاہیے تھا۔ اسی لیے قرآن پاک میں ایسے شخص کی بڑی سخت سرزنش کی گئی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 

    اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ

    تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟ (البقرۃ:٤٤(

 

    اس حوالے سے ایک دوسری آیت جو بہت مشہور ہے:

    يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ

    اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ (الصف:2( 

    اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ لوگ اپنی عملی کوتاہیوں کے سبب اصلاح کی کوششوں کو چھوڑ دیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ عملی میدان میں بھی وہ نمونہ بن کر ابھریں تاکہ لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہو کہ بندے کی باتیں ہی نہیں ہیں بلکہ وہ عملی طور پر بھی اس کی گواہی دے رہے ہیں کہ انھوں نے جو کہا ہے اور معرفت خدا وندی کی بات کی ہے اس میں خیر ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی اس کی جانب راغب ہونا چاہیے۔ یہی حال علم و عمل کا ہے۔ عالم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے علم کے مطابق عمل بھی کرے ورنہ اس کے علم کا نہ تو خود اسے فائدہ ہوگا نہ لوگوں میں وہ عملی نمونہ بن کر ان کی اصلاح کا ذریعہ بن سکے گا۔ پھر وہ مخرّب الاخلاق (اخلاقی بگاڑ پیدا کرنے والی چیزوں) برائیوں سے دور رہے گا۔ اس لیے قول و عمل میں یکسانیت ایسے ہی ضروری ہے جیسے علم و عمل میں تبھی انسان متاثر کن شخصیت بن کر ابھرے گا جس کا سماج پر اچھا اثر مرتب ہوگا۔

 

حکمت و دانائی

    حکمت و دانائی اہم چیزوں میں سے ایک ہے۔ اللہ نے اس کی اہمیت بتاتے ہوئے فرمایا:

    وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا ۭ

    اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ (البقرۃ:٢٦٩)

     حکمت کو مومن کی گم شدہ چیز سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مومن کو نادانی اور بے وقوفی کا عمل زیب نہیں دیتا اسی لیے اس کے ہر عمل میں حکمت جھلکتی ہے۔ عام گفتگو سے لے کر بڑے سے بڑے معاملات تک کوئی عمل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ تمام چیزوں میں حکمت و دانائی تلاش کرتا ہے، اس کے ذریعہ معاملہ فہمی پر زور دیتا ہے۔ اس لیے وہ صرف ظاہری چیزوں سے متاثر نہیں ہوتا، بلکہ اس کی تہہ تک جاتا ہے۔اس میں چھپی حکمت و دانائی کی چیزیں نکال لیتا ہے۔ جس سے معاملہ فہمی صلح و صفائی اور فیصلہ سازی میں آسانی ہوتی۔ پھر اس کا ہر عمل بے موقع محل نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنا ہر کام بر محل اور احسن طریقہ سے انجام دیتا ہے۔ کئی بار دعوت و تربیت کا عمل بھی بے حکمتی کی نذر ہو کر فتنہ و فساد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جس شخص میں یہ خوبی ہوتی ہے لوگ اس سے قریب ہوتے ہیں اور اس کے سامنے اپنے معاملات پیش کر کے اس کا حل معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکمت سے کوئی کام انجام دیا جائے تو وہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے، جس کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔انبیا علیہم السلام کی بعثت کے مقاصد میں ایک مقصد حکمت کی تعلیم بھی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

     كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ

( البقرہ ١٥١)

    جس طرح ہم نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیات سناتا ہے تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے، تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔

     حکمت و دانائی ایسا عمل ہے جو انسان کو بہت سی جگہوں پر شرمندگی سے محفوظ رکھتا ہے اور اسے بے حکمتی کے اقدام کی رسوائی سے بچاتا ہے۔ حکمت کے ذریعہ صبر کا مادہ پیدا ہوتا ہے، عجلت پسندی کے بجائے تحمل کا جذبہ بیدار ہوتا ہے اور انسان میں اپنے جوہری ہتھیار یعنی قلب و دماغ کے مناسب استعمال کی قوت پیدا ہوتی ہے۔یہ وہ اوصاف ہیں جن سے انسان معاشرے میں نمایاں اور بااثر شخصیت بن کر نہ صرف لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے بلکہ اس کے ذریعہ اصلاح و تربیت کا بہترین عمل بہ حسن و خوبی انجام دینے میں بھی کام یاب ہوتا ہے۔

        ***

Friday 20 November 2020

Haqiqat e Iman Khulasa by Mohibbullah Qasmi


خطبات کے پہلے 
حصہ کا خلاصہ پیش 
کیا گیا جو کہ 
حقیقت ایمان پر 
مشتمل ہے۔


جزاکم اللہ خیرا
محب اللہ قاسمی

Sunday 15 November 2020

Bachchon ke sath husn suluk

پیارے بچوں کے پیارے رسول ﷺ کا بچوں کے ساتھ حسن سلوک
بچے ہماری شفقت و محبت کے بہت محتاج ہیں۔ اچھی تربیت کے لیے ان کے ساتھ نرمی الفت و محبت کا معاملہ کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ بچوں کے ساتھ مشفقانہ و ہمدردانہ سلوک کرتے۔

Sunday 4 October 2020

معیشت اہمیت و ضرورت

پریشان حال لوگوں کو خود کفیل بنانے کی ضرورت

محب اللہ قاسمی

معیشت انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ جب انسان پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اشیاء خورد و نوش کے ساتھ آب و ہوا کا بھی انتظام کیا. ان چیزوں سے استفادہ کے لیے انسان کو ایک مضبوط جسم کے ساتھ دل و دماغ  اور دیگر اعضاء و جوارح بھی عطا کیے تاکہ وہ محتاج اور مجبور محض بن کر نہ رہے۔ پھر اسے حکم دیا گیا :

’’جب تم نمازسے فارغ ہوجاؤ توزمین میں پھیل جاؤ اور خداکافضل تلاش کرو۔ ‘‘(الجمعۃ:۱۰ (

 پتہ چلاکہ مال کوئی گھٹیاچیز نہیں کہ اس سے آنکھیں  موندلی جائیں اور اس کی تلاش وجستجونہ کی جائے۔خودحضورؐنے بھی اس کی اہمیت کواجاگرکرتے ہوئے فرمایاہے۔’’بلاشبہ اللہ مالدار متقی اور  پوشیدگی اختیار کرنے والے کو پسند کرتاہے۔‘‘(مسلم)

 رہی بات قرآن واحادیث میں  مال و دولت کی مذمت کی تویہ ان اموال کے سلسلے میں ہے جوحرام ہوں اور  جنھیں مفاخرت کے طورپرحاصل کیاجائے ،وہ اموال انسان کواپنے خالق ومالک کی یادسے غافل کردیں  ۔ جسکی کی کثرت کے لئے قلب ہمشہ مضطرب اور  پریشان ہویااس سے فقراء ومساکین کاحق ادانہ کیا جا رہا ہو۔  اللہ تعالی کافرمان ہے:

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تمہارے مال اور  تمہاری اولادیں  تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں ۔  جو لوگ ایسا کریں  وہی خسارے میں  رہنے والے ہیں ۔ ‘‘(المنافقون:۹)

 اگرکسی کی معاشی حالت مستحکم نہ ہو تووہ اپنی ضررتوں کی تکمیل کے لئے دوسرں کےسامنے دست سوال دراز کرے گا، جس کی ممانعت ان احادیث میں  آئی ہے۔  آپ ؐ کی ایک مشہور حدیث ہے آپ نے ارشاد ہے :’’السوال ذل‘‘ دست سوال دراز کرنا ذلت کی بات ہے۔

 اس لیے انسان نے اپنے رب کی عطا کردہ ذہنی و جسمانی قوت کو من جد وجد کے تحت لگاتا ہے اور وہ ساری چیزیں حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے جو ان کے لیے ناگزیر  ہیں. اس طرح حصول معاش کی جدو جہد کرنے والے گروہ میں بنیادی طور پر تین قسم کے لوگ شامل ہو گئے: تاجر، کسان اور ملازم۔


اسباب معیشت :

اگر ہم اسباب معیشت پر غور کریں تو ہمیں اس کی تین قسمیں ملیں گی.

(۱)تجارت      (۲)  صنعت و ذراعت          اور (۳)ملازمت

 تجارت

 تجارت معیشت کا بہترین ذریعہ ہے جو اچھے، نیک اور خیر خواہ لوگوں کے ہاتھ ہو تو اس کا بہترین اثر معاشرے پر دکھے گا. اللہ نے اس میں بڑی برکت رکھی ہے۔یہ صبر آزما اور تسلسل کے ساتھ انجام دیا جانے والا عمل ہے.

 تجارت نبی اکرم ﷺ کا طریقہ تھا جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین نے اختیار کیااور معاشرے کو غربت و یاس سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی. جس کی بہترین مثال وہ واقعہ بھی ہمارے ذہن میں  رہناچاہئے کہ ایک شخص آپ ؐکی خدمت میں حاضرہوااوراپنی ضرورتوں کاسوال کربیٹھا ۔ آپ ؐ نے اس سے دریافت کیا :تمہارے پاس کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا :ایک چادراورایک پیالہ! آپ نے دونوں  چیزوں  کو طلب کیا اور  انھیں  صحابہ کرام کے درمیان بیچنے کی بولی لگادی ایک صحابی نے اسے خرید لیا۔ آپؐ نے حاصل شدہ رقم کو اس آدمی کے حوالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نصف رقم سے گھر کے لیے کھانے پینے کی چیزیں  خرید لو اور  نصف رقم سے کلہاری خریدلائو۔  چنانچہ اس نے ایساہی کیا، پھرآپ ؐ نے اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ لگادیا اور حکم دیاکہ جنگل جاکر اس سے لکڑی کاٹو اور بازار میں فروخت کرو۔  اس نے ایساہی کیااس طرح اس تجارت سے اس کی اقتصادی حالت درست ہوگئی اور سوال کی ذلت سے محفوظ ہوگیا۔

 حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بہت بڑے تاجر  تھے کہ ان کی وفات کے بعدان کے پاس جو سونا تھا اسے کلہاڑی سے کاٹ کر وارثوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔  اسی طرح حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی زندگی دیکھی جائے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں علم وعمل کے ساتھ مال ودولت میں بھی کافی فراوانی عطا کی تھی، جس کا وہ مظاہرہ بھی کرتے تھے ۔ عمدہ لباس زیب تن فرماتے اور اپنے دوستوں پر بھی خوب خرچ کرتے تھے ۔  موصوف کا شمار کپڑوں کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا ۔ ان کے علاوہ بھی تاریخ میں متعدد شخصیات کا تذکرہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو مال و دولت سے نوازا تھا اور  وہ بحسن وخوبی اس کاحق ادا کرتے تھے۔ اس کے ذریعہ بہت سی دینی خدمات انجام دیتے تھے۔  

 

ذراعت یعنی کھیتی باڑی

محنت و مشقت کے ساتھ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے کھیتی باڑی کا عمل انجام دیا جائے تو یہ بھی معیشت کا ایک اہم ذریعہ ہے جس سے انسانی زندگی کی بہت سی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں.

 درج بالا دونوں اسباب اختیار کرنے کے لیے مال و جائیداد کی ضرورت پڑتی ہے. جب کہ ملازمت یعنی نوکری کرنے میں وہ بات نہیں. انسان اپنی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر نوکری حاصل کر لیتا ہے. یہی چیز اس کے لیےدو وقت کی روزی روٹی کا ذریعہ بن جاتی ہے. اس دور میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے. اس لیے ملازمت کی ضرورت بڑھ گئی ہے ۔ ملازمت نہ ملنے کی صورت میں بے روزگاری بڑھ گئی ہے. اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر غور کیا جانا چاہیے.

 مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ اس وقت معیشت کے ہر میدان میں گراوٹ اور بدحالی کی کیفیت پیدا ہو گئی روزگار ختم ہوتے جا رہے ہیں ہر طرف افراتفری کا ماحول بنا ہوا لوگ پریشان حال ہیں ان کی تنگ دستی اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے انھیں خود کفیل بنانے اور امت میں تجارت کو فروغ دینے کی کوشش ہو آغاز میں چھوٹے چھوٹے کاربار کی طرف راغب کیا جائے اور عملی  اقدام جاری رہے۔ جس کے لیے ماحول بنانا اور اسباب مہیا کرنا بھی ضروری ہے


Saturday 12 September 2020

Muminon Mumin Bano

اے مومنو! مومن بنو!!

   

ہر وہ انسان جس پر ایمان کا مفہوم واضح ہو، اس کی چاہت اس کے دل میں گھر کر لے اور وہ اس کی لذت سے آشنا ہو جائے، پھر اسے اطاعت ربانی کے سوا سب کچھ پھیکا نظر آتا ہے. وہ اپنی زندگی کا ایک متعین مقصد سامنے رکھ کر جیتا اور ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہونا پسند کرتا ہے۔

     پھر وہ گناہوں کی بستی میں گھٹن محسوس کرتا ہے اور بے حیائی کے ماحول میں جینا گوارہ نہیں کرتا، معاملات زندگی ہو رہی اللہ کی نافرمانیوں کی کڑھن دل میں رکھتے ہوئے اسے دور کرنے کی سعی کرتا ہے اور حرمت جان کی خاطر ظلم و ستم کے خاتمے کے لیے کوششیں کرتا ہے، وہ نہ صرف خود ایک مثالی معاشرہ کا فرد بننا چاہتا ہے، بلکہ اپنے ارد گرد کے ماحول کو سنوار کر اسے اسلامی معاشرہ بنانے میں لوگوں کی ذہن سازی بھی کرتا ہے اور اللہ سے دعا کرتا ہے کہ نور الہی سے یہ اندھیرا چھٹ جائے جس کی روشنی میں وہ خدا ترس، باکرادار، خوش گوار اور پاکیزہ زندگی گزارے، جہاں کوئی کسی پر ظلم نہ کرے، عدل و انصاف کا بول بالا ہو، رب کائنات کی عبادت اس کے حکم کی اطاعت ہو۔ جھوٹے خداؤں کا سرنگو ہو اور ان باطل قوتوں کا خاتمہ ہو جو حق کو للکارنے اور انھیں مٹانےکی ناکام کوششوں میں ہیں۔ یہ جذبہ اہل ایمان کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔

    ایسے میں ایک مسلمان سے اس کا دین ایمان اور اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی کسی نہ کسی سبب چھین لی جائے جو اس کی زندگی کا سب سے اہم سرمایہ ہے۔ پھر اس کی دولت، شہرت اور مرتبت اس کے کس کام کی۔

 

    یہی وجہ ہے کہ انسان خواہ ذلت و رسوائی کی پستی میں ہو یا پھر شہرت و مقبولیت کی بلندی پر، اگر وہ محسوس کرتا ہے کہ اپنے دین مذہب اور شریعت کے خلاف زندگی گزار کر جہنم کی طرف بھاگا چلا جا رہا ہے تو اس کا پاکیزہ نفس اسے ملامت کرتا ہے اور اس کی بے چین روح اسے واپس اپنے رب کی اطاعت کی طرف لانے کی کوشش کرتی ہے۔ گویا کوئی اس سے کہہ رہا ہو ففروا الی اللہ (دوڑو اپنے اللہ کی طرف). اگر ہماری کیفیت ایسی نہیں ہے، ہماری روح میں ایمان کا تازگی نہ ہو اور دل ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف مائل نہ ہو تو ہمیں اپنے ایمان کی خیر منانے کی اور اپنا محاسبہ کرنے کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم کون ہیں ہمیں اللہ نے کیوں پیدا کیا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں اور ہمیں کرنا چاہیے؟؟؟

 

حالات جیسے بھی ہوں، آسانیوں اور فراوانیوں کے ساتھ مشکلات اور پریشانیوں کا دور بھی آتا ہے، جو مومن کے لیے آزمائش کا دور ہوتا ہے پریشانی میں بھی اور آسانی میں بھی مگر فطرت سلیمہ کا یہی تقاضا ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹے اور کائنات کے خالق و مالک کی مرضی کے مطابق اپنا مقصد حیات متعین کرکے دونوں جہاں میں کامیابی حاصل کرے۔

 

    خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے اندر یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے اور وہ دنیا کی پر فریب، عارضی چمک دمک اور اس کے کھوکھلے پن کو الوداع کہہ کر واپس اپنے رب کی طرف پلٹتے ہیں اور اللہ کی پکار ( *اے مومنو! مومن بنو*) پر لبیک کہتے ہوئے، اس راہ حق میں پیش آنے والی تمام آزمائشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں.ایسے لوگ جب اپنے رب کے حضور پیش ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس سے کہتا ہے.

’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تو اپنے رب سے راضی ہو۔ تو تو میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔‘‘

محب اللہ قاسمی


 

Wednesday 17 June 2020

Suicide & Islam


خود کشی اور اسلامی تعلیمات
محب اللہ قاسمی
خودکشی زندگی سے مایوسی اور شکست کی گھٹیا صورت ہے۔ بزدلی کی اس گھناؤنی حرکت کو لوگ مختلف اسباب و حالات کی وجہ سے مختلف صورتوں میں انجام دیتے ہیں۔ پھریہ بدترین عمل بعض مذاہب میں تفاخر کا سبب بن جاتا ہے اور بعض مقامات پر اسے عزت شرافت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کچھ مذاہب نے اسے براکہا، مگر ان میں بھی دو ٹوک اور مدلل موقف کا اظہار نہیں ہے۔ اسلام ایک ایساواحد مذہب ہے جس نے اس فعل ِ بد کو حرام موت اور اس کے مرتکب کو جہنمی قرار دیا ہے۔

خودکشی کی تعریف قرآن کی آیت سے یہ معلوم ہوتی ہے:
 وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ  (البقرۃ: ۱۹۵)
’’اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘

قرآن کی اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ زندگی جیسی اہم چیز کو ضائع کرنے کا حق اور اس کا اختیار اللہ نے ہمیں نہیں دیا ہے۔
ہندو مذہب میں ایسا کرنا کچھ صورتوں میں برا نہیں مانا جاتا، اس لیے کہ ان میں سے بعض لوگوں کے عقیدے میں ہے کہ انسان مرتا ہے تو اپنے اچھے برے کرموں کے سبب اس کا دوبارہ جنم ہوتاہے۔ گویا دنیا میں دوبارہ آنے کا یقین اس کے اس بدترین عمل کاسبب بنا بعض مقامات پراس کوخاندانی شرافت تصورکیاجاتاہے۔یعنی مردہ شوہرکی بیوی کی زندگی بے رنگی کر کے اس کوشوہرکی لاش کے ساتھ زندہ جلادینا، جسے ’’ستی ساوتری‘‘ کا باعزت نام ملتا ہے۔

یہودیوں اور عیسائیوں کے علماء اس کی مذمت تو کرتے ہیں مگر اس کے برا کہنے کی نہ تو ان کے پاس کوئی سندہے اورنہ ہی اس کے روک تھام کی کوئی شکل ان سے ملتی ہے۔ زندگی سے مایوس ہوکرجنگلوںمیںچلاجانا فراریت کاتصوریونانی فلسفیوںکے یہاں بھی ملتا ہے ۔

اسلام جوکہ مکمل نظام حیات ہے اس نے اس ناپسندیدہ عمل کوحرام موت ہی قرار نہیں دیابلکہ اس عمل کاتفصیلی جائزہ بھی لیا۔کیوںکہ اکثرلوگ خودکشی اپنی خوشی اور مرضی سے نہیں کرتے بلکہ عوراضات وحوادثات سے بے بسی ولاچاری اور زندگی سے مایوسی ان کی خودکشی کا سبب بن جاتا ہے۔اسلام نے ان تمام اسباب پرنگاہ ڈال کرجامع اسلامی تعلیمات عطا کیا جو ایک مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں ایک سچامسلمان اپنی زندگی سے اتنامایوس نہیں ہوسکتا جو اس کوخودکشی پراعمادہ کرے۔

خودکشی کے اسباب:
زندگی سے مایوسی، قرض کی ادائیگی کابوجھ، ناکامی، شرمندگی، احساس گناہ، اپنی خاندانی آن بان اوراپنی موت کے ذریعے والدین کودکھ پہنچانے کی کوشش۔ مثلاً ایک شحض اپنی زندگی سے بالکل مایوس ہو چکاہے کہ قرض کی ادائیگی اس کے بس سے باہر نظر آتی ہے۔ جوبھی کام کرتا ہے اس میںاسے ناکامی و نامرادی ہورہی ہے ۔گناہ کا احساس اسے کہائے جارہا ہے۔ بے بنیاد الزام کا صدمہ لیکرجینادوبھرہورہاہے۔وہ سب کچھ اپنے والدین کے لئے کررہا ہے مگرپھربھی والدین کی پھٹکارہی اسے مل رہی ہے ،کسی لڑکی سے محبت ہوئی شادی کا وعدہ وعید ہوامگروہ لڑکی کسی اور کے ساتھ شادی رچالی یاپھربیوی نے اپنے شوہرسے بے وفائی کی اور غیروںسے جس کی تاب نہ لاکر مردنے خودکشی کرلی وغیرہ وغیرہ۔

بسا اوقات خودکشی کا فیصلہ جلدبازی میں ہوتا ہے ورنہ زیادہ تریہ چند مراحل میں طے ہوتا ہے یعنی ناکامی پرناکامی اس کے اس فیصلے کومستحکم کردیتی ہے۔چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ پانی میں ڈوبنے کی کوشش کرنے والا بچاؤبچاؤ کی آوازبھی لگاتا ہے۔ بعض مذہبی رجحانات اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے۔مثلاً بعض غیر قوموں کا نظریۂ آوا گون اس بات کے لیے آمادہ کرتا  ہے کہ ایسی پریشان زندگی سے بہتر ہے کہ خودکوختم کردیاجائے۔ تاکہ دوبارہ اچھی زندگی ملے گی۔ یاکسی محبوبہ کا انتقال ہواتوخودکوبھی ختم کر لیا، تاکہ دوبارہ دونوں ایک ساتھ دنیامیں آئیں۔

موجودہ دورمیں اس فعل کی انجام دہی کی مختلف صورتیں دیکھنے کوملتی ہیں۔ زندگی سے مایوس شخص اس فراق میں لگ جاتاہے جواسے آسانی سےموت آجائے اورکوئی اسے بچانے والا بھی موجودنہ ہو۔مثلاً کوئی زہریلی چیزکھالی، کئی منزلہ عمارت سے چھلانگ لگالی، ٹرین کی پٹری پر لیٹ گیا، خودکوگولی مارلی خونی اسلحہ کااستعمال کر لیا یا خود کو منشیات کا عادی بنالیا، وغیرہ۔
اسلام نے ان تمام اسباب میںمایوسی،بزدلی،ذلت اور رسوائی کے خوف کو بنیادی سبب قرار دیتے ہوئے اپنانسخہ بتایا۔

وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ (الطلاق:۳)
’’ جو اللہ  پربھروسہ رکھے گاوہ  اس کے لیے کافی ہے ۔‘‘

زندگی سے مایوس ہونااللہ پرعدم اعتماد کا مظہر ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ بزدلی کے سبب خودکشی کے بجائے ناموافق حالات کامقابلہ کرنا چاہیے۔

اسلام کے ابتدائی دورمیںصحابہ کرام کوذلیل ورسواکیاگیا۔ کیاوہ حقیقت میں اس کے لائق تھے؟ نہیں! ان کی بیویوںکوبھی بے عزتی کاسامناکرناپڑا،ان کا جرم کیاتھا؟ حضرت خبیبؓ کوسولی پر چڑھانے سے قبل ان کامثلہ کیاگیا۔کیاقصورتھاان کا؟ وہ تپتےریتوںپرگھسیٹے گئے، بڑے بڑے پتھران کے جسموں پررکھ دیے گئےاوردہکتے ہوئے انگارے سے لوہا نکال کران کے جسموں کو داغا گیا۔ یہ حضرات چاہتے توان اذیتوں سے بچنے کے لیے خودکشی کرلیتے۔ مگر شیدائیان اسلام نے اس ظلم وذلت کی زندگی کوگوارا کیا، مگر خودکشی جیسی بزدلانہ حرکت نہیں کی۔
اسلام نے بتایاکہ یہ زندگی اللہ کی دی ہوئی امانت ہے، جسے ضائع کرنے کا کسی کو   حق نہیں۔ کیاہوا جو کسی کاشوہرمرگیا،دنیامیںاورلوگ بھی ہیںجواس کی کفالت کرسکتے ہیں اور اس کی زندگی کوخوش گواربناسکتے ہیں۔لہٰذابیواؤںسے شادی کرنے کی اسلام میں ترغیب دی گئی۔ کیا ہواجونا کامی ملی ،ناکامی توکام یابی کاپیش خیمہ ہوتی ہے۔ مایوسی و ناامیدی، کیوںجب کہ امید پر دنیا قائم ہے۔ اس لیے انسان کو زندگی کی آخری سانس تک  جد و جہد کرنی چاہیے۔

یہ مشکلات وپریشانیاںعارضی ہیں۔ یہ زندگی دھوپ چھاؤںکی طرح لگی ہوئی ہیں۔ لہٰذا ایسے حالات میں صبروتحمل سے کام لیناچاہئے ۔قرآن کی بے شمارآیات میں اس مضمون کو واضح کیا گیا ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ            (البقرۃ: ۱۵۵)
’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر ، فاقہ کشی ، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ اِن حالات میں خوش خبری دے دو صبر کرنے والوں کو۔‘‘

 اللہ تعالیٰ کسی کواس کی وسعت اور برداشت سے زائد تکلیف نہیں دیتا:
لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا     (البقرۃ:۲۸۶)
’’اللہ کسی متنفس پر اس کی قدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘

اسلام انسان کے دل میں ان مشکلات سے نپٹنے کے لیے جوش وہمت اور روحانی طاقت پیداکرتاہے اور اسے زندگی کے ہرمقام پرخوش بختی کا احساس ہوتاہے۔ اس کا پابند شخص خودکشی کا لفظ اپنی زبان پرلانے کواپنی جواں مردی کے لیے عارمحسوس کرے گا۔  ٭٭٭

(ماخوذ: شخصیت کی تعمیر اسلام کی روشنی میں --- مصنف : محب اللہ قاسمی)


ख़ुदकुशी (आत्महत्या) और इस्लाम
ख़ुदकुशी या आत्महत्या ज़िन्दगी से मायूसी और हार की घटिया सूरत है । बुज़दिली की इस घिनावनी हरकत को लोग अलग–अलग वजहों और हालतों में अंजाम देते हैं । फिर यह बदतरीन हरकत कई मज़हबों में गर्व की वजह बन जाती है और वु़छ जगहों पर इसे इज़्ज़त और शराफ’त की नज़र से देखा जाता है । कई मज़हबों ने इसे बुरा कहा, मगर दोटूक अन्दाज़ में दलीलों वे़ साथ अपने नज़रिए का इज़हार न कर सवे़ । इस्लाम ही एक ऐसा मज़हब है जिसने इस बुरे काम को हराम मौत और इसे करनेवाले को जहन्नमी क’रार दिया है । ख़ुदकुशी का मतलब क़ुरआन की इस आयत से मालूम होता है, जिसमें अल्लाह ने कहा:

और अपने हाथों अपने–आपको तबाही में न डालो ।’’
(क़ुरआन, सूरा–2 बक’रा, आयत–195)
क़ुरआन की इस आयत से साफ’ ज़ाहिर है कि ज़िन्दगी जैसी अहम चीज़ को बरबाद करने का हक’ अल्लाह ने हमें नहीं दिया है ।

इस्लाम जो कि मुकम्मल निज़ामे–हयात यानी सम्पूर्ण जीवन–व्यवस्था है, उसने इस नापसन्दीदा अमल को हराम मौत ही क’रार नहीं दिया, बल्कि उसवे़ कारणों का विस्तार से जायज़ा भी लिया है । क्योंकि ज़्यादातर लोग अपनी ख़ुशी और मर्ज़ी से ख़ुदकुशी नहीं करते, बल्कि परेशानियाँ, हादसों से बेबसी और लाचारी और ज़िन्दगी से मायूसी, क’र्ज़ का बोझ, नाकामी, शर्मिन्दगी, गुनाह का एहसास, अपनी ख़ानदानी आन–बान और अपनी मौत वे़ ज़रिए माँ–बाप को दुख पहुँचाने की कोशिश उनकी ख़ुदकुशी की वजह बन जाती है ।
मिसाल वे़ तौर पर एक आदमी अपनी ज़िन्दगी से बिलवु़ल मायूस हो चुका है कि क’र्ज़ की अदाएगी उसवे़ बस से बाहर नज़र आती है । वह जो भी काम करता है उसमें उसे नाकामी व नामुरादी मिल रही है । गुनाह का एहसास उसे सताए जा रहा है । बेबुनियाद आरोपों का सदमा लेकर जीना दूभर हो रहा है । वह सब वु़छ अपने माँ–बाप वे़ लिए कर रहा है, मगर फिर भी उसे माँ–बाप की फिटकार ही मिल रही है । किसी लड़की से मुहब्बत हुई, शादी का वादा भी हुआ, मगर उस लड़की ने किसी और वे़ साथ शादी रचा ली या फिर बीवी ने अपने शौहर वे़ साथ बेवफ़ाई की, जिसकी वजह से मर्द ने ख़ुदकुशी कर ली, वग़ैरा ।

इस्लाम ने इन तमाम कारणों को देखते हुए व्यापक इस्लामी शिक्षाएँ दी हैं जो एक मार्गदर्शन है, जिसकी रौशनी में एक सच्चा मुसलमान अपनी ज़िन्दगी से इतना मायूस नहीं हो सकता जो उसको ख़ुदकुशी करने पर मजबूर करे ।

कभी–कभी ख़ुदकुशी का फ़ैसला जल्दबाज़ी में होता है वरना ज़्यादातर मामलों में यह कई मरहलों में  तय होता है । यानी नाकामी–पर–नाकामी उसवे़ इस फ़ैसले को मज़बूत करती है । इसलिए देखा गया है कि डूबने की कोशिश करनेवाला ‘बचाओ! बचाओ!’ की आवाज़ भी लगाता है । वु़छ मज़हबी ख़्ायाल इसका हौसला भी बढ़ाते हैं । मिसाल वे़ तौर पर आवागमन का नज़रिया इस बात वे़ लिए आमादा करता है कि ऐसी परेशान ज़िन्दगी से बेहतर है कि खूद को ख़त्म कर दिया जाए, ताकि दोबारा अच्छी ज़िन्दगी मिले । या किसी महबूबा की मौत हो गई तो खूद को भी ख़त्म कर लिया, ताकि दोबारा दोनों एक साथ दुनिया में आएँ ।

मौजूदा दौर में इस काम की बहुत–सी सूरतें देखने को मिलती हैं । ज़िन्दगी से मायूस आदमी इस कोशिश में लग जाता है कि उसे आसानी से मौत आ जाए और कोई उसे बचानेवाला भी मौजूद न हो । मिसाल वे़ तौर पर कोई ज़हरीली चीज़ खा ली, कई मंज़िल की इमारत से छलाँग लगा ली, ट्रेन की पटरी पर लेट गया, ख़ुद को गोली मार ली, घातक हथियार का इस्तेमाल कर लिया या ख़ुद को नशे का आदि बना लिया वग़ैरा ।

इस्लाम ने इन तमाम कारणों में मायूसी, बुज़दिली, ज़िल्लत और रुसवाई वे़ डर को बुनियादी वजह क’रार देते हुए अपना नुकसान बताया है:
जो अल्लाह पर भरोसा रखेगा वह उसवे़ लिए काफ’ी है।’’
(क़ुरआन, सूरा–65 तलाक’, आयत–3)

ज़िन्दगी से मायूस होना अल्लाह पर भरोसा न करने की निशानी है । इस्लाम की तालीम यह है कि बुज़दिली की वजह से ख़ुदकुशी करने वे़ बदले मुश्किल हालात का मुक़ाबला करना चाहिए ।
इस्लाम वे़ शुरुआती दौर में सहाबा (रज़ि॰) को ज़लील व रुसवा किया गया । क्या वे हकीक़त में इसवे़ हक’दार थे ? नहीं! उनकी बीवियों को भी बेइज़्ज़ती का सामना करना पड़ा, उनका जुर्म क्या था ? हज़रत ख़ुबैब (रज़ि॰) को सूली पर चढ़ाने से पहले उनवे़ जिस्म वे़ हिस्सों को बुरी तरह काटा गया, क्या वु़’सूर था उनका ? वे तपती हुई रेत पर घसीटे गए, बड़े–बड़े पत्थर उनवे़ जिस्म पर रख दिए गए और दहकते हुए अँगारों से लोहा निकालकर उनवे़ जिस्म को दाग़ा गया । ये लोग चाहते तो इन परेशानियों से बचने वे़ लिए ख़ुदकुशी कर लेते । मगर इस्लाम पर मर मिटनेवालों ने इस ज़ुल्म–ज़्यादती की ज़िन्दगी को बरदाश्त किया, मगर ख़ुदकुशी जैसी बुज़दिलाना हरकत नहीं की ।

इस्लाम ने बताया कि यह ज़िन्दगी अल्लाह की दी हुई अमानत है । इसे बरबाद करने का हक’ किसी को नहीं । क्या हुआ जो किसी का पति मर गया, दुनिया में और लोग भी हैं जो उसकी देखभाल कर सकते हैं, और उसकी ज़िन्दगी को खुशगवार बना सकते हैं। इसलिए इस्लाम में विधवाओं से शादी करने पर उभारा गया है । क्या हुआ, जो नाकामी मिली, नाकामी तो कामयाबी की सीढ़ी होती है । मायूसी और नाउम्मीदी क्यों, जबकि उम्मीद पर दुनिया खड़ी है । इसलिए इनसान को ज़िन्दगी की आख़री साँस तक कोशिश व संघर्ष करते रहना चाहिए ।

ये मुश्किलें और परेशानियाँ तो अस्थायी हैं । यह ज़िन्दगी धुप–छाँव की तरह लगी हुई है । इसलिए ऐसे हालात में सब्र और संयम से काम लेना चाहिए । क़ुरआन मजीद की बेशुमार आयतें हैं जिसमें इन्हीं बातों को दोहराया गया है । अल्लाह कहता है:
और हम ज़रूर तुम्हें डर व खौफ़, भूख व फ़ाक़े’ से, और जान व माल वे़ नुक’सान और आमदनियों वे़ घाटे में डालकर आज़माएँगे । और ऐसे हालात में सब्र करनेवालों को खुशख़बरी दे दो ।’’                 
(क़ुरआन, सूरा–2 बक’रा, आयत–155)
अल्लाह तआला किसी को उसकी ताक’त और सहन–शक्ति से ज़्यादा तकलीफ’ नहीं देता । क़ुरआन में है:
अल्लाह किसी जानदार पर उसकी ताक’त से ज़्यादा ज़िम्मेदारी का बोझ नहीं डालता ।’’      (क़ुरआन, सूरा–2 बक’रा, आयत–286)

इस्लाम इनसान वे़ दिल में उन परेशानियों से निपटने वे़ लिए जोश, हिम्मत और रूहानी ताक’त पैदा करता है और उसे ज़िन्दगी वे़ हर मोड़ पर ख़ुशबख्ति व ख़ूशनसीबी का एहसास होता है । इस्लाम का पाबन्द इनसान ख़ुदकुशी का शब्द अपनी ज़बान पर लाना अपनी बहादुरी व जवाँमर्दी वे़ ख़िलाफ़ और बड़ा गुनाह समझता है ।

मोहिब्बुल्लाह क़ासमी
mohibbullah.qasmi@gmail.com
9311523016



Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...