Showing posts with label Kahani / Afsana. Show all posts
Showing posts with label Kahani / Afsana. Show all posts

Sunday 18 October 2020

कहानी ...भात....!

कहानी ...भात....!


गीता देवी एक ग़रीब मज़दूर की पत्नी थी, जिसकी दो बेटियां थीं। पहली बेटी गायत्री देवी, जो शादी के दस साल बाद पैदा हुई थी। आस्था के अनुसार इस बच्ची को पाने के लिए उस के मज़दूर बाप ने कई मंदिरों के चौखट लॉनगे, बड़ी मिन्नतें मांगें थीं। इस बेटी के दो साल बाद एक दूसरी लड़की का भी जन्म हुआ । मगर हाय क़िस्मत अभी इस दूसरी बच्चे के जन्म को ढाई साल ही हुए थे कि गीता देवी के मज़दूर पती का देहांत हो गया, जिसकी मज़दूरी के थोड़े पैसे से बड़ी कठनाई के साथ उस के घर चूल्हा जल पाता था। मगर इस दुख भरी की हालत में भी जैसे तैसे समय गुज़र रहा था!

पति की घर में सिर्फ गीता देवी थी और इस की दो बेटियां घर की ज़िम्मेदारी उस के कमजोर कंधे पर आ जाने के बाद उसने भी मज़दूरी शुरू कर दी। मगर कमज़ोर जिस्म के सबब इस से मज़दूरी नहीं हो पाती थी।


वो ख़ुदग़रज़ी और सुअर्थी पर्यावरण के ऐसे दूर से गुज़र रही थी कि जिससे भी उधार माँगती ,लोग साफ़ तौर पर उसे मना कर देते थे। अपने बच्चों की ख़ातिर रोज़ाना चूल्हा जलाने के लिए उस के पास, अक्सर राशन नहीं होता था, जिसका नतीजा हमेशा घर में फ़ाक़ा और भूके रहने की नौबत आती थी।


एक दिन बड़ी बेटी भूक से तड़प कर रोती, बिलकती भात भात चिल्ला रही थी, मगर माँ उसे तसल्ली देते हुए कह रही थी।
’’
रुक जा बेटी अभी भात पकाती हूँ और तुझे खिलाती हूँ।'


रोज़ की तरह उसने राशन के बर्तन में झाँका, मगर इस में चावल का एक दाना भी ना था। अब क्या करे, बेटी भूक से छटपटा रही थी। किसी के ज़रीया पता चला कि गांव में अभी राशन मिल रहा है। वो अपना राशन कार्ड लेकर जाये और राशन ले आए।


ये सुनकर उसने अपना राशन कार्ड निकाला और बोरी लेकर डीलर के पास भागती हुई गई।
वहां पहुंच कर उसने डीलर से कहा:
भया मुझे राशन दे दो। घर में कुछ भी खाने को नहीं है


डीलर ने राशन कार्ड लिया और अपने रजिस्टर से मिलाया। मिलान पर कार्ड दरुस्त निकला, मगर जिन्हें राशन दिया जाये, इस सूची में इस कार्ड का नंबर नहीं था। जब उसे लैपटॉप पर चैक किया। तो पता चला कि इस का राशन कार्ड आधार से लिंक नहीं है।
इस पर डीलर को ग़ुस्सा आया कहने लगा।

जाओ आधार कार्ड से लिंक कराओ। इस के बिना राशन नहीं मिलेगा।


गीता देवी डीलर से मिन्नत समाजत करने लगी।
मेरी बेटी भूक से बे हाल है। राशन में कुछ चावल ही दे दो कि भात पका कर बेटी को खीला दूं , वर्ना मेरी बेटी भूक से मर जायेगी


मगर डीलर के दिल में ज़रा भी दया नहीं आई। उसने उसे ये कहते हुए वहां से भगा दिया
जाओ जब तक ये राशन कार्ड आधार से लिंक नहीं होगा ,तुम्हें राशन का एक दाना भी नहीं नहीं मिलेगा।


बेचारी गीता देवी इन्सानों की दुनिया से दया की भीक ना मिलने पर मायूस घर लौट आई। अपनी बेटी को गले लगा या। इस से पहले कि वो इस से कुछ बोलती उस की आख़िरी आवाज़ भात भात कहते हुए बंद गई।
.....
और गीता देवी उसे सीने से लगाए ज़ोर से चिल्लाते हुए इस डीजीटल बेरहम दुनिया पर मातम कर रही थी।


(कहानी लेखक .....मोहिब्बुल्लाह क़ासिमी)

Email: mohibbullah.qasmi@gmail.com

 


Tuesday 31 July 2018

Story : Saheli Ki Shadi


سہیلی کی شادی

ہنستی کھیلتی چلبلی سی نیک اور خوبصورت بانو اس گاؤں کی پڑھی لکھی لڑکی ہے جہاں کبھی مرد بھی بہت کم پڑھے لکھے ملتے تھے۔ ایک تو گاؤں کی غربت دوسری پڑھائی سے بے توجہی ،جس کے سبب لوگ اتنا نہیں پڑھ لکھ پارہے تھے۔

مگر خاص بات یہ تھی کہ بانوکے والد پڑھے لکھے سرکاری ملازم تھے اور بھائی بھی پڑھا لکھا تھا۔ اس طرح اس کا گھرانا ایک حد تک تعلیم یافتہ تھا۔ بانوں اپنی سہیلیوں کو اللہ رسول کی باتیں پڑھ کر سناتی اور انھیں پڑھنے کے لیے آمادہ کرتی اورلڑکیاں ان کی باتیں بہ غور سنتی ۔

ایک دن بانو اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ کچھ لڑکیاں آئیں اور کہنے لگیں: ارے چل ،منگلو چاچا کے گھر کچھ مہمان آئےہیں۔ سنا ہے شبنم کو دیکھنے لڑکے والے آئے ہیں اور یہ بھی سنا ہے کہ لڑکا بھی آیا ہے۔ 

ایک لڑکی اسی درمیان بول پڑی : ہائے اللہ ! لڑکا بھی آیا ہے ۔ کیا وہ بھی لڑکی دیکھے گا؟
ہاں اس کی شرط ہے اور اس سے کچھ پوچھے گابھی؟

اس پر سلمیٰ نے جواب دیا : ہاں ،یہ پہلی بار ہورہا ہے۔

تبھی بانو بولی :تو اس میں برا کیا ہے؟ اچھا ہے۔ شادی ہو رہی ہے۔ کوئی مذاق تھوڑی نا ہے۔ اگر وہ لڑکی کو دیکھے گا تو کیا لڑکی لڑکے کو نہیں دیکھے گی؟ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ لیں گے اور جو پوچھنا ہوگا، پوچھ لیں گے۔ چلو ہم لوگ بھی چلتے ہیں نغمہ چاچی کے گھر ۔ شبنم نے ہم لوگو کو بتایا نہیں کہ اسے دیکھنے کے لیے کچھ لوگ آنے والے ہیں ؟ یہ بولتے ہوئے ساری سہیلیاں منگلو چاچا کے گھر پیچھے کے دروازے سے پہنچ گئیں۔

نغمہ نے جب ان کو دیکھا تو کہنے لگی: بانو کی اور دیکھتے ہوئے کہنے لگی اچھا ہوا، بانو آ گئی۔ ابھی ہم تیرے گھر بلاوا بھیجنے ہی والے تھے۔جا شبنم کو سنبھال اور اسے کچھ سکھادے۔جانے کیا کچھ بول دے وہاں پر؟

بانو بولی: چاچی تم اب بالکل فکر نہ کرو، ہم لوگ سب سنبھال لیں گے۔جیسے ہی بانو شبنم کے پاس پہنچی،لگی شکاتیں کرنے ۔

’’ کیوں رے تو نے مجھے بتایا نہیں کہ لوگ تجھے دیکھنے آنے والے ہیں۔‘‘

اس سے پہلے کہ شبنم کچھ بولتی بانو نے کہا : 
’’چپ رہ اب زیادہ مت بول ورنہ بولنے کے لیے کچھ نہیں رہے گا۔ تجھے تو ابھی بہت کچھ بولنا ہے۔‘‘

پھرسب نے شبنم کو سنوارا ،بہت کچھ سکھایا اور اسے لے کر مہمان کے کمرے میں آئی۔
لڑکا کچھ خاص پڑھا نہیں تھا، پر اس زمانے کسی کو کلام پاک پڑھنا آتا ہو ،اردو ،ہندی لکھ لیتا ہو تو اسے پڑھا لکھا سمجھا جاتا تھا۔ لڑکا بھی بس اتناہی پڑھا تھا پر تھا ہوشیار ۔
اس نے شبنم کو دیکھا اور شبنم نے بھی اسے دیکھا۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند آگئے۔ 
اب باری تھی سوال جواب کی۔
لڑکا: تمہارا نام کیا ہے؟
لڑکی : شبنم ...شبنم رانی!
لڑکا.تمہیں قرآن پڑھنا آتا ہے ؟ اردو لکھ سکتی ہو؟؟
شنبم : مجھے پڑھنا لکھنا نہیں آتا۔ یہ بول کر وہ چپ ہوگئی ۔

تبھی بانو بول پڑی:
’’بھائی صاحب ! مانا کہ اسے پڑھنا نہیں آتا، پر گھر کا سارا کام کاج یہی توکرتی ہے ۔ چادر بھی کاڑھ لیتی ہے ، یہ جو پردہ لگاہے نا۔ اس پر یہ بیل بوٹے سب اسی نے بنائے ہیں۔ اس نے پڑھنے پر توجہ نہیں دی ،ورنہ ہم سب سے آگے نکل جاتی۔ اتنی تیز ہے ہماری شنورانی!

لڑکا اپنے ابو کے کان میں کہنے لگا:
’’اگر واقعی یہ اس قدر تیز ہے اور پڑھ سکتی ہے تو پھر شادی پکی، مگر اس شرط کے ساتھ کہ چھ ماہ بعدہماری سگائی ہوگی۔ اس چھ ماہ میں اسے کم ازکم قرآن پڑھنا تو آجانا چاہیے؟

باپ نے کہا: ’’ہاں مجھے لگتا ہے، یہ پڑھ لے گی!‘‘
پھرسب کے سامنے لڑکے کے والد نے لڑکی کے والدسے کہا:
’’ ہمیں یہ رشتہ منظور ہے اور اپنے بیٹے کی شرط کا اعادہ کیا۔‘‘
بانو کی اس تیز زبان نے بات توبنا دی اور مہمان چلے گئے، پر چھ ماہ میں شبنم جیسی کند ذہن لڑکی کو پڑھانا کوئی معمولی کام نہ تھا۔ خیر سب نے لڈو کھائے، پر بانو لڈوہاتھ میں لیے یہ سوچ میں غرق ہوگئی کہ کیا شبنم چھ ماہ میں قرآن پڑھ لے گی؟

اتنے میں شنبم نے اس کے ہاتھ کا لڈو اس کے منہ میں ڈال دیا ۔ ارے کھا: اب کیا سوچتی ہے۔ میں اتنی تیز ہوں نا ،تو اب توہی مجھے پڑھائے گی ۔ نغمہ چاچی بھی بول پڑی:
’’ ہاں بیٹی ۔اب یہ عزت تیرے ہاتھ میں ہے۔‘‘

بانو نے یہ سارا قصہ اپنی ماں کو آکر بتایا ،ماں نے بھی تسلی دی :
’’ بیٹی! واقعی تونے بہت اچھا کام کیا ۔پرتونےشبنم کی جھوٹی تعریف کرکے اسے آزمائش میں ڈال دیا ہے اب تو ہی اس کے لیے کچھ کر ۔اسے دن رات محنت کرکے پڑھا ،تاکہ وہ چھ ماہ میں اچھی طرح قرآن پڑھنے لگے۔

ماں کی باتیں سن کر بانو کو لگا کہ اب یہ میری ذمہ داری ہے۔ اگر میں نے ایسا نہیں کیا اور اسے نہ پڑھاسکی تو اس کا یہ رشتہ ٹوٹ جائے گا۔ بات پھیل چکی ہے۔ اگر رشتہ ٹوٹ گیا تو رسوائی ہوگی۔

پھر کیا تھا۔ بانو نے دن رات ایک کردیے ۔بارش کے موسم میں بھی وہ اپنے گھر سے سپارہ لے کر جاتی اور شبنم کو خوب پڑھاتی،یاد کراتی۔ دھیرے دھیرے وہ اس قابل ہوگئی کہ الفاظ کوپڑھ سکے ۔ ایک دن بانو نے شبنم سے کہا :

’’دیکھ بہن، یا تو تجھے یہ پڑھنا ہے یا پھر مرنا ہے۔ کیوں کہ تو بھی اسے پسند ہے اور وہ بھی تجھے پسند ہے۔ بیچ میں کوئی فاصلہ ہے تو وہ تیری پڑھائی کا ہے۔ بہن! اب وقت کم ہے ۔تجھے اور محنت کرنی ہوگی۔‘‘

یہ بات شبنم کے دماغ میں گھر کر گئی اور اس نے بھی جی جان لگادیا ، جس لڑکی کو حروف پہچاننے میں اتنی دشواری ہورہی تھی کہ بہ مشکل لفظوں کو ملا ملا کر پڑھنے کی کوشش کرتی تھی اب کچھ ہی دنوں میں وہ بہت اچھا قرآن پڑھنے لگی تھی اس طرح اس کی شادی کا خواب اسے پورا ہوتا دکھائی دینے لگا تھا۔

بالآخر وہ دن بھی آیا ۔شبنم دلہن بنی رخصتی کے وقت بانوسے لپٹی ہوئی روروکر ہلکان ہوئے جا رہی تھی۔بانوسوچ میں پڑ گئی کہ اس کا یہ رونا رخصتی کا ہے،یا اظہارتشکر کا ؟ میں شبنم نے روتے ہوئے کہا:

’’بہن !تیرا مجھ پر یہ احسان والدین سے بڑھ کر ہے۔اسے میں کبھی نہیں بھلا سکتی۔ سب نے مل کر اسے ڈولی میں بٹھا دیا اور وہ پیا کے گھر سدھار گئی۔
                                                  محب اللہ قاسمی

Tuesday 17 July 2018

Kahani ....HALALA


کہانی.....حلالہ

شاذیہ! تم جانتی ہو کہ ہماری شادی کو پانچ سال ہو گئے ہیں، مگر ہم ایک ساتھ سکون سے پانچ ماہ بھی نہیں رہ سکے ہیں۔ تم میری بات نہیں سنتی نہ مجھے تمہاری عادت اچھی لگتی ہے۔  ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بالکل خوش نہیں ہیں اور  ہماری کوئی اولاد بھی نہیں ہوسکی ہے۔ اب تم ہی بتاؤ، میں کیا کروں؟

ہاں، تم مجھے طلاق دے دو، مردوں کو تو طلاق دینے کا حق حاصل ہے، مجھے اپنے اس جہنم سے آزاد کردو...میں بھی تمہارے ساتھ رہ کر تنگ آ گئی ہوں، مجھے بھی تمہاری بہت سی عادتیں  اچھی نہیں لگتی ہیں، میں بھی تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔
 شاذیہ خلع کا تو تمہیں بھی حق حاصل ہے۔ تم  آئے دن ’ طلاق دے دو ‘، ’طلاق دے دو‘ چلاتی رہتی ہو۔پر میں ہمیشہ خود کوروکے رہتاتھا ،یہ سوچ کر کہ طلاق دینے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے ۔ پر آج تو تم نے حد کردی ہے۔ اب ہمارا تمہارا نباہ نہیں ہوسکتا ۔ ہم لوگوں کے گھر والوں کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں ۔میں نے تمہیں طلاق دی۔

شاذیہ کی عدت گزرتے ہی اس کےلیے ایک جگہ سے نکاح کا پیغام آیا، یہ رشتہ اس کے گھر والوں کومنظور ہوگیا۔ شادی کا دن مقرر ہوگیا۔ ساری تیاریاں ہوگئیں۔ مسجد میں لوگ نکاح کے لیے جمع ہوئے ہی تھے کہ اچانک پولیس کا ایک دستہ آیا اور نکاح  کی اس مجلس میں مداخلت کرتے ہوئے پولیس آفیسر نے کہا: مجھے پتا ہے کہ اس لڑکی کی شادی چند سال قبل فلاں گاؤں میں ہوئی تھی اور اس کی طلاق ہوگئی تھی۔ اب نئی شادی کراکے تم لوگ حلالہ کرارہے ہو۔ اس جرم میں لڑکے اور اس مجلس میں شامل تمام لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔

پولیس کی بات سن کر لوگوں کے ہوش اڑ گئے۔ وہ  کہنے لگے: یہ کیا بات ہوئی۔ لڑکی کے باپ نے کہا : میں اپنی بیٹی کی شادی کررہا ہوں۔ کیا طلاق کے بعد اس کی شادی دوسری جگہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اس میں حلالہ کی کیا بات ہوئی؟ 

لیکن پولیس آفیسرنے سخت لہجے میں جواب دیا : میں کچھ نہیں جانتا۔ تم لوگ حلالہ کرارہے ہو۔ اس پر مجھے گرفتار کرنے کا آڈر ہے، میں گرفتاری کا وارنٹ لے کر آیا ہوں۔ جو کہنا  ہے عدالت میں جاکر کہنا۔ اس سے  پہلے کہ لڑکا کچھ کہتا اسے اور اس کے باپ کو گرفتار کرکے کر جیپ میں بٹھاتے  ہوئے پولیس کی گاڑی دھول مٹی اڑاتے ہوئے  چل پڑی
محب اللہ قاسمی

Wednesday 18 October 2017

Beti - Short Story

 کہانی

بیٹی

بشری کو سرکاری نوکری مل گئی۔
جب شام کو گھر آئی ، ماں کے قریب جاکر بولی :
’’ماں ! منہ کھولو؟‘‘

 یہ کہتے ہوئے ڈبے سے مٹھائی نکالی اور جلدی سے ماں کے منہ میں ڈال دی۔
’’ماں آج تیری بیٹی کو نوکری مل گئی‘‘

’’سچ؟؟ میری بچی کو نوکری مل گئی ! اللہ کا شکر ہے! ‘‘یہ کہتے ہوئے ماں کی آنکھ سے خوشی کے آنسو نکل پڑے۔

’’ ماں اب تمہیں کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں!۔‘‘ بشری نے کہا۔

’’بیٹا ابھی تیری شادی باقی ہے۔تیرے ہاتھ پیلے کر نے کے لیے سامان تیار کرنا ہے۔ اس لیے میں جب تک کام کرسکتی ہوں کرنے دو۔ ‘‘ماں نے کہا۔

’’نہیں ماں اب تو کام پر نہیں جائے گی۔ بس!اب جو ہوگا میں دیکھوں گی۔‘‘ بشری نے ضد کی۔
’’ ٹھیک ہے۔اب میں کام نہیں کروں گی بس!‘‘

بشریٰ روزانہ صبح دفتر جاتی اور شام کو آتے ہی ماں کی خدمت میں لگ جاتی۔
ایک دن دفتر سے آنے کے بعد بشریٰ نے خلاف معمول ماں سے سنجیدہ لہجے میں پوچھا:

ماں میں نے جب بھی آپ سے ابا کے بارے میں جاننا چاہا تو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ تو پڑھ لکھ بڑی ہو جائے گا اورتجھے نوکری مل جائے گی تو سب بتاؤں گی۔ ماںاب تو مجھے نوکری بھی مل گئی ہے ! بتاؤ ناابا کے بارے میں،انھوں نے تو ہم لوگوں کو کیوں اکیلا چھوڑ دیا؟

والد کا ذکرآتے ہی ماں کی پلکیں بھیگ گئیں اوربولیں:
       بیٹا وہ درد ناک رات یاد کرکے کلیجہ منہ کوآ جاتا ہے۔ جب تومیری گود میں تھی۔تیرے ابو نے تجھے مارڈالنے کی کوشش کی کہ تو لڑکی کیوں پیدا ہوئی؟ بچانے لگی تو مجھے گھر سے نکال دیا۔میں تجھے لے کر اپنے منہ بولے بھائی محمود کے پاس گئی تاکہ میری مدد ہوسکے، لیکن گاؤں کا معاملہ تھا انھوں نے تمھیں دودھ لاکر دیا اور مجھے مجھے کھانا کھلایا لیکن گھر میں ٹھہرانے کو راضی نہ ہوئے۔آخر کار میں تجھے گود میں لے کر تاریک راہوں کا سفر طے کرکے ہائی وے تک پہنچی۔خدا خدا کرکے رات گزاری صبح سویرے ایک بس شہر کو جارہی تھی اس پر سوار ہو کر نئے لوگوں کے درمیان پہنچ گئی۔ تمام چہرے انجان کوئی رفیق نہیں۔

کرکے ہائی وے تک پہنچی۔خدا خدا کرکے رات گزاری صبح سویرے ایک بس شہر کو جارہی تھی اس پر سوار ہو کر نئے لوگوں کے درمیان پہنچ گئی۔ تمام چہرے انجان کوئی رفیق نہیں۔
پٹنہ میرے لیے نیا شہر تھا۔ نئے لوگ اور الگ طرح کی طرز زندگی دیکھ کرمیں  پریشان تھی مگر ہمت اور حوصلے سے کام لیا۔ اللہ نے ایک نیک بندے کو میرے پاس بھیج دیا۔ اس نے میری حالت دیکھ کرپوچھا۔

میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا:
’’صاحب جی! میں غریب دکھیاری ہوں ، میرے شوہر نے مجھے اور بچے کو گھر سے باہر نکال دیا ہے۔ اب یہاں کام کی تلاش میںآئی ہوں،کوئی کام مل جائے تو میں اپنے بچے کی پرورش کرسکوں۔‘‘

میری بات کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا :
’’ٹھیک ہے !آپ میرے گھر چلیے میری بیوی بچے ہیں ، وہیں گھر یلوکام کاج میں ان کا ہاتھ بٹانا اور وہیں رہ لینا، جب کوئی اوراچھا کام مل جائے گا تو پھرآپ چاہیں تو رکیںگی ورنہ کہیں بھی جاسکتی ہیں۔ اس طرح سر راہ کہاں بھٹکتی پھریں گی۔ راستے پر ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ‘‘

ان کی باتوں سے انسانیت جھلک رہی تھی۔
پھر میں  تجھے اپنے کندھوں پر اٹھائے ان کے گھر چلی آئی۔ ان کے گھر کاکام کاج کرنے لگی۔ جب تو بڑی ہوئی تو اسکول میں داخلہ کرایا گیا اور میں گھریلو کام کاج کے بعد ایک سلائی سنٹر میں کام کرنے لگی۔ تیرے اسکول کی فیس اور اخراجات پورے ہونے لگے۔

پھرماں نے گہری سانس لی اورتھکی ہوئیآواز میں بولی:
بیٹا ! میں تجھ سے یہ سب واقعہ نہیں بتائی تاکہ تیرے دل میں اپنے والد کے خلاف نفرت نہ پیدا ہوجائے آج تو بڑی افسر بن گئی ہے۔‘‘

میری خواہش ہے کہ تورتن پور جا اور ان کو اپنے ساتھ لیآنا۔انھیں ان ضرورت ہوگی۔یہ کہتے ہوئے ماں نے اپنی بات مکمل کی۔

’’ماں ! ابا نے آپ کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ جب ہمیں ان کی ضرورت تب تو کبھی پوچھا نہیں ، کسی سے معلوم بھی نہیں کیا کہ ہم کہاں ہیں، اب ہمیں ان کی کوئی ضرورت نہیں!میں ان سے ملنے نہیں جاؤںگی۔انھیں یہاں لاؤں گی‘‘

’’نہیں رے! یہ سب تو تقدیر کا کھیل ہے۔ جو ہوا سو ہوا۔ تمھیں خدا کا واسطہ تم ان کو ضرور لاؤگی۔‘‘

ٹھیک ہے ماں!یہ آپ کا حکم ہے تو میں ایسا ہی کروںگی۔ اب رات کافی ہوگئی چلو ہم لوگ کھانا کھائیں پھر سونا بھی ہے۔یہ کہتے ہوئیوہ ٹیبل پر پلیٹ لگانے لگی۔سردی کا موسم تھا ماں کو کھانا کھلانے کے بعد ان کو  ان کے کمرے میں بستر پر لٹا دیا اور لحاف ڈال کر پاؤں دبانے لگی۔ماں گہری نیند سورہی تھی اور میں اپنی جنت کے قدموں میں پڑی اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی کہ اس مالک نے ہماری آزمائش کے دن پورے کیے۔

٭٭٭
بچوں کی دنیا - اکتوبر2017





Tuesday 15 August 2017

Urdu Short Story : Waqt ki Dahleez par

وقت کی دہلیز پر

      محمد محب اللہ

’’ماں آپ ہروقت پڑھتی رہتی ہیں۔ یہ لومٹھائی کھاؤ!یہ میری پہلی تنخواہ کی مٹھائی ہے۔آج مجھے تنخواہ ملی ہے، اس لیے میں نے اس میں سے کچھ پیسے غریبوں میں بانٹ دیے ،کچھ کی میٹھایاں خریدی اور دفتر سے واپسی پر رشیدہ خالہ اور سمیہ پھوپھی اور صوفیہ بھابی سب کے گھر مٹھائی دے آیا۔‘‘
’’بہت اچھا کیا میرے لال!خوشی ہمیشہ مل بانٹ کر ہی مناتے ہیں۔‘‘ کتاب رکھتے ہوئے سلمی نے جواب دیا۔

اسی دوران خالد بھی آگیا: کیا بات ہے؟ خوب مٹھایاں کھائی جارہی ہیں؟ زید نے بلا تاخیر جواب دیتے ہوئے مٹھائی ابو کے منہ میں ڈالی اورپوری بات بتائی۔ خالد نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دعائیں دیں۔بیٹا آپ کی بڑی امی کہاں ہیں؟ سلمی نے کہ کہا:
’’ابھی میرے پاس ہی بیٹھی تھیں۔ شائستہ (بیٹی) آئی تھی کچھ دیر بیٹھی اور وہ دونوں بالائی منزل پرہیں۔‘‘

خوشی سے اچھلتے ہوئے زید نے کہا:’’ اچھا شائستہ آپا آئی ہیں۔ پھر تو میں ان کے پاس جارہاہوں۔انھیں بھی تو مٹھائی کھلانی ہے۔‘‘
اب سلمی نے خالد سے پیار بھرے انداز میں کہا : ’’کیوں جی آج بڑی تاخیر ہوگئی۔ خیریت تو ہے نا ۔‘‘
’’ ہاںذرا ٹرافک میں پھنس گیا تھا۔اور تم بتاؤ آج تو بہت خوش ہوگی ۔ بیٹے کو نوکری لگی اور اس کی مٹھائی بھی مجھ سے پہلے ہی کھا چکی۔‘‘سلمی کو چھیڑتے ہوئے خالد نے جواب دیا۔
’’کیوں جی آپ نے مٹھائی نہیں کھائی ۔اچھا اب باتیں بنانا چھوڑیے اور جلدی سے فریش ہوجائیے میں آپ کے لیے اچھی سی چائے بناکر لاتی ہوں۔‘‘
 یہ کہتے ہوئے سلمی کچن کی طرف چل پڑی۔آج سلمی بہت خوش تھی اس نے کیتلی لی فریز سے دودھ کا پیکٹ نکال کر اسے ابالنے کے لیے اور دودھ کیتلی میں ڈال دی پرانی یادوں میں کہیں کھوگئی۔

سلمی دین دار گھرانے سے تھی گاؤں والوں میں وہ گھرانہ دین داری میں مشہور تھا۔ اس کے والد سرکاری ٹیچر تھے۔ گھر میں دوبڑے بھائی اور اس سے تین چھوٹی بہنیں تھیں۔ خوشحال گھرانہ اورعمدہ ماحول کی وجہ سے اس کی فکر بھی بلند اور شعوری طور پر مضبوط عزم وارادہ کی مالک تھی ۔جذبہ ترحم اور ایثار کی مثال تھی ۔ اپنی سہیلی کی چھوٹی موٹی ضرورت پوری کردینا اور ان کے مشکل وقت میں کام آنا گویا اپنے والدین سے ہی سیکھ لیا ہو۔ مزید براں اس کی دینی تعلیم نے اسے مزید پختہ کار بنادیا تھا۔
اسی گاؤں میں ایک نیک صالح اور غیر معمولی شہرت کا حامل ایک ہونہار آدمی جس کا بچپن میں ہی نکاح ہوگیا تھا اور عین جوانی میں رخصتی ہوگئی۔ مگر بیوی کمزور شعور اورفطری طور پر کم عقل ہونے کے سبب یہ خوبرواور ہردل عزیز ذہین لڑکا اپنی ازدواجی زندگی میں ایسی بیوی کے احساس سے محروم رہا جواس کے دکھ درد میں اسے تسلی دے ۔ اس کی خوشی کو خوشی اور تکلیف کو تکلیف محسوس کرکے اسے حوصلہ دے۔ یا اپنی ذہانت سے کوئی رائے دے کر اس کو مشکل وقت سے نکلنے کا راستہ بتائے۔ کیوں کہ اس میں بیوی میں قدرتی طور پر یہ ساری خوبیاں نہیں تھیں جو عام طور پر خواتین میں ہوتی ہیں۔

الغرض زندگی کی گاڑی جیسے تیسے قدرت کی مرضی کے ساتھ چل رہی تھی۔ اس دوران اس کے کئی بچے بھی ہوئے ۔ وہ نہ صرف بچوں کی کفالت کرتا بلکہ اپنے والدین اور بھائی بہنوں کی دیکھ ریکھ اور ان کی کفالت بھی مریض والدکے سبب ان کے ہی کندھوں پر تھی۔

ایک روز سلمی کی سہیلی نے اس آدمی کے سلسلے میں اس کے سامنے بات رکھی اور اس کے حالات کے بارے میں بتایا۔سلمی ساری باتیں سنتی رہی پھر کہا: ارے ہاں وہ تو بہت اچھے انسان ہیں ۔میں نے کئی بار اپنے گھر میں ان کاتذکرہ سنا ہے۔خیر اللہ رحم کرے۔ بڑا ترس آتاہے اس پر۔پر خدا کی جو مرضی۔

اس پر اس کی سہیلی نے مذاق کے انداز میں اس سے کہا : ’’برا نہ مانوتو ایک بات کہوں؟ ‘‘
سلمی نے کہا: ’’ہاں بولو! میں تمہاری کسی بات کا برا مانتی ہوں!‘‘
سہیلی نے کہا:’’تم چاہوں تواس نیک، شریف انسان کی مدد کرسکتی ہو۔وہ بھی احسن طریقہ سے‘‘
سلمی نے کہا: ’’ہٹ پگلی ! میں کیا کرسکتی ہوں‘‘
سہیلی نے کہا:’’تو اس سے شادی کرسکتی ہے۔ اس طرح تو اس کی خانگی زندگی بہتر اور مستحکم بناسکتی ہے۔یہ کوئی بری بات بھی نہیں ۔ تیرے ابوکے قاسم چاچاسے اچھے تعلقات ہیں وہ دونوں اچھے دوست ہیں۔‘‘
سلمی نے کہا:’’تو بھی نہ کیسی کیسی بات لے آتی ہے!‘‘

سہیلی کے جانے کے بعد سلمی نے اس کی بات کو ہوا میں اڑا دیا۔ وقت گزرتا چلا گیا۔اسی دوران اس کا نکاح ہوگیا ۔ایک دن خبر آئی کہ سلمی کا جس سے نکاح ہوا تھا، اس لڑکے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور موقع پر ہی اس کا انتقال ہوگیا۔اس طرح سلمی رخصتی سے قبل ہی بیوہ ہوگئی۔ 
کچھ دن بیت گئے۔ سلمی کے والد کو اپنی بیٹی کی شادی کا خیال ستانے لگا ۔ اس نے اپنے دوست قاسم سے اس کا تذکرہ کیا۔قاسم بھی اپنے دوست کی پریشانی سے دکھی تھا۔ اس نے ایسے ہی اپنے گھر میں اس کا تذکرہ کردیا۔ اس پر خالد نے کہا:
’’بہت افسوس ہے ۔ خیر اس کی کہیں اور شادی کردی جائے ! ‘‘

قاسم نے کہا : ’’بیٹا!تو ابھی نہیں جانتا ۔ اس کے والد ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تھوڑی ہی بیٹھے ہیں ۔ یہاں سماج کا حال یہ ہے کہ اس سے شادی کرنے کو معیوب سمجھا جارہاہے۔ کون کرے گااس سے شادی ؟ جہاں کہیں رشتہ کی بات ہوتی ہے ، بیوہ سنتے ہی بات ختم کرلیتے ہیں۔ غیر قوموں کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی لوگ بیوہ سے شادی کرنے سے کتراتے ہیں۔کاش میرے دوسرے بچے بڑے ہوتے !‘‘

اس پر خالد نے کہا:’’اگر یہ بات ہے ابوجان …تو آپ میرے عقدثانی کا پیغام ان کے گھر بھجوادیجیے۔ویسے بھی اسلام میں چارشادیوں کی گنجائش ہے۔ اگر انھوں نے قبول کیا تو ٹھیک ورنہ آپ کی طرف سے بات تو پوری ہوجائے گی اور آپ اس سماجی برائی کا حصہ بننے سے رہ جائیں گے۔‘‘

قاسم کو اپنے بیٹے کی یہ بات بھلی لگی۔ پر اس کے ذہن میں کچھ سوالات ابھرنے لگے۔
اس نے بیٹے سے پوچھا’’بیٹا ایک تو تو ویسے ہی تمام گھریلو اخرجات کی ذمہ داری تیرے سر ہے اور میں بیماری کی وجہ سے کچھ کر نہیں پاتا۔ایسے میں تو…!‘‘خالدنے اپنے والد کی بات پوری کرتے ہوئے کہا:
’’ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ میں اس کی کفالت کیسے کرسکوںگا۔ آپ اس کی فکر نہ کریںایک آدمی کے بڑھنے سے اخراجات بہت زیادہ نہیں بڑھیں گے اور پھر ہر آنے والا اپنا رزق اپنے ساتھ لے کر آتاہے۔ اللہ تعالی برکت دے گا۔ وہ کوئی نہ کوئی صورت ضرورنکال دے گا۔‘‘

اب قاسم کو کسی طرح کا کوئی تردد نہ رہا وہ اپنے دوست سے بات کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ دوست کے گھر جاکر ساری باتیں اس کے سامنے رکھ دی۔

سلمیٰ اپنی ماں کے ساتھ گھر میں بیٹھی ساری باتیں سن رہی تھی اور اپنی سہیلی کی پرانی باتوں کو یاد کرنے لگی ۔آج خالد اس کی نگاہ میں ایک عظیم انسان کی تصویر میں ابھر کر اس کے سامنے کھڑا تھا۔

’’بیٹی !کہاں کھوگئی ؟تو راضی ہے نا؟‘‘بیٹی کو جھنجھوڑتے ہوئے سلمی کی ماں نے اس سے پوچھا۔
 سلمی نے کہا : ’’ماں! مجھے ذرا سوچنے کا وقت دو۔‘‘
 اس جواب پر قاسم نے کہا کوئی بات نہیں بیٹی! تجھے انکار کرنے کا پورا ختیار ہے۔ ایسی کوئی جلد بازی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی زور زبردستی ہے۔ میں اپنے بیٹے کو جانتا ہوں ۔ وہ تیرے حقوق کی ادائیگی میں ذرا بھی فرق نہیں آنے دے گا۔ 

چند ماہ بعد سلمی نے حامی بھر لی۔اور بیوہ بن گئی سہاگن۔ اس طرح اس نے اسلام کے اس قانون کو عملی طورپر بہتر محسوس کیا جسے وہ کبھی کتابوں میں پڑھ کر آئی تھی۔

ابھی دودھ ابل کر بہنے ہی والا تھا کہ خالد نے آواز دی سلمی کیا ہوا … ’’چائے بنارہی ہو یا بربل کی کھچڑی۔‘‘
سلمی چونکی ۔اس نے فوراً کیتلی چولہے سے اتارتے ہوئے کہا ۔ ابھی لا رہی ہوں، ذرا صبر کرلو۔اور اللہ کا شکر ادا کیا۔

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...