Showing posts with label Other. Show all posts
Showing posts with label Other. Show all posts

Friday 6 January 2023

Safar Hyderbad

معروف ادارہ کی مشہور شخصیت سے یادگار ملاقات

وادی ہدی سے قریب زمین سے کافی اونچائی پر حیدرآباد میں واقع ایک وسیع و عریض ادارہ المعہد العالی الاسلامی جو فارغین مدارس اسلامیہ کو علم و تحقیق کا عمل سکھانے اور انھیں معاشرے میں بہترین مربی و رہنما کی حیثیت سے خدمت انجام دینے کے لیے تیار کرتا ہے جو اسلام کے داعی بن کر اس کے حقائق کو عام کریں اور برادران وطن کے سامنے اس کی اصل خوبیاں پیش کر سکیں جن پر غلط فہمی اور منافرت کی دبیز چادر ڈال دی گئی ہے.

یہ ادارہ میں میری پہلی حاضری تھی۔بلندیوں پر چڑھتے ہوئے جب یہ ادارہ میری نگاہوں کے سامنے آیاتو زبان سے فوراً نکلا سبحان اللہ!  

ہم ادارہ میں پہنچے ایک ایک کر کے تمام شعبوں کا جائزہ لیا، جن میں تفسیر، فقہ، مطالعہ مذاہب اور انگریزی قابل ذکر ہے. چوں کہ تعلیم جاری تھی اساتذہ پڑھانے میں مشغول تھے. اس لیے ان سے کوئی بات نہیں ہوسکی۔ہم  ادارہ کی لائبریری میں چلے پہنچے جہاں ایک نوجوان موجود تھے۔ ان سے تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ دارالعلوم دیوبند 2007 بیچ کے تھے ۔ ان سے لائبریری کے متعلق باتیں ہوئیں ۔پتہ چلا کہ یہاں مختلف موضوعات پربیس ہزارکتب موجود ہیں.

پھر ہم لوگ طلبہ کے ہوسٹل میں گئے، جو کافی حد تک ٹھیک ٹھاک لگا۔ وہاں دو تین لڑکوں سے باتیں کیں۔حضرت مولانا کی آمد کا وقت ہو گیا تھا. اس لیے ہم لائبریری بلڈنگ سے اتر کر مہمان خانے والے دروازے سے باہر نکل ہی رہے تھے کہ اچانک سامنے محترم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اپنے معاون مولانا شاہد صاحب کے ساتھ جلوہ نما ہوئے ۔

میری نگاہ مولانا پر پڑی، سلام کرتے ہی مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا دیا. مولانا نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا : کیا توصیہ لینے آئے ہیں؟ میں نے فوراً  کہا : نہیں! محترم آپ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔

اچھا... کہتے ہوئے آپ کمرے میں چلے گئے. تھوڑی دیر بعد مولانا شاہد صاحب آئے اور کہنے لگے : مولانا آپ لوگوں کو بلا رہے ہیں۔ اس طرح میں اور ابصار الخیران قاسمی کمرے میں گئے اور پھر مولانا سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔

یہ پہلا ایسا موقع تھا جب میں فقیہ العصرعظیم مفکر اور علوم اسلامیہ کے ترجمان مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب سے باقاعدہ ملاقات و گفتگو کر رہا تھا۔یوں تو آپ جماعت اسلامی ہند کے بہت سے پروگراموں میں شریک رہے ہیں۔ مگر تبادلہ خیال کا یہ موقع میرے لیے پہلی بار کا تھا۔ جو بہت خوش گوار دلچسپ تھا۔تعارف کے بعد میں نے کہا: محترم ہم لوگ یہاں وادی ہدی میں سہ روزہ تربیتی اجتماع برائے مربی داعی رہنما کے پروگرام میں آئے تھے۔ سو آپ سے ملاقات کی خواہش میں  یہاں آ گئے۔ مولانا فرمانے لگے: ہاں وادیٔ ہدی یہاں قریب میں ہی ہے۔ میں وہاں ایک اسپتال کے سنگ بنیاد والے پروگرام میں شریک رہا ہوں۔سید سعادت اللہ حسینی صاحب سے میرے اچھے تعلقات ہیں۔ گفتگو کے دوران کئی موضوعات زیر بحث آئے، مگر مولانا نے خاص کر جس پر تفصیلی گفتگو کی وہ درج ذیل ہیں:

نئی تعلیمی پالیسی کے تحت آپ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اب نصاب میں کافی کچھ تبدیلیاں ہوں گی ۔ اسی پر بس نہیں ہے، بلکہ ریاضی جیسے پرچے میں بھی وہ غیراسلامی چیزیں پیش کررہے ہیں جس سے نئی نسل پر اسلام کے تعلق سے غلط بات بھی پروسی جائیں گی۔ اس لیے ضرورت ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ لوگوں کی ٹیم اس پورے نصاب پر نظر رکھے۔ جہاں ایسی کوئی بات آئے اس کی نشاندہی کرے۔اس پر میں نے کہا : محترم، اس تعلق سے جماعت اسلامی ہند کے لوگ کافی کچھ کررہے ہیں اور ان کے یہاں تو باقاعدہ تعلیم کا شعبہ قائم ہے جو نصاب تیار کرتا ہے اور ان سب چیزوں پر گہری نظر رکھتا ہے۔ مولانا فرمانے لگے: ہاں ! مگر جماعت اسلامی کو وہ عوامی مقبولیت حاصل نہیں ہے، اس وجہ سے ان کے کام کو مقبولیت حاصل نہیں ہو پاتی۔

مسلمانوں کی زبوحالی کاپر تذکرہ کرتے ہوئے مولانانے کہا: اس وقت امت کو مدرسے سے زیادہ اچھے اور معیاری اسکولوں کی ضرورت ہے، جہاں بچوں کو بنیادی اور اچھی تعلیم دی جا سکے اور انھیں عصری علوم کے ساتھ دینی تعلیم کا وہ ضروری حصہ پڑھایا جائے جس کا جاننا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔اس وقت غیر ضروری مدارس ، بے سلیقہ تعلیم اورکاغذوں پر موجود تعلیم گاہوں کی بہتات ہے جس سے اچھے اور میدان عمل میں بہتر  کام کرنے والے حضرات کے کام اور ادارے متاثر ہوتے ہیں۔ مسلمانوں میں تعلیم کا گراف اوپر نہیں آ پاتا۔ ہمارے نوجوانوں کی بہترین کاؤنسلنگ ہو اور انھیں اعلیٰ تعلیم کے لیے مواقع فراہم کیے جائیں۔ خاص کر وکیل، ڈاکٹر اور انجینئرس تیار ہوں، جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ اپنی گفتگو میں آپ نے بیدر کرناٹک کے شاہین گروپ کا تذکرہ کیا اور ان کی کاوشوں کو خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے میدان میں اچھا کام کر رہے ہیں۔

بہارمیں تعلیم کی کمی،غربت اور پسماندگی پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا نے کہا: مجھے وہاں کی بڑی فکر رہتی ہے ۔ بڑی تعداد میں بچے تعلیم سے محروم رہ جاتےہیں۔ معاشی پس ماندگی بھی ہے اور تعلیم کی جانب توجہ کی کمی بھی ایک سبب ہے۔ پھر آپ نے اخترالایمان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سیمانچل کی بڑی آبادی کھیتی باڑی کرتی ہے۔ کسان بہت ہیں، مگر غربت نے انھیں ایسا جکڑا ہوا ہے کہ وہ غیر مسلم بنیا سے قرض لے کر کھیتی باڑی کرتے ہیں اور ان سے ہی اپنا سامان فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس کی انھیں بہت کم قیمت ملتی ہے،ان کے لیے فصل لگاتے وقت قرض کا معقول انتظام ہو جائے اور وہ اپنی فصل کٹائی کے بعد مناسب در پر فرخت کرنے کے مجاز ہوجائیں تو ان میں خوش حالی آئے گی اور وہ اپنے بچوں کو مناسب تعلیم دے سکیں گے۔

برادر ابصار خیران نے کہا: محترم میں نے اپنے علاقے میں بچوں کے لیے ایسے ہی ادارہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے جہاں ابتدائی درجہ سے پانچویں کلاس تک کی تعلیم دی جائے جس میں بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے آگاہی ہو پھر اسے مزید آگے بڑھایا جاسکے۔ میں ایک تاجر ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس میدان میں سرمایہ کاری کی جائے۔اس پر مولانا بہت خوش ہوئے اور انھیں دعائیں دیں۔

گفتگو کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور میں دل ہی دل پریشان ہو رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم لوگ مولانا کا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہوں اور بعد میں مولانا محسوس کرے کہ وقت ضائع ہوگیا۔ مگر خود بھی بہت کھل کر بات کر رہے تھے اور نوجوانوں سے بڑے پرامید تھے۔ اس لیے پوری توجہ نئی نسل کی بہتری پر تھی اور اس کے لیے بہت سے مشورے بھی دے رہے تھے۔ سو میں نے بھی گفتگو طویل کر دی۔

میں نےمولانا سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ محترم، میں نے اس ادارہ میں، جو کہ تحقیق و تخصیص کا ہے، تقابل ادیان پر کوئی شعبہ نہیں دیکھا جہاں دیگر مذاہب کا جائزہ لیا جائے ۔ اس پر مولانا نے فرمایا کہ ہمارے مطالعۂ مذاہب کا شعبہ ہے اور اسی سے ہم یہ کام انجام دے رہے ہیں۔ تقابل ادیان وغیرہ کا لفظ چوں بہت زیادہ مفید نہیں ہے، اس لیے اس کا استعمال نہیں کیا گیا۔اس کے ساتھ ہی میں نے ایک اور سوال کر دیا ۔ محترم اس ادارے میں مسالک وغیرہ کا تو معاملہ نہیں ہے ،کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ امت میں اس کی وجہ سے بہت افتراق کا معاملہ ہے۔ ایسے حالات میں بھی امت میں مسالک کو لے کر شدت پائی جاتی ہےاور لوگ امت واحدہ کی شکل میں ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھ پاتے ۔ اس پر مولانا نے فرمایا: بھئی ہمارئے یہاں یہ مسئلہ نہیں ہے۔ چنانچہ یہاں صرف دیوبندی مکتب فکر کے طلبہ ہی نہیں ہوتے، بلکہ دیگر مکاتب فکر کے ریسرچراور اسکالر بھی ہوتے ہیں جو علم و تحقیق کے میدان میں آگے پڑھنےاور بڑھنے کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ اس وقت امت کو متحد ہوکر کوشش کرنی چاہیے۔ اسلام کی دعوت ، خدمت خلق کا کام اوردنیا اور آخرت میں سرخ روئی کے لیے  عوام الناس کے سامنے فکرآخرت کا پیغام عام کرنا چاہیے۔

ہم لوگوں نےمولانا محترم کا کافی وقت لے لیا تھا ۔ اس لیے رخصت کی اجازت طلب کی اور وہاں سے واپس آگئے۔ادارہ سے باہر آئے کچھ دور ہی چلے تھے کہ اچانک مولانا شاہد صاحب پھر مل گئے کہنے لگے: ارے بھائی !مولانا ان دنوں جلدی کسی سے نہیں مل رہے ہیں تھوڑی طبیعت وغیرہ کا مسئلہ رہتا ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا وہ گلے میں پٹی لگائے ہوئے تھے اور کم ہی گفتگو بھی کرتے ہیں مگر آپ لوگوں سے تو کافی دیر تک بات کرتے رہے۔ ہم نے کہا : یہ سب اللہ کا کرم ہے۔ پھر ان سے بھی کچھ چیزیں پوچھ لیں ۔ آپ مولانا کے ساتھ رہتے ہیں؟ انھوں نے کہا :ہاں! تفہیم شریعت کا کواڈینٹر ہوں، لوگوں سے رابطہ وغیرہ کرنا رہتا ہے۔ زیادہ تر مولانا کے ساتھ ہی رہنا ہوتا۔ مولانا پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری ہیں اس لیے ابھی میں یہاں ان کے ساتھ ہوں۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے، دہلی میں ضرور ملاقات ہوگی۔

دل ہی دل خیال آیا ۔اف...مولانا محترم سے پرسنل لا بورڈ کے تعلق سے کوئی بات ہی نہیں ہوئی ۔ پھر دل خود ہی مطمئن ہو گیا کہ پہلی ہی ملاقات میں کیا پوری داستان سنوگے۔ مولانا سے ملنے کا پھر کبھی موقع نکالنا اور جو بات کرنی ہے پھر کر لینا اور یہ خیال لیے ہوئے واپس ہم وادیٔ ہدی پہنچ گئے۔

 

محب اللہ قاسمی

(دوران سفر حیدرآباد 13 تا 23 دسمبر 2022)

 

 

 

 

 


Tuesday 26 July 2022

Fatma Chak Whatsapp Group Sathiyon ke nam

 

باسمہ تعالی

فاطمہ چک شیوہر بہار واٹس ایپ گروپ ساتھیوں کے نام

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

امید ہے کہ آپ حضرات بہ خیر ہوں گے۔

یہ گروپ گرچہ گاؤں کے لوگوں کو ایک ساتھ جوڑے رکھنے اور ایک دوسرے کے حال و احوال جاننے کے لیے اور جو دو دراز رہتے ہیں ان کے حالات معلوم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ جس میں روزانہ کچھ نہ کچھ گاؤں کے احوال، شادی بیاہ کے سلسلے میں انتظامات سے متعلق معلومات۔ کہیں ولادت تو کہیں مرنے کی خبر، کبھی علاج و معالجے اور پریشان حال لوگوں کے لیے تعاون کی شکل پر غور و خوِِض تو کبھی مسجد، عید گاہ اور امام صاحب سے متعلق پیغامات موصول ہوتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ گاؤں ہزاروں کلو میٹر دور لوگ سب ایک جگہ جمع ہیں اور آپس میں جڑے ہوئے ہیں جو کہ بڑی اچھی بات ہے اور اس راہ میں کوشش کرنے والے جزائے خیر کے مستحق ہیں اللہ انھیں جزائے خیر عطا کرے۔ آمین

 

مجھے لگتا ہے کوئی بھی کام کو اچھا کرنے کے لیے جب کہ وہ ٹیم ورک ہو اسے منظم کرنا ضروری ہے۔

ساتھ ہی ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم اپنی دینی معلومات میں کس طرح اضافہ کریں۔ اپنے دین کو کیسے سیکھیں۔ ہمارے ہر معاملے میں دین شامل ہے تو اپنے معاملات کو دیکھیں اور اس میں ہمارا دین کیا کہتا ہے اس پر بھی توجہ دیں۔ یہ عمل بہت ضروری ہے۔ ہم اپنے معاملات کو درست رکھیں کہ اس نئی نسل کے لیے ہم کیسے آئیڈیل بنیں کیوں کہ بچے اپنے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں ہم اچھے ہوں گے تو ہماری نسل اور گاؤں کا مستقبل اچھا ہوگا۔

مجھے لگتا ہے کہ اپنے گاؤں کہ اہل ثروت اور پیسے والے لوگ ان نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیں جو تعلیم کے تئیں لگن اور دلچسپی رکھتے ہیں مگرمالی حالت کی کمزوری کے باعث وہ آگے پڑھ نہیں پاتے یا ان کے پاس کوچنگ کی فیس بھرنے کی سکت نہیں ہوتی۔

 

اسی طرح دانش ور حضرات بچوں کی کاؤنسلنگ کے بارے میں سوچیں اور ان سے معلوم کریں کہ وہ آگے کیا کرنا چاہتے ہیں اور ان کے لیے مناسب مشورہ دیں کہ وہ کس میدان جائیں تو بہتر ہوگا۔ یاد رکھیے آج جو صاحب ثروت ہیں کوئی ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ مال دار ہی رہیں گے یا جو آج غریب ہیں یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ غریب ہی رہیں گے یا جو اہل دانش ہیں وہ ہمیشہ باقی رہیں گے مگر ہماری ایک کوشش جس سے کسی دنیا و آخرت بن سکتی ہے تو اس جانب ضرور توجہ دینی چاہیے ہم رہیں نا رہیں ہماری نسل آگے بہتری کی طرف گامزن ہو اور نیک رستے پر چلے جس سے وہ دونوں جہاں میں کامیاب ہو یہی ہمارا سرمایہ ہوگا۔

 

کوشش کی جائے کہ منفی سوچ اور منفی خیالات و جذبات کو دل سے نکالیں بلکہ لوگوں میں کمیاں خامیاں تلاش کرنے کے بجائے ان کمیوں کو ہم کیسے دور کر سکتے ہیں اس پر توجہ دیں۔

 

دوسری بات سیکھنے کا عمل تو ایسا ہے جو تا عمر جاری رہتا ہے اس لیے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب ہم سیکھے سکھائے ہیں یا تربیت یافتہ ہیں ہمیں سیکھنے اور تربیت کی ضرورت نہیں۔ یہ عمل تو ماں کی گود سے قبر کی گود تک جاری رہتا ہے۔ لہذا ہمیں سیکھنا چاہیے۔

اسی غرض سے کبھی کبھی میں اسلامی کوئز جو بڑی محنت سے تیار کرتا ہوں اس کا لنک ڈال دیتا ہوں کہ جہاں ملک و بیرون ملک کے لوگ اس سے استفادہ کرتے ہیں وہیں ہمارے گاؤں کے لوگ بھی اس میں شامل ہوں اور اپنی معلومات میں اضافہ کریں یا اسے دہرا لیں۔

 

اسی طرح ہم پر جن کے حقوق عائد ہیں ان کی ادائیگی کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ اس پر غور کریں۔ مثلا والدین کے حقوق پڑوسیوں کے حقوق اعزا و اقربا کے حقوق اور اور واجبات کو کیسے پورا کریں اس پر بھی توجہ دیں۔

یقین جانیے تبھی ہم اپنے لیے بھی مفید بن سکیں گے اور اپنے اہل خانہ سمیت پورے گاؤں اور علاقہ کے لیے کار آمد ثابت ہوں گے اور ہمارا معاشرہ پر امن اور خوش حال ہوگا۔

اللہ تعالی ہم سب کو حسن عمل کی توفیق بخشے۔

طالب دعا آپ کا بھائی

محب اللہ قاسمی،فاطمہ چک شیوہر بہار

Tuesday 19 July 2022

Fatma Chak ek aisa gawon bhi!

فاطمہ چک - ایک گاؤں ایسا بھی!

میری دلی خواہش تھی کہ گاؤں میں ایک ایسی درس گاہ (اسکول) جس میں دینی و عصری تعلیم دی جاتی ہو اس کا قیام ہو۔ اسی طرح لڑکیوں کے لیے ایک اچھا ادارہ قائم کیا جائے جہاں نہ صرف گاؤں کی لڑکیاں بلکہ دور دراز لڑکیاں بھی دینی و عصری تعلیم سے آراستہ ہو کر قوم و ملت اور بہترین سماج میں معاونہ ہو۔

غریب بچوں کے لیے حسب سہولت اسکالر شپ کا نظم اورلڑکیوں/عورتوں کے لیے ایک سلائی سنٹر جہاں سے انھیں نہ صرف سلائی سیکھنے کا موقع ملے بلکہ دینی ماحول میں دین کی بات سیکھنے کا بھی موقع ہو اور ان غریب بچیوں کو جو وہاں سے سلائی سیکھ لیں انھیں ان کی شادی کے موقع پر تحفۃ سلائی مشین دی جائےاور لڑکوں کو ہائرایجویشن کے لیے ان کی بھرپور رہنمائی اورمدد کی جائے۔

معمولی علاج و معالجہ کے لیے چھوٹا سا عام چیریٹیبل کلینک کا قیام ہو جہاں سے غریبوں اور ضروت مندوں کے لیے معمولی علاج ومعالجہ کی سہولت ہو۔ جس کے ذریعہ خدمت خلق اور دعوت دین کا کام بھی آسانی سے ہوسکتا ہے۔ 

قدرتی آفات سے متاثر لوگوں کے لیے فوری راحت رسانی کا کام انجام دیا جائے اس کے لیے ایک نظم قائم ہو تاکہ مصیبت زدگان کے لیے فوری اور بہتر انداز میں ان کی راحت رسانی کی خدمت ہو سکے کیوں کہ اسلام نے خدمت خلق کا وسیع تصور دیا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہے۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے اہل خیر حضرات سے رجوع کیا جائے، جن کی جتنی پہنچ اور سکت ہے وہ ان کاموں میں حصہ لیں۔ فارغین مدارس اور فارغات کا تعاون لیا جائے اور گاؤں کے دوسرے عصری علوم کے ماہرین سے ان کی خدمات حاصل کی جائے، سب کی کوششیں ہوں گی تو ہمارا گاؤں واقعی مثالی گاؤں ہوگا تعلیمی میدان میں ضلعی سطح پر فوقیت رکھنے والا یہ گاؤں اپنے وقار کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے معیار کو مزید بلند کرنے میں بھی کامیاب ہوگا اور بہت سے خرافات سے محفوظ بھی رہے گا۔ 

یہ میری خواہش اور اس کام کو کر گزرنے کا جذبہ ہے فی الحال ایک خواب ہے، اللہ جانے میرا یہ خواب کب شرمندۂ تعبیر ہوگا۔ مجھے لگتا ہے کہیں میں نے کچھ زیادہ ہی خواب دیکھ لیا ہے پر یہ بھی حقیقت ہے کہ خواب دیکھنے والے ہی اس کی تعبیر تلاش کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے ہمارے گاؤں کے سارے لوگ ایسا سوچتے ہوں گے بلکہ اس سے بہتر پلان رکھتے ہوں گے اور ہم باہم ایک دوسرے کے تعاون سے ہی بڑے اہداف کو حاصل کرنےمیں کامیاب ہو سکیں گے۔ میں نے بہت  کچھ اپنے والد صاحب کو ایسا کرتے دیکھا، سنا اور ان سے سیکھا ہے جو اپنی بہت سی  بشری کمزوری و کوتاہیوں کے باوجود خدمت خلق میں نمایاں کردار ادا کر چکے ہیں۔ اللہ تعالی انھیں غریق رحمت کرے اور جنت میں اعلی مقام بخشے۔

اللہ تعالی سے امید رکھتا ہوں اور حتی الامکان کوشش کرتا ہوں اور توقع ہے کہ گاؤں والے بھی اس کار خیر میں ایک دوسرے کے معاون ہوں گے۔ اللہ تعالی بہترین کارساز ہے۔ حسبنا اللہ و نعم الوکیل ...نعم المولیٰ و نعم النصیر!
محب اللہ قاسمی

Wednesday 20 October 2021

Aaah ....Mere Dost ke Walid ka Inteqal

 

آہ.... میرے دوست کے والد کا انتقال

یوں تو میرے بچپن میں بہت سے دوست ہوئے، جسے حتی الامکان نبھانے کی میں نے بڑی کوشش کی اور آج بھی نبھانے کی سعی کرتا ہوں. کچھ پٹنہ میں اسکولنگ کے دوران دوست اور کلاس میٹ ہوئے تو کچھ وہاں سے لوٹ کر گاؤں آیا تو گاؤں میں کچھ بچپن کے یار بنے تو کچھ مدرسے میں میرے دوست ہوئے تو کچھ دارالعلوم دیوبند میں ملک مختلف حصوں سے کلاس میٹ کی شکل میں بھی دوست بنے. اب دہلی میں ہوں تو یہاں بھی میرے بہت سے ساتھی اور دوست ہیں.

لیکن ابھی میں جس دوست کا ذکر کر رہا ہوں وہ میرے پچپن کا ایسا دوست ہے جہاں سے میں نے جانا کہ دوستی کسے کہتے ہیں. چھٹیا یعنی چھوٹے یہ اس کا نام نہیں ہے. اس کے گھر والے اور گاؤں لوگ اسے پیار سے اسی نام سے بلاتے ہیں ویسے اس کا اصل نام مطیع اللہ ہے. جو میری ہی طرح اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑا ہے. آج صبح (15 اکتوبر 2021) واٹس ایپ پر فاطمہ چک گروپ کے ذریعہ اطلاع ملی کہ ان کے والد محترم محمد معراج صاحب کا طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا. انا للہ وانا الیہ راجعون!

موصوف ایک نیک صفت، جفا کش، محنتی اور کم گو انسان تھے. نماز کے پابند اور گاؤں کی مسجد میں اذان دینے کے خواہش مند رہتے، جس کے لیے وہ وقت سے پہلےمسجد پہنچنے کی تیاری کرتے اور وقت پر اذان دیتے تھے. وہ کافی محنتی تھے یہی وجہ ہے کہ بڑی محنت سے تجارت کی اور اللہ نے اس کی برکت سے گھر میں خوش حالی عطا کی. مکان بنایا اپنے دو بیٹوں کو تجارت میں لگایا اور انھیں بھی آگے بڑھایا. ایک چھوٹا لڑکا جسے کافی پڑھایا لکھایا. اس طرح ایک بیٹی اور تین بیٹے سب کی شادی کر اپنی ذمہ داری پوری کی.

 ادھر کافی دنوں سے آپ بہت بیمار چل رہے تھے. چوں کہ موت ایک حقیقت ہے سو موت نے انھیں اپنی آغوش میں لے لیا اور آپ دار فانی کو چھوڑ گئے اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے. 25 جنوری 2019 کو میرے والد محترم کے انتقال کا سانحہ پیش آیا اور آج دو سال بعد میرے دوست کے والد چل بسے. اولاد کے لیے والد کا سایہ عاطفت کیسا ہوتا ہے اسے وہی محسوس کر سکتا ہے جس کے والد کا انتقال ہوگیا ہو.

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے ان کی کمی کوتاہیوں کو معاف کرے، ان کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس اعلی مقام بخشے اور اہلیہ، تین بیٹے اور ایک بیٹی سمیت تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے.       محب اللہ قاسمی

 

Yadgar Sham Maulana Abdul Ghaffar sb se Mulaqat

یادگار شام کی خوبصورت ملاقات

مغرب سے قبل جب میں اپنے دفتر کے کچھ کام میں مصروف تھا اچانک شمس الحسن چا کا فون آیا. کہنے لگے:

"محب اللہ میں کئی دنوں سے دہلی شاہین باغ میں ہوں پرسوں گھر واپسی ہے. میں چاہتا ہوں کہ مولانا عبد الغفار صاحب سے ملاقات کروں تمہیں فرصت ہو تو چلو"

 بڑوں کی بات میں جلدی نہیں ٹالتا جب کہ وہ کسی اچھے کام کے لیے کہہ رہے ہوں اور یہ بات تو ایسی تو جو میری خواہش کی تکمیل تھی. کیوں کہ مولانا عبدالغفار صاحب واحد ایسی محترم شخصیت ہیں جو میرے اور میرے والد مرحوم کے مشترک استاذ ہیں جو علوم دینیہ کے علاوہ سائنس، ریاضی اور اردو ہندی کے ساتھ انگریزی میں بھی کافی مہارت رکھتے ہیں.

... خیر میں فوراً تیار ہوا اور شمس الحسن چا اور ڈاکٹر اسد اللہ صاحب کے ہمراہ تین اشخاص پر مبنی یہ قافلہ بعد نماز مولانا مولانا کے گھر جوگابائی ایکسٹینشن جامعہ نگر پہنچا.

الحمدللہ تقریباً دو دہائیوں کے بعد مولانا محترم سے میری یہ ملاقات ہو رہی تھی اور بڑے بزرگوں کی محفل میں بیٹھنے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے سو ہم لوگوں نے بھی تقریباً دو گھنٹے پر مشتمل اس مختصر سی محفل میں متنوع موضوعات پر سیر بحث گفتگو کی اور بہت کچھ سیکھا. رخصت کی اجازت سے قبل اپنی تین کتابیں (شخصیت کی تعمیر اسلام کی روشنی میں، رمضان المبارک اور شخصی ارتقاء ، افسانوی مجموعہ کشمکش) مولانا محترم کی خدمت میں پیش کیں آپ بہت خوش ہوئے اور اپنے صاحب زادے کی تصنیف کردہ ایک کتاب نشان راہ ہمیں عنایت کی جسے لے کر ایک یاد گار شام کی خوبصورت ملاقات کے ساتھ ہم لوگ واپس چلے آئیں.

اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ مولانا کو بہ صحت و عافیت رکھے اور ہمیں دین پر عمل کرتے ہوئے خدمت دین کا جذبہ عطا کرے آمین.       محب اللہ قاسمی

Wednesday 11 August 2021

Faramosh hote elaqae Idare

 

فراموش ہوتے ہمارے قدیم علاقائی ادارے

ہم اپنے ان پرانے اداروں کو کھوتے چلے جا رہے ہیں جو کبھی ہماری بنیادی اور ٹھوس تعلیم و تربیت کا ذریعہ رہے ہیں. جن کے فارغین کو اعلی تعلیم حاصل کرنے میں بڑی مدد ملی اور اونچے اداروں تک رسائی حاصل کرنے میں دقتوں کا سامنا نہیں ہوا۔ مگر وہی درس گاہیں آج اپنی مدد اور توجہ کے لیے اپنی پلکیں بچھائے محسنین و مخلصین کی راہ دیکھ رہی ہیں کہ وہ آئیں اور ان کی حالت زار کو سدھاریں۔  انھیں پھر سے وہ مقام دلانے اپنا تعاون کریں جس کے وہ حق دار ہیں۔

 

ایسی درسگاہوں میں سے ایک درس گاہ اسلامی گڑھیا ہے، جو ہمارے ضلع شیوہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، گرچہ یہ گاؤں اور یہ ادارہ  میری گزرگاہ نہیں ہے،  مگر علاقے اور میرے نانیہال کے مضافات میں ہونے کے سبب کئی بار یہاں سے گزرنا ہوا ہے. مگر آج جب وہاں سے گزرا تو دل چاہا کہ ذرا رک کر اسے دیکھوں آخر اتنا قدیم ادارہ اس قدر بے توجہی کا شکار کیوں ہے. کچھ لوگوں سے تفصیلات جاننے کی کوشش کی، اسی گاؤں کے ایک دوست کے گھر گیا مگر اس سے ملاقات نہ ہوسکی.دوسرے لوگوں سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ یہ قدیم ادارہ جو عرصہ پہلے ابتدائی تعلیم کے لیے کافی مشہور رہا ہے، جس سے  گاؤں علاقے کے لوگوں نے  بھرپور استفادہ کیا ہے، مگر گزرتے وقت اور لوگوں کی بے توجہی کے سبب اب یہ ادارہ اس قدرفعال نہیں رہا جس کے سبب وہ مشہور تھا.

خیر میں بھی جلدی میں تھا، مجھے کہیں اور بھی جانا تھا چوں کہ گاؤں میں کم ہی دن کے لیے جانا ہوتا ہے پھر واپسی کی بھی جلدی رہتی ہے۔سو یہ کہہ کر وہاں سے رخصت ہوا کہ ان شاءاللہ دوبارہ آؤں گا تو اس کی مزید تفصیلات جان کر اس کی بہتری کے لئے جو کچھ ہو سکے گا کوشش کروں گا.

براہ کرم آپ حضرات بھی اپنے اپنے علاقے کے ان اداروں کی خبر خیریت لیتے رہیے جس کے سبب علاقے میں علم کا چراغ روشن ہوا اور اپنی شعاؤں سے جہالت کے اندھیارے دور ہوئے۔ ورنہ تاریکیاں کب پیر پسار لے کچھ کہا نہیں جاسکتا.

محب اللہ قاسمی

Wednesday 21 April 2021

New Book Ramzan aur Shakhsi Irteqa 2021

رمضان المبارک جو کہ ماہ تربیت ہے۔ اس ماہ مقدس میں اس کتاب بھی ضرور استفادہ کریں اور اپنی زندگی میں وہ تبدیلی لانے کی سعی کریں جو اللہ کو اپنے بندوں سے مطلوب ہے تبھی انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوگا اور اس کا شخصی ارتقا ہوگا۔
اللہ تعالی ہماری عبادتوں، ریاضتوں کو شرف قبولیت بخشے اور ہمیں اس ماہ مبارک سے استفادہ کی توفیق بخشے آمین۔

Friday 25 December 2020

Husle Ki Baten

 

حوصلے کی باتیں


v   کیا ہمارے ایمان  سے بھرے سینوں کو ظالموں کے تیر چیر سکتے ہیں؟ کیا غداروں کی چال اللہ کے بندوں کو ان کے فتح کے راستے سے روک سکتی ہے؟ ہر گز نہیں!

v   کیا مسلمانوں کے قدموں سے لرزنے والے ظالموں کی غداری قائم رہ سکتی ہے۔

v   ہم نے نظام الٰہی کو محفوظ کرنے کی قسم کھائی ہےتاکہ مظلوموں کو ظالموں کے ہاتھوں سے بچایا جاسکے اور اللہ کا انصاف پوری دنیا میں پھیل سکے۔

v   مسلمان اپنی پوری بات کیے بغیر نہیں مرتا!مسلمان جس نے ظالموں پر نظر گاڑ لی ہو وہ فتح حاصل کیے بغیر نہیں مرتا۔

v   ہمارے آباو اجداد نے ہار نہیں مانی ، ہم بھی ہار نہیں مانیں گے۔ انھوں نے اپنی تلوار سے مشرق و مغرب تک پختہ راستہ بنا دیا تھا یہ راستہ ہمارا مستقبل ہے۔لا محدود راستہ جس کا کوئی اختتام نہیں۔

 

v   جب تک ہماری سانسیں ہیں ہم اسی رستے پر چلتے رہیں گے۔ ہم حکم الہی قائم کرکے پوری دنیا میں انصاف پھیلائیں گے۔

 

§       جو کہتے ہیں کہ ہماری طاقت کافی نہیں ہے ۔

o      ہم انھیں کہیں گے کہ ہمارا ایمان کافی ہے۔

o      جو کہیں گے کہ ہماری عقل کافی نہیں ہے۔

o      ہم انھیں کہیں گے کہ ہماری جد و جہد کافی ہے۔

o      جو  کہیں گے کہ ہماری مدت زندگی کافی نہیں ہے ۔

o      ہم کہیں کہ ’’اللہ ‘‘ ہمارے لیے کافی ہے۔

 

v   ظالموں کا جلاد’’انصاف‘‘ ہے۔

v   میری مقدس جدوجہد تمہاری حقیر امن سے زیادہ معزز ہے۔

 

v   لوگ ہمیں اور ہمارے طرز عمل کو دیکھ کر اسلام قبول نہیں کرتے تو ایسی صورت میں ہمیں اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہیے۔

 

v   میں صرف ظالموں اور غداروں کا دشمن ہوں، حتی کہ اگر میرا دشمن بھی مظلوم ہو،میں ہمیشہ اس کی مدد کروں گا۔ غدار چاہیے ۔ میرا بھائی ہی کیوں نہ ہو، میں اسے معاف نہیں کروں گا۔

 

v   جو ہمیں شر نظر آتی ہے، اس میں بڑی حکمت اور بہت سی نعمتیں چھپی ہوتی ہیں۔

v   ہرخزاں کے بعد بہار اور ہر اندھیرے کے بعد روشنی ہوتی ہے۔

v   بھیڑیوں کی سرزمین پر کتے بھونکا نہیں کرتے ۔(ترک کہاوت)

v   ایک اچھا تجربہ ہزار اچھی نصیحتوں سے بہتر ہے۔

(تاریخی شخصیت ارتغرل غازی پر مبنی ترک سیریل سے ماخوذ)

 

 

Saturday 24 October 2020

Bihar Election 2020 Aise ko kaise


ایسے کو جنتا کیسے ووٹ دے جو اس کے کام نہ آئے؟


    کسان بل آتے ہی بی جے پی الائنس کے ساتھ رہنے والی منسٹر خاتون نے بی جے پی کے منہ پر استعفی مار دیا، مگر  سی اے اے کے خلاف پروٹیسٹ ہوتا رہا اور مسلم ودھایک خاموش نتیش جی کی گود میں جھولتے رہے۔ اردو اسپیشل ٹیٹ کا معاملہ پھنسا رہا؟ بی ٹیٹ کی بحالی نہیں ہوئی؟ بے روزگاری بڑھتی رہی، لاک ڈاؤن میں بے حال و پریشان مزدور در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے؟ ہماری نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے ودھایک سارے خاموش رہے گویا نہ بولنے کی قسم کھا رکھی ہو، ارے بھائی آپ اقتدار میں تھے۔  آواز اٹھاتے بولتے کچھ تو کرتے کراتے بس چپی سادھ لی۔ پھر کاہے کے ودھایک، کیسی نمائندگی کیسے نیتا؟ ایسے میں کیسے دل چاہے گا کہ ایسو کو ووٹ دیا جائے.

 

ودھایک جی کو یاد ہوگا کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد نے انھیں ایک مشت ووڈ دیا تھا اور جب جب جیتنے والے مسلم امیدواروں کی فہرست شائع کی جاتی ہے تو بلا تفریق پارٹی سارے جیتنے والے مسلم ودھایکوں کا ایک ساتھ نام شامل ہوتا ہے. کیوں کہ یہ لوگ جیتتے ہیں ہماری نمائندگی کے لیے، تاکہ ہماری آواز بن سکیں مگر کرتے ہیں ہمارے خلاف بھلا ایسے کو کیسے ووٹ دیا جا سکتا ہے؟

 

دوسری طرف یہ بھی واویلا مچا ہوا ہے کہ سیکولر پارٹی کو ووٹ دو، نتیش کو مظبوط کرو اور جہاں پر بی جے پی کا امیدوار ہے وہاں آر جے ڈی گٹھبندھن کو ووٹ دو ایسے لوگوں سے میرا کہنا ہے کیا سیکولر کا ٹھیکا مسلمانوں نے ہی لے رکھا ہے؟ ظلم کا شکار کیا صرف مسلمان ہی ہیں۔ سیاسی سوجھ بوجھ کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کی ہے جس نے ستر سالوں تک ایک پارٹی کو مضبوط کرنے میں لگا دیا کیا ملا؟

اس لیے خود مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔ اس مضبوطی میں ہمیں ان تمام کو اپنے ساتھ رکھنا ہوگا اور انھیں ساتھ لے کر چلنا ہوگا جو مظلوم طبقہ ہے۔ ان سیکولر پارٹیوں کا کیا کہنا کب چولا بدل لے اور کب کس کے ساتھ ہو لے۔

 

یاد رہے کہ جسے خود اپنی فکر نہ ہو اس کی کوئی فکر نہیں کرتا۔ اس لیے ہم پہلے خود کو سمجھیں اور اپنی بکھری ہوئی قوت کو یکجا اور مضبوط کریں۔ لوگوں کا درد سمجھیں اور ان کا مداوا بننے کی سعی کریں۔ ورنہ جتنے نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں اور مظلوم طبقے کا استحصال کیا ہے اور ہمیشہ انھیں حاشیے پر رکھنے کی کوشش کی ہے اتنا کسی اور نے نہیں کیا۔ پھر ہم ان پر تکیہ کیوں کریں۔ ہمیں سوچ سمجھ کر ووٹ کرنے کی ضرورت ہے.

محب اللہ قاسمی 

Wednesday 24 June 2020

Elm o Amal



علم و عمل ایک دوسرے کے بغیر ناقص

علم کی روشنی سے ہم تب ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب اس سے تربیت کی بھی کوشش کی  جائے ۔ جس علم سے اللہ کی معرفت حاصل ہو، جس علم سے ہم حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی پاسداری کر رہے ہوں۔
جس سے ہمارے اندر بڑوں کا احترم اور چھوٹوں پر شفقت کا سلیقہ آئے
جس سے ہمارے اندر ایک دوسرے کی تنقید کو سن کر اس کا مناسب رد عمل پیش کر سکیں،
جس کے ذریعہ ہم حق کے طرف دار ہوں،
جس سے ہم ہر طرح کے ظلم کا خاتمہ جس سطح سے بھی کرسکتے ہوں کرنے کے لیے تیار ہوں۔
جس سے ہم مظلوم کی آواز بن سکیں، مجبور کا درد محسوس کر سکیں۔ورنہ بقول معروف شاعر سرفراز بزمی ؎
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
نا حق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
پھر ہم علم چاہیے جتنا بھی حاصل کر لیں اس کا کیا حاصل جب عمل ہی ناقص ہو۔ بقول شیخ سعدیؒ
علم چندآں کہ بیشتر خوانی      چوں عمل در تو نیست نادانی
علم جس قدر بھی حاصل کر لیا جائے جب عمل نہ ہو تو عقل مند نہیں سمجھا جائے گا
اسی طرح ایسے شخص کے سلسلے میں شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں:
نه محقق بود نه دانشمند      چارپائے بر او کتاب چند
بے عمل شخص کو نہ محقق سمجھا جائے گا اور نہ دانش مند بلکہ ایک چارپائی ہے جس پر چند کتابیں لدی ہوئی ہیں۔
 علم بے تربیت اور تربیت بنا علم یا یوں کہیں کہ علم بے عمل اور عمل بنا علم غیر مفید ہے۔  ایک سے ہم دنیا تو حاصل کرسکتے ہیں جس سطح پر بھی ہو مگر وہ اطمیان بخش اور کامیاب زندگی حاصل نہیں کرسکتے جو اللہ کو محبوب ہے۔ جب کہ دوسرے سے ہماری تربیت یا عمل اتنی ناقص ہوگی کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوگا کہ ہماری تربیت کس نہج پر، عمل کس رخ پر اور کیسا ہونا چاہیے۔ اس لیے یہ دونوں ضروری ہے ورنہ فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ اللہ تعالی ہمیں علم نافع اور عمل صالح کی دولت عطا کرے آمین۔   (محب اللہ قاسمی)

Friday 19 June 2020

Dumri Madarsa Fatma Chak



میرے اور ابا کے دور کا ڈمری مدرسہ
محب اللہ قاسمی

یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ پٹنہ رہتا تھا۔ یوں تو میری ابتدائی تعلیم اپنے دادی کے ساتھ رہ کر فاطمہ چک میں مولوی ہاشم صاحب نیپالی زیر تربیت ہوئی۔ قرآن اور اردو اور حساب کی ابتدائی چیزیں میں نے ان سے ہی پڑھی۔ چوں کہ ہم لوگ اگثر پٹنہ میں رہتے تھے اس لیے گاؤں میں بہت کم ہی رہنے کا اتفاق ہوا مگر ایک ایسا زمانہ بھی آیا جب دادی نے مجھے ڈومری مدرسہ پڑھنے کے لیے بھیجا وہ خود ہی میرا ٹیفن تیار کرتی اور کپڑے کے سلے تھیلے میں کتاب رکھ کر بھیجتی تھی۔ مولانا جمال الدین صاحب سے عربی، مولانا شاہ عالم صاحب سے اردو اور فارسی پڑھی کوئی ماسٹر صاحب تھے نام یاد نہیں آ رہا ہے ان سے حساب وغیرہ پڑھنے کا موقع ملا۔ اس وقع میرا دوست چھوٹے (مطیع اللہ) بھی میرے ساتھ ہی مدرسہ آیا جایا کرتا تھا اور ہم لوگ خوب شرارت بھی کرتے تھے۔ خاص طور سڑک کے دونوں طرح آم کے گاچھی میں مہوا، ٹکولہ چننا کبھی توڑنا وغیرہ۔

پھر مدرسہ کی پڑھائی چھوٹ گئی اور ہم لوگ پٹنہ میں رہنے لگے۔ غالباً 95 یا 96 کی بات ہے جب ہم لوگ پٹنہ چھوڑ پوری طرح گاؤں میں شفٹ ہوگئے تو میری تعلیم کے لیے غور ہونے لگا کیوں کہ میں نے پانچویں کلاس تک اسکول میں پڑھائی کی تھی تو آگے کیسے پڑھنا ہے یہ پوری طرح میرے اوپر تھا والد صاحب نے کہا کہ شیوہر اسکول میں ایڈمیشن کرا دیتے ہیں سائکل آنا جانا۔ مگر میں نے انکار کردیا، اس کی وجہ جو مجھے اچھی طرح یاد ہے۔

میں نے حبیب اللہ کو دیکھا اور کچھ اور بچے تھے کہ وہ گلے میں رومال ڈالے کرتا پائجامہ کے ساتھ مجید دادا، منظور دادا، محمد دین دادا جولوگ سڑک کے قریب کھٹیا پر بیٹھے ہوتے تھے ان کے قریب جاتا سلام کرتا اور مصافحہ کرتا مجھے یہ ادا بے حد بھا گئی۔ اگر چہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ مدرسہ میں کس طرح ماں باپ اور گھر خاندان سے رہ کر پڑھا جاتا ہے۔ میں نے ابا سے کہا کہ میں اسکول میں نہیں مدرسہ میں پڑھوں گا۔ چنانچہ میرے لیے بکسہ پیٹی تیارکے مجھے سیتا مڑھی مدرسہ میں داخلہ کرایا گیا، ابا، سمیع اللہ چا مجھے لے کر مدرسہ گئے تھے۔ پھر میں جامع العلوم مظفرپور، مدرسہ قادریہ ہماچل پردیش اور بالآخر دارالعلوم دیوبند پہنچ کر سند فضیلت حاصل کی۔

خیر میں یہ بتا رہا تھا کہ میری بھی کچھ نہ کچھ تعلیم دومری مدرسہ میں ہوئی ہے اور راشد کے آنکھ میں چوٹا پڑنے کا واقعہ ہو یا مولانا جمال صاحب کے رعب و دبدبہ کی بات ہو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔

اب میں بات کرتا ہوں اپنے والد مرحوم کی جن کی ولادت 5 فروری 1961 ہے۔ ان کیابتدئی تعلیم پٹنہ کے ایک اسکول میں ہوئی۔ جہاں سے ساتویں کی ڈگری لے کر واپس گاؤں آگئے اور اس وقت کے غیر معمولی شہرت یافتہ، جہاں کے بیشتر فارغین ضلع جوار میں سرکاری ٹیچر بحال ہیں یعنی مدرسہ اسلامیہ عربیہ ڈومری میں داخلہ لیا۔ ان سے بڑے دوبھائی بھی مدرسہ میں ہی زیر تعلیم تھے جو اپنی ذہانت اور قابلیت سے پورے مدرسہ میں معروف تھے، مگر جلد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ابا نے فوقانیہ  کے بعد مولوی  تک ہی تعلیم حاصل کی، مگر اپنے مشفق استاذ مولانا عبدالغفار صاحب (جو علوم دینیہ کے علاوہ علوم سائنس، ریاض اور سوشل سائنس کے ماہر تھے) کی شفقت و محبت سے انھوں نے اردو، ہندی کے علاوہ انگریزی اور حساب میں کافی مہارت حاصل کر لی تھی۔ بتاتے ہیں کہ وہ نہ صرف اردو ہندی بلکہ  انگریزی، حساب وغیرہ میں بھی بڑے ماہر تھے۔ اس زمانے میں گاؤں میں کسی کا مانی آرڈر وغیرہ آتا یا اس پر کچھ لکھا ہوتا۔ ہندی یا انگریزی کا کوئی مسئلہ ہوتا تو ابا اسے حل کرتے تھے۔اس کی وجہ ابا کے استاذ مولانا عبدالغفار صاحب کی خاص شفقت و محبت تھی۔ سالم چا کی زبانی میں بتاتا چلوں کہ فاطمہ چک میں کوئی مجاور یا پاکھنڈی ٹائپ کا مولوی نما ایک شخص آیا اور علی الاعلان جنت کا ٹکٹ بیچنا شروع کردیا۔ گاؤں کے کسانوں کو مرعوب کرنے اور اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لیے وہ کہتا تھا کہ مٹیاہا جنت یا بلواہا کون سی جنت لینی ہے۔ پھر وہ ابا سے ٹکرا گیا۔ ڈومری مدرسہ کا پڑھا ہوا طالب علم انھوں نے اس کی ایسی حجامت بنائی اور کہا کہ یہاں سے فوراً شکل گم کرو ورنہ خیریت نہیں۔

ابا کہتے تھے:
انسان اچھا کام ریا کاری سے شروع کرتا ہے، پھر وہ عادت بن جاتی ہے، پھر جب اس میں خلوص اور پختگی آتی ہے تو وہ عبادت ہو جاتی ہے.
اپنے اخری لمحہ میں جب وہ بیماری کے سبب کھڑے ہونے کی کوشش کرتے اور گر جاتے پھر اٹھتے تو کہتے تھے:
انسان گرتا ہے، اٹھتا ہے، لڑکھڑاتا ہے، سنبھلتا ہے پھر گرتا ہے پھر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے اور اٹھتا ہے. یہی تو زندگی ہے ورنہ مر کر تو سارے لیٹ جاتے ہیں. اس میں کوئی حرکت نہیں ہوتی.
ابا جو بہت گہری گہری باتیں کر جاتے تھے وہ ان کے اس مدرسہ میں تعلیم کا ہی نتیجہ تھا۔

الغرض فاطمہ چک نے اس مکتب کو عروج بخشا اور اس سے علم کی جو روشنی پھوٹی اس کو دور دور تک پہنچایا جس سے نہ صرف مدرسہ معروف ہوا بلکہ فاطمہ چک معروف ہوگیا جو اپنے علاقہ میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ یعنی ڈومری مدرسہ جسے فاطمہ چک مدرسہ کہنا چاہیے اسے گاؤں اور گاؤں والوں نے اس مدرسہ کا خوب نام روشن کیا۔ اللہ تعالی اسے مزید ترقی دے اور اس کے تعلیمی نظام کو مزید بہتر بنانے کی توفیق بخشے۔

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...