Showing posts with label Ramazan Spl. Show all posts
Showing posts with label Ramazan Spl. Show all posts

Saturday 18 May 2019

Hamdardi aur Muasat ka Mahina


ماہ رمضان: ہمدردی اور مواساۃ

آپ ؐ نے اس پورے مہینے کو ہمدردی و مواسات کا مہینہ قرار دیا ہے۔ جب انسان روزہ رکھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ جو پورے سال بے سروسامانی کی وجہ سے بھوک پیاس کی شدت برداشت کرتے ہیں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا۔اب جب کہ وہ بھی روزے کی حالت میں ہے تواللہ کے ان محتاج بندوں کی امداد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یوں تو آپ ؐ بڑے فیاض اور سخی تھے مگررمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی آپ عطا، بخشش و سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی، آپ ؐ ہر قیدی کو رمضان بھر کے لیے رہا کردیتے تاکہ وہ اس ماہ سے استفادہ کرے اور ہر سائل کو کچھ کچھ نہ کچھ دیتے خالی واپس نہیں کرتے تھے:
کان رسول اللہ ﷺ اذا دخل شھر رمضان اطلق کل اسیر وا عطی کل سائل (بیہقی فی شعب الایما ن)
’’رسول اللہ کا طریقہ تھا کہ جب رمضان آتا تھا تو آپ ؐ ہر اسیر (قیدی) کو رہا کردیتے تھے اور ہر سائل کو کچھ نہ کچھ دیتے تھے۔‘‘
آپ نے روزہ دار کے افطار کرانے پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا، أَوْ جَهَّزَ غَازِيًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ (بیہقی، محی السنۃ)
’’جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے یا کسی غازی کے لیےسامان جہاد فراہم کرکے دے تو اس کو ویسا ہی اجر ملےگا جیسا کہ اس روزہ دار کو روزہ رکھنے اور غازی کو جہاد کرنے کا ملے گا۔‘‘
اسی طرح آپﷺ کا مزید ارشاد ہے:
مَنْ فَطَّرَ فِيهِ صَائِمًا كَانَ لَهُ مَغْفِرَةً لِذُنُوبِهِ وَعِتْقَ رَقَبَتِهِ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ "، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَيْسَ كُلُّنَا نَجِدُ مَا نُفَطِّرُ بِهِ الصَّائِمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " يُعْطَى هَذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلَى مَذْقَةِ لَبَنٍ، أَوْ تَمْرَةٍ، أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ، وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللَّهُ مِنْ حَوْضِي شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتَّى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ (مشکوۃ)
’’جس نے ماہ رمضان میں کسی روزے دار کو افطار کرایا اس کے لیے اس کے گناہوں معافی اور جہنم سے چھٹکارا ہے اور اس کے لیے روزہ دار اس کے اجر میں کمی کے بغیرروزہ دار کے برابر ہی اجر ہوگا۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ہم میں تو ہر شخص روزہ افطار کرانے کی سکت نہیں رکھتا؟
آپؐ نے فرمایا: اسے بھی یہی اجر ملے گا روزے دارکودودھ کا گھونٹ پلائےیا ایک کھجورکے ذریعے افطار کرائےیاپانی کا گھونٹ پلاے اور جو روزہ دار کو سیراب کرے اللہ اسے میرے حوض سے ایسا گھونٹ پلائے گا کہ پھر وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا حتی کہ وہ جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔‘‘
آپ ؐ رمضان کے مہینے میں اپنے تحتوں کےساتھ ہمدردی کرتے ہوئے ان سے کم کام لیا کرتے تھے اور صحابہ کو بھی اس کی تلقین کرتے:
مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوكِهِ فِيهِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ، وَأَعْتَقَهُ مِنَ النَّارِ(مشکوۃ)
’’جس نے اپنے ماتحتوں سے ہلکا کام لیااللہ اسے بخش دے گا اور اسے جہنم سے نجات دے گا۔‘‘
اللہ تعالی ہمیں اس ماہ مبارک سے کماحقہ استفادہ کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اعمال کو شرف قبولیت بخشے 
)محب اللہ قاسمی(

Wednesday 17 April 2019

Mahe Shaban aur Isteqbal e Ramzan




ماہ شعبان اور استقبال رمضان

    شعبان المعظم کا مہینہ چل رہا ہے، جسے رمضان المبارک کی تیاری کا مہینہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ ہمیں اس مہینے میں آئندہ ماہ رمضان المبارک جو اپنے فضائل و برکات کے ساتھ ہم پر سائہ فگن ہونے والا ہےاس کی تیاری شروع کردینی چاہیے۔

    سیرت رسول ؐ کے حوالے سے ہمیں یہ روایت ملتی ہے کہ آپؐ ماہ شعبان میں بہ کثرت روزہ رکھتے تھے اور صحابہ کرام ؓ کو جمع کر کے ان کے درمیان رمضان کے فضائل کا تذکرہ کرتے اور اس ماہ کی اہمیت بیان کرتے تھے۔امہات المومنین حضرت عائشہ ؓ روایت کافی مشہور ہے:

   عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ : فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ.(بخاری)

    ’’میں نے آپ ﷺ کو کسی بھی ماہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے رمضان کے اورمیں نے آپ ﷺ کو شعبان سے زیادہ کسی ماہ کے روزے رکھتے نہیں دیکھا ‘‘(بخاری)
    پتہ چلا کہ آپؐ ماہ شعبان میں بہت زیادہ روزہ کا اہتمام فرماتے تھے۔

    یہ حقیقت ہے کہ ایک کسان جب تک کھیت میں بیج نہیں ڈالے گا ، موقع بہ موقع اسے سیراب نہیں کرے گا توکھیت کے لہلہانے کی توقع فضول ہے۔ ٹھیک یہی حال رمضان اور اس کی تیاری کا ہے۔ شیخ ابوبکرالبلخیؒ کہتے ہیں:
     ’ماہ رجب کا شتکاری کا مہینا ہے،ماہ شعبان اس کی سیرابی کا مہینا ہے اورشہر رمضان کھیت کٹائی کا مہینا ہے۔اسی طرح ماہ رجب کو ہوا،شعبان کو غیم اوررمضان کو بارش سے تعبیرکرتے ہیں۔جس نے اعمال کی کھیتی کے موسم بہارمیں کاشتکاری نہیں کی اورماہ رجب میں اس کا پودانہیں لگایا اورشعبان میں اسے سیراب نہیں کیاتو وہ ماہ رمضان اعمال میں کے کھیتی کی کٹائی کیسے کرسکتاہے۔اگرماہ رجب گزرگیاہے تو کم ازکم شعبان کے مہینے سے اس کی کوشش کی جائے۔یہی ہمارے نبی اور اسلاف کا طریقہ رہا ہے ۔‘

    اس لحاظ سے ہماری ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ ہم اس ماہ سے ہی عبادت و ریاضت، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں خصوصی دلچسپی لیں اور ابھی سے ہی آنے والے بابرکت مہینے کی تیاری شروع کردیں۔ اگر ہم نے منصوبہ بند کوشش سے اس ماہ مبارک سے فائدہ نہیں اٹھایا اور خود کو اس ماہ مبارک کی نیکوں اور اللہ تعالی کی رضا کے حصول سے مالامال نہیں کیا تو رمضان المبارک جس طرح پہلے آتا رہا ہے آنیوالا بھی رمضان آئے گا، گزر جائے گا اور ہم کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

    اس لیے آئیے ہم لوگ ابھی سے اس کی تیاری میں لگ جائیں اور تقوی کی تربیت کے اس مہینے سے مستفید ہونے کا منصوبہ بنائیں۔ اللہ تعالی ہمیں حسن عمل کی توفیق بخشے۔ آمین یا رب العالمین۔
(محب اللہ قاسمی)

Tuesday 12 June 2018

Eidul Fitr Izhar-e-Tashakkur


عید الفطر- اظہارتشکراور خوشی کا دن
 محب اللہ قاسمی

عربی مہینہ شوال کی پہلی تاریخ کو  مسلمان ’عیدالفطر‘ مناتے ہیں۔یہ ماہ رمضان کے روزوں کی تکمیل اور اس تربیتی مہینے میں عبادات کی انجام دہی کے بعد اظہارتشکر کے طور پر خوشی منانے کا دن ہے۔ یہ ایک ایسااسلامی تیوہار ہے ،جو اپنے دامن میں فضل ورحمت ، فرحت ومسرت اور باہمی مؤدت ومحبت کا سامان لیے ہوئے ہے۔ یہ امت مسلمہ کے لیے سچی خوشی کا موقع ہے۔ اسی وجہ سے اس دن کا خاص طور سے اہتمام کیاجاتا ہے۔

عید کے مشاغل
صبح کو غسل کرنا، نیا اور عمدہ لباس زیب تن کرنا،خوشبولگانا، دوستوں اور پڑوسیوں سے ملنا جلنا،خوشیاں منانا،مہمان نوازی کرنا اور جائز حدودمیں رہتے ہوئے مسرت کا بھرپور اظہار کرنا اس دن کے پسندیدہ مشاغل ہیں۔اس دن کے بارے میںنبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:  لکل قوم عیدا وہذا عیدنا (مسلم) ’’ہر قوم کے لیے خوشی منانے کا دن ہے اور یہ ہمارے خوشی منانے کا دن ہے۔‘‘ اس دن کا روزہ رکھنا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص اس دن خوشی منانے کے بجائے روزہ رکھ کر خود کو زیادہ متقی وپرہیزگار ظاہر کرنے کی کوشش کرے تو ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں نافرمان مانا جائے گا۔ جن پانچ ایام میں روزہ رکھنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ان میں ایک دن عید الفطر کا بھی ہے۔ اسی بنا پر علمائ  کرام کی رائے ہے کہ عید کے دن خوشیاںمنانا دین کی علامات (شعائردین) میںسے ہے۔ عید کے دن خوشی کے اس موقع کو فراموش کرنا، رنج والم کی کی فضا طاری کرنا اور مایوس رہنا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔ اہل ایمان کا باہمی رشتہ اخوت پر مبنی ہوتاہے ، جوکلمہ لاالہ الا اللہ سے قائم ہوتی ہے۔لہذا عید سعید کے اس موقع پر کوشش یہ ہو نی چاہیے کہ ہم اپنے ا?س پڑوس میں کسی یتیم ، غریب بے بس اور محتاج کو تنہا نہ چھوڑ دیں، بلکہ اس کے احوال دریافت کریں،حتی الامکان اپنے تعاون سے اس کی ضرورت پوری کریں۔اسی لیے زکوۃ اور صدقۂ فطرکا حکم دیا گیاہے تاکہ نادار بھی عید کی خوشی میں برابر کا شریک ہوسکے اور کوئی مسلمان عید کی دوستی اورانعامات سے محروم نہ ہو۔

بغض وعنادسے پرہیز
اسلام میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان سے قطع تعلق یا دل میں کینہ ،بغض وعداوت کے جذبات کی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خوشی کے اس دن میں جس طرح ہم غسل کرکے بدن صاف کرتے ہیں،نیالباس پہنتے ہیں ،ٹھیک اسی طرح اپنے دل کی  صفائی کی طرف توجہ بھی کرنی چاہیے۔ ہم اپنے بھائی کاخیرمقدم اور استقبال کریں۔ اس معاملے میں خود سے پہل کرنا زیادہ بہتر ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادہے : حقیقی صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو بدلہ چکائے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کی قرابت کو منقطع کر دیاجائے تو وہ اس قرابت کو قائم رکھے۔ (بخاری) اس لیے رشتہ داری کو نبھاتے ہوئے اعزا و اقارب سے ملنا ، خاص طور سے والدین سے ملاقات کرنا اور ان کے لیے عید کے فرحت وسرور کا سامان مہیا کرنا لازم ہے۔ یہ صلہ رحمی نہ صرف اس شخص کی عیدکو دوبالا کردیتی ہے بلکہ اس کے لیے کشادگی  رزق اور عزوشرف کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
’’جو شخص یہ چاہتاہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی زندگی کی مہلت دراز ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک اور ان کے ساتھ احسان کرے۔‘‘ (بخاری ومسلم)

عید کے دن مسنون عمل
 عیدگاہ میں جن لوگوں سے ملاقات ہو ان کو مبارکباد پیش کرنے کا بھی اہتمام کریں۔ جیسا کہ صحابہ کرام کامعمول تھا جب وہ عید کے دن ا?پس میں ملتے تو کہتے :تقبل اللہ منا ومنک (مسنداحمد)اللہ تعالی ہماری اور آپ کی (نیک کوششوںکو) قبول فرمائے۔عید کی مبارک باد کا تبادلہ باہمی محبت کے فروغ کا ذریعہ ہے۔ عید کے دن تکبیر کہتے ہوئے عید گاہ میں ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے آنا مسنون عمل ہے۔ اس کی بہت سی حکمتیں بیان کی جاتی ہیں ،مثلا نیک کام کرتے ہوئے قدم مختلف راہوں پرپڑیںساتھ ہی زیادہ لوگوںسے ملنے کا موقع ملے اور اظہار مبارک باد کا عمل انجام دیا جائے۔

عید الفطر کی حقیقی خوشی
عید کی خوشی کن لوگوں کے لیے ہے؟کیا ان کے لیے جنھوںنے ایک مبارک مہینہ پایا اور اسے گنوادیااور اس سے استفادے کے لیے کوئی لمحہ نہ نکال سکے بلکہ خواہشات کی پیروی میں محرمات کے مرتکب ہوئے ؟نہیں ! بلکہ اس دن کی خوشی کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں ، جنھوںنے رمضان کے روزے رکھے،قیام لیل کا اہتمام کیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے لیے اعمال صالحہ کی طرف سبقت لے جانے کی سعی مسلسل کرتے رہے۔جیساکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت(متفق علیہ) جس طرح انھیں رمضان میں روزہ افطار کرتے وقت اطاعت الٰہی پر ایک قسم کی فرحت میسر ہوتی ہے ،ٹھیک اسی طرح رمضان المبارک میں عبادات کو بحسن خوبی انجام دینے کے بعد اس ماہ کے اختتام پر ثواب کی امید میں انھیں ایک خوشی ملتی ہے۔ یہ اس کا اجرہے اور اللہ نہیں ہوتا اور اس روزے دار کی طرح ہے جو ناغہ نہیں کرتا(بخاری:۳۵۳۵) دوسری طرف عید الفطر کے موقع پر غریب بھی صبر و شکر سے کام لے کر قناعت کا تاج اپنے سر پر رکھیں۔ اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہ کریں کہ وہ ہمیں کیوں نہیں دیتا اور نہ اپنے بیوی بچوں کو دوسروں کے مال پر حسرت کرنے دیں۔ پیوند لگے کپڑوں میں تقوی وصبر کے ساتھ جو شان ہے وہ ریشمی لباس میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن کو غریب بنایا ہے وہ مالداروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور وہ انبیائ  کرام کے طریقے پر ہیں، اگر وہ صبر و شکر سے کام لیں اور لالچ یا سوال کی ذلت نہ اٹھائیں۔حضرت اسامہ بن زید? روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:’’میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا تو (میں نے دیکھا کہ) اس میں داخل ہونے والے زیادہ ترمساکین ہیں اور مال دار لوگوں کو (حساب کے لیے) روکا ہوا تھا۔البتہ جہنمیوں کو جہنم کی طرف لے جانے کا حکم دے دیا گیا تھا(بخاری:۶۹۱۵) اس لیے عید کے دن اللہ تعالیٰ سے شکوہ شکایت کرنے کی ضرورت نہیں۔عام دن کی طرح یہ دن بھی گزر جائے گا۔رب کعبہ کی قسم دنیا کی رنگینیاں انہی کو ستاتی ہیں جو موت سے غافل ہیں اور اسی کو کل سمجھتے ہیں ، اس لیے ایک دن کی خاطر غریبی کو داغدار نہ ہونے دیں۔ اللہ تعالیٰ اس کا بہترین اجر عطا فرمائے گا۔

عید کی سنتیں
(۱)غسل کرنا(۲)حسبِ استطاعت نئے کپڑے پہنا(۳)خوشبو لگانا(۴)کھجور کھانا،حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ عیدالفطر کی نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں تناول فرماتے تھے۔ عموماًان کی تعداد طاق ہوتی تھی۔ (بخاری:۰۳۵۹)
(۵)عید گاہ پیدل جانا اور ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔ اس سے ہر قدم پر ثواب ملتا ہے اور غیروں کو مسلمانوں کی اجتماعیت کا بھی احساس ہوتا ہے۔ حضرت ابورافعؒ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ عید کی نماز کے لیے پیدل تشریف لے جاتے تھے اور جس راستے سے جاتے تھے ،اس کے علاوہ دوسرے راستے سے واپس آتے تھے(ابنِ ماجہ:۰۰۳۱)

(۶) راستے میں تکبیریں (اللہ اکبر اللہ اکبر،لاالہ الا اللہ،واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد)پڑھتے ہوئے جانا ،ہم سب کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے،نوجوان طبقہ عموماً آپس میں ہوہااور دنیا بھر کی بکواس کرتا ہوا جاتا ہے۔ اس سے اجتناب کرنا چاہیے، تا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد ہو اور دوسرے محسوس کریںکہ آج کوئی خاص دن ہے۔اس سے غیروں پر رعب بھی پڑتا ہے۔یہ نہیں کہ مرے مرے انداز میں منہ لٹکائے چلے جا رہے ہیں۔

(۷) خطبہ سننا:نمازِ عید الفطر کے بعد امام خطبہ دیتا ہے ،اس کو سن کر جانا چاہیے،اکثر لوگ نماز ختم ہوتے ہی بھاگنے لگتے ہیں۔خطبے میں عید الفطر سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے،اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کی معافی مانگی جاتی ہے، عالمِ اسلام اور بنی نوع انسانیت کی بھلائی کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں،جن کو قبولیت کا شرف حاصل ہوتا ہے۔حدیثِ نبوی ہے:

نبیﷺ نے فرمایا! جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے اور پوچھتا ہے: اے میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزا ہے جو اپنا کام مکمل کر دے ؟فرشتے عرض کرتے ہیں:اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے میرے فرشتو!میرے بندوں اور بندیوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ (نمازِ عید کی صورت میں) دعا کے لیے نکل آئے ہیں،میری عزت و جلال، میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم! میں ان کی دعائوں کی ضرور قبول کروں گا،اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے: بندو!  گھروں کو لوٹ جائو، میں نے تمہیں بخش دیااور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔نبیِ کریم ﷺ فرماتے ہیں! پھر وہ بندے (عید کی نماز سے) اس حال میں لوٹتے ہیں کہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔

خواتین کا عیدگاہ میں جانا
عید کی نماز کے لیے خواتین اور بچے بچیوں کو بھی لانا چاہیے۔حضرت امِ عطیہ ؒ سے مروی ہے کہ آپؐ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی کے روز پردہ نشین دوشیزائوں،چھوٹی بچیوںاور حائضہ عورتوں کو عیدگاہ کے لیے نکالیں البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں گی ، اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں گی۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ :بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جن کے پاس چادر نہیں ہوتی۔فرمایا! جس عورت کے پاس چادر نہ ہو ،وہ اپنی بہن سے لے لے(بخاری:۴۷۹)

Monday 4 June 2018

Etekaf Husule Taqarrub Ilahi ki Tarbiyat



اعتکاف حصولِ تقربِ الٰہی کی تربیت


 اللہ کے نیک بندے اس سے اپنی عبودیت کے رشتے کو مضبوط کرنے اوراپنا تعلق گہرا بنانے کے لیے اس کے گھر سے چمٹ جاتے ہیں اور اس میں ڈیرہ ڈال دیتے ہیں۔تاکہ وہ دنیا کی چمک دمک ،لہو و لعب اور اس کے مکرو فریب سے آزاد ہوکراس کی رضاکے حصول کی تمنا لیے ہوئے شب قدر کے فضائل و برکات کو حاصل کرسکیں۔اس مقصد سے مسجد میں ٹھہرنے کواعتکاف کہاجاتاہے۔ اس کا بہترین وقت رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے۔

اعتکاف کا معنی :   اعتکاف کا لغوی معنی ہے’ لزوم الشی‘ یعنی کسی جگہ ٹھہرنا، جمے رہنا اور اپنے آپ کو روکے رکھنا ۔
اصطلاحِ شرع میں اعتکاف کہتے ہیں ،اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے روزے کے ساتھ مسجد میں ٹھہرنااس طور پر کہ اس میں غیر ضروری گفتگو سے اجتناب اور بلاوجہ مسجد سے باہر نکلنے سے بچا چائے۔ اعتکاف قرآن ،حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے :

 وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ(البقرۃ:125
 اورہم نے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔
اللہ تعالیٰ نے روزے کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا :
                   وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي المَسَاجِدِ(البقرۃ187
’’ اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔ """‘‘

اعتکاف اور معمولاتِ نبویؐ

رسول اللہ ﷺ کے معمولات ِ رمضان کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہےکہ آپ ﷺ نے پابندی کے ساتھ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا ہے اور یہ اعتکاف آپﷺ کا محبوب مشغلہ رہاہے۔خاص طور سے شب قدر کی تلاش و جستجو کے پیش نظر، جسے قرآن نے ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضرت ابوسعید خدری ؓ کا بیان ہے :
’’ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا۔ آپؐ نے ایک ترکی طرز کے خیمے کے اندررمضان کے دس دن گزارے۔اعتکاف ختم ہونے پرآپؐ نے اپنا سرمبارک خیمے سے باہر نکالا اورفرمایا: میں نے اس رات کی تلاش میںپہلے دس دن کا اعتکاف کیا، پھرمیں نے درمیان کے دس دن کا اعتکاف کیا۔تب میرے پاس آنے والا آیا اورا س نے مجھ سے کہا:’’ لیلۃ القدررمضان کی آخری دس راتوںمیں ہے۔پس جولوگ میرے ساتھ اعتکاف میں بیٹھے تھے، انھیں چاہیے کہ وہ اب آخری دس دن بھی اعتکاف کریں۔مجھے یہ رات (لیلۃ القدر)دکھائی گئی تھی ،مگرپھربھلادی گئی اورمیں نے دیکھا کہ میں اس رات کی صبح کوپانی اورمٹی میں (برسات کی وجہ سے)  نماز پڑھ رہا ہوں۔پس تم لوگ اسے آخری دس دنوںکی طاق تاریخوںمیں تلاش کرو۔‘‘( بخاری ومسلم )

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے رہے اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ۔(بخاری و مسلم) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے، البتہ جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا۔ (بخاری)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے، لیکن ایک سال کسی سفر کی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے تو آئندہ رمضان میں بیس دن کا اعتکاف کیا ۔(ترمذی)

 امام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا :’’ عجیب بات ہے کہ مسلمانوں نے اعتکاف کی سنت کو چھوڑ دیا ہے ،حالاںکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب سے مدینہ منورہ تشریف لائے آپ نے اعتکاف کبھی نہیں چھوڑا ۔حتی کہ اپنی عمر عزیز کے آخری سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے دو عشروں کا اعتکاف کیا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے البتہ جس سال آپ کا انتقال ہوا اسی سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا ۔(بخاری)
 آپ ﷺ نے اعتکاف کا جس قدر اس کا اہتمام کیا ہے اس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اعتکاف سنت مؤکدہ ہے ۔اسی وجہ سے صحابہ ؓو تابعین ؒاور سلف صالینؒ میں بھی اس کا اہتمام رہا ہے۔

اعتکاف کاوقت:

جو مومن رمضان کے آخری عشرے کااعتکاف کرنا چاہتا ہے، تووہ بیسویں رمضان کا سورج غروب ہونے سے قبل مسجد میں آجائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول رہا ہے ، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ، میں آپ کے لئے ایک خیمہ نصب کردیتی جس میں آپ صبح کی نماز کے بعد داخل ہوتے ۔( بخاری )
کسی شخص نے رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا ہو تووہ شوال کا چاند نکلتے ہی اپنا اعتکاف ختم کرکے گھر واپس آسکتا ہے ،مگر مستحب یہ ہے کہ عید کی صبح اپنی جائے اعتکاف سے باہر آئے او رعیدگاہ جائے ، صحابہ و تابعین کا یہی عمل رہا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے بعض اہل علم کو دیکھا ہے کہ جب وہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تو اپنے گھر عید کی نماز پڑھ لینے کے بعد آتے ۔

حالت ِاعتکاف

حالت اعتکاف میں اللہ کے رسول ﷺ کا محبوب مشغلہ یہ تھاکہ آپ ہر طرف سے یکسو اور سب سے منقطع ہوکر بس اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے۔ مسجد کے کسی گوشےکو پکڑ لیتے ،وہاںتنہائی میںذکر و فکر اور اور اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ، اللہ کی تسبیح و تحمید بیان کرتے ہوئے اس  کی رضا اورقرب حاصل کرتے۔ قیام لیل کا اہتمام کرتے ،اللہ کے کے حضور توبہ و استغفار کرتے ، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر روتے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے بیمار پرسی کرلیتے تھے ،البتہ اس کے لیے ٹہرتے نہیں تھے ۔

 اعتکاف اور تزکیہ نفس

اعتکاف شخصیت کو نکھانے ،سنوارنے اور اس کے ارتقاکا بہترین ذریعہ ہے۔اس لیے کہ تزکیہ نفس کے لیے اس سے بہتر ماحول کا تصور نہیں کیا جاسکتا،جب انسان ہر وقت خود کو بارگاہ الٰہی میں محسوس کرتا ہے تو وہ ان تمام چیزوں سے دوری اختیار کرنے لگتا ہے جو اس کے نفس کو پراگندہ کرے ۔ گویا ’ترک مالا یعنیہ‘(غیر ضروری چیزوںکا چھوڑدینا)ایمان ہے اس کی مکمل مشق کرائی جاتی ہے۔ جب انسان اس پر کاربند ہوگا تو لازما اس کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوگا۔وہ جھوٹ،بغض وحسد،کینہ کپٹ ،چوری ،چغلی ،غیبت وبدکاری جیسی اخلاقی برائیوں سے بچ کر رضائے الٰہی کے حصول کے ساتھ بامقصد زندگی گزارے گا۔اللہ پر مکمل یقین اور اس سے دعا کرکے اپنے کو کبھی اکیلا نہیں سمجھے گا۔ اعتکاف کی وجہ سےاللہ کے ساتھ جو رشتہ مضبوط ہوتا ہے اس کی وجہ سے وہ اللہ کی نافرمانی کرنے سے بچے گا۔ اس طرح انسان کی شخصیت کا غیر معمولی ارتقا ہوگا۔

الغرض اعتکاف عبادتوںمیں خلوص و للہیت کو پروان چڑھاتا ہے۔اس لیے افراد امت کواس کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے ۔ تاکہ رمضان المبارک سے بھر پور استفادہ کے ساتھ اپنی تربیت کافریضہ انجام دے کر شخصیت کے ارتقا میں پیش قدمی کرسکیں۔خاص طور سے وہ نوجوان جو دنیا اور اس کی مستی میں چوراللہ سے دور ہو رہے ہیں ان کا تعلق اللہ سے مضبوط ہو۔
 Mohibbullah Qasmi   محب اللہ قاسمی 
D-321, Abul Fazl Enclave, Jamia Nagar, New Dehi-110025
Mob- 9311523016        Email: mohibbullah.qasmi@gmail.com

















Monday 21 May 2018

Ramzan aur Quran



رمضان المبارک اور قرآن کریم 

رمضان المبارک بے شمار فضائل و برکات کا حامل ہے ۔ اس مہینے کو یہ فضیلت و برکت اس وجہ سے حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے اس ماہ مبارک میں انسانوں کی فلاح وبہبود ، اس کی ہدایت و نجات کے لیے ایک عظیم الشان کتاب کا نزول فرمایا ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ  ۭ  ١٨٥؁
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔‘‘

اس عظیم الشان نعمت کے لیے شکرانےطور پر مومنوں کو یہ حکم دیاگیا کہ جو اس مقدس مہینے کو پائے ، اس پر لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے ۔اس آیت کریمہ سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ رمضان اور قرآن کو ایک خاص تعلق حاصل ہے۔ اور وہ ہے اس ماہ مبارک اس کتاب ہدایت کا نازل ہونا۔
رمضان اور قرآن کے درمیان چند مشترک خصوصیات پرغور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ تین چیزیں ان میں قدرمشترک ہیں:         ۱۔ تقوی        ۲۔شفاعت       ۳۔تقرب

*تقوی*
اللہ تبارک و تعالی نے روزے کی فرضیت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :
یَا اَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن
 اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (سورۃ البقرۃ ۱۸۳) گویا روزے کا مقصد انسانی زندگی میں تقوی کی روش پیدا کرنا ہے ۔اور اس تقوی کو پروان چڑھانے میں روزے کا اہم کردار ہے۔وہیں سورۃبقرۃ کے   آغاز میں بتایا گیا۔
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ     ٻ فِيْهِ   ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ    Ą۝
 یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے متقیوں یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈر نے والوں کے لئے۔
گویا رمضان اور روزے میں تقوی بنیادی مقصدہے۔

*شفاعت*
دوسری چیز شفاعت ہےجو رمضان اور قرآن میں مشترک ہے۔
آپ  ﷺ نے ارشاد فرمایا :الصیام والقرآن یشفعان : کہ روزہ اور قرآن کریم دونوں بندہ کے لئےسفارش کریں گے ۔ روزہ عرض کرے گا کہ یا اللہ میں نے اس کو دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا ، میری شفاعت اس کے حق میں قبول کرلیجئے، اور قرآن کہے گا کہ یا اللہ میں نے رات میں اسے نیند سے روکا ، اس کے حق میں میری شفاعت قبول کرلیجئے، پھر دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی۔ (رواہ احمد)

*تقرب الہی *
تیسری چیزجو رمضان اور قرآن میں مشترک ہےوہ تقرب الہی ہے۔
جب بندہ کلام اللہ  کی تلاوت کرتا ہے اسے اللہ تعالی کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے ۔ اسی طرح روزہ دار کو بھی اللہ تعالی کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے ۔حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ میں خود روزے کا بدلہ ہوں۔
اس موقع پر مولانا امین اصلاحی صاحب کی ایک بات یاد آتی ہے جو انھوں نے رمضان اور قرآن سے متعلق بتایا۔ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ     ٻ فِيْهِ   ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ    Ą۝
اس کی تشریح کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ قرآن بہار ہے اور رمضان کا مہینہ موسم بہار ہے جب کہ اور اس سے جس فصل کو نشونما اور ترقی ملتی ہے وہ تقوی ہے۔

*تراویح*
رمضان المبارک کا قرآن کریم کے ساتھ خاص تعلق کا ایک دلکش نظارہ ہمیں نماز تراویح میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ تراویح میں پابندی کے  ساتھ مکمل قرآن کی تلاوت کا اہتمام کیا  جاتا ہے جس میں قرآن سننے اور سنانے  کا اتفاق ہوتا ہے ۔ احادیث میں وارد ہے کہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور کرتے تھے۔ جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ (بخاری)

قرآن کریم کے تعلق سے ہمیں تین باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
     ۱۔تلاوت قرآن،۲۔فہم قرآن، ۳۔ دعوت قرآن

*تلاوت قرآن *
تلاوت کلام پاک بھی ایک عبادت ہے  اور اس کے ہر ہر حرف پر اللہ تعالی نے دس نیکیاں رکھی ہیں۔ لہذا اس کے  آداب  ملحوظ رکھے جائیں ۔مثلاً :ریا و نمود سے پاک  صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا کو مدنظرر کھا جائے۔ نیز وضو وطہارت کی حالت میں ادب واحترام کے ساتھ اللہ کے کلام کی تلاوت کریں۔اطمینان کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر اور اچھی آواز میں تجوید کے مطابق تلاوت کریں۔ایسا نہ ہو کہ زیادہ سے زیادہ تلاوت کے چکر میں ہم ان باتوں کا خیال چھوڑ دیں ۔

*فہم قرآن:*
فہم قرآن پر ایک مفصل مضمون میں میں  نےاس کی وضاحت کی ہےاس لیے یہاں بس اختصار کے ساتھ بس یہ عرض کردوں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم متعدد مقامات پر فہم پر زور دیاہے ۔کیوں کہ یہ قرآن تمام انسانوں کے لیے کتاب ہدایت کے طور پر نازل کیا گیا ہے لہذا اس پر غور و فکر کرنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا بے حد ضروری ہے۔ لہذا ہم جس قدر اس کی تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں اسی قدر ہمیں چاہیے  کہ اس کے معنی و مفہوم پر غور وتدبر سے کام لیں اور قرآن کریم جو کتاب ہدایت اس  کے سمجھنے پر زور دیں۔

*دعوت قرآن:*
اسلام سب کے لیے اور اللہ تعالی کا پیغام بھی ساری انسانیت کے لیے ہے لہذا ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اگر چہ ایک ہی آیت جسے ہم جانتے ہیں اسے بندگان خدا تک پہنچانے کا نظم کریں ۔ قرآن تمام انسانوں کے لیے کتاب ہدایت ہے ،اس لیے اللہ تعالی کے احکام اور اس کے پیغام کو عام کرنا بھی ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر جس کے سبب یہ اس امت کو خیر امت کہا گیا ہے ،اس بنا پر  ہمیں دعوت قرآن کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔

رمضان المبارک کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے اس لیے تلاوتِ قرآن کے ساتھ ساتھ فہم قرآن اور دعوت قرآن میں مشغول رہیں اور زیادہ سے زیادہ قرآن سے استفادہ پر غور کریں کیوں کہ یہ ماہ تربیت ہے اگر ہم نے اس ماہ مبارک میں قرآن سے اپنا مضبوط سے مضبوط تر کیا تو آنے والے دنوں میں بھی ہمارا تعلق اس سے مضبوط ہوگا اور ہماری کامیابی اور سربلندی کا ذریعہ ثابت ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ والی زندگی گزارنے والا بنائے اور ہمیں قرآن کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی توفیق دے اور دونوں جہاں میں کامیابی وکامرانی عطا فرمائے۔ آمین۔

Sunday 20 May 2018

Taraweeh ki Ahmiyat

تراویح کی اہمیت
رمضان کا مبارک مہینہ جیسے ہی سایہ فگن ہوتا ہے ۔ ہم لوگ زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں صرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اس مہینے میں اللہ تعالی کا خاص کرم ہوتا ہے۔ نوافل اجروثواب میںفرائض کے برابرہوجاتے ہیں۔ اس لیے نوافل کی بھی کثرت ہوتی ہے۔ تراویح درحقیقت قیام لیل ہے۔ یعنی رات کو نماز میں کھڑے ہوکر قرآن پڑھنا اور سننا۔ اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ہم احادیث نبویﷺ کا مطالعہ کریں توجس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ کا رمضان کے روزے سے متعلق یہ ارشاد ہے:

" مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (متفق علیہ)
’’جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں‘‘۔
اسی طرح آپ نے اس مبارک مہینے کے قیام لیل کے سلسلے میں بھی یہ ارشاد فرمایا:

وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ  (متفق علیہ)
جس نے رمضان کے مہینے میں قیام لیل (رات کو کھڑے ہوئے کر نوافل ) کا اہتمام  ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں‘‘۔

اس روایت سے صلوۃ تروایح کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے عہد میں صحابہ کرام ؓ مسجد میں انفرادی طور پر یا چھوٹے چھوٹے گروپس کی شکل میں تراویح کی نماز پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ نے انھیں ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو ان سب کو یکجاکیا اور ان کی امامت فرمائی۔ صحابہ کرام کا نبی کریم ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا شوق بہت زیادہ بڑھنے لگا تو تیسرے دن آپ ؐان کی امامت نہیں فرمائی اور ارشاد فرمایا:
’’ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ نماز فرض نہ ہوجائے اس لیے آپ نے اس روزتراویح کی نماز نہیں پڑھائی ۔‘‘

اس کے بعد صحابہ کرامؓ بدستور انفرادی طور پریا چھوٹے چھوٹے گروپ میں ابوبکر ؓ کے پورے دور خلافت اور حضرت عمر کے عہد خلافت کی ابتدا میں نماز پڑھتے رہے۔ حضرت عمر ؓنے ایک موقعے پر مسجد میں لوگوں کو الگ الگ نماز پڑھتے دیکھا تو انھیں ایک امام پر جمع کیا اور اسی کی اقتدا میں نماز تراویح کا اہتمام شروع ہوگیا۔تک سے لے کر آج تک دنیا کے ہر گوشے میں جہاں مسجد ہے وہاں تراویح کا باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں مکمل قرآن سننے اور سنانے کا اہتمام ہوتا ہے۔

معزز سامعین کرام!  حدیث کے الفاظ کے پیش نظر ہم اس نماز کو اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اللہ تعالی ہی سے ثواب کی امید کے ساتھ نماز پڑھیں تو یقینا اللہ تعالی ماہ رمضان میں قرآن کریم کی سننے کی برکت سے ہمارے گزشتہ گناہوں کومعاف فرمائے گا۔

اس لیے تعداد رکعات میں الجھنے یا اس کے سنت، یا سنت مؤکدہ یا واجب ہونے نہ ہونے کے مسائل میں پڑنے کے بجائے اگر آپ نفل ہی سمجھ کر پڑھ رہے ہیں تو ضرور پڑھیں۔ یہ ہمارے اجر میں اضافہ کا سبب ہوگا۔ نبی کریمﷺ اس ماہ مبارک میں بہ کثرت نوافل کا اہتمام کرتے تھے۔ ہمیں بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی ہمیں رمضان کی رحمتوں اوربرکتوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔ آمین

Friday 18 May 2018

Ramzan Mubrak Insani Zindagi ke liye mahe Tarbiyat



رمضان مبارک انسانی زندگی کے لیے ماہ تربیت

رمضان کا مبارک اورمقدس مہینہ جس میں خداکی رحمتوںاوربرکتوںکا نزول ہوتاہے ،اس کی سب سے اہم عبادت ’’صوم ‘‘ یعنی روزہ رکھناہے ۔روزہ طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک خودکوکھانے پینے اورجماع (شہوانی خواہشات) کی تکمیل سے رکنے کوکہتے ہیں۔

اللہ نے اپنے کلام پاک میں روزے کو صوم سے تعبیر کیاجس کی حقیقت یہ ہے کہ نزول قرآن سے قبل عرب میں ’’صائم ‘‘اس گھوڑے کوکہاجاتاتھا جسے بھوک اورپیاس کی شدت برداشت کرنے کے لیے خاص قسم کی تربیت دی جاتی تھی تاکہ وہ مشکل اوقات میں زیادہ سے زیادہ سختی برداشت کرسکے ۔رمضان میں بھی خدااپنے بندوںکو بھوک اورپیاس کی شدت برداشت کرنے کا حکم دے کریہ تربیت دینا چاہتا ہے کہ وہ شرائع واحکام کے متحمل ہوسکیں ۔

 اس لحاظ سے رمضان المبارک کو ماہ تربیت کہاجا تا ہے کیوں کہ خدااپنے بندوںکو روزے کے ذریعے ایک خاص چیزکی تربیت دیتاہے جسے ’’تقویٰ‘‘ کہتے ہیں، چنانچہ قرآن مجید نے روزے کی فرضیت کا مقصدواضح کرتے ہوئے کہا۔لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون:’’تاکہ تم متقی ہوجاؤ۔‘‘روزہ تربیت نفس کی قدیم ترین عبادت ہے جو انسان کو صبروضبط کا عادی بناتاہے کیوںکہ نفس اورخواہشات پر قابوپانے کی بہترتربیت روزوںکے ذریعہ ہوتی ہے۔
تربیت زندگی کے تمام شعبوںمیں کامیابی اورحصول مقاصدکے لیے نہایت ضروری ہے،اس کے بغیرکسی بھی مقصدیامشن میں کامیابی حاصل کرنامشکل ہے۔ہرچیزکی نشونمااوراس کے ارتقاء کے لیے تربیت کی خاص ضرورت ہے۔خواہ انسان کا علمی،عملی ،فکری لحاظ سے ذاتی نشونماہویاپھر خاندانی ،سماجی، سیاسی اورافرادسازی کے اعتبارسے معاشرتی ارتقاء ہوہرجگہ تربیت کی ضرورت ہے۔

روزہ کی فرضیت
۲ہجری میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے۔ روزہ ہرمقیم ،عاقل ،بالغ مسلمان مردعورت پر فرض ہے۔اللہ کا فرمان ہے:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ   ١٨٣؁ۙ
’ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں(امتوں)پرفرض کیے گئے تھے۔‘‘  (البقرۃ:۱۸۳)
اس لیے بلاعذر اس کا چھوڑنا گناہ عظیم ہے جس کی قضا پوری عمراداکرنے سے بھی پوری نہیں ہوتی۔
شہر القرآن
خدا نے اس مقدس کتاب کو مبارک ماہ میںنازل فرماکرہمیشہ کے لیے انسانوںکی ہدایت ،تربیت اوررہنمائی کے لیے ایک گائڈبک بنادیا۔قرآن اس بات کی اچھی تربیت دیتاہے کہ انسانی زندگی کے تمام شعبوںمیںاس سے رہنمائی حاصل کی جائے اور جہاں جس کام کا حکم ہے اسے کیاجائے اورجن چیزوںسے منع کیاگیاہے ،اس سے بازرہاجائے۔
اس طرح خدااس ماہ میںاپنے بندوںکو عبادت واطاعت ،زبان وشرم گاہ کی حفاظت ، غریبوںاورحاجتمندوںکی ضرورت پوری کرنے کی صراحت وقت کی نزاکت،اورہرطرح کے فرائض وحقوق کی ادائیگی کے لیے پوری زندگی لگن اورریاضت کی تربیت دیتاہے کہ بندہ اس ماہ کی عملی مشق سے آئندہ دنوںمیںرضائے الٰہی کی مطابق زندگی بسرکرے اورخودکوجہنم کی آگ سے بچاکرخداکے انعام (جنت)کا مستحق بنائے۔ اس طرح وہ معنوی اعتبارسے پوری زندگی ’’صائم ‘‘ہوتا ہے جس کا بدلہ خدااسے دیتارہے گا۔
شہراللہ
 اس ماہ مبارک کو ’’شہراللہ ‘‘اور’’شہرالمواساۃ‘‘ سے تعبیر کیاجاتاہے۔ اس ماہ میں ان تمام چیزوںکی تربیت دی جاتی ہے جس سے انسان اپنے خداکا فرمابردار بن کر آئندہ یک سالہ منصوبۂ حیات کی تکمیل، اپنے خالق ومالک کی ہدایت کے مطابق کرسکے۔ جس طرح ایک فوجی جنرل اپنی فوج کوکسی مہم پربھیجنے یا کسی جگہ چوکسی کے لیے متعین کرتاہے ، تواس سے قبل وہ اپنے فوجیوں کوخاص مدت تک ٹریننگ دیتاہے اوران سے سخت ریاضت بھی کرواتاہے تاکہ اس کے فوجی اپنے ذمے سونپے گئے کام کو بحسن وخوبی انجام دے سکیں ۔ چنانچہ جو اس میں جتنی دلچسپی لیتا ہے وہ اسی قدرپختہ ،تجربہ کارہوجاتاہے اوروہ فوجی ،جرنل کی نگاہ میں محبوب بن جاتاہے۔
ٹھیک اسی طرح خدانے اس مہینے میں روزے کا حکم نازل فرماکر اپنے بندوںکونیک کام کرنے کی ترغیب دی کہ اس میں اداکیے گئے فرض کا ثواب سترگنازیادہ اورنوافل، فرائض کے برابرہوگا تاکہ بندہ زیادہ سے زیادہ عبادات کا عادی بنے اوراس کے دل میں یہ اثر پیدا ہوکہ جس طرح وہ خداکے منع کرنے پر اس ماہ (روزے کی حالت )میںدسترخوان پرموجود حلال چیز کے باوجود،اسے حلق سے نیچے نہیں اتارتا، ٹھیک اسی طرح دیگرماہ میں وہ یہ عزم کرے کہ خداکی حرام کردہ چیز کی طرف آنکھ اٹھاکربھی نہیں دیکھے گا۔
یہ خداکا مہینہ ہے، لہذا جو اپنی کڑی ریاضت کے ذریعے اپنی تربیت کرے گا، وہ آئندہ دنوںمیں شیطان کے مکروفریب کا ڈٹ کرمقابلہ کرسکے گا۔یہی اس حدیث کا مطلب ہے جس میں اگلے پچھلے گناہ کی معافی کا اعلان ہے:حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:’’جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواس کے (اگلے) پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں‘‘۔              )بخاری ومسلم(                                                          
اس کے ساتھ ساتھ وہ خداکا محبوب بھی ہوگا۔ارشادنبویؐ ہے:’’ابن آدم کا ہرعمل اس کے لیے ہوتاہے سوائے روزے کے ۔ روزہ میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کا بدلہ دوںگا۔بندہ اپنی خواہشات اورخوراک صرف میرے ہی لیے چھوڑدیتاہے۔‘‘  (مسلم(

شہرالمواساۃ
اس ماہ کوشہرالمواساۃ(غم خواری کا مہینہ)بھی کہاگیاہے ۔ایک مالدارصاحب ثروت شخص جس کے پاس ہرطرح کی نعمت وآشائش موجودہے اس کے باوجود طلوع فجرسے غروب آفتاب تک اس کاان نعمتوںکوہاتھ نہ لگانااوربھوک وپیاس سے بے چین رہنا اس بات کی تربیت دیتاہے کہ ایک غریب بے بس مسکین ولاچار جس کے پاس کھانے پینے کا کوئی سامان موجود نہیںاس کی ضرورت پوری کی جائے۔ اس طرح خداپنے بندوںکے اندرغم خواری کی تربیت دیتاہے تاکہ لوگ اپنے مال واسباب میں ان کا حق سمجھ کر ، زکوٰۃ وصدقات اورخیرات کے ذریعہ ان کی مدد کرے۔

جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں:

اس ماہ مبارک جس میں انسانی زندگی کی مکمل تربیت کی جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوںکے لیے جنت کے سارے دروازے کھول دیتاہے اورجہنم کے دروازے بند کردیتاہے تاکہ اس کی پربہارفضا میںنیک کام کرنے میں کوئی پریشانی نہ ہو اور اپنی جس نیکی سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے ،خواہ عبادات کے ذریعہ یا اچھے اورنیک معاملات کے ذریعہ ،چنانچہ اس کا ایسا اثرہوتاہے کہ ہرشخص روزے سے ہوتاہے اورنیکی کی طرف دوڑتا ہوا نظرآتاہے جس پر خدااپنے فرشتوںمیںفخرکرتاہے۔شیاطین باندھ دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اس مبارک ماحول کو خراب نہ کرسکے۔
اگرانسان اپنی تربیت نہ کرے تووہ درندہ صفت حیوان بن جاتاہے اورمعاشرہ ایک خوفناک جنگل کی مانندہوجاتاہے جبکہ انسان انس ومحبت کا پیکراورباہمی تعلقات کا خوگرہوتاہے ۔اس لیے اس ماہ مبارک میںاسے اپنی ہرطرح تربیت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اس کا دل بغض،بخل ،خودغرضی ،حرص وحسد،کینہ ،خودپسندی ،شہرت پسندی ،تنگ دلی اورتکبر جیسی ناپاک چیزوںسے نفرت کرنے لگے اوربہترین انسان بن کر خداکے محبوب بندہ بن جائے جس سے قوم وملت کو فائدہ ہو۔   ورنہ تواس جہاںمیں انسان اوربھی ہیں۔

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...