Monday 21 May 2018

Ramzan aur Quran



رمضان المبارک اور قرآن کریم 

رمضان المبارک بے شمار فضائل و برکات کا حامل ہے ۔ اس مہینے کو یہ فضیلت و برکت اس وجہ سے حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے اس ماہ مبارک میں انسانوں کی فلاح وبہبود ، اس کی ہدایت و نجات کے لیے ایک عظیم الشان کتاب کا نزول فرمایا ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ  ۭ  ١٨٥؁
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔‘‘

اس عظیم الشان نعمت کے لیے شکرانےطور پر مومنوں کو یہ حکم دیاگیا کہ جو اس مقدس مہینے کو پائے ، اس پر لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے ۔اس آیت کریمہ سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ رمضان اور قرآن کو ایک خاص تعلق حاصل ہے۔ اور وہ ہے اس ماہ مبارک اس کتاب ہدایت کا نازل ہونا۔
رمضان اور قرآن کے درمیان چند مشترک خصوصیات پرغور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ تین چیزیں ان میں قدرمشترک ہیں:         ۱۔ تقوی        ۲۔شفاعت       ۳۔تقرب

*تقوی*
اللہ تبارک و تعالی نے روزے کی فرضیت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :
یَا اَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن
 اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (سورۃ البقرۃ ۱۸۳) گویا روزے کا مقصد انسانی زندگی میں تقوی کی روش پیدا کرنا ہے ۔اور اس تقوی کو پروان چڑھانے میں روزے کا اہم کردار ہے۔وہیں سورۃبقرۃ کے   آغاز میں بتایا گیا۔
ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ     ٻ فِيْهِ   ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ    Ą۝
 یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے متقیوں یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈر نے والوں کے لئے۔
گویا رمضان اور روزے میں تقوی بنیادی مقصدہے۔

*شفاعت*
دوسری چیز شفاعت ہےجو رمضان اور قرآن میں مشترک ہے۔
آپ  ﷺ نے ارشاد فرمایا :الصیام والقرآن یشفعان : کہ روزہ اور قرآن کریم دونوں بندہ کے لئےسفارش کریں گے ۔ روزہ عرض کرے گا کہ یا اللہ میں نے اس کو دن میں کھانے پینے سے روکے رکھا ، میری شفاعت اس کے حق میں قبول کرلیجئے، اور قرآن کہے گا کہ یا اللہ میں نے رات میں اسے نیند سے روکا ، اس کے حق میں میری شفاعت قبول کرلیجئے، پھر دونوں کی شفاعت قبول کرلی جائے گی۔ (رواہ احمد)

*تقرب الہی *
تیسری چیزجو رمضان اور قرآن میں مشترک ہےوہ تقرب الہی ہے۔
جب بندہ کلام اللہ  کی تلاوت کرتا ہے اسے اللہ تعالی کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے ۔ اسی طرح روزہ دار کو بھی اللہ تعالی کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے ۔حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ میں خود روزے کا بدلہ ہوں۔
اس موقع پر مولانا امین اصلاحی صاحب کی ایک بات یاد آتی ہے جو انھوں نے رمضان اور قرآن سے متعلق بتایا۔ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ     ٻ فِيْهِ   ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ    Ą۝
اس کی تشریح کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ قرآن بہار ہے اور رمضان کا مہینہ موسم بہار ہے جب کہ اور اس سے جس فصل کو نشونما اور ترقی ملتی ہے وہ تقوی ہے۔

*تراویح*
رمضان المبارک کا قرآن کریم کے ساتھ خاص تعلق کا ایک دلکش نظارہ ہمیں نماز تراویح میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ تراویح میں پابندی کے  ساتھ مکمل قرآن کی تلاوت کا اہتمام کیا  جاتا ہے جس میں قرآن سننے اور سنانے  کا اتفاق ہوتا ہے ۔ احادیث میں وارد ہے کہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور کرتے تھے۔ جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ (بخاری)

قرآن کریم کے تعلق سے ہمیں تین باتوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔
     ۱۔تلاوت قرآن،۲۔فہم قرآن، ۳۔ دعوت قرآن

*تلاوت قرآن *
تلاوت کلام پاک بھی ایک عبادت ہے  اور اس کے ہر ہر حرف پر اللہ تعالی نے دس نیکیاں رکھی ہیں۔ لہذا اس کے  آداب  ملحوظ رکھے جائیں ۔مثلاً :ریا و نمود سے پاک  صرف اور صرف اللہ تعالی کی رضا کو مدنظرر کھا جائے۔ نیز وضو وطہارت کی حالت میں ادب واحترام کے ساتھ اللہ کے کلام کی تلاوت کریں۔اطمینان کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر اور اچھی آواز میں تجوید کے مطابق تلاوت کریں۔ایسا نہ ہو کہ زیادہ سے زیادہ تلاوت کے چکر میں ہم ان باتوں کا خیال چھوڑ دیں ۔

*فہم قرآن:*
فہم قرآن پر ایک مفصل مضمون میں میں  نےاس کی وضاحت کی ہےاس لیے یہاں بس اختصار کے ساتھ بس یہ عرض کردوں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم متعدد مقامات پر فہم پر زور دیاہے ۔کیوں کہ یہ قرآن تمام انسانوں کے لیے کتاب ہدایت کے طور پر نازل کیا گیا ہے لہذا اس پر غور و فکر کرنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا بے حد ضروری ہے۔ لہذا ہم جس قدر اس کی تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں اسی قدر ہمیں چاہیے  کہ اس کے معنی و مفہوم پر غور وتدبر سے کام لیں اور قرآن کریم جو کتاب ہدایت اس  کے سمجھنے پر زور دیں۔

*دعوت قرآن:*
اسلام سب کے لیے اور اللہ تعالی کا پیغام بھی ساری انسانیت کے لیے ہے لہذا ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اگر چہ ایک ہی آیت جسے ہم جانتے ہیں اسے بندگان خدا تک پہنچانے کا نظم کریں ۔ قرآن تمام انسانوں کے لیے کتاب ہدایت ہے ،اس لیے اللہ تعالی کے احکام اور اس کے پیغام کو عام کرنا بھی ہماری اولین ذمہ داری ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر جس کے سبب یہ اس امت کو خیر امت کہا گیا ہے ،اس بنا پر  ہمیں دعوت قرآن کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔

رمضان المبارک کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے اس لیے تلاوتِ قرآن کے ساتھ ساتھ فہم قرآن اور دعوت قرآن میں مشغول رہیں اور زیادہ سے زیادہ قرآن سے استفادہ پر غور کریں کیوں کہ یہ ماہ تربیت ہے اگر ہم نے اس ماہ مبارک میں قرآن سے اپنا مضبوط سے مضبوط تر کیا تو آنے والے دنوں میں بھی ہمارا تعلق اس سے مضبوط ہوگا اور ہماری کامیابی اور سربلندی کا ذریعہ ثابت ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو تقویٰ والی زندگی گزارنے والا بنائے اور ہمیں قرآن کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی توفیق دے اور دونوں جہاں میں کامیابی وکامرانی عطا فرمائے۔ آمین۔

Sunday 20 May 2018

Taraweeh ki Ahmiyat

تراویح کی اہمیت
رمضان کا مبارک مہینہ جیسے ہی سایہ فگن ہوتا ہے ۔ ہم لوگ زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں صرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اس مہینے میں اللہ تعالی کا خاص کرم ہوتا ہے۔ نوافل اجروثواب میںفرائض کے برابرہوجاتے ہیں۔ اس لیے نوافل کی بھی کثرت ہوتی ہے۔ تراویح درحقیقت قیام لیل ہے۔ یعنی رات کو نماز میں کھڑے ہوکر قرآن پڑھنا اور سننا۔ اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ہم احادیث نبویﷺ کا مطالعہ کریں توجس طرح اللہ کے رسول صلی اللہ کا رمضان کے روزے سے متعلق یہ ارشاد ہے:

" مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (متفق علیہ)
’’جس نے رمضان کا روزہ ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں‘‘۔
اسی طرح آپ نے اس مبارک مہینے کے قیام لیل کے سلسلے میں بھی یہ ارشاد فرمایا:

وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ  (متفق علیہ)
جس نے رمضان کے مہینے میں قیام لیل (رات کو کھڑے ہوئے کر نوافل ) کا اہتمام  ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رکھا تواس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں‘‘۔

اس روایت سے صلوۃ تروایح کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے عہد میں صحابہ کرام ؓ مسجد میں انفرادی طور پر یا چھوٹے چھوٹے گروپس کی شکل میں تراویح کی نماز پڑھتے تھے۔ آپ ﷺ نے انھیں ایسا کرتے ہوئے دیکھا تو ان سب کو یکجاکیا اور ان کی امامت فرمائی۔ صحابہ کرام کا نبی کریم ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا شوق بہت زیادہ بڑھنے لگا تو تیسرے دن آپ ؐان کی امامت نہیں فرمائی اور ارشاد فرمایا:
’’ مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ نماز فرض نہ ہوجائے اس لیے آپ نے اس روزتراویح کی نماز نہیں پڑھائی ۔‘‘

اس کے بعد صحابہ کرامؓ بدستور انفرادی طور پریا چھوٹے چھوٹے گروپ میں ابوبکر ؓ کے پورے دور خلافت اور حضرت عمر کے عہد خلافت کی ابتدا میں نماز پڑھتے رہے۔ حضرت عمر ؓنے ایک موقعے پر مسجد میں لوگوں کو الگ الگ نماز پڑھتے دیکھا تو انھیں ایک امام پر جمع کیا اور اسی کی اقتدا میں نماز تراویح کا اہتمام شروع ہوگیا۔تک سے لے کر آج تک دنیا کے ہر گوشے میں جہاں مسجد ہے وہاں تراویح کا باجماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس میں مکمل قرآن سننے اور سنانے کا اہتمام ہوتا ہے۔

معزز سامعین کرام!  حدیث کے الفاظ کے پیش نظر ہم اس نماز کو اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اللہ تعالی ہی سے ثواب کی امید کے ساتھ نماز پڑھیں تو یقینا اللہ تعالی ماہ رمضان میں قرآن کریم کی سننے کی برکت سے ہمارے گزشتہ گناہوں کومعاف فرمائے گا۔

اس لیے تعداد رکعات میں الجھنے یا اس کے سنت، یا سنت مؤکدہ یا واجب ہونے نہ ہونے کے مسائل میں پڑنے کے بجائے اگر آپ نفل ہی سمجھ کر پڑھ رہے ہیں تو ضرور پڑھیں۔ یہ ہمارے اجر میں اضافہ کا سبب ہوگا۔ نبی کریمﷺ اس ماہ مبارک میں بہ کثرت نوافل کا اہتمام کرتے تھے۔ ہمیں بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی ہمیں رمضان کی رحمتوں اوربرکتوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔ آمین

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...