ٹیبل
عموما ہر دفتر میں کام کرنے والوں کو ایک ٹیبل ملتی ہے جس پر اس کے کمپیوٹر اور دفتری کاغذات ہوتے ہیں کارکن اس پر فائلس وغیرہ کھولتا ہے اور اپنی مفوضہ ذمہ داری کو ادا کرتا ہے.
اسی طرح جب میں 2008 میں مرکز جماعت دہلی دفتر میں آیا تو مجھے بھی ایک ٹیبل ملی جس پر میں کمپیوٹر کے علاوہ ضروری کاغذات اور فائلس رکھ کر مفوضہ کام انجام دینے لگا. اس دوران چار چار سال پر مشتمل چار میقات یہ ٹیبل میرے ساتھ گھومتی رہی. میں جہاں گیا وہ میرے ساتھ رہی. پہلی میقات 2011 میں پوری ہوئی، جس میں شعبہ تربیت کے سکریٹری سید عبد الباسط انور صاحب تھے جن کے معاون کے طور پر میری بحالی ہوئی تھی، ان کے ذریعہ جماعت کو بہت قریب سے دیکھا، سمجھا اور ان کی نفیس طبیعت، خوش مزاجی کیفیت اور دل کش شخصیت کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، وہیں میری ملاقات جناب اقبال ملا صاحب سے ہوئی اور مشترکہ طور پر دونوں کی معاونت کرنے کی ذمہ داری ملی اور یہ ٹیبل پہلی بار اس کا گواہ بنی اور اس نے بھر پور طریقے سے ساتھ نبھانے کا وعدہ بھی کیا.
وقت گزرتا گیا. زمانے کے حادثات پے در پے کبھی خوش نما تو کبھی رنجیدہ واقعات کے ساتھ سامنے آئے، جس سے غور و فکر کرنے اور اس میں اسلامی تعلیمات اور اس کی رہ نمائی دنیا والوں کے سامنے پیش کرنے کا جذبہ بیدار ہوا تو اس وقت اسی ٹیبل نے اس کام میں میرا بھرپور ساتھ دیا پھر حسب استطاعت مجھ سے جتنا ہوا لکھا.
2011 میں میقات بدلی تو ہمارے شعبہ کے سکریٹری بھی بدلے اور یہاں سے شروع ہوا ایک عظیم اسلامی مفکر سیدھے سادھے سادگی کے پیکر ڈاکٹر محمد رفعت صاحب کے ساتھ مل کر، فکر اسلامی کو فروغ دینے اور دنیا والوں کے سامنے اسے واحد متبادل نظام کے طور پر پیش کرنے کا سفر!
مجھے لگا کہ اب یہ ٹیبل کہیں میرا ساتھ نہ چھوڑ دے کیوں کہ اب یہاں سے مشکل مگر جسم و روح اور تحریکی فکر کو تقویت پہنچانے والے با قاعدہ کام کا میں آغاز کر رہا تھا اور دفتر بھی پرانی عمارت سے نئی اور کشادہ عمارت میں منتقل ہو رہا تھا. اس دوران میرا کمپیوٹر بدلا چیزیں بدلیں مگر ٹیبل وہی اپنے وعدہ وفا پر مصر تھی سو وہ بھی ساتھ ساتھ چلی آئی.
اس طرح اس میقات کا اختتام 2015 پر ہوا اور ایک بار پھر شعبہ کے سکریٹری بدلے اس بار ہمارے سکریٹری ہوئے مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی صاحب اس سے قبل آپ امیر حلقہ یوپی مشرق تھے. آپ کے ساتھ دو میقات کام کرنے کا موقع ملا. آپ بہت متحرک اور فعال ہونے کے ساتھ معروف مقرر بھی تھے. آپ کے ساتھ مرکزی تربیت گاہ کے علمی عملی اور تربیت گاہ میں باقاعدہ متحرک ہوا اور یہاں ٹیبل نے بھی میرا بھرپور تعاون کیا.
اس دوران پورے سفر میں ایک امیر جماعت مولانا سید جلال الدین عمری صاحب اور دو قیم محترم نصرت علی صاحب اور محترم سلیم انجینئر صاحب بدلے جب کہ محترم سید سعادت اللہ حسینی صاحب پہلی بار امیر جماعت منتخب ہوئے. مگر اس بار بھی ہماری وہی ٹیبل رہی اور اپنے وعدے پر قائم ساتھ نبھاتی رہی، ٹوٹی، پھوٹی اور نہ بدلی گئی. حالانکہ اس دوران میری رہائش گاہ بہت بدلی کبھی کرائے کے مکان میں تو کبھی کیمپس کے بیچلر کوارٹر میں اور اب کیمپس کے فیملی کوارٹر میں اہل خانہ کے ساتھ ہوں. اس دوران اس ٹیبل کے ساتھ ساتھ ہمارے بہت سے ہمدرد مخلصین محبین اور کھٹے میٹھے دوستوں نے میرا بہت ساتھ دیا.
آج میں اس مقام پر آ گیا جہاں ٹیبل چیخ و پکار کر رہی ہے کہ میں نے تمہارا بہت ساتھ دیا مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو بھلے ہی تم مجھے کونے میں رکھو کہیں بھی رکھو مگر مجھے اپنے ساتھ لے چلو. مجھے نہیں معلوم کہ یہ مجھے کہاں لے جائیں گے اور مجھ سے بھر پور استفادہ کر سکیں گے. میں اس ٹیبل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے سمجھا رہا ہوں کہ بھئ میں جہاں جا رہا ہوں تجھے ساتھ نہیں لے جا سکتا. تو یہیں رہ. ذمہ داران تجھے کسی بہتر جگہ منتقل کریں گے، اگر قسمت نے ساتھ دیا تو کیا معلوم تو پھر میرے پاس ہی آ جائے. اس طرح با دل ناخواستہ میں اسے وہیں چھوڑ آیا.
دل میں محبت ہو تو ہر شئی سے محبت ہو ہی جاتی ہے.
محب اللہ قاسمی
نوٹ : تحریر میں مذکورہ شخصیات میں سے، ڈاکٹر محمد رفعت صاحب ،نصرت صاحب اور مولانا سید جلال الدین عمری صاحب مالک حقیقی سے جا ملے ہیں. اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام بخشے. آمین