Wednesday 24 April 2019

Ittehad Ummat aur Iqamat Deen


اتحادِ امت اور اقامت ِدین
محب اللہ قاسمی
زندگی گزارنے کا خدائی نظام، جس کے مطابق زندگی بسرکرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔ پھر اس نظام کو اپنے قول وعمل اور اپنی تمام ترصلاحیتوں سے عام کرنا، تاکہ دنیا کا ہر انسان اپنے مالک حقیقی کی مرضی کو جان کر اس کی ہدایت (دین) کے مطابق اپنی زندگی گزارسکے ۔گویا فرد کی اصلاح معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل کا کام انجام دینا  اقامت دین ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اْس نے تمہارے لیے ، دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے، جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا ، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمہاری طرف ، ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے ، اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کو دے چکے ہیں ، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جائو یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف (اے محمد ؐ ) تم اِنہیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے ، وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے ، جو اْس کی طرف رجوع کرے۔(الشوریٰ: 13)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو( جوکلمہ ٔ  توحید کی بنیاد پر متحد ہوئے ہیں ) دوباتوں کی دوہدایت دی ہے:

۱۔ اقامت ِدین          
۲۔ تفرقہ بازی سے اجتناب

اس آیت کی روشنی میں موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات نمایاں طور پر نظر آتی ہے کہ امت میں اقامت دین کا جذبہ ہے، مگر وہ گروہ بندی سے اجتناب نہیں کرتی ہے۔ ایک گروہ کسی خاص انداز سے اقامت دین کا کام انجام دے رہا ہے تو دوسرا گروہ اس کی مخالفت کررہا ہے اور اس کو برا کہہ رہاہے، جب کہ دونوں دین کے بنیادی عقائد (توحید، رسالت اور آخرت وغیرہ) میں متحد ہیں۔

اختلاف اور افتراق
اختلاف اور افتراق، کے معنی ہیں ، دوچیزوں کا مختلف ہونا ۔یہ دونوںا لفاظ کبھی ایک معنٰی میں مستعمل ہوتے ہیں تو کبھی دونوں  کے دو خاص معنی ہوتے ہیں۔

 دنیا کے تمام معاملات جن میں اللہ اور اس کے رسول کی واضح دلیل موجود ہے(جسے اصطلاح شرع میں’ نص‘ کہتے ہیں)ان میں سب کااتحاد کے ساتھ عمل کرنا ضروری ہے، محض اپنی رائے پر اختلاف ،جس کے نتیجے میں افتراق ہو،کسی بھی درجہ میں مناسب نہیں ہے۔اگر نص موجود نہ ہو تو وہاں رائے کا اختلاف ممکن ہے ۔ یہ اختلاف  انسان کے فہم و فراست میں اختلاف کی بناپر ہوگا۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ نے صحابہ کے ایک وفد کو روانہ کرتے ہوئے کہا کہ بنوقریظہ کی آبادی میں پہنچ کر نماز عصر ادا کرنا۔ مگر صحابہ کرامؓ کا وفد ابھی اس مقام تک پہنچا بھی نہیں تھا کہ نماز عصر کا وقت ختم ہونے لگا تو کچھ لوگوںنے مقام پر پہنچنے سے پہلے ہی نماز ادا کر لی، جب کہ دوسرے کچھ صحابہ نے بنوقریظہ پہنچ کر نماز عصر ادا کی۔بعد میں اس کی اطلاع آپ ؐ کو ملی تو آپ نے کسی کو  غلط نہیں قراردیا۔

یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی ائمہ مجتہدین گزرے ہیں، ان کا اختلاف ایسے ہی اجتہادی مسائل میں ہے، پھر انھوں نے کبھی اپنی رائے پر دوسروں کو پابند  بنانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ جن حضرات نے ان کی آرا کو سامنے رکھا اور انھیں بہتر اور نص سے قریب تر محسوس کیا ،انھیں اختیار کیا۔ ائمہ اربعہ نے باہم کسی کی رائے کو برا نہیں کہا اور ان کی تردید اور تغلیط نہیں  کی۔ بلکہ حضرت امام شافعی ؒ کا واقعہ ہے کہ جب وہ امام ابوحنیفہ ؒ کے شہر میں داخل ہوئے تو  ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے رفع یدین ترک کردیا ۔

 فروعی مسائل کے اختلاف کوامت کے افتراق اور گروہ بندی کی شکل بنا کر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا یا اس میں تشددکا راستہ اختیار کرنا کسی طرح درست نہیں ہے۔صحابہ کرام میں بھی رائے کا اختلاف تھا مگر اس کی بنیاد پر وہ منتشر نہیں ہوئے بلکہ بھرپور اتحاد کے ساتھ اقامت دین کی جد و جہد میں مصروف رہے ۔انھوں نے اشداء علی الکفار رحماء بینہم(کفار کے مقابلے میں سخت اور آپس میں نرم دل )کا ثبوت پیش کیا۔

اقامت ِدین ایک مسلمان کا نصب العین ہے، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ، کہ کہا جائے کہ اس کی کوشش اس سے قبل نہیں ہوئی ۔سب سے پہلے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ اقامت دین کسے کہتے ہیں؟ اسلام کے بارے غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے اسلام کی دعوت دینا اس کی اشاعت وحفاظت ، اسلامی ثقافت و معاشرت کے فروغ کی کوشش کرنا اوردین میں ہر طرح کی خرافات و بدعات کی آمیزش کو دور کرنااقامت دین ہے۔صحابہ کرامؓ ،تابعین عظام،تبع تابعین  اور سلف صالحین رحمہم اللہ نے اپنی پوری زندگی اسی کے لیے وقف کردی تھی ۔

9/11 کے بعد جب دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں سے جوڑ کر اسلام کو بدنام کرنے کی عالمی سازش رچی جا رہی تھی اس وقت ہندوستان میں بھی یہ آگ چاروں طرف پھیلی تھی جسے بجھانے اور غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ایک بہت بڑا اجلاس دارالعلوم دیوبند میں منعقد کیا گیا تھا، جس میں مختلف مسالک کے ذمہ داران کو ایک اسٹیج پر جمع کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی تھی۔اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ واقعی اب مسالک کا وہ جھگڑا ،جو دست گریباں تک پہنچنے کا سبب بنتا تھا ختم ہو جائے گا۔مگر افسوس کہ یہ صورت حال صرف وقتی ہی رہی۔اس کے بعد تکلیف دہ بات جو دیکھنے کو ملی وہ یہ کہ جمعیت علماء ہندکے دو ٹکڑے ہو گئے۔عام مسلمانوں میں مقبول تبلیغی جماعت میں منصب کی لڑائی نے شرمناک رخ اختیار کر لیا۔ اس پر غضب بالائے غضب یہ کہ سعودی فرماںروائوں نے اپنی حیرت انگیز پالیسیوں سے ملت کو مزید انتشار اور تکلیف میں مبتلا کر دیاحالاں کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ  درجنوں مسلم ممالک کا باہمی اتحاد مسلمانوں کواستحکام عطا کرتاجس سے وہ دشمنان اسلام کا مقابلہ کرتے ، بے بس مسلمانوں کو ظلم استحصال کا شکار ہونے سے بچایاجاتا اور دنیامیں پھیلے فساد و بگاڑکو روکنے کی کوشش کی جاتی ۔کیوںکہ

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ ، دین بھی ، ایمان بھی ایک

حرم ِ پاک بھی، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جومسلمان بھی ایک

موجودہ دور میں مسالک کے اختلاف نے بہت خطرناک رخ اختیار کرلیا ہے۔ دوسرے مسالک کے لوگوں کااپنی مساجد میں داخلہ روکنا ،ایک دوسرے پر کفرکا الزام لگاناعام ہوتا جا رہاہے ،جو انتہائی افسوسناک ہے۔ مسلمانوں کے یہ  اختلافات صرف مسلک تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ ایک ہی جماعت اورایک ہی مسلک کے ماننے والوں میں بھی محض آراء کا اختلاف انتشار اور تنازع کی شکل اختیار کرلیتاہے ۔اس کی وجہ پر غور کریں تومعلوم ہوتا ہے کہ محض ’انا‘کی وجہ سے کہ میری رائے کو کیوں نہیں قبول کیاگیا اور میرے نظریے کے مطابق معاملہ کیوں نہیں ہوا،یہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔پھر  شیطانی وساوس اختلاف پیدا کرنے والوں کو گروہ بندی جیسے گھٹیا عمل میں ملوث کردیتے ہیں۔جس کے نتیجے میں امت بکھراؤ کا شکار ہو کر بے وزن ہوجاتی ہے اور اس کا دینی و ملی مفاد، جس کے لیے سب نے اپنے کو وقف کر رکھا تھا اس کا ناقابل تلافی نقصان ہوجاتا ہے۔پھرہرگروہ کے متبعین  آپس میں ہی ایک دوسرے کونیچادکھانے اور انھیں ہرممکن نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔

قائدین ملت کا محض اپنی  ’انا ‘اور ’شہرت‘ جاہ و منصب کی خاطر امت کو اتنے بڑے خسارے میں ڈال کر گوشہ عافیت میں پناہ گزیں ہوجانااقامت دین کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے جس کا شاید انھیں اندازہ بھی نہیں ہوتا۔یہ صورت حال امت کے ہر گروہ کی ہے جس کی وجہ سے آسمانی مصیبتیں در آتی ہیں اور نت نئے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور دشمنان اسلام اپنے مکروفریب میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہوجا

ضرورت ہے کہ  ماضی کے ان تلخ حقائق کو سامنے رکھ کر اختلاف کی وجوہ کا جائزہ لیا جائے اور انھیں حل کرنے کی سعی کی جائے،  تاکہ آنے والی نسل کو اس کی کڑوی گولی نہ لینی پڑے اور اختلاف مسالک کے باوجود اتحاد کی صورت اپنائی جاسکے اور اقامت دین کی راہ آسان ہو۔ll      

Tuesday 23 April 2019

Ikhtelafat Mitayen


اختلافات مٹائیں اتحاد کی راہ اپنائیں

    آج کل فیس بک سے لے واٹس ایپ گروپ تک ہر جگہ فتنہ مودودیت اور رد مودودیت کو لے کر عجیب افتراق و انتشار کا ماحول ہے اور کچھ لوگ بے وقت اس موضوع کو گرما گرم بحث کی اور لے جانا چاہتے ہیں۔ جب کہ ایک طرف تو اتحاد کی راہیں ہموار کی جا رہی ہیں اور پرانی باتوں کو ختم کر کے نئے سرے سے نئی حکمت عملی کے ساتھ دشمنانِ اسلام کا مقابلہ کرنا ہے اور ہم اب بھی رد مودودیت میں لگے ہوئے ہیں.

    میرا پوچھنا ہے کیا مولانا مودودی جنہوں نے حجیت حدیث پر ’سنت کی آئینی حیثیت‘ نامی کتاب لکھ کر منکرینِ حدیث کا منہ بند کیا، ختم نبوت کے معاملے میں پھانسی کی سزا قبول کی مگر ختم نبوت کے موقف پر مضبوطی سے قائم رہے. الحاد کے بڑھتے سائے کارخ موڑا اور نوجوانوں میں اسلام کا واضح نقطہ نظر پیش کیا، اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا تشفی بخش جواب دیا، جس سے برادران وطن میں اسلام اور اسلام کا پیغام بحمد اللہ تیزی سے متعارف ہوا... وہ آدمی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی عظمت، بلند مرتبت کے قائل نہیں ہیں؟ کیا مولانا مودودی انبیاء کرام علیہم السلام کی شان اور ان کے مقام کو نہیں مانتے؟  کیا انھوں نے ایسا کوئی مشرکانہ عمل اختیار کیا یا عقیدہ ختم نبوت کے قائل نہیں؟

    ظاہر ہے ایک منصف مزاج شخص عدل و انصاف کو سامنے رکھتے ہوئے کہے گا کہ نہیں ایسا نہیں ہے.

    اس کے بعد بھی ممکن ہے کہ مودودی صاحب سے غلطی ہوئی ہو اور بشریت کا تقاضا ہے کہ انسان سے غلطی ہوتی ہی ہے. تو کیا اس کے لیے یہ طریقہ کار اختیار کیا جائے گا؟

    میری ناقص رائے یہ ہے کہ ایک بار ہمارے علمائے دیوبند اور جماعت اسلامی کے لوگ بیٹھ کر باہمی تبادلہ خیال کر کے کچھ طے کر لیں. کوئی ایسی بات اگر غلط ہے تو اسے درست کر کے ہمیشہ کے لیے یہ جھگڑا ہی ختم کر دیا جائے ورنہ بڑے لوگ اتحاد و اتفاق کی بات کریں گے اور مدارس میں اختلاف و انتشار کی تعلیم دی جائے گی، جو مجھ جیسے بچوں کو بھی اچھا نہیں لگتا اور نہ ہی اس سے مسلمانوں کا کچھ بھلا ہونے والا ہے.

    ہم سب کو مل کر تعاون علی البر والتقوى کا عملی ثبوت پیش کرنا ہوگا ورنہ ہمارا اس طرح کا طرزِ عمل تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا، جو کسی صورت بہتر نہیں! اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو.
محب اللہ قاسمی


Monday 22 April 2019

Tahreek: karkun aur Qeyadat


تحریک: کارکن اور قیادت

محب اللہ قاسمی
    کوئی تحریک یا جماعت اس وقت تک مستحکم اور مضبوط نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کے کارکنان اور اس سے وابستہ لوگ مخلص نہ ہوں اور  ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردانہ اورمخلصانہ رویہ نہ اپنائیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ مادہ پرستی اور دنیا وی مفاد کے حصول میں لوگ سرگرداں ہیں، اس کے باوجود  مختلف کمپنیاں چلانے  والے مالکین بھی اپنےملازمین کا خیال رکھتے ہیں اور  ان سے ان کا  غیر معمولی ربط و تعلق ہوتا ہے۔ جب کہ تحریک اسلامی جو انبیائی تحریک اورمشن ہے اور اس کا مقصد دنیا کا مفاد مادہ پرستی نہیں، ان کا باہمی ربط تو مزید مستحکم ہونا چاہیے اور وہ سب آپس میں ایسے ہوں گویا ایک خاندان کے افراد جو گرچہ مختلف  گھروں اور مکانوں میں  رہتے ہوں مگر آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جسد واحد کی طرح جڑے ہوں۔

    یہی ربط وتعلق کا اہتمام تھا کہ ہر صحابی  ؓسمجھتا تھا کہ نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ  ان سے ہی محبت کرتے ہیں۔چنانچہ سب نے اس انبیائی مشن میں ایسا کردار ادا کیا جس سے ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جس کی مثال نہیں ملتی ۔کیوں کہ ان سب کے سامنے ایک ہی ہدف تھا  ’اقامت دین‘۔

     چوں کہ جماعت اسلامی ہند بھی دراصل انبیائی تحریک اور مشن کی علم بردار ہے۔ اس لحاظ سے اس تحریک کے کارکنان کا باہمی ربط و تعلق بھی ایسا ہی مضبوط اور مستحکم ہوناچاہیے۔ اسی مقصد کے تحت جماعت اسلامی ہند کے نومنتخب جواں سال امیر سید سعادت اللہ حسینی صاحب نے ہم تمام کارکنان اورذمہ داران مرکز سے اجتماعی ملاقات کا اہتمام کیا، جس کی اطلاع ملتے  ہی میری خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ میری یہ خواہش رہی کہ ہم تمام کارکنان مرکز کی امیر جماعت اور  ذمہ داران مرکز سے اجتماعی ملاقات ہو، ایک دوسرے کے احوال معلوم کیے جائیں، ان کی گھریلوزندگی اور ذمہ داریوں کی خبرگیری ہو، ان میں تحریک کی اسپرٹ پیدا کی جائے اور اس کارعظیم کو بہتر انداز میں پورا کرنے کا انھیں حوصلہ دیا جائے۔

    باحوصلہ قیادت نے الحمد للہ اپنی اس ذمہ داری کو ترجیحی طور پر پورا کیا اور عملی طور پر اسے جاری رکھنے کے لیے پر عزم نظر آئی۔ گرچہ قلت وقت کے سبب تمام کارکنان کاتعارف، ان کی قابلیت اور ذمہ داریوں کا ہی تذکرہ ہو سکا اور باہمی تبادلہ خیال کا موقع نہ مل سکا۔ جس کا افسوس امیر جماعت کی مفید اور تمام کارکنوں کے لیے حوصلہ بخش اختتامی گفتگو میں جھلک رہا تھا۔

    اس کے لیے ہم تمام کارکنان اپنے امیر محترم  کے بے حد ممنون و مشکور ہیں اور ان کے لیے شب و روز دعا کرتے  ہیں کہ اللہ رب العالمین، جس نے اس عظیم تحریک کی قیادت ان کو سونپی، وہی مالک حقیقی انھیں صحت و تندرستی کے ساتھ اس عظیم ذمہ داری کو استقامت کے ساتھ بہ حسن و خوبی انجام دینے کی توفیق عطا کرے اور ہر طرح کے شرور و فتن سے محفوظ رکھے. آمین یا رب العالمین۔

     واضح رہے کہ گزشتہ میقات میں اسی طرح کے دو پروگرام شعبۂ تربیت کی جانب سے مرکز جماعت میں منعقد کیے گئے تھے جن میں میں براہ راست امیر جماعت سے ملاقات اور گفتگو کا موقع ملا۔ وہ لمحہ بھی میرے لیے قابل مسرت تھا۔

    موجودہ امیر جماعت نے جس طرح اپنی اختتامی گفتگو میں فرمایا کہ ’’ہم میں سے کوئی امیر جماعت، کوئی نائب امیر، کوئی قیم، کوئی استقبالیہ کا کارکن، کوئی مرکز کی کار چلانے والا اور کوئی  صفائی کرنے والا ہوسکتا ہے، لیکن اصلاً ہم سب ایک ٹیم ہیں اور اس ٹیم کا گول اقامت دین ہے۔‘‘ اس بات کا عملی نمونہ ایک صفائی کارکن کی گفتگو میں ملا۔ جب ان سے پروگرام کے دوسرے ہی دن محترم امیر جماعت نے ان سے پروگرام میں غیرحاضری کا سبب معلوم کرتے ہوئے انھیں اپنے دفتر لے گئے اور ان سے  سامنے کی کرسی پر بیٹھنے کو کہا ،تو اس  نے جواب دیا:  میں کرسی پر بیٹھتا ہوں تو میرے سر میں درد ہونے لگتا ہے صاحب۔ پھر اس سے اس کے ذاتی اور گھریلو احوال معلوم کرتے ہوئے کہا کہ میں گزشتہ کئی سال سے آپ کو جانتا ہوں آپ بڑی محنت سے صفائی ستھرائی کا کام انجام دیتے ہیں۔  اگر آپ کو کسی طرح کی کوئی پریشانی ہو تو  مجھے بلا جھجھک بتا سکتے ہیں۔

    موجودہ امیر کی ایک خوبی جسے میں نے محسوس کیا کہ وہ جو بے جا تکلفات سے اجتناب  کرتے ہوئے عام کارکنوں سے کھل کر بات کرتے ہیں اور ان کے درمیان بیٹھ جاتے ہے۔ اس سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ قیادت اور احساس ذمہ داری کو سامنے رکھتے ہوئے  اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کو بہ حسن و خوبی انجام دیں گے۔ اللہ تعالی ان کا حامی و ناصر ہو اور انھیں اس شعر کا مصداق بنائے ؎   

نگہہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میرکارواں کے لیے


Wednesday 17 April 2019

Mahe Shaban aur Isteqbal e Ramzan




ماہ شعبان اور استقبال رمضان

    شعبان المعظم کا مہینہ چل رہا ہے، جسے رمضان المبارک کی تیاری کا مہینہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ ہمیں اس مہینے میں آئندہ ماہ رمضان المبارک جو اپنے فضائل و برکات کے ساتھ ہم پر سائہ فگن ہونے والا ہےاس کی تیاری شروع کردینی چاہیے۔

    سیرت رسول ؐ کے حوالے سے ہمیں یہ روایت ملتی ہے کہ آپؐ ماہ شعبان میں بہ کثرت روزہ رکھتے تھے اور صحابہ کرام ؓ کو جمع کر کے ان کے درمیان رمضان کے فضائل کا تذکرہ کرتے اور اس ماہ کی اہمیت بیان کرتے تھے۔امہات المومنین حضرت عائشہ ؓ روایت کافی مشہور ہے:

   عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ : فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ.(بخاری)

    ’’میں نے آپ ﷺ کو کسی بھی ماہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے رمضان کے اورمیں نے آپ ﷺ کو شعبان سے زیادہ کسی ماہ کے روزے رکھتے نہیں دیکھا ‘‘(بخاری)
    پتہ چلا کہ آپؐ ماہ شعبان میں بہت زیادہ روزہ کا اہتمام فرماتے تھے۔

    یہ حقیقت ہے کہ ایک کسان جب تک کھیت میں بیج نہیں ڈالے گا ، موقع بہ موقع اسے سیراب نہیں کرے گا توکھیت کے لہلہانے کی توقع فضول ہے۔ ٹھیک یہی حال رمضان اور اس کی تیاری کا ہے۔ شیخ ابوبکرالبلخیؒ کہتے ہیں:
     ’ماہ رجب کا شتکاری کا مہینا ہے،ماہ شعبان اس کی سیرابی کا مہینا ہے اورشہر رمضان کھیت کٹائی کا مہینا ہے۔اسی طرح ماہ رجب کو ہوا،شعبان کو غیم اوررمضان کو بارش سے تعبیرکرتے ہیں۔جس نے اعمال کی کھیتی کے موسم بہارمیں کاشتکاری نہیں کی اورماہ رجب میں اس کا پودانہیں لگایا اورشعبان میں اسے سیراب نہیں کیاتو وہ ماہ رمضان اعمال میں کے کھیتی کی کٹائی کیسے کرسکتاہے۔اگرماہ رجب گزرگیاہے تو کم ازکم شعبان کے مہینے سے اس کی کوشش کی جائے۔یہی ہمارے نبی اور اسلاف کا طریقہ رہا ہے ۔‘

    اس لحاظ سے ہماری ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے کہ ہم اس ماہ سے ہی عبادت و ریاضت، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں خصوصی دلچسپی لیں اور ابھی سے ہی آنے والے بابرکت مہینے کی تیاری شروع کردیں۔ اگر ہم نے منصوبہ بند کوشش سے اس ماہ مبارک سے فائدہ نہیں اٹھایا اور خود کو اس ماہ مبارک کی نیکوں اور اللہ تعالی کی رضا کے حصول سے مالامال نہیں کیا تو رمضان المبارک جس طرح پہلے آتا رہا ہے آنیوالا بھی رمضان آئے گا، گزر جائے گا اور ہم کف افسوس ملنے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

    اس لیے آئیے ہم لوگ ابھی سے اس کی تیاری میں لگ جائیں اور تقوی کی تربیت کے اس مہینے سے مستفید ہونے کا منصوبہ بنائیں۔ اللہ تعالی ہمیں حسن عمل کی توفیق بخشے۔ آمین یا رب العالمین۔
(محب اللہ قاسمی)

Saturday 13 April 2019

Shakhshiyat ki Tameer: Narm Dame Guftagu Garm Dame Justaju


      محترم ڈاکٹر سلیم صاحب جیسی اہم شخصیت کا خاکسار کی کتاب ترجیحی طور پر پڑھنا اور اس پر گراں قدر تبصرہ بھی تحریر کرنا کم از کم میرے لیے ناقابل یقین سا تھا. جس کے لیے ڈاکٹر صاحب کا بہت بہت شکریہ. جزاک اللہ خیرا.
      میرے تعلق سے ان کی خوش گمانی اور توصیفی کلمات جو ان کی ذرہ نوازی ہے جس کا میں ہمیشہ ممنون رہوں گا. ڈاکٹر صاحب کے اس حوصلہ افزائی کے حسن عمل اور اعلی ظرفی سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے.
ان سے میری اس مختصر سی ملاقات میں جو میں نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر صاحب واقعی دلچسپ، خوش مزاج اور ہر دل عزیز انسان ہیں. نوجوان نسل کو ان جیسے بہترین لوگوں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی سخت ضرورت ہے.
ان کے لیے میرے دل سے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں بہ صحت و عافیت رکھے تاکہ وہ اسی طرح نوجوانوں کی رہنمائی کریں اور اللہ انھیں دونوں جہاں میں سرخروئی عطا کرے آمین.


مولانا محب اللہ قاسمی: نرم دمِ گُفتگو، گرم دمِ جُستجو

ڈاکٹر سلیم خان


      مجلس نمائندگان کے دوران طعام گاہ میں ایک شخص کوسرگرمِ عمل دیکھ کر میں نے اپنے ہم سایہ سے دریافت کیایہ کون صاحب ہیں؟ پتہ چلا شعبہ تربیت کے نائب سکریٹری محب اللہ قاسمی ہیں۔ میں سمجھ گیا اللہ سے محبت کرنے والے اس اسم بامسمیٰ کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ بندگانِ خدا سے محبت نہ کرے اور یہی محبت اس سے ارکان مجلس کی خدمت کروا رہی ہے۔ مرکز ِجماعت دہلی میں اگر آپ کا جانا ہو تو مولانا محب اللہ قاسمی سے بھی ملیں۔ آپ پوچھیں گے کیوں ؟ دراصل مرکز میں جانے والے امیر جماعت، قیم جماعت، نائب امراء ،سکریٹریز اور اپنے احباب سے ملاقات کرتے ہیں لیکن مولانا محب اللہ جیسےغیر معروف افراد سےملاقات کا شرف حاصل نہیں کرتے حالانکہ ان کی شخصیت بھی کم متاثر کن نہیں ہوتی۔

      آگے چل کر مولانا قاسمی صاحب کے بارے میں یہ انکشاف ہوا کہ آپ ’شخصیت کی تعمیر ‘نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ ایک عالم فاضل صاحبِ قلم کا اس شدو مد کے ساتھ شرکاء کا خیال رکھنا میرے لیے باعثِ حیرت تھا۔ عام طور پر جن لوگوں کا قلم چلتا ہے ان کا دماغ تو بہت چلتا ہے۔ زبان بھی خوب چلتی لیکن ہاتھ پیر کم ہی چلتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ بیشتر کاموں کو اپنے مقام اور مرتبہ سے کمتر سمجھتے ہیں ۔ اس طرح نیکی کمانے کے بہت سارے مواقع سے اپنے آپ کو محروم کرلیتے ہیں۔ شخصیت کی تعمیر مین صفحہ نمبر ۸۷ پر قاسمی صاحب رقمطراز ہیں’نیکی اور بھلائی کا عمل خواہ کتنا بھی چھوٹا اور معمولی کیوں نہ ہو اسےہلکا نہیں سمجھنا چاہیے۔ اسلام میں ہر کارِ خیر خواہ وہ کسی بھی درجہ کا ہو، اہمیت کا حامل ہے ۔اس لیے کسی عمل کو حقیر سمجھ کر ترک کردینا مناسب نہیں ہے‘۔ یہ درست ہے کہ افراد اور کاموں کو حقیر سمجھنے سے انسان کے اندر رعونت پیدا ہوتی ہے۔ اپنی کتاب کے صفحہ ۸ پر وہ لکھتے ہیں ’اللہ نے انسانوں کو قدم قدم پر ایک دوسرے کا محتاج بنادیا ہے۔ ایسے میں ان کے غرور و تکبر کا کوئی جوا زباقی نہیں رہ جاتا۔ محتاج اور ضرورتمند متکبر نہیں ہوسکتا‘۔ اس طرح کی اچھی اچھی باتیں کہنا یا لکھنا جس قدر آسان ہے اس پر عمل پیرا ہو نا اتنا ہی مشکل ہے۔

      دورانِ اجلاس ارکان مجلس فجر کی نماز سے لوٹتے تو گرم گرم چائے ان کا استقبال کرتی۔ نشست سے قبل ناشتہ اور ظہر و عشاء کی نماز کے بعد کھانا تیا رملتا ۔ وقفوں میں چائے وغیرہ سے ضیافت ہوتی اور ہر موقع پر مولانا محب اللہ اپنی ٹیم کے ساتھ مصروفِ عمل دکھائی دیتے ۔ ان کی اس گرمجوشی کی وجہ مذکورہ کتاب کےصفحہ ۱۰۴ پر یوں بیان ہوئی ہے’ایک مومن کا تعلق دوسرے مومن سے اخوت پر مبنی ہوتا ہے۔ ایمان کا رشتہ ایسا مضبوط ہونا چاہیے کہ آدمی اپنے مومن بھائی کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھے‘۔ اگلے صفحہ پر وہ امام ابن تیمیہ کا اقتباس نقل کرتے ہیں ’مومن کو دوسرے مومن بھائیوں کی خوشی سے خوشی ہوتی ہے اور ان کی تکلیف سے وہ بھی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ جس میں یہ کیفیت نہ ہووہ مومن نہیں‘ ۔ یہ جملہ پڑھتے وقت ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ آنکھوں میں آگیا اس لیے کہ دوسروں کی تکلیف کو دور کرنا سہل ہے لیکن کسی کی خوشی سے خوش ہوجانا مشکل کام ہے۔

      آخری دن قاسمی صاحب نے کھانے کی میز پر سوال کیا ’سلیم یہ کیا کہ پہلےتو شوریٰ میں تمہارا نام آیا اور پھر غائب ہوگیا؟‘ میں نےجواب دیا ’اعلان میں بھول سے چوک ہوگئی تھی اصلاح ہوئی تو چلا گیا‘وہ بولے’ لیکن اتنی بڑی بھول ہوئی کیسے؟‘یہ ذرا مشکل سوال تھا ، میں نے پوچھا ’کیا آپ کو جیل جانے کا اتفاق ہوا ہے‘ وہ سٹپٹا کر بولے نہیں‘ میں نے کہا ’جیل جانے کے لیے جرم کا ارتکاب لازم نہیں ہے لیکن چونکہ جیل کے اندر کوئی کام نہیں ہوتا اس لیے بے قصور قیدی اس سوچ میں گم رہتا ہے کہ آخر میں یہاں کیوں ہوں؟ اس کے لیے کون قصوروار ہے وغیرہ لیکن جب اس کو رہائی کا پروانہ مل جاتا ہے تو وہ سب بھول بھال کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور کچھ نہیں سوچتا‘۔ اس جواب پر مولانا کا قہقہہ بلند ہوا اورمیں نمائندگان کی حسین یادوں کے ساتھ لوٹ آیا۔ آپ کو محب ا للہ قاسمی صاحب سے ملنے کی سعادت نہ ملے تب بھی اپنی ’شخصیت کی تعمیر‘ کے لیے ان کی کتاب ضرور پڑھیں۔
        *****


Thursday 11 April 2019

Hindustan men Muslim Qeyadat ka Zawal - Asbab o Awamil



ہندوستان میں مسلم قیادت کا زوال- اسباب وعوامل
محب اللہ قاسمی

ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ، اس کی خوبصورتی اسی میں ہے کہ اس  میں ہرقسم ، ہر رنگ و نسل کے لوگ  اور مختلف مذاہب کے ماننے والے پرامن طریقہ سے رہیں اور ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے اپنی پوری قوت لگا دیں۔ اس لحاظ سے ہر محاذ پر انھیں کی نمائندگی  کا موقع دیا جانا چاہیے۔ اس وقت ہندوستانی سیاست میں مسلم قیادت کو جس طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔

1۔ ہندوستان میں سیکولر شناخت کی دھندلی ہوتی تصویر اور فسطائی قوتوں کے ناپاک عزائم نے جہاں دوسرے کم زور طبقے کو متاثر کیا وہیں مسلمانوں کو بھی حاشیہ پر لا کھڑا کیا ہے جس کی وجہ سے  اب کسی پارٹی کو مسلمانوں سے  ہمدردی نہیں  رہ گئی ہے۔ وہ انھیں کوئی اہمیت نہیں دے رہی ہے۔

2۔ ہندوستان کی کسی بھی پارٹی سے جیت کر آنیوالے مسلم امیدوارکو پارٹی نے  اس کی حیثیت کے مطابق  مقام نہیں دیا۔حتی کہ اسے  مسلم ایشوز پر بھی بولنےسے روک دیا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی گنی چنی پارٹیاں حرکت میں آئیں مگر ان کا باہمی اتحاد نہ ہونےکی وجہ  سے وہ منتشر رہیں۔اس کے سبب مسلم قائدین دوسری پارٹیوں  میں بھی نظر انداز کئے گئے۔

3۔ مسلمانوں کا سیاسی شعور  جس قدر بیدار ہونا چاہیے تھا اور جس طرح ان کے قائدین کو اپنے نوجوانوں کی سیاسی تربیت کرنی چاہیے تھی ایسی نہیں ہوئی ۔اس کے نتیجہ میں نام نہاد سیکولر ازم کا طوق گلے میں لٹکائے مسلم قائدین زوال پذیر ہوتے گئے،مسلمانوں کا وجودجلتی ہوئی موم بتی کی طرح پگھلتا چلاگیا اور وہ  سیاسی طور پر مستحکم نہیں ہوسکے۔ ادھر فسطائی طاقت کا وجود  اور ہندوتو کے  غلبہ نے ان قائدین کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا اور دوسری طرف  وہ پارٹیاں جن کی کام یابی کے لیے مسلمانوں نے اپنی کئی نسل لگا دی اب وہ بھی انھیں ٹکٹ سے محروم کرنے  لگے۔

4۔ آزادی کے بعد سے مسلمانوں کی قیادت کی ذمہ داری اٹھانے والے مسلم قائدین نے اپنی  نسل کو آگے بڑھانے اور انھیں مین اسٹریم سے جوڑنےکی اس قدر کوشش نہیں کی جیسی دوسری قوموں نے کی ہے ۔نتیجتاً  اب انھیں کوئی قیادت کا موقع  دینےکے لیےتیار نہیں۔

5۔ نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے بھی مسلمانوں کے ووٹ اور ان کی حمایت سے صرف اپنے پنجے کو مضبوط کرنےاور اپنی لالٹین کی لوبڑھانے کی کوشش کی، مگر خود ان کے گھر کے لوگوں کو مضبوط کیا نہ اس کے گھر میں لال ٹین جلائی۔ سارا تیل خود  ہی پی گئے اور جس نے گھر بنانے  کی امید جگائی وہ کھلے طور پر موقع پرست ہوکر گھر جلانے والوں کے ساتھ ہوگیا۔اس کے نتیجےمیں اب یہ پارٹیاں بھی مسلمانوں کو محض استعمال کرنے کے لیے اپنی پارٹی میں جگہ دیتی ہیں، بلکہ بسا اوقات انھیں ایسی جگہ سے ٹکٹ دیتی ہیں جہاں سے اس کا جیتنا آسان نہ  ہو۔  اس طرح وہ چاہتی ہے کہ مسلم قیادت کسی طور  مضبوط  نہ ہو۔

6۔ طویل عرصے سے مسلمانوں کی سیاسی کم زوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں خط افلاس سے نیچے پہنچادیاگیا، جس کی وجہ سے ان کا اپنی قیادت کے بارے میں سوچنا تو  دور  ان کے جینے کے لالے پڑ گئے، چہ جائے کہ تعلیمی اور دیگر  میدان میں آگے بڑھ پاتے اور اس میں قیادت کا  فریضہ انجام دیتے ۔

7۔ ہندوستان  میں مسلم قائدین نے اپنی حیثیت اس قدر مجروح کرلی کہ دوسری قوم کی عوام نے بھی اسے حقارت سے دیکھنا شروع کردیا اور  ان پر یہ الزام کہ جو اپنی قوم کی فلاح و بہبود اور اپنے مذہب جوانسانیت کی کامیابی کا نسخہ اپنے پاس رکھتا ہے ۔ اس کے لیے اتنا وفادار نہیں تو دوسروں کے لیے وہ کیا کرے گا۔نتیجہ ایک گدھا اور احمق بن کر اپنا وجود ایسے کھونے لگا کہ  نہ گھر کا رہا نا گھاٹ کا۔

8۔ سیاسی بصیرت کا فقدان اورعلمی صلاحیت کی کمی نےان مسلمانوں کو جنھوں  نے چھ سو600 سال ہندوستان پر  حکومت کی  غلامی کے دلدل میں ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ پارٹی کی دری  ،کرسی بچھانے اور چاپلوسی جیسی  گھٹیا صفت اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دلدل سے نکلنے کی کوئی کوشش بھی نہیں ہے۔

9۔ کوئی انسان جب تک خود کو پہچانتا نہیں اور اپنی قابلیت کو نہیں پرکھتا وہ اسے مزید نکھارنے اور بہتر بنانے کی فکر بھی نہیں کرتا ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی طور پر مسلمانوں نے خود کو پہچاننے کی کوشش نہیں کی اور نہ اپنی صلاحیت کو اس ضمن میں پروان چڑھایا۔نتیجتاً وہ سیاسی طور پر حاشیہ پر چلے گئے۔نوبت یہ آ گئی کہ اب انھیں کوئی نہیں پوچھتا۔

10۔قیادت میں پھر سے واپسی اور زمام حکومت کو پھر سے اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے مسلمانوں کو از سرنو محاسبہ کرنا ہوگا اور اپنے اختلاف و انتشار کو پوری طرح سے ختم کرکے سیاسی طور پر مستحکم کرنے کے لیے بہت بڑا دل کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگانا ہوگا۔ اب مسلمانوں کو دوسری پارٹی کے بھروسے پررہنے کی ضرورت نہیں، خود کی پارٹی کو مضبوط کرکے  ملک کی قیادت کا فریضہ انجام دینا ہوگا۔ تب ہی فسطائی قوت کو مات دی جاسکتی ہے ورنہ الگ الگ میقات میں الگ الگ پارٹیاں جیتتی رہیں گی مگر نظریہ  وہی تعصبانہ اور ملک میں انتشار اور بے چینی کی کیفیت پیداکرنا ،فسادات،غربت و افلاس ، بے روزگاری ومہنگائی کی مار سہنی ہوگی ۔ جس سے نہ ملک پرامن ہوسکے گا اور نہ خوش حالی آئے گی۔



Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...