Wednesday 24 June 2020

Elm o Amal



علم و عمل ایک دوسرے کے بغیر ناقص

علم کی روشنی سے ہم تب ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب اس سے تربیت کی بھی کوشش کی  جائے ۔ جس علم سے اللہ کی معرفت حاصل ہو، جس علم سے ہم حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بھی پاسداری کر رہے ہوں۔
جس سے ہمارے اندر بڑوں کا احترم اور چھوٹوں پر شفقت کا سلیقہ آئے
جس سے ہمارے اندر ایک دوسرے کی تنقید کو سن کر اس کا مناسب رد عمل پیش کر سکیں،
جس کے ذریعہ ہم حق کے طرف دار ہوں،
جس سے ہم ہر طرح کے ظلم کا خاتمہ جس سطح سے بھی کرسکتے ہوں کرنے کے لیے تیار ہوں۔
جس سے ہم مظلوم کی آواز بن سکیں، مجبور کا درد محسوس کر سکیں۔ورنہ بقول معروف شاعر سرفراز بزمی ؎
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
نا حق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
پھر ہم علم چاہیے جتنا بھی حاصل کر لیں اس کا کیا حاصل جب عمل ہی ناقص ہو۔ بقول شیخ سعدیؒ
علم چندآں کہ بیشتر خوانی      چوں عمل در تو نیست نادانی
علم جس قدر بھی حاصل کر لیا جائے جب عمل نہ ہو تو عقل مند نہیں سمجھا جائے گا
اسی طرح ایسے شخص کے سلسلے میں شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں:
نه محقق بود نه دانشمند      چارپائے بر او کتاب چند
بے عمل شخص کو نہ محقق سمجھا جائے گا اور نہ دانش مند بلکہ ایک چارپائی ہے جس پر چند کتابیں لدی ہوئی ہیں۔
 علم بے تربیت اور تربیت بنا علم یا یوں کہیں کہ علم بے عمل اور عمل بنا علم غیر مفید ہے۔  ایک سے ہم دنیا تو حاصل کرسکتے ہیں جس سطح پر بھی ہو مگر وہ اطمیان بخش اور کامیاب زندگی حاصل نہیں کرسکتے جو اللہ کو محبوب ہے۔ جب کہ دوسرے سے ہماری تربیت یا عمل اتنی ناقص ہوگی کہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہوگا کہ ہماری تربیت کس نہج پر، عمل کس رخ پر اور کیسا ہونا چاہیے۔ اس لیے یہ دونوں ضروری ہے ورنہ فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ اللہ تعالی ہمیں علم نافع اور عمل صالح کی دولت عطا کرے آمین۔   (محب اللہ قاسمی)

Monday 22 June 2020

Meri Zindagi Tera Shukria





مری زندگی! ترا شکریہ

کلام اور آواز

محب اللہ رفیق قؔاسمی

Friday 19 June 2020

Dumri Madarsa Fatma Chak



میرے اور ابا کے دور کا ڈمری مدرسہ
محب اللہ قاسمی

یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ پٹنہ رہتا تھا۔ یوں تو میری ابتدائی تعلیم اپنے دادی کے ساتھ رہ کر فاطمہ چک میں مولوی ہاشم صاحب نیپالی زیر تربیت ہوئی۔ قرآن اور اردو اور حساب کی ابتدائی چیزیں میں نے ان سے ہی پڑھی۔ چوں کہ ہم لوگ اگثر پٹنہ میں رہتے تھے اس لیے گاؤں میں بہت کم ہی رہنے کا اتفاق ہوا مگر ایک ایسا زمانہ بھی آیا جب دادی نے مجھے ڈومری مدرسہ پڑھنے کے لیے بھیجا وہ خود ہی میرا ٹیفن تیار کرتی اور کپڑے کے سلے تھیلے میں کتاب رکھ کر بھیجتی تھی۔ مولانا جمال الدین صاحب سے عربی، مولانا شاہ عالم صاحب سے اردو اور فارسی پڑھی کوئی ماسٹر صاحب تھے نام یاد نہیں آ رہا ہے ان سے حساب وغیرہ پڑھنے کا موقع ملا۔ اس وقع میرا دوست چھوٹے (مطیع اللہ) بھی میرے ساتھ ہی مدرسہ آیا جایا کرتا تھا اور ہم لوگ خوب شرارت بھی کرتے تھے۔ خاص طور سڑک کے دونوں طرح آم کے گاچھی میں مہوا، ٹکولہ چننا کبھی توڑنا وغیرہ۔

پھر مدرسہ کی پڑھائی چھوٹ گئی اور ہم لوگ پٹنہ میں رہنے لگے۔ غالباً 95 یا 96 کی بات ہے جب ہم لوگ پٹنہ چھوڑ پوری طرح گاؤں میں شفٹ ہوگئے تو میری تعلیم کے لیے غور ہونے لگا کیوں کہ میں نے پانچویں کلاس تک اسکول میں پڑھائی کی تھی تو آگے کیسے پڑھنا ہے یہ پوری طرح میرے اوپر تھا والد صاحب نے کہا کہ شیوہر اسکول میں ایڈمیشن کرا دیتے ہیں سائکل آنا جانا۔ مگر میں نے انکار کردیا، اس کی وجہ جو مجھے اچھی طرح یاد ہے۔

میں نے حبیب اللہ کو دیکھا اور کچھ اور بچے تھے کہ وہ گلے میں رومال ڈالے کرتا پائجامہ کے ساتھ مجید دادا، منظور دادا، محمد دین دادا جولوگ سڑک کے قریب کھٹیا پر بیٹھے ہوتے تھے ان کے قریب جاتا سلام کرتا اور مصافحہ کرتا مجھے یہ ادا بے حد بھا گئی۔ اگر چہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ مدرسہ میں کس طرح ماں باپ اور گھر خاندان سے رہ کر پڑھا جاتا ہے۔ میں نے ابا سے کہا کہ میں اسکول میں نہیں مدرسہ میں پڑھوں گا۔ چنانچہ میرے لیے بکسہ پیٹی تیارکے مجھے سیتا مڑھی مدرسہ میں داخلہ کرایا گیا، ابا، سمیع اللہ چا مجھے لے کر مدرسہ گئے تھے۔ پھر میں جامع العلوم مظفرپور، مدرسہ قادریہ ہماچل پردیش اور بالآخر دارالعلوم دیوبند پہنچ کر سند فضیلت حاصل کی۔

خیر میں یہ بتا رہا تھا کہ میری بھی کچھ نہ کچھ تعلیم دومری مدرسہ میں ہوئی ہے اور راشد کے آنکھ میں چوٹا پڑنے کا واقعہ ہو یا مولانا جمال صاحب کے رعب و دبدبہ کی بات ہو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔

اب میں بات کرتا ہوں اپنے والد مرحوم کی جن کی ولادت 5 فروری 1961 ہے۔ ان کیابتدئی تعلیم پٹنہ کے ایک اسکول میں ہوئی۔ جہاں سے ساتویں کی ڈگری لے کر واپس گاؤں آگئے اور اس وقت کے غیر معمولی شہرت یافتہ، جہاں کے بیشتر فارغین ضلع جوار میں سرکاری ٹیچر بحال ہیں یعنی مدرسہ اسلامیہ عربیہ ڈومری میں داخلہ لیا۔ ان سے بڑے دوبھائی بھی مدرسہ میں ہی زیر تعلیم تھے جو اپنی ذہانت اور قابلیت سے پورے مدرسہ میں معروف تھے، مگر جلد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ابا نے فوقانیہ  کے بعد مولوی  تک ہی تعلیم حاصل کی، مگر اپنے مشفق استاذ مولانا عبدالغفار صاحب (جو علوم دینیہ کے علاوہ علوم سائنس، ریاض اور سوشل سائنس کے ماہر تھے) کی شفقت و محبت سے انھوں نے اردو، ہندی کے علاوہ انگریزی اور حساب میں کافی مہارت حاصل کر لی تھی۔ بتاتے ہیں کہ وہ نہ صرف اردو ہندی بلکہ  انگریزی، حساب وغیرہ میں بھی بڑے ماہر تھے۔ اس زمانے میں گاؤں میں کسی کا مانی آرڈر وغیرہ آتا یا اس پر کچھ لکھا ہوتا۔ ہندی یا انگریزی کا کوئی مسئلہ ہوتا تو ابا اسے حل کرتے تھے۔اس کی وجہ ابا کے استاذ مولانا عبدالغفار صاحب کی خاص شفقت و محبت تھی۔ سالم چا کی زبانی میں بتاتا چلوں کہ فاطمہ چک میں کوئی مجاور یا پاکھنڈی ٹائپ کا مولوی نما ایک شخص آیا اور علی الاعلان جنت کا ٹکٹ بیچنا شروع کردیا۔ گاؤں کے کسانوں کو مرعوب کرنے اور اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لیے وہ کہتا تھا کہ مٹیاہا جنت یا بلواہا کون سی جنت لینی ہے۔ پھر وہ ابا سے ٹکرا گیا۔ ڈومری مدرسہ کا پڑھا ہوا طالب علم انھوں نے اس کی ایسی حجامت بنائی اور کہا کہ یہاں سے فوراً شکل گم کرو ورنہ خیریت نہیں۔

ابا کہتے تھے:
انسان اچھا کام ریا کاری سے شروع کرتا ہے، پھر وہ عادت بن جاتی ہے، پھر جب اس میں خلوص اور پختگی آتی ہے تو وہ عبادت ہو جاتی ہے.
اپنے اخری لمحہ میں جب وہ بیماری کے سبب کھڑے ہونے کی کوشش کرتے اور گر جاتے پھر اٹھتے تو کہتے تھے:
انسان گرتا ہے، اٹھتا ہے، لڑکھڑاتا ہے، سنبھلتا ہے پھر گرتا ہے پھر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے اور اٹھتا ہے. یہی تو زندگی ہے ورنہ مر کر تو سارے لیٹ جاتے ہیں. اس میں کوئی حرکت نہیں ہوتی.
ابا جو بہت گہری گہری باتیں کر جاتے تھے وہ ان کے اس مدرسہ میں تعلیم کا ہی نتیجہ تھا۔

الغرض فاطمہ چک نے اس مکتب کو عروج بخشا اور اس سے علم کی جو روشنی پھوٹی اس کو دور دور تک پہنچایا جس سے نہ صرف مدرسہ معروف ہوا بلکہ فاطمہ چک معروف ہوگیا جو اپنے علاقہ میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ یعنی ڈومری مدرسہ جسے فاطمہ چک مدرسہ کہنا چاہیے اسے گاؤں اور گاؤں والوں نے اس مدرسہ کا خوب نام روشن کیا۔ اللہ تعالی اسے مزید ترقی دے اور اس کے تعلیمی نظام کو مزید بہتر بنانے کی توفیق بخشے۔

Wednesday 17 June 2020

Suicide & Islam


خود کشی اور اسلامی تعلیمات
محب اللہ قاسمی
خودکشی زندگی سے مایوسی اور شکست کی گھٹیا صورت ہے۔ بزدلی کی اس گھناؤنی حرکت کو لوگ مختلف اسباب و حالات کی وجہ سے مختلف صورتوں میں انجام دیتے ہیں۔ پھریہ بدترین عمل بعض مذاہب میں تفاخر کا سبب بن جاتا ہے اور بعض مقامات پر اسے عزت شرافت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کچھ مذاہب نے اسے براکہا، مگر ان میں بھی دو ٹوک اور مدلل موقف کا اظہار نہیں ہے۔ اسلام ایک ایساواحد مذہب ہے جس نے اس فعل ِ بد کو حرام موت اور اس کے مرتکب کو جہنمی قرار دیا ہے۔

خودکشی کی تعریف قرآن کی آیت سے یہ معلوم ہوتی ہے:
 وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ  (البقرۃ: ۱۹۵)
’’اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘

قرآن کی اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ زندگی جیسی اہم چیز کو ضائع کرنے کا حق اور اس کا اختیار اللہ نے ہمیں نہیں دیا ہے۔
ہندو مذہب میں ایسا کرنا کچھ صورتوں میں برا نہیں مانا جاتا، اس لیے کہ ان میں سے بعض لوگوں کے عقیدے میں ہے کہ انسان مرتا ہے تو اپنے اچھے برے کرموں کے سبب اس کا دوبارہ جنم ہوتاہے۔ گویا دنیا میں دوبارہ آنے کا یقین اس کے اس بدترین عمل کاسبب بنا بعض مقامات پراس کوخاندانی شرافت تصورکیاجاتاہے۔یعنی مردہ شوہرکی بیوی کی زندگی بے رنگی کر کے اس کوشوہرکی لاش کے ساتھ زندہ جلادینا، جسے ’’ستی ساوتری‘‘ کا باعزت نام ملتا ہے۔

یہودیوں اور عیسائیوں کے علماء اس کی مذمت تو کرتے ہیں مگر اس کے برا کہنے کی نہ تو ان کے پاس کوئی سندہے اورنہ ہی اس کے روک تھام کی کوئی شکل ان سے ملتی ہے۔ زندگی سے مایوس ہوکرجنگلوںمیںچلاجانا فراریت کاتصوریونانی فلسفیوںکے یہاں بھی ملتا ہے ۔

اسلام جوکہ مکمل نظام حیات ہے اس نے اس ناپسندیدہ عمل کوحرام موت ہی قرار نہیں دیابلکہ اس عمل کاتفصیلی جائزہ بھی لیا۔کیوںکہ اکثرلوگ خودکشی اپنی خوشی اور مرضی سے نہیں کرتے بلکہ عوراضات وحوادثات سے بے بسی ولاچاری اور زندگی سے مایوسی ان کی خودکشی کا سبب بن جاتا ہے۔اسلام نے ان تمام اسباب پرنگاہ ڈال کرجامع اسلامی تعلیمات عطا کیا جو ایک مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں ایک سچامسلمان اپنی زندگی سے اتنامایوس نہیں ہوسکتا جو اس کوخودکشی پراعمادہ کرے۔

خودکشی کے اسباب:
زندگی سے مایوسی، قرض کی ادائیگی کابوجھ، ناکامی، شرمندگی، احساس گناہ، اپنی خاندانی آن بان اوراپنی موت کے ذریعے والدین کودکھ پہنچانے کی کوشش۔ مثلاً ایک شحض اپنی زندگی سے بالکل مایوس ہو چکاہے کہ قرض کی ادائیگی اس کے بس سے باہر نظر آتی ہے۔ جوبھی کام کرتا ہے اس میںاسے ناکامی و نامرادی ہورہی ہے ۔گناہ کا احساس اسے کہائے جارہا ہے۔ بے بنیاد الزام کا صدمہ لیکرجینادوبھرہورہاہے۔وہ سب کچھ اپنے والدین کے لئے کررہا ہے مگرپھربھی والدین کی پھٹکارہی اسے مل رہی ہے ،کسی لڑکی سے محبت ہوئی شادی کا وعدہ وعید ہوامگروہ لڑکی کسی اور کے ساتھ شادی رچالی یاپھربیوی نے اپنے شوہرسے بے وفائی کی اور غیروںسے جس کی تاب نہ لاکر مردنے خودکشی کرلی وغیرہ وغیرہ۔

بسا اوقات خودکشی کا فیصلہ جلدبازی میں ہوتا ہے ورنہ زیادہ تریہ چند مراحل میں طے ہوتا ہے یعنی ناکامی پرناکامی اس کے اس فیصلے کومستحکم کردیتی ہے۔چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ پانی میں ڈوبنے کی کوشش کرنے والا بچاؤبچاؤ کی آوازبھی لگاتا ہے۔ بعض مذہبی رجحانات اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے۔مثلاً بعض غیر قوموں کا نظریۂ آوا گون اس بات کے لیے آمادہ کرتا  ہے کہ ایسی پریشان زندگی سے بہتر ہے کہ خودکوختم کردیاجائے۔ تاکہ دوبارہ اچھی زندگی ملے گی۔ یاکسی محبوبہ کا انتقال ہواتوخودکوبھی ختم کر لیا، تاکہ دوبارہ دونوں ایک ساتھ دنیامیں آئیں۔

موجودہ دورمیں اس فعل کی انجام دہی کی مختلف صورتیں دیکھنے کوملتی ہیں۔ زندگی سے مایوس شخص اس فراق میں لگ جاتاہے جواسے آسانی سےموت آجائے اورکوئی اسے بچانے والا بھی موجودنہ ہو۔مثلاً کوئی زہریلی چیزکھالی، کئی منزلہ عمارت سے چھلانگ لگالی، ٹرین کی پٹری پر لیٹ گیا، خودکوگولی مارلی خونی اسلحہ کااستعمال کر لیا یا خود کو منشیات کا عادی بنالیا، وغیرہ۔
اسلام نے ان تمام اسباب میںمایوسی،بزدلی،ذلت اور رسوائی کے خوف کو بنیادی سبب قرار دیتے ہوئے اپنانسخہ بتایا۔

وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ (الطلاق:۳)
’’ جو اللہ  پربھروسہ رکھے گاوہ  اس کے لیے کافی ہے ۔‘‘

زندگی سے مایوس ہونااللہ پرعدم اعتماد کا مظہر ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ بزدلی کے سبب خودکشی کے بجائے ناموافق حالات کامقابلہ کرنا چاہیے۔

اسلام کے ابتدائی دورمیںصحابہ کرام کوذلیل ورسواکیاگیا۔ کیاوہ حقیقت میں اس کے لائق تھے؟ نہیں! ان کی بیویوںکوبھی بے عزتی کاسامناکرناپڑا،ان کا جرم کیاتھا؟ حضرت خبیبؓ کوسولی پر چڑھانے سے قبل ان کامثلہ کیاگیا۔کیاقصورتھاان کا؟ وہ تپتےریتوںپرگھسیٹے گئے، بڑے بڑے پتھران کے جسموں پررکھ دیے گئےاوردہکتے ہوئے انگارے سے لوہا نکال کران کے جسموں کو داغا گیا۔ یہ حضرات چاہتے توان اذیتوں سے بچنے کے لیے خودکشی کرلیتے۔ مگر شیدائیان اسلام نے اس ظلم وذلت کی زندگی کوگوارا کیا، مگر خودکشی جیسی بزدلانہ حرکت نہیں کی۔
اسلام نے بتایاکہ یہ زندگی اللہ کی دی ہوئی امانت ہے، جسے ضائع کرنے کا کسی کو   حق نہیں۔ کیاہوا جو کسی کاشوہرمرگیا،دنیامیںاورلوگ بھی ہیںجواس کی کفالت کرسکتے ہیں اور اس کی زندگی کوخوش گواربناسکتے ہیں۔لہٰذابیواؤںسے شادی کرنے کی اسلام میں ترغیب دی گئی۔ کیا ہواجونا کامی ملی ،ناکامی توکام یابی کاپیش خیمہ ہوتی ہے۔ مایوسی و ناامیدی، کیوںجب کہ امید پر دنیا قائم ہے۔ اس لیے انسان کو زندگی کی آخری سانس تک  جد و جہد کرنی چاہیے۔

یہ مشکلات وپریشانیاںعارضی ہیں۔ یہ زندگی دھوپ چھاؤںکی طرح لگی ہوئی ہیں۔ لہٰذا ایسے حالات میں صبروتحمل سے کام لیناچاہئے ۔قرآن کی بے شمارآیات میں اس مضمون کو واضح کیا گیا ہے:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ            (البقرۃ: ۱۵۵)
’’اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر ، فاقہ کشی ، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ اِن حالات میں خوش خبری دے دو صبر کرنے والوں کو۔‘‘

 اللہ تعالیٰ کسی کواس کی وسعت اور برداشت سے زائد تکلیف نہیں دیتا:
لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا     (البقرۃ:۲۸۶)
’’اللہ کسی متنفس پر اس کی قدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘

اسلام انسان کے دل میں ان مشکلات سے نپٹنے کے لیے جوش وہمت اور روحانی طاقت پیداکرتاہے اور اسے زندگی کے ہرمقام پرخوش بختی کا احساس ہوتاہے۔ اس کا پابند شخص خودکشی کا لفظ اپنی زبان پرلانے کواپنی جواں مردی کے لیے عارمحسوس کرے گا۔  ٭٭٭

(ماخوذ: شخصیت کی تعمیر اسلام کی روشنی میں --- مصنف : محب اللہ قاسمی)


ख़ुदकुशी (आत्महत्या) और इस्लाम
ख़ुदकुशी या आत्महत्या ज़िन्दगी से मायूसी और हार की घटिया सूरत है । बुज़दिली की इस घिनावनी हरकत को लोग अलग–अलग वजहों और हालतों में अंजाम देते हैं । फिर यह बदतरीन हरकत कई मज़हबों में गर्व की वजह बन जाती है और वु़छ जगहों पर इसे इज़्ज़त और शराफ’त की नज़र से देखा जाता है । कई मज़हबों ने इसे बुरा कहा, मगर दोटूक अन्दाज़ में दलीलों वे़ साथ अपने नज़रिए का इज़हार न कर सवे़ । इस्लाम ही एक ऐसा मज़हब है जिसने इस बुरे काम को हराम मौत और इसे करनेवाले को जहन्नमी क’रार दिया है । ख़ुदकुशी का मतलब क़ुरआन की इस आयत से मालूम होता है, जिसमें अल्लाह ने कहा:

और अपने हाथों अपने–आपको तबाही में न डालो ।’’
(क़ुरआन, सूरा–2 बक’रा, आयत–195)
क़ुरआन की इस आयत से साफ’ ज़ाहिर है कि ज़िन्दगी जैसी अहम चीज़ को बरबाद करने का हक’ अल्लाह ने हमें नहीं दिया है ।

इस्लाम जो कि मुकम्मल निज़ामे–हयात यानी सम्पूर्ण जीवन–व्यवस्था है, उसने इस नापसन्दीदा अमल को हराम मौत ही क’रार नहीं दिया, बल्कि उसवे़ कारणों का विस्तार से जायज़ा भी लिया है । क्योंकि ज़्यादातर लोग अपनी ख़ुशी और मर्ज़ी से ख़ुदकुशी नहीं करते, बल्कि परेशानियाँ, हादसों से बेबसी और लाचारी और ज़िन्दगी से मायूसी, क’र्ज़ का बोझ, नाकामी, शर्मिन्दगी, गुनाह का एहसास, अपनी ख़ानदानी आन–बान और अपनी मौत वे़ ज़रिए माँ–बाप को दुख पहुँचाने की कोशिश उनकी ख़ुदकुशी की वजह बन जाती है ।
मिसाल वे़ तौर पर एक आदमी अपनी ज़िन्दगी से बिलवु़ल मायूस हो चुका है कि क’र्ज़ की अदाएगी उसवे़ बस से बाहर नज़र आती है । वह जो भी काम करता है उसमें उसे नाकामी व नामुरादी मिल रही है । गुनाह का एहसास उसे सताए जा रहा है । बेबुनियाद आरोपों का सदमा लेकर जीना दूभर हो रहा है । वह सब वु़छ अपने माँ–बाप वे़ लिए कर रहा है, मगर फिर भी उसे माँ–बाप की फिटकार ही मिल रही है । किसी लड़की से मुहब्बत हुई, शादी का वादा भी हुआ, मगर उस लड़की ने किसी और वे़ साथ शादी रचा ली या फिर बीवी ने अपने शौहर वे़ साथ बेवफ़ाई की, जिसकी वजह से मर्द ने ख़ुदकुशी कर ली, वग़ैरा ।

इस्लाम ने इन तमाम कारणों को देखते हुए व्यापक इस्लामी शिक्षाएँ दी हैं जो एक मार्गदर्शन है, जिसकी रौशनी में एक सच्चा मुसलमान अपनी ज़िन्दगी से इतना मायूस नहीं हो सकता जो उसको ख़ुदकुशी करने पर मजबूर करे ।

कभी–कभी ख़ुदकुशी का फ़ैसला जल्दबाज़ी में होता है वरना ज़्यादातर मामलों में यह कई मरहलों में  तय होता है । यानी नाकामी–पर–नाकामी उसवे़ इस फ़ैसले को मज़बूत करती है । इसलिए देखा गया है कि डूबने की कोशिश करनेवाला ‘बचाओ! बचाओ!’ की आवाज़ भी लगाता है । वु़छ मज़हबी ख़्ायाल इसका हौसला भी बढ़ाते हैं । मिसाल वे़ तौर पर आवागमन का नज़रिया इस बात वे़ लिए आमादा करता है कि ऐसी परेशान ज़िन्दगी से बेहतर है कि खूद को ख़त्म कर दिया जाए, ताकि दोबारा अच्छी ज़िन्दगी मिले । या किसी महबूबा की मौत हो गई तो खूद को भी ख़त्म कर लिया, ताकि दोबारा दोनों एक साथ दुनिया में आएँ ।

मौजूदा दौर में इस काम की बहुत–सी सूरतें देखने को मिलती हैं । ज़िन्दगी से मायूस आदमी इस कोशिश में लग जाता है कि उसे आसानी से मौत आ जाए और कोई उसे बचानेवाला भी मौजूद न हो । मिसाल वे़ तौर पर कोई ज़हरीली चीज़ खा ली, कई मंज़िल की इमारत से छलाँग लगा ली, ट्रेन की पटरी पर लेट गया, ख़ुद को गोली मार ली, घातक हथियार का इस्तेमाल कर लिया या ख़ुद को नशे का आदि बना लिया वग़ैरा ।

इस्लाम ने इन तमाम कारणों में मायूसी, बुज़दिली, ज़िल्लत और रुसवाई वे़ डर को बुनियादी वजह क’रार देते हुए अपना नुकसान बताया है:
जो अल्लाह पर भरोसा रखेगा वह उसवे़ लिए काफ’ी है।’’
(क़ुरआन, सूरा–65 तलाक’, आयत–3)

ज़िन्दगी से मायूस होना अल्लाह पर भरोसा न करने की निशानी है । इस्लाम की तालीम यह है कि बुज़दिली की वजह से ख़ुदकुशी करने वे़ बदले मुश्किल हालात का मुक़ाबला करना चाहिए ।
इस्लाम वे़ शुरुआती दौर में सहाबा (रज़ि॰) को ज़लील व रुसवा किया गया । क्या वे हकीक़त में इसवे़ हक’दार थे ? नहीं! उनकी बीवियों को भी बेइज़्ज़ती का सामना करना पड़ा, उनका जुर्म क्या था ? हज़रत ख़ुबैब (रज़ि॰) को सूली पर चढ़ाने से पहले उनवे़ जिस्म वे़ हिस्सों को बुरी तरह काटा गया, क्या वु़’सूर था उनका ? वे तपती हुई रेत पर घसीटे गए, बड़े–बड़े पत्थर उनवे़ जिस्म पर रख दिए गए और दहकते हुए अँगारों से लोहा निकालकर उनवे़ जिस्म को दाग़ा गया । ये लोग चाहते तो इन परेशानियों से बचने वे़ लिए ख़ुदकुशी कर लेते । मगर इस्लाम पर मर मिटनेवालों ने इस ज़ुल्म–ज़्यादती की ज़िन्दगी को बरदाश्त किया, मगर ख़ुदकुशी जैसी बुज़दिलाना हरकत नहीं की ।

इस्लाम ने बताया कि यह ज़िन्दगी अल्लाह की दी हुई अमानत है । इसे बरबाद करने का हक’ किसी को नहीं । क्या हुआ जो किसी का पति मर गया, दुनिया में और लोग भी हैं जो उसकी देखभाल कर सकते हैं, और उसकी ज़िन्दगी को खुशगवार बना सकते हैं। इसलिए इस्लाम में विधवाओं से शादी करने पर उभारा गया है । क्या हुआ, जो नाकामी मिली, नाकामी तो कामयाबी की सीढ़ी होती है । मायूसी और नाउम्मीदी क्यों, जबकि उम्मीद पर दुनिया खड़ी है । इसलिए इनसान को ज़िन्दगी की आख़री साँस तक कोशिश व संघर्ष करते रहना चाहिए ।

ये मुश्किलें और परेशानियाँ तो अस्थायी हैं । यह ज़िन्दगी धुप–छाँव की तरह लगी हुई है । इसलिए ऐसे हालात में सब्र और संयम से काम लेना चाहिए । क़ुरआन मजीद की बेशुमार आयतें हैं जिसमें इन्हीं बातों को दोहराया गया है । अल्लाह कहता है:
और हम ज़रूर तुम्हें डर व खौफ़, भूख व फ़ाक़े’ से, और जान व माल वे़ नुक’सान और आमदनियों वे़ घाटे में डालकर आज़माएँगे । और ऐसे हालात में सब्र करनेवालों को खुशख़बरी दे दो ।’’                 
(क़ुरआन, सूरा–2 बक’रा, आयत–155)
अल्लाह तआला किसी को उसकी ताक’त और सहन–शक्ति से ज़्यादा तकलीफ’ नहीं देता । क़ुरआन में है:
अल्लाह किसी जानदार पर उसकी ताक’त से ज़्यादा ज़िम्मेदारी का बोझ नहीं डालता ।’’      (क़ुरआन, सूरा–2 बक’रा, आयत–286)

इस्लाम इनसान वे़ दिल में उन परेशानियों से निपटने वे़ लिए जोश, हिम्मत और रूहानी ताक’त पैदा करता है और उसे ज़िन्दगी वे़ हर मोड़ पर ख़ुशबख्ति व ख़ूशनसीबी का एहसास होता है । इस्लाम का पाबन्द इनसान ख़ुदकुशी का शब्द अपनी ज़बान पर लाना अपनी बहादुरी व जवाँमर्दी वे़ ख़िलाफ़ और बड़ा गुनाह समझता है ।

मोहिब्बुल्लाह क़ासमी
mohibbullah.qasmi@gmail.com
9311523016



Wednesday 3 June 2020

Lockdown Men Infaq



لاک ڈاؤن میں انفاق
مسلمانوں کی جانب سے قابل قدر خدمات

انسان کو جو کچھ بھی میسر ہے۔ وہ سب اللہ کی دین ہے۔ اس کا عطیہ ہے۔ انسان کا اپنا کچھ نہیں ہے۔  اللہ تعالی کا فرمان ہے:      وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ (اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے،ا س میں سے خرچ کرتے ہیں۔)
دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ تعالی کی عطا کردہ رزق کی کشادگی اور مال و دولت  کی فراوانی ہے اور یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے بے پناہ عطا کرتاہے۔
مگر یاد رہے  زیادہ پیسہ ہونا اہم نہیں، پر دل بڑا ہونا بہت اہم ہے. بڑے دل والے اپنی ایک روٹی میں بھی دوسرے ضرورت مند کو آدھی بلکہ کبھی پوری روٹی کھلا دیتے ہیں. وہ دل کھول کر عطیہ، صدقہ و خیرات کرتے ہیں ،جب کہ زیادہ پیسے اور چھوٹے دل والے پیسے بنانے اور گننے میں ہی رہ جاتے ہیں۔گویا وہ عطا و بخشش اور انفاق کی عظیم خوبی سے محروم ہوتے ہیں۔
یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہے کہ سخاوت مومن کی پہچان ہے جب یہ انتہا کو پہنچ جائے تو ایثار ہے، جو اللہ کو بہت پسند ہے جب کہ بخل ایمان کے لیے دیمک سے کم نہیں! الحمدللہ اس لاک ڈاؤن میں مسلمانوں نے  ضرورت مند، بے کسوں و بے سہارا بھوکوں پر بے دریغ خرچ کیا ہے اور بڑی حد تک ان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کوششیں کی ہیں۔ اس کا اجر اللہ تعالی انھیں ضرور عطا کرے گا۔
آئیے ! لاک ڈاؤن میں بخل کو مات دیں لوگوں کی بھوک مٹائیں سخاوت سے کام لیں.نبی کریمﷺ کا فرمان ہے: من کان فی حاجت اخیہ کان اللہ فی حاجتہ۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے گا! اللہ تعالی اس کی ضرورت پوری کرے گا۔
محب اللہ قاسمی
9311523016


Barmala Kaha Jaye





غزل
جرم جس کا ثابت ہو جرم ہی کہا جائے
جس قدر بھی واجب ہو قید میں رکھا جائے

مسئلہ جو حق کا ہو بر ملا کہا جائے
بھول کو بزرگوں کی بھول ہی کہا جائے  

رہبران ملت تو عیش میں ہیں اے لوگو!
کس کو کیا کہا جائے، کس سے کیا سنا جائے

عدل تو ضروری ہے مسئلہ کسی کاہو
بے رعایتِ بے جا فیصلہ کیا جائے

بھوکے رہ کے روزے میں ہم نے یہ بھی جانا ہے 
بے دریغ بھوکوں پر خرچ کر دیا جائے

جو جہاد کی شمعیں جل رہی تھیں ماضی میں
کیوں نہ اے رفیقؔ ان کو جگمگا دیا جائے
محب اللہ رفیقؔ قاسمی

Monday 1 June 2020

Darul Uloom Deoband



مادر علمی دارالعلوم دیوبند

دارالعلوم ایک ایسی تحریک ہے، جس نے بھارت کو انگریزوں کی غلامی سے آزادی دلانے کے لیے بھر پور جد و جہد کی۔  اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی خاطر ملک بھر میں مدارس کا جال بچھایا، شرک و بدعات کا قلع قمع  کیا۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کی بقا کی انتھک کوشش کی اور کفر و الحاد کے مقابلے میں ہمیشہ سینہ سپر رہا۔

الحمدللہ میں اسی ادارے کا فاضل ہوں۔ میں شخصیت پرستی کا قائل نہیں، مگر ہمارے اسلاف و اکابر جن میں مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، امداد اللہ مہاجر مکی، مولانا عابد حسین، مولانا قاسم نانوتویؒ،  شیخ الہندمولانا محمودحسنؒ اورمولانا اشرف علی تھانویؒ  وغیرہ  نے اسلامی احکام اور اس کی تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے بے لوث خدمات انجام دی ہیں، انھیں میں آئیڈیل مانتا ہوں۔ آج دنیا بھر میں جو لوگ بھی اسلام کو مکمل نظام حیات کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں اور متنوع دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ کہیں نہ کہیں ان سے  ضرور متاثر ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ان خدام دین کو نظر انداز کرنے کے بجائے ان کے ساتھ مل کر للہ کام کریں۔  
محب اللہ قاسمی
ThankYouDarulUloomDBD#

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...