Wednesday 21 December 2016

Talaq ka Sarhi Qanoon Insanon ki Zarurat

طلاق کاشرعی قانون انسان کی ضر ورت
محب اللہ قاسمی

اسلام انسانوں کے لیے رحمت ہے۔ زندگی کے تمام گوشوں کے بارے میں اسلام کے قوانین حکمت سے خالی نہیں ہیں۔ وہ انسان کی ضرورت اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہے۔مثلاً قصاص کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:’’ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘(البقرۃ:  179) بظاہر اس میں ایک انسان کے خون کے بدلے دوسرے انسان کا خون کیا جاتاہے۔ مگر اس میں حکمت یہ ہے کہ دوسرے لوگ کسی کو ناحق قتل کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔ اسی طرح زنا کرنے والے کو، اگر وہ غیر شادی شدہ ہے خواہ مرد ہو یا عورت، سرعام سوکوڑے مارنے کا حکم دیاگیا ہے ۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ کوئی شخص زنا کے قریب بھی نہ جاسکے۔عوتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے ، تاکہ ان کی عزت و آبرو کی حفاظت ہو۔ نکاح کو آسان بنانے کا حکم دیا گیا ہے ، تاکہ زناعام نہ ہو اور معاشرے کو تباہی  اور انسانوں کو مہلک امراض سے بچایا جاسکے۔
 یہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ ان کے خالق ،کائنات کے مالک اور احکم الحاکمین کا بنایا ہوا قانون ہے۔ اس لیے ا س میں کسی کو ترمیم کی اجازت نہیںہے۔ اس میں کمی یا زیادتی کرنا اللہ کے ساتھ بغاوت ہے۔ یہی مسلمان کا عقیدہ ہے۔اسی طرح میاں بیوی کے درمیان کسی بھی صورت نباہ نہ ہونے کی شکل میں ان کا شرعی طریقہ سے جدا ہونا طلاق اور خلع کہلاتا ہے، جواسی قانون الٰہی کا حصہ ہے۔اس فطری قانون میں بھی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں، جسے معمولی عقل و شعور رکھنے والا ہر فرد بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔

طلاق اور دیگر مذاہب
دیگر  مذاہب کا جائزہ لیں توپتہ چلتا ہے کہ اس میں نکاح کے بعد طلاق کا کوئی طریقہ مذکور نہیںہے ۔ اگر کہیں ہے تو وہ افراط اور تفریط کا شکار ہے ،جس سے یا تو شوہر پر ظلم ہوتا ہے یا عورت اس ظلم کا شکار ہوتی ہے ۔ مثلاً:  یہود کے نزیک اگر شوہر طلاق دینا چاہتا، تووہ صرف طلاق کا نوشتہ دیوار پر لٹکا دیتا اور دونوں میں جدائی ہو جاتی ۔ جب کہ عیسائیت میں زنا کی مرتکب عورت (مزنیہ)کو ہی طلاق دی جاسکتی ہے بجزاس کے طلاق دینا جائزہی نہیں ہے۔ ہندوازم  میں تو کسی صورت میں طلاق ہی نہیں ہے ۔ایک عورت کی شادی ہوگئی اب وہ بہر صورت وہیں رہی گی، چاہے اس کی زندگی اجیرن اور اس کا جینا محال ہوجائے ۔ عورتوں کے دل میں یہ تصور بیٹھا دیا گیا ہے کہ وہ ڈولی سے سسرال گئی ہیں اب وہاں سے ان کی ارتھی ( جنازہ) ہی نکلے گی۔دوسری کسی بھی صورت میںوہ وہاں سے نہیں نکل سکتیں خواہ ان کے شوہر ان کی زندگی تباہ کر دیں ،یا ان کی عزت کا سودا کریں ،یاانھیں جان سے مار ڈالیں۔اب جا کر انھیں یہ حق ملا ہے کہ وہ طلاق لے سکتی ہیں مگر اس کے باوجود یہ عمل اتنا دشوار ہے کہ ایک عورت کو طلاق لینے یا شوہر کو طلاق دینے میں لمبا عرصہ گزر  جاتا ہے، مگر طلاق کی کارروائی پوری نہیں ہوپاتی۔ جس کے نتیجہ میںایسی بے شمار عورتیں اپنی زندگی کو رو رہی ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔اس کی ایک مثال موجودہ وزیر اعظم کی بیگم جسودہ بین ہیں ۔ وہ ایک لمبے عرصہ سےشوہر کی موجودگی کے باجود بناشوہر کے زندگی گزاررہی ہیں، مگر انھیںانصاف نہیں ملا ۔اگر طلاق کا آپشن ہوتا تو وہ اپنے شوہر سے آزادی حاصل کرکے خوشگوار زندگی کا آغاز کرسکتی تھیں۔

اسلام کا تصور طلاق:
طلاق کیا ہے؟  طلاق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی کھولنے اور چھوڑ دینے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں عورت کو نکاح سے خارج کردیناطلاق کہلاتا ہے۔ اسلام نے انسان کی اس ضرورت کو محسوس کیا اور اسے طلاق کا حق دیا۔ اورطلاق کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام نے اس عمل کو تمام جائزکاموں میں ناپسندیدہ عمل قرار دے کر اسے آخری علاج قرار دیاتاکہ کوئی شخص بات بات میں طلاق کی دھمکی نہ دے، بلکہ سوچ سمجھ کر یہ اقدام کرے۔جس طرح نکاح سوچ سمجھ کیا جاتا ہے ،جس کے نتیجہ میں ایک خاتون اس کی زندگی میں آتی ہے ، اسی طرح طلاق کے غلط اور بے جا استعمال سے وہ عورت اس کی زندگی سے رخصت بھی ہوجائے گی۔اسی طرح عورت کو متنبہ کیا گیاکہ وہ بات بات پر طلاق کا مطالبہ نہ کرے، تنبیہ کی گئی کہ ایسی عورتیں جنت کی خوشبوسے بھی محروم رہیں گی۔طلاق کے بارے میں اسلام کی اتنی حساسیت صرف اسی لیے ہے تاکہ حتی الامکان ازدواجی زندگی کوایک دوسرے کے تعاون سے بہتر انداز میں چلانے کی کوشش کی جائے۔کیوں کہ میاں بیوی کے درمیان اختلاف پیدا کرنا  اور اس کی وجہ سے خاندانی نظام درہم برہم کر دینا شیطان کا محبوب مشغلہ ہے۔

 نکاح ایک معاہدہ ہے :
نکاح ایک معاہدہ ہے، جس کا مقصد زوجین کا پیار و محبت کے ساتھ معاشرتی نظام کو جاری رکھنا ہے۔جب کوئی شخص نکاح کرتا ہے تو وہ اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں شامل ہونے والی خاتون کا نان ونفقہ ،رہنے سہنے کا بندوبست کرے گا اور اس کے تمام حقوق زوجیت کو ادا کرے گا۔ اسی طرح خاتون کی جانب سے بھی یہ عہد ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو خوش رکھے گی ،لتسکنو الیہا(تاکہ تم اس سے سکون حاصل کرو)کے تحت اسے ذہنی و جسمانی سکون بخشے گی، شوہرکی غیر موجودگی میں اس کے مال و اسباب کے ساتھ ساتھ اپنی عزت و آبرکی حفاظت کرے گی جو شوہر کی امانت ہے۔

طلاق-  نقض معاہدہ:
اب اس معاہدے میں کسی کی جانب سے کمی یا کوتاہی ہوئی تو سب سے پہلے دیکھا جائے گا کہ یہ غلطی کس درجہ کی ہے، پھر اسے دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے گی اور فریقین کو سمجھانے بجھانے کے لیے دونوں جانب سے لوگ تیار کیے جائیںگے ، جو انھیں شوہر کی اہمیت اور بیوی کی ضرورت پر گفت و شنید سے مسئلہ کو حل کرنےکی شکل نکالیں گے ، اس کا ہر طرح سے علاج کرکے اسے درست کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اس کے باوجود اگر کوئی صورت نہ بنے اور دونوں کی زندگی تلخ سے تلخ تر ہوجائے اورگھر جہنم کی تصویر بن جائے اور اس بات کا خوف ہو کہ وہ اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو اس آخری مرحلہ میںاسلام نے اس معاہدہ کو توڑنے کی اجازت دی ہے۔

طلاق سنجیدہ عمل:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:  ’’طلاق دو بار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو ۔ البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زَوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ۔ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے ، تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے۔ یہ اللہ کی مقررکر دہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو۔ اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کریں ، وہی ظالم ہیں۔‘‘(البقرۃ229)
طلاق کا طریقہ بھی مبنی بر حکمت ہے۔شوہر اس طہر کی حالت میں، جس میں اس نے بیوی سے جماع نہ کیا ہو ،طلاق دے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ مردکو غور خوض کرنے یا عورت کو بھی سنبھلنے کا موقع مل جاتا ہے ۔اس درمیان وہ رجعت(طلاق سے رجوع کرکے) اسے رکھ سکتا ہے۔جب کہ ایک ساتھ تین طلاق دینے کی صورت میں یہ اختیار بھی ختم ہوجاتاہے۔اسی لیے عہد رسالت میں اسے بہت معیوب اور شریعت کے ساتھ کھیل جیسا عمل قرار دیا جاتا تھا، جب کہ عہد فاروقی میں اس عمل پر کوڑے مارے جاتے تھے۔ مگر تین طلاق واقع ہوجایا کرتی تھی۔

طلاق کا اختیار
چوںکہ طلاق نقض معاہدہ ہے تو کوئی بھی اپنی جانب سے اسے توڑسکتا ہے ،البتہ اللہ نے مردو ں کوقوام (نگہبان اور ذمہ دار) بنایا اور انھیں ایک درجہ فضیلت بخشی ہے،اس وجہ سے انہی کو طلاق دینے کا بھی اختیاربخشا ۔جو مبنی بر حکمت ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ معاہدہ ہے جسے ختم کرنے کا عورت کو بھی حق دیا کہ اگر اس کا نباہ نہیں ہورہاہے تو وہ شوہر کو راضی کر کے یاقاضی کی معرفت خلع لے لے۔

 عورت کو خلع کا حق:
خلع کہتے ہیں کسی چیز کو اتارنا، مثلاً اپنا لباس اتار نا، جوتا اتار نا، وہ چیز جو پہنی گئی تھی اسے اتار دینا، اسی طرح عورت نے معاہدہ کی شکل میں جو لبادہ پہن رکھا تھا اسے اتاردینا خلع کہلاتا ہے۔ پھر وہ عدت کے بعد آزاد ہے ، وہ کہیں بھی شادی کرکے نئے سرے سے اپنی زندگی کا خوشگوار آغاز کرسکیں۔اگر عورت کو خلع کا حق نہ ملتا تو یہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوتی جب کہ اسلام کا نظام مبنی بر عدل ہے۔
طلاق ظلم نہیں
اب جو لوگ طلاق پر سوال اٹھاتے ہیں اور اسے عورتوں پر ظلم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عورت طلاق کے بعد سڑک پر آ جاتی ہے، اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ؟ اس اعتراض کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ طلاق عورتوں پر ظلم نہیں اس میں تو مردو ں کا بھی نقصان ہے کہ اتنے اخراجات کے بعد شادی ہوئی کسی ناچاقی کے سبب طلاق ہو گئی اور بیوی گھر سے چلی گئی۔پھر شادی کے لیے عورت کو وہ اخراجات نہیں اٹھانے پڑتے جو پھر سے شوہر کو مہر اور دیگر اخراجات کی شکل میں اٹھانے پڑ سکتے ہیں۔یہ سب نقصان مردوں کا ہی نقصان ہے۔ اسی طرح معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی طلاق کی حکمت کو سمجھ سکتا ہے ۔مثلاً جب جسم کا کوئی حصہ خراب ہوجائے جس کی وجہ سے پورا جسم متاثر ہو ، جس کے علاج کا ڈاکٹر نے آخری حل آپریشن ہی تجویز کیا ہو تو کون نادان ہوگا جو آپریشن کراکے اس مصیبت سے نجات حاصل نہیں کرنا چاہیے گا۔ یہ پھوڑا یا خراب عضو میا ںبیوی میں سے کوئی ایک بھی ہوسکتا ہے۔جو اس کی خوشگوار زندگی کو متاثر کر رہا ہےاور اس کا کوئی حل نہ نکل رہا ہو،لہذا اس کا آخری حل طلاق ہے ۔
اسی طرح طلاق کے بعد دوران عدت اس کے تمام اخراجات تو شوہر کو ہی برداشت کرنےہوتے ہیں۔بلکہ اگر بچہ  چھوٹا ہے،تو اس کی پرورش تک اس کی دیکھ بھال کرنا اس کے بدلے اس کا معاوضہ ادا کرنا بھی شوہر ہی کے ذمہ ہوتا ہے۔ اگر طلاق کے معاملے میں لوگ جذباتی فیصلہ لینے کے بجائے سوچ سمجھ کر، اس عمل کی حکمت کو سامنے رکھتے ہوئے ناگزیر صورت حال میں ا حسن طریقہ سے طلاق دیں تو پھرزندگی کے بہت سے عائلی مسائل حل ہوجائیںگے۔ورنہ جس طرح بے وقت اور غلط آپریشن سے جس طرح مریض کی زندگی جاسکتی ہے اور اس کا جینا مشکل ہو سکتا ہے ، اسی طرح طلاق کے بے جا استعمال سے معاشرہ کو تباہی سے بچانا مشکل ہے۔


Monday 7 November 2016

Jurm zayefi

ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات
       محب اللہ قاسمی
موجودہ دورکا مشاہدہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس میں وہ تمام خرابیاں آچکی ہیں جن سے معاشرہ بدحال ہے ،جس میں ظالم ظلم کرتے ہوئے بھی نادم نہیں ہے ، طاقتور کمزوروں کو ستا رہا ہے، اکثریت اقلیت کے وجود کو تسلیم کرنے سے گریزکررہی ہے اوران کے جان کے درپردہ ہے۔  بستیاں جلائی جارہی ہیں، جن کے بنانے اورسنوارنے میں انسان اپنی آدھی عمرکی محنت لگاتا ہے، پہ درپہ ہونے والے فسادات سے انسانیت دم بخود ہے۔ ناکردہ ظلم کی پاداش میں مسلم نوجوجانوں کی گرفتاریاں، لمبے عرصہ تک ان کا جیلوں میں بند رکھنا اور جب یہ احساس ہونے لگے کہ وہ رہائی پاجائیں گے تو ایک ڈرامہ کے تحت ان کا انکاؤنٹر کرکے کئی معصوموں کو مارڈالنا ، اس طرح کی خبروں سے اخبارات بھرے نظر آتے ہیں، مسلمانوں کی بے بسی اوراس کی لاچاری کی اس کیفیت پر علاقہ اقبال کا یہ مصرع ذہن میں تازہ ہوتاہے     ؎ 
ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات
یہ بات پوری طرح مسلم ہے کہ معاشرے میں دوطرح کے گروہ پائے جاتے ہیں ایک وہ جوتعصب کی بنیاد پر انسانیت کا گلا گھونٹتے ہیں اورفساد کا ماحول پیدا کرکے معاشرے کو تباہ وبرباد کرنا چاہتے ہیں دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں، جو امن وامان کے خواہاں ہوتے ہیں اور معاشرے کی تعمیر وترقی کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دونوں میں سے ہرایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں۔ کوئی کسی کا وجودتسلیم کرنے کو تیارنہیں، ایسا ہوبھی نہیں سکتا کیوںکہ یہ دونوں دومتضاد چیزیں ہیں ۔اسی وجہ سے ان کا آپسی ٹکراؤ اور تصادم یقینی ہے، جو روز اول سے چلا آرہاہے اورتاقیامت جاری رہے گا۔ ان میں جو غالب ہوگا معاشرہ کی صورت حال ویسی ہی بھلی یا بری ہوگی۔
ایسے ماحول کے لیے اسلامی تعلیمات کیاہیں؟ اسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔اس ضرورت کی تکمیل کے لیے لازم ہے کہ اسلام کے علم بردارطاقت ور ہوں۔ وہ قوت، خواہ ایمانی لحاظ سے ہو، جیسے خدا پر کامل یقین، اپنے موقف پر استقامت، مشن کے لیے ہرممکن راہ اختیار کرنے کاعمل، فکر کی مضبوطی اور شریعت اسلام کوہی مکمل نظام حیات ہونے کا قولی وعملی دعوی ۔ یا پھرجسمانی قوت مثلاً مخالف گروہ کے حملے اورفسادات سے نمٹنے کے لیے دفاعی طاقت، جس کے لیے جسمانی ورزش،ایسے کھیل جن سے جسمانی ورزش ہوتی ہو، دوڑ، تیراکی اور کشتی وغیرہ ۔
جہاں تک ایمانی قوت کا تعلق ہے توایک مومن کواپنے مشن میں کامیاب ہونے کے لیے یہ لازمی جزہے۔ اس کے بغیر کسی کامیابی کا تصور محال ہے۔چنانچہ اس کی طرف  ہمیشہ توجہ دلائی جاتی ہے ، برابر تقریروں اور تحریروں سے اس کی وضاحت بھی کی جاتی ہے ۔بڑے بڑے جلسوں میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالی جاتی ہے، مگر دوسری طاقت جواللہ کو بے حد محبوب ہے، اس کی طرف بھی توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی نازک حالات کے پیش نظر اپنے محبوب بندوں سے فرمایا:
’’اورتم لوگ ،جہاں تک تمہارابس چلے،زیادہ سے زیادہ طاقت اورتیاربندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیارکھو، تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اوراپنے دشمنوںکواوران دوسرے اعداء کوخوف زددہ کروجنھیں تم نہیں جانتے مگراللہ جانتاہے ۔ (سورۃ انفال:60)
یہ سرزمین خدا کی ہے،  وہ ظلم وبربریت کو پسند نہیں کرتا لہذا عدل وانصاف کا قیام ہونا چاہیے۔ وہ بری باتوں کوپسند نہیں کرتا، اس لیے نیکی کی راہ ہموار کی جائے ۔ مذکورہ تمام اعمال وافعال خدا کوماننے والا اس کے احکام کی پابندی کرنے والا ہی بخوبی انجام دے سکتا ہے ۔ مگر یہ کام آسان نہیں ہے اس لیے انھیں اپنے اندرجہاں ایک طرف ایمان کی مضبوطی کی ضرورت ہے وہیں باطل گروہ سے ٹکراؤ کے وقت مضبوط اور مستحکم لائحہ عمل کے ساتھ دفاعی قوت وصلاحیت کی بھی ضرورت ہے ،جس میں تمام مسلمانوں کو ایک ساتھ مل کرتعان علی البروالتقوی کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔ اس کام کے لیے دیگر ان تمام امن پسند لوگوں کو بھی اکٹھا کرنا ہوگا جو مٹھی بھر لوگوں کے ظلم و ستم اور ان کے قہر سے چھٹکارا پاکر ملک میں امن و سکون چاہتے ہیں۔
نبی کریم ؓ نے صحابہ کرام میں ان دونوں قوتوں (ایمانی قوت اوردفاعی صلاحیت ) کو پروان چڑھایا۔ اس لیے ہم صحابہ کرام کی زندگی کو دیکھتے ہیں توان میں جہاں ایمان کی حلاوت اور حمیت ملتی ہے، وہیں وہ جنگی لحاظ سے مضبوط، طاقتور اور بہادر دکھائی دیتے ہیں۔ جنگ بدرکا واقعہ ہے کہ جب کفارومشرکین (عتبہ ،شیبہ اور ولید ) نے دعوت مبارزت دی توان کے مقابلے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے اولاًانصارمیں سے تین صحابہ کرامؓ آگے آئے، مگرمشرکین نے اپنے یعنی قریش میں سے اپنا مقابل طلب کیا ،جس پر تین نہایت قوی اورجنگی فنون کے ماہر حضرات آگے آئے، جنھوںنے اپنے مقابل کا کام تمام کیا۔وہ تھے عبیدۃن الحارثؓ، حضرت حمزہ ؓاور حضرت علی ؓ صرف حضرت عبیدۃبن الحارثؓ معمولی زخمی ہوئے۔ اتنے مضبوط اوربہادرہوتے تھے صحابہ کرام ؓ!

قرآن کریم نے رسول اللہ ﷺاورصحابہ کرام کے  اوصاف کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا:
محمد رسول اللہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینہم (سورۃ الفتح:۲۹)
محمد اللہ کے رسول ہیں اورجولوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں
اس کی تفسیرمیںمولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں ۔
’’صحابہ کرامؓ کے کفارپر سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ موم کی ناک نہیں ہیں کہ انھیں کافرجدھرچاہیں موڑدیں۔ وہ نرم چارہ نہیں ہیں کہ کافرانھیں آسانی کے ساتھ چبا جائیں۔ انھیں کسی خوف سے دبایا نہیں جا سکتا۔ انھیں کسی ترغیب سے خریدا نہیں جا سکتا۔ کافروں میں یہ طاقت نہیں ہے کہ انھیں اس مقصد ِ عظیم سے ہٹا دیں جس کے لیے سردھڑکی بازی لگا کر محمدﷺ کا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں۔ (اورآپس میں رحیم ہیں) یعنی ان کی سختی جوکچھ بھی ہے دشمنان دین کے لیے ہے، اہل ایمان کے لیے نہیں ہے۔ اہل ایمان کے مقابلے میں وہ نرم ہیں، رحیم و شفیق ہیں، ہمدردوغمگسارہیں۔ اصول اورمقصدکے اتحاد نے ان کے اندرایک دوسرے کے لیے محبت اورہم رنگی وسازگی پیدا کردی ہے۔‘‘ (ترجمہ قرآن مع مختصرحواشی)
اگرکوئی شخص کسی مومن کی جان کے درپے ہوتوایسی صورت میں اس کے لیے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے رحم وکرم کی بھیک مانگنے کے بجائے دفاعی صورت اختیار کرنا لازمی ہو جاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اپنی جان اور اپنے مال کی حفاظت کی خاطر دفاعی صورت میں اگرکسی مسلمان کی جان چلی جائے تو اسلام نے اسے شہید کا اعزاز بخشا ہے ۔ دفاعی صورت کے لیے قوت ضروری ہے اوراس کا صحیح استعمال جرأت وبہادری کے ذریعے ہوتاہے ۔
عصاء نہ ہو تو کلیمی ھے کار بے بنیاد
نبی کریمؐ نے اس تعلق سے اپنی امت کو بڑی ہی جامع بات بتائی جومعاشرے کی فلاح و بہبود اور قیام امن وامان کے لیے بے حد ضروری ہے۔آپؐ کا ارشاد ہے:
’’مومن ِ قوی بہتر اورخداکے نزدیک محبوب ترہے مؤمن ضعیف سے۔اوریوں تو ہر ایک میں بھلائی اورخیر پایا جاتا ہے۔ جو چیز تیرے لیے نافع ہو اس کا حریص ہو اورخدا سے استعانت طلب کراور عاجز نہ ہو۔ اوراگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہہ کہ اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ہوتا بلکہ کہہ کہ خدانے یہی مقدرفرمایا اوراس نے جوچاہا کیا، کیوںکہ لفظ ’’اگر‘‘شیطان کے کام کا دروازہ کھولتاہے۔‘‘(مسلم)
مذکورہ حدیث سے واضح ہوتاہے کہ ضعف اورکمزوری، خواہ ایمانی ہو یا جسمانی، کسی بھی صورت میں پسندیدہ نہیں ہے۔ اس لیے اللہ کے نزدیک  مضبوط مؤمن کمزورسے بہتر ہے، کیوں کہ اس سے دینی ودنیوی امورکے مصالح کاحصول ہوتاہے۔ ساتھ ہی خیر کی طرف رغبت اور اس بھلائی کے حصول میں کسی طرح کا عجز ظاہر کرنے کی ممانعت پائی جاتی ہے۔ عجز ضعف کی علامت ہے جوانسان کو اپنے مشن میں استقامت سے روکتی ہے اوراسے متزلزل کردیتی ہے۔ مومن کا یہ شیوہ ہے کہ وہ احکام الٰہی کا پابندرہے اگرکامیابی ملی توفبہاورنہ توغم نہ کرے یہ من جانب مقدر تھا۔
ہمارے اسلاف نے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کیا اور وقت کی نزاکت کے ساتھ اس راہ کو بھی اپنا یا جس کے لیے انھوں نے بے حد مشق کی ۔ آج ہندوستان آزاد ہے، اگرتاریخ اٹھاکردیکھیں تو ہم بڑے فخرسے کہتے ہیں کہ علماء نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا اور خود میدان میں کود پڑے، مسلمانوں نے علمائے کرام کا ساتھ دیا اور اپنے خون سے اس ملک کوآزادکرایا ۔یہ اس لیے ہوا کہ انگریزوں نے نہ صرف ظلم وبربریت کا ماحول گرم کیاتھا بلکہ مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیرنے کی پالیسی بھی تیارکی تھی ۔ ان کا جینا بھی مشکل کردیاتھا۔ ایسی صورت جب بھی پیش آئے گی اس کے لیے یکبارگی کوئی عمل سامنے نہیں آتا بلکہ اس کی تیاری کی جاتی ہے ۔ تاکہ ماحول کے مطابق مسلمان خود کو تیاررکھیں۔
گنوادی ہم نے جواسلاف سے میراث پائی تھی 
ثریاسے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
اگراسلام کے ماننے والے اپنی بہتری اوربھلائی کے لیے اللہ کا حکم اوراس کے نبی ﷺ کا طریقہ چھوڑکرکوئی اور طریقہ اپنائیں یا چوپائے کی طرح بے مقصد اوربے چارگی کی زندگی گزاریں، توپھران کو ذلت وپستی اوررسوائی سے کوئی نہیں بچاسکتا، چہ جائے کہ وہ قوم کے فساد و بگاڑ کو روک سکے یا اس کامقابلہ کرسکے اورنہ کوئی اس کی مدد کر سکتا ہے۔
خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 
نہ ہو جس کو خیال، اپنی حالت کے بدنے کا
٭٭٭

Thursday 8 September 2016

مریض اسپتال اور زندگی Hospital patients and life

مریض اسپتال اور زندگی

                                           محب اللہ قاسمی


یہ خیال عام ہے کہ دنیا فطرت کے مطابق چلتی ہے، اگر ہم اس سے اعراض کرتے ہوئے سہولت کی خاطر غیر فطری طریقے اختیار کرلیں تو اندیشہ ہے کہ مصیبت میں گرفتار ہوجائیںگے۔ موجودہ دور میں وقتی سہولت کو ترجیح دیتے ہوئے غیر فطری طریقہ کار اختیار کرنے سے لوگ بالکل پرہیز نہیں کرتے۔ مثلا اشیاء خورد ونوش میں قدرتی غذاؤں کے بجائے ، جنک فوڈ وغیرہ کا کوگ خوب استعمال کرتے ہیں، گھنٹوں ایک ہی سیٹ پر بیٹھے بس کام کیے جاتے ہیں، کبھی کبھی تو پہلو بھی نہیں بدل پاتے ،اس کے نتیجہ میں معدہ کی کمزوری اور اعضاء جسم کا منجمدہوجانا لازمی ہے۔

یہی حال علاج معالجہ کا ہے۔ پہلے علاج معالجہ اور دیگر انسانی ضرورتوں کی بنیادی اشیاء کس قدر عام اور بہ آسانی دستیاب تھیں ۔اس وجہ سے لوگوں کو علاج میں زیادہ پریشانی نہیں ہوتی تھی اور نہ قدم قدم پر بڑی رقم خرچ کرنے کی نوبت آتی تھی، جس کے سبب عام انسان کے لیے اپنا علاج کروانا اتنا مشکل نہیںتھا، جتنا کہ اب مشکل ہوگیا ہے۔

اس غیر فطری زندگی کی تیز رفتاری نے طرح طرح کی بیماریاںپیدا کردی ہیں۔ مثلاً ایک بخار جسے ڈینگوکا نام دیا جاتاہے۔ آج کل عام ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ مچھر کا کاٹنا ہے۔ عام اور غریب انسان، جسے اپنا نام سلیقہ سے یاد ہونہ ہو مگر اس بیماری کے نام سے وہ بہ خوبی واقف ہے۔اس کا طریقۂ علاج کیا ہے وہ بھی جان لیجئے ،سب سے پہلے مریض کواسے ڈینگوٹسٹ کروانا ہوگا،جس میں پلیٹ لیٹ ٹسٹ بھی شامل ہے۔ بیماری ہویا نہ ہو یہ ٹسٹ لازمی ہے، جس کی لاگت تقریباً دو ہزار سے ڈھائی ہزار تک ہے۔جیسا مریض ویسی قیمت ، اس کے بعد مسلسل دوتین بار پلیٹ لیٹ کی جانچ ضروری ہے،جس کا خرچ ہر بار تقریباً ڈیڑھ سوسے دوسوتک ہے۔

 اس کے بعد نمبر آتا ہے دواؤں کا ، کھانے کی خوراک اتنی ہویا نہ ہومگر دوائوںکی خوراک ہر وقت پابندی سے لینا ضروری ہے۔آپ چاہے بیس سے تیس روپے کاکھانا کھائیں مگر ایک وقت کی دوا کی قیمت تقریباً سوسے دوسوروپے ضرور ہوگی ،جسے آپ بادل نہ خواستہ لینے پر مجبور ہیں ۔ ارے بھائی انگریزی نام کا بخار ہے ، اتنی آسانی سے تھوڑا ہی جائے گا۔اس کے لیے پیسوں کوقربان ہونا ہی ہے۔

جناب ابھی ڈاکٹر کی فیس باقی ہے۔ تقریباً پانچ سو سے سات سوروپے تک !ارے بھائی اے سی کا نظم ہے ، اتنی بڑی بلڈنگ ہے ، لفٹ اور دیگر بہت سی سہولیات ہیں، کیا ہوا اگر آپ نے ان کا استعمال نہیں کیا مگر چارج تودینا ہی پڑے گا نہ۔

اب ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ پہلے کی طرح محسن اور ممنون کا نہیں بلکہ ایک بکرے اورقصائی کا ہے ۔ پہلے علاج ہوتا تھا اب علاج بکتا ہے۔پہلے مریض کو جلد سے جلد رخصت دی جاتی تھی اور علاج کو لمبا کرنے سے گریز کیا جاتا تھا ، مگر اب مریض گویا ایک اے ٹی ایم کارڈ ہے لگاتے جاؤ ، پیسہ نکالتے جاؤ ۔ پھر اتنی جلدی اس پیسے فراہم کرنے والی مشین کو کیسے الوداع کہہ دیا جائے۔یہ تو ایک تجارت ہے جہاں انسان کی زندگی کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ خوف دلاکر یا پھر بیماری سے نجات کا دلاسا دے کر گو مریض کو مرنا پھر بھی ہے ۔ اپنی زندگی گزار کر یا اپنی صحت کے عوض ان کی من مانی قیمت چکاکر۔

پہلے طبیب نبض دیکھ کردرجہ حرارت بتادیا کرتے تھے۔ اب یہ کام مشین کرے گی، پہلے لوگ زبان اور مریض کی کیفیت دیکھ کر اس کا علاج کرتے تھے اب یہ کام جانچ کی مشین کرے گی ، تو بھائی اس کی قیمت بھی ہوگی۔ جب سب کام یہی مشین ہی انجام دے رہی ہے تو پھر ڈاکٹر کی ضرورت کیا ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے ، اتنا بڑا اسپتال ہے ، جس کا ایک مستقل نام ہے۔ اس کی حیثیت کا سوال ہے۔ رہی بات فیس کی تو فیس اگر کم رکھی گئی تو اسپتال کی حیثیت مجروح ہوگی، ڈاکٹر س کی ضروریات زندگی میں فرق آئے گا، پھر آپ کا علاج کیسے ہوسکے گا؟

یہاں ٹھہر کر سوچیں تو یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ اگر یہی بات ہے تو لوگ کیوں نہیں سرکاری اسپتالوں میں چلے جاتے ہیں وہاں تو علاج مفت ہوتا ہے۔ بات درست ہے مگر وہاںآپ کو کوئی پوچھے گا بھی نہیں جب تک کوئی آپ کا جاننے والا نہ ہو۔ اسی طرح وہاں کی صورت حال ایک انار اور سوبیمار کی سی ہے۔ ایسے میں معمولی درجہ کا عقل رکھنے والا انسان بھی اپنی قیمتی زندگی کی بقا کے لیے کچھ تو کرے گا اور لازماً اسے ان ہی پرائیوٹ اسپتالوں میں آنا ہوگا۔ جہاں معمولی بیماری کوبھی ہمیشہ سیریس کیس مانا جاتاہے اور طریقہ ٔعلاج وہی گراں جس کا ذکر کیا گیا۔

اب بتائیے کہ یہ ہے نا غیرفطری اور غیر اصولی زندگی! جہاں سب کچھ مشین کرتی ہے اور انسان کی مجبوری اور اس کے جذبات کو کیش کیا جاتاہے۔پورا پیشہ ٔ طب تجارتی ہوکر رہ گیاہے۔ جہاں مریض گراہک ہے، ڈاکٹر سوداگر اور اسپتال گویا دکان ہے۔

مگر زندگی کا ایک تصور وہ بھی ہے جس میںانسان کو اس کی فطرت سے روشناس کرایا جاتا ہے اور انسانوں کا باہمی تعلق الفت و محبت کا ہوتاوہاںاس انسان کو بہترین انسان قرار دیاجاتاہے جس سے لوگ خیر کی امید کریں اور اس سے کسی قسم کے شرکا کوئی اندیشہ نہ ہو۔وہ دوسروں کا ہمدر د وخیر خواہ ہو۔یہ ہے اسلامی زندگی جس نے انسانوں کو حیوانیت سے نکال کر انسانیت کے بلند مقام پر رکھا ہے۔جس میں دھوکہ دینا حرام تصور کیا جاتاہے چہ جائے کہ کسی کوتکلیف اور نقصان میںمبتلا کیا جائے۔

اللہ نے انسان کو معزز مخلوق بنایا، اسے قابل قدر اور باعث احترام بتایا۔اللہ کا قانون اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اللہ زمین پر کسی انسان کو راہ چلتے ہوئے کانٹا چبھے ، اس لیے راستے سے تکلیف دہ چیزکو ہٹادینے کو بھی شریعت نے صدقہ قرار دیا۔ چہ جائے کہ انسان ایک دوسرے کو دھوکہ دے اور قتل وغارتگری کے درپے ہو۔اللہ انسانوں میں اچھے اوصاف کو پسند کرتا ہے اور صالحین کا تذکرہ فرشتوں کے درمیان کرتا ہے۔ہدایت الٰہی کے مزاج کا تقاضہ ہے کہ انسانوں کے اندر ہمدردی اور محبت کا جذبہ بھرپور اور نمایاں طور پر ہو ،تاکہ اللہ کی خاص رحمتیں ان پر نازل ہوں ۔ ایسے اوصاف کے حامل لوگوں کے تعلق سے اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:

الراحمون یرحمہم الرحمن ارحمومن فی الارض یرحمکم من فی السماء    (ترمذی)
رحم وکرم اوردرگذرکرنے والوںپررحمن رحم کرتاہے۔لہذاتم زمین والوںپررحم کرو، آسمان والاتم پررحم کرے گا۔

اس حقیقت کیکسی شاعر نے بڑی اچھی ترجمانی کی ہے:
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

ہمدردی کیخوبی انسانوں کے درمیان باہمی الفت و محبت کو فروغ دیتی ہے۔ جب انسان کسی کے ساتھ ہمدردی کرتاہے اور اس کے دکھ درد کو اپنا درد سمجھتا ہے تو لوگوں پر اس کا غیرمعمولی اثر پڑتا ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں پر راج کرتاہے جب کہ مادیت کے حصول میں پھنسا انسان لاکھ کچھ حاصل کرلے مگر اسے یہ دولت حاصل نہیں ہوتی۔

دوسری جگہ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
 ’’  لایرحم اللہ من لایرحم الناس‘‘ جولوگوںپررحم نہیںکرتاخدابھی اس پررحم نہیں کرتا ہے۔ (مسلم)

اسلام دھوکہ کو پسند نہیں کرتا اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص لوگوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کرے۔اسی لیے وہ اس شیطانی عمل سے باز رہنے کی تلقین کرتاہے ۔ اللہ کے رسول کا ایک واقعہ سبق آموز  ہے۔

 ایک مرتبہ آپ ﷺ بازار سے گزرے ،وہاں ایک شخص غلہ بیچ رہا تھا۔ آپ نے غلے میں ہاتھ ڈالا تواس کو بھیگا ہوا پایا۔ آپؐ نے دکاندار سے فرمایا:اے غلہ والے یہ کیا ماجراہے ؟ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول ﷺ رات  بارش کی وجہ سے بھگ گیا تھا۔آپؐ نے فرمایا:تو تم نے  بھیگے ہوئے غلہ کو اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لوگوں کونظر آتا۔ پھر آپ ؐ نے یہ ارشاد فرمایا:

جس نے دھوکہ  دیا وہ ہم میں سے نہیں ۔  (ترمذی(
جب انسان میں دھوکہ دہی کی عادت پڑجاتی ہے تووہ لوگوں میں معیوب اورناپسندیدہ تصور کیاجاتاہے ۔ لوگ اس سے دور رہنے لگتے ہیں اور اس سے انسیت میں کمی آجاتی ہے ، جب کہ انسان یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس سے محبت کریں اور اس سے میل جول اور ہمدردی بھی رکھیں۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صاحب ایمان انسان کے ایک اچھے وصف ، کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
 المومن مالف ولا خیر فیمن لایالف ولایولف
مومن محبت اورالفت کاحامل ہوتاہے اوراس شخص میں کوئی خوبی اوربھلائی نہیں جونہ خودمحبت کرے اورنہ لوگوں کواس سے الفت ہو۔(مسند احمد،بیہقی شعب الایمان)

اگر انسان اسوۂ رسول ﷺ کو اپنائے اوراپنے خالق و مالک کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق زندگی گزارے تو پھر وہ کسی قسم کی پریشانی میں مبتلا نہیں ہوگا۔ طبیب بھی اپنی ذمہ داریاں بہ خوبی ادا کرے گا ، اس جھوٹی دنیاوی چمک دمک اور عیش پرستی کے حصول کومقصد نہیں بنائے گا۔ اس کے اندر یہ احساس بیدار ہوگا کہ وہ بھی ایک جسم رکھتا ہے، جس پر خود اس کا بھی کوئی اختیار نہیں ہے، وہ بھی  علاج کا محتاج ہوسکتا ہے یہ احساس ہو تو طبیب کومریض سے حاصل ہونے والے پیسے کی نہیں بلکہ اس کی جان کی فکر ہوگی ،دوسرں کے درد کو وہ اپنا درد تصور کرے گا اور مریض کے علاج کو گویا اپنا علاج مان کر پوری ہمدردی اور رعایت کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے گا۔ اس طرح انسان کی زندگی کی قیمت بھیڑ بکریوںکی سی نہیں ہوگی بلکہ وہ انمول ہوگی،جسے بچانے کی بھرپور کوشش بھی کی جائے گی۔تب صرف طبیب ہی نہیں بلکہ ہر پیشہ سے وابستہ انسان اسلامی تعلیمات کو اپنا کر یقینا اپنے کام میں پوری ایمانداری کا ثبوت دے گا۔اس طرح صرف ڈاکٹر ،مریض اسپتال ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پرامن اور خوشحال معاشرے کی طرف لوٹ آئے گی۔     ٭٭٭

Friday 2 September 2016

Materialism: Major obstacle to peace and humanity مادہ پرستی ۔ امن و انسانیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ


مادہ پرستی ۔ امن و انسانیت کی راہ میں بڑی رکاوٹ
                                                                                                                        محب اللہ قاسمی
آج کی تیز رفتار دنیا بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کے بلند مقام پرپہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آرام وآسائش کی جدیدترسہولیات حاصل ہوگئی ہیں، انسان دنیا کو اپنی مٹھی میں کر نے اورچاندپر گھر بسانے کی سوچ رہاہے۔ لیکن دوسری طرف وہ امن و امان کا فقدان ہے۔ انسانیت دم توڑ رہی ہے۔انسان کا اخلاق و کرداراتنی پستی میں جاگرا ہے کہ اسے انسان کہنا گویالفظ انسان کی توہین ہے۔
 اگر ہم امن و امان اور انسانیت کی راہ میں کسی بڑی رکاوٹ کا ذکر کریں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انسان خدا ترس ہونے کے بجائے مادہ پرست ہوگیاہے۔

مال ودولت کا حصول اور مادہ پرستی، دو الگ الگ چیزہے۔ مال جو انسان کی ضرورت ہے ۔ کائنات اور اس کی تمام چیزیں انسانوں کی سہولت اور ان کی ضرورت کی خاطر پیداکی گئی ہیں مگر خود انسان اپنے مالک کی عبادت اور اس کی طاعت کے لیے پیدا کیاگیاہے۔ اس طرح مال کا حصول اس کی ضرورت ہے مگر مادہ پرستی اللہ کی عبادت و اطاعت کے خلاف ہے ۔اس صورت میں انسان اپنے خالق و مالک کی مرضی کو بھول کر وہ تمام کام کرتا ہے جو خود اس کے لیے بھی نقصاندہ اور امن عالم کے لیے خطرناک ہیں ۔ اس کو اس مثال کے ذریعے بہت آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ کشتی خشکی میں توچلتی نہیں ،اسے پانی پر ہی چلایاجاتا ہے لیکن اگر کشتی میں پانی لبالب بھر جائے تو یہی پانی اس کشتی کو غرقاب کردیتا ہے۔

مادہ پرستی وہ مہلک مرض ہے جو انسانی اخلاق و کردار اور سماج کو متاثر کرتا ہے،پھر یہی بد اخلاق و بد کردار شخص رفتہ رفتہ الحاد کی طرف چلا جاتاہے اور اس کی عاقبت توخراب ہوتی ہی اس کا رویہ بھی سماج میں بے چینی اور فساد کا سبب بن جاتا ہے ۔وہ دنیا میں اپنی آرام و اسائش کے لیے وہ تمام کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ، جو انسان کو ذلیل و رسوا کرتا ہے اور معاشرہ میں بدامنی پھیلنے لگتی ہے۔ اللہ تعالی نے اس سے انسان کو متنبہ کیا ہے مادہ اور مادہ پرستی کو اسباب فریب قراردیتے ہوئے اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
’’لوگوں کے لیے مرغوبات نفس، عورتیں، اولا د، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی او ر زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔‘‘(آل عمران:14(

مادہ پرستی نے انسان کے انسانیت کوبری طرح متاثرکیا ہے ،جس سے پورا معاشرہ فساد و بگاڑ کی آماج گاہ بن گیاہے۔انسان ہر چیز میں مادی مفاد کو سامنے رکھ کر اس کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ مادہ پرست انسان مادی ترقی، مال و زر اور اسباب کی کثرت کو زندگی کا معراج تصورکرتا ہے۔ اگر چہ وہ خدائی ضابطوں،انسانی رشتوں اور اخلاقی قدروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔چنانچہ انسانی زندگی میں توازن ، اعتدال اور ہم آہنگی قائم رکھنا دشوار ہورہاہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگرعلم عام ہوجائے ،لوگ زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ ہوجائیں تو سماجی زندگی بہترہوجائے ۔مگریہ بات حقیقت سے پرے معلوم ہوتی ہے ۔اس دورمیں علم پہلے کے مقابلہ میں زیادہ عام ہے ۔ تعلیم کا گراف بڑھ رہاہے۔مگر اخلاق و کردار کا گراف نیچے جارہاہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہاں اخلاقی تعلیم پرکم مادہ پرستی اور مادی تعلیم پر زیادہ زور دیاجارہاہے۔گویا تعلیمی مراکز انسانوں کو مشین بنانے کی فیکٹریاں ہیں،جہاں انسانی جذبات نہیں ہوتے بلکہ مادیت اور ان میں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے گرسکھائے جاتے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ نے مادہ پرستی کے غلبے کو دیکھتے ہوئے اس کی خامی کو کچھ اس طرح پیش کیاہے ؂

یورپ میں بہت، روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات

معاشرے میں جھوٹ،رشوت ،دھوکہ دھڑی ، لوٹ کھسوٹ اورحقوق کی پامالی اسی مادہ پرستی کے کرشمے ہیں۔ کل تک لوگ غریبوں کی مدد کے لیے آگے آتے تھے، ان کی ضروریات کی تکمیل کوانسانی فریضہ سمجھتے تھے،غریبوں کوکھانا دینے کے بعدہی کھاتے تھے۔ہر کس و ناکس سے گفتگو کے دوران نرم لہجہ اختیار کرتے تھے۔اس سے ان کے اخلاق کی بلندی کا اظہار ہوتا تھا، مگر اب عالم یہ ہے کہ لوگ غریبوں کا استحصال کرتے ہیں۔مزدوروں کا خون چوس لینے کے بعد بھی ان کوپوری مزدوری نہیں دیتے۔گفتگو کے دوران ایسا سخت لہجہ استعمال کرتے ہیں کہ بسا اوقات معاملہ لڑائی تک جاپہنچتا ہے ۔ رشتہ داری نبھانا تو درکنار اپنے والدین پر خرچ کرنے کو بھی اپنامادی نقصان تصور کرنے لگتے ہیں ، اولاد ہوتے ہوئے بھی والدین بے سہاراہوتے ہیں۔جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات ہے کہ گفتگو میں نرمی رکھی جائے، مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ہی مزدوری دی جائے ،کسی پر ظلم نہ کیاجائے، کسی کے ساتھ دھوکہ نہ کیاجائے۔والدین کے ساتھ حسن سلوک کیاجائے ۔ یہ وہ ا خلاقی تعلیمات ہیں، جنھیں رسول اللہ ؐ نے ایمان کا حصہ قرار دیاہے۔

مادہ پرستی نے انسانوں کو خونخوار حیوان بنادیا ہے ۔ بچوں کا اغواکرنا ، اس کے عوض ان کے والدین سے کثیر رقم کا مطالبہ کرنا ، ان کے ہاتھ پیر کاٹ کران سے بھیک مانگوانا۔ یہ سارے کام مال و دولت کے حصول اور مادہ پرستی کے جذبے سے ہی انجام دیے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر ی کی تعلیم حاصل کرنے کا مقصدعام لوگوں کو علاج معالجہ کے ذریعہ امراض سے شفایاب کرنا ہے،مگر مادہ پرستی نے ڈاکٹروں پر بھی ایسا جادو کیا ہے کہ وہ اپنے مقصد کو بھول جاتے ہیں اور مریضوں کے ساتھ ایک جلاد کی طرح معاملہ کرتے ہیں۔وہ نہ صرف یہ کہ علاج کے نام پر ان کے خون پسینے کی کمائی کو چوس لتے ہیں، بلکہ بسا اوقات ان کا غیرضروری آپریشن کرکے ان کے گردے تک نکال لیتے ہیں۔

مادہ پرستی نے خواتین کو بھی اپنے جھانسے میں لے لیاہے اور انھیں مستقبل کے سبزباغ دکھاکر سماج میں ذلیل اور رسوا کیاہے،اس بنا پرازدواجی زندگی تلخ ہورہی ہے۔مغرب کے تیار کردہ آزادی نسواں اور مساوات کے پر فریب جال میں پھنس کرعورتیں سرِراہ اپنے جسموں کی نمائش کرتی پھرتی ہیں۔معمولی معمولی چیز وں پر ان کی فحش تصاویراس بات کا بین ثبوت ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں چند ٹکوں کے عوض ان کی عزت و آبروسے کھلواڑ کیاجاتاہے۔

مادیت کے غلبے نے انسان کو اندھا ،گونگا ،بہرہ بنادیاہے۔ آنکھوں کو خیرہ کردینے والی مرغوباتِ دنیا نے مادیت پرستی میں ایسا اضافہ کیا ہے کہ انسان اپنا چین و سکون کھوبیٹھا ہے،اس کے پاس نہ وقت ہے اورنہ سوچنے کے لیے خالی دماغ !معیار زندگی کو بلند سے بلند کرنے کے خیال نے اسے بے حال اورپرملال کردیاہے۔اسے غم ہے توصرف اس بات کا کہ وہ دوسروں کی طرح امیرکیوں نہیں ہے؟ جب کہ وہ بھول گیا ہے کہ اس کائنات کے خالق کی ہر وقت اس پر نگاہ ہے۔اگرانسان یہ سمجھتاہے کہ مال وزر کی کثرت اسے معاشرے میں باوقار بنائے گی اور اس سے وہ ہر طرح کی راحت و اطمینان کو خرید سکتا ہے تو ؂      ایں خیال وہم و گمان است

آج اگر انسانوں کو امن و سکون و اطمینان نصیب ہوسکتا ہے تو وہ مال و دولت کے ڈھیر اکٹھا کرکے اور مادیت میں غرق ہوکر نہیں، بلکہ اپنے اخلاق وکردار کو سنوار کر اور دوسرے انسانوں کے حقوق اداکرکے  ہی وہ اس سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں۔تبھی امن و انسانیت کا فروغ ہوگا۔

Mohibbullah Qasmi
D-319, Abul Fazl Enclve, Jamia Nagar New Delhi-110025
Mob-9311523016


Saturday 27 August 2016

امن و انسانیت معاشرے کی بنیادی ضرورت Peace and Human the basic requirement for society

امن و انسانیت معاشرے کی بنیادی ضرورت



      ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے کہ وہ جس معاشرے میںرہ رہا ہے ، اس میں اسے سماجی برابری کا درجہ حاصل ہو۔وہ اونچ نیچ، ظلم و استحصال اور ہر طرح کے خطرہ سے آزاد رہ کرامن و سکون کے ساتھ زندگی گزار سکے۔اسے ناحق قتل کیاجائے نہ بے بنیاد الزام کے تحت سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے ۔

      اپنے اس حق کے حصول اور اس کی حفاظت کے لیے وہ کوشش بھی کرتا ہے۔ چنانچہ وہ حق کی حمایت میں اور ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتا ہے ۔ وہ اس بات کی قطعاً پروا نہیں کرتا کہ ظلم کس پر ہو رہا ہے؟ اس کی زد میں اس کا سگا بھائی ہے یا کوئی اور! اس کے مذہب سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں!!اسے صرف یہ خیال ستاتا ہے کہ ظلم انسان پر ہورہا ہے، خون ایک بے قصور انسان کا بہ رہا ہے۔ جو اسی کی طرح دنیا میں چلتا پھرتا اور آدم کی اولاد ہے۔


      انسانوں پر ظلم ہوتا دیکھ  کر تڑپ اٹھنا انسان کا وہ جذبہ ہے جو انسانیت کی روح ہے۔ یہ جذبہ جو اسے دوسری مخلوقات سے افضل بناتا ہے۔ انسان اپنے اندر ایک حساس دل رکھتا ہے جو عدل کی حمایت میں کسی ظالم قوت کی پروا نہیں کرتا۔ اگر یہ جذبہ عام انسانوں کے اندر کارفرما نہ ہو تو پھر پوری دنیا تباہ و بربادہ ہوجائے گی۔ ہر طرف ظلم وستم کا ہی بول بالا ہوگا ۔ روشنی قید کرلی جائے گی اور چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا، جس میں کوئی بھی جی نہیں سکتا ،حتی کہ ظالم بھی نہیں ، کیوں کہ ظلم آخر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو ختم ہوجاتاہے۔اس صورت میں ظالم کوظلم توبہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ جب تک کہ ایک انسان اس ظالم کوحیوانیت سے نکال کر انسانیت کی طرف لانے کے لیے سعی و جہد کرتا ہے ،جو انس و محبت کا تقاضا ہے۔ اس لیے اسلام نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

      اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہؐ ! میں مظلوم کی مددتو کرتا ہوں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کروں؟ آپؐ نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ یہی اس کی مدد ہے۔(بخاری،کتاب المظالم والغضب)

      جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس میں ماحول حددرجہ خراب ہوتا جارہاہے۔ہم دنیا پر ایک نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آج پوری دنیا میں انسانیت سسک سسک کر دم توڑرہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسان کو دنیا میں اس بنیادی ضرورت سے محروم کیا جارہاہے۔اس سے دنیا میں جینے کا حق چھینا جارہاہے۔ بے گناہوں، معصوم بچوں کا خون پانی کی طرح بہایاجارہاہے۔غیرت مندماؤں اور بہنوں کی عزت تارتار کی جارہی ہے۔


      اس کے بعد جب ہم اپنے پیارے وطن کا جائزہ لیتے ہیں۔تو یہاں بھی پچھلے چند سالوں میں ہمیں قریب قریب وہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ ذات پات،اونچ نیچ کا فرق ، جس کے نتیجے میں ہونے والی خود کشی،بے جا گرفتاریاں، خوں ریزی بڑھتی جارہی ہے۔ یہاں کا باشندہ ہوتے ہوئے بھی غیر محفوظ ہونے کا ڈر لوگوں کے دلوں میں سمارہا ہے۔ اس سے اس کے وجود کی سند مانگی جاتی ہے۔ پتہ نہیں، کون کس وقت دروازے پر دستک دے اور دروازہ کھلتے ہی اسے دبوچ لیاجائے ، بے بنیاد الزام کے تحت مدتوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے اذیت ناک سزابھگتنے کے لیے ڈال دیا جائے۔ پھر کئی سالوں کے بعد عدالت سے باعزت بری ہونے کا اعلان کیا جائے۔


      ایسے میں بنیادی حقوق کی بات کرنے والے،امن وامان کے خواہاں لوگوں اور عدل و انصاف کے علمبرداروں کو بھی ان ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گویا اجالوں سے کہا جارہاہو کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی پاؤں پسارنے کی۔ تمھیں دکھتا نہیں کہ ابھی چاروں طرف اندھیروں کا قبضہ ہے۔ ایسے میں تو اپنی ٹمٹاتی روشنی سے کیا کرے گا ، پھر یا تو یہ روشنی بجھادی جاتی ہے ، یا ٹمٹماتا ہواچراغ بے یار و مدد گار خود ہی دم توڑ دیتا ہے۔ مگر اندھیروں کو پتہ نہیں کہ یہ ہلکی سی روشنی اور دم توڑتا ہوا چراغ اپنے حوصلوں سے ان بے شمار جگنؤوں میں قوت بھر رہا ہے، پھر وہ تمام بے تاب ہو کر ایک ساتھ جگمگانے لگیں گے۔ آخر میں یہ کالی رات اور اندھیروں کا سایہ دھیرے دھرے فنا ہوجائے گا۔


      مگر ساتھ ہی اندیشہ اس بات کا بھی ہے کہ وہ تعیش پسند انسان جس کے اندر نہ حس ہے نہ وہ انسانی جذبات سے سرشارہے کہ قربانی دے، اگر تھوڑی بہت ہمت جٹا بھی لے تو خوفناک انجام اس کے سامنے ویڈیو کی طرح گھومتارہتا ہے۔ چنانچہ وہ اس میں خود کو جھونک دینے سے کتراتا ہے اور یہی ڈر اور خوف ظالم اندھیروں کو اپنا سایہ پھیلانے میں کامیاب ہوجاتاہے، پھرانسانوں کی بستی میں حیوانیت اور درندگی کاکھیل شروع ہوجاتاہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ انگریزوں سے آزادی کے بعد اپنوں کی غلامی میں جینا ہوگا؟کیااب امن قائم نہ ہوگااور یہ خوف یوں ہی برقرار رہے گا اور خونی کھیل یوں ہی جاری رہے گا۔ جس کی لپیٹ میں وہ معصوم اوربے قصور انسان ہیں، جو عدل وانصاف اور اس روشنی کے خواہاں ہیںجو اندھیروں کا پردہ چاک کردے۔اس لیے انسانیت کے اس پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے،جس کاانسان کے خالق و مالک نے قرآن کریم میں اعلان کیا ہے:


’’جس نے کسی انسان کوخون کے بدلے یا زمین میں فسادپھیلانے کے سواکسی اوروجہ سے قتل کیا اس نے گویاتمام انسانوںکا قتل کردیا اورجس نے کسی کوزندگی بخشی اس نے گویاتمام انسانوںکو زندگی بخش دی۔‘‘(مائدۃ: 32)


اگر لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے ،وہ خوف کے سائے میںروشنی کے بجائے اندھیرں میں بھٹکتے رہے۔تو انسانیت کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔اندھیروں کے پرستارتوپوری قوت سے انھیں اجالا ثابت کرکے لوگوں کو مصیبت میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ان سے نبردآزما ہونا ، انصاف کی اس لڑائی کو جاری رکھنے، ان کے مکر وفریب اور پروپگنڈے کو ختم کرنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ ساتھ ہی ان جگنؤوں کو بلا خوف و خطر ایک ساتھ جگمگانا ہوگا، تاکہ وہ سب مل کر ایک خورشید مبین بن جائیں ، اندھیرے خود ہی دم توڑ دیںاور امن کا پرندہ قید سے آزاد ہو۔


ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے

Saturday 20 August 2016

امن وانسانیت کا قیام اور اسلامی تعلیمات Peace & Humanity in ISLAM

امن وانسانیت کا قیام اور اسلامی تعلیمات
محب اللہ قاسمی                                                                                         

لفظ ’امن ‘خوف کی ضدہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے ،لیکن اس کا استعمال اردوہندی زبان میں یکساں طورپر ہوتا ہے۔ اس میں چین، اطمینان، سکون و آرام کے علاوہ صلح وآشتی اور پناہ کے معنی بھی پائے جاتے ہیں۔امن معاشرے کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اس کے بغیر انسان اور درندہ میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ معاشرہ کی تعمیروترقی کے لیے امن کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ روزاول سے ہی یہ ایک اہم مسئلہ رہاہے اورآج کے پرفتن دورمیںیہ مزید اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ حضرت آدمؑ سے لے حضرت محمدﷺ تک جتنے بھی انبیاء اس دنیامیں تشریف لائے، انھوںنے امن وامان کی بحالی، ظلم و ناانصافی کا خاتمہ اورحقوق کی ادائیگی کو اہمیت دی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑاوران کے فرزندحضرت اسماعیل ؑ جب خانہ کعبہ کی تعمیرمیں لگے ہوئے تھے ، اس وقت انھوںنے شہر مکہ کے لیے یہ دعا فرمائی تھی :

رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًااے میرے پروردگاراس شہر(مکہ)کو جائے امن بنادیجئے۔ (ابراہیم:۳۵)

 
اگرموجودہ دور کا جائزہ لیاجائے تو تعصب، ذاتی منفعت کے بے جاحصول اور فرقہ پرستی نے ایسا ماحول بنادیاہے کہ ظلم کوظلم نہیں سمجھا جاتا۔ دن دھاڑے بستیاں جلادی جاتی ہیں۔ عبادت گاہیں منہدم کردی جاتی ہیں۔بے قصور لوگ قصوروار قرار دیے جاتے ہیںاورناکردہ جرم کی پاداش میںانھیں انسانیت سوز تکالیف کا سامناکرنا پڑتا ہے،انصاف کی عدالت سے جب تک ان کے بے گناہ ہونے کا فیصلہ صادر ہوتا ہے تب تک ان میںسے کچھ اپنی نصف عمراندھیری کو ٹھری میں گزار چکے ہوتے ہیں جب کہ کچھ انصاف کی امید میں اس جہاں کوہی الوداع کہہ جاتے ہیں۔
 انسانی زندگی امن وطمینان کی خواہاں ہوتی ہے، اس لیے ہرمذہب میں امن واطمینان عدل وانصاف اورسلامتی کو نمایاںمقام حاصل ہے۔امن کا پیغام دینے والا مذہب ’’دین اسلام‘‘ جس کے بارے مخالفین نے عام لوگوں کے درمیان غلط پروپگنڈا کررکھا ہے اوراسے دہشت اور وحشت کا معنی بنادیا ہے۔ مگر تاریخ  اس پر گواہ ہے اور اس سے واقفیت رکھنے والے حق پسند حضرات، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام درحقیقت انسان کوامن وسلامتی کاپیغام دیتا ہے۔ جس کی تعمیرآپسی محبت اورباہمی مساوات سے ہوتی ہے۔ اسلام سے قبل سرزمین عرب کی تاریخ پر نظرڈالی جائے تومعلوم ہوگا کہ عرب قوم ایسی ظالمانہ ، وحشیانہ اورجابرانہ تھی کہ معمولی سی بات پر دوقبیلے صدیوں تک آپسی جنگ جاری رکھتے اور انتقام کی آگ میں جھلستے رہتے تھے خواہ اس کے لیے سینکروں جانیں لینی یادینی پڑیں ،مگرانھیں اس کی کوئی پرواہ نہ ہوتی تھی۔ گویا انتقام کے لئے انسانی جان کی کوئی قیمت اوروقعت نہ تھی۔ تعصب کا حال یہ تھا کہ ہرامیر غریب کو ستاتا اور طاقتور کمزوروں پرظلم ڈھاتا تھا۔ لوگوں نے اپنی تخلیق کا مقصد بھلا دیاتھااورخودتراشیدہ بتوںکواپنا معبود حقیقی سمجھ کران کی پرشتس کرناان کامعمول اور خود ساختہ راہ اختیارکرتے ہوئے فساد و بگاڑ پیدا کرنا ان کا شیوہ بن چکاتھا۔اس کے نتیجے میں ظلم وزیادتی،قتل وغارتگری،چوری وبدکاری اور بداخلاقی کابازارگرم ہوگیاتھا۔ معاشرتی زندگی تباہ و بربادہوچکی تھی اورامن و امان پوری طرح پامال ہو چکا تھا۔ ایسے پرخطرحالات میں جب انسانیت دم توڑرہی تھی ’’اسلام‘‘نے آپسی محبت کاپیغام سناتے ہوئے انسانی جان کی قدروقیمت بتائی اور بدامنی کے ماحول پر روک لگادی۔ مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢابِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا  ۭوَمَنْ اَحْيَاهَا فَكَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا  ۭ’’جس نے کسی انسان کوخون کے بدلے یا زمین میں فسادپھیلانے کے سواکسی اوروجہ سے قتل کیا اس نے گویاتمام انسانوںکا قتل کردیا اورجس نے کسی کوزندگی بخشی اس نے گویاتمام انسانوںکو زندگی بخش دی۔‘‘(مائدۃ: 32)


 اسلام کی نظر میںناحق کسی ایک آدمی کاقتل گویا پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اسلام کسی ایک فردکا قتل تودرکنار اس کی ایذاررسانی کوبھی پسند نہیں کرتا۔اللہ کے رسول ﷺکا ارشادہے۔وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ وَاللَّهِ لَا يُؤْمِنُ  قِيلَ: وَمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟  قَالَ:   الَّذِي لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَايِقَهُبخدا وہ مومن نہیں بخداوہ مومن نہیں ،بخداوہ مومن نہیں۔ دریافت کیا گیا، کون اے اللہ کے رسول ! آپ ؐ نے فرمایاوہ جس کا پڑوسی اس کے ظلم وستم سے محفوظ نہ ہو۔ (بخاری5584)
 افراد کے یکجا رہنے سے معاشرے کی تعمیر ہوتی ہے ، جہاں لوگ آباد ہوتے ہیں وہاں پڑوسیوں کا ہونا لازمی ہے۔ ان کا باہمی میل جول رکھنا اور آپس میں ایک دوسرے اذیت نہ پہنچانا ہی قیام امن ہے۔ اسی لیے پڑوسی پرظم کرنا اسلام کی علامت نہیں ہے خواہ وہ پڑوسی کسی بھی مذہب کا ماننے والاہو،وہ انسان ہے اس لئے ان سے محبت اورحسن سلوک کرنا چاہئے۔اسلام نے ایسے شخص کوبدترین انسان قراردیاہے جس سے نہ خیرکی توقع ہواورنہ لوگ اس کے شرسے محفوظ رہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:
 وَشَرُّكُمْ مَنْ لَا يُرْجَى خَيْرُهُ وَلَا يُؤْمَنُ شَرُّهُ’’تم میں بدترین شخص وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں کونہ خیرکی امیدہو نہ اس کے شرسے لوگ محفوظ ہوں‘‘(ترمذی باب الفتن:2194)

 ایک دوسرے سے نفرت کے بجائے محبت کا شوق دلاتے ہوئے اسلام کہتاہے ’’  لایرحمہ اللہ من لایرحم الناس‘‘ (جولوگوںپررحم نہیںکرتاخدابھی اس پررحم نہیں کرتا ہے)۔ دوسری جگہ ارشاد ہے:
الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمَنُ، ارْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِرحم وکرم اوردوگذرکرنے والوںپرخدابھی رحم کرتاہے۔لہذاتم زمین والوںپررحم کرو، آسمان والاتم پررحم کرے گا۔    (ترمذی:1843)
 پیغمبرامن ﷺ کی سیرت نبوت سے قبل بھی اتنی ہی شاہکارتھی جتنی کہ نبوت کے بعد تھی۔ آپ ﷺ امن کے لیے ہمیشہ کوشاں دکھائی دیتے تھے۔ حلف الفضول کا واقعہ اس کا شاہد ہے ۔جب دنیائے عرب میں حق تلفی ،بدامنی اورفسادکا ماحول تیزہوگیاتھا۔ایسے حالات میں مظلوم و بے بس لوگوںکی فریادسنی گئی اور ایک تاریخی منشور لانے کے لیے قریش کے چند قبائل نے اقدام کیا،جس کا نام’حلف الفضول ‘ ہے۔ جوقیام امن ،بنیادی انسانی حقوق اوربے بسوں کی دادرسی کا تاریخ ساز معاہدہ قرارپایا۔نبیؐ اس معاہدہ کے ایک اہم رکن تھے۔ اس معاہدہ کے لیے آپ نے عین شباب میں بھرپور تعاون اورمؤثر کردار ادا کیا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ آپؐ نے دور نبوت میں ایک موقع پر ارشادفرمایا:
’’اس معاہدہ کے مقابلہ میں اگرمجھے سرخ اونٹ بھی دیے جاتے تومیں نہ لیتا اورآج بھی ایسے معاہدے کے لیے کوئی بلائے تو میں شرکت کے لیے تیار ہوں۔‘‘
 بعثت سے پانچ سال قبل جب قریش نے خانہ کعبہ کی تعمیرنو کا ارادہ کیاجب حجراسودکو اس کی جگہ رکھنے کی نوبت آئی تو قبائل کے مابین خانہ جنگی شروع ہوگئی ۔ حتی کہ لوگ خون بھرے برتن میں ہاتھ ڈبوڈبوکر مرنے اورمارنے کی قسم کھانے لگے۔ کئی روز گزرجانے کے بعد یہ طے ہوا کہ کل صبح جو شخص سب سے پہلے مسجد حرام کے دروازے سے داخل ہواسی کو اپنا حکم بناکر فیصلہ کرالو۔سب اس رائے پر متفق ہوگئے۔ صبح ہوئی اورتمام لوگ جب حرم میں پہنچے تو دیکھا کہ سب سے پہلے آنیوالے محمد ﷺ ہیں۔آپ کو دیکھ کر تمام لوگ بے ساختہ پکار اٹھے:
هذا الأمين، رضيناه، هذا محمد

یہ تومحمد ہیں جوامانت دار ہیں ہم انھیںحکم بنانے کو تیار ہیں۔(الرحیق المختوم،ص:79)
آپ نے ایک چادرمنگائی اور حجراسود کو اس میں رکھ کر فرمایاکہ ہرقبیلہ کا سرداراس چادر کو تھام لے تاکہ اس شرف سے کوئی قبیلہ محروم نہ رہے ۔ اس فیصلہ کو سب نے پسند کیا۔ سب نے مل کر چادر اٹھائی۔اس طرح امن کے علمبردار نے بڑی حکمت سے کام لیا اورآپ کے اس فیصلے پر صلح کے ساتھ ایک بڑے فساد کو خاتمہ ہوا۔ (سیرۃ المصطفی ص:۱۱۳)


 لفظ ’اسلام‘‘کا مادہ (س ل م) خودسلامتی اورحفاظت کا پتہ دیتاہے۔ اگر غور کریں تودنیا میں تین چیزیں ہی عدل وانصاف اورظلم و جور کا محور ہیں جان، مال اور آبرو۔یہ وہ چیزیں ہیں جن میں انصاف نہیں کیاجائے تویہ امن و سلامتی کو گزندپہنچاتی ہیں۔ اسی کے پیش نظر نبی کریم نے حجۃ الوداع کے طورپر جو تاریخ ساز خطبہ دیا تھا۔ اس میں ایک دفعہ یہ بھی تھی:


 " فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا’’یقینا تمہارا خون،تمہارا مال اورتمہاری آبروآپس میں (تاقیامت)اسی طرح محترم ہے جس طرح یہ دن،اس مہینہ میں اوراس شہرمیں محترم ہے۔‘‘ (بخاری:66)


 محسن انسانیت پیغمبراسلام نے دشمنوںکے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کیا۔ایک مرتبہ ایک دشمن نے اچانک آپ کی تلوارلے لی اورکہنے لگا  ’’من یمنعک منی‘‘  (تمہیں مجھ سے کون بچاسکتاہے؟) آپ نے فرمایا ’’اللہ‘‘یہ سنتے ہی تلواراس کے ہاتھ سے گرگئی آپ نے تلواراپنے قبضے میں لے لی مگراسے معاف کردیا اور اس سے درگزرکیا۔فتح مکہ کے وقت آپؐ چاہتے توان لوگوں کا قتل کروادیتے ،جنھوںنے آپ سے دشمنی کی تھی ۔ مگرانسانیت کے تحفظ وبقا کے علمبردارحمۃ اللعالمین نے یہ فرمان جاری کیا  ’’اذہبوا انتم الطلقاء‘‘ جاتم سب آزادہو ۔یہ قیام امن کی بہترین مثال ہے۔ پامالی امن کے اسباب اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ فتنہ اور فساد کو جڑسے ہی ختم کردیتاہے ۔ظلم اورفساد کی جو بنیادہے کبر،گھمنڈ،خودغرضی،دورخاپن،غصہ ، حسد اورکینہ وغیرہ اسلام ان رذائل کو سخت ناپسندیدہ عمل قراردیتا ہے اور ان کے مرتکب شخص کی اصلاح بھی کرتاہے،تاکہ امن وامان کی اس فضا کو ان آلودگیوں سے پاک رکھا جاسکے۔ اسلام میں باہمی مساوات کی تعلیم انسان کے گھمنڈکوخاک میں ملادیتی ہے ۔ پھر کبر کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔اسلام کہتاہے کہ اس دنیا میںکسی کو کسی پر کوئی فضیلت اوربرتری نہیں ہے، ہرانسان آدم کی اولاد ہے، جس کواللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیداکیا۔ فتح مکہ کے موقع پرآپ نے ارشاد فرمایا :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّ رَبكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَباكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبيٍّ، وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ، إِلَّا بالتَّقْوَى ’’اے لوگو! بلاشبہ تمہارارب ایک ہے اورتمہارباپ بھی ایک ہی ہے ،جان لوکہ کسی عربی کوکسی عجمی پراورنہ کسی عجمی کوکسی عربی پر،نہ کسی سرخ کوکسی سیاہ پر اورنہ کسی سیاہ کو کسی سرخ پرکوئی فضیلت اوربرتری حاصل ہے سوائے تقوی کے ‘‘(مسنداحمد:22871)

 رہی بات حسب ونسب اورخاندان کی تواس کامقصدصرف ایک دوسرے کاتعارف ہے۔ جسے خالق جہاںنے اپنے کلام پاک میں اس طرح بیان فرمایاہے ۔يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا  ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْاے لوگو!ہم نے تمہیںایک مرداورایک عورت سے پیداکیا۔(یعنی سب کی اصل ایک ہی ہے)اور تمہیں خاندانوں اورقبیلوںمیںبانٹ دیاتاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو،بے شک اللہ کے یہاں تم سب میں زیادہ عزت والا وہ ہے جوتم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہے۔(الحجرات:۱۳)

 اس کا مشاہدہ مسجدوں میںبخوبی کیاجاسکتاہے ،جہاں تمام افراد بلا امتیاز قد و قامت اور شان شوکت ،کندھے سے کندھا ملائے کھڑے نظرآتے ہیں۔ یہ خوبی بیان کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
 
 یہ عادلانہ نظام پیغمبرآخرمحمدﷺکی جفاکشی اورصحابہ ٔ کرام ؓکی جاںفشانیوں کے نتیجہ میں قائم ہواتھا،اسے خلافت ِ راشدہ کا نام دیا جاتا ہے، جسے دوسرے لفظوں میں نوع انسانی کامحافظ ادارہ کہنا درست ہوگا۔موجودہ حالات جس طرح اسلام کوبدنام کرنے کی سازش کی جارہی ہے اس سے اہل اسلام کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اورنہ ہی جذبات میں آکرکوئی غلط قدم اٹھانے کی۔ کیونکہ جس طرح نام بدل دینے سے شی کی حقیقت نہیں بدلاکرتی ٹھیک اسی طرح اسلام کو جوامن وسلامتی کا ضامن ہے، دہشت گردیا انسانیت دشمن قراردے کراس کی حقیقت کوبدلانہیں جاسکتا۔یہ تو دین ہدایت ہے جو انسان کو انسان کی طرح زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتاہے اورقیام امن کے لیے آپسی محبت اور باہمی مساوات کا پیغام دیتاہے۔اس لیے ہم علم وعمل ، گفتار وکردار، نشست وبرخاست کومکمل طورپر اسلامی سانچے میں ڈھالیں اورامن و انسانیت کے دشمن، نفرت پھیلانے والے فاسد عناصر سے ہر ممکن مقابلہ کے لیے تیار رہے اور ان کے پروپگنڈہ کا حکمت ودانش مندی سے مثبت انداز میں دندان شکن جواب دیں، تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو اور معاشرہ میں امن و انسانیت کی فضا ہموار ہو۔ و ما توفیق الا باللہ۔

  لہذانام ونسب اور خاندان کی وجہ سے کسی شخص کوکسی پرفخرکرنے کاکوئی حق نہیںاورنہ کسی کی تحقیروتذلیل کرنااس لئے رواہے۔یہی بات قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں کہی گئی ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاۗءٌ مِّنْ نِّسَاۗءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۚ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۭ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ’’اے ایمان والو!کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہو اورنہ ہی عورتیںدوسری عورتوںکامذاق اڑائیں ممکن ہے وہ ان سے بہترہوں اور نہ ایک دوسرے کوطعنہ دو اورایک دوسرے کوبرے لقب سے پکارو ،ایمان لانے کے بعد برا نام رکھناگناہ ہے  اور جو توبہ نہ کرے وہ ظالم ہے۔‘‘ (الحجرات:۱۱)

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و عیاضنہ   کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز 

ہاں!  اگرکسی شخص کو برتری چاہئے تویہ صرف تقوی کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہے اور تقوی کا مطلب ہے خداکاخوف پیش نظررکھنا اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا۔ امن وامان کی پامالی میںحب جاہ ومال کابھی بڑادخل ہے ۔ دیکھا جاتا ہے کہ لوگ دنیاوی اعتبار سے خود کومالدارسمجھ کراپنے کو بڑاسمجھنے لگتے ہیں۔ اس کی ہوس میں اندھے،بہرے اورگونگے بن کر ایک گناہ کرتے چلے جاتے ہیں، جس سے ماحول پر بہت برا اثرپڑتاہے اورمعاشرہغیرمامون ہو کر تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتاہے۔ اگر مالداری قابل فخرہوتی توقارون سے زیادہ قابل فخرکوئی نہ ہوتا اورہمیشہ اس کا ذکر خیر ہوتا مگر ایسا نہیں ہے۔

انسانی زندگی کی کچھ قدریں ہوتی ہیں جن کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔ اگر ان کی حفاظت نہ کی جائے توانسان ایک درندہ صفت حیوان بن جاتاہے ۔اسی کے پیش نظر اسلام نے ناحق قتل ،غارتگری،شراب خوری، فحاشی و زنا کاری، بداخلاقی وبدکاری سے منع کیاہے۔ تاکہ تمام انسان اس کائنات میں وہ امن وسکون کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔ قیام امن کے لیے آخرت کی جوابدہی کو ایک خاص مقام حاصل ہے ۔ اسلام یہ تصور پیش کرتاہے کہ یہ دنیا فانی ہے،اسے ایک دن ختم ہوناہے ۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے ، جہاں خداکے حضورپیش ہو کر انسان کو اپنے عمل کا حساب دینا ہے۔ آخرت کی زندگی بہترہے جو ہمیشہ باقی رہے گی۔ (والآخرۃ خیروابقی)۔ عام انسان بھی اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ دنیا میں پیداہونے والا ہر انسان محض چند روزکی زندگی لے کر آیا ہے۔ اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس کی سانس کب رک جائے گی اورکب وہ دنیاسے چلاجائے گا۔ اس لیے مسلمانوں ہی کا نہیں بلکہ پوری دنیاکا سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ ایک ایسا نظام قائم ہوجس میں قیام امن کے لیے عدل و انصاف کواساسی مقام حاصل ہو جو ہرشخص کواس کا حق دے ، کسی کوکسی پر کسی طرح کا ظلم نہ کرنے دے ، امن واطمینان کا خوشگوار ماحول ہو۔

 یہ عادلانہ نظام پیغمبرآخرمحمدﷺکی جفاکشی اورصحابہ ٔ کرام ؓکی جاںفشانیوں کے نتیجہ میں قائم ہواتھا،اسے خلافت ِ راشدہ کا نام دیا جاتا ہے، جسے دوسرے لفظوں میں نوع انسانی کامحافظ ادارہ کہنا درست ہوگا۔موجودہ حالات جس طرح اسلام کوبدنام کرنے کی سازش کی جارہی ہے اس سے اہل اسلام کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اورنہ ہی جذبات میں آکرکوئی غلط قدم اٹھانے کی۔ کیونکہ جس طرح نام بدل دینے سے شی کی حقیقت نہیں بدلاکرتی ٹھیک اسی طرح اسلام کو جوامن وسلامتی کا ضامن ہے، دہشت گردیا انسانیت دشمن قراردے کراس کی حقیقت کوبدلانہیں جاسکتا۔یہ تو دین ہدایت ہے جو انسان کو انسان کی طرح زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتاہے اورقیام امن کے لیے آپسی محبت اور باہمی مساوات کا پیغام دیتاہے۔

اس لیے ہم علم وعمل ، گفتار وکردار، نشست وبرخاست کومکمل طورپر اسلامی سانچے میں ڈھالیں اورامن و انسانیت کے دشمن، نفرت پھیلانے والے فاسد عناصر سے ہر ممکن مقابلہ کے لیے تیار رہے اور ان کے پروپگنڈہ کا حکمت ودانش مندی سے مثبت انداز میں دندان شکن جواب دیں، تاکہ ظلم کا خاتمہ ہو اور معاشرہ میں امن و انسانیت کی فضا ہموار ہو۔ و ما توفیق الا باللہ۔

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...