Showing posts with label Waffiyat. Show all posts
Showing posts with label Waffiyat. Show all posts

Monday 29 August 2022

Ek Azeem Murabbi Dayee Rahnuma

ایک عظیم مربی ، داعی اور رہنما ... مولانا سید جلال الدین عمری

 

جمعہ کا دن تھا دفتر بند تھا کیمپس میں واقع اپنے رہائشی کمرے میں اکیلے پریشان بیٹھا تھا تبھی میرے موبائل کی گھنٹی بجتی ہے. ریسپشین (استقبالیہ ) سے فون تھا۔ فون اٹھایا سلام کے بعد کسی نے کہا کہ محترم امیر جماعت (مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند) بات کریں گے. اتنے میں فون پر مولانا محترم کی آواز آئی. میں نے فوراً سلام کرتے ہوئے کہا :جی محترم فرمائیں. مولانا نے فرمایا: ’’بھئی آپ کے والد صاحب کے انتقال کی خبر ملی. بڑا دکھ ہوا. اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے. اللہ آپ کو صبر عطا کرے آپ بھائی بہنوں میں بڑے ہیں سب کو سنبھالیے.‘‘

یہ واقعہ 25 جنوری 2019 کا ہے.  ان کی ان تعزیتی کلمات سے مجھے جو حوصلہ ملا میں بتا نہیں سکتا۔ مولانا محترم کوئی اور نہیں مولانا سید جلال الدین عمری سابق امیر جماعت تھے۔

اورآج 26؍اگست 2022 بوقت شام برادر انوارالحق بیگ صاحب کا فون آیا:’’ ارے محب اللہ کہاں ہو جلدی الشفا اسپتال چلے آؤ سابق امیر جماعت کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے آکر مل لو.‘‘

(ہفتہ دن پہلے میں مولانا ولی اللہ سعیدی صاحب کے ساتھ مولانا محترم کی اعادت کے لیے الشفا اسپتال  ان سے مل کر آیا تھا۔ اس وقت تو کچھ بہتر لگ رہے تھے مگر بعد پھر آئی سی یو میں منتقل کر دئے گئے) میں پہنچا پتہ چلا ابھی ساڑھے آٹھ بجے شب بتاریخ 26 اگست 2022 مولانا محترم کا انتقال ہوگیا ہے. انا للہ وانا الیہ راجعون.

 

موت تو آخر موت ہے آنی ہے اور آتی رہتی ہے. اس لیے کہ دنیا میں جو بھی آیا ہے اسے ایک دن جانا ہے. نہ یہ دنیا ہمیشہ رہنے والی ہے نا یہاں کی کوئی شئی. کل من علیہا فان جو کچھ یہاں ہے سب کو فنا ہونا ہے کہ یہ دنیا خود فانی ہے.

 

اللہ کا فرمان ہے کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے. بس دیکھنا ہے کہ مہلت عمل لے کر دنیا میں آنے والا انسان اپنے خالق و مالک کی رضا کی خاطر کیا کچھ اپنے نامہ اعمال میں لے کر جاتا ہے.

سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری صاحب جلیل القدر شخصیت، با وقار جید عالم دین، درجنوں کتاب کے مصنف، بے باک خطیب اور عظیم مربی داعی اور رہنما تھے۔ مولانا مرحوم کے خطبے کی وہ بے باک بات جو آج بھی اسی گرج کے ساتھ میرے کانوں میں گونجتی رہتی ہے "ہم کوئی حرف غلط نہیں جسے مٹا دیا جائے"

 

مولانا محترم اسلام کی تفہیم و اشاعت اور اس پر عمل کے سلسلے میں تفردات اختیار کرنے کے بجائے دین کو اس کے اصل ماخذ سے پر عبور کے باعث اجتماع  امت کی بھرپور اتباع کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب جماعت اسلامی کے کیمپس میں واقع مسجد اشاعت اسلام میں ماہ رمضان کے دوران شعبہ تربیت مرکز کی جانب سے ہر اتوار کو دینی سوالات و جوابات کا پروگرام رکھا جاتا تھا جس میں عوام کی جانب سے سوالات ہوتے اورمولانا محترم اس کا جواب دیتے تھے۔بہت سے سوالات میں ایک سوال تراویح کی بیس اور آٹھ رکعات سے متعلق تھا اور مسجد اشاعت اسلام میں 20 رکعات تراویح ہوتی تھی۔ آپ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا :

’’ جنھیں لگتا ہے کہ وہ بیس کے بجائے 8 رکعات پڑھنی ہے تو وہ اس مقام پر جائیں جہاں 8رکعات کا اہتمام ہوتا ہے اور بیس پڑھنے والے بیس 20 والے مقام پر پڑھیں اس پر بضد ہونا کہ آٹھ والی جگہ بیس ہو یا بیس والی جگہ آٹھ یہ بہتر نہیں‘‘۔ مذکورہ واقعہ جو مجھے پہلے سے بھی معلوم ہوتا مگر جب مولانا عبدالسلام اصلاحی سابق معاون شعبہ تربیت مرکز نے اس واقعہ کا تذکرہ کیا تو وہ یاد تازہ ہوگئی۔

 

مولانا محترم مسلم پرسنل بورڈ کے نائب صدر تھے اور اپنی علمی و فکری صلاحیت و صالحیت کی بنا پر نا صرف اپنے حلقہ یعنی جماعت اسلامی ہند میں معروف شخصیت تھے بلکہ دیگر مکاتب فکر میں بھی یکساں طور پر قابل قدر اور علم دوست کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.

 

جلسے و اجتماعات میں  آپ کی تقریر و گفتگو ایک عجیب سی روحانی کیفیت پیدا کردیتی تھی جس سے دل اللہ کی طرف مائل ہو جاتا تھا اور آنکھیں گناہوں کو یاد کرتےہی چھلکنے لگتی تھیں۔ کئی بار مرکزی تربیت گاہ کے اختتامی پروگرام میں جب آپ زاد رہ کے طور پر اظہار خیال کرتے اور دعا فرماتے توشرکاکے ساتھ میری بھی آنکھیں نم ہوئیں اور دل میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی۔ تحریکی کارکنان سے گفتگو کرتے ہوئے بطور نصیحت انھیں ذاتی تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی تلقین فرماتے اور انھیں  احساس دلاتے کہ دفتر اور کام کاج کے بعد جو وقت آپ کو ملتا ہے اسے ضائع اور لغو کام میں برباد کرنے کے بجائے اسے مطالعہ کتب اور اپنی تربیت پر لگانا چاہیے۔

 

یہ بات درست ہے آپ کے وضع قطع اور نورانی چہرے کو دیکھ کر خدا یاد آتا تھا۔ آپ یقیناً اس دار فانی سے رخصت ہو کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ہیں مگر کتابوں کی شکل میں آپ نے جو علمی ذخیرہ چھوڑا ہے، خطبات کی شکل میں اسلامی موقف کی تائید و وضاحت کی ہے اور اپنے خدمت دین کے جذبوں سے امت کو جو پیغام دیا ہے لوگ ان سے مستفید ہوں گے جو ان شاءاللہ تعالیٰ آپ کے لیے صدقہ جاریہ اور ذخیرہ آخرت ثابت ہوگا.

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے مولانا محترم کی مغفرت، آپ کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور لواحقین صبر جمیل عطا کرے آمین.

محب اللہ قاسمی

معاون شعبہ تربیت مرکز جماعت اسلامی ہند

 

  

Sunday 17 January 2021

Elm o Taqwa aur Sadgi ka Paikar: Dr Mohd Rafat

 

علم و تقوی اور سادگی کا پیکر ڈاکٹر محمد رفعت

محب اللہ قاسمی

ایک ضخیم مسودہ سامنے ٹیبل پر تھا، جسے برائے تبصرہ و نظر ثانی بھیجنا تھا۔اسے لفافے میں رکھا اور اس پر ’ بہ خدمت ڈاکٹر محمد رفعت‘ لکھا اور سوچنے لگا:یہ رفعت کون ہیں؟ جہاں بار بار الگ الگ مسودے بھیجے جاتے ہیں اور وہاں سے کچھ ہی دنوں میں لال قلم سے اصلاح و ترمیم کے بعد واپس لوٹ آتے ہیں۔وہ اردو اور انگریزی دونوںمسودے بھی دیکھتے اور ان پر تبصرہ کرتے ہیں۔ ان کے فائنل تبصرے پر ہی مسودہ اشاعت کے مرحلے میں جاتا. یہ2008 کی بات ہے جب سید عبدالباسط انور صاحب تصنیفی اکیڈمی اور شعبہ تربیت مرکز جماعت اسلامی ہند دونوں کے مشترکہ مرکزی سکریٹری تھے اور میں ان کا معاون۔ایک دن میں اپنے دوستوں کے ساتھ بعد نماز مسجد میں ہی کھڑا ایک دوسرے سے باتیں کر رہا تھا۔ اتنے میں میرے دوست سب کے سب ایک شخص کی طرف متوجہ ہوئے، جس کے جسم پر معمولی لباس تھا ،چہرے پہ مسکراہٹ تھی، پیشانی پر گول سیاہ نشان، پینٹ مگر ٹخنے کے اوپر تھی. یوں تو میں نے انھیں کئی بار دیکھا تھا پر اس دن دوستوں کے ساتھ میں نے بھی ان سے مصافحہ کیا۔ تبھی میرے ایک دوست نے کہا : آپ ڈاکٹر محمد رفعت صاحب ہیں۔ میرا دماغ بالکل گھوم گیا ۔ کئی بار سوچا کہ وہ رفعت صاحب نہیں کوئی اور ہوں گے ۔اتنا بڑاقابل اور ذی استعداد آدمی اور اتنی سادگی عموماً دیکھنے کو نہیں ملتی۔تبھی میرے دوست نے کہا: آپ جامعہ میں پروفیسر ہیں۔پھر یقین ہو گیا ۔ تب میں نے دل کو تسلی دی کہ آج بھی ایسے لوگ ہیں جو عام زندگی جیتے ہیں۔

میں ان کے بارے میں مزید پتہ کرنے لگا اور بہت جلد بہت سی تفصیلات معلوم کرلیں۔ پھر کیا تھا ؟میں ان کے دروس قرآن اور دیگر پروگراموں میں شریک ہونے لگا۔ آپ اجتماعی مطالعہ قرآن کا پروگرام بھی بہت اچھا کرتے تھے، جس میں دیگر تراجم و تفاسیر کے ساتھ شیخ الہندؒ کا ترجمہ مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ترجمہ اور معارف القرآن وغیرہ کی تشریح پیش کرتے ہوئے بھرپور گفتگو کرتے تو بڑا اچھا لگتا تھا، خاص طور سے رمضان المبارک کی طاق راتوں میں سے ایک رات ان کا بھی پروگرام ہوتا تھا۔ اس طرح میں نے ان سے اپنا تعلق استوار کیا اور ان پروگراموں میں شرکت کرنے لگا۔ بارہ سال طویل عرصہ جماعت اسلامی ہند کے کیمپس میں اس عظیم اسلامی مفکر کے ساتھ گزرا ، یہاں تک کہ  مورخہ 8 جنوری 2021 کو ان کے انتقال پرملال کی خبر ملی تو ایک ایک کر کے وہ سارے لمحات فلیش بیک کی طرح  نظروں کے سامنے گھومنے لگے۔ میں اپنے کمرے سےبھاگتا ہوا چند قدم کے فاصلے پر موجود الشفا اسپتال پہنچا ۔ان کے چہرے کو دیکھتے ہی میری آنکھوں سے  آنسو  جاری ہو گئے۔میں ہٹ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔

 

اس تکلیف دہ حادثےسے میں نڈھال تھا کہ میرےمخلص مربی، ہمدرد و بہی خواہ، جن سے میں نے جماعت اسلامی کو جانا سمجھا اور فکری شعور کو مضبوط کرنے میں مدد لی، اپنے ہزاروں چاہنے والوں میں مجھے بھی روتا بلکتا چھوڑ گئے.لیکن روتے ہوئے میں نے انا للہ وانا الیہ راجعون کہہ کر دل کو تسلی دی کہ یہاں کوئی ہمیشہ کے لیے نہیں آیا ہے۔ یہ دنیا تو درالعمل  ہے، جہاں  ہر شخص مہلتِ عمل لے کر آتا ہے اور داعیٔ اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس فانی جہاں کو چھوڑ کر اپنے رب کے حضور چلا جاتاہے۔ مگر عقل مند انسان جو اس بات کو سمجھتا ہے، اس کے سامنے زندگی کا ایک مقصد ہوتا ہے ، جس کے تحت وہ ہر لمحے کو قیمتی سمجھ کر رضائے الہی کے حصول میں سرگرداں رہتا ہے، چنانچہ وہ کوئی  نمایاں کارنامہ انجام دے کر چلا جاتا ہے، جو دوسروں لیے ایک اعلیٰ مثال ہو۔جس میں اخلاق کی بلندی، فکر کی پختگی ،زندگی میں سادگی، باتوں میں شگفتگی، ماتحتوں کے ساتھ نرمی ،طرز استدلال میں دل کشی ہوتی ہے ۔ یہ وہ صفات ہیں، جن سے ڈاکٹر محمد رفعت صاحب کو اللہ نے رفعت بخشا تھا۔

 

آپ 2011 تک چار میقات دہلی کے امیر ،طویل عرصے سے مرکزی مجلس شوری کے برابر رکن منتخب ہوتے رہے، زندگی نو کے ایڈیٹر، تصنیفی اکیڈمی کے چیئر مین، سینٹر فاراسٹڈی اینڈ ریسرچ (CSR) کے چیئر مین اور مرکزی شعبۂ تربیت، جس سے میری وابستگی ہے، اس کے ایک میقات (2011 تا2015) سکریٹری رہے۔اس عرصےمیں آپ کے قریب رہ کر تحریکی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور آپ کی صلاحیتوں اور قابلیتوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اس لحاظ سے آپ میرے استاذ تھے۔ آپ سے میں نے لکھنا، جماعت کے پروگراموں کا نظم و انصرام سنبھالنا، ان پروگراموں میں اظہار خیال کرنا اور بغرض اصلاح تنقید کرنا بھی ۔ یہ جرآت تنقید آپ کی مرہون منت ہے، ورنہ زبان ہوتے ہوئے بھی انسان قوت گویائی کھو دیتا ہے اور با شعور ہو کر بھی غیر شعوری زندگی جینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

 

آپ علمائے کرام سے بڑی محبت کرتے تھے۔ علمائے دیوبند سے آپ کو بڑا  لگاؤ تھا، خاص طور پر مولانا قاسم نانوتویؒ، قاری محمدطیب صاحب،ؒ شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ،مولانا اشرف علی تھانویؒ وغیرہ۔ کے اقتباسات کو اپنی تحریروں میں پیش کرتےتھے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ بھارت میں انگریز اپنے غلبے سے یہاں اپنا تسلط ہی نہیں جمانا چاہتے تھے، بلکہ ان کا مقصد تھا کہ اپنی تہذیب و تمدن کو یہاں کے لوگوں پر تھوپ کر فکری لحاظ سےبھی غلام بنا لیں تاکہ وہ اپنی تہذیب بھول جائیں۔ گویا تہذیبوں کا تصادم تھا، جس میں فتح یاب ہونے کے لیے انھوں نے مسلمانوں سے حکومت چھین لی۔ علمائے کرام نے ان کے اس منشا کو سمجھ لیا۔ اس لیے ان سے آزادی اور ان پر غلبہ حاصل کرنے کے لیےتحریک آزادی کی بغل بجادی اور قربانیاں پیش کیں، تاکہ مسلمانوں اپنے تشخص کے ساتھ رضائے الٰہی کی خاطر زندگی بسر کریں اپنے اقتدار کے حصول اور انسانوں کی غلامی سے آزاد ہو کر زندگی گزاریں۔

 

ڈاکٹر محمد رفعت نے اقامت دین کی جد و جہد میں لگی ہوئی  تحریکات اسلامی کو درپیش چیلنجز اور نئے قالب میں اسلامی نظریات پر یلغار کرنے والے خیالات کا بھرپور تعاقب کیا اور اپنی تحریروں و تقاریر سے عصر حاضر کے نوجوانوں کی فکری اصلاح، اسلام مخالف پروپگنڈا کے خلاف، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل کی وضاحت اور بھرپور تشریح کی اور مسلسل زندگی نومیں اپریل 2009 سے اگست2019 تک اشارات کے تحت ایک مومن کے مقصد حیات، اس کے نصب العین پرروشنی ڈالتے رہے اور تحریکی کارکنان کو فکری غذا فراہم کرتے رہے۔ ان اشارات کو کتابی شکل دے دی گئی اور ان کی 10کتابیں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع ہو گئی ہیں، جن کے نام یہ ہیں:

 ’فرد معاشرہ اور ریاست‘’پر فریب نعرے‘’اسلامی تحریک سفر اور سمت سفر’امت مسلمہ کا نظام اجتماعی’غیر اسلامی ریاست اور مسلمان‘راہ اور راہی‘ جماعت اسلامی کی پانچ خصوصیات‘ جماعت اسلامی کی تشکیل’دعوت اور جہاد اورتعلیم و تحقیق کا اسلامی تناظر‘۔ اسی طرح آپ کی انگریزی میں بھی 4 کتابیں شائع ہوئی ہیں۔

 

انسان کو اخلاقی رفعت و بلندی پر قائم رہنے کے لیے الفت و محبت اور نرمی و شفقت کا رویہ اپنانا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ رفعت صاحب بھی لوگوں کی مشکلات کو سمجھتے، ان کے درد کو محسوس کرتے اور حتی الامکان ان کا مداوا بننے کی سعی کرتے تھے۔ بہت سے بچوں کی فیس کی ادائیگی میں مشکل ہوتی، انھیں راشن لینا ہوتا یا بیماری میں علاج معالجہ کے لیے پیسے کی پریشانی ہوتی تو آپ ان کی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دل کی سختی جیسی بیماری سے کافی حد تک محفوظ رہے اور اتنے عظیم اسلامی اسکالر ،مفکر اور اہل نظر ہونے کے باوجود خودکو ہمیشہ عام انسان کی طرح رکھا، محسوس کیا اور سادہ زندگی گزاری کہ معمولی چپل میں بھی آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ کےشعبہ انجینئر نگ میں بہ حیثیت صدر شعبہ چلے جاتے اور طلبہ کے درمیان اپنے موضوع فزکس پر ایسا لکچر دیتے کہ طلبہ آپ کے دیوانے ہو جاتے. وہ سب آپ کی علمی لیاقت اور قابلیت قائل تھے۔

ڈاکٹر صاحب کی قوتِ حافظہ اس قدر مضبوط تھی کہ آپ نے تقریر کرتے وقت کبھی کسی پیپر کا سہارا نہیں لیا، نہ کوئی خاکہ سامنے رکھا، بلکہ اپنے موضوع سے متعلق جو کچھ کہنا ہوتا خوب کہتے۔ اپنی باتوں کو پیش کرنے کا ایسا مربوط اندازتھا گویا  وہ اپنی کوئی تحریر سنا رہے ہوں۔دل کش اندازِ بیاں کے ساتھ ایسی مدلل، کانوں میں رس گھولتی اور جچی تلی گفتگو ہوتی کہ گھڑی کی سوئی انھیں کیا اشارہ کرتی آپ  پہلے ہی کہہ دیتے: و ماعلینا الا البلاغ۔ سامعین کو ذرا بھی تشنگی کا احساس ہوتا اور نہ اکتاہٹ کی شکایت، بلکہ بے ساختہ ان کی زبان سےسبحان اللہ نکلتا۔ آپ یہ کہنے کہ وقت بہت کم ہے، مجھے بہت ساری باتیں کہنی ہیں یا قلت وقت کے سبب میں تفصیل میں نہیں جا نا چاہتا وغیرہ وغیرہ کو وقت کا ضیاع تصور کرتے تھے۔ اس لیے اپنی تقریروں میں ایسے جملوں سے گریز کرتے تھے۔

 

آپ شعبۂ تربیت کے مرکزی سکریٹری تھے۔ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اعزازی خدمات تو دیتے ہی تھے، مگراپنی ذات پر جماعت کے بیت المال سے کچھ بھی خرچ کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ دورے پر جانا ہوا تو حتی الامکان کم سہولت والا سفر کرتے۔ اس میں بھی بیش تر مقامات پر اپنی جیب سے خرچ کرتے تھے۔ جماعت نے ارکان کی علمی ، عملی فکری اور و روحانی ہمہ گیر تربیت کے لیے مرکزی تربیت گاہ کا آغازکیا تواس کا سب سے پہلا ماڈل پروگرام رفعت صاحب نے تیار کیا، جس کے تحت  اور ایک کام یاب پروگرام منعقد ہوا ۔

 

ڈاکٹر صاحب مختلف النوع صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اسی لیے کسی بھی موضوع پر اظہار خیال کرنا آپ کے لیے مشکل نہ تھا۔ یہ آپ کے کثرت مطالعہ اور قوت حافظہ کی بات تھی۔ایک موقع پر’علامہ اقبال کا پیغام‘کے عنوان سے آپ نے بہت شان دار گفتگو کی. اس میں آپ نے کہا کہ علامہ کا پیغام انسانی کی آزادی کا پیغام ہے کہ انسان خدا کا غلام ہو، کسی انسان کا غلام نہ ہو۔ان کی یہ تقریر اور اقامت دین سے متعلق تقریر یوٹیوب پر بھی دست یاب ہے۔ آپ ادب نواز، خوش مزاج اور خوش طبع انسان تھے۔ اکثر ادارۂ ادب اسلامی کی نشستوں میں شرکت کرتے اور عمدہ شاعری کو پسند فرماتے۔مجلس کیسی بھی ہو ، وہ اپنی حاضر جوابی اور بزلہ سنجی سے محفل کے سناٹے کو دور کردیتے تھے۔

 

سخت لاک ڈاؤن کا دور چل رہا تھا۔ جس کی وجہ سے  کافی دنوں بعد آپ سے ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ چہرا کافی سوکھا ہوا تھا، ایسا لگتا تھا، بہت کم زور ہو گئے ہوں۔ میں نے پہلے خیرت پوچھی ۔کہنے لگے الحمدللہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔پھر ایک خوش گوار ماحول میں  گفتگو ہوتی رہی۔ انھوں نے پوچھا : بتائیے سوشل ڈسٹینس کو اردو میں کیا کہیں گے؟ عرف عام کے مطابق میں نے کہہ دیا: سماجی دوری ۔ کہنے لگے نہیں،۔ اس کا مناسب ترجمہ ’کم آمیزی‘ ہونا چاہیے۔ پھر انھوں نے علامہ اقبال کا درج ذیل شعر سنایا ؎

کہتے ہیں فرشتے کہ دِل آویز ہے مومن

حُوروں کو شکایت ہے، کم آمیز ہے مومن

پھر پوچھا : لاک ڈاؤن کا کیا ترجمہ ہوگا؟ میں نے کہا : عربی میں اسے الاغلاق الکامل کہتے ہیں۔ اردو میں اسےمکمل بندی کہہ سکتے ہیں۔کہنے لگے نہیں،عربی کا تو نہیں، البتہ اردو میں مناسب ترجمہ’امتناع کامل‘ہوگا۔پھر اس کے بعد انھوں نے علامہؒ کا ہی ایک شعر اور سنایا :

پیدا ہے فقط حلقۂ ارباب جنوں میں

وہ عقل جو پا جاتی ہے شعلے کو شرر سے

رفعت صاحب واقعی اسم با مسمی تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اخلاقی بلندی کے ساتھ گزاری ،تقوی کی روش اختیار کی اور ہر اس چیز سے دامن کو بچانے کی کوشش کی جو پستی میں لے جانے والی تھی ۔چاہے باوقار اسلامی مفکر کے طور پر مختلف افکار و نظریات کا مقابلہ کرنا ہو،یا اپنوں کے درمیان فکری موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار ،عبادات کی بات ہو یا معاملات کا مسئلہ، ہر جگہ آپ نے اپنے مقام رفیع کو گرنے نہیں دیا۔

 

اے اللہ! تونے جس طرح رفعت صاحب کو دنیا میں مقام رفعت کی خصوصیات بخشی تھیں، اسی طرح آخرت میں بھی اپنے فضل و کرم سے انھیں جنت الفردوس میں مقام رفیع عطا کر اور جملہ پس ماندگان اہلیہ، دوبیٹیاں اور بیٹوں:برادرسعد،معاذ اور رشاد کے ساتھ  ہم چاہنے والوں کو بھی صبر جمیل عطا کر۔ آمین ،یارب العالمین۔





 

Saturday 24 October 2020

Mere Gaown ke Hifazat Hussain Sb nahi Rahe

ابا کے حفاظت چا... نہیں رہے

 

    جمعرات 22 اکتوبر 2020 دوپہر ڈھائی بجے کی بات ہے۔ گھر سے خبر موصول ہوئی کہ حفاظت حسین صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔ خبر سن کر بہت افسوس اور دکھ ہوا۔ ابھی بقرعید پر جب میں گھر گیا تھا تو ان سے اچھی ملاقات بات رہی۔ یوں تو وہ پہلے سے بیمار رہتے تھے مگر ادھر کافی دنوں سے ان کی طبیعت بہتر ہو گئی تھی۔ ابھی چند دنوں پہلے ان کے نواسے کی شادی تھی۔ جس میں دوسرے گاؤں سے اپنے گاؤں میں ہونے والی اس شادی میں وہ دونوں طرف سے شریک تھے۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ وہ اس طرح چلتے پھرتے ہنستے بولتے ہم لوگوں سے جدا ہو جائیں گے۔ مگر موت ایک حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے وہ کبھی بھی آ سکتی ہے اس کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ لہذا وہ آئی اور حفاظت دادا کو ہم سے لے کر چلی گئی۔

 

    مرحوم ہمارے گاؤں (فاطمہ چک، شیوہر) کے بہت پرانے اور آزادی سے پہلے کے دور کو دیکھنے والے چنندہ لوگوں میں سے ایک تھے۔ اس لیے جب بھی ان سے گفتگو ہوتی تو وہ مختلف موضوعات پر اپنے مخصوص انداز میں کھل کر اظہار خیال کرتے تھے، ماضی کے تلخ اور خوش گوار ایام کا بھرپور تذکرہ کرتے تھے۔ ہنس مکھ، ملنس سار اور خوش مزاج انسان تھے۔

 

    ابھی گزرے سال کی بات ہے میرے والد(مرحوم) بہت بیمار تھے، حفاظت دادا کو ان سے بڑی محبت تھی اور  ابا کو بھی اپنے گاؤں کے لوگوں سے بڑی محبت تھی۔ چنانچہ دادا روزانہ صبح سویرے ابا کو دیکھنے آتے اور باہر والے گھر میں ہی پھاٹک سے زور سے آواز دیتے حسیب...حسیب ابا چاہے جس حال میں بھی ہوں فوراً جواب دیتے ....ہاں....ہاں  حفاظت چا....

    تو وہ بولتے ک ہ ن کا حال چال ہی۔ ٹھیک ہی نا۔(کہو.. کیا حال ہے،طبیعت ٹھیک ہے نا؟(

    ابا بھی کہتے ہاں اللہ کے فضل سے ٹھکے ہی ...(ہاں.. ٹھیک ہی ہے(

 

    مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ میرے گھر میں گرچے پیسے ہوتے تھے مگر غلہ و غیرہ نہیں ہوتا تھا کیوں کہ ہمارے پاس کھیتی باڑی تو تھی نہیں ۔۔۔اس لیے چاول گیہو خرید کر ہی کھاتے تھے اور یہ غلہ حفاظت دادا کے یہاں سے ہی خریدا جاتا تھا۔ کئی بار پیسے نہ ہونے کے سبب ادھار کا بھی معاملہ رہا، جس میں وہ بڑی رعایت کرتے تھے۔

 

    کچھ زمانہ پہلے چلیں تو وہ دور بھی مجھے یاد ہے کہ مجھے اور دوستوں کو بہت سی شادیوں میں جب بارات جانا ہوا تو ان کے ہی بیل گاڑی سے جانا ہوتا تھا بڑے پیار سے قصہ کہانی سناتے ہوئے لے جاتے۔ مگر لے جاتے وقت ہی کہہ دیتے کہ اُدھر سے واپسی اِس گاڑی پر ہوگی اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کیوں کہ شادی بیاہ کا جو سامان ہوتا تھا وہ واپسی پر اسی گاڑی پر لاد دیا جاتا تھا اور بچے بھی شرارتی وہ بھلا چیورا کسار کہاں چھوڑتے اس لیے مجبوراً وہ سب کو گاڑی سے اتار دیتے خواہ ہم لوگوں کو پیدل ہی واپس کیوں نہ آنا پڑے۔ پھر بھی ہم لوگ ان سے اس وقت بھی بڑی محبت کرتے تھے۔

 

    آخری دنوں میں جب وہ حج سے واپس آئے تو ان میں بڑی تبدیلی آ گئی تھی مسجد سے خاص لگاؤں ہوگیا تھا۔ نماز کی پابندی اور معاملات کی بہتری کی جانب توجہ دینے لگے تھے۔ اللہ تعالی ان کی عبادات کو قبول کرے ۔

 

    جن کے والدین ابھی باحیات ہیں انھیں خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ باب بہت بڑی نعمت ہے۔ دنیا کی کوئی دولت اس کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ وہ جنت کا دروازہ ہے۔ اس لیے جب تک ان کی زندگی ہے ان کی خوب خدمت کریں اور خود کو جنت کا مستحق بنائیں۔

    آخر میں اللہ تعالی سے بس یہی دعا ہے کہ رب کریم ان کے گناہوں خطاؤں اور لغزشوں کو معاف فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے۔ پس ماندگان میں بیٹے بیٹیوں سمیت تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔

(محب اللہ قاسمی)

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...