Saturday 15 October 2022

Kitabcha: Quran ki Dawat e Fikr or Amal

 

قرآن کریم کی دعوتِ فکر و عمل

اس میں  کوئی شک نہیں  کہ کلام پاک کی تلاوت اللہ کو بے حد محبوب ہے، اس کا  پڑھنا اور  سننا دونوں  کار ثواب ہے ۔ اس کی ایک ایک آیت پر اجر و ثواب کا وعدہ ہے۔ مگریہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا فہم ، اس میں  غور و تدبر اور اس پر عمل پیرا ہونا نہایت ضروری ہے۔ یہی نزول قرآن کا منشا ہے تب ہی تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارے لیے اللہ طرف سے نازل کردہ قرآن پاک جو ہمارا دستور حیات ہے اس میں ہمارے لیے کیا ہدایات، احکام اور پیغام ہے؟

اس کتابچے میں اسی بات کی وضاحت  کی گئی اور عوام الناس کو قرآن کے مقصدِ نزول ہدی للناس تمام انسانوں کے لیے ہدایت پر لہذا قرآن کے پیغام کو جاننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔

اس کی پی ڈی ایف فائل ارسال کی جا رہی ہے۔ ضرور ملاحظہ فرمائیں۔

https://drive.google.com/file/d/1zTzu-_UNTbhPFMpsNhgtQnjeXZoG2pGb/view?usp=sharing
طالب دعا

محب اللہ قاسمی


Monday 29 August 2022

Ek Azeem Murabbi Dayee Rahnuma

ایک عظیم مربی ، داعی اور رہنما ... مولانا سید جلال الدین عمری

 

جمعہ کا دن تھا دفتر بند تھا کیمپس میں واقع اپنے رہائشی کمرے میں اکیلے پریشان بیٹھا تھا تبھی میرے موبائل کی گھنٹی بجتی ہے. ریسپشین (استقبالیہ ) سے فون تھا۔ فون اٹھایا سلام کے بعد کسی نے کہا کہ محترم امیر جماعت (مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند) بات کریں گے. اتنے میں فون پر مولانا محترم کی آواز آئی. میں نے فوراً سلام کرتے ہوئے کہا :جی محترم فرمائیں. مولانا نے فرمایا: ’’بھئی آپ کے والد صاحب کے انتقال کی خبر ملی. بڑا دکھ ہوا. اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے. اللہ آپ کو صبر عطا کرے آپ بھائی بہنوں میں بڑے ہیں سب کو سنبھالیے.‘‘

یہ واقعہ 25 جنوری 2019 کا ہے.  ان کی ان تعزیتی کلمات سے مجھے جو حوصلہ ملا میں بتا نہیں سکتا۔ مولانا محترم کوئی اور نہیں مولانا سید جلال الدین عمری سابق امیر جماعت تھے۔

اورآج 26؍اگست 2022 بوقت شام برادر انوارالحق بیگ صاحب کا فون آیا:’’ ارے محب اللہ کہاں ہو جلدی الشفا اسپتال چلے آؤ سابق امیر جماعت کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے آکر مل لو.‘‘

(ہفتہ دن پہلے میں مولانا ولی اللہ سعیدی صاحب کے ساتھ مولانا محترم کی اعادت کے لیے الشفا اسپتال  ان سے مل کر آیا تھا۔ اس وقت تو کچھ بہتر لگ رہے تھے مگر بعد پھر آئی سی یو میں منتقل کر دئے گئے) میں پہنچا پتہ چلا ابھی ساڑھے آٹھ بجے شب بتاریخ 26 اگست 2022 مولانا محترم کا انتقال ہوگیا ہے. انا للہ وانا الیہ راجعون.

 

موت تو آخر موت ہے آنی ہے اور آتی رہتی ہے. اس لیے کہ دنیا میں جو بھی آیا ہے اسے ایک دن جانا ہے. نہ یہ دنیا ہمیشہ رہنے والی ہے نا یہاں کی کوئی شئی. کل من علیہا فان جو کچھ یہاں ہے سب کو فنا ہونا ہے کہ یہ دنیا خود فانی ہے.

 

اللہ کا فرمان ہے کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے. بس دیکھنا ہے کہ مہلت عمل لے کر دنیا میں آنے والا انسان اپنے خالق و مالک کی رضا کی خاطر کیا کچھ اپنے نامہ اعمال میں لے کر جاتا ہے.

سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری صاحب جلیل القدر شخصیت، با وقار جید عالم دین، درجنوں کتاب کے مصنف، بے باک خطیب اور عظیم مربی داعی اور رہنما تھے۔ مولانا مرحوم کے خطبے کی وہ بے باک بات جو آج بھی اسی گرج کے ساتھ میرے کانوں میں گونجتی رہتی ہے "ہم کوئی حرف غلط نہیں جسے مٹا دیا جائے"

 

مولانا محترم اسلام کی تفہیم و اشاعت اور اس پر عمل کے سلسلے میں تفردات اختیار کرنے کے بجائے دین کو اس کے اصل ماخذ سے پر عبور کے باعث اجتماع  امت کی بھرپور اتباع کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب جماعت اسلامی کے کیمپس میں واقع مسجد اشاعت اسلام میں ماہ رمضان کے دوران شعبہ تربیت مرکز کی جانب سے ہر اتوار کو دینی سوالات و جوابات کا پروگرام رکھا جاتا تھا جس میں عوام کی جانب سے سوالات ہوتے اورمولانا محترم اس کا جواب دیتے تھے۔بہت سے سوالات میں ایک سوال تراویح کی بیس اور آٹھ رکعات سے متعلق تھا اور مسجد اشاعت اسلام میں 20 رکعات تراویح ہوتی تھی۔ آپ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا :

’’ جنھیں لگتا ہے کہ وہ بیس کے بجائے 8 رکعات پڑھنی ہے تو وہ اس مقام پر جائیں جہاں 8رکعات کا اہتمام ہوتا ہے اور بیس پڑھنے والے بیس 20 والے مقام پر پڑھیں اس پر بضد ہونا کہ آٹھ والی جگہ بیس ہو یا بیس والی جگہ آٹھ یہ بہتر نہیں‘‘۔ مذکورہ واقعہ جو مجھے پہلے سے بھی معلوم ہوتا مگر جب مولانا عبدالسلام اصلاحی سابق معاون شعبہ تربیت مرکز نے اس واقعہ کا تذکرہ کیا تو وہ یاد تازہ ہوگئی۔

 

مولانا محترم مسلم پرسنل بورڈ کے نائب صدر تھے اور اپنی علمی و فکری صلاحیت و صالحیت کی بنا پر نا صرف اپنے حلقہ یعنی جماعت اسلامی ہند میں معروف شخصیت تھے بلکہ دیگر مکاتب فکر میں بھی یکساں طور پر قابل قدر اور علم دوست کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.

 

جلسے و اجتماعات میں  آپ کی تقریر و گفتگو ایک عجیب سی روحانی کیفیت پیدا کردیتی تھی جس سے دل اللہ کی طرف مائل ہو جاتا تھا اور آنکھیں گناہوں کو یاد کرتےہی چھلکنے لگتی تھیں۔ کئی بار مرکزی تربیت گاہ کے اختتامی پروگرام میں جب آپ زاد رہ کے طور پر اظہار خیال کرتے اور دعا فرماتے توشرکاکے ساتھ میری بھی آنکھیں نم ہوئیں اور دل میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی۔ تحریکی کارکنان سے گفتگو کرتے ہوئے بطور نصیحت انھیں ذاتی تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی تلقین فرماتے اور انھیں  احساس دلاتے کہ دفتر اور کام کاج کے بعد جو وقت آپ کو ملتا ہے اسے ضائع اور لغو کام میں برباد کرنے کے بجائے اسے مطالعہ کتب اور اپنی تربیت پر لگانا چاہیے۔

 

یہ بات درست ہے آپ کے وضع قطع اور نورانی چہرے کو دیکھ کر خدا یاد آتا تھا۔ آپ یقیناً اس دار فانی سے رخصت ہو کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ہیں مگر کتابوں کی شکل میں آپ نے جو علمی ذخیرہ چھوڑا ہے، خطبات کی شکل میں اسلامی موقف کی تائید و وضاحت کی ہے اور اپنے خدمت دین کے جذبوں سے امت کو جو پیغام دیا ہے لوگ ان سے مستفید ہوں گے جو ان شاءاللہ تعالیٰ آپ کے لیے صدقہ جاریہ اور ذخیرہ آخرت ثابت ہوگا.

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے مولانا محترم کی مغفرت، آپ کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور لواحقین صبر جمیل عطا کرے آمین.

محب اللہ قاسمی

معاون شعبہ تربیت مرکز جماعت اسلامی ہند

 

  

Sunday 21 August 2022

Achchi kitab Achcha Sathi

 

اچھی کتاب، ایسا اچھا ساتھی ہے جو زندگی بدل دے

محب اللہ قاسمی

 انسان جب شخصیات کو پڑھتا ہے تو انھیں اپنی زندگی میں محسوس کرتا ہے۔ اس وقت اسے یہی خیال گھیرے رہتا ہے کہ میں بھی ان کے جیسا بنوں، خاص طور پر جب ایسی کوئی  کتاب بچپن میں پڑھی جائے۔ہم سب اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں کہ اچھی کتاب ایک بہترین ساتھی  موثر مربی ہے جو ہماری مناسب خطوط پر رہنمائی کرتی ہے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور سنوارنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ایسی ہی کتابوں میں سے ایک کتاب جو میرے سامنے آئی وہ اعلی شخصیات پر بڑےخوب صورت اور دل چسپ انداز کی پہلی کتاب تھی۔  اسےعربی زبان میں پڑھنے کا اللہ تعالی نے مجھے شرف بخشا ۔ داخل نصاب ہونے کے سبب میں اسے سبقاسبقا پڑھ رہا تھا۔

 

صحابی کون ہوتے ہیں ؟ یہ جانتا تو تھا، پھر یہ بھی معلوم تھا کہ صحابہ ؓدنیا کی بڑی نیک شخصیات اور بڑے  اچھے انسان تھے۔مگر ان کی زندگیاں کیسی تھیں ؟ آخر کیسے انھیں رضوان اللہ علیہم اجمعین کا الٰہی خطاب ملا؟ ان سب چیزوں سے نا واقف تھا۔ پہلے دن کا پہلاسبق ہی اتنا دل چسپ لگا اور اس قدر مؤثر تھا کہ پورا دن سوچنتا ہی رہ گیا؟

 

عنوان تھا

’’ سعید بن عامرجمحیؓ‘‘ 

ان ہزاروں انسانوں میں سے ایک نوجوان سعید بن عامرجمحی ؓ بھی تھا جو سرداران قریش کی دعوت پر مکہ سے باہر مقام تنعیم پر صحابی رسولﷺ حضرت خبیب بن عدی ؓ کے قتل کا تماماشا دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ جیسے روساء قریش کے پہلو بہ پہلو جا کھڑا تھا۔ زبردست ہجوم میں سعید بن عامر خبیب کو دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ خبیب کہہ رہا ہے "اگر تم لوگ چاہو تو قتل سے پہلے مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کا موقع دے دو" پھر سعید نے دیکھا کہ خبیب بن عدی نے قبلہ رو ہوکر دو رکعتیں پڑھیں۔ اور خبیب نے زعماء قریش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "واللہ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم میرے متعلق اس بدگمانی میں مبتلا ہوجاؤ گے کہ میں موت سے ڈر کر نماز کو طول دے رہا ہوں تو میں اور لمبی اور اطمینان کے ساتھ نماز پڑھتا"

 

آج کا سبق یہی ختم ہو گیا۔

 

اب میں پورے دن اسی خیال میں گم  رہا کہ آخر کیا ہوا ہوگا حضرت خبیبؓ کے ساتھ۔ کہیں واقعی ان ظالموں نے انھیں شہید کر دیا ہوگا، یا کوئی ایسی ترکیب ہوئی ہوگی جس سے وہ بچ گئے ہوں گے؟ خیر رات میں کچھ حصہ خود سے مطالعہ کرنے لگا۔ کیوں کہ آئندہ کا سبق پہلے سے ہی مطالعہ کر کے جانا اس کلاس کے استاذ محترم کی خاص ہدایت تھی۔ٹوٹے پھوٹے انداز میں جو کچھ پڑھا تو پتہ چلا:

 

سعید نے بہ چشم سر اپنی قوم کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ زندہ ہی خبیب کا مثلہ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتے جاتے ہیں۔

“کیا تم یہ بات پسند کرو گے کہ اس وقت محمد(ﷺ )تمہاری جگہ یہاں ہوتے اور تم اس تکلیف سے نجات پاجاتے”

 

خبیب نے جواب دیا(اور اس وقت ان کے جسم سے بے تحاشا خون بہ رہا تھا)’’ واللہ مجھے تو اتنا بھی گوارا نہیں کہ میں امن و اطمینان کے ساتھ اپنے اہل و عیال میں رہوں اور اللہ کے رسولﷺ کے پاؤں کے تلوے میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے”

 

یہ سنتے ہی لوگوں نے اپنے ہاتھوں کو فضا میں بلند کرتے ہوئے چیخنا شروع کر دیا۔ مارڈالو اسے، قتل کرڈالو اسے۔ پھر سعید بن عامر کی آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ خبیب نے تختہ دار ہی سے اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا: اَللّٰھُمّ احصَہم عَدداً وَاقتُلھُم بَددا وَلا تُغَادر مِنھُم اَحَدا "خدایا! انہیں ایک ایک کر کے گن لے،انہیں منتشر کرکے ہلاک کر اور ان میں سے کسی کو نہ چھوڑ" پھر انہوں نے آخری سانس لی اور روح پاک اپنے رب کے حضور پہنچ گئی۔ اس وقت ان کے جسم پر تلواروں اور نیزوں کے ان گنت زخم تھے۔

 

نوجوان سعید بن عامر جمحی، خبیب کی مظلومیت اور ان کے دردناک قتل کے اس دل خراش منظر کو اپنے لوح ذہن سے اک لمحہ کے لیے محو نہ کرسکا۔ وہ سوتاتوخواب میں ان کو دیکھتا اور عالم بیداری میں اپنے خیالات مین ان کو موجود پاتا۔ یہ منظر ہر وقت اس کی نگاہوں کے سامنے رہتا کہ خبیب تختہ دار کے سامنے بڑے سکون واطمینان کے ساتھ کھڑے دورکعتیں ادا کر رہے ہیں۔ اوراس کے پردہ سماعت سے ہروقت ان کی وہ درد بھری آواز ٹکراتی رہتی جب وہ قریش کے لیے بد دعا کر رہے تھے اور اس کو ہروقت اس بات کا ڈر لگا رہتا کہ کہیں آسمان سے کوئی بجلی یا کوئی چٹان گر کر اسے ہلاک نہ کر دے۔ پھر خبیب نے سعید کو وہ باتیں بتا دیں جو پہلے سے اس کے علم میں نہ تھیں۔ خبیب نے اسے بتایا کہ حقیقی زندگی یہی ہے کہ آدمی ہمیشہ سچے عقیدے کے ساتھ چمٹا رہے اور زندگی کی آخری سانس تک خدا کی راہ میں جدوجہد کرتا رہے۔ خبیب نے سعید کو یہ بھی بتادیا کہ ایمان راسخ کیسے کیسے حیرت انگیز کارنامے انجام دیتا ہے اور اس سے کتنے مخیر العقول افعال ظہور پزیر ہوتے ہیں۔

 

خبیب نے سعید کو ایک اور بڑی اہم حقیقت سے آگاہ کیا کہ وہ شخص جس کے ساتھی اس سے اس طرح ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں، واقعی برحق رسول اور سچا نبی ہے اور اسے آسمانی مدد حاصل ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سعید بن عامر کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیا۔ وہ قریش کی ایک مجلس میں پہنچا اور وہاں کھڑے ہوکر اس نے قریش اور ان کے کالے کرتوتوں سے اپنی لاتعلقی و نفرت اور ان کے معبودان باطل سے اپنی بیزاری و برات اور اپنے دخول اسلام کا برملا اور کھلم کھلا اعلان کر دیا۔

 

 اس کے بعد سعید بن عامر ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے اور مستقل طور پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت اختیار کرلی۔ غزوہ ٔخیبر اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمرکاب رہے اور جب نبی اکرم ﷺ اپنے رب کے جوار رحمت میں منتقل ہو گئے تو سعید بن عامر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دونوں خلفاء ابوبکر صدیق اور عمر کے ہاتھوں میں شمشیر برہنہ بن گئے اور انہوں نے اپنی تمام جسمانی اور نفسانی خواہشات کو خدائے تعالیٰ کی مرضیات کے تابع کر کے اپنی زندگی کواس مومن صادق کی زندگی کا نادر اور بے مثال نمونہ بنا کر پیش کیاجس نے دنیوی عیش و عشرت کے عوض آخرت کی ابدی و لافانی کامیابی اورفائز المرامی کو سودا کر لیا ہو۔

 

ایک بار وہ  حضرت عمر فاروق ؓکے دور خلافت کے ابتدائی ایام میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نصیحت کرتے ہوئے ان سے کہا:

 

“عمر! میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ رعایا کے بارے میں ہمیشہ خدائے تعالٰیٰ سے ڈرتے رہیے اور خدا کے معاملے میں لوگوں کا کوئی خوف نہ کیجئے اور آپ کے اندر قول و عمل کا تضاد نہ پایا جا ئے۔ بہترین قول وہی ہے جس کی تصدیق عمل سے ہوتی ہو‘‘

 

 انہوں نے سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا:

 

’’ عمرؓ! دور و نزدیک کے ان تمام مسلمانوں پر ہمیشہ اپنی توجہ مرکوز رکھیے جن کی ذمہ داری اللہ تعالٰیٰ نے آپ پر ڈالی ہے اور ان کے لیے وہی باتیں پسند کیجئے جو آپ خود اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے پسند کرتے ہیں اور حق کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرے کی بھی پروا نہ کیجئے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کو خاطر میں نہ لائیں‘‘

 

 سعیدؓ! یہ سب کس کے بس کی بات ہے؟ حضرت عمرؓ نے ان کی یہ باتیں سن کرکہا۔

 

یہ آپ جیسے شخص کے بس کی بات ہے جس کو اللہ تعالٰیٰ نے امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ دار بنایا ہے، جس کے اور خدا کے درمیان میں کوئی دوسرا حائل نہیں ہے" سعید نے کہا۔ اس گفتگو کے بعد خلیفہ نے سعید بن عامر سے حکومت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں تعاون کی خواہش ظاہر کی اور فرمایا: سعید میں تم کو حمص کا گورنر بنا رہا ہوں۔ ‘‘

 

عمرؓ ! میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے آزمائش میں نہ ڈالیے" سعید نے جواباً عرض کیا۔

 

 ان کا یہ جواب سن کر حضرت عمرؓنے قدرے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: "خدا تمہارا بھلا کرے ۔تم لوگ حکومت کی بھاری ذمہ داریاں میرے سر ڈال کر خود اس سے کنارہ کش ہوجانا چاہتے ہو، اللہ کی قسم میں تم کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا‘‘

پھر حضرت عمرؓ نے حمص کی گورنری ان کے سپردکیا۔

 

ایک مرتبہ حضرت عمر ؓنے ان کے لیے ایک ہزار دینار بھیجے، تاکہ ان سے وہ اپنی ضروریات پوری کریں۔ جب ان کی اہلیہ نے ان دیناروں کو دیکھا تو بولیں کہ اللہ  کا شکرہے کہ اس نے ہم کو آپ کی خدمت کرنے سے بے نیاز کر دیا۔ آپ اس رقم سے ہمارے لیے ایک غلام اور ایک خادمہ خرید دیں۔ یہ سن کر سعید نے کہا :

 

’’ کیا تم کو اس سے بہتر چیز کی خواہش نہیں؟ ‘‘اس سے بہتر؟ اس سے بہتر کیا چیز ہے؟اہلیہ نے پوچھا۔

 

’’یہ رقم ہم اس کے پاس جمع کر دیں جو اسے ہم کواس وقت واپس کر دے جب ہم اس کے زیادہ ضرورت مند ہوں۔‘‘ سعید نے بات سمجھائی۔ اس کی کیا صورت ہوگی؟اہلیہ نے وضاحت چاہی۔

 

سعید نے کہا :’’ ہم یہ رقم اللہ تعالٰیٰ کو قرض حسنہ دے دیں‘‘ اہلیہ نے کہا: ’’ہاں، یہ بہتر ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیردے‘‘

پھر سعید نے اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے ان تمام دیناروں کو بہت سی تھیلیوں میں رکھ کر اپنے گھر کے ایک آدمی سے کہا :

’’انہیں فلاں قبیلے، فلاں قبیلے کے یتیموں، فلاں قبیلے کے مسکینوں اور فلاں قبیلے کے حاجتمندوں میں تقسیم کردو‘‘

 

 اللہ تعالیٰ سعید بن عامر جمحی سے راضی ہو۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خودمحتاج اور ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔

 

اس سال میں مدرسہ جامع العلوم مظفرپورمیں عربی اول کا طالب علم تھا اور جس کتاب سے  صحابی رسول ؓ کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ ڈاکٹر عبدالرحمن پاشا کی کتاب ’’صورمن حیاۃ الصحابہ‘‘ ہے ۔ اس کتاب کی کئی جلدیں ہم لوگوں نے الگ الگ کلاس میں پڑھیں۔ اس وقت دل میں خیال آتا تھا کہ کاش کوئی اس کا خوب صورت ا ردو ترجمہ کر دیتا تو یہ عام مسلمانوں کے لیے، جو عربی نہیں جانتے، کس قدر مفید ہوتا ۔اور اس طرح میں پھر جب میں دارالعلوم دیوبند آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کاشاندار ترجمہ ’’زندگیاں صحابہؓ کی‘‘ کے نام سے 1994میں ہی شائع ہو چکا ہے۔ یہ ترجمہ ابوجاوید اقبال قاسمی صاحب نے کیا ہے ۔ اس مضمون میں اس سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی مصنف اور مترجم دونوں کو جزائے خیر عطا کرے اور قارئین کو کتاب سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے،اس عکس صحابہ ؓکوسامنے رکھ کر اپنی زندگی بنانے اور سنوارنے کی توفیق بخشے۔ آمین

***

Tuesday 26 July 2022

Fatma Chak Whatsapp Group Sathiyon ke nam

 

باسمہ تعالی

فاطمہ چک شیوہر بہار واٹس ایپ گروپ ساتھیوں کے نام

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

امید ہے کہ آپ حضرات بہ خیر ہوں گے۔

یہ گروپ گرچہ گاؤں کے لوگوں کو ایک ساتھ جوڑے رکھنے اور ایک دوسرے کے حال و احوال جاننے کے لیے اور جو دو دراز رہتے ہیں ان کے حالات معلوم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ جس میں روزانہ کچھ نہ کچھ گاؤں کے احوال، شادی بیاہ کے سلسلے میں انتظامات سے متعلق معلومات۔ کہیں ولادت تو کہیں مرنے کی خبر، کبھی علاج و معالجے اور پریشان حال لوگوں کے لیے تعاون کی شکل پر غور و خوِِض تو کبھی مسجد، عید گاہ اور امام صاحب سے متعلق پیغامات موصول ہوتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ گاؤں ہزاروں کلو میٹر دور لوگ سب ایک جگہ جمع ہیں اور آپس میں جڑے ہوئے ہیں جو کہ بڑی اچھی بات ہے اور اس راہ میں کوشش کرنے والے جزائے خیر کے مستحق ہیں اللہ انھیں جزائے خیر عطا کرے۔ آمین

 

مجھے لگتا ہے کوئی بھی کام کو اچھا کرنے کے لیے جب کہ وہ ٹیم ورک ہو اسے منظم کرنا ضروری ہے۔

ساتھ ہی ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہم اپنی دینی معلومات میں کس طرح اضافہ کریں۔ اپنے دین کو کیسے سیکھیں۔ ہمارے ہر معاملے میں دین شامل ہے تو اپنے معاملات کو دیکھیں اور اس میں ہمارا دین کیا کہتا ہے اس پر بھی توجہ دیں۔ یہ عمل بہت ضروری ہے۔ ہم اپنے معاملات کو درست رکھیں کہ اس نئی نسل کے لیے ہم کیسے آئیڈیل بنیں کیوں کہ بچے اپنے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں ہم اچھے ہوں گے تو ہماری نسل اور گاؤں کا مستقبل اچھا ہوگا۔

مجھے لگتا ہے کہ اپنے گاؤں کہ اہل ثروت اور پیسے والے لوگ ان نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیں جو تعلیم کے تئیں لگن اور دلچسپی رکھتے ہیں مگرمالی حالت کی کمزوری کے باعث وہ آگے پڑھ نہیں پاتے یا ان کے پاس کوچنگ کی فیس بھرنے کی سکت نہیں ہوتی۔

 

اسی طرح دانش ور حضرات بچوں کی کاؤنسلنگ کے بارے میں سوچیں اور ان سے معلوم کریں کہ وہ آگے کیا کرنا چاہتے ہیں اور ان کے لیے مناسب مشورہ دیں کہ وہ کس میدان جائیں تو بہتر ہوگا۔ یاد رکھیے آج جو صاحب ثروت ہیں کوئی ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ مال دار ہی رہیں گے یا جو آج غریب ہیں یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ غریب ہی رہیں گے یا جو اہل دانش ہیں وہ ہمیشہ باقی رہیں گے مگر ہماری ایک کوشش جس سے کسی دنیا و آخرت بن سکتی ہے تو اس جانب ضرور توجہ دینی چاہیے ہم رہیں نا رہیں ہماری نسل آگے بہتری کی طرف گامزن ہو اور نیک رستے پر چلے جس سے وہ دونوں جہاں میں کامیاب ہو یہی ہمارا سرمایہ ہوگا۔

 

کوشش کی جائے کہ منفی سوچ اور منفی خیالات و جذبات کو دل سے نکالیں بلکہ لوگوں میں کمیاں خامیاں تلاش کرنے کے بجائے ان کمیوں کو ہم کیسے دور کر سکتے ہیں اس پر توجہ دیں۔

 

دوسری بات سیکھنے کا عمل تو ایسا ہے جو تا عمر جاری رہتا ہے اس لیے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب ہم سیکھے سکھائے ہیں یا تربیت یافتہ ہیں ہمیں سیکھنے اور تربیت کی ضرورت نہیں۔ یہ عمل تو ماں کی گود سے قبر کی گود تک جاری رہتا ہے۔ لہذا ہمیں سیکھنا چاہیے۔

اسی غرض سے کبھی کبھی میں اسلامی کوئز جو بڑی محنت سے تیار کرتا ہوں اس کا لنک ڈال دیتا ہوں کہ جہاں ملک و بیرون ملک کے لوگ اس سے استفادہ کرتے ہیں وہیں ہمارے گاؤں کے لوگ بھی اس میں شامل ہوں اور اپنی معلومات میں اضافہ کریں یا اسے دہرا لیں۔

 

اسی طرح ہم پر جن کے حقوق عائد ہیں ان کی ادائیگی کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ اس پر غور کریں۔ مثلا والدین کے حقوق پڑوسیوں کے حقوق اعزا و اقربا کے حقوق اور اور واجبات کو کیسے پورا کریں اس پر بھی توجہ دیں۔

یقین جانیے تبھی ہم اپنے لیے بھی مفید بن سکیں گے اور اپنے اہل خانہ سمیت پورے گاؤں اور علاقہ کے لیے کار آمد ثابت ہوں گے اور ہمارا معاشرہ پر امن اور خوش حال ہوگا۔

اللہ تعالی ہم سب کو حسن عمل کی توفیق بخشے۔

طالب دعا آپ کا بھائی

محب اللہ قاسمی،فاطمہ چک شیوہر بہار

Tuesday 19 July 2022

Fatma Chak ek aisa gawon bhi!

فاطمہ چک - ایک گاؤں ایسا بھی!

میری دلی خواہش تھی کہ گاؤں میں ایک ایسی درس گاہ (اسکول) جس میں دینی و عصری تعلیم دی جاتی ہو اس کا قیام ہو۔ اسی طرح لڑکیوں کے لیے ایک اچھا ادارہ قائم کیا جائے جہاں نہ صرف گاؤں کی لڑکیاں بلکہ دور دراز لڑکیاں بھی دینی و عصری تعلیم سے آراستہ ہو کر قوم و ملت اور بہترین سماج میں معاونہ ہو۔

غریب بچوں کے لیے حسب سہولت اسکالر شپ کا نظم اورلڑکیوں/عورتوں کے لیے ایک سلائی سنٹر جہاں سے انھیں نہ صرف سلائی سیکھنے کا موقع ملے بلکہ دینی ماحول میں دین کی بات سیکھنے کا بھی موقع ہو اور ان غریب بچیوں کو جو وہاں سے سلائی سیکھ لیں انھیں ان کی شادی کے موقع پر تحفۃ سلائی مشین دی جائےاور لڑکوں کو ہائرایجویشن کے لیے ان کی بھرپور رہنمائی اورمدد کی جائے۔

معمولی علاج و معالجہ کے لیے چھوٹا سا عام چیریٹیبل کلینک کا قیام ہو جہاں سے غریبوں اور ضروت مندوں کے لیے معمولی علاج ومعالجہ کی سہولت ہو۔ جس کے ذریعہ خدمت خلق اور دعوت دین کا کام بھی آسانی سے ہوسکتا ہے۔ 

قدرتی آفات سے متاثر لوگوں کے لیے فوری راحت رسانی کا کام انجام دیا جائے اس کے لیے ایک نظم قائم ہو تاکہ مصیبت زدگان کے لیے فوری اور بہتر انداز میں ان کی راحت رسانی کی خدمت ہو سکے کیوں کہ اسلام نے خدمت خلق کا وسیع تصور دیا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہے۔

ان مقاصد کے حصول کے لیے اہل خیر حضرات سے رجوع کیا جائے، جن کی جتنی پہنچ اور سکت ہے وہ ان کاموں میں حصہ لیں۔ فارغین مدارس اور فارغات کا تعاون لیا جائے اور گاؤں کے دوسرے عصری علوم کے ماہرین سے ان کی خدمات حاصل کی جائے، سب کی کوششیں ہوں گی تو ہمارا گاؤں واقعی مثالی گاؤں ہوگا تعلیمی میدان میں ضلعی سطح پر فوقیت رکھنے والا یہ گاؤں اپنے وقار کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے معیار کو مزید بلند کرنے میں بھی کامیاب ہوگا اور بہت سے خرافات سے محفوظ بھی رہے گا۔ 

یہ میری خواہش اور اس کام کو کر گزرنے کا جذبہ ہے فی الحال ایک خواب ہے، اللہ جانے میرا یہ خواب کب شرمندۂ تعبیر ہوگا۔ مجھے لگتا ہے کہیں میں نے کچھ زیادہ ہی خواب دیکھ لیا ہے پر یہ بھی حقیقت ہے کہ خواب دیکھنے والے ہی اس کی تعبیر تلاش کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے ہمارے گاؤں کے سارے لوگ ایسا سوچتے ہوں گے بلکہ اس سے بہتر پلان رکھتے ہوں گے اور ہم باہم ایک دوسرے کے تعاون سے ہی بڑے اہداف کو حاصل کرنےمیں کامیاب ہو سکیں گے۔ میں نے بہت  کچھ اپنے والد صاحب کو ایسا کرتے دیکھا، سنا اور ان سے سیکھا ہے جو اپنی بہت سی  بشری کمزوری و کوتاہیوں کے باوجود خدمت خلق میں نمایاں کردار ادا کر چکے ہیں۔ اللہ تعالی انھیں غریق رحمت کرے اور جنت میں اعلی مقام بخشے۔

اللہ تعالی سے امید رکھتا ہوں اور حتی الامکان کوشش کرتا ہوں اور توقع ہے کہ گاؤں والے بھی اس کار خیر میں ایک دوسرے کے معاون ہوں گے۔ اللہ تعالی بہترین کارساز ہے۔ حسبنا اللہ و نعم الوکیل ...نعم المولیٰ و نعم النصیر!
محب اللہ قاسمی

Islami Quiz me Hissa Len



اسلامی کوئز

الحمدللہ تعالی اسلامی معلومات کے کوئز کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ جسے بہت ہی خوب صورت انداز میں تیار کیا گیا ہے جو انتہائی مفید اور دلچسپ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ خود اور بچوں کو دینی معلومات سے جوڑے رکھیں اور ان میں یہ جذبہ پیدا کریں تو اپنی دینی معلومات میں اضافہ اور اس کی یاد دہانی کے لیے ہمارے اس کوئز کا ضرور حصہ بنیں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے بیشتر میں آپ نے حصہ لے لیا ہوگا اگر کوئی رہ گیا ہے جہاں تک آپ کی رسائی نہ ہو سکی ہو تو اسے تمام کوئز کے لنک کو یہاں یکجا کر دیا گیا ہے۔ آپ اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق اس کے سہارے کوئز کا حصہ بن سکتےہیں۔ جزاکم اللہ خیرا

محب اللہ قاسمی

معاون شعبہ تربیت

رابطہ کا نمبر: 9311523016

ای میل: 

mohibbullah.qasmi@gmail.com



Quiz No. 1

عربی زبان کوئز

تربیت کے تقاضوں میں سے ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو بھی پروان چڑھائے اسی بات کے پیش نظر گزشتہ ویڈیو میں یہ بات بتائی گئی تھی کہ انسان کے اندر مختلف صلاحیتیں ہوتی ہیں ذرا سی توجہ دے اور اسے بہتر کرنے کی فکر کرے تو وہ اسے بہتر انداز میں کر سکتاہے۔ اسی میں زبان سیکھنے کی بات بھی تھی۔ اس لحاظ سے نئی زبان کا سیکھنا ضروری ہے ان زبانوں میں خاص طور پر عربی زبان کہ یہ قرآن و حدیث اور اسلامی ماخذ کی زبان ہے۔ جس کی اہمیت کے پیش نظر حضرت عمرؓ کا فرمان ہے:
عربی زبان سیکھو کیوں کہ اس سے آداب نفسانیہ میں
اضافہ ہوتا ہے۔ عربی زبان سیکھو کیوں کہ
یہ دین سے ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان،ایضاح الوقف و الابتدا)
اس کے لیے یہ ویڈیو مفید ثابت ہوگی۔ آپ ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
نوٹ: عربی سوالات کے گوگل فارم کے لیے درج ذیل لنک کو کلک کریں۔

اسے کلک کر تے ہی فارم کھلے گا جس میں ای میل اور نام درج کریں پھر تمام 25 سوالات حل کرنے کے بعد سب مٹ کریں تو اس میں کچھ لکنے کو کہا جائے گا چار پانچ ڈیزٹ نمبر ڈال کر سب میٹ کریں پھر ویواسکور سے اپنا اسکور چیک کر لیں۔ اگر کچھ غلط جواب دیا گیا ہوگا تو وہ بھی دکھے گا۔

Quiz No. 2

سیرت رسولﷺ کوئز

ہم سب جانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی عمر 63 سال کی تھی اور بہ حیثیت نبی آپ نے 23 سال زندگی گزاری اسی وجہ سے 23 سوالات پر مبنی سیرت رسول کوئزتیار کیا گیا ہے۔ درج ذیل لنک کے سہارا آپ بھی اس کوئز کا حصہ بن سکتےہیں۔

https://forms.gle/oJ5JWdCgC1Qxfmw29


Quiz No. 3

رمضان المبارک کوئز

اس کوئز کے ذریعہ طلبہ اور عام لوگوں تک  دلچسپ انداز میں معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔  

اس کوئز میں ہر سوال کے درست جواب پر 3 نمبر ملیں گے۔ سوائے 1 سول کے اس پر صرف ایک نمبر ملے گا. یہ کوئز 8 سے  12 کلاس کے طلبہ و طالبات کے لیے ہے۔ دیگر حضرات بھی اپنی معلومات کے مطابق اس کا حصہ بن سکتے ہیں۔ 

اس کوئز میں حصہ لینے کے لیے درج ذیل لنک کا سہارا لیں اور دعاؤں میں اس خاکسار کو یاد رکھیں۔ 

محب اللہ قاسمی

https://forms.gle/anQE6FecbUKmP4SPA


Quiz No. 4

 رمضان المبارک کوئز 2

الحمدللہ رمضان کوئز 1 کے کامیاب انعقاد کے بعد اب رمضان المبارک کوئز 2

کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ درج ذیل لنک کے سہارے آپ بھی اس کا حصہ بن سکتے ہیں۔ 

https://forms.gle/5N6Tdb47C1CpYeuK8


Quiz No. 5

قربانی - سیرت ابراہیمؑ کوئز

اس کوئز کے ذریعہ ہم سیرت ابراہیمؑ کے کچھ ان اہم پہلؤوں کو جنھیں ہم نہیں جانتے جانیں گے اور جانتے ہیں تو اپنی یاد داشت کو چیک کریں گے۔ اس لیے کہ ماہ ذی الحجہ میں عید قرباں اور حج کی ادائیگی ہماری ان یادوں کو تازہ کرتا ہے جو حضرت ابراہیمؑ سے منسلک ہے۔

کوئز کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں اور شروع ہو جائیں۔

https://forms.gle/vSR4iYVaSiQmu5fq5


Sunday 17 July 2022

QURBANI Sirat e Ibrahim Quiz (Report)

 




امت مسلمہ کو حضرت ابراہیمؑ کی سیرت اور ان کے مشن سے واقف کراتے ہوئے قربانی کا مقصد بتایا جائے: محب اللہ قاسمی

قربانی -سیرت ابراہیم کوئز کا کامیاب تجربہ

طویل عرصے سے میں سوچ رہا تھا کہ  ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ماہ ذی الحجہ میں  لوگ قربانی کے مسائل سنتے ہیں اسے جاننے کی کوشش کرتےہیں۔ اسی طرح عیدالاضحی پر لوگ خطیب حضرات سے حضرت ابراہیم ؑ پر تقریریں سماعت کرتے ہیں ۔مگر ان نوجوانوں میں اتنی دلچسپی نہیں رہتی یا پھر سنی ان سنی کر جاتے ہیں کیوں نہ انھیں جوڑے رکھا جائے اور دلچسپ انداز میں ان کے درمیان قربانی کے ہلکے پھلکے مسائل بھی بتا دیے جائیں اور سیرت ابراہیمؑ اور ان کے مشن سے واقف بھی کرا دیا جائے۔ اس طرح وہ  تمام حضرات بھی اپناجائزہ لے لیں جو ان واقعات کو جانتے  ہیں مگر کچھ چیزیں ذہن سے محو  بھی ہوجاتی ہیں ، ان میں خاص طور پر ہماری مائیں اور بہنیں بھی شامل ہیں جو اپنی دیگر ضروری مصروفیات کے سبب اس جانب متوجہ نہیں ہو پاتیں!

لہذا اسی مقصد کے تحت اس ماہ ذی الحجہ کی مناسبت سے 5 جولائی کو قربانی -سیرت ابراہیم کوئز جو گوگل فارم پہ تیار کیا گیا اور اس کا لنک سوشل میڈیا کے ذریعہ ان تمام حضرات تک پہنچانے کی کوشش کی گئی جو سیرت ابراہیم سے واقفیت اور قربانی کے مقصد اور اس کی اہمیت کو جاننا چاہتے تھے۔

الحمدللہ ہمارے دوست و احباب کی محنت اور شرکاء کی دلچسپی کے باعث ملک اور بیرون ملک سے 1000سے زائد لوگوں نے اس میں حصہ لیا، جن میں سب سے بڑی تعداد 383 مہاراشٹرا کی تھی ۔پھر تلنگانہ 109اور کرناٹک 106 کی رہی ۔یہ بتانا بہت اہم ہوگا کہ اس میں نصف سے زائدتعداد خواتین کی تھی ۔اس کوئز کے حل کے لیے  زیادہ سے زیادہ 15 منٹ کا وقت درکار تھا۔سوالات ایسے تیار کیے گئے تھے کہ کوئی شخص اسے مکمل کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ ان سوالات کے اختتام  پر برائے تبصرہ ایک کمنٹ باکس بھی رکھا گیا تھاجس میں شرکاء کے تاثرات اور وہ اس سے قبل راقم کے 4 کوئز میں سے کسی اور میں حصہ لیا تھا یا نہیں؟ یہ پوچھا گیا تھا۔ اس کے جواب میں  جو کمیٹ اور تبصرے آئے ہیں ان سے مزید حوصلہ ملا اور خوشی ہوئی کہ اللہ کی رضا کے لیے جو کام کیاگیا ہے۔ الحمدللہ تعالی اس میں کامیابی ملی کہ لوگوں تک پیغام ابراہیمؑ کو پہنچا سکا جس کے ذریعہ لوگوں میں سیرت ابراہیم ؑکو جاننے ،سمجھنے کا شوق اور ولولہ پیدا ہوا۔

34 سوالات پر مبنی اس کوئز کے بہت سے دلچسپ سوالات میں سے دو سوالات بطور نمونہ پیش ہے:

آج کل کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ قربانی میں جانور ذبح کرنے کے بجائے اس کی جگہ کیک کاٹنا یا اس رقم کو غریبوں میں خرچ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ شرعی طور پر کیا بہتر ہے؟

1 رقم غریبوں میں خرچ کرنا            2 قربانی کرنا    3 کیک کاٹنا

دوسرا سوال تھا کہ حضرت اسماعیلؑ کے سلسلہ نسب سے ایک ہی نبی مبعوث ہوئے ان کا نام کیا ہے؟

حضرت محمد ﷺ              حضرت عیسیؑ           حضرت یحیؑ

الغرض 100 نمبرات کے اس کوئز میں 76حضرات نے 100 میں 100 نمبر لے کر اول پوزیشن حاصل کی۔ جب کہ81حضرات نے100 میں 97نمبر لے کر دوسری پوزیشن پر قبضہ جمایا اور 2حضرات نے 100 میں 96 نمبر لے کر تیسری حاصل کی چوں کہ 120 حضرات نے 100 میں 94 نمبرات حاصل کر اپنی چوتھی پوزیشن بنائی۔ یہ بتانا اہم ہوگا کہ394 حضرات نے 90 سے زائد نمبرات حاصل کیے ہیں۔ اس لیے یہ بھی قابل ذکر ہیں ۔ان سب کو بہت بہت کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ساتھ ہی انھیں بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں جنھوں نے کوشش کی اگرچہ ان کے نمبر کم آئے۔

میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ امت مسلمہ کو پیغام ابراہیم سمجھتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے ساتھ ہی میری کوئی کمی یا کوتا ہی ہو گئی ہو تو اسے معاف فرمائیں اور میری اس کوشش کو شرف قبولیت بخشے آمین۔ 

نوٹ: یہ اس کوئز کا لنک تھا https://forms.gle/vSR4iYVaSiQmu5fq5

جسے اب بھی اوپن رکھا گیا ہے تاکہ اب بھی کوئی حصہ لینا چاہے تو لے سکتا ہے مگر ہمارے رکارڈ میں شمار نہیں ہوگا-

                        محب اللہ قاسمی

 

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...