Wednesday 28 October 2020

#we_love_mohammad_ﷺ_challenge

 

نبی کے درسِ الفت کو جہاں میں عام کر دیں گے

جہاں میں عام ہر سو مذہبِ اسلام کر دیں گے


تری  خواہش مٹا دے تو محمد نام دنیا سے

ہمارا تجھ سےوعدہ ہے تجھے ناکام کردیں گے

محب اللہ رفیق قاسمی

 





Saturday 24 October 2020

Bihar Election 2020 Aise ko kaise


ایسے کو جنتا کیسے ووٹ دے جو اس کے کام نہ آئے؟


    کسان بل آتے ہی بی جے پی الائنس کے ساتھ رہنے والی منسٹر خاتون نے بی جے پی کے منہ پر استعفی مار دیا، مگر  سی اے اے کے خلاف پروٹیسٹ ہوتا رہا اور مسلم ودھایک خاموش نتیش جی کی گود میں جھولتے رہے۔ اردو اسپیشل ٹیٹ کا معاملہ پھنسا رہا؟ بی ٹیٹ کی بحالی نہیں ہوئی؟ بے روزگاری بڑھتی رہی، لاک ڈاؤن میں بے حال و پریشان مزدور در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے؟ ہماری نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے ودھایک سارے خاموش رہے گویا نہ بولنے کی قسم کھا رکھی ہو، ارے بھائی آپ اقتدار میں تھے۔  آواز اٹھاتے بولتے کچھ تو کرتے کراتے بس چپی سادھ لی۔ پھر کاہے کے ودھایک، کیسی نمائندگی کیسے نیتا؟ ایسے میں کیسے دل چاہے گا کہ ایسو کو ووٹ دیا جائے.

 

ودھایک جی کو یاد ہوگا کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد نے انھیں ایک مشت ووڈ دیا تھا اور جب جب جیتنے والے مسلم امیدواروں کی فہرست شائع کی جاتی ہے تو بلا تفریق پارٹی سارے جیتنے والے مسلم ودھایکوں کا ایک ساتھ نام شامل ہوتا ہے. کیوں کہ یہ لوگ جیتتے ہیں ہماری نمائندگی کے لیے، تاکہ ہماری آواز بن سکیں مگر کرتے ہیں ہمارے خلاف بھلا ایسے کو کیسے ووٹ دیا جا سکتا ہے؟

 

دوسری طرف یہ بھی واویلا مچا ہوا ہے کہ سیکولر پارٹی کو ووٹ دو، نتیش کو مظبوط کرو اور جہاں پر بی جے پی کا امیدوار ہے وہاں آر جے ڈی گٹھبندھن کو ووٹ دو ایسے لوگوں سے میرا کہنا ہے کیا سیکولر کا ٹھیکا مسلمانوں نے ہی لے رکھا ہے؟ ظلم کا شکار کیا صرف مسلمان ہی ہیں۔ سیاسی سوجھ بوجھ کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کی ہے جس نے ستر سالوں تک ایک پارٹی کو مضبوط کرنے میں لگا دیا کیا ملا؟

اس لیے خود مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔ اس مضبوطی میں ہمیں ان تمام کو اپنے ساتھ رکھنا ہوگا اور انھیں ساتھ لے کر چلنا ہوگا جو مظلوم طبقہ ہے۔ ان سیکولر پارٹیوں کا کیا کہنا کب چولا بدل لے اور کب کس کے ساتھ ہو لے۔

 

یاد رہے کہ جسے خود اپنی فکر نہ ہو اس کی کوئی فکر نہیں کرتا۔ اس لیے ہم پہلے خود کو سمجھیں اور اپنی بکھری ہوئی قوت کو یکجا اور مضبوط کریں۔ لوگوں کا درد سمجھیں اور ان کا مداوا بننے کی سعی کریں۔ ورنہ جتنے نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں اور مظلوم طبقے کا استحصال کیا ہے اور ہمیشہ انھیں حاشیے پر رکھنے کی کوشش کی ہے اتنا کسی اور نے نہیں کیا۔ پھر ہم ان پر تکیہ کیوں کریں۔ ہمیں سوچ سمجھ کر ووٹ کرنے کی ضرورت ہے.

محب اللہ قاسمی 

Mere Gaown ke Hifazat Hussain Sb nahi Rahe

ابا کے حفاظت چا... نہیں رہے

 

    جمعرات 22 اکتوبر 2020 دوپہر ڈھائی بجے کی بات ہے۔ گھر سے خبر موصول ہوئی کہ حفاظت حسین صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔ خبر سن کر بہت افسوس اور دکھ ہوا۔ ابھی بقرعید پر جب میں گھر گیا تھا تو ان سے اچھی ملاقات بات رہی۔ یوں تو وہ پہلے سے بیمار رہتے تھے مگر ادھر کافی دنوں سے ان کی طبیعت بہتر ہو گئی تھی۔ ابھی چند دنوں پہلے ان کے نواسے کی شادی تھی۔ جس میں دوسرے گاؤں سے اپنے گاؤں میں ہونے والی اس شادی میں وہ دونوں طرف سے شریک تھے۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ وہ اس طرح چلتے پھرتے ہنستے بولتے ہم لوگوں سے جدا ہو جائیں گے۔ مگر موت ایک حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے وہ کبھی بھی آ سکتی ہے اس کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ لہذا وہ آئی اور حفاظت دادا کو ہم سے لے کر چلی گئی۔

 

    مرحوم ہمارے گاؤں (فاطمہ چک، شیوہر) کے بہت پرانے اور آزادی سے پہلے کے دور کو دیکھنے والے چنندہ لوگوں میں سے ایک تھے۔ اس لیے جب بھی ان سے گفتگو ہوتی تو وہ مختلف موضوعات پر اپنے مخصوص انداز میں کھل کر اظہار خیال کرتے تھے، ماضی کے تلخ اور خوش گوار ایام کا بھرپور تذکرہ کرتے تھے۔ ہنس مکھ، ملنس سار اور خوش مزاج انسان تھے۔

 

    ابھی گزرے سال کی بات ہے میرے والد(مرحوم) بہت بیمار تھے، حفاظت دادا کو ان سے بڑی محبت تھی اور  ابا کو بھی اپنے گاؤں کے لوگوں سے بڑی محبت تھی۔ چنانچہ دادا روزانہ صبح سویرے ابا کو دیکھنے آتے اور باہر والے گھر میں ہی پھاٹک سے زور سے آواز دیتے حسیب...حسیب ابا چاہے جس حال میں بھی ہوں فوراً جواب دیتے ....ہاں....ہاں  حفاظت چا....

    تو وہ بولتے ک ہ ن کا حال چال ہی۔ ٹھیک ہی نا۔(کہو.. کیا حال ہے،طبیعت ٹھیک ہے نا؟(

    ابا بھی کہتے ہاں اللہ کے فضل سے ٹھکے ہی ...(ہاں.. ٹھیک ہی ہے(

 

    مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ میرے گھر میں گرچے پیسے ہوتے تھے مگر غلہ و غیرہ نہیں ہوتا تھا کیوں کہ ہمارے پاس کھیتی باڑی تو تھی نہیں ۔۔۔اس لیے چاول گیہو خرید کر ہی کھاتے تھے اور یہ غلہ حفاظت دادا کے یہاں سے ہی خریدا جاتا تھا۔ کئی بار پیسے نہ ہونے کے سبب ادھار کا بھی معاملہ رہا، جس میں وہ بڑی رعایت کرتے تھے۔

 

    کچھ زمانہ پہلے چلیں تو وہ دور بھی مجھے یاد ہے کہ مجھے اور دوستوں کو بہت سی شادیوں میں جب بارات جانا ہوا تو ان کے ہی بیل گاڑی سے جانا ہوتا تھا بڑے پیار سے قصہ کہانی سناتے ہوئے لے جاتے۔ مگر لے جاتے وقت ہی کہہ دیتے کہ اُدھر سے واپسی اِس گاڑی پر ہوگی اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کیوں کہ شادی بیاہ کا جو سامان ہوتا تھا وہ واپسی پر اسی گاڑی پر لاد دیا جاتا تھا اور بچے بھی شرارتی وہ بھلا چیورا کسار کہاں چھوڑتے اس لیے مجبوراً وہ سب کو گاڑی سے اتار دیتے خواہ ہم لوگوں کو پیدل ہی واپس کیوں نہ آنا پڑے۔ پھر بھی ہم لوگ ان سے اس وقت بھی بڑی محبت کرتے تھے۔

 

    آخری دنوں میں جب وہ حج سے واپس آئے تو ان میں بڑی تبدیلی آ گئی تھی مسجد سے خاص لگاؤں ہوگیا تھا۔ نماز کی پابندی اور معاملات کی بہتری کی جانب توجہ دینے لگے تھے۔ اللہ تعالی ان کی عبادات کو قبول کرے ۔

 

    جن کے والدین ابھی باحیات ہیں انھیں خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ باب بہت بڑی نعمت ہے۔ دنیا کی کوئی دولت اس کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ وہ جنت کا دروازہ ہے۔ اس لیے جب تک ان کی زندگی ہے ان کی خوب خدمت کریں اور خود کو جنت کا مستحق بنائیں۔

    آخر میں اللہ تعالی سے بس یہی دعا ہے کہ رب کریم ان کے گناہوں خطاؤں اور لغزشوں کو معاف فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے۔ پس ماندگان میں بیٹے بیٹیوں سمیت تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔

(محب اللہ قاسمی)

Sunday 18 October 2020

कहानी ...भात....!

कहानी ...भात....!


गीता देवी एक ग़रीब मज़दूर की पत्नी थी, जिसकी दो बेटियां थीं। पहली बेटी गायत्री देवी, जो शादी के दस साल बाद पैदा हुई थी। आस्था के अनुसार इस बच्ची को पाने के लिए उस के मज़दूर बाप ने कई मंदिरों के चौखट लॉनगे, बड़ी मिन्नतें मांगें थीं। इस बेटी के दो साल बाद एक दूसरी लड़की का भी जन्म हुआ । मगर हाय क़िस्मत अभी इस दूसरी बच्चे के जन्म को ढाई साल ही हुए थे कि गीता देवी के मज़दूर पती का देहांत हो गया, जिसकी मज़दूरी के थोड़े पैसे से बड़ी कठनाई के साथ उस के घर चूल्हा जल पाता था। मगर इस दुख भरी की हालत में भी जैसे तैसे समय गुज़र रहा था!

पति की घर में सिर्फ गीता देवी थी और इस की दो बेटियां घर की ज़िम्मेदारी उस के कमजोर कंधे पर आ जाने के बाद उसने भी मज़दूरी शुरू कर दी। मगर कमज़ोर जिस्म के सबब इस से मज़दूरी नहीं हो पाती थी।


वो ख़ुदग़रज़ी और सुअर्थी पर्यावरण के ऐसे दूर से गुज़र रही थी कि जिससे भी उधार माँगती ,लोग साफ़ तौर पर उसे मना कर देते थे। अपने बच्चों की ख़ातिर रोज़ाना चूल्हा जलाने के लिए उस के पास, अक्सर राशन नहीं होता था, जिसका नतीजा हमेशा घर में फ़ाक़ा और भूके रहने की नौबत आती थी।


एक दिन बड़ी बेटी भूक से तड़प कर रोती, बिलकती भात भात चिल्ला रही थी, मगर माँ उसे तसल्ली देते हुए कह रही थी।
’’
रुक जा बेटी अभी भात पकाती हूँ और तुझे खिलाती हूँ।'


रोज़ की तरह उसने राशन के बर्तन में झाँका, मगर इस में चावल का एक दाना भी ना था। अब क्या करे, बेटी भूक से छटपटा रही थी। किसी के ज़रीया पता चला कि गांव में अभी राशन मिल रहा है। वो अपना राशन कार्ड लेकर जाये और राशन ले आए।


ये सुनकर उसने अपना राशन कार्ड निकाला और बोरी लेकर डीलर के पास भागती हुई गई।
वहां पहुंच कर उसने डीलर से कहा:
भया मुझे राशन दे दो। घर में कुछ भी खाने को नहीं है


डीलर ने राशन कार्ड लिया और अपने रजिस्टर से मिलाया। मिलान पर कार्ड दरुस्त निकला, मगर जिन्हें राशन दिया जाये, इस सूची में इस कार्ड का नंबर नहीं था। जब उसे लैपटॉप पर चैक किया। तो पता चला कि इस का राशन कार्ड आधार से लिंक नहीं है।
इस पर डीलर को ग़ुस्सा आया कहने लगा।

जाओ आधार कार्ड से लिंक कराओ। इस के बिना राशन नहीं मिलेगा।


गीता देवी डीलर से मिन्नत समाजत करने लगी।
मेरी बेटी भूक से बे हाल है। राशन में कुछ चावल ही दे दो कि भात पका कर बेटी को खीला दूं , वर्ना मेरी बेटी भूक से मर जायेगी


मगर डीलर के दिल में ज़रा भी दया नहीं आई। उसने उसे ये कहते हुए वहां से भगा दिया
जाओ जब तक ये राशन कार्ड आधार से लिंक नहीं होगा ,तुम्हें राशन का एक दाना भी नहीं नहीं मिलेगा।


बेचारी गीता देवी इन्सानों की दुनिया से दया की भीक ना मिलने पर मायूस घर लौट आई। अपनी बेटी को गले लगा या। इस से पहले कि वो इस से कुछ बोलती उस की आख़िरी आवाज़ भात भात कहते हुए बंद गई।
.....
और गीता देवी उसे सीने से लगाए ज़ोर से चिल्लाते हुए इस डीजीटल बेरहम दुनिया पर मातम कर रही थी।


(कहानी लेखक .....मोहिब्बुल्लाह क़ासिमी)

Email: mohibbullah.qasmi@gmail.com

 


Sunday 4 October 2020

معیشت اہمیت و ضرورت

پریشان حال لوگوں کو خود کفیل بنانے کی ضرورت

محب اللہ قاسمی

معیشت انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ جب انسان پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اشیاء خورد و نوش کے ساتھ آب و ہوا کا بھی انتظام کیا. ان چیزوں سے استفادہ کے لیے انسان کو ایک مضبوط جسم کے ساتھ دل و دماغ  اور دیگر اعضاء و جوارح بھی عطا کیے تاکہ وہ محتاج اور مجبور محض بن کر نہ رہے۔ پھر اسے حکم دیا گیا :

’’جب تم نمازسے فارغ ہوجاؤ توزمین میں پھیل جاؤ اور خداکافضل تلاش کرو۔ ‘‘(الجمعۃ:۱۰ (

 پتہ چلاکہ مال کوئی گھٹیاچیز نہیں کہ اس سے آنکھیں  موندلی جائیں اور اس کی تلاش وجستجونہ کی جائے۔خودحضورؐنے بھی اس کی اہمیت کواجاگرکرتے ہوئے فرمایاہے۔’’بلاشبہ اللہ مالدار متقی اور  پوشیدگی اختیار کرنے والے کو پسند کرتاہے۔‘‘(مسلم)

 رہی بات قرآن واحادیث میں  مال و دولت کی مذمت کی تویہ ان اموال کے سلسلے میں ہے جوحرام ہوں اور  جنھیں مفاخرت کے طورپرحاصل کیاجائے ،وہ اموال انسان کواپنے خالق ومالک کی یادسے غافل کردیں  ۔ جسکی کی کثرت کے لئے قلب ہمشہ مضطرب اور  پریشان ہویااس سے فقراء ومساکین کاحق ادانہ کیا جا رہا ہو۔  اللہ تعالی کافرمان ہے:

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تمہارے مال اور  تمہاری اولادیں  تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں ۔  جو لوگ ایسا کریں  وہی خسارے میں  رہنے والے ہیں ۔ ‘‘(المنافقون:۹)

 اگرکسی کی معاشی حالت مستحکم نہ ہو تووہ اپنی ضررتوں کی تکمیل کے لئے دوسرں کےسامنے دست سوال دراز کرے گا، جس کی ممانعت ان احادیث میں  آئی ہے۔  آپ ؐ کی ایک مشہور حدیث ہے آپ نے ارشاد ہے :’’السوال ذل‘‘ دست سوال دراز کرنا ذلت کی بات ہے۔

 اس لیے انسان نے اپنے رب کی عطا کردہ ذہنی و جسمانی قوت کو من جد وجد کے تحت لگاتا ہے اور وہ ساری چیزیں حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے جو ان کے لیے ناگزیر  ہیں. اس طرح حصول معاش کی جدو جہد کرنے والے گروہ میں بنیادی طور پر تین قسم کے لوگ شامل ہو گئے: تاجر، کسان اور ملازم۔


اسباب معیشت :

اگر ہم اسباب معیشت پر غور کریں تو ہمیں اس کی تین قسمیں ملیں گی.

(۱)تجارت      (۲)  صنعت و ذراعت          اور (۳)ملازمت

 تجارت

 تجارت معیشت کا بہترین ذریعہ ہے جو اچھے، نیک اور خیر خواہ لوگوں کے ہاتھ ہو تو اس کا بہترین اثر معاشرے پر دکھے گا. اللہ نے اس میں بڑی برکت رکھی ہے۔یہ صبر آزما اور تسلسل کے ساتھ انجام دیا جانے والا عمل ہے.

 تجارت نبی اکرم ﷺ کا طریقہ تھا جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین نے اختیار کیااور معاشرے کو غربت و یاس سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی. جس کی بہترین مثال وہ واقعہ بھی ہمارے ذہن میں  رہناچاہئے کہ ایک شخص آپ ؐکی خدمت میں حاضرہوااوراپنی ضرورتوں کاسوال کربیٹھا ۔ آپ ؐ نے اس سے دریافت کیا :تمہارے پاس کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا :ایک چادراورایک پیالہ! آپ نے دونوں  چیزوں  کو طلب کیا اور  انھیں  صحابہ کرام کے درمیان بیچنے کی بولی لگادی ایک صحابی نے اسے خرید لیا۔ آپؐ نے حاصل شدہ رقم کو اس آدمی کے حوالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نصف رقم سے گھر کے لیے کھانے پینے کی چیزیں  خرید لو اور  نصف رقم سے کلہاری خریدلائو۔  چنانچہ اس نے ایساہی کیا، پھرآپ ؐ نے اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ لگادیا اور حکم دیاکہ جنگل جاکر اس سے لکڑی کاٹو اور بازار میں فروخت کرو۔  اس نے ایساہی کیااس طرح اس تجارت سے اس کی اقتصادی حالت درست ہوگئی اور سوال کی ذلت سے محفوظ ہوگیا۔

 حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بہت بڑے تاجر  تھے کہ ان کی وفات کے بعدان کے پاس جو سونا تھا اسے کلہاڑی سے کاٹ کر وارثوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔  اسی طرح حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی زندگی دیکھی جائے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں علم وعمل کے ساتھ مال ودولت میں بھی کافی فراوانی عطا کی تھی، جس کا وہ مظاہرہ بھی کرتے تھے ۔ عمدہ لباس زیب تن فرماتے اور اپنے دوستوں پر بھی خوب خرچ کرتے تھے ۔  موصوف کا شمار کپڑوں کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا ۔ ان کے علاوہ بھی تاریخ میں متعدد شخصیات کا تذکرہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو مال و دولت سے نوازا تھا اور  وہ بحسن وخوبی اس کاحق ادا کرتے تھے۔ اس کے ذریعہ بہت سی دینی خدمات انجام دیتے تھے۔  

 

ذراعت یعنی کھیتی باڑی

محنت و مشقت کے ساتھ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے کھیتی باڑی کا عمل انجام دیا جائے تو یہ بھی معیشت کا ایک اہم ذریعہ ہے جس سے انسانی زندگی کی بہت سی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں.

 درج بالا دونوں اسباب اختیار کرنے کے لیے مال و جائیداد کی ضرورت پڑتی ہے. جب کہ ملازمت یعنی نوکری کرنے میں وہ بات نہیں. انسان اپنی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر نوکری حاصل کر لیتا ہے. یہی چیز اس کے لیےدو وقت کی روزی روٹی کا ذریعہ بن جاتی ہے. اس دور میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے. اس لیے ملازمت کی ضرورت بڑھ گئی ہے ۔ ملازمت نہ ملنے کی صورت میں بے روزگاری بڑھ گئی ہے. اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر غور کیا جانا چاہیے.

 مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ اس وقت معیشت کے ہر میدان میں گراوٹ اور بدحالی کی کیفیت پیدا ہو گئی روزگار ختم ہوتے جا رہے ہیں ہر طرف افراتفری کا ماحول بنا ہوا لوگ پریشان حال ہیں ان کی تنگ دستی اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے انھیں خود کفیل بنانے اور امت میں تجارت کو فروغ دینے کی کوشش ہو آغاز میں چھوٹے چھوٹے کاربار کی طرف راغب کیا جائے اور عملی  اقدام جاری رہے۔ جس کے لیے ماحول بنانا اور اسباب مہیا کرنا بھی ضروری ہے


Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...