Monday 24 November 2014

Char Wasiyateen

رسول اکرمﷺ کی چار وصیتیں

          يا أيها الناس: أفشوا السلام، وأطعموا الطعام، وصِلُوا الأرحام، وصلّوا بالليل والناس نيام، تدخلوا الجنة بسلام

’’اے لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور رات کو جب لوگ سورہے ہوں تونماز( تہجد ) پڑھو، (ایسا کرنے کی صورت میں)سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔‘‘ (احمد،ترمذی)

         اس حدیث کے راوی حضرت ابویوسف عبداللہ بن سلامؓ ہیں۔ جو مدینے کے مشہور علمائے احبار (یہودی علماء) میں سے تھے۔جب نبی کریمﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے ،تو لوگوں کا ہجوم آپ ﷺ کے دیدار کے لیے امڈ پڑا۔ اسی ہجوم میں یہ بھی شامل تھے۔ انھوںنے آپؐ کا چہرۂ انور دیکھا تو کہنے لگے ،یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتااور اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔ان کا نام حصین تھا،جسے بدل کرآپ ؐنے عبداللہ رکھا ۔ چنانچہ وہ اسی نام سے مشہور ہوئے۔ ابویوسف آپ کی کنیت ہے۔ آپ کا شمار ان صحابہ کرام میں ہوتا ہے ، جنھیں نبی کریمؐ نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی تھی۔ روایات تفسیر میں ہے کہ سورۃ احقاف کی آیت:۱۰ (اس جیسی بات پر تو بنی اسرائیل کا ایک گواہ شہادت بھی دے چکا ہے) ان کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔وہ حضرت عمرؓ کے ساتھ دو فتوحات (فتح قدس اور جابیہ)میں شریک رہے اور مدینہ منورہ میں سنہ ۴۳ ہجری میں وفات ہوئی۔
         مذکورہ حدیث کے سلسلے میںحضرت عبداللہ بن سلامؓ کا بیان ہے کہ یہ حضور کی پہلی گفتگو ہے جو انھوں نے آپ ؐ کی زبان مبارک سے سنی تھی۔ حدیث کے متن میںنبی کریم ﷺ نے امت کو چاراہم باتوںکی وصیت فرمائی ہے:۱۔سلام کو پھیلانا، ۲۔کھانا کھلانا، ۳۔صلہ رحمی کرنا۴۔تہجدپڑھنا۔ذیل میں اس حدیث کی مختصر تشریح پیش کی جارہی ہے۔

پہلی وصیت : سلام کو عام کرنا
         سلام اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ہے۔ اس کے معنی سلامتی کے ہیں۔ سلام محبت کی کنجی ہے،جس سے مسلمانوں کے درمیان باہمی تعلق میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے اجنبیت دور ہوتی ہے اور گھمنڈ جیسی بری خصلت جاتی رہتی ہے۔اس کے متعلق آپ ؐ کا ارشاد ہے:’’تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ مومن نہ ہوجاؤ اور تم اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو۔  کیا میں تمھیں ایسی چیز نہ بتا دوں جسے تم کرو تو آپس محبت کرنے لگو۔ اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔ ‘‘(مسلم(
معلوم ہوا کہ سلام اور محبت دونوں لازم اور ملزوم ہیں، اس سے ایمان مضبوط ہوتا ہے۔یہ اس امت کا شعار ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے ملے تو اسے ضرور سلام کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے جن چیزوں کو مسلمانوں کے باہمی حقوق شمار کیا ہے سلام ان میں سے ایک ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’جب گھروں میں داخل ہو اکرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعائے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی بڑی بابرکت اور پاکیزہ ہے۔ ‘‘(النور:۶۱(
         پسندیدہ کا طریقہ یہ ہے کہ سلام میں پہل کی جائے ،بلند آواز سے سلام کیاجائے تاکہ سننے والا اس کا جواب دے سکے ۔ چھوٹا بڑے کو سلام کرے، سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے،تنہا شخص گروہ کو سلام کرے ، اسی طرح کسی جگہ پر پہلے سے کچھ لوگ موجود ہیں تو آنے والا سلام کرے۔ دارالعلوم دیوبند میں جب میں دورۂ حدیث کے سال میں تھا تو میں نے اپنے استاذمفتی سعید صاحب پالنپوری کو دیکھا کہ وہ درسگاہ میں داخل ہوتے وقت پہلے سلام کرتے اور ان سے یہ جملہ بھی سنا : السلام علی من دخل(داخل ہونے والا شخص سلام کرے) ۔
سلام نیکوں میں اضافے کا باعث ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ایک مجلس میں ایک شخص آیا اور اس نے السلام علیکم کہا۔ آپؐ نے فرمایا: اسے دس نیکیاں ملیں۔ دوسرا شخص آیا اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا ، آپؐ نے فرمایا: اسے بیس نیکیاں ملیں۔ تیسرا شخص آیا ۔ اس نے ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ‘کہا تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: اس سے اسے تیس نیکیاں ملیں۔
          ہر قوم اور تہذیب میں دو افراد کے باہم ملتے وقت اظہار محبت کے لیے الگ الگ جملے رائج ہیں ،ان میں اسلامی طریقِ سلام کو سب سے زیادہ جامعیت حاصل ہے۔ اس سے نہ صرف ملنے والوں کے دلوںمیں محبت اور سرور پیدا ہوتا ہے بلکہ اسے سلامتی بھری زندگی کی دعا بھی ملتی ہے اور اس بات کا وعدہ بھی کہ تمہیں مجھ سے کوئی خوف نہیں تم میری زبان وہاتھ سب سے محفوظ ہو۔

دوسری وصیت : کھانا کھلانا
         غریبو ں اور یتیموں کو کھانا کھلانا جنت میں داخلے کا سبب ہے ۔اس سے انسان کے اندر فیاضی کی صفت پیدا ہوتی ہے اوربخل و حرص اور مال و دولت کی محبت جیسی بیماریاں دور ہوتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایاہے:
          اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ )ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلارہے ہیں ہم نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔ (الدہر۔۸-۹(
         ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں توہمیں ایسے بہت سے غریب مسکین لوگ مل جائیں گے جنھیںکھانے کو غذا میسر نہیں ہے۔ وہ بھوکے سوجاتے ہیں۔جب کہ قریب ہی کسی شادی یا دیگر تقریب میں بہت سارا کھانا کوڑے اور کچرے کے ڈھیرپر پھینک دیا جاتاہے۔اس طرح ایک مال دار گھرانہ تو خوب شکم سیر ہوکر کھاتا ہے مگر اس کا پڑوسی بھوکا سوجاتاہے۔ایسا کرنا ایمان کے بالکل منافی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے لوگوں کے تعلق سے ارشاد فرمایاہے:
          ’’ وہ شخص مومن نہیں جو خود شکم سیر ہوکر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔‘‘(مسلم(
اس میں مہمان کی ضیافت بھی شامل ہے، چنانچہ آپﷺ نے اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے کی پہچان یہ بتائی ہے کہ وہ  مہمان نوازی بھی کرے:
         ’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان نوازی کرے۔‘‘(متفق علیہ(

تیسری وصیت : صلہ رحمی کرنا
         رشتے کو جوڑے رکھنا اور رشتہ داری کو نبھانا۔ایسی صفت ہے، جس کی قرآن و حدیث میں بہت تاکید کی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کوبگاڑنے سے پرہیز کرو۔‘‘(النساء:۱(
         خاص طور پر والدین کے ساتھ حسن سلوک پر بہت زور دیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچے تو تم انھیں اف بھی نہ کہو اور نہ انھیں جھڑک کر بات کرو بلکہ ان کے سے احترام کے ساتھ بات کرو۔‘‘(سورۃ : اسراء:۲۳(
صلہ رحمی کو دخول جنت کے علاوہ دنیا میںرزق کے اضافے اور طول عمر کا سبب بھی قرار دیا گیا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
         ’’جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ اس کے رزق اور اس کی عمر میں اضافہ ہو تو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔‘‘(متفق علیہ(
         صلہ رحمی کی ضد قطع تعلق ہے۔ یعنی ذرا ذرا سی بات پررشتہ توڑلینا ،نفرت کرنا ، میل جول ختم کرلینا وغیرہ۔اس کے اثرات کو دیکھئے تو یہ صرف تعلقات کو ختم کرنے تک محدود نہیں رہ جاتا بلکہ بسااوقات دل میں حسد اور کدورت کو ایسا جنم دیتا ہے جو بڑے فساد کا ذریعہ بن کر انسان کو ذلیل ورسوا بھی کردیتا ہے۔ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں۔
         اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:’’ قطع تعلق کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘ (بخاری(
         ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ رشتہ داری میں ذراسی ناروابات یا کوئی تلخی ہوگئی توبس ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کرلیاجاتاہے اور معاملات کودرست کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ اسے اپنے لیے کسرشان سمجھا جاتاہے۔جب کوئی حسن سلوک کرتا ہے تو اس کے ساتھ حسن ِسلوک کی روش اپنائی جاتی ہے یہ تو بدلہ ہے، صلہ رحمی نہیں ہے۔ اس لیے نبی کریمﷺ نے واضح طور پر بتادیا :
          ’’وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو (کسی رشتہ دار کے ساتھ) احسان کے بدلے میں احسان کرتا ہے، بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے، جب  اس سے قطع رحمی(بدسلوکی وغیرہ) کی جائے تو صلہ رحمی(حسن سلوک ) کرے۔ ‘‘(بخاری(

چوتھی وصیت : تہجد پڑھنا
         جب انسان رات کے تہائی حصے میں وضوکرکے نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے ،اسے صلوٰۃ تہجد کہتے ہیں۔ اس نماز میں ریا کاری کا شائبہ نہیں ہوتا۔ بندہ اس وقت اللہ کے بالکل قریب ہوتا ہے۔اس  سے تعلق اور قربت اس کے توکل میں اضافہ کرتا ہے جو ہر مشکل کو صبر کے ساتھ جھیلنے کی صلاحیت بخشتا ہے۔اللہ تعالیٰ اسے مقام محمود پر فائز کردیتا ہے:
         ’’اور رات کو تہجد پڑھو! یہ تمہارے لیے نفل (اضافی) ہے، بعید نہیں کہ تمہارا رب تمھیں مقام محمود پر فائز کردے۔‘‘ (سورۃاسرا: ۷۹(
         دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے: ’’ان کی پیٹھیںبستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ سجدۃ:۱۶)
 اللہ کے رسول ﷺ نے فرائض کے بعد جس نماز کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے، وہ تہجد ہے۔آپ ؐ نے اس تعلق سے ارشاد فرمایا:
          ’’فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی ہے۔‘‘(مسلم(
         تہجد آپؐ پر واجب تھی جب کہ امت پر یہ نفل ہے۔چنانچہ صحابہ ،تابعین اور سلف صالحین تہجد کا اہتمام کرتے تھے۔
اس حدیث کے آخری حصے میں آپ نے تمام نصیحتوں اور وصیتوں کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:تدخلواالجنۃ بسلام، یعنی اگر تم ان ہدایات پر عمل کروگے تو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤگے۔ خلاصہ یہ کہ اللہ کے رسول ﷺ کی مذکورہ چارں وصیتوں کی پابندی کی جائے اور اسے عملی طور پر اپنی زندگی میں لایاجائے تو ہمارا معاشرہ خوش حال اور مثالی اور امن و امان کا گہوارہ ہوگا۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اسورۂ رسولؐ پر عمل کی توفیق بخشے۔ آمین ll
Mob. 9311523016


Sunday 2 November 2014

مريض اسپتال اورزندگی

یہ خیال عام ہے کہ دنیا فطرت کے مطابق چلتی ہے، اگر ہم اس سے اعراض کرتے ہوئے سہولت کی خاطر غیر فطری طریقے اختیار کرلیں تو اندیشہ ہے کہ مصیبت میں گرفتار ہوجائیں گے۔ موجودہ دور میں وقتی سہولت کو ترجیح دیتے ہوئے غیر فطری طریقہ کار اختیار کرنے سے لوگ بالکل پرہیز نہیں کرتے۔مثلا اشیاء خورد ونوش میں قدرتی غذاؤں کے بجائے ، جنک فوڈ وغیرہ کا کوگ خوب استعمال کرتے ہیں، گھنٹوں ایک ہی سیٹ پر بیٹھے بس کام کیے جاتے ہیں، کبھی کبھی تو پہلو بھی نہیں بدل پاتے ،اس کے نتیجہ میں معدہ کی کمزوری اور اعضاء جسم کا منجمدہوجانا لازمی ہے۔
یہی حال علاج معالجہ کا ہے۔ پہلے علاج معالجہ اور دیگر انسانی ضرورتوں کی بنیادی اشیاء کس قدر عام اور بہ آسانی دستیاب تھیں ۔اس وجہ سے لوگوں کو علاج میں زیادہ پریشانی نہیں ہوتی تھی اور نہ قدم قدم پر بڑی رقم خرچ کرنے کی نوبت آتی تھی، جس کے سبب عام انسان کے لیے اپنا علاج کروانا اتنا مشکل نہیں تھا، جتنا کہ اب مشکل ہوگیا ہے۔
اس غیر فطری زندگی کی تیز رفتاری نے طرح طرح کی بیماریاںپیدا کردی ہیں۔ مثلاً ایک بخار جسے ڈینگوکا نام دیا جاتاہے۔ آج کل عام ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ مچھر کا کاٹنا ہے۔ عام اور غریب انسان، جسے اپنا نام سلیقہ سے یاد ہونہ ہو مگر اس بیماری کے نام سے وہ بہ خوبی واقف ہے۔اس کا طریقۂ علاج کیا ہے وہ بھی جان لیجئے ،سب سے پہلے مریض کواسے ڈینگوٹسٹ کروانا ہوگا،جس میں پلیٹ لیٹ ٹسٹ بھی شامل ہے۔ بیماری ہویا نہ ہو یہ ٹسٹ لازمی ہے، جس کی لاگت تقریباً دو ہزار سے ڈھائی ہزار تک ہے۔جیسا مریض ویسی قیمت ، اس کے بعد مسلسل دوتین بار پلیٹ لیٹ کی جانچ ضروری ہے،جس کا خرچ ہر بار تقریباً ڈیڑھ سوسے دوسوتک ہے۔
 اس کے بعد نمبر آتا ہے دواؤں کا ، کھانے کی خوراک اتنی ہویا نہ ہومگر دوائوںکی خوراک ہر وقت پابندی سے لینا ضروری ہے۔آپ چاہے بیس سے تیس روپے کاکھانا کھائیں مگر ایک وقت کی دوا کی قیمت تقریباً سوسے دوسوروپے ضرور ہوگی ،جسے آپ بادل نہ خواستہ لینے پر مجبور ہیں ۔ ارے بھائی انگریزی نام کا بخار ہے ، اتنی آسانی سے تھوڑا ہی جائے گا۔اس کے لیے پیسوں کوقربان ہونا ہی ہے۔
          جناب ابھی ڈاکٹر کی فیس باقی ہے۔ تقریباً پانچ سو سے سات سوروپے تک !ارے بھائی اے سی کا نظم ہے ، اتنی بڑی بلڈنگ ہے ، لفٹ اور دیگر بہت سی سہولیات ہیں، کیا ہوا اگر آپ نے ان کا استعمال نہیں کیا مگر چارج تودینا ہی پڑے گا نہ۔
اب ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ پہلے کی طرح محسن اور ممنون کا نہیں بلکہ ایک بکرے اورقصائی کا ہے ۔ پہلے علاج ہوتا تھا اب علاج بکتا ہے۔پہلے مریض کو جلد سے جلد رخصت دی جاتی تھی اور علاج کو لمبا کرنے سے گریز کیا جاتا تھا ، مگر اب مریض گویا ایک اے ٹی ایم کارڈ ہے لگاتے جاؤ ، پیسہ نکالتے جاؤ ۔ پھر اتنی جلدی اس پیسے فراہم کرنے والی مشین کو کیسے الوداع کہہ دیا جائے۔یہ تو ایک تجارت ہے جہاں انسان کی زندگی کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ خوف دلاکر یا پھر بیماری سے نجات کا دلاسا دے کر گو مریض کو مرنا پھر بھی ہے ۔ اپنی زندگی گزار کر یا اپنی صحت کے عوض ان کی من مانی قیمت چکاکر۔
پہلے طبیب نبض دیکھ کردرجہ حرارت بتادیا کرتے تھے۔ اب یہ کام مشین کرے گی، پہلے لوگ زبان اور مریض کی کیفیت دیکھ کر اس کا علاج کرتے تھے اب یہ کام جانچ کی مشین کرے گی ، تو بھائی اس کی قیمت بھی ہوگی۔ جب سب کام یہی مشین ہی انجام دے رہی ہے تو پھر ڈاکٹر کی ضرورت کیا ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے ، اتنا بڑا اسپتال ہے ، جس کا ایک مستقل نام ہے۔ اس کی حیثیت کا سوال ہے۔ رہی بات فیس کی تو فیس اگر کم رکھی گئی تو اسپتال کی حیثیت مجروح ہوگی، ڈاکٹر س کی ضروریات زندگی میں فرق آئے گا، پھر آپ کا علاج کیسے ہوسکے گا؟
          یہاں ٹھہر کر سوچیں تو یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ اگر یہی بات ہے تو لوگ کیوں نہیں سرکاری اسپتالوں میں چلے جاتے ہیں وہاں تو علاج مفت ہوتا ہے۔ بات درست ہے مگر وہاںآپ کو کوئی پوچھے گا بھی نہیں جب تک کوئی آپ کا جاننے والا نہ ہو۔ اسی طرح وہاں کی صورت حال ایک انار اور سوبیمار کی سی ہے۔ ایسے میں معمولی درجہ کا عقل رکھنے والا انسان بھی اپنی قیمتی زندگی کی بقا کے لیے کچھ تو کرے گا اور لازماً اسے ان ہی پرائیوٹ اسپتالوں میں آنا ہوگا۔ جہاں معمولی بیماری کوبھی ہمیشہ سیریس کیس مانا جاتاہے اور طریقہ ٔعلاج وہی گراں جس کا ذکر کیا گیا۔
          اب بتائیے کہ یہ ہے نا غیرفطری اور غیر اصولی زندگی! جہاں سب کچھ مشین کرتی ہے اور انسان کی مجبوری اور اس کے جذبات کو کیش کیا جاتاہے۔پورا پیشہ ٔ طب تجارتی ہوکر رہ گیاہے۔ جہاں مریض گراہک ہے، ڈاکٹر سوداگر اور اسپتال گویا دکان ہے۔
مگر زندگی کا ایک تصور وہ بھی ہے جس میںانسان کو اس کی فطرت سے روشناس کرایا جاتا ہے اور انسانوں کا باہمی تعلق الفت و محبت کا ہوتاوہاںاس انسان کو بہترین انسان قرار دیاجاتاہے جس سے لوگ خیر کی امید کریں اور اس سے کسی قسم کے شرکا کوئی اندیشہ نہ ہو۔وہ دوسروں کا ہمدر د وخیر خواہ ہو۔یہ ہے اسلامی زندگی جس نے انسانوں کو حیوانیت سے نکال کر انسانیت کے بلند مقام پر رکھا ہے۔جس میں دھوکہ دینا حرام تصور کیا جاتاہے چہ جائے کہ کسی کوتکلیف اور نقصان میںمبتلا کیا جائے۔
اللہ نے انسان کو معزز مخلوق بنایا، اسے قابل قدر اور باعث احترام بتایا۔ اللہ کا قانون وہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اللہ زمین پر کسی انسان کو راہ چلتے ہوئے کانٹا چبھے ، اس لیے راستے سے تکلیف دہ چیزکو ہٹادینے کو بھی شریعت نے صدقہ قرار دیا۔ چہ جائے کہ انسان ایک دوسرے کو دھوکہ دے اور قتل وغارتگری کے درپے ہو۔اللہ انسانوں میں اچھے اوصاف کو پسند کرتا ہے اور صالحین کا تذکرہ فرشتوں کے درمیان کرتا ہے۔ہدایت الٰہی کے مزاج کا تقاضہ ہے کہ انسانوں کے اندر ہمدردی اور محبت کا جذبہ بھرپور اور نمایاں طور پر ہو ،تاکہ اللہ کی خاص رحمتیں ان پر نازل ہوں ۔ ایسے اوصاف کے حامل لوگوں کے تعلق سے اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
الراحمون یرحمہم الرحمن ارحمومن فی الارض یرحمکم من فی السماء    (ترمذی(
رحم وکرم اوردرگذرکرنے والوںپررحمن رحم کرتاہے۔لہذاتم زمین والوںپررحم کرو، آسمان والاتم پررحم کرے گا۔
          اس حقیقت کیکسی شاعر نے بڑی اچھی ترجمانی کی ہے:
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
          ہمدردی کی خوبی انسانوں کے درمیان باہمی الفت و محبت کو فروغ دیتی ہے۔ جب انسان کسی کے ساتھ ہمدردی کرتاہے اور اس کے دکھ درد کو اپنا درد سمجھتا ہے تو لوگوں پر اس کا غیرمعمولی اثر پڑتا ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں پر راج کرتاہے جب کہ مادیت کے حصول میں پھنسا انسان لاکھ کچھ حاصل کرلے مگر اسے یہ دولت حاصل نہیں ہوتی۔
دوسری جگہ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
 ’’  لایرحم اللہ من لایرحم الناس‘‘ جولوگوںپررحم نہیںکرتاخدابھی اس پررحم نہیں کرتا ہے۔ (مسلم)
اسلام دھوکہ کو پسند نہیں کرتا اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص لوگوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کرے۔اسی لیے وہ اس شیطانی عمل سے باز رہنے کی تلقین کرتاہے ۔ اللہ کے رسول کا ایک واقعہ سبق آموز  ہے۔
 ایک مرتبہ آپ ﷺ بازار سے گزرے ،وہاں ایک شخص غلہ بیچ رہا تھا۔ آپ نے غلے میں ہاتھ ڈالا تواس کو بھیگا ہوا پایا۔ آپؐ نے دکاندار سے فرمایا:اے غلہ والے یہ کیا ماجراہے ؟ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول ﷺ رات  بارش کی وجہ سے بھگ گیا تھا۔آپؐ نے فرمایا:تو تم نے  بھیگے ہوئے غلہ کو اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لوگوں کونظر آتا۔ پھر آپ ؐ نے یہ ارشاد فرمایا:
جس نے دھوکہ  دیا وہ ہم میں سے نہیں ۔  (ترمذی)
          جب انسان میں دھوکہ دہی کی عادت پڑجاتی ہے تووہ لوگوں میں معیوب اورناپسندیدہ تصور کیاجاتاہے ۔ لوگ اس سے دور رہنے لگتے ہیں اور اس سے انسیت میں کمی آجاتی ہے ، جب کہ انسان یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس سے محبت کریں اور اس سے میل جول اور ہمدردی بھی رکھیں۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صاحب ایمان انسان کے ایک اچھے وصف ، کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
 المومن مالف ولا خیر فیمن لایالف ولایولف
          مومن محبت اورالفت کاحامل ہوتاہے اوراس شخص میں کوئی خوبی اوربھلائی نہیں جونہ خودمحبت کرے اورنہ لوگوں کواس سے الفت ہو۔(مسند احمد،بیہقی شعب الایمان(
اگر انسان اسوۂ رسول ﷺ کو اپنائے اوراپنے خالق و مالک کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق زندگی گزارے تو پھر وہ کسی قسم کی پریشانی میں  مبتلا نہیں ہوگا۔ طبیب بھی اپنی ذمہ داریاں بہ خوبی ادا کرے گا ، اس جھوٹی دنیاوی چمک دمک اور عیش پرستی کے حصول کومقصد نہیں بنائے گا۔ اس کے اندر یہ احساس بیدار ہوگا کہ وہ بھی ایک جسم رکھتا ہے، جس پر خود اس کا بھی کوئی اختیار نہیں ہے، وہ بھی  علاج کا محتاج ہوسکتا ہے یہ احساس ہو تو طبیب کومریض سے حاصل ہونے والے پیسے کی نہیں بلکہ اس کی جان کی فکر ہوگی ،دوسرں کے درد کو وہ اپنا درد تصور کرے گا اور مریض کے علاج کو گویا اپنا علاج مان کر پوری ہمدردی اور رعایت کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے گا۔ اس طرح انسان کی زندگی کی قیمت بھیڑ بکریوںکی سی نہیں ہوگی بلکہ وہ انمول ہوگی،جسے بچانے کی بھرپور کوشش بھی کی جائے گی۔تب صرف طبیب ہی نہیں بلکہ ہر پیشہ سے وابستہ انسان اسلامی تعلیمات کو اپنا کر یقینا اپنے کام میں پوری ایمانداری کا ثبوت دے گا۔اس طرح صرف ڈاکٹر ،مریض اسپتال ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پرامن اور خوشحال معاشرے کی طرف لوٹ آئے گی۔

                                                 ٭٭٭



Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...