Sunday 18 August 2013

Asal Dahshatgard kaun?

اصل دہشت گرد کون؟
محب اللہ قاسمی
mohibbullah.qasmi@gamil.com
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ یہ دنیا اور اس کی تمام چیزیں اللہ کی بنائی ہوئی ہے۔ اس کا شکر ادا کرتے ہوئے صرف اس کی عبادت کی جائے اور بندگان خدا کوان کا حق دیاجائے اور اس پر کسی قسم کی ظلم وزیادتی نہ کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک معمولی سی تکلیف دینے والی چیزکواگرراستے سے ہٹادیاجائے کہ اس سے کسی مسافر کو تکلیف نہ پہنچے تو یہ صدقہ یعنی نیکی کاکام ہے۔
الغرض اسلام کا مقصدہی قیام امن وسلامتی ہے،مگر افسوس کہ پچھلے کئی سالوں سے اس پر دہشت گردی کا الزام عائد کر کے بدنام کیاجارہاہے اور مسلمانوں کو حراساں کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے۔ خاص طور پر مسلم ممالک کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔  جب کہ(المسلم اخوالمسلم کے تحت ) ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے اخوت کا رشتہ ہے اور حدیث پاک کی روسے وہ آپس میںایک جسم واحد کی طرح ہیں کہ اس کے ایک عضوکوکوئی تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم درد محسوس کرتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی گوشے میںاگر کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا مسلمان اس درد سے کراہنے لگتاہے۔آخریہ اسلام کا دشمن کون ہے اور کیوں مسلمانوں کوستایاجارہاہے؟
سب سے پہلے یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اسلام کا اصل دشمن کون ہے؟ قرآن کہتاہے ’’اسلام اورمسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہودہیں‘‘ (سورۃمائدہ:82) یہ یہود نہایت ہی شاطر،دھوکے باز اور انسان دشمن ہیں۔موجودہ دورمیں مصر کے حالات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جمہوریت کا پاسبان کہلانے والے امریکہ نے یہودیوں کی سازش کے تحت جمہوری طریقے سے پرمنتخب عوامی صدرمحمد مرسی کو چند افراد کے احتجاج پر برطرف کروایا ۔اس ناپاک منصوبے کو بروئے کارلانے کے لیے اس نے وہاں کی فوج کا سہارالیا۔ جب کہ منتخب صدرکی حمایت میں ایک ماہ سے  مسلسل ہورہے مصری عوام کے پرامن احتجاج کو نظرانداز کیاجارہاہے اور اب کریک ڈاؤن کے ذریعے بے دریغ ہزاروں بے قصور، نہتے جوانوں، معصوم شیرخوار بچوں، باعصمت ماؤں اور بہنوں کو شہید کیا جا رہا۔  ان زندہ انسانوں پر ٹینک چلا کر انھیں بے دردی سے مارا جارہاہے۔ جن کے ہاتھوں میں قرآن، دل میں اسلام کی عظمت اور زبان پر اللہ کا ذکر ہے۔ رمضان المبارک کی شب میں قیام لیل اور دن کے روزے رکھنے والے یہ مسلمان جنہوں نے اپنے گھروں سے الگ ہوکر میدان رابعہ عدویہ میں عید کا دن گزاراہو ان کومستقل نشانہ بنایاجارہاہے۔جس کی تصاویر دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتاہے کہ کیا یہ مسلمان ہوسکتے ہیں جو اپنے بھائیوں کے ساتھ اس طرح کاسلوک کررہے ہیں اور اپنی ماں اور بہنوں کی عصمت کی پروا کیے بغیر ان کے ساتھ نازیبا حرکت کررہے ہیں ۔ایسا لگتاہے ان فوجیوںمیں ضرور اسرائیلی سرایت کرگئے ہوں یا ان کو ذہنی غلام بنالیاگیاہو۔
اس کی وجہ واضح ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت اور نامناسب حالات پیداکرنے کی تمام ترکوششوں کے باوجود اسلام پسنداور مصرکے خیرخواہ نومنتخب صدرمحمد مرسی نے ایک سال کی قلیل مدت میں سابقہ حکومت کی برائیوں اور عوام کی بدحالی کو درست کرنے میں جس قدر تیزی سے کامیابی کی طرف گامزن تھے یہ بات اسلام دشمن کو بھلا کیسے برداشت ہوتی ،نتیجہ میں ان کو برطرف کردیاگیا۔
اس کی وجہ عالمی شہرت،عالمی قوت اورعظیم المرتبت ہونے کی خواہش رکھنے والے یہودکی مذکورہ آرزوہے،نبیؐ کے زمانے میں بھی یہود خودکو دیندار اور بڑے شمارکرتے تھے بقیہ کو ہیچ اورگرا ہواسمجھتے تھے ،حتی کہ اپنے دین اور مذہب میں بھی من مانی کرنے لگ گئے تھے۔ چنانچہ جیسے ہی آپ ؐ کونبوت سے سرفراز کیاگیا اور آپؐ رسالت کے اعلیٰ مقام پر فائزہوئے توان لوگوں نے آپؐ کی نبوت کا انکارکردیا جب کہ آپ ؐ کی آمدکی بشارت خودان کی کتابوںمیں بھی تھی۔  وہ صرف اس لیے کہ آپؐ چوں کہ ان کی قوم سے نہیں تھے اوریہ بھی کہ ایسی صورت میں ان کو شہرت اورمقبولیت کا شرف ان سے نکل کر دوسری قوم میں جاتا دکھائی دینے لگا تھا، جس پر وہ خود کوچھوٹا محسوس کرنے لگ گئے تھے جوان کے عناداورہٹ دھرمی کا سبب بنا۔
اس طرح ان یہودیوں کے دل میں انتقام کی آگ بڑھتی رہی جونبیؐ کے زمانے سے ابتک چلی آرہی ہے۔ جب حضورپاک ؐاپنے رفیق اعلی سے جاملے تب بھی ان کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی بلکہ رفتہ رفتہ اسلام کی خصوصیت نے عام لوگوں کے دلوںمیں گھرکرنا شروع کیا اوراسلام کی عالمی شہرت اورمقبولیت نے ان کے سینوںمیںاسلام کی نفرت کا شعلہ مزیدبھڑکادیا۔ پھران کی اسلام دشمنی اتنی بڑھ گئی کہ کفاراورمشرکین سے کہیں زیادہ وہ خوداس کے دشمن بن بیٹھے اوراپنے اس انتقام کی آگ بجھانے کے لیے دوسری قوموں کی مددلینی شروع کردی۔نتیجۃً قدرتی ذخائر ، پٹرول جیسی قیمتی چیز ابلنے اور اسلامی ممالک میں عرب ممالک کی اہمیت کے پیش نظر پہلے اس نے عرب ممالک پر اپنا تسلط جمانے کا منصوبہ تیار کیا اور وہاں کے حکمرانوں کو عیش آرام کے تکیے پر سلا کر حکومت کو کمزور بنادیا اورباہمی اختلاف وانتشار کی بیج بوکر حکمرانوں کے دلوںمیں حکومت کی خواہش کے جذبات کو ان کی مجبوری بنادیا اور ان کو ذہنی غلام بنا لیا گیااور حفاظتی انظامات کے نام پر اپنی فوج بٹھادی اور اس پر قبضہ جمالیا، یہی وجہ ہے کہ آج جب کہ مصرکوایک زمانے تک حسنی مبارک کی حکومت کی پریشانیوں اور ان کے ظلم ستم سے آزاد ہوکر نومنتخب صدرمحمد مرسی کی رہنمائی میں کامیابی کے منازل طے کرنے اورسکون کے ساتھ ترقی کی طرف گامزن ہونے کا موقع ملا، تو ان یہودیوں نے اسے اپنے ماتحت عرب ممالک حکمرانوں پر اپنا دھوس دکھایا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی وہی زبان بولنے لگے جو ان یہودیوں کا منشا تھااور یہ بھی اصل دہشت گردکو شہ دے کر پرامن مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہونے والے اپنے مصری بھائیوںکو ہی دہشت گرد قراردے رہے ہیں۔ عربوں کا جورویہ اب تک ان کے ساتھ رہاہے۔اس سے یہ بات بالکل صاف ہے کہ وہ ان یہودیوں کے غلام اور مصرمیں قتل عام کے ایک مجرم ہیں۔
آج مسلم دنیا کو اس بات پر شدید افسوس ہے کہ اس کا حکمراں کیا چاہتاہے ، اسے اسلام اور اس کا نظام پسند ہے ،یا عیش وآرام کی وہ کرسی جو اپنے ہزاروں بھائیوں کا خون بہانے اور ان اسلام دشمن لوگوںکے تلوے چاٹنے پر موقوف ہے۔کیا ان کا جسم شل پڑگیاہے کہ اس کے عضو کو کاٹا جارہا ہے اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا۔
اس طرح یہ یہود بے بہبود جنہوںنے نہ صرف مسلم ممالک کو ذہنی غلام بنارکھا ہے بلکہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور اسلام دشمن کا سردار ہونے کی حیثیت سے خود کو ہم چناں دیگرے نست سمجھ رکھا ہے اور اپنے زور ودبدبہ کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے مد مقابل جو صرف اور صرف اسلام ہی ہے ،کیوںکہ یہی اپنے اندرانسانیت کے لیے مکمل نظام حیات رکھتاہے ،اس سے خائف ہیں اور اس کو پسپا کرنے میں ہمہ تن مصروف ہے،شام، عراق، افغانستان اور مصر وغیرہ اس سلسلے کی کڑیاں ہیں، جس کے لیے وہ ہر ممکن قوت جھونک کر یا مسلمانوںمیں نفاق کا بیج بو کر یا دیگر متشدد قومیں ان کو ہتھیار بنا کر چمنستان جیسے ہندوستان میں اپنے مفادکے لیے کام کرنا، جس کا نظارہ ہمیں ہندوستان میں بسنے والوں کے درمیان ہندو مسلم منافرت کی زہرفشانی کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
جیساکہ پہلے ذکرکیا گیا کہ اسلام جوکہ خدائی نظام ہے،اپنی خوبیوںاور امن وسلامتی کومتضمن ہونے کی وجہ سے شہرت اور مقبولیت کے اعلیٰ مقام کو پہنچا جو ہمیشہ بلند رہے گا۔ اس پرآپؐ کا فرمان ہے کہ’’اسلام بلند ہونے کے لیے ہے اسے کوئی زیرنہیں کرسکتا۔‘‘ایسے میں اگراس کا کتناہی بڑا دشمن خواہ وہ کسی بھی شکل میں کیوںنہ ہواسے مغلوب نہیں کرسکتا۔
یہاں کئی سوالات ہیں۔مثلاً عراق کے مسلمانوں کو تباہ کیا گیا۔  کیا اسلام مغلوب ہوگیا؟ افغانستان کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی گئی۔ کیا اسلام ختم ہوگیا؟ مصراور ہندوپاک میں سازشیں رچ کراس کوبرباد کرنے کی کوششیں جاری ہیں جس کے لیے بڑے تجربے بھی کیے گئے ۔ تو کیا پاکستان اور ہندوستان سے اسلام کے ماننے والے ختم ہوگئے؟ ان سب کا جواب یہی ہوگا کہ نہیں!اور ایساہرگزنہیں ہوگا۔ کیوں کہ اسلام انسانوں کا بنایاہوا نظام نہیں ہے اورنہ اس میں کسی قسم کی ظلم وزیادتی ہے کہ لوگ اس سے نفرت کرے، بلکہ اس کا جودشمن ہے وہ اس کے خلاف اپنے حربے استعمال کررہاہے، جس کے لیے وہ طرح طرح کی سازشیں رچتا ہے، تاکہ وہ اپنے انتقامی مشن میں میاب ہو۔اسے ہروہ چیز ناپسندہے جو اسلام کی خوبی ہے اوراس میں انسانوں کا مفادمضمرہو۔
اس پس منظرکوسامنے رکھتے ہوئے اب یہ طے کرناچاہیے کہ و ہی نظام قابل عمل ہوگا، جو تمام انسانوںکواس کے جینے کا پوراپوراحق دے اور کسی کوکسی دوسرے پرکسی طرح کی ظلم وزیادتی کا حق نہ ہو، سماج سے بے حیائی کا خاتمہ ہو،معاشرے میں امن وسکون کاماحول ہو۔یہ تب ہی ممکن ہے جب اسلام کوصحیح طرح سے پڑھااورسمجھاجائے اوراس پرعمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
تب ہی ہم یہ یقین کے ساتھ کہہ سکیںگے کہ خواہ امریکہ ہوجس نے انسانیت کا قتل عام کیا،یااقوام متحدہ جس میں امن پسندی کی بات کہی توجاتی ہے مگرہوتااس کے خلاف ہے،یاہندوستان کے امن وسلامتی کو پامال کرنے والے اسرائیل نواز ہندوستان کاایک گروہ جوقوم کی آپسی محبت اور بھائی چارگی کے ماحول کوخراب کرتے ہوئے ان میں قومیت کا بیج بو کر انسانیت کا گھلا گھونٹ رہاہے،جس کی مثال گجرات فساد ہو یا مکہ مسجدبم دھماکہ یا پھر اجمیرکا حادثہ ہو یا روزمرہ کے ہونے والے فسادات کی شکل میں دیکھنے کوملتی ہے۔یہ لوگ مفادپرست توہوسکتے ہیں مگرحق پرست اورامن پسندنہیں۔ یہی لوگ اصل میں دہشت گرد ہیں جو مفاد پرست میڈیا کے ذریعے عوام کی نگاہوںمیں دھول جھونک کر دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کے نام پرپوری دنیا میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔

اس لیے اس کے ا صل محرک،  جس ذکر کیا گیا اس کی سازشوں کو سمجھتے ہوئے مسلمانوں کو ہرممکن اپنی اجتماعیت کو برقرار رکھنا ہوگا۔ ایمانی حمیت کا ثبوت دیتے ہوئے اسلام کے نظام حیات اور غلبہ ٔ  دین کی سعی وجہدکرنے والوں کو،خواہ وہ  دنیا کے کسی حصے میں ہو ،اگر ان پر ظلم ہو تو اس کا احساس دوسرے مسلمانوں کو ہو اور وہ اس کے دفعہ کی کوشش کریں،انھیں بے یار و مدد گا نہ چھوڑیں اور ایک سچے پکے مسلمان ہوکر یکجہتی، باہمی اتحاد و اتفاق کا ثبوت پیش کریں تاکہ حق وباطل کا مقابلہ ہوتوحق غالب رہے۔

Saturday 20 April 2013


ایثار- پرامن معاشرے کی اہم ضرورت

آج دنیا کے ماحول پرمادیت کا غلبہ ہے۔  خواہش نفس کی پیروی نے نیکی اوربدی کی پہچان کو بھی بدل دیاہے۔ خودغرضی نے انسانیت کی قدریں مٹادی ہیں۔معیار زندگی بلندکرنے کی ہوس نے لوگوں کوبدعنوانی کے جال میں پھنسا رکھاہے۔ انس و محبت کے خمیرسے پیدا کیا گیا انسان درندہ صفت حیوان بن گیاہے ۔ وہ ایک دوسرے کے خون سے اپنی پیاس بجھانے کے لیے بے قرارہے۔ امیرغریبوں،بے بسوںاورلاچاروں کے خون پسینے کا کار وبار کرنے لگا ہے اوراسی سے اپنی زندگی کی عالیشان عمارت کھڑی کرتاہے۔
خودغرضی نے پوری انسانیت میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیداکردی ہے۔ اس خطرناک مرض کایہ حال ہے کہ اسے کوساجاتاہے مگراس کے علاج کی فکر نہیں ہوتی ۔لیکن اس بیماری کا ایک یقینی علاج موجودہے جس نے ساڑھے چودہ سوسال قبل ایسے ہی پراگندہ ماحول کو خوشگوار فضامیں تبدیل کردیاتھا۔یعنی اسلام!  اس فضا کی عکاسی کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے  ؎
ہو خلق حسن یا کہ ہو ایثار وفا پیار
ہر چیز یہاں پر بہ صد انداز جلی ہے

اسلام نے انسانوں کو بتایا کہ مخلوق اپنے خالق کا کنبہ ہے (الخلق عیال اللہ) ۔  اسلام کی دعوت کا بنیادی سبق ایثار ہے۔

ایثارکی تعریف
انسان کا ا پنی ضرورت پر دوسروںکی ضروریات کو ترجیح دینا۔ مثلاً بھوک کی شدت کے باوجودکسی بھوکے شخص کو اپنا کھاناکھلانا۔ یہ ایثارہے۔
قرآن کریم میں اہل ایمان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہاگیاہے :
اور اپنی ذات پر دْوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔ (الحشر:9)
اس آیت کی شان نزول کے ذیل میں ایک واقعہ کتب حدیث میں مذکور ہے، جوبڑا مؤثر اورسبق آموز ہے۔ اس سے ایثارکی اہمیت کا اندازہ بہ خوبی لگایاجاسکتاہے:
ایک بار ایک فاقہ زدہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں حاضر ہوا، سوئے اتفاق سے اس وقت آپ ﷺ کے گھرمیں پانی کے سواکچھ نہ تھا، اس لیے آپؐ نے مجلس میں موجود صحابہ کرام کو مخاطب کرکے فرمایا:آج کی شب کون اس مہمان کا حق ضیافت ادا کرے گا؟ ‘‘ ایک انصاری صحابی جن کا نام ابوطلحہ ؓ تھا انھوں نے کہا ‘‘میں یا رسول اللہ ﷺچنانچہ وہ اس کو ساتھ لے کر اپنے گھر آئے، بیوی سے پوچھا کھانے کوکچھ ہے؟ بولیں صرف بچوں کا کھاناہےبولے بچوں کوتوکسی طرح بہلادو، جب میں مہمان کو گھرلے آؤں تو چراغ بجھادو اور میں اس پر ظاہر کروں گا کہ ہم بھی ساتھ کھارہے ہیں ، چنانچہ انھوں نے ایساہی کیا، صبح کو آپﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’رات میں تمہارے عمل سے اللہ تعالی بہت خوش ہوا ۔
 (بخاری ومسلم)
دوسروں کے دکھ دردکواپنا دکھ دردسمجھنا اور اپنی تکلیف کوبھول کردوسروں کی پریشانی دورکرنے کے لیے بے قرارہوجانا ہی ایثارہے، اس جذبہ کو ابھارنے کے لیے نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:
لایومن احدکم حتی یحب لاخیہ مایحب لنفسہ                                            (متفق علیہ)
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن (کامل) نہیں ہوسکتا جب تک وہ دوسروں کے لیے بھی وہی چیز نہ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔(متفق علیہ)
سیرت نبوی ؐ کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی ایثاروقربانی سے عبارت تھی۔ رحمت عالم ﷺپوری انسانیت کے لیے ہمہ وقت بے قراررہتے تھے۔ان کی نجات کی فکر آپ ؐکو بے قراررکھتی تھی قرآن کہتاہے :
’’اچھا ، تو اے نبیؐ! شاید آپؐ ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہیں اگر یہ اس تعلیم (قرآن) پر ایمان نہ لائیں۔(کہف:6)‘‘
آپؐ اصحاب کی ضروریات کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ بیت المال میں کچھ آتاتو آپ تقسیم کردیتے تھے ،اگرکچھ نہ ہوتاپھربھی سائل کوواپس نہیں کرتے آپ فرماتے،جوکوئی اس کی مددکرے گا میں اس کا قرض داررہوںگا۔ایک موقع پر آپ ﷺ نے یہ اعلان فرمایا:
انا  اولی  بکل مؤمن من نفسہ،  من ترک مالا فلاہلہ،  ومن ترک دینا او ضیا عا  فالی وعلی۔ (مسلم)
جوکوئی مال واسباب چھوڑکر مرے گاوہ اس کے وارث کا حق ہوگا مگرجوکوئی قرض چھوڑکرمرے گا اسے میں اداکروں گا ۔
یہاں ٹھہرکر غورکرنے کی ضرورت ہے۔ آج دنیا میں ایسے کتنے ہی مقروض ہیں جو قرض سے پریشان ہیں۔ ان کے پاس اتناپیسہ نہیں ہوتا کہ اپناقرض اداکرسکیں ، ساتھ ہی دنیا میں ایسے بے شمارمال دارلوگ ہیں جواگرتھوڑی توجہ دیں توایسے لوگوںکا مسئلہ حل ہوجائے۔یاکوئی بیت المال کا مؤثرنظم ہے تواس قرض کی ادائیگی ہوجائے۔نبی کریم ؐکے بارے میں روایات میں آتاہے کہ اکثر فاقہ کشی میںکی نوبت آجاتی اور ایسا نہیں ہوتاکہ آپ نے تین روزتک مسلسل آسودہ ہوکرکھاناکھایاہو۔
حضرت عائشہ  ؓ فرماتی ہیں:
 ما شبع رسول اللہ ﷺ ثلاثۃ ایام متوالیۃ حتی فارق الدنیا، ولو شئنا لشبعنا، ولکنا کنا نؤثر علی انفسنا.
(بیہقی شعب الایمان)
نبی کریم ﷺتادم حیات کبھی مسلسل تین روز پیٹ بھرکرکھانانہیں کھایا،اگرہم چاہتے توخوب شکم سیر ہوسکتے تھے، لیکن ہم اپنے اوپر دوسروںکو ترجیح دیتے تھے۔
متعددروایات میں ہے کہ کوئی شخص آپ سے اپنی ضرورت کی کوئی چیز مانگ لیتا  تو اسے خود پر  ترجیح دیتے ہوئے وہ چیزاسے عنایت فرمادیتے تھے:
’’حضرت سہل بن سعد ؓ فرماتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک بنی ہوئی چادرلے کر آ:ی اور کہنے لگی ، اے اللہ کے رسول ؐمیں نے اسے اپنے ہاتھ سے بناہے تاکہ آپ کو پہناؤں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے قبول فرمالیا، پھرآپؐ اسے تہ بند کے طورپر باندھ کرہمارے درمیان تشریف لائے توایک صحابیؓ نے کہا: یہ آپؐ مجھے پہنادیں کس قدرخوبصورت ہے یہ چادر! آپؐ نے فرمایا: اچھا۔پھرنبی کریم ؐ مجلس میں بیٹھ گئے ،پھرواپس گئے اورا س چادرکواتارکرلپیٹا اور اس کو اس آدمی کے پاس بھیج دیا۔ پس لوگوںنے اس سے کہا:نبی ؐ نے چادراپنی ضرورت سمجھ کر پہنی تھی ،لیکن تم نے اسے  آپﷺ  سے یہ مانگ لیا اورتمھیں یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کسی سائل کوواپس نہیں کرتے۔ اس نے کہا ، اللہ کی قسم! میں نے یہ پہننے کے لیے نہیں مانگی ،میں نے تویہ اس لیے مانگی ہے تاکہ (آپ ؐ کے جسم مبارک سے لگی ہوئی بابرکت چادر)میرا کفن بن جائے۔راوی فرماتے ہیں کہ یہ چادر اس کے کفن کے ہی کام آئی۔‘‘ (بخاری)

ایثار اوراسوۂ صحابہؓ
 اثیارکے جذبہ کو  ہم صحابہ کرام ؓ کی زندگی میں بھی بدرجہ اتم دیکھ سکتے ہیں،  انھوں نے اسے اپنی زندگی کا وصف لازم قراردیاتھا ۔  حضرت ابوطلحہ کی مثال اوپر گزری۔  ایک دوسراواقعہ ،  جوبہت مؤثر اورسبق آموزہے ، بیشتر کتابوں میں اسے ایثارکے باب میں درج کیا گیاہے۔ یہ نادرمثال ہمیشہ انسان کے اندرایثار کی روح پھونکتی رہے گی۔
جنگ یرموک  میں حضرت عکرمہ ؓ ،حضرت حارث بن ہشام ؓ ،حضرت سہیل بن عمروؓزخم کھا کر زمین پر گرے اور اس حالت میں حضرت عکرمہ ؓ نے پانی مانگا،پانی آیاتودیکھا کہ حضرت سہیل ؓ پانی کی طرف دیکھ رہے ہیں ،بولے‘‘پہلے ان کو پلاآؤ حضرت سہیل ؓ کے پاس پانی آیا تو انھوں نے دیکھا کہ حضرت حارث ؓ کی نگاہ بھی پانی کی طرف ہے ،بولے‘‘ان کو پلاؤ نتیجہ یہ ہوا کہ کسی کے منہ میں پانی کا ایک قطرہ نہ گیا اورسب نے تشنہ کامی کی حالت میں جان دی۔
(اسوہ صحابہؓ ج:اول،ص:۱۵۶)
اگرکوئی ہم سے ہماری محبوب چیز مانگ لے توکیا ہم دے سکتے ہیں؟بسااوقات ایک چیز کئی لوگوںکوپسند ہوتی ہے ، جسے حاصل کرنا اپنا مقصدبنا لیتے ہیں ، کبھی کبھی وہ چیزاناکا مسئلہ بن جاتی ہے اور قتل وخوںریزی تک نوبت آجاتی ہے۔یہاں انسان کے ایثارکاامتحان ہوتاہے۔ صحابہ کے ایثار کی ایک نمایاں مثال یہ بھی ہے کہ حجرۂ عائشہ ؓ میں اللہ کے رسول ؐ اورحضرت ابوبکرؓ کی تدفین کے بعد صرف ایک قبرکی جگہ بچی تھی۔ حضرت عائشہ ؓ  نے اسے اپنے لیے خاص کررکھاتھا، لیکن جب حضرت عمرؓ نے ان سے وہ جگہ مانگ لی، تو انھوں نے ایثار سے کام لیتے ہوئے وہ جگہ ان کی تدفین کے لیے اسے دے دی ۔حضرت عائشہ ؓ خود بیان فرماتی ہیں:
کنت اریدہ لنفسی ولأوثرن بہ الیوم علی نفسی۔(بخاری)
میں نے خوداپنے لیے اس کو محفوظ رکھاتھا ،لیکن آج اپنے اوپرآپ کو ترجیح دیتی ہوں۔
حضرت عائشہ ؓ کا ایک اورسبق آموزواقعہ جوکی خواتین کے لیے بے حد موثرہے نقل کیاجاتاہے:
ایک مسکین نے حضرت عائشہ ؓ سے کوئی چیز مانگی جب کہ آپ ؓ روزے سے تھیں اورسوائے روٹی کے گھر میں کچھ نہ تھا، آپ نے خادمہ سے کہا کہ یہ روٹی اسی کو دے دو۔خادمہ نے کہا کہ اس کے علاوہ گھر میں کچھ نہیں ہے آپ افطار کریں گی؟پھربھی آپ نے یہی فرمایاکہ یہ اسے ہی دے دو۔چنانچہ خادمہ نے اس کو یہ روٹی دے دی۔شام کے وقت ان کے پاس ایک بکری کاپکاہواسالن ہدیہ کے طور پرآیا ۔ توعائشہ ؓ نے اس سے فرمایا کہ اس سے کھاؤ یہ اس ٹکڑے سے بہتر ہے۔    (بیہقی شعب الایمان ،فصل :ایثار)

 ایثار اسلامی معاشرے کی خصوصیت
جذبہ ایثار اسلامی معاشرے کی ممتاز خصوصیت تھی ۔صحابہ کرامؓ نے ہمیشہ دوسروںکے دکھ درد اورضروریات کومحسوس کرتے ہوئے ،انھیں خود پر ترجیح دی ۔اس بنا پر قرآن نے انھیں رحماء بینہم کا اعزازبخشاہے۔ چندواقعات درج ذیل ہیں:
(الف)   ایک مرتبہ حضرت عمربن الخطاب ؓنے ایک شخص کا واقعہ بیان کیا:
ایک شخص نے ایک بکری کا سرہدیہ کے طور پر کسی کے گھربھجوایا۔جس کو دیا گیا اس نے کہا کہ اسے میرے فلاں بھائی کو دے دو کہ وہ مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہے ، جس شخص کے پاس اسے بھجوایاگیا۔ اس نے اسے دوسرے کے گھربھجوادیا۔ اس طرح وہ مسلسل سات گھروں سے منتقل ہوتا ہوا دوبارہ اس پہلے شخص کے پاس پہنچ گیا۔
                                                                (بیہقی شعب الایمان ،فصل:ایثار)
(ب)   ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے چارسو دینار  سے بھرہوئی تھیلی، اپنے غلام کو دیتے ہوئے فرمایا کہ اسے حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح ؓ کے پاس لے جاؤ، پھر وہیں  کچھ دیر رکے رہوتاکہ تم دیکھ سکو کہ وہ کیا کرتے ہیں؟  حضرت ابوعبیدۃ بن الجراح ؓنے پہلے تودعادی پھر تھیلی لی اور  اپنی باندی کو بلاکرکہا کہ اس تھیلی سے سات دینا رفلاں کو دے آ،  پانچ فلاں کو،حتی کہ سارامال تقسیم کردیا ،  اپنے لیے کچھ نہ رکھا۔ اسی مقدار کے دینار  حضرت عمرؓ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو بھی روانہ کیے۔ انھوں نے بھی ویسا ہی کیا  جیسا  کہ حضرت ابوعبیدہ ؓنے کیا تھا۔  حضرت معاذ ؓ  کی بیوی نے ان سے کہا  کہ بخدا ہم بھی مسکین ہیں۔  کچھ تو روک لیجئے، اس وقت تھیلی میں صرف دودیناربچے تھے سو ان کو دے دیے۔ غلام نے حکم کے مطابق آکر واقعہ کی تفصیلی خبردی تو حضرت عمرؓ اس سے بے انتہا خوش ہوئے ۔‘‘
(ج)   انسان کسی کو کوئی قرض دیتا ہے توپھر وہ اس کا حق ہے کہ وہ ایک وقت متعینہ پر اسے وصول کرلے ، اگر مقروض مجبوری یاتنگ دستی کی وجہ سے ادانہیں کرپارہاہے تو اسے مہلت دی جانی چاہیے ۔ بہر صورت قرض ایک حق ہے، جسے دینے والا وصول کرسکتاہے ۔اگر معاف کردے تو یہ ایثار کی ایک بڑی مثال ہوگی۔ایسا ہی ایک واقعہ حضرت قیس بن سعدبن عبادۃ کا ہے،جو فیاضی میں کافی مشہور تھے:
جب آپ ؓ بیمار ہوئے تو لوگوںکی ایک بڑی جماعت آپ کی عیادت کو نہیں آئی ، وجہ معلوم کی گئی توپتہ چلاکہ وہ آپ سے لیے گئے قرض کی ادائی نہ ہونے کے باعث شرمندگی کے سبب نہ آسکے ۔توحضرت قیسؓ نے فرمایاکہ اللہ کی رسوائی ہو ایسے مال پر جو لوگوںکوملاقات سے روک دے۔ پھرآپ نے یہ اعلان کروادیاکہ جن لوگوں پر ان کا قرض ہے وہ سب معاف ہے۔   (مدارج السالکین)

ایثارانفرادی وصف
ایثارزندگی کے ہرشعبے میں مطلوب ہے۔اس وجہ سے اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ یہ جس طرح مامورین کے لیے ضروری ہے ،اسی طرح صاحب امر کے لیے بھی ضروری ہے۔ ایک قائد بسااوقات بڑی آسانی سے کہہ دیتا ہے کہ رعایا کو ایثاراورہمدردی سے کام لیناچاہیے، لیکن خود اس کا رویہ اس کے برعکس ہوتاہے وہ خودکسی قسم کی قربانی اورایثارکے لیے تیار نہیں ہوتا،اس کی عملی زندگی اس کی باتوں کی تردیدکرتی ہے۔ چنانچہ اس کی بات میں کوئی تاثیرنہیں ہوتی۔دوسری طرف عوام اپنے قائدین سے ایثارکی توقع رکھتے ہیں مگر خود ان کی زندگی اس سے عاری ہوتی ہے۔
جب تک ایثار کی کیفیت تمام افراد میں پیدانہ ہوگی اس وقت تک شر وفسادکا ماحول نہیں بدل سکتا نہ بہتری کی توقع کی    جاسکتی ہے۔بلکہ خودغرضی کی آگ تیز ہوتی چلی جائے گی جس سے سماج جھلستارہے گا۔ایثارہی وہ پانی ہے جواس آگ کوبجھاسکتاہے۔

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...