Tuesday 30 October 2018

Yaqeen Mahkam Amal Paiham



یقیں محکم عمل پیہم

ہم سب مسلمان ہیں پر کیا واقعی مسلمان ہیں؟ کیا ایمان والوں سے ایمان کا مطالبہ نہیں کیا گیا؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ :
ہم نے اپنے حصے کا کام چھوڑا تو باطل اور ٹائم کرنے لگے اور تاریکیوں  نے پیر پسارنا شروع کردیا؟
ہم نے غیر مسلموں میں افہام تفہیم کا عمل چھوڑا تو وہ ہمارے اسلامی شعائر پر ہی حملہ آور ہو گئے؟
ہم نے اپنا نعرۂ تکبیر چھوڑ دیا تو ظالموں نے ظلم کا نعرہ بنلد کرنا شروع کردیا؟
ہم نےبہادری اور بے باکی کا گلا گھونٹ کر بزدلی کی راہ اپنائی تو ہمارے نوجوان بوڑھے بچے سب یک بعد دیگر موت کی گھاٹ اتارے جانے لگے؟
ہم نے دنیا کی چمک دمک، اونچی اونچی عمارت پر توجہ دی اور تعلیم سے دوری بنائی تو پھر فسطائی طاقتوں  نے ہمیں زمیں بوس کر نے کے فراق میں لگ گئے اور ہمیں موم کی ناک سمجھ کر جدھر چاہا ادھر موڑ دیا۔
ہماری شناخت اشدآء علی الکفار رحماء بینہم کی تھی جب ہم نے اس بر عکس پہچان بتائی تو ہمیں نیمبو کی طرح نچوڑ دیا گیا۔
ہماری زندگی مومنانہ ہونی چاہیے تو ہم نے (نعوذباللہ) طرز کافرانہ اختیار کیا۔
زوال و پستی کے اتنے سارے اسباب موجود ہیں پھر ہم زوال امت کے اسباب تلاش کر رہے ہیں۔ جب کہ قرآن کا اعلان ہے:
لاتہنوا و لا تحزنوا وانتم الاعلون ان کتنم مؤمنین (آل عمران:139)
تم نہ دل برداشتہ ہو اورنہ غم گین ہو، تم ہی سربلند رہوگے بشرط کہ تم مومن ہو۔
دریاؤں میں  گھوڑے دوڑانے والے اپنے یقین محکم اور عمل پیہم سے زمانے کا رخ موڑ سکتے ہیں۔
ورنہ نام کے مسلمانوں کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
 تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا الہ الا
لغت غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی
محب اللہ قاسمی


Monday 29 October 2018

Woh tere Nare Takbeer se Larazte the


وہ تیرے نعرۂ تکبیر سے لرزتے تھے

تاریخ شاہد ہے کہ ظلم جتنا سہا گیا، اس پہ جس قدر خاموشی اختیار کی گئی یا انصاف میں جتنی تاخیر ہوتی رہی ،ظلم اسی قدر بڑھتا گیا، ظالموں کے حوصلے اسی قدر بلند ہوتے گئے.معاشرہ میں فساد اور انسانیت سوز واقعات اتنے ہی بڑھتے گئے۔ اس وقت پوری دنیا سمیت ہمارے وطن عزیز کا بھی یہی حال ہے۔ظالموں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اس پر اٹھنے والی آواز سختی سے دبا ئی جا رہی ہے۔مظلوم انصاف کا لفظ سننے کو ترستا  ہوا دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ مگر اسے  انصاف نہیں ملتا۔ اس طرح بے قصور کی پوری زندگی محض الزام کی نذر ہوکر تباہ کر دی جا رہی ہے۔ 

ظلم سہنے  کا یہ عالم ہے کہ پے در پے اس ظلم کا شکار کسی خاص مذہب یا گروہ کے لوگ نہیں ہوتے بلکہ پوری انسانیت اس کی زد میں ہے۔ خاص طور پر جب کوئی مسلمان یا پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد ہو تو پھر اس کا خون بہانا ان ظالموں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں  رہ جاتی۔خواہ وہ بزرگ ہو یا ادھیڑ عمر کا یا پھر کوئی معصوم سا بچہ۔ نفرت کے سودا گر، سیاست کی روٹی سیکنے والے ان کے خون سے پیاس بجھا کر اپنے کلیجے کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔جب کہ ان مٹھی بھر فاسد عناصر کو دنیا تماشائی بنی دیکھتی رہتی ہے اور ظلم پر لب کشائی کو جرأت بے جا یا مصلحت کے خلاف تصور کرتی ہے۔

دوسری طرف مسلمان جس کا فریضہ ہی دنیا میں اللہ کے بندوں کو معرفت الٰہی سے روشناس کرانا ،عدل و انصاف کے ساتھ امن و امان قائم کرنا  اور ظلم و غارت گری کو جڑ سےختم کرنا ہے۔ وہ دنیا کی چمک دمک میں ایسا مست ہے کہ اسے عام انسان تو درکنار خود اپنے  نوجوان ، بچے، بوڑھے کی شہادت اور ان کے بہیمانہ قتل پر بھی کچھ درد محسوس نہیں ہوتا ۔اگر کوئی اپنا قریبی رشتہ دار ہے تو چند روز آنسو بہا کر خاموش ہو جانا ،  پھر چند ایام کے بعد ایسے ہی فساد کا شکار دوسرا کوئی مارا جاتا ہے، تو کچھ روز گریہ و زاری کر لینا اس کا مقدر بن چکا ہے۔ ہمارے قائدین، جو قوم و ملت کی قیادت کا فریضہ انجام دیتے ہیں، وہ اخبارات میں ان واقعات کی کھلی مذمت تو ضرور کرتے ہیں، مگر کوئی ایساٹھوس لائحہ عمل تیار کر کے عملی اقدام نہیں کر تے جس سے آئندہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں ، ان کی قیادت پر اعتماد بحال ہو اور دل و جان سے ان پر قربان ہونے کو تیار رہے. 

جب کہ تاریخ نے انھیں ان کا مقام بتایا، اسلام نے ان کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا، ماضی کے واقعات نے ان کو اپنے فریضہ کی ادائیگی کا سلیقہ سکھایا اور نعرہ تکبیر نے ان کے اندر حوصلہ دیا کہ وہ ظالموں کو لرزا بہ اندام کرتے ہوئے ان کے ہی میدان میں انصاف کا جھنڈا گاڑ دیں۔ اسلام نے سسکتی انسانیت کو  جینے کے بنیادی حقوق دیے،ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ ساتھ ہی ظالموں کی سرکوبی کے لیے مسلمانوں کو باہمت،باحوصلہ اور بہادر بننے کی ترغیب دی۔مومن کو ایمانی اور جسمانی ہر اعتبار سے مضبوط بننے پر زور دیا۔ قرآن پاک اور احادیث رسول  میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ بزدلی کو مومنانہ شان کے منافی قرار دیتے ہوئے مومن بزدلی کے قریب بھی نہ پھٹکے اور اس سے بچنے کے لیے اللہ سے دعا کرتے رہنے کی تعلیم دی۔

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ (بخاري)
”اے اللہ! میں رنج و غم سے ،عاجزی و سستی سے،کنجوسی  اور  بزدلی سے، قرض کے غلبہ اور لوگوں کے تسلط سے تیری پناہ مانگتا ہوں“

اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے جب تک ہم عمل کا رد عمل پیش نہیں کرتے اور اس رد عمل کے لیے ٹھوس لائحہ عمل تیار کرکے اسے عملی جامہ نہیں پہناتے  تو دادری کے اخلاق سے دہلی کے عظیم تک قتل و خوں ریزی کا طویل سلسلہ جاری رہےگا ۔ بلکہ یہ سلسلہ مزید دراز ہوتا چلا جائے گا.
ہم دنیا کی محبت میں گرفتار، بزدلی کے شکار اپنا سب کچھ ختم کر لیں گے۔ دنیا تو تباہ ہوگی ہی ، آخرت میں بھی خسارے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا اور ہماری نسلیں ہمیں کوسیں گی کہ ہمارے آباواجداد نے اتنی قربانیاں دیں۔ ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا اوربعد میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں غلام بنا لیے گئے۔ ہمارےاتنے سارے ادارے قائم تھے پھر بھی ہمارا دینی تشخص، بنیادی حقوق، اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی آزادی سب سلب کر لی گئی اور ہمیں کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر حالات میں لاکھڑا کردیا۔
عقل مند انسان وہی ہے جو پرفریب دنیا کی چاہت سے آزاد ہو کر مسقبل کو بہتر بنانے کے لیے ماضی سے سبق لے کر حال میں اپنی پوری جد وجہد صرف کردے۔
(محب اللہ قاسمی)

Bhatak na Jaye phir insan rah dikhao zara


غزل

بھٹک نہ جائے پھر انسان رہ دکھاؤ ذرا
چراغ پھر سے اندھیروں میں تم جلاؤ ذرا

وہ تیرے نعرہ تکبیر سے لرزتے تھے
لگاؤ پھر وہی نعرہ انھیں ڈراؤ ذرا

جو مانگ لیتے سلیقے سے جان دیدیتے
مگر دغا سے تمہیں کیا ملا بتاؤ ذرا

وہ دے گیا ہے دغا جس سے کی وفا برسوں
وفا کی کس سے اب امید ہو بتاؤ ذرا

اگر غزل میں تمہاری دوائے درد بھی ہے
تو آؤ میرے قریب اور غزل سناؤ ذرا

رفیق منزلیں آسائشوں سے بھاگتی ہیں
تمہارے پیٹ پہ پتھر ہے کیا دکھاؤ ذرا
(محب اللہ رفیق)



Sunday 21 October 2018

باوقار مربی اور باکمال متعلم



باوقار مربی اور باکمال متعلم

جب میں 2008میں مرکز جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوا اور یہاں کے مخلص کارنوں سے میرا تعارف ہواتو ان میں سے ایک صاحب کو میں نے بہت ملنسار، خوش مزاج اور مرکز کے تمام کارکنان سے اپنے رشتہ داروں جیسا معاملہ کرنے والے منکسرالمزاج، عالی ظرف پایا۔ وہ تھے جناب محمد اشفاق احمد صاحب،جو 20 اکتوبر 2018 کی صبح اپنے بہت سے محبین و متعلقین کو روتا بلکتا چھوڑ، اس دار فانی سے رخصت ہو کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے.  إنا للہ و انا الیہ راجعون.

جناب اشفاق صاحب کے لیے لفظ ’مرحوم‘ لکھتے اور بولتے ہوئے دل پر ایک عجیب سا جھٹکا لگتا ہے، مگر موت ایک ناقابل انکار حقیقت اس لیے یہ سوچ کر کہ اس دنیا میں کوئی بھی انسان ہمیشہ کے لیے نہیں آیا، اسے ایک نہ ایک دن یقیناً اس دنیا سے کوچ کرنا ہے، سو آپ بھی ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے.

آپ شعبۂ تعلیمات کے سابق مرکزی سکریٹری ہونے کے ساتھ رکن مجلس نمائندگان، بانی و صدر الحرا ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی اورنگ آباد اور سابق صدر ایس آئی او کے بھی رہ چکے ہیں. خلوص و للہیت کے ساتھ اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کی انجام دہی، اللہ پر بھروسہ اور جہد مسلسل میں یقین رکھتے ہوئے آخری سانس تک متحرک رہنے کا عزم اور دوسروں کو ایسے  ہی تیار کرنا ان کا خاصہ تھا.  

ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ آپ کو عربی زبان سیکھنے کا بھرپور شوق تھا، جو جنونی درجہ تک پہنچا ہوا تھا. لہٰذا کچھ لوگوں کو جوڑ کر باقاعدہ عربی زبان سیکھنے کے لئے پر عزم موصوف نے ایک ایسے نوجوان استاذ کا انتخاب کیا جس کے آپ خود مربی تھے۔ اکثر دفتر سے نکل کر مسجد جاتے ہوئے اس سے اس کے احوال پوچھتے اور صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر زور دیتے تھے، مرکز جماعت کے کیمپس میں واقع مسجد اشاعت اسلام کے مکتب کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے اکثر اسے مختلف درجوں کے معائنے کا حکم دیتے تھے، جسے وہ بہ رضا و رغبت قبول کر اپنے لیے باعث فخر محسوس کرتا.
مگر عربی زبان سیکھنے کے لیے انھوں نے اسے حکم نہیں دیا، بلکہ اپنے عالی ظرف ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اس سے  کچھ وقت نکالنے کی بات کی اور حسب  توقع وہ نوجوان اس کام کے لیے تیار ہو گیا.

اس طرح ایک باوقار مربی ایک  با کمال متعلم بن کر تقریباً دو سال تک عربی کی بنیادی کتابیں پڑھیں اور قرآن کے ترجمے پر غور و فکر کرنے کے لیے سورہ ٔبقرہ کی ابتدائی رکوع کو پورا کیا ۔انھوں نے اپنی پوری زندگی تعلیمی خدمات میں لگاتے ہوئے اپنے اس عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ علم حاصل کرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ جب بھی موقع ملے کچھ نہ سیکھتے رہنا چاہیے.

راقم کے لیے ان کا دنیا سے رخصت ہوجانا ایک بڑا سانحہ ہے۔ وہ میرے مربی تھے اور مجھ سے عربی سیکھنے والے متعلم بھی. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کے  گناہوں کو معاف کرے، انھیں جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے، ان کے تمام لواحقین و متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائےاور امت کو ان کا نعم البدل عطا کرے. آمین یا رب العالمین.
محب اللہ قاسمی

Thursday 18 October 2018

Who is He?



وہ کون ہے؟
انسان کی عقلی پرواز کی انتہا یہ ہے کہ اسے اپنے رب کی معرفت حاصل ہوجائے اور وہ اس کے احکام کی پابندی سے اپنی زندگی کو بامقصد اور کام یاب بنا سکے ،اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو پہچانے کیوں کہ اللہ تعالی نے خود انسان کی پیدائش اور اس کے وجود میں بڑی نشانیاں رکھی ہیں۔ایک مشہور مقولہ ہے: من عرف نفسہ فقدعرف ربہ (جس نے خود کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
جب انسان خود پر غورکرے گا تو اسے یہ ضرور خیال آئے گا کہ  وہ ایسے ہی زمین پر نہیں آ گیا ہے، بلکہ اسے ضرور کسی نے بنایا ہے اور اسی نے اس کو بھی پیدا کیا ہے۔ وہی سارے جہان کا خالق و مالک ہے۔ اس کے حکم سے دنیا کا سارا نظام چل رہا ہے۔ وہی سب کو مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے۔ انسان اس پر بھی غور کرے گا کہ وہ رب ہے کون ، جس کے دم سے سورج ،چاند،ستارے سب گردش میں ہیں۔ آسمان سے بارش کا برسنا، زمین سے پیڑ پودوں کا نکلنا، درختوں سے پھل ، کالی بھینس سے سفید دودھ ، پھول کا رس چوسنے والی مکھیوں سے صحت بخش شہد ، سمندروں کی طغیانی ، ہواؤں کی روانی اور انسانوں کو پچپن بڑھاپا اور جوانی کون دیتا ہے؟
ظاہر ہے اس کا جواب ہوگا کہ وہ صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے،جس کی قدرت میں ساری چیزیں ہیں ۔ وہ اکیلا سب کا مالک ہے، جسے لوگ مختلف ناموں سے جانتے ہیں اور اس سے فریاد کرتے ہیں۔اللہ تعالی انسانوں کو اپنی ذات اقدس کی  معرفت پر غور فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ وہ قرآن پاک میں فرماتا ہے:
(اس حقیقت کو پہچاننے کے لیے اگر کوئی نشانی علامت درکار ہے تو ) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اُن کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں ، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں ، اُن کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں ، بارش کے اس پانی میں ، جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور (اپنے اسی انتظام کی بدولت )زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے ،ہوائوں کی گردِش میں ، اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابعِ فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں ، بے شمار نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ: 164)
انسانوں کی زندگی کا مقصد اللہ تعالی کی عبادت اور اس کے احکام کی اطاعت ہے ۔ اس کےلیے  اس کی معرفت ضروری ہے۔ مَنْ لَمْ یَعْرِفُہٗ کَیْفَ یَعْبُدُہٗ   (جو اپنے رب کو نہیں جانتا وہ کیسے اس کی عبادت کر سکتا ہے)۔
محب اللہ قاسمی

Wednesday 17 October 2018

غربت سے خاتمے کا عالمی دن


غربت سے خاتمہ گرممکن نہیں پر اسے کم تو کیا جاسکتا ہے؟
17 اکتوبر کو دنیا بھر میں غربت کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن دنیا بھر میں غربت، محرومی اور عدم مساوات کے خاتمے، غریب عوام کی حالت زار اور ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے سمینار، مذاکروں، مباحثوں اور خصوصی پروگراموں کا اہتمام کیا جا تا ہے۔
یہ دن منانے کا سلسلہ  1993ء سے بدستور جاری ہے۔25 برسوں سے یہ عالمی دن منا یا جا رہا ہے۔ اس دن سے غربت کے خاتمے کیلئے عالمی طور پر کوششیں کی جاری ہیں لیکن آج بھی دنیا میں غریب افراد کی تعداد دو ارب سے زائد ہے جن کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے بھی کم ہے۔ا ٓج بھی غریب بے گھر اور کسم پرسی کی بدترین حالت میں جی رہے ہیں ۔
غربت کے خاتمے کے حوالے سے  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں باقاعدہ قرارداد منظور کی گئی تھی۔ عالمی بینک کی رپورٹ ”ورلڈ ڈیولپمنٹ انڈیکیٹر“ کے مطابق بھارت میں غربت کی شرح 68 اعشاریہ 7 فیصد ہے۔ ہندوستان میں سیاسی قائدین کی جانب سے غریبی کو دور کرنے کے مستانہ وار نعرے لگائے گئے،جن سے ان کی سیاسی دھاک قائم رہی  ساتھ ہی، غربت  بھی اپنے پاؤں پسارے وہی جمی رہی۔
دنیا کا سب سے زیادہ ترقی پذیر کہے جانے والے ملک امریکہ میں بھی 14 فی صد لوگ ہیں ۔غربت کی سب سے بھیانک شکل ہمیں ترقی پذیرممالک میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جس طرح ٹاٹا گروپ نے ہندوستان میں غربت سے خاتمے کے لیے قابل قدر کوشش کی اور غریبوں کو مواقع فراہم کیا جسے اقوام متحدہ نے بھی سراہا ہے، اسی طرح امریکہ میں بھی ان ہی کامو کرنے والوں نے عوامی سطح پر غربت کے خاتمے کے لیے کوشش کی۔ اگر انھوں نے اس میدا ن میں دلچسپی نہ دکھائی ہوتی تو امریکہ کا بھی گراف بہت نیچے ہوتا۔
غربت کے خاتمے کے لیے ایک طرف کمیونزم نے 80سال تک کوشش کی اور  بزور طاقت تمام افراد کو ایک سطح پر لانے میں اپنی پوری توانائی صرف کردی، تودوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام نے لوگوں کو مال و دولت حاصل کرنے کی پوری   آزادی دی، پھر بھی غربت سے خاتمے کا مقصد حاصل نہ ہوسکا ۔ کیوں  کہ دونوں افراط اور تفریط کے شکار تھے۔ نتیجہ میں ناکامی ہاتھ آئی۔ اسلام کا نظریہ اس سے بالکل الگ ہے ۔ اس کا ماننا ہے کہ معیشت کا سودی نظام، جو اللہ تعالی کو بے حد ناپسند ہے ، یہ عام معیشت کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اس سے  امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہو جاتا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ غریبی کو بالکل ختم نہیں کیا جاسکتا، کیو ں کہ یہ اللہ تعالی کا نظام ہے  ، اس میں  امیر و غریب دونوں رہیں گے، مگر غربت کو کم سے کم ضرورر کیا جاسکتا ہے ۔ کم از کم یہ تو ہو ہی جائے کہ ایک غریب انسان کوبھی دووقت کی روٹی  اور بنیادی ضرورت کا سامان میسر ہوجائے۔
غربت کو کم  سے کم کرنے میں سب سے بڑی وکاوٹ یہ ہے کہ امیر مالدار سے مالدار تر ہوتے جاتے ہیں اور غریبوں میں مال کی مناسب تقسیم نہیں ہوتی ۔ امیروں اور غریبوں کے درمیان جس قدر فاصلہ بڑھے گا غربت کی شرح میں اسی قدر اضافہ ہی ہوگا۔ اس کے لیے سودی نظام، استعماریت اور پونجی واد کو فروغ دینے کے بجائے غریبوں کے ساتھ مساوات برتنا اور ان کی حالت زار کو محسوس کرتے ہوئے، ان کی جان و مال کا تحفظ اور سرکاری منصوبوں  کے اعلانات کے مطابق ان تک اموال کی فراہمی اور انھیں روزگار سے جوڑنا بے  حد ضروری ہے۔ انتخابات کے وقت جھوٹے اور پرفریب نعروں اور وعدوں کے بجائے انھیں حقیقت کا جامہ پہنانا ہوگا۔  رشوت اور کرپشن جیسی بیماریوں کو ختم کرنا ہوگا۔تبھی  ملک سے غربت کو کم سے کم کرنے میں کامیابی مل سکے گی، ورنہ ملک کی ترقی کے دعوےکا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ پھر یہ سوال برقرار رہے گا        ؎
دولت بڑھی تو ملک میں افلاس کیوں بڑھا

Friday 12 October 2018

Sick society (بیمار معاشرہ اور تشخیصِ مرض)



بیمار معاشرہ  اور تشخیصِ مرض

خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور استحصال کا موضوع ہمیشہ زیر بحث رہا ہے اور اس وقت یہ metoo# کی تحریک مزید حساس موضوع بن چکا ہے. جس پر کھل کر گفتگو ہو رہی ہے. جب کہ آزادی نسواں کے پر فریب نعروں سے نسواں تک پہنچنے کی آزادی نے نت نئے مسائل پیدا کر رکھا ہے. اس پر کوئی گفتگو نہیں ہو رہی ہے. خواتین کی جانب سے دعوت نظارہ دینے والے غیر ساتر لباس اور مردوں کو رجھانے والی اداؤں پر کچھ نہیں کہا جا رہا ہے. مرد و زن کے متعینہ حقوق ہیں تو کچھ ان کے واجبات بھی ہیں جنھیں نظر انداز کیا جا رہا ہے.

اسی طرح قدرتی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، اختلاط مرد و زن، لیو ان ریلیش شپ اور اب ایڈلٹری (497) وغیرہ سے معاشرہ پر اس کے منفی اثرات پڑے ہیں اور پڑیں گے، جس سے نہ صرف عورتیں متاثر ہوتی ہیں بلکہ مرد بھی متاثر ہوتا ہے؟

ایسے میں اسلام کا نقطہ نظر واضح طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں ان تمام مسائل کا حل موجود ہے.اس لیے اسلامی تعلیمات کو عام کرنا بہت ضروری ہے.

پرامن اور خوشگوار زندگی گزارنے کا خدائی نظام ۔ اسلام

اسلام انسانوں کے لیے رحمت ہے۔ زندگی کے تمام گوشوں کے بارے میں اسلام کے قوانین حکمت سے خالی نہیں ہیں۔ وہ انسان کی ضرورت اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ مثلاً قصاص کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

’’ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘(البقرۃ: 1799) بہ ظاہر اس میں ایک انسان کے خون کے بدلے دوسرے انسان کا خون کیا جاتاہے۔ مگر اس میں حکمت یہ ہے کہ دوسرے لوگ کسی کو ناحق قتل کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔ اسی طرح زنا کرنے والے کو، اگر وہ غیر شادی شدہ ہے خواہ مرد ہو یا عورت، سرعام سوکوڑے مارنے کا حکم دیاگیا ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ کوئی شخص زنا کے قریب بھی نہ جاسکے۔ عوتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ ان کی عزت و آبرو کی حفاظت ہو۔ نکاح کو آسان بنانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ زنا عام نہ ہو اور معاشرے کو تباہی اور انسانوں کو مہلک امراض سے بچایا جاسکے۔ اس لیے وہ انسانوں کو پہلے اخلاقی تعلیم سے آراستہ کرتا ہے۔

اسلام کی اخلاقی تعلیمات
اسلام انسانوں کومعاشرتی زندگی تباہ وبرباد کرنے والی چیزوں مثلاً ظلم وزیادتی، قتل و غارت گری، بدکاری و بداخلاقی، چوری وزناکاری وغیرہ سے بازرہنے کی تلقین کرتاہے اورانھیں اپنے مالک اورپیدا کرنے والے کا خوف دلا کر ان کے دل کی کجی کودرست کرتاہے۔ آج معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ، فریب اور جعل سازی وغیرہ کی جو بیماریاں عام ہوگئی ہیں، صرف اسلامی تعلیمات کے ذریعہ ان تمام مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔

جس طرح ہمیں اپنی بہوبیٹیوں کی عزت پیاری ہے اسی طرح دوسروں کی عزت وناموس کاخیال رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آزادی کے نام پر جس طرح خواتین کھلونے کی مانند استعمال کی جارہی ہیں، گھراورحجاب کو قید سمجھنے والی خواتین کس آسانی کے ساتھ ظلم وزیادتی کا شکار ہورہی ہیں، یہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔ اس لیے اسلام نے خواتین کوایسی آزادی نہیں دی ہے جس سے وہ غیرمحفوظ ہوں اورنیم برہنہ لباس پہن کر لوگوں کے لیے سامان تفریح یا ان کی نظربد کا شکار ہوجائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی اسلامی احکام کو اپنے لیے قید سمجھ کر اس سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی وہ دنیا کی بد ترین اور ذلت آمیز بیڑیوں میں جکڑ کر قید کرلیا گیا ہے۔

یہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ کائنات کے خالق و مالک اور احکم الحاکمین کا بنایا ہوا قانون ہے۔ اس لیے ا س میں کسی کو ترمیم کی اجازت نہیں ہے۔ اس میں کمی یا زیادتی کرنا اللہ کے ساتھ بغاوت ہے۔ یہ بغاوت پورے سماج کو تباہ و برباد کردتی ہے۔ یہی مسلمان کا عقیدہ ہے۔ جسے معمولی عقل و شعور رکھنے والا ہر فرد بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔

خواتین کے لیے ہدایات
اسلام نے خواتین کو علیحدہ طوربہت سی باتوں کا حکم دیا ہے اوربہت سی چیزوںسے روکاہے۔ مثلاً انھیں اپنے بناؤ سنگارکو دکھانے کے بجائے اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اورپردہ کرنے کولازم قراردیا :
اور اے نبی ﷺ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوںکی حفاظ کریں، اوراپنا بناؤ سنگھارنہ دکھائیں بجزاس کے جوخود ظاہر ہوجائے، اوراپنے سینوںپر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں (النور:۳۱)

دوسری جگہ اللہ تعالی کافرمان ہے:
’’اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اوراہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلولٹکالیاکریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالی غفور و رحیم ہے۔‘‘ (سورۃ احزاب:۵۹)

اسی طرح غیرضروری طور پر بازاروں میں پھرنے کے بجائے گھروںمیں محفوظ طریقے سے رہنے اور عبادت کرنے کا حکم دیا: ’’اپنے گھروں میں ٹک کررہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوۃ دو، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت نبی ﷺ سے گندگی کودورکرے اورتمھیں پوری طرح پاک کردے۔‘‘ (سورۃ احزاب:
۳۳)

اس کے علاوہ خواتین کا ہروہ طرز عمل جو اجنبی مردوں کو ان کی طرف مائل کرے، یا ان کی جنسی خواہشات کو بھڑکائے،
اسے حرام قراردیاگیاہے۔آپ ؐنے ارشادفرمایا:’’ہر وہ خاتون جو خوشبو لگا کر کسی قوم کے پاس سے گزرے کہ وہ اس کی خوشبولے تو ایسی خاتون بدکار ہے۔ ‘‘(النسائی)


رسول اللہ ﷺنے ایسی خواتین پر سخت ناراضی کا اظہارکرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’دوطرح کے انسان ایسے ہیں جن کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا:ان میں وہ عورتیں ہیں جو لباس پہنے ہوئے بھی ننگی ہیں، لوگوں کی طرف مائل ہونے والی اوراپنی طرف مائل کرنے والی ہیں،ان کے سرکھلے ہونے کی وجہ سے بختی اونٹنیوںکی کہان کی طرح ہے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گی اورنہ ہی اس کی خوشبوپاسکیںگی۔‘‘ (مسلم)

علامہ شیخ عبدالعزیز بن بازؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’یہ تبرج اورسفور اختیارکرنے والی عورتوں کے لیے سخت قسم کی وعیدہے: باریک اور تنگ لباس زیب تن کرنے اور پاکدامنی سے منہ موڑنے والی اور لوگوں کو فحش کاری کی طرف مائل کرنے والی عورتوں کے لیے ۔‘‘

مردوں کوتنبیہ
اسی طرح مردوں کوبھی تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ غیرمحرم (جن سے نکاح ہوسکتاہے) عورتوں کو ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھیں، اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور زنا کے محرکات سے بچیں چہ جائے کہ زنا جیسے بدترین عمل کا شکارہوں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:’’زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی ) ہے۔اور براہی بڑا راستہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل :۳۲)

موجودہ دورمیں بوائے فرنڈاور گرل فرینڈ کا رجحان عام ہوگیا ہے، اختلاط مرد و زن، لیو ان ریلیش شپ اور اب ایڈلٹری (497) وغیرہ نے معاشرہ کو مزید متاثرہ کیا ہے۔ اسلام اس رشتے کو نہ صرف غلط قراردیتاہے بلکہ اجنبی خواتین سے میل جول اور غیرضروری گفتگو سے بھی بچنے کی تاکید کرتا ہے، کیوںکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کو بدکاری اورفحاشی تک پہنچادیتے ہیں۔نبی رحمت نے اپنی امت کو اس سے روکا ہے: عورتوں(غیرمحرم)کے پاس جانے سے بچو۔ (بخاری)

اگرکوئی ناگزیرضرورت ہو یاکسی اجنبی عورت سے کچھ دریافت کرنا ہوتو پردے کے ذریعے ہی ممکن ہے، قرآن کہتاہے: اگر تمہیں کچھ مانگنا ہوتوپردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اوران کے دلوںکی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ (احزاب:
۵۳)


اسلام جرائم کو بالکل جڑسے اکھاڑنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ انسانوں کو زیوراخلاق وکردارسے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ کاش دنیا والے انسانوں کو اسلامی تعلیمات سے ڈرانے کے بجائے اس کی تعلیمات کوسماج میں نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہوتے۔اگروہ ایسا کرتے توان کی زندگی سکون واطمینان سے گزرتی اورہمارا معاشرہ صحت مندہوکر امن وامان کا گہوارہ ہوتا۔
ll
محب اللہ قاسمی

Religion, country and humanity


مذہب، ملک اور انسان
محب اللہ قاسمی

انسان کا وجود رب کائنات کی دین ہے۔ اس کی موت اورحیات مالکِ دوجہاں کے متعین کردہ حدود کے پابند ہیں، جس کا علم کسی کو نہیں ہے۔اس کی بھلائی اور کام یابی بھی مالک کے ہاتھ میں ہے جو اس کا خالق ہے۔ دنیا میں جینے کا سلیقہ اور کام یابی کے ذرائع بھی اسی نے انسانوں کو عطا کیے اور عقل وشعور کا داتا بھی وہی رب ہے۔اس نے انسانوں کو  مذہب عطا کیا ،تاکہ وہ ایک بہترین انسان بن کر خود بھی دنیا کی بھلائی کو حاصل کرسکے اور دوسروں کو بھی اس کے فیض سے روشناس کرائے۔

اس طرح اللہ کا عطا کردہ دین  اور شریعت انسانوں  کو بنانے سنوارنے اور اسے ترقی بخشنے دینے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس لیے ایسا مذہب ہر چیز پر فوقیت کا اہل ہے ،جو ملک و ملت، انسانوں کی کام یابی اور ترقی کا ضامن ہے۔ اس سے بڑھ کر نہ کوئی ملک ہوسکتا ہے اور نہ کوئی سماج ۔ کیوں کہ بہترین ملک اور سماج کی اساس یہی دین ہے۔اس پر چلنے کی آزادی اس کا بنیادی حق ہے، جس میں کسی کو مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔

یہ بات درست ہے کہ انسان جس جگہ پیداہوتا ہےاس سے  فطری طور پر ا سے لگاؤ ہوتا ہے اور اس کی فلاح اور بہتری کی کوشش کو وہ اپنے لیے لازم سمجھتا ہے ۔اس طرح وطن سے محبت اس کے دل میں بیٹھ جاتی ہے جس سے وہ پوری وفاداری کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ ہر وہ کام جو اس کے مذہب اور عقیدے سے نہ ٹکراتا ہو،اس میں اس کی  وہ مکمل ایمانداری اور وفاداری کا مظاہرہ کرتا ہے ، کیوں کہ ایفائے عہد کے دائرے میں آتا ہے اور ایفائے عہد دین داری  کی علامت ہے۔رسول اللہ ؐکا ارشاد اس جانب رہ نمائی کرتا ہے:’’اس شخص کا ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں اور اس کا دین نہیں جس میں عہد کی پاسداری نہیں۔‘‘(مسنداحمد)

اس لیے کسی بھی ملک میں رہنے والے انسان سے یہ سوال ہر گز نہیں کیا جاسکتا کہ تمہارے نزیک وطن پہلے ہے یا مذہب ؟ کیوں کہ یہ سوال مہمل  ہے۔اگر سوال ہی کرنا ہے تو یہ کیا جائے کہ آپ کو وطن سے محبت ہے یا نہیں؟ وطن کا ہر وہ کام جو آپ کے عقیدے سے نہ ٹکراتا ہو، آپ کو اس سے اتفاق ہے یا نہیں؟ ایسی صورت میں ہر مذہب کے لوگ واضح طور پرجواب دے سکیں گے کہ ہمیں وطن سے محبت ہے اور ہم وطن کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی جان تک دے سکتے ہیں۔ مگر عقائد سے ٹکرانے والے کسی معاملے میں ، چاہیے وہ وطن ہویا اپنا گھر خاندان اور والدین ان کے مقابلے میں مذہب کواولین درجہ حاصل ہے۔

دنیا کا کوئی مذہب انسانیت کے ناحق قتل و خون کو جائز نہیں ٹھہراتا اور نہ  انسانیت کو تکلیف پہنچانا کسی مذہب کا حصہ ہو سکتا ہے۔  ؎
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا

پھر بھی لوگ مذہب یا ذات برادری کے نام پر آپس میں ایک دوسرے کو لڑا تے ہیں اور اس لڑنے لڑانے میں وہ اپنا مفاد تلاش کرتے ہیں۔ جن کی سیاست کی اساس ہی منافرت اور باہمی جھگڑا فساد پر ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے سامنے کبھی ملک کی ترقی، خوش حالی یا امن و سلامتی قائم رکھنے کا ایجنڈا نہیں ہوتا۔ ایسے ہی لوگ حب الوطنی کی آڑ لے کر اہل وطن کو ستاتے اور انھیں ظلم وستم کا شکار بناتے ہیں۔ جب نفرت کی یہ آگ بھڑکتی ہے تو ملک کے امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، جس سے وہ لوگ بھی زد میں آ جاتے ہیں جو منافرت کے جلتے ہوئے اس شعلے کو بجھانے کے بجائے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں ،یا اس میں ایندھن ڈالنے کا کام کرتے ہیں۔

انسانوں کی  قائم کی ہوئی سرحدیں اگر دوسرےانسانوں پر ظلم ڈھانے کے لیے ہو ں تو پھر ان  کو پھلانگ کر انسانیت کی مدد کرنا اور اس کو ظلم سے بچانا یہ ہر درد مند انسان کی اولین ذمہ داری ہے۔ خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم چاہے روہنگیا کے مسلمانوں پر ہو یا امریکا کے سیاہ فام  لوگوں پریا فلسطین کے مسلمانوں پر ۔ظلم کرنے والا ہٹلر ہو یا آنگ سان سوچی یا نیتن یاہو اور بشارالاسد۔ ان کے خلاف آواز بلند کرنا ضروری ہے۔یہی مذہب اور انسانیت کا تقاضا ہے، جس سے ملک ترقی کرتا ہے۔


Tuesday 9 October 2018

Ijlas Ulmaye Keram


اسلامی نہج پر فرد کی تربیت اور معاشرے کی اصلاح میں
 علماء کرام کا اہم کردار

معاشرے میں علماء کرام کا مقام و مرتبہ مسلم ہے، قرآن و حدیث میں ان کے مقام و مرتبہ کا تذکرہ موجود ہے. وارثین انبیاء کہہ کر ان کا تعارف کرایا گیا ہے، اس کے ساتھ ہی ان پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئیں، وہ بھی واضح ہیں . علماء کرام قائدین امت اور اسلام کے ترجمان ہے.

لہٰذا بلا تفریق مسلک و منہج مل جل کر امت کے متحدہ مقاصد کے حصول اور اقامت دین کی کوشش کرنا، امت کے تمام دینی و اخلاقی، معاشرتی و سیاسی مسائل میں ان کی رہنمائی کرنا ان کی ذمہ داری ہے. جسے انجام دے کر وہ عند اللہ بہترین اجر کے مستحق ہوں گے اور دنیا میں اپنے رتبہ بلند کو برقرار رکھ سکیں گے.

جماعت اسلامی ہند حلقہ دہلی و ہریانہ کی جانب سے آج مورخہ 7 اکتوبر 2018 کو مسجد اشاعت اسلام کے توسیعی حصے میں ایک اجلاس عام بعنوان 'اسلامی معاشرے کے قیام میں علما کرام کا کردار' منعقد ہوا، جس میں مختلف مسالک کے علماء کرام نے شرکت کی.

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید اور نعت رسول سے ہوا. امیر حلقہ دہلی و ہریانہ جناب عبد الوحید نے افتتاحی کلمات پیش کیے، جب کہ مولانا محمد رفیق قاسمی صاحب، سکریٹری شعبہ اسلامی معاشرہ، جماعت اسلامی ہند نے کلیدی خطاب پیش کیا.

اس پروگرام کا ایک حصہ مذاکرہ بہ عنوان: 'اصلاح معاشرہ کیوں اور کیسے؟' تھا_اس کے کے پانچ ذیلی نکات تھے _ اسٹیج پر جلوہ افروز مختلف مسلک کے علماء کرام نے ان نکات پر اظہار خیال کیا.مولانا ولی اللہ سعيدی، سکریٹری شعبہ تربیت جماعت اسلامی ہند نے ان پر تبصرہ کرتے ہوئے مفید باتیں پیش کیں.
پروگرام کا اختتام محترم امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری کے فکر انگیز اختتامی خطاب اور دعا پر ہوا.

مولانا مفتی سہیل قاسمی نے اس اجلاس میں نظامت کے فرائض انجام دیے. پروگرام کے اختتام پر ظہرانے کا نظم کیا گیا تھا.

امید ہے کہ یہ اجلاس امت کے اتحاد اور اصلاح معاشرہ کے لیے مفید اور علماء کرام کی اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں معاون ثابت ہوگا.
Ijlas Ulmaye Keram 7 Oct 2018
محب اللہ قاسمی

Delhi Yadgargar Shaam


دہلی کی یادگار شام

نماز اور ظہرانے کے لیے آفس سے باہر آیا پھر نماز ظہر اور کھانے سے فارغ ہو کر قیلولہ کے لیے لیٹا تو نیند آ گئی دفتر تین بجے جانا تھا اسی دوران میرے گاؤں کے پیارے دوست جی این کے اسکالر حبیب اللہ کا فون آیا کہ میں، ابوالکلام، صادق اقبال اور ذاکر اقبال کو لے کر آ رہا ہوں. پانچ بجے تک پہنچ جاؤں گا.. میں نے کہا: ہاں ہاں آؤ!

پھر میں دفتر جانے کی تیاری میں لگ گیا کہ اب سونا بے کار تھا. خیر سب لوگ آئے مگر ساڑھے پانچ بجے. سب نے چائے پی پھر سب کو لے میں اپنے کمرے میں چلایا آیا. کچھ دیر وہیں گفتگو کی.اسی دوران احمد عالم سے فون پر بات ہوئی اس نے کہا: آپ سب لوگ میرے یہاں ذاکر نگر آئیے. یہاں احمد اللہ (پرنس) بھی ہے سب کی ملاقات ہو جائے گی.

خیر ہم سب لوگ ذاکر نگر چلے گئے. وہاں پہنچے ہی تھے کہ معلوم ہوا لو فیکلٹی ڈی یو کے آصف اقبال آ رہے ہیں. حسن اتفاق دیکھتے ہی دیکھتے ہم سب گاؤں کے آٹھ لوگ جمع ہو گئے. سب لوگوں کا اس طرح اتفاقاً ملنا جس پر خوشی کے فطری آثار سب کے چہرے سے ظاہر ہو رہے تھے.

ہم لوگوں نے خوب گپ شپ کیا. فاطمہ چک اسمبلی کی یاد تازہ ہو گئی. مختلف موضوعات جس پر مختلف آراء، کھل کر اظہار خیال بڑا مزہ آیا.مصروف زندگی میں اس طرح اپنوں کے درمیان تبادلہ خیال سے جمود توڑنے، زندگی زندہ دلی سے جینے اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ ملتا ہے.

خیر عشا کی نماز بعد اجتماعی عشائیہ کا پروگرام ہوا جس میں فراخ دلی کے ساتھ مہمان نوازی کا شرف احمد عالم صاحب کو حاصل ہوا.احمد اللہ صاحب کی طرف سے یہ بات بار بار آئی کہ اس طرح کی ملاقات اتفاقی نہیں منصوبہ بند بھی ہونی چاہیے جس کی ہم سب نے تائید کی.

راقم الحروف کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ہم سب گاؤ والوں کے بھلے ہی مکان علیحدہ ہوں، الگ رہتے ہیں مگر ہم سب گاؤں والے گویا ایک گھر کے فیملی ممبر ہیں، جو سب آپس میں سکھ دکھ کے ساتھی ہیں.

معقول عشائیہ کے بعد ہم لوگوں نے کلہڑ (مٹی کا گلاس) والی چائے پی اور سلام کے ساتھ بادل نہ خواستہ جدا ہو کر ان خوشگوار یادوں کے ساتھ اپنی منزل کی اور چل پڑے.

یہ خوبصورت شام فاطمہ چک کے نوجوانوں کے نام تھی جو راجدھانی دہلی جیسے مصروف شہر میں ملاقات، گفت و شنید کے لیے اتفاقا جمع ہوئے.
محب اللہ قاسمی

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...