Tuesday 29 December 2020

Friday 25 December 2020

Husle Ki Baten

 

حوصلے کی باتیں


v   کیا ہمارے ایمان  سے بھرے سینوں کو ظالموں کے تیر چیر سکتے ہیں؟ کیا غداروں کی چال اللہ کے بندوں کو ان کے فتح کے راستے سے روک سکتی ہے؟ ہر گز نہیں!

v   کیا مسلمانوں کے قدموں سے لرزنے والے ظالموں کی غداری قائم رہ سکتی ہے۔

v   ہم نے نظام الٰہی کو محفوظ کرنے کی قسم کھائی ہےتاکہ مظلوموں کو ظالموں کے ہاتھوں سے بچایا جاسکے اور اللہ کا انصاف پوری دنیا میں پھیل سکے۔

v   مسلمان اپنی پوری بات کیے بغیر نہیں مرتا!مسلمان جس نے ظالموں پر نظر گاڑ لی ہو وہ فتح حاصل کیے بغیر نہیں مرتا۔

v   ہمارے آباو اجداد نے ہار نہیں مانی ، ہم بھی ہار نہیں مانیں گے۔ انھوں نے اپنی تلوار سے مشرق و مغرب تک پختہ راستہ بنا دیا تھا یہ راستہ ہمارا مستقبل ہے۔لا محدود راستہ جس کا کوئی اختتام نہیں۔

 

v   جب تک ہماری سانسیں ہیں ہم اسی رستے پر چلتے رہیں گے۔ ہم حکم الہی قائم کرکے پوری دنیا میں انصاف پھیلائیں گے۔

 

§       جو کہتے ہیں کہ ہماری طاقت کافی نہیں ہے ۔

o      ہم انھیں کہیں گے کہ ہمارا ایمان کافی ہے۔

o      جو کہیں گے کہ ہماری عقل کافی نہیں ہے۔

o      ہم انھیں کہیں گے کہ ہماری جد و جہد کافی ہے۔

o      جو  کہیں گے کہ ہماری مدت زندگی کافی نہیں ہے ۔

o      ہم کہیں کہ ’’اللہ ‘‘ ہمارے لیے کافی ہے۔

 

v   ظالموں کا جلاد’’انصاف‘‘ ہے۔

v   میری مقدس جدوجہد تمہاری حقیر امن سے زیادہ معزز ہے۔

 

v   لوگ ہمیں اور ہمارے طرز عمل کو دیکھ کر اسلام قبول نہیں کرتے تو ایسی صورت میں ہمیں اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہیے۔

 

v   میں صرف ظالموں اور غداروں کا دشمن ہوں، حتی کہ اگر میرا دشمن بھی مظلوم ہو،میں ہمیشہ اس کی مدد کروں گا۔ غدار چاہیے ۔ میرا بھائی ہی کیوں نہ ہو، میں اسے معاف نہیں کروں گا۔

 

v   جو ہمیں شر نظر آتی ہے، اس میں بڑی حکمت اور بہت سی نعمتیں چھپی ہوتی ہیں۔

v   ہرخزاں کے بعد بہار اور ہر اندھیرے کے بعد روشنی ہوتی ہے۔

v   بھیڑیوں کی سرزمین پر کتے بھونکا نہیں کرتے ۔(ترک کہاوت)

v   ایک اچھا تجربہ ہزار اچھی نصیحتوں سے بہتر ہے۔

(تاریخی شخصیت ارتغرل غازی پر مبنی ترک سیریل سے ماخوذ)

 

 

Sunday 20 December 2020

Arabic Language zaroor Seekhen


عربی زبان ضرور سیکھی

گوگل فارم کے لیے کلک کریں
https://presenter.jivrus.com/p/1sr4jNO4Ly9G7T3pSE5eroxcUTJetTgNmZJkN0h7UOUA

Sunday 13 December 2020

Islahe Muashra aur Matloob Inferadi Kirdar

 

اصلاح معاشرہ اور مطلوب انفرادی کردار

متاثر کن شخصیت کی اہم خصوصیات

محب اللہ قاسمی

    افراد سے بننے والا اچھا اور مثالی معاشرہ با اثر شخصیات اور متاثر کن رہ نما پر منحصر ہے۔ معاشرے کے افراد ایسی شخصیات سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کے قول و عمل کو دیکھتے اور پرکھتے ہیں، پھر اسے اپنے لیے رول ماڈل بناتے ہیں۔ اگر معاشرے میں مثالی اور متاثر کن شخصیات نہ ہوں جنہیں دیکھ کر خدا یاد آئے اور ان کی باتوں سے لوگ متاثر ہو کر اپنے اعمال و کردار پر توجہ دینے لگیں اور ان کے رویے سے متاثر ہو کر اپنے احوال و معاملات درست کرنے کی طرف راغب ہوں تو معاشرہ پُر امن اور خوش حال نہیں رہتا، وہ اخلاق کے اس معیار کو حاصل نہیں کر پاتا جو ایک اسلامی اور مثالی معاشرے کے لیے ضروری ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا شخص کہاں سے آئے گا یا ایسے افراد کہاں ملیں گے؟ تو یاد رکھیں کہ ایسے افراد کسی دوسری دنیا سے نہیں آتے بلکہ وہ سماج کا ہی حصہ ہوتے ہیں۔ اس امت کو خیر امت کہا گیا ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے لیے ہی برپا کی گئی ہے چوں کہ مومنین مخلصین و مصلحین کے سامنے زندگی کا ایک نصب العین ہوتا ہے جو انسانی زندگی کے مقصد حیات کو سمجھتے ہیں، انھیں اسلامی تعلیمات کا نہ صرف علم ہوتا بلکہ وہ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں، وہ انسانی زندگی اور اس کی حقیقت کو جانتے ہیں اور انھیں اپنی کمی و کوتاہیوں کا خیال بھی ہوتا ہے۔ وہ صرف فلسفیانہ گفتگو کے قائل نہیں ہوتے بلکہ انھیں علم و عمل کے امتزاج کا پورا ادراک ہوتا ہے، انھیں اس بات کا شعور ہوتا ہے کہ علم، عمل کے لیے ہی ہے۔ محض معلومات اکٹھا کرنا کسی عالم کا مقصد نہیں ہوتا۔ ان خوبیوں کو نکات کی شکل دی جائے جو متاثر کن شخصیت کے لیے ضروری ہیں تو انھیں چند حصوں میں تقسیم جا سکتا ہے۔

 

خلوص و للّٰہیت

    پہلی چیز خلوص ہے۔ کوئی بھی انسان اس وقت تک متاثر کن شخصیت نہیں بن سکتا یا وہ لوگوں کو متاثر نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اپنے عمل میں مخلص نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں تمام اعمال کا دار ومدار نیتوں پر رکھا گیا ہے، اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان اپنی نیت درست کرے تاکہ اس کا جو بھی عمل ہو وہ خالص ہو اور اللہ کے لیے ہو۔ اس میں کسی طرح کی ریا و نمود کی آمیزش نہ ہو۔ مثلاً دوستی ایک فطری اور جذباتی عمل ہے لوگ خوب دوستی کرتے ہیں، مگر کیا اس دوستی میں خلوص ہے؟ کیا وہ کسی کا دوست ہونے کی بنا پر اس کا خیر خواہ ہے؟ اس کا راز دار ہے یا یہ دوستی صرف ایک دکھاوا ہے جس میں نفرت و عناد پوشیدہ ہے؟ اسی طرح پڑوسی سے دعا سلام ہے، میل جول ہے، مگر کیا اس میں خلوص ہے؟ یا محض رسماً ادا کیے جانے والے بول ہیں۔ اگر سلام میں خلوص ہے تو مسلمانوں کا باہمی رشتہ مضبوط ہوگا اور وہ آپس میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند ہوں گے۔ کیوں کہ سلام باہمی محبت کی بنیاد ہے۔

 

    اسی طرح ایمانی اخوت اور باہمی تعلقات کے متعلق اسلام نے یہ وضاحت کی ہے کہ ان تعلقات کی بنیاد ایمان اور للّٰہیت پر ہے، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اہل ایمان باہم اللہ کی خاطر آپس میں محبت کریں گے اور ایک دوسرے کے مخلص و خیر خواہ ہوں گے۔ ایسے لوگ نہ صرف دنیا میں متاثر کن ہوتے ہیں بلکہ روز قیامت عرش الٰہی کے سایے میں ہوں گے۔ جب کہ الفت و محبت کا دکھاوا کرنے والا شخص جو دل میں بغض و نفرت پالے ہوئے ہو وہ متاثر کن نہیں ہوسکتا۔

 

    چنانچہ صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں میں یہ چیز ہمیں ملتی ہے کہ ان کے اعمال میں اخلاص ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہتے تھے۔ ذرا سا بھی ریا کا کوئی شائبہ محسوس ہوتا تو خود ہی اسے منافقانہ عمل قرار دیتے۔ وہ تعداد کی قلت و کثرت کی پروا کیے بغیر ہر محاذ پر سینہ سپر ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیتیں متاثر کن رہیں اور وہ دین و دنیا دونوں میں کام یاب ہوئے۔

 

انکساری و خیر خواہی

    انسان کی شخصیت کو نکھارنے اور اسے متاثر کن بنانے میں تواضع و انکساری اور خیر کا اہم کردار ہے۔ انسان جب سامنے والے کو دیکھتا ہے کہ وہ دوسروں کا احترام کرتا ہے، اس کے ساتھ بڑے پیار اور محبت بھرے انداز میں مسکراتے ہوئے تواضع کے ساتھ ملتا ہے۔ اسے اپنے علم و عمل اور تقویٰ کا غرور نہیں ہے۔ کوئی بھی اسے دعوت دے وہ انکار نہیں کرتا، مصیبت و پریشانی میں آواز دے وہ لبیک کہتا ہے۔ کوئی کچھ معلوم کرنا چاہے تو وہ اسے بڑے پیار سے سمجھاتا ہے۔ پڑوس میں کوئی بیمار ہو تو اس کی عیادت کو جاتا ہے، کسی کے گھر میں کوئی خوشی کا ماحول ہو تو اسے مبارک باد پیش کرتا ہے، حتی الامکان ضرورت مندوں کی ضرورتیں بھی پوری کرتا ہے۔ اس کے اس رویے سے لوگ اس کے قریب آتے ہیں۔ ایسے تواضع اختیار کرنے والے شخص کی معاشرے میں نہ صرف عزت ہوتی ہے بلکہ وہ ایک متاثر کن شخصیت بن جاتا ہے۔ پھر وہ اصلاح و تربیت کا کام انجام دے تو اس کی باتیں با وزن ہوتی ہیں، جن پر لوگ نہ صرف کان دھرتے ہیں بلکہ اپنے لیے قول فیصل سمجھتے ہیں۔

 

    اس طرح اللہ تعالی معاشرے میں اسے ایک بلند مقام عطا کر تا ہے،جو درحقیقت اس حدیث کا مصداق ہے: وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ للہِ إِلاَّ رَفَعَهُ اللہ (مسلم) جس نے اللہ کے لیے تواضع و انکساری کی روش اختیار ی ہے اللہ تعالی نے اسے بلندی عطا کی ہے۔

 

قول و عمل میں یکسانیت

    ہر دور میں اس بات کی بڑی اہمیت رہی ہے کہ بندہ جو کہتا ہے، خود بھی اس کا خیال رکھتا ہے یا بڑی حد تک اس کی پابندی کرتا ہے یا نہیں؟ اگر وہ صرف لوگوں کو نصیحتیں کرتا ہے، اصلاح و تربیت پر زور دیتا ہے اور بڑی بڑی باتیں کرتا ہے مگر عملی طور پر اس کا معاملہ بالکل برعکس ہے۔ بلکہ وہ ان باتوں کی پروا ہی نہیں کرتا یا جس کسی معاملے میں وہ خود زد میں آتا ہے وہاں وہ اخلاقیات کی ساری حدیں پار کر جاتا ہے۔ ایسے میں اس کی باتوں کا وہ اثر نہیں ہوتا جس سے لوگوں کے دل عمل کی طرف مائل ہو اور وہ بھی ان باتوں سے اپنی زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں مصلحین و مربیین کی بڑی تعداد میں یہ کوتاہیاں آ گئی ہیں۔نتیجہ معاشرہ میں اس کی اصلاح و تربیت کا وہ اثر نہیں دکھائی دے رہا ہے جو ہونا چاہیے تھا۔ اسی لیے قرآن پاک میں ایسے شخص کی بڑی سخت سرزنش کی گئی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 

    اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ

    تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے؟ (البقرۃ:٤٤(

 

    اس حوالے سے ایک دوسری آیت جو بہت مشہور ہے:

    يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ

    اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ (الصف:2( 

    اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ لوگ اپنی عملی کوتاہیوں کے سبب اصلاح کی کوششوں کو چھوڑ دیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ عملی میدان میں بھی وہ نمونہ بن کر ابھریں تاکہ لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہو کہ بندے کی باتیں ہی نہیں ہیں بلکہ وہ عملی طور پر بھی اس کی گواہی دے رہے ہیں کہ انھوں نے جو کہا ہے اور معرفت خدا وندی کی بات کی ہے اس میں خیر ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی اس کی جانب راغب ہونا چاہیے۔ یہی حال علم و عمل کا ہے۔ عالم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے علم کے مطابق عمل بھی کرے ورنہ اس کے علم کا نہ تو خود اسے فائدہ ہوگا نہ لوگوں میں وہ عملی نمونہ بن کر ان کی اصلاح کا ذریعہ بن سکے گا۔ پھر وہ مخرّب الاخلاق (اخلاقی بگاڑ پیدا کرنے والی چیزوں) برائیوں سے دور رہے گا۔ اس لیے قول و عمل میں یکسانیت ایسے ہی ضروری ہے جیسے علم و عمل میں تبھی انسان متاثر کن شخصیت بن کر ابھرے گا جس کا سماج پر اچھا اثر مرتب ہوگا۔

 

حکمت و دانائی

    حکمت و دانائی اہم چیزوں میں سے ایک ہے۔ اللہ نے اس کی اہمیت بتاتے ہوئے فرمایا:

    وَمَنْ يُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا كَثِيْرًا ۭ

    اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ (البقرۃ:٢٦٩)

     حکمت کو مومن کی گم شدہ چیز سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مومن کو نادانی اور بے وقوفی کا عمل زیب نہیں دیتا اسی لیے اس کے ہر عمل میں حکمت جھلکتی ہے۔ عام گفتگو سے لے کر بڑے سے بڑے معاملات تک کوئی عمل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ تمام چیزوں میں حکمت و دانائی تلاش کرتا ہے، اس کے ذریعہ معاملہ فہمی پر زور دیتا ہے۔ اس لیے وہ صرف ظاہری چیزوں سے متاثر نہیں ہوتا، بلکہ اس کی تہہ تک جاتا ہے۔اس میں چھپی حکمت و دانائی کی چیزیں نکال لیتا ہے۔ جس سے معاملہ فہمی صلح و صفائی اور فیصلہ سازی میں آسانی ہوتی۔ پھر اس کا ہر عمل بے موقع محل نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنا ہر کام بر محل اور احسن طریقہ سے انجام دیتا ہے۔ کئی بار دعوت و تربیت کا عمل بھی بے حکمتی کی نذر ہو کر فتنہ و فساد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جس شخص میں یہ خوبی ہوتی ہے لوگ اس سے قریب ہوتے ہیں اور اس کے سامنے اپنے معاملات پیش کر کے اس کا حل معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکمت سے کوئی کام انجام دیا جائے تو وہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے، جس کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔انبیا علیہم السلام کی بعثت کے مقاصد میں ایک مقصد حکمت کی تعلیم بھی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

     كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ

( البقرہ ١٥١)

    جس طرح ہم نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیات سناتا ہے تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے، تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔

     حکمت و دانائی ایسا عمل ہے جو انسان کو بہت سی جگہوں پر شرمندگی سے محفوظ رکھتا ہے اور اسے بے حکمتی کے اقدام کی رسوائی سے بچاتا ہے۔ حکمت کے ذریعہ صبر کا مادہ پیدا ہوتا ہے، عجلت پسندی کے بجائے تحمل کا جذبہ بیدار ہوتا ہے اور انسان میں اپنے جوہری ہتھیار یعنی قلب و دماغ کے مناسب استعمال کی قوت پیدا ہوتی ہے۔یہ وہ اوصاف ہیں جن سے انسان معاشرے میں نمایاں اور بااثر شخصیت بن کر نہ صرف لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے بلکہ اس کے ذریعہ اصلاح و تربیت کا بہترین عمل بہ حسن و خوبی انجام دینے میں بھی کام یاب ہوتا ہے۔

        ***

Friday 20 November 2020

Haqiqat e Iman Khulasa by Mohibbullah Qasmi


خطبات کے پہلے 
حصہ کا خلاصہ پیش 
کیا گیا جو کہ 
حقیقت ایمان پر 
مشتمل ہے۔


جزاکم اللہ خیرا
محب اللہ قاسمی

Sunday 15 November 2020

Bachchon ke sath husn suluk

پیارے بچوں کے پیارے رسول ﷺ کا بچوں کے ساتھ حسن سلوک
بچے ہماری شفقت و محبت کے بہت محتاج ہیں۔ اچھی تربیت کے لیے ان کے ساتھ نرمی الفت و محبت کا معاملہ کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ بچوں کے ساتھ مشفقانہ و ہمدردانہ سلوک کرتے۔

Wednesday 28 October 2020

#we_love_mohammad_ﷺ_challenge

 

نبی کے درسِ الفت کو جہاں میں عام کر دیں گے

جہاں میں عام ہر سو مذہبِ اسلام کر دیں گے


تری  خواہش مٹا دے تو محمد نام دنیا سے

ہمارا تجھ سےوعدہ ہے تجھے ناکام کردیں گے

محب اللہ رفیق قاسمی

 





Saturday 24 October 2020

Bihar Election 2020 Aise ko kaise


ایسے کو جنتا کیسے ووٹ دے جو اس کے کام نہ آئے؟


    کسان بل آتے ہی بی جے پی الائنس کے ساتھ رہنے والی منسٹر خاتون نے بی جے پی کے منہ پر استعفی مار دیا، مگر  سی اے اے کے خلاف پروٹیسٹ ہوتا رہا اور مسلم ودھایک خاموش نتیش جی کی گود میں جھولتے رہے۔ اردو اسپیشل ٹیٹ کا معاملہ پھنسا رہا؟ بی ٹیٹ کی بحالی نہیں ہوئی؟ بے روزگاری بڑھتی رہی، لاک ڈاؤن میں بے حال و پریشان مزدور در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے؟ ہماری نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے ودھایک سارے خاموش رہے گویا نہ بولنے کی قسم کھا رکھی ہو، ارے بھائی آپ اقتدار میں تھے۔  آواز اٹھاتے بولتے کچھ تو کرتے کراتے بس چپی سادھ لی۔ پھر کاہے کے ودھایک، کیسی نمائندگی کیسے نیتا؟ ایسے میں کیسے دل چاہے گا کہ ایسو کو ووٹ دیا جائے.

 

ودھایک جی کو یاد ہوگا کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد نے انھیں ایک مشت ووڈ دیا تھا اور جب جب جیتنے والے مسلم امیدواروں کی فہرست شائع کی جاتی ہے تو بلا تفریق پارٹی سارے جیتنے والے مسلم ودھایکوں کا ایک ساتھ نام شامل ہوتا ہے. کیوں کہ یہ لوگ جیتتے ہیں ہماری نمائندگی کے لیے، تاکہ ہماری آواز بن سکیں مگر کرتے ہیں ہمارے خلاف بھلا ایسے کو کیسے ووٹ دیا جا سکتا ہے؟

 

دوسری طرف یہ بھی واویلا مچا ہوا ہے کہ سیکولر پارٹی کو ووٹ دو، نتیش کو مظبوط کرو اور جہاں پر بی جے پی کا امیدوار ہے وہاں آر جے ڈی گٹھبندھن کو ووٹ دو ایسے لوگوں سے میرا کہنا ہے کیا سیکولر کا ٹھیکا مسلمانوں نے ہی لے رکھا ہے؟ ظلم کا شکار کیا صرف مسلمان ہی ہیں۔ سیاسی سوجھ بوجھ کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کی ہے جس نے ستر سالوں تک ایک پارٹی کو مضبوط کرنے میں لگا دیا کیا ملا؟

اس لیے خود مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔ اس مضبوطی میں ہمیں ان تمام کو اپنے ساتھ رکھنا ہوگا اور انھیں ساتھ لے کر چلنا ہوگا جو مظلوم طبقہ ہے۔ ان سیکولر پارٹیوں کا کیا کہنا کب چولا بدل لے اور کب کس کے ساتھ ہو لے۔

 

یاد رہے کہ جسے خود اپنی فکر نہ ہو اس کی کوئی فکر نہیں کرتا۔ اس لیے ہم پہلے خود کو سمجھیں اور اپنی بکھری ہوئی قوت کو یکجا اور مضبوط کریں۔ لوگوں کا درد سمجھیں اور ان کا مداوا بننے کی سعی کریں۔ ورنہ جتنے نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے مسلمانوں اور مظلوم طبقے کا استحصال کیا ہے اور ہمیشہ انھیں حاشیے پر رکھنے کی کوشش کی ہے اتنا کسی اور نے نہیں کیا۔ پھر ہم ان پر تکیہ کیوں کریں۔ ہمیں سوچ سمجھ کر ووٹ کرنے کی ضرورت ہے.

محب اللہ قاسمی 

Mere Gaown ke Hifazat Hussain Sb nahi Rahe

ابا کے حفاظت چا... نہیں رہے

 

    جمعرات 22 اکتوبر 2020 دوپہر ڈھائی بجے کی بات ہے۔ گھر سے خبر موصول ہوئی کہ حفاظت حسین صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔ خبر سن کر بہت افسوس اور دکھ ہوا۔ ابھی بقرعید پر جب میں گھر گیا تھا تو ان سے اچھی ملاقات بات رہی۔ یوں تو وہ پہلے سے بیمار رہتے تھے مگر ادھر کافی دنوں سے ان کی طبیعت بہتر ہو گئی تھی۔ ابھی چند دنوں پہلے ان کے نواسے کی شادی تھی۔ جس میں دوسرے گاؤں سے اپنے گاؤں میں ہونے والی اس شادی میں وہ دونوں طرف سے شریک تھے۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ وہ اس طرح چلتے پھرتے ہنستے بولتے ہم لوگوں سے جدا ہو جائیں گے۔ مگر موت ایک حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے وہ کبھی بھی آ سکتی ہے اس کا کوئی وقت مقرر نہیں۔ لہذا وہ آئی اور حفاظت دادا کو ہم سے لے کر چلی گئی۔

 

    مرحوم ہمارے گاؤں (فاطمہ چک، شیوہر) کے بہت پرانے اور آزادی سے پہلے کے دور کو دیکھنے والے چنندہ لوگوں میں سے ایک تھے۔ اس لیے جب بھی ان سے گفتگو ہوتی تو وہ مختلف موضوعات پر اپنے مخصوص انداز میں کھل کر اظہار خیال کرتے تھے، ماضی کے تلخ اور خوش گوار ایام کا بھرپور تذکرہ کرتے تھے۔ ہنس مکھ، ملنس سار اور خوش مزاج انسان تھے۔

 

    ابھی گزرے سال کی بات ہے میرے والد(مرحوم) بہت بیمار تھے، حفاظت دادا کو ان سے بڑی محبت تھی اور  ابا کو بھی اپنے گاؤں کے لوگوں سے بڑی محبت تھی۔ چنانچہ دادا روزانہ صبح سویرے ابا کو دیکھنے آتے اور باہر والے گھر میں ہی پھاٹک سے زور سے آواز دیتے حسیب...حسیب ابا چاہے جس حال میں بھی ہوں فوراً جواب دیتے ....ہاں....ہاں  حفاظت چا....

    تو وہ بولتے ک ہ ن کا حال چال ہی۔ ٹھیک ہی نا۔(کہو.. کیا حال ہے،طبیعت ٹھیک ہے نا؟(

    ابا بھی کہتے ہاں اللہ کے فضل سے ٹھکے ہی ...(ہاں.. ٹھیک ہی ہے(

 

    مجھے یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ میرے گھر میں گرچے پیسے ہوتے تھے مگر غلہ و غیرہ نہیں ہوتا تھا کیوں کہ ہمارے پاس کھیتی باڑی تو تھی نہیں ۔۔۔اس لیے چاول گیہو خرید کر ہی کھاتے تھے اور یہ غلہ حفاظت دادا کے یہاں سے ہی خریدا جاتا تھا۔ کئی بار پیسے نہ ہونے کے سبب ادھار کا بھی معاملہ رہا، جس میں وہ بڑی رعایت کرتے تھے۔

 

    کچھ زمانہ پہلے چلیں تو وہ دور بھی مجھے یاد ہے کہ مجھے اور دوستوں کو بہت سی شادیوں میں جب بارات جانا ہوا تو ان کے ہی بیل گاڑی سے جانا ہوتا تھا بڑے پیار سے قصہ کہانی سناتے ہوئے لے جاتے۔ مگر لے جاتے وقت ہی کہہ دیتے کہ اُدھر سے واپسی اِس گاڑی پر ہوگی اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کیوں کہ شادی بیاہ کا جو سامان ہوتا تھا وہ واپسی پر اسی گاڑی پر لاد دیا جاتا تھا اور بچے بھی شرارتی وہ بھلا چیورا کسار کہاں چھوڑتے اس لیے مجبوراً وہ سب کو گاڑی سے اتار دیتے خواہ ہم لوگوں کو پیدل ہی واپس کیوں نہ آنا پڑے۔ پھر بھی ہم لوگ ان سے اس وقت بھی بڑی محبت کرتے تھے۔

 

    آخری دنوں میں جب وہ حج سے واپس آئے تو ان میں بڑی تبدیلی آ گئی تھی مسجد سے خاص لگاؤں ہوگیا تھا۔ نماز کی پابندی اور معاملات کی بہتری کی جانب توجہ دینے لگے تھے۔ اللہ تعالی ان کی عبادات کو قبول کرے ۔

 

    جن کے والدین ابھی باحیات ہیں انھیں خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ باب بہت بڑی نعمت ہے۔ دنیا کی کوئی دولت اس کا متبادل نہیں ہوسکتی۔ وہ جنت کا دروازہ ہے۔ اس لیے جب تک ان کی زندگی ہے ان کی خوب خدمت کریں اور خود کو جنت کا مستحق بنائیں۔

    آخر میں اللہ تعالی سے بس یہی دعا ہے کہ رب کریم ان کے گناہوں خطاؤں اور لغزشوں کو معاف فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے۔ پس ماندگان میں بیٹے بیٹیوں سمیت تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔

(محب اللہ قاسمی)

Sunday 18 October 2020

कहानी ...भात....!

कहानी ...भात....!


गीता देवी एक ग़रीब मज़दूर की पत्नी थी, जिसकी दो बेटियां थीं। पहली बेटी गायत्री देवी, जो शादी के दस साल बाद पैदा हुई थी। आस्था के अनुसार इस बच्ची को पाने के लिए उस के मज़दूर बाप ने कई मंदिरों के चौखट लॉनगे, बड़ी मिन्नतें मांगें थीं। इस बेटी के दो साल बाद एक दूसरी लड़की का भी जन्म हुआ । मगर हाय क़िस्मत अभी इस दूसरी बच्चे के जन्म को ढाई साल ही हुए थे कि गीता देवी के मज़दूर पती का देहांत हो गया, जिसकी मज़दूरी के थोड़े पैसे से बड़ी कठनाई के साथ उस के घर चूल्हा जल पाता था। मगर इस दुख भरी की हालत में भी जैसे तैसे समय गुज़र रहा था!

पति की घर में सिर्फ गीता देवी थी और इस की दो बेटियां घर की ज़िम्मेदारी उस के कमजोर कंधे पर आ जाने के बाद उसने भी मज़दूरी शुरू कर दी। मगर कमज़ोर जिस्म के सबब इस से मज़दूरी नहीं हो पाती थी।


वो ख़ुदग़रज़ी और सुअर्थी पर्यावरण के ऐसे दूर से गुज़र रही थी कि जिससे भी उधार माँगती ,लोग साफ़ तौर पर उसे मना कर देते थे। अपने बच्चों की ख़ातिर रोज़ाना चूल्हा जलाने के लिए उस के पास, अक्सर राशन नहीं होता था, जिसका नतीजा हमेशा घर में फ़ाक़ा और भूके रहने की नौबत आती थी।


एक दिन बड़ी बेटी भूक से तड़प कर रोती, बिलकती भात भात चिल्ला रही थी, मगर माँ उसे तसल्ली देते हुए कह रही थी।
’’
रुक जा बेटी अभी भात पकाती हूँ और तुझे खिलाती हूँ।'


रोज़ की तरह उसने राशन के बर्तन में झाँका, मगर इस में चावल का एक दाना भी ना था। अब क्या करे, बेटी भूक से छटपटा रही थी। किसी के ज़रीया पता चला कि गांव में अभी राशन मिल रहा है। वो अपना राशन कार्ड लेकर जाये और राशन ले आए।


ये सुनकर उसने अपना राशन कार्ड निकाला और बोरी लेकर डीलर के पास भागती हुई गई।
वहां पहुंच कर उसने डीलर से कहा:
भया मुझे राशन दे दो। घर में कुछ भी खाने को नहीं है


डीलर ने राशन कार्ड लिया और अपने रजिस्टर से मिलाया। मिलान पर कार्ड दरुस्त निकला, मगर जिन्हें राशन दिया जाये, इस सूची में इस कार्ड का नंबर नहीं था। जब उसे लैपटॉप पर चैक किया। तो पता चला कि इस का राशन कार्ड आधार से लिंक नहीं है।
इस पर डीलर को ग़ुस्सा आया कहने लगा।

जाओ आधार कार्ड से लिंक कराओ। इस के बिना राशन नहीं मिलेगा।


गीता देवी डीलर से मिन्नत समाजत करने लगी।
मेरी बेटी भूक से बे हाल है। राशन में कुछ चावल ही दे दो कि भात पका कर बेटी को खीला दूं , वर्ना मेरी बेटी भूक से मर जायेगी


मगर डीलर के दिल में ज़रा भी दया नहीं आई। उसने उसे ये कहते हुए वहां से भगा दिया
जाओ जब तक ये राशन कार्ड आधार से लिंक नहीं होगा ,तुम्हें राशन का एक दाना भी नहीं नहीं मिलेगा।


बेचारी गीता देवी इन्सानों की दुनिया से दया की भीक ना मिलने पर मायूस घर लौट आई। अपनी बेटी को गले लगा या। इस से पहले कि वो इस से कुछ बोलती उस की आख़िरी आवाज़ भात भात कहते हुए बंद गई।
.....
और गीता देवी उसे सीने से लगाए ज़ोर से चिल्लाते हुए इस डीजीटल बेरहम दुनिया पर मातम कर रही थी।


(कहानी लेखक .....मोहिब्बुल्लाह क़ासिमी)

Email: mohibbullah.qasmi@gmail.com

 


Sunday 4 October 2020

معیشت اہمیت و ضرورت

پریشان حال لوگوں کو خود کفیل بنانے کی ضرورت

محب اللہ قاسمی

معیشت انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ جب انسان پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے اشیاء خورد و نوش کے ساتھ آب و ہوا کا بھی انتظام کیا. ان چیزوں سے استفادہ کے لیے انسان کو ایک مضبوط جسم کے ساتھ دل و دماغ  اور دیگر اعضاء و جوارح بھی عطا کیے تاکہ وہ محتاج اور مجبور محض بن کر نہ رہے۔ پھر اسے حکم دیا گیا :

’’جب تم نمازسے فارغ ہوجاؤ توزمین میں پھیل جاؤ اور خداکافضل تلاش کرو۔ ‘‘(الجمعۃ:۱۰ (

 پتہ چلاکہ مال کوئی گھٹیاچیز نہیں کہ اس سے آنکھیں  موندلی جائیں اور اس کی تلاش وجستجونہ کی جائے۔خودحضورؐنے بھی اس کی اہمیت کواجاگرکرتے ہوئے فرمایاہے۔’’بلاشبہ اللہ مالدار متقی اور  پوشیدگی اختیار کرنے والے کو پسند کرتاہے۔‘‘(مسلم)

 رہی بات قرآن واحادیث میں  مال و دولت کی مذمت کی تویہ ان اموال کے سلسلے میں ہے جوحرام ہوں اور  جنھیں مفاخرت کے طورپرحاصل کیاجائے ،وہ اموال انسان کواپنے خالق ومالک کی یادسے غافل کردیں  ۔ جسکی کی کثرت کے لئے قلب ہمشہ مضطرب اور  پریشان ہویااس سے فقراء ومساکین کاحق ادانہ کیا جا رہا ہو۔  اللہ تعالی کافرمان ہے:

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، تمہارے مال اور  تمہاری اولادیں  تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں ۔  جو لوگ ایسا کریں  وہی خسارے میں  رہنے والے ہیں ۔ ‘‘(المنافقون:۹)

 اگرکسی کی معاشی حالت مستحکم نہ ہو تووہ اپنی ضررتوں کی تکمیل کے لئے دوسرں کےسامنے دست سوال دراز کرے گا، جس کی ممانعت ان احادیث میں  آئی ہے۔  آپ ؐ کی ایک مشہور حدیث ہے آپ نے ارشاد ہے :’’السوال ذل‘‘ دست سوال دراز کرنا ذلت کی بات ہے۔

 اس لیے انسان نے اپنے رب کی عطا کردہ ذہنی و جسمانی قوت کو من جد وجد کے تحت لگاتا ہے اور وہ ساری چیزیں حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے جو ان کے لیے ناگزیر  ہیں. اس طرح حصول معاش کی جدو جہد کرنے والے گروہ میں بنیادی طور پر تین قسم کے لوگ شامل ہو گئے: تاجر، کسان اور ملازم۔


اسباب معیشت :

اگر ہم اسباب معیشت پر غور کریں تو ہمیں اس کی تین قسمیں ملیں گی.

(۱)تجارت      (۲)  صنعت و ذراعت          اور (۳)ملازمت

 تجارت

 تجارت معیشت کا بہترین ذریعہ ہے جو اچھے، نیک اور خیر خواہ لوگوں کے ہاتھ ہو تو اس کا بہترین اثر معاشرے پر دکھے گا. اللہ نے اس میں بڑی برکت رکھی ہے۔یہ صبر آزما اور تسلسل کے ساتھ انجام دیا جانے والا عمل ہے.

 تجارت نبی اکرم ﷺ کا طریقہ تھا جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین نے اختیار کیااور معاشرے کو غربت و یاس سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی. جس کی بہترین مثال وہ واقعہ بھی ہمارے ذہن میں  رہناچاہئے کہ ایک شخص آپ ؐکی خدمت میں حاضرہوااوراپنی ضرورتوں کاسوال کربیٹھا ۔ آپ ؐ نے اس سے دریافت کیا :تمہارے پاس کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا :ایک چادراورایک پیالہ! آپ نے دونوں  چیزوں  کو طلب کیا اور  انھیں  صحابہ کرام کے درمیان بیچنے کی بولی لگادی ایک صحابی نے اسے خرید لیا۔ آپؐ نے حاصل شدہ رقم کو اس آدمی کے حوالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نصف رقم سے گھر کے لیے کھانے پینے کی چیزیں  خرید لو اور  نصف رقم سے کلہاری خریدلائو۔  چنانچہ اس نے ایساہی کیا، پھرآپ ؐ نے اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ لگادیا اور حکم دیاکہ جنگل جاکر اس سے لکڑی کاٹو اور بازار میں فروخت کرو۔  اس نے ایساہی کیااس طرح اس تجارت سے اس کی اقتصادی حالت درست ہوگئی اور سوال کی ذلت سے محفوظ ہوگیا۔

 حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بہت بڑے تاجر  تھے کہ ان کی وفات کے بعدان کے پاس جو سونا تھا اسے کلہاڑی سے کاٹ کر وارثوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔  اسی طرح حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کی زندگی دیکھی جائے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں علم وعمل کے ساتھ مال ودولت میں بھی کافی فراوانی عطا کی تھی، جس کا وہ مظاہرہ بھی کرتے تھے ۔ عمدہ لباس زیب تن فرماتے اور اپنے دوستوں پر بھی خوب خرچ کرتے تھے ۔  موصوف کا شمار کپڑوں کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا ۔ ان کے علاوہ بھی تاریخ میں متعدد شخصیات کا تذکرہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو مال و دولت سے نوازا تھا اور  وہ بحسن وخوبی اس کاحق ادا کرتے تھے۔ اس کے ذریعہ بہت سی دینی خدمات انجام دیتے تھے۔  

 

ذراعت یعنی کھیتی باڑی

محنت و مشقت کے ساتھ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے کھیتی باڑی کا عمل انجام دیا جائے تو یہ بھی معیشت کا ایک اہم ذریعہ ہے جس سے انسانی زندگی کی بہت سی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں.

 درج بالا دونوں اسباب اختیار کرنے کے لیے مال و جائیداد کی ضرورت پڑتی ہے. جب کہ ملازمت یعنی نوکری کرنے میں وہ بات نہیں. انسان اپنی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر نوکری حاصل کر لیتا ہے. یہی چیز اس کے لیےدو وقت کی روزی روٹی کا ذریعہ بن جاتی ہے. اس دور میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے. اس لیے ملازمت کی ضرورت بڑھ گئی ہے ۔ ملازمت نہ ملنے کی صورت میں بے روزگاری بڑھ گئی ہے. اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پر غور کیا جانا چاہیے.

 مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں اس بات پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ اس وقت معیشت کے ہر میدان میں گراوٹ اور بدحالی کی کیفیت پیدا ہو گئی روزگار ختم ہوتے جا رہے ہیں ہر طرف افراتفری کا ماحول بنا ہوا لوگ پریشان حال ہیں ان کی تنگ دستی اور پریشانی کو دور کرنے کے لیے انھیں خود کفیل بنانے اور امت میں تجارت کو فروغ دینے کی کوشش ہو آغاز میں چھوٹے چھوٹے کاربار کی طرف راغب کیا جائے اور عملی  اقدام جاری رہے۔ جس کے لیے ماحول بنانا اور اسباب مہیا کرنا بھی ضروری ہے


Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...