Monday 29 August 2022

Ek Azeem Murabbi Dayee Rahnuma

ایک عظیم مربی ، داعی اور رہنما ... مولانا سید جلال الدین عمری

 

جمعہ کا دن تھا دفتر بند تھا کیمپس میں واقع اپنے رہائشی کمرے میں اکیلے پریشان بیٹھا تھا تبھی میرے موبائل کی گھنٹی بجتی ہے. ریسپشین (استقبالیہ ) سے فون تھا۔ فون اٹھایا سلام کے بعد کسی نے کہا کہ محترم امیر جماعت (مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند) بات کریں گے. اتنے میں فون پر مولانا محترم کی آواز آئی. میں نے فوراً سلام کرتے ہوئے کہا :جی محترم فرمائیں. مولانا نے فرمایا: ’’بھئی آپ کے والد صاحب کے انتقال کی خبر ملی. بڑا دکھ ہوا. اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے. اللہ آپ کو صبر عطا کرے آپ بھائی بہنوں میں بڑے ہیں سب کو سنبھالیے.‘‘

یہ واقعہ 25 جنوری 2019 کا ہے.  ان کی ان تعزیتی کلمات سے مجھے جو حوصلہ ملا میں بتا نہیں سکتا۔ مولانا محترم کوئی اور نہیں مولانا سید جلال الدین عمری سابق امیر جماعت تھے۔

اورآج 26؍اگست 2022 بوقت شام برادر انوارالحق بیگ صاحب کا فون آیا:’’ ارے محب اللہ کہاں ہو جلدی الشفا اسپتال چلے آؤ سابق امیر جماعت کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے آکر مل لو.‘‘

(ہفتہ دن پہلے میں مولانا ولی اللہ سعیدی صاحب کے ساتھ مولانا محترم کی اعادت کے لیے الشفا اسپتال  ان سے مل کر آیا تھا۔ اس وقت تو کچھ بہتر لگ رہے تھے مگر بعد پھر آئی سی یو میں منتقل کر دئے گئے) میں پہنچا پتہ چلا ابھی ساڑھے آٹھ بجے شب بتاریخ 26 اگست 2022 مولانا محترم کا انتقال ہوگیا ہے. انا للہ وانا الیہ راجعون.

 

موت تو آخر موت ہے آنی ہے اور آتی رہتی ہے. اس لیے کہ دنیا میں جو بھی آیا ہے اسے ایک دن جانا ہے. نہ یہ دنیا ہمیشہ رہنے والی ہے نا یہاں کی کوئی شئی. کل من علیہا فان جو کچھ یہاں ہے سب کو فنا ہونا ہے کہ یہ دنیا خود فانی ہے.

 

اللہ کا فرمان ہے کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے. بس دیکھنا ہے کہ مہلت عمل لے کر دنیا میں آنے والا انسان اپنے خالق و مالک کی رضا کی خاطر کیا کچھ اپنے نامہ اعمال میں لے کر جاتا ہے.

سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری صاحب جلیل القدر شخصیت، با وقار جید عالم دین، درجنوں کتاب کے مصنف، بے باک خطیب اور عظیم مربی داعی اور رہنما تھے۔ مولانا مرحوم کے خطبے کی وہ بے باک بات جو آج بھی اسی گرج کے ساتھ میرے کانوں میں گونجتی رہتی ہے "ہم کوئی حرف غلط نہیں جسے مٹا دیا جائے"

 

مولانا محترم اسلام کی تفہیم و اشاعت اور اس پر عمل کے سلسلے میں تفردات اختیار کرنے کے بجائے دین کو اس کے اصل ماخذ سے پر عبور کے باعث اجتماع  امت کی بھرپور اتباع کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب جماعت اسلامی کے کیمپس میں واقع مسجد اشاعت اسلام میں ماہ رمضان کے دوران شعبہ تربیت مرکز کی جانب سے ہر اتوار کو دینی سوالات و جوابات کا پروگرام رکھا جاتا تھا جس میں عوام کی جانب سے سوالات ہوتے اورمولانا محترم اس کا جواب دیتے تھے۔بہت سے سوالات میں ایک سوال تراویح کی بیس اور آٹھ رکعات سے متعلق تھا اور مسجد اشاعت اسلام میں 20 رکعات تراویح ہوتی تھی۔ آپ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا :

’’ جنھیں لگتا ہے کہ وہ بیس کے بجائے 8 رکعات پڑھنی ہے تو وہ اس مقام پر جائیں جہاں 8رکعات کا اہتمام ہوتا ہے اور بیس پڑھنے والے بیس 20 والے مقام پر پڑھیں اس پر بضد ہونا کہ آٹھ والی جگہ بیس ہو یا بیس والی جگہ آٹھ یہ بہتر نہیں‘‘۔ مذکورہ واقعہ جو مجھے پہلے سے بھی معلوم ہوتا مگر جب مولانا عبدالسلام اصلاحی سابق معاون شعبہ تربیت مرکز نے اس واقعہ کا تذکرہ کیا تو وہ یاد تازہ ہوگئی۔

 

مولانا محترم مسلم پرسنل بورڈ کے نائب صدر تھے اور اپنی علمی و فکری صلاحیت و صالحیت کی بنا پر نا صرف اپنے حلقہ یعنی جماعت اسلامی ہند میں معروف شخصیت تھے بلکہ دیگر مکاتب فکر میں بھی یکساں طور پر قابل قدر اور علم دوست کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.

 

جلسے و اجتماعات میں  آپ کی تقریر و گفتگو ایک عجیب سی روحانی کیفیت پیدا کردیتی تھی جس سے دل اللہ کی طرف مائل ہو جاتا تھا اور آنکھیں گناہوں کو یاد کرتےہی چھلکنے لگتی تھیں۔ کئی بار مرکزی تربیت گاہ کے اختتامی پروگرام میں جب آپ زاد رہ کے طور پر اظہار خیال کرتے اور دعا فرماتے توشرکاکے ساتھ میری بھی آنکھیں نم ہوئیں اور دل میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی۔ تحریکی کارکنان سے گفتگو کرتے ہوئے بطور نصیحت انھیں ذاتی تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی تلقین فرماتے اور انھیں  احساس دلاتے کہ دفتر اور کام کاج کے بعد جو وقت آپ کو ملتا ہے اسے ضائع اور لغو کام میں برباد کرنے کے بجائے اسے مطالعہ کتب اور اپنی تربیت پر لگانا چاہیے۔

 

یہ بات درست ہے آپ کے وضع قطع اور نورانی چہرے کو دیکھ کر خدا یاد آتا تھا۔ آپ یقیناً اس دار فانی سے رخصت ہو کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ہیں مگر کتابوں کی شکل میں آپ نے جو علمی ذخیرہ چھوڑا ہے، خطبات کی شکل میں اسلامی موقف کی تائید و وضاحت کی ہے اور اپنے خدمت دین کے جذبوں سے امت کو جو پیغام دیا ہے لوگ ان سے مستفید ہوں گے جو ان شاءاللہ تعالیٰ آپ کے لیے صدقہ جاریہ اور ذخیرہ آخرت ثابت ہوگا.

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے مولانا محترم کی مغفرت، آپ کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور لواحقین صبر جمیل عطا کرے آمین.

محب اللہ قاسمی

معاون شعبہ تربیت مرکز جماعت اسلامی ہند

 

  

Sunday 21 August 2022

Achchi kitab Achcha Sathi

 

اچھی کتاب، ایسا اچھا ساتھی ہے جو زندگی بدل دے

محب اللہ قاسمی

 انسان جب شخصیات کو پڑھتا ہے تو انھیں اپنی زندگی میں محسوس کرتا ہے۔ اس وقت اسے یہی خیال گھیرے رہتا ہے کہ میں بھی ان کے جیسا بنوں، خاص طور پر جب ایسی کوئی  کتاب بچپن میں پڑھی جائے۔ہم سب اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں کہ اچھی کتاب ایک بہترین ساتھی  موثر مربی ہے جو ہماری مناسب خطوط پر رہنمائی کرتی ہے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور سنوارنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ایسی ہی کتابوں میں سے ایک کتاب جو میرے سامنے آئی وہ اعلی شخصیات پر بڑےخوب صورت اور دل چسپ انداز کی پہلی کتاب تھی۔  اسےعربی زبان میں پڑھنے کا اللہ تعالی نے مجھے شرف بخشا ۔ داخل نصاب ہونے کے سبب میں اسے سبقاسبقا پڑھ رہا تھا۔

 

صحابی کون ہوتے ہیں ؟ یہ جانتا تو تھا، پھر یہ بھی معلوم تھا کہ صحابہ ؓدنیا کی بڑی نیک شخصیات اور بڑے  اچھے انسان تھے۔مگر ان کی زندگیاں کیسی تھیں ؟ آخر کیسے انھیں رضوان اللہ علیہم اجمعین کا الٰہی خطاب ملا؟ ان سب چیزوں سے نا واقف تھا۔ پہلے دن کا پہلاسبق ہی اتنا دل چسپ لگا اور اس قدر مؤثر تھا کہ پورا دن سوچنتا ہی رہ گیا؟

 

عنوان تھا

’’ سعید بن عامرجمحیؓ‘‘ 

ان ہزاروں انسانوں میں سے ایک نوجوان سعید بن عامرجمحی ؓ بھی تھا جو سرداران قریش کی دعوت پر مکہ سے باہر مقام تنعیم پر صحابی رسولﷺ حضرت خبیب بن عدی ؓ کے قتل کا تماماشا دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ جیسے روساء قریش کے پہلو بہ پہلو جا کھڑا تھا۔ زبردست ہجوم میں سعید بن عامر خبیب کو دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ خبیب کہہ رہا ہے "اگر تم لوگ چاہو تو قتل سے پہلے مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کا موقع دے دو" پھر سعید نے دیکھا کہ خبیب بن عدی نے قبلہ رو ہوکر دو رکعتیں پڑھیں۔ اور خبیب نے زعماء قریش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "واللہ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم میرے متعلق اس بدگمانی میں مبتلا ہوجاؤ گے کہ میں موت سے ڈر کر نماز کو طول دے رہا ہوں تو میں اور لمبی اور اطمینان کے ساتھ نماز پڑھتا"

 

آج کا سبق یہی ختم ہو گیا۔

 

اب میں پورے دن اسی خیال میں گم  رہا کہ آخر کیا ہوا ہوگا حضرت خبیبؓ کے ساتھ۔ کہیں واقعی ان ظالموں نے انھیں شہید کر دیا ہوگا، یا کوئی ایسی ترکیب ہوئی ہوگی جس سے وہ بچ گئے ہوں گے؟ خیر رات میں کچھ حصہ خود سے مطالعہ کرنے لگا۔ کیوں کہ آئندہ کا سبق پہلے سے ہی مطالعہ کر کے جانا اس کلاس کے استاذ محترم کی خاص ہدایت تھی۔ٹوٹے پھوٹے انداز میں جو کچھ پڑھا تو پتہ چلا:

 

سعید نے بہ چشم سر اپنی قوم کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ زندہ ہی خبیب کا مثلہ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتے جاتے ہیں۔

“کیا تم یہ بات پسند کرو گے کہ اس وقت محمد(ﷺ )تمہاری جگہ یہاں ہوتے اور تم اس تکلیف سے نجات پاجاتے”

 

خبیب نے جواب دیا(اور اس وقت ان کے جسم سے بے تحاشا خون بہ رہا تھا)’’ واللہ مجھے تو اتنا بھی گوارا نہیں کہ میں امن و اطمینان کے ساتھ اپنے اہل و عیال میں رہوں اور اللہ کے رسولﷺ کے پاؤں کے تلوے میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے”

 

یہ سنتے ہی لوگوں نے اپنے ہاتھوں کو فضا میں بلند کرتے ہوئے چیخنا شروع کر دیا۔ مارڈالو اسے، قتل کرڈالو اسے۔ پھر سعید بن عامر کی آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ خبیب نے تختہ دار ہی سے اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا: اَللّٰھُمّ احصَہم عَدداً وَاقتُلھُم بَددا وَلا تُغَادر مِنھُم اَحَدا "خدایا! انہیں ایک ایک کر کے گن لے،انہیں منتشر کرکے ہلاک کر اور ان میں سے کسی کو نہ چھوڑ" پھر انہوں نے آخری سانس لی اور روح پاک اپنے رب کے حضور پہنچ گئی۔ اس وقت ان کے جسم پر تلواروں اور نیزوں کے ان گنت زخم تھے۔

 

نوجوان سعید بن عامر جمحی، خبیب کی مظلومیت اور ان کے دردناک قتل کے اس دل خراش منظر کو اپنے لوح ذہن سے اک لمحہ کے لیے محو نہ کرسکا۔ وہ سوتاتوخواب میں ان کو دیکھتا اور عالم بیداری میں اپنے خیالات مین ان کو موجود پاتا۔ یہ منظر ہر وقت اس کی نگاہوں کے سامنے رہتا کہ خبیب تختہ دار کے سامنے بڑے سکون واطمینان کے ساتھ کھڑے دورکعتیں ادا کر رہے ہیں۔ اوراس کے پردہ سماعت سے ہروقت ان کی وہ درد بھری آواز ٹکراتی رہتی جب وہ قریش کے لیے بد دعا کر رہے تھے اور اس کو ہروقت اس بات کا ڈر لگا رہتا کہ کہیں آسمان سے کوئی بجلی یا کوئی چٹان گر کر اسے ہلاک نہ کر دے۔ پھر خبیب نے سعید کو وہ باتیں بتا دیں جو پہلے سے اس کے علم میں نہ تھیں۔ خبیب نے اسے بتایا کہ حقیقی زندگی یہی ہے کہ آدمی ہمیشہ سچے عقیدے کے ساتھ چمٹا رہے اور زندگی کی آخری سانس تک خدا کی راہ میں جدوجہد کرتا رہے۔ خبیب نے سعید کو یہ بھی بتادیا کہ ایمان راسخ کیسے کیسے حیرت انگیز کارنامے انجام دیتا ہے اور اس سے کتنے مخیر العقول افعال ظہور پزیر ہوتے ہیں۔

 

خبیب نے سعید کو ایک اور بڑی اہم حقیقت سے آگاہ کیا کہ وہ شخص جس کے ساتھی اس سے اس طرح ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں، واقعی برحق رسول اور سچا نبی ہے اور اسے آسمانی مدد حاصل ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سعید بن عامر کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیا۔ وہ قریش کی ایک مجلس میں پہنچا اور وہاں کھڑے ہوکر اس نے قریش اور ان کے کالے کرتوتوں سے اپنی لاتعلقی و نفرت اور ان کے معبودان باطل سے اپنی بیزاری و برات اور اپنے دخول اسلام کا برملا اور کھلم کھلا اعلان کر دیا۔

 

 اس کے بعد سعید بن عامر ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے اور مستقل طور پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت اختیار کرلی۔ غزوہ ٔخیبر اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمرکاب رہے اور جب نبی اکرم ﷺ اپنے رب کے جوار رحمت میں منتقل ہو گئے تو سعید بن عامر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دونوں خلفاء ابوبکر صدیق اور عمر کے ہاتھوں میں شمشیر برہنہ بن گئے اور انہوں نے اپنی تمام جسمانی اور نفسانی خواہشات کو خدائے تعالیٰ کی مرضیات کے تابع کر کے اپنی زندگی کواس مومن صادق کی زندگی کا نادر اور بے مثال نمونہ بنا کر پیش کیاجس نے دنیوی عیش و عشرت کے عوض آخرت کی ابدی و لافانی کامیابی اورفائز المرامی کو سودا کر لیا ہو۔

 

ایک بار وہ  حضرت عمر فاروق ؓکے دور خلافت کے ابتدائی ایام میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نصیحت کرتے ہوئے ان سے کہا:

 

“عمر! میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ رعایا کے بارے میں ہمیشہ خدائے تعالٰیٰ سے ڈرتے رہیے اور خدا کے معاملے میں لوگوں کا کوئی خوف نہ کیجئے اور آپ کے اندر قول و عمل کا تضاد نہ پایا جا ئے۔ بہترین قول وہی ہے جس کی تصدیق عمل سے ہوتی ہو‘‘

 

 انہوں نے سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا:

 

’’ عمرؓ! دور و نزدیک کے ان تمام مسلمانوں پر ہمیشہ اپنی توجہ مرکوز رکھیے جن کی ذمہ داری اللہ تعالٰیٰ نے آپ پر ڈالی ہے اور ان کے لیے وہی باتیں پسند کیجئے جو آپ خود اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے پسند کرتے ہیں اور حق کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرے کی بھی پروا نہ کیجئے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کو خاطر میں نہ لائیں‘‘

 

 سعیدؓ! یہ سب کس کے بس کی بات ہے؟ حضرت عمرؓ نے ان کی یہ باتیں سن کرکہا۔

 

یہ آپ جیسے شخص کے بس کی بات ہے جس کو اللہ تعالٰیٰ نے امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ دار بنایا ہے، جس کے اور خدا کے درمیان میں کوئی دوسرا حائل نہیں ہے" سعید نے کہا۔ اس گفتگو کے بعد خلیفہ نے سعید بن عامر سے حکومت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں تعاون کی خواہش ظاہر کی اور فرمایا: سعید میں تم کو حمص کا گورنر بنا رہا ہوں۔ ‘‘

 

عمرؓ ! میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے آزمائش میں نہ ڈالیے" سعید نے جواباً عرض کیا۔

 

 ان کا یہ جواب سن کر حضرت عمرؓنے قدرے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: "خدا تمہارا بھلا کرے ۔تم لوگ حکومت کی بھاری ذمہ داریاں میرے سر ڈال کر خود اس سے کنارہ کش ہوجانا چاہتے ہو، اللہ کی قسم میں تم کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا‘‘

پھر حضرت عمرؓ نے حمص کی گورنری ان کے سپردکیا۔

 

ایک مرتبہ حضرت عمر ؓنے ان کے لیے ایک ہزار دینار بھیجے، تاکہ ان سے وہ اپنی ضروریات پوری کریں۔ جب ان کی اہلیہ نے ان دیناروں کو دیکھا تو بولیں کہ اللہ  کا شکرہے کہ اس نے ہم کو آپ کی خدمت کرنے سے بے نیاز کر دیا۔ آپ اس رقم سے ہمارے لیے ایک غلام اور ایک خادمہ خرید دیں۔ یہ سن کر سعید نے کہا :

 

’’ کیا تم کو اس سے بہتر چیز کی خواہش نہیں؟ ‘‘اس سے بہتر؟ اس سے بہتر کیا چیز ہے؟اہلیہ نے پوچھا۔

 

’’یہ رقم ہم اس کے پاس جمع کر دیں جو اسے ہم کواس وقت واپس کر دے جب ہم اس کے زیادہ ضرورت مند ہوں۔‘‘ سعید نے بات سمجھائی۔ اس کی کیا صورت ہوگی؟اہلیہ نے وضاحت چاہی۔

 

سعید نے کہا :’’ ہم یہ رقم اللہ تعالٰیٰ کو قرض حسنہ دے دیں‘‘ اہلیہ نے کہا: ’’ہاں، یہ بہتر ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیردے‘‘

پھر سعید نے اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے ان تمام دیناروں کو بہت سی تھیلیوں میں رکھ کر اپنے گھر کے ایک آدمی سے کہا :

’’انہیں فلاں قبیلے، فلاں قبیلے کے یتیموں، فلاں قبیلے کے مسکینوں اور فلاں قبیلے کے حاجتمندوں میں تقسیم کردو‘‘

 

 اللہ تعالیٰ سعید بن عامر جمحی سے راضی ہو۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خودمحتاج اور ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔

 

اس سال میں مدرسہ جامع العلوم مظفرپورمیں عربی اول کا طالب علم تھا اور جس کتاب سے  صحابی رسول ؓ کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ ڈاکٹر عبدالرحمن پاشا کی کتاب ’’صورمن حیاۃ الصحابہ‘‘ ہے ۔ اس کتاب کی کئی جلدیں ہم لوگوں نے الگ الگ کلاس میں پڑھیں۔ اس وقت دل میں خیال آتا تھا کہ کاش کوئی اس کا خوب صورت ا ردو ترجمہ کر دیتا تو یہ عام مسلمانوں کے لیے، جو عربی نہیں جانتے، کس قدر مفید ہوتا ۔اور اس طرح میں پھر جب میں دارالعلوم دیوبند آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کاشاندار ترجمہ ’’زندگیاں صحابہؓ کی‘‘ کے نام سے 1994میں ہی شائع ہو چکا ہے۔ یہ ترجمہ ابوجاوید اقبال قاسمی صاحب نے کیا ہے ۔ اس مضمون میں اس سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی مصنف اور مترجم دونوں کو جزائے خیر عطا کرے اور قارئین کو کتاب سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے،اس عکس صحابہ ؓکوسامنے رکھ کر اپنی زندگی بنانے اور سنوارنے کی توفیق بخشے۔ آمین

***

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...