Sunday 27 March 2011

Ghardish e Ayyam


روزانہ آفتاب مشرق کے دریچے سے جھانکتاہوا مغرب کے سمندرمیں غروب ہوجاتا ہے ۔  دھوپ چھاؤں ،سردی گرمی ،خزاں بہار،دن مہینے اور سال بدلتے رہتے ہیں ۔ یہ انقلاب ہر چیز میں رونماہورہا ہے چاہے وہ دینی،سیاسی،معاشی کیفیت ہو یا معاشرتی حالات ۔ آج پوری دنیااسی کے زیراثرہے جس پرانقلاب کی آندھی چل پڑی ہے مگر آوارہ گرد یہ جھونکاجوانسان کو انسانیت کی شناخت سے الگ کرکے درندہ صفت بنا  دینا  چاہتی ہے۔   ’’ہندو،مسلم ،سکھ ، عیسائی ، آپس میں  سب بھائی بھائی ‘‘ کے گیت گانے والے لوگ ظلم وستم کی داستانیں  تحریرکرنے میں  لگے ہوئے ہیں ۔  جہاں  خوشیاں  ہی خوشیاں ہوتی تھیں  اب وہاں  رونے،کراہنے اور چلانے کی آوازیں  سنائی دیتی ہیں ۔ مسلمان اچھے اخلاق واعلیٰ کرادار ، پاکبازی،عدل پروری اور  حق گوئی وراست روی کی مثال آپ ہواکرتے تھے ۔ آج ان کی اس شناخت کوبگاڑنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے ۔

اس ’’گردش ایام ‘‘نے ہمارے معاشرے ،تہذیب وتمدن اور کلچرکوبھی متأثرکیاہے اور  انسیت پسندانسان کواپنے شکنجے میں  دبوچ کراس کی اصل شکل وصورت مسخ کردی ہے ۔  اسے جدت وبدعت پسندبنادیاہے اور کبھی نہ سوکھنے والے ہرے بھرے درخت نما ’’مومن‘‘ کو اپنے حسین فریب کاریوں کے لوکے تھپیڑوں  سے جھلسا کر رکھ دیا ہے۔
قدم قدم پہ فتنوں کاہجوم ہے۔ خواہشاتِ نفس کی رغبت جس کی تکمیل کے لئے ہرقسم کی سہولتیں  بآسانی فراہم ہورہی ہیں ۔ برائیوں کوعروج اور  اچھائیوں  کو زوال کی دھول چٹائی جارہی ہے۔ لہوولعب کے مراکز آباد ہورہے ہیں ۔  مسجدیں  ویران پڑیں  ہیں ۔ ہونٹوں پے گانوں کے قطار بندھے ہوئے ہیں ۔  جبکہ زبان کلمہ حق سے ناآشناہے بے حیائی وبے شرمی ،بدکاری وبداخلاقی کاشورغل مچاہواہے۔  مزیدبرآں  یہ کہ عورتوں  کو شانہ بشانہ قدم بہ قدم ملاکرچلنے کی تعلیم دی جارہی ہے اور پردہ کے خلاف بے پردگی کا زور اور دباؤڈالاجارہاہے ۔ جس کے شرمناک اور  خطرناک نتائج بھی سامنے آرہے ہیں ۔

اتحادواتفاق کانعرہ توبلندکیاجارہاہے مگر منافرت کی بیج بو کر ظلم وستم کی تحریک بھی چلائی جارہی ہے۔ کوئی تو میٹھے الفاظ کے کمان سے دل پروارکرہاہے توکوئی اپنے ماضی کے کارناموں کوپیش کرکے لوگوں  پراپنے تسلط کاسایہ ڈالناچاہ رہاہے۔  درحقیقت یہ ریاکاردانشورانِ قوم غم خواری وغم گساری کی حقیقت کومٹاکرملنے والی ’’آرام کرسی‘‘پرنگاہیں جمائے ہوئے ہیں ،انہیں  کوئی فرق نہیں  پڑتاکہ کس کاگھرجل رہاہے ، کس کی جان لی جارہی ہے اور کس کامال واسباب برباد کیاجارہاہے؟

الغرض اجالا آپ ہی کپکپاتاہواسمٹتاجارہاہے جیسے وہ اندھیروں کے لئے جگہ خالی کررہا ہو۔  نیکیاں  پسینہ پسینہ ہوتی جارہی ہیں  جیسے برائیوں کادوردورہ شروع ہونے والاہے۔ ایسے میں  چین وسکون امن واطمیناکی خواہاں انسانی فطرت اس قدر گناہ آلودہ ماحول کو دیکھ کرحیران وپریشان اور تھکی ہوئی آوازمیں بول پڑتی ہے۔ اے گردش ایام تجھے کیانام دوں ……؟ ایسے میں  مسلم معاشرے کے سامنے کئی سوالات گردش کرنے لگتے ہیں ۔ کیا یہ ظلم وستم صرف ہمارے لئے ہی مقدر ہے ؟ ماضی کاماحول کتنااچھاتھا۔ کیاوہ پرامن فضا دوبارہ قائم نہیں  ہوسکتیں  ؟

تاریخ کے آئینے میں اگر واقعات کودیکھیں  توہمیں  معلوم ہوگا کہ ہردورمیں جب جب ظلم وفسادکاعروج ہواہے اسے زوال کا بھی منہ دیکھناپڑاہے ۔ کیوں  کہ حکومت کبھی ظلم وفسادکے ساتھ نہیں چل سکتی ۔ جس طرح پرامن احتجاج کررہے مصریوں  کومارا اور  کچلا جارہاہے۔ دیگر ممالک میں  انسانوں کا خون بہایاجارہاہے اور جس قدر فتنہ پرپا ہے ۔  یہ سب ظلم کی انتہاہے۔  اس لئے ہم بھی عقل وفکرکی روشنی میں  اگردوسری طرف دیکھیں  توہمیں ان منفی خارداروادیوں سے خوشنمااورروشن مستقبل کاراستہ دکھائی دے گا اور وہ ہے انسانیت کو درکار  ’’فکری انقلاب ‘‘جہاں لوگ صحیح اور غلط کی تمیزکرتے ہوئے اقدام کرناپسندکریں ، انسانیت کے درد کومحسوس کیاجائے  اور  ہرقسم کے مفاد پر انسانیت کو ترجیح دی جائے۔ آج انسانیت ایک ایسے ہی انقلاب کی منتظرہے جوانسانیت کے تمام حقوق فراہم کرسکے ، جہاں مساوات اور برابری کواول درجے کی حیثیت حاصل ہو، عدل وانصاف کااعلی معیارقائم ہو۔  ان ہی تمام خوبیوں کے مجموعے کانام ہے ’’اسلام‘‘جس کا طریقۂ کار زندگی کے بے شمار خوشگوار پہلؤوں  کواپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ جوانسانیت کے لئے بے حدضروری ہے۔

ایسے میں  ایک مسلمان کوجودوسروں کے لئے ایک آئینہ کے مانندہے ۔ اسے’’ گردش ایام‘‘ سے دوچارہوکریااسلامی کلچراورتہذیب میں گھولے گئے مغربیت کے رنگ میں  رنگ کراپنی شناخت اور وقار کومجروح کرنے کے بجائے ان فاسدعناصرکامردانہ وار مقابلہ کرنا چاہئے۔ جس کے لئے مسلمان کو تاحیات دینی ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ان کایہ کردارغیروں کے لئے مشعل راہ اور ظلم وفساد کے سدباب کے لئے سنگ میل ثابت ہو۔

اگرہمارایہ مقصدحیات رہا تواسلام میں  وہ تمام خوبیاں  موجودہیں  جوایک خوشگوارزندگی کے لئے لازمی اور ضروری ہے،جس کے سائے میں  رہ کرانسان کامیاب زندگی گزارسکتاہے ۔ اگراس اسلامی تہذیب اور سوسائیٹی کی تبلیغ واشاعت میں  مشکلات درپیش ہوں تواس کاڈٹ کرمقابلہ کرنا چاہئے گھبراکرقدم پیچھے ہٹانے یامایوس ہونے کی ضرورت نہیں  ،یہ تواس کی ایک آزمائش ہوتی ہیے جس سے مسلمان میں  نکھار پیدا ہوتا ہے    ؎
تندیٔ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
         یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

٭٭٭

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...