Tuesday 28 December 2021

Har ek baat pe kahte ho tum ke tu keya hai

مجھے تو پسند ہے ہی میرے بیٹے کو بھی چچا غالب کا یہ شعر بہت پسند ہے.
ہر یک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

Wednesday 20 October 2021

Aaah ....Mere Dost ke Walid ka Inteqal

 

آہ.... میرے دوست کے والد کا انتقال

یوں تو میرے بچپن میں بہت سے دوست ہوئے، جسے حتی الامکان نبھانے کی میں نے بڑی کوشش کی اور آج بھی نبھانے کی سعی کرتا ہوں. کچھ پٹنہ میں اسکولنگ کے دوران دوست اور کلاس میٹ ہوئے تو کچھ وہاں سے لوٹ کر گاؤں آیا تو گاؤں میں کچھ بچپن کے یار بنے تو کچھ مدرسے میں میرے دوست ہوئے تو کچھ دارالعلوم دیوبند میں ملک مختلف حصوں سے کلاس میٹ کی شکل میں بھی دوست بنے. اب دہلی میں ہوں تو یہاں بھی میرے بہت سے ساتھی اور دوست ہیں.

لیکن ابھی میں جس دوست کا ذکر کر رہا ہوں وہ میرے پچپن کا ایسا دوست ہے جہاں سے میں نے جانا کہ دوستی کسے کہتے ہیں. چھٹیا یعنی چھوٹے یہ اس کا نام نہیں ہے. اس کے گھر والے اور گاؤں لوگ اسے پیار سے اسی نام سے بلاتے ہیں ویسے اس کا اصل نام مطیع اللہ ہے. جو میری ہی طرح اپنے بھائی بہنوں میں سب سے بڑا ہے. آج صبح (15 اکتوبر 2021) واٹس ایپ پر فاطمہ چک گروپ کے ذریعہ اطلاع ملی کہ ان کے والد محترم محمد معراج صاحب کا طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا. انا للہ وانا الیہ راجعون!

موصوف ایک نیک صفت، جفا کش، محنتی اور کم گو انسان تھے. نماز کے پابند اور گاؤں کی مسجد میں اذان دینے کے خواہش مند رہتے، جس کے لیے وہ وقت سے پہلےمسجد پہنچنے کی تیاری کرتے اور وقت پر اذان دیتے تھے. وہ کافی محنتی تھے یہی وجہ ہے کہ بڑی محنت سے تجارت کی اور اللہ نے اس کی برکت سے گھر میں خوش حالی عطا کی. مکان بنایا اپنے دو بیٹوں کو تجارت میں لگایا اور انھیں بھی آگے بڑھایا. ایک چھوٹا لڑکا جسے کافی پڑھایا لکھایا. اس طرح ایک بیٹی اور تین بیٹے سب کی شادی کر اپنی ذمہ داری پوری کی.

 ادھر کافی دنوں سے آپ بہت بیمار چل رہے تھے. چوں کہ موت ایک حقیقت ہے سو موت نے انھیں اپنی آغوش میں لے لیا اور آپ دار فانی کو چھوڑ گئے اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے. 25 جنوری 2019 کو میرے والد محترم کے انتقال کا سانحہ پیش آیا اور آج دو سال بعد میرے دوست کے والد چل بسے. اولاد کے لیے والد کا سایہ عاطفت کیسا ہوتا ہے اسے وہی محسوس کر سکتا ہے جس کے والد کا انتقال ہوگیا ہو.

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے ان کی کمی کوتاہیوں کو معاف کرے، ان کی مغفرت فرمائے، جنت الفردوس اعلی مقام بخشے اور اہلیہ، تین بیٹے اور ایک بیٹی سمیت تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے.       محب اللہ قاسمی

 

Yadgar Sham Maulana Abdul Ghaffar sb se Mulaqat

یادگار شام کی خوبصورت ملاقات

مغرب سے قبل جب میں اپنے دفتر کے کچھ کام میں مصروف تھا اچانک شمس الحسن چا کا فون آیا. کہنے لگے:

"محب اللہ میں کئی دنوں سے دہلی شاہین باغ میں ہوں پرسوں گھر واپسی ہے. میں چاہتا ہوں کہ مولانا عبد الغفار صاحب سے ملاقات کروں تمہیں فرصت ہو تو چلو"

 بڑوں کی بات میں جلدی نہیں ٹالتا جب کہ وہ کسی اچھے کام کے لیے کہہ رہے ہوں اور یہ بات تو ایسی تو جو میری خواہش کی تکمیل تھی. کیوں کہ مولانا عبدالغفار صاحب واحد ایسی محترم شخصیت ہیں جو میرے اور میرے والد مرحوم کے مشترک استاذ ہیں جو علوم دینیہ کے علاوہ سائنس، ریاضی اور اردو ہندی کے ساتھ انگریزی میں بھی کافی مہارت رکھتے ہیں.

... خیر میں فوراً تیار ہوا اور شمس الحسن چا اور ڈاکٹر اسد اللہ صاحب کے ہمراہ تین اشخاص پر مبنی یہ قافلہ بعد نماز مولانا مولانا کے گھر جوگابائی ایکسٹینشن جامعہ نگر پہنچا.

الحمدللہ تقریباً دو دہائیوں کے بعد مولانا محترم سے میری یہ ملاقات ہو رہی تھی اور بڑے بزرگوں کی محفل میں بیٹھنے سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے سو ہم لوگوں نے بھی تقریباً دو گھنٹے پر مشتمل اس مختصر سی محفل میں متنوع موضوعات پر سیر بحث گفتگو کی اور بہت کچھ سیکھا. رخصت کی اجازت سے قبل اپنی تین کتابیں (شخصیت کی تعمیر اسلام کی روشنی میں، رمضان المبارک اور شخصی ارتقاء ، افسانوی مجموعہ کشمکش) مولانا محترم کی خدمت میں پیش کیں آپ بہت خوش ہوئے اور اپنے صاحب زادے کی تصنیف کردہ ایک کتاب نشان راہ ہمیں عنایت کی جسے لے کر ایک یاد گار شام کی خوبصورت ملاقات کے ساتھ ہم لوگ واپس چلے آئیں.

اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ مولانا کو بہ صحت و عافیت رکھے اور ہمیں دین پر عمل کرتے ہوئے خدمت دین کا جذبہ عطا کرے آمین.       محب اللہ قاسمی

Wednesday 11 August 2021

Faramosh hote elaqae Idare

 

فراموش ہوتے ہمارے قدیم علاقائی ادارے

ہم اپنے ان پرانے اداروں کو کھوتے چلے جا رہے ہیں جو کبھی ہماری بنیادی اور ٹھوس تعلیم و تربیت کا ذریعہ رہے ہیں. جن کے فارغین کو اعلی تعلیم حاصل کرنے میں بڑی مدد ملی اور اونچے اداروں تک رسائی حاصل کرنے میں دقتوں کا سامنا نہیں ہوا۔ مگر وہی درس گاہیں آج اپنی مدد اور توجہ کے لیے اپنی پلکیں بچھائے محسنین و مخلصین کی راہ دیکھ رہی ہیں کہ وہ آئیں اور ان کی حالت زار کو سدھاریں۔  انھیں پھر سے وہ مقام دلانے اپنا تعاون کریں جس کے وہ حق دار ہیں۔

 

ایسی درسگاہوں میں سے ایک درس گاہ اسلامی گڑھیا ہے، جو ہمارے ضلع شیوہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، گرچہ یہ گاؤں اور یہ ادارہ  میری گزرگاہ نہیں ہے،  مگر علاقے اور میرے نانیہال کے مضافات میں ہونے کے سبب کئی بار یہاں سے گزرنا ہوا ہے. مگر آج جب وہاں سے گزرا تو دل چاہا کہ ذرا رک کر اسے دیکھوں آخر اتنا قدیم ادارہ اس قدر بے توجہی کا شکار کیوں ہے. کچھ لوگوں سے تفصیلات جاننے کی کوشش کی، اسی گاؤں کے ایک دوست کے گھر گیا مگر اس سے ملاقات نہ ہوسکی.دوسرے لوگوں سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ یہ قدیم ادارہ جو عرصہ پہلے ابتدائی تعلیم کے لیے کافی مشہور رہا ہے، جس سے  گاؤں علاقے کے لوگوں نے  بھرپور استفادہ کیا ہے، مگر گزرتے وقت اور لوگوں کی بے توجہی کے سبب اب یہ ادارہ اس قدرفعال نہیں رہا جس کے سبب وہ مشہور تھا.

خیر میں بھی جلدی میں تھا، مجھے کہیں اور بھی جانا تھا چوں کہ گاؤں میں کم ہی دن کے لیے جانا ہوتا ہے پھر واپسی کی بھی جلدی رہتی ہے۔سو یہ کہہ کر وہاں سے رخصت ہوا کہ ان شاءاللہ دوبارہ آؤں گا تو اس کی مزید تفصیلات جان کر اس کی بہتری کے لئے جو کچھ ہو سکے گا کوشش کروں گا.

براہ کرم آپ حضرات بھی اپنے اپنے علاقے کے ان اداروں کی خبر خیریت لیتے رہیے جس کے سبب علاقے میں علم کا چراغ روشن ہوا اور اپنی شعاؤں سے جہالت کے اندھیارے دور ہوئے۔ ورنہ تاریکیاں کب پیر پسار لے کچھ کہا نہیں جاسکتا.

محب اللہ قاسمی

Monday 9 August 2021

Ham Keun hain Pareshan Kabhi Ghaur Kiya hai


ہم کیوں ہیں پریشان کبھی غور کیا ہے
پڑھتے نہیں قرآن کبھی غور کیا ہے؟

جینے کا ہر انداز ہے ایمان سے عاری
کیا باقی ہے ایمان؟ کبھی غور کیا ہے؟

حالات سے گھبرا کے بکھرنا نہیں اچھا
تھمتا بھی ہے طوفان کبھی غور کیا ہے؟

تم شکر کرو اس کا ادا، دے گا وہ بے حد
کہتا ہے یہ رحمان، کبھی غور کیا ہے؟

فانی ہے جہاں اور حیات اس کی ہے فانی
پھر کیسا ہے ارمان کبھی غور کیا ہے؟

اعمال میں غفلت بھی ہے جنت کی طلب بھی
خوابیدہ مسلمان! کبھی غور کیا ہے؟

ہو ساتھ رفیق اپنے جو عشق شہِ بطحا
پھر زیست ہو آسان کبھی غور کیا ہے؟

محب اللہ رفیق قاسمی

Tuesday 22 June 2021

Mumkin Nahi Khayal Yahan ho Wahan na ho


کلام اور آواز محب اللہ رفیق قاسمی سورج نہ ہو، یہ چاند نہ ہو،آسماں نہ ہو کافی خدا ہے، چاہے یہ سارا جہاں نہ ہو احساں جتا نے والوں سے لازم ہے فاصلہ کم ظرف سا جہاں میں کوئی مہرباں نہ ہو تو چاہتا ہے چھوڑ دوں تنقید اس لیے مجھ سے امیر شہر کہیں بدگماں نہ ہو کھویا ہوا ہوں اس کے ہی فکروخیال میں 'ممکن نہیں خیال یہاں ہو وہاں نہ ہو' بے نورمحفلیں ہیں اوربے رنگ ہے چمن ہر شے فضول ہے وہ اگر گل فشاں نہ ہو ظلم و ستم کو مجھ کو مٹانا ہے اے رفیق! مجھ کوغرض نہیں کہ فلاں ہو فلاں نہ ہو
محب اللہ رفیق قاسمی
Mohibbullah Rafique Qamsmi

Wednesday 21 April 2021

New Book Ramzan aur Shakhsi Irteqa 2021

رمضان المبارک جو کہ ماہ تربیت ہے۔ اس ماہ مقدس میں اس کتاب بھی ضرور استفادہ کریں اور اپنی زندگی میں وہ تبدیلی لانے کی سعی کریں جو اللہ کو اپنے بندوں سے مطلوب ہے تبھی انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوگا اور اس کا شخصی ارتقا ہوگا۔
اللہ تعالی ہماری عبادتوں، ریاضتوں کو شرف قبولیت بخشے اور ہمیں اس ماہ مبارک سے استفادہ کی توفیق بخشے آمین۔

Wednesday 3 February 2021

Adl o Insaf aur Qanoon ki Baladasti

 

عدل و انصاف اور قانون کی بالا دستی

محب اللہ قاسمی

کسی بھی ملک میں امن و سلامتی کے لیے  قانون کی بالا دستی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔اسی لیے جہاں مقننہ کو بہت ہی سوجھ بوجھ اور مفاد عامہ کا خیال رکھتے ہوئے  قانون سازی کاعمل انجام دینا چاہیے، وہیں عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدل و انصاف کے معاملے میں اپنا وقار برقرار رکھے اوراپنی حیثیت کو مجروح نہ ہونے دے ۔ وہ  کسی کے دباؤ میں آئے بغیر انصاف کا معاملہ کرے۔ تبھی عوام کی دلوں میں اس کے عزت  اور قدرومنزلت جا گزیں ہوگی اور اس کا وقار بحال ہو گا۔عوام و خواص میں سے ہرفرد جرم سے پہلے کانپ اٹھے گا۔پھرپولیس ہی نہیں، بلکہ عوام بھی قانون کی رکھ والے اور اس کے محافظ ہوں گے۔ مگر معاملہ جب اس کے برعکس ہو، جرم کا اطلاق مجرم کے نام، اس کے وضع قطع  کو  دیکھ کر کیا جائے اورعدل کے بجائے تعصب کا رویہ اپنایا جائے،  تو ایسی صورت میں بہت سے مسائل کھڑے ہوں گے، ہر طرف ظلم و ستم کا ماحول ہوگا، انصاف میں تعصب کا رویہ اور تاخیر مجرم کو مزید ڈھیٹ بنا دےگا، پھر معاشرہ میں بد امنی، فساد اور انارکی پھیلی گی۔بقول شاعر    ؎

اِس کے پیمانے میں کچھ ہے اُس کے پیمانے میں کچھ

دیکھ ساقی ہو نہ جائے تیرے میخانے میں کچھ

اس معاملے میں اگر ہم اسلام کامطالعہ  کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ عدل و انصاف کا علم بردار ہے۔اس کے یہاں کسی بھی صورت ظلم کی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ نےعدل و انصاف قائم کرنے کی سخت تاکید کی ہے اور حق و صداقت پر مبنی گواہی دینے کا حکم بھی دیا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:’’عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘۔

اس کا مزید ارشاد ہے:

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے گواہ بنو ،اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔ فریقِ معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب ، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے ۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔(النسا:135)

آپؐ عدل انصاف کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے، تاکہ معاشرہ میں امن و امان برقرار رہے۔ حلف الفضول کا واقعہ اس پر شاہد ہے۔جب دنیائے عرب میں حق تلفی،بدامنی اورفسادکا ماحول تیز ہو گیا تھا۔ ایسے حالات میں مظلوم و بے بس لوگوں کی فریادسنی گئی اور ایک تاریخی منشور لانے کے لیے قریش کے چند قبائل نے اقدام کیا،جس کا نام’حلف الفضول‘ ہے۔ جوقیام عدل و انصاف، بنیادی انسانی حقوق اوربے بسوں کی دادرسی کا تاریخ ساز معاہدہ قرارپایا۔نبیؐ اس معاہدہ کے ایک اہم رکن تھے۔ اس معاہدہ کے لیے آپؐ نے عین شباب میں بھرپور تعاون اورمؤثر کردار ادا کیا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ آپؐ نے دور نبوت میں ایک موقع پر ارشادفرمایاتھا:

”اس معاہدہ کے مقابلہ میں اگرمجھے سرخ اونٹ بھی دیے جائیں تومیں نہ لوں اورآج بھی ایسے معاہدے کے لیے کوئی بلائے تو میں شرکت کے لیے تیار ہوں۔“

نفاذ قانون میں کسی طرح کی کوئی لاگ لپیٹ اور قیل و قال کی گنجائش نہیں ہے۔اس معاملہ میں سیرت رسولؐ میں روشن مثالیں ملتی ہیں۔قبیلہ بنی مخزوم جو ایک معزز قبیلہ مانا جاتا تھا اس کی ایک خاتون نے چوری کی۔ لوگوں کا خیال ہوا کہ اس کو سزا نہ ملے۔ لہذا سزا ٹالنے کی سفارش کی گئی۔ اس سفارش پر آپؐ سخت ناگواری کا اظہار کیا پھر نہ صرف یہ کہ قانون نافذ کرتے ہوئے اس خاتون کا ہاتھ کاٹا گیا بلکہ اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جو فرمایا وہ فرمان قانون کی بالادستی کی اعلی مثال ہے: "اگر اس کی جگہ فاطمہ بنت محمد بھی چوری کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا." (مسلم)

اس لیے یہ بات بے جا نہیں کہ کسی بھی صالح اور معاشرہ کا دارو مدار اسی عدل پر ہے۔ اگر اس سے عدل نکل جائے تو پھر وہ مستحکم نہیں رہ سکتا ہے ،بلکہ وہ ریاست اور معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر تباہ ہوجائے گا ۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:

’’سیاست شرعیہ کی عمارت دوستونوں پر قائم ہے: ایک ہے مناصب اور عہدے اہل تر لوگوں کو دینا اور دوسرا ہے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا۔ انصاف ہی پر دنیا  ودین کی فلاح کا دار و مدار ہے ۔ بغیرعدل کے فلاح دارین کا حصول ناممکن ہے۔‘‘ (نضرۃ النعیم)

آج پوری دنیا اسی عادلانہ نظام کے انتظار میں ہے۔جسے رہبر انسانیت حضرت محمد ﷺ نےرب العالمین کے فرمان کے مطابق قائم کیاتھا، جسے دین  اسلام  کہا جاتا ہے۔اس نظام کے تحت اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو معاشرہ ہر طرح کے فتنہ و فساد سے مامون ہو  جائے گا۔ پھر کسی کا کوئی حق  مارا جائے گا نہ کسی کو ظلم و تشد اور تعصب کا شکار بنایا جائے گا۔ہر طرف امن و امان کاقیام ہوگا۔ آپسی محبت،باہمی مساوات اور انسانیت کا فروغ ہوگا۔

 *****

Sunday 17 January 2021

Elm o Taqwa aur Sadgi ka Paikar: Dr Mohd Rafat

 

علم و تقوی اور سادگی کا پیکر ڈاکٹر محمد رفعت

محب اللہ قاسمی

ایک ضخیم مسودہ سامنے ٹیبل پر تھا، جسے برائے تبصرہ و نظر ثانی بھیجنا تھا۔اسے لفافے میں رکھا اور اس پر ’ بہ خدمت ڈاکٹر محمد رفعت‘ لکھا اور سوچنے لگا:یہ رفعت کون ہیں؟ جہاں بار بار الگ الگ مسودے بھیجے جاتے ہیں اور وہاں سے کچھ ہی دنوں میں لال قلم سے اصلاح و ترمیم کے بعد واپس لوٹ آتے ہیں۔وہ اردو اور انگریزی دونوںمسودے بھی دیکھتے اور ان پر تبصرہ کرتے ہیں۔ ان کے فائنل تبصرے پر ہی مسودہ اشاعت کے مرحلے میں جاتا. یہ2008 کی بات ہے جب سید عبدالباسط انور صاحب تصنیفی اکیڈمی اور شعبہ تربیت مرکز جماعت اسلامی ہند دونوں کے مشترکہ مرکزی سکریٹری تھے اور میں ان کا معاون۔ایک دن میں اپنے دوستوں کے ساتھ بعد نماز مسجد میں ہی کھڑا ایک دوسرے سے باتیں کر رہا تھا۔ اتنے میں میرے دوست سب کے سب ایک شخص کی طرف متوجہ ہوئے، جس کے جسم پر معمولی لباس تھا ،چہرے پہ مسکراہٹ تھی، پیشانی پر گول سیاہ نشان، پینٹ مگر ٹخنے کے اوپر تھی. یوں تو میں نے انھیں کئی بار دیکھا تھا پر اس دن دوستوں کے ساتھ میں نے بھی ان سے مصافحہ کیا۔ تبھی میرے ایک دوست نے کہا : آپ ڈاکٹر محمد رفعت صاحب ہیں۔ میرا دماغ بالکل گھوم گیا ۔ کئی بار سوچا کہ وہ رفعت صاحب نہیں کوئی اور ہوں گے ۔اتنا بڑاقابل اور ذی استعداد آدمی اور اتنی سادگی عموماً دیکھنے کو نہیں ملتی۔تبھی میرے دوست نے کہا: آپ جامعہ میں پروفیسر ہیں۔پھر یقین ہو گیا ۔ تب میں نے دل کو تسلی دی کہ آج بھی ایسے لوگ ہیں جو عام زندگی جیتے ہیں۔

میں ان کے بارے میں مزید پتہ کرنے لگا اور بہت جلد بہت سی تفصیلات معلوم کرلیں۔ پھر کیا تھا ؟میں ان کے دروس قرآن اور دیگر پروگراموں میں شریک ہونے لگا۔ آپ اجتماعی مطالعہ قرآن کا پروگرام بھی بہت اچھا کرتے تھے، جس میں دیگر تراجم و تفاسیر کے ساتھ شیخ الہندؒ کا ترجمہ مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ترجمہ اور معارف القرآن وغیرہ کی تشریح پیش کرتے ہوئے بھرپور گفتگو کرتے تو بڑا اچھا لگتا تھا، خاص طور سے رمضان المبارک کی طاق راتوں میں سے ایک رات ان کا بھی پروگرام ہوتا تھا۔ اس طرح میں نے ان سے اپنا تعلق استوار کیا اور ان پروگراموں میں شرکت کرنے لگا۔ بارہ سال طویل عرصہ جماعت اسلامی ہند کے کیمپس میں اس عظیم اسلامی مفکر کے ساتھ گزرا ، یہاں تک کہ  مورخہ 8 جنوری 2021 کو ان کے انتقال پرملال کی خبر ملی تو ایک ایک کر کے وہ سارے لمحات فلیش بیک کی طرح  نظروں کے سامنے گھومنے لگے۔ میں اپنے کمرے سےبھاگتا ہوا چند قدم کے فاصلے پر موجود الشفا اسپتال پہنچا ۔ان کے چہرے کو دیکھتے ہی میری آنکھوں سے  آنسو  جاری ہو گئے۔میں ہٹ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔

 

اس تکلیف دہ حادثےسے میں نڈھال تھا کہ میرےمخلص مربی، ہمدرد و بہی خواہ، جن سے میں نے جماعت اسلامی کو جانا سمجھا اور فکری شعور کو مضبوط کرنے میں مدد لی، اپنے ہزاروں چاہنے والوں میں مجھے بھی روتا بلکتا چھوڑ گئے.لیکن روتے ہوئے میں نے انا للہ وانا الیہ راجعون کہہ کر دل کو تسلی دی کہ یہاں کوئی ہمیشہ کے لیے نہیں آیا ہے۔ یہ دنیا تو درالعمل  ہے، جہاں  ہر شخص مہلتِ عمل لے کر آتا ہے اور داعیٔ اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس فانی جہاں کو چھوڑ کر اپنے رب کے حضور چلا جاتاہے۔ مگر عقل مند انسان جو اس بات کو سمجھتا ہے، اس کے سامنے زندگی کا ایک مقصد ہوتا ہے ، جس کے تحت وہ ہر لمحے کو قیمتی سمجھ کر رضائے الہی کے حصول میں سرگرداں رہتا ہے، چنانچہ وہ کوئی  نمایاں کارنامہ انجام دے کر چلا جاتا ہے، جو دوسروں لیے ایک اعلیٰ مثال ہو۔جس میں اخلاق کی بلندی، فکر کی پختگی ،زندگی میں سادگی، باتوں میں شگفتگی، ماتحتوں کے ساتھ نرمی ،طرز استدلال میں دل کشی ہوتی ہے ۔ یہ وہ صفات ہیں، جن سے ڈاکٹر محمد رفعت صاحب کو اللہ نے رفعت بخشا تھا۔

 

آپ 2011 تک چار میقات دہلی کے امیر ،طویل عرصے سے مرکزی مجلس شوری کے برابر رکن منتخب ہوتے رہے، زندگی نو کے ایڈیٹر، تصنیفی اکیڈمی کے چیئر مین، سینٹر فاراسٹڈی اینڈ ریسرچ (CSR) کے چیئر مین اور مرکزی شعبۂ تربیت، جس سے میری وابستگی ہے، اس کے ایک میقات (2011 تا2015) سکریٹری رہے۔اس عرصےمیں آپ کے قریب رہ کر تحریکی سرگرمیوں میں حصہ لینے اور آپ کی صلاحیتوں اور قابلیتوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اس لحاظ سے آپ میرے استاذ تھے۔ آپ سے میں نے لکھنا، جماعت کے پروگراموں کا نظم و انصرام سنبھالنا، ان پروگراموں میں اظہار خیال کرنا اور بغرض اصلاح تنقید کرنا بھی ۔ یہ جرآت تنقید آپ کی مرہون منت ہے، ورنہ زبان ہوتے ہوئے بھی انسان قوت گویائی کھو دیتا ہے اور با شعور ہو کر بھی غیر شعوری زندگی جینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

 

آپ علمائے کرام سے بڑی محبت کرتے تھے۔ علمائے دیوبند سے آپ کو بڑا  لگاؤ تھا، خاص طور پر مولانا قاسم نانوتویؒ، قاری محمدطیب صاحب،ؒ شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ،مولانا اشرف علی تھانویؒ وغیرہ۔ کے اقتباسات کو اپنی تحریروں میں پیش کرتےتھے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ بھارت میں انگریز اپنے غلبے سے یہاں اپنا تسلط ہی نہیں جمانا چاہتے تھے، بلکہ ان کا مقصد تھا کہ اپنی تہذیب و تمدن کو یہاں کے لوگوں پر تھوپ کر فکری لحاظ سےبھی غلام بنا لیں تاکہ وہ اپنی تہذیب بھول جائیں۔ گویا تہذیبوں کا تصادم تھا، جس میں فتح یاب ہونے کے لیے انھوں نے مسلمانوں سے حکومت چھین لی۔ علمائے کرام نے ان کے اس منشا کو سمجھ لیا۔ اس لیے ان سے آزادی اور ان پر غلبہ حاصل کرنے کے لیےتحریک آزادی کی بغل بجادی اور قربانیاں پیش کیں، تاکہ مسلمانوں اپنے تشخص کے ساتھ رضائے الٰہی کی خاطر زندگی بسر کریں اپنے اقتدار کے حصول اور انسانوں کی غلامی سے آزاد ہو کر زندگی گزاریں۔

 

ڈاکٹر محمد رفعت نے اقامت دین کی جد و جہد میں لگی ہوئی  تحریکات اسلامی کو درپیش چیلنجز اور نئے قالب میں اسلامی نظریات پر یلغار کرنے والے خیالات کا بھرپور تعاقب کیا اور اپنی تحریروں و تقاریر سے عصر حاضر کے نوجوانوں کی فکری اصلاح، اسلام مخالف پروپگنڈا کے خلاف، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل کی وضاحت اور بھرپور تشریح کی اور مسلسل زندگی نومیں اپریل 2009 سے اگست2019 تک اشارات کے تحت ایک مومن کے مقصد حیات، اس کے نصب العین پرروشنی ڈالتے رہے اور تحریکی کارکنان کو فکری غذا فراہم کرتے رہے۔ ان اشارات کو کتابی شکل دے دی گئی اور ان کی 10کتابیں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع ہو گئی ہیں، جن کے نام یہ ہیں:

 ’فرد معاشرہ اور ریاست‘’پر فریب نعرے‘’اسلامی تحریک سفر اور سمت سفر’امت مسلمہ کا نظام اجتماعی’غیر اسلامی ریاست اور مسلمان‘راہ اور راہی‘ جماعت اسلامی کی پانچ خصوصیات‘ جماعت اسلامی کی تشکیل’دعوت اور جہاد اورتعلیم و تحقیق کا اسلامی تناظر‘۔ اسی طرح آپ کی انگریزی میں بھی 4 کتابیں شائع ہوئی ہیں۔

 

انسان کو اخلاقی رفعت و بلندی پر قائم رہنے کے لیے الفت و محبت اور نرمی و شفقت کا رویہ اپنانا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ رفعت صاحب بھی لوگوں کی مشکلات کو سمجھتے، ان کے درد کو محسوس کرتے اور حتی الامکان ان کا مداوا بننے کی سعی کرتے تھے۔ بہت سے بچوں کی فیس کی ادائیگی میں مشکل ہوتی، انھیں راشن لینا ہوتا یا بیماری میں علاج معالجہ کے لیے پیسے کی پریشانی ہوتی تو آپ ان کی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دل کی سختی جیسی بیماری سے کافی حد تک محفوظ رہے اور اتنے عظیم اسلامی اسکالر ،مفکر اور اہل نظر ہونے کے باوجود خودکو ہمیشہ عام انسان کی طرح رکھا، محسوس کیا اور سادہ زندگی گزاری کہ معمولی چپل میں بھی آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ کےشعبہ انجینئر نگ میں بہ حیثیت صدر شعبہ چلے جاتے اور طلبہ کے درمیان اپنے موضوع فزکس پر ایسا لکچر دیتے کہ طلبہ آپ کے دیوانے ہو جاتے. وہ سب آپ کی علمی لیاقت اور قابلیت قائل تھے۔

ڈاکٹر صاحب کی قوتِ حافظہ اس قدر مضبوط تھی کہ آپ نے تقریر کرتے وقت کبھی کسی پیپر کا سہارا نہیں لیا، نہ کوئی خاکہ سامنے رکھا، بلکہ اپنے موضوع سے متعلق جو کچھ کہنا ہوتا خوب کہتے۔ اپنی باتوں کو پیش کرنے کا ایسا مربوط اندازتھا گویا  وہ اپنی کوئی تحریر سنا رہے ہوں۔دل کش اندازِ بیاں کے ساتھ ایسی مدلل، کانوں میں رس گھولتی اور جچی تلی گفتگو ہوتی کہ گھڑی کی سوئی انھیں کیا اشارہ کرتی آپ  پہلے ہی کہہ دیتے: و ماعلینا الا البلاغ۔ سامعین کو ذرا بھی تشنگی کا احساس ہوتا اور نہ اکتاہٹ کی شکایت، بلکہ بے ساختہ ان کی زبان سےسبحان اللہ نکلتا۔ آپ یہ کہنے کہ وقت بہت کم ہے، مجھے بہت ساری باتیں کہنی ہیں یا قلت وقت کے سبب میں تفصیل میں نہیں جا نا چاہتا وغیرہ وغیرہ کو وقت کا ضیاع تصور کرتے تھے۔ اس لیے اپنی تقریروں میں ایسے جملوں سے گریز کرتے تھے۔

 

آپ شعبۂ تربیت کے مرکزی سکریٹری تھے۔ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اعزازی خدمات تو دیتے ہی تھے، مگراپنی ذات پر جماعت کے بیت المال سے کچھ بھی خرچ کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ دورے پر جانا ہوا تو حتی الامکان کم سہولت والا سفر کرتے۔ اس میں بھی بیش تر مقامات پر اپنی جیب سے خرچ کرتے تھے۔ جماعت نے ارکان کی علمی ، عملی فکری اور و روحانی ہمہ گیر تربیت کے لیے مرکزی تربیت گاہ کا آغازکیا تواس کا سب سے پہلا ماڈل پروگرام رفعت صاحب نے تیار کیا، جس کے تحت  اور ایک کام یاب پروگرام منعقد ہوا ۔

 

ڈاکٹر صاحب مختلف النوع صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اسی لیے کسی بھی موضوع پر اظہار خیال کرنا آپ کے لیے مشکل نہ تھا۔ یہ آپ کے کثرت مطالعہ اور قوت حافظہ کی بات تھی۔ایک موقع پر’علامہ اقبال کا پیغام‘کے عنوان سے آپ نے بہت شان دار گفتگو کی. اس میں آپ نے کہا کہ علامہ کا پیغام انسانی کی آزادی کا پیغام ہے کہ انسان خدا کا غلام ہو، کسی انسان کا غلام نہ ہو۔ان کی یہ تقریر اور اقامت دین سے متعلق تقریر یوٹیوب پر بھی دست یاب ہے۔ آپ ادب نواز، خوش مزاج اور خوش طبع انسان تھے۔ اکثر ادارۂ ادب اسلامی کی نشستوں میں شرکت کرتے اور عمدہ شاعری کو پسند فرماتے۔مجلس کیسی بھی ہو ، وہ اپنی حاضر جوابی اور بزلہ سنجی سے محفل کے سناٹے کو دور کردیتے تھے۔

 

سخت لاک ڈاؤن کا دور چل رہا تھا۔ جس کی وجہ سے  کافی دنوں بعد آپ سے ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ چہرا کافی سوکھا ہوا تھا، ایسا لگتا تھا، بہت کم زور ہو گئے ہوں۔ میں نے پہلے خیرت پوچھی ۔کہنے لگے الحمدللہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔پھر ایک خوش گوار ماحول میں  گفتگو ہوتی رہی۔ انھوں نے پوچھا : بتائیے سوشل ڈسٹینس کو اردو میں کیا کہیں گے؟ عرف عام کے مطابق میں نے کہہ دیا: سماجی دوری ۔ کہنے لگے نہیں،۔ اس کا مناسب ترجمہ ’کم آمیزی‘ ہونا چاہیے۔ پھر انھوں نے علامہ اقبال کا درج ذیل شعر سنایا ؎

کہتے ہیں فرشتے کہ دِل آویز ہے مومن

حُوروں کو شکایت ہے، کم آمیز ہے مومن

پھر پوچھا : لاک ڈاؤن کا کیا ترجمہ ہوگا؟ میں نے کہا : عربی میں اسے الاغلاق الکامل کہتے ہیں۔ اردو میں اسےمکمل بندی کہہ سکتے ہیں۔کہنے لگے نہیں،عربی کا تو نہیں، البتہ اردو میں مناسب ترجمہ’امتناع کامل‘ہوگا۔پھر اس کے بعد انھوں نے علامہؒ کا ہی ایک شعر اور سنایا :

پیدا ہے فقط حلقۂ ارباب جنوں میں

وہ عقل جو پا جاتی ہے شعلے کو شرر سے

رفعت صاحب واقعی اسم با مسمی تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی اخلاقی بلندی کے ساتھ گزاری ،تقوی کی روش اختیار کی اور ہر اس چیز سے دامن کو بچانے کی کوشش کی جو پستی میں لے جانے والی تھی ۔چاہے باوقار اسلامی مفکر کے طور پر مختلف افکار و نظریات کا مقابلہ کرنا ہو،یا اپنوں کے درمیان فکری موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار ،عبادات کی بات ہو یا معاملات کا مسئلہ، ہر جگہ آپ نے اپنے مقام رفیع کو گرنے نہیں دیا۔

 

اے اللہ! تونے جس طرح رفعت صاحب کو دنیا میں مقام رفعت کی خصوصیات بخشی تھیں، اسی طرح آخرت میں بھی اپنے فضل و کرم سے انھیں جنت الفردوس میں مقام رفیع عطا کر اور جملہ پس ماندگان اہلیہ، دوبیٹیاں اور بیٹوں:برادرسعد،معاذ اور رشاد کے ساتھ  ہم چاہنے والوں کو بھی صبر جمیل عطا کر۔ آمین ،یارب العالمین۔





 

Saturday 9 January 2021

Allama Iqbal Ka Paighaam Insaniyat ke Naam by Dr Mohd Rafat



ڈاکٹر محمد رفعت صاحب اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے آپ مختلف النوع صلاحیتوں کے مالک تھے۔ 
اسی لیے کسی بھی موضوع پر اظہار خیال کرنا آپ کے لیے مشکل نہ تھا۔  علامہ اقبال کا پیغام اس عنوان سے آپ نے بہت شاندار گفتگو کی ہے . آپ نے کہا کہ علامہ کا پیغام انسانی کی آزادی کا پیغام ہے کہ انسان خدا کا غلام ہو کسی انسان کا غلام نہ ہو۔
یہ آپ کے کثرت مطالعہ اور قوت حافظہ کی بات تھی۔  آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...