Wednesday 21 November 2018

Aap se keun na Zamane ko Muhabbat hoti

آپؐ سے کیوں نہ زمانے کو محبت ہوتی
                                                                      محب اللہ قاسمی
 انسان دنیا کا مالک نہیں ہے تو وہ اس کا نظام چلانے والا بھی نہیں ہوسکتا ۔ جو مالک ہے ، وہ انسانوں میں سے ہی عظیم اور بہترین انسان کو چن کر دنیا میں بھیجتا ہے، تاکہ وہ دنیا والوں کو اس کے خالق و مالک کے بارے  میں بتائے اور اسی کی مرضی کے مطابق ان کواچھے کاموں اور صحیح طریقے سے جینے کا ڈھنگ سکھائے ۔اس طرح دنیا میں امن و شانتی اور خوش حالی آئے اور تمام انسان اپنے اچھے یا برے کرموں کے بدلے مرنے کے بعد جنت کے باغات یا جہنم کی آگ کے مستحق بنیں۔ دنیا میں یہ تمام وہ پیغمبر آئے ۔آخر میں حضرت محمدﷺ  تشریف لائے۔آپؐ نبوت کے سلسلے کی آخری کڑی تھے۔آپ کے نبی ہونے اور دنیا میں بھیجے جانے کی خوش خبری پہلے کی آسمانی کتابوں میں موجود ہے ، اسی طرح دوسرے دھرم گرنتھوں میں بھی اس عظیم رہبر اور انسانیت کے رہنما کا تذکرہ ملتا ہے۔ آپؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چل کرہی  انسان دنیا  میں امن و سکون ، خوش حالی اور ترقی حاصل کرسکتا ہےاور مرنے کے بعد جنت اس کا ٹھکانا ہوگا۔

آپ ﷺکی زندگی کو آسانی سے سمجھنے کے لیے  اسے تین ادوار میں بانٹا جاسکتا ہے۔
 v   ولادت سے رسالت تک    v   رسالت سے ہجرت تک   v   اور ہجرت سے وفات  تک

*ولادت سے رسالت  تک*
آپ سرزمین عرب میں ،مکہ شہر کے باوقار اور شریف خاندان بنی ہاشم میں پیدا ہوئے۔ اس وقت پوری دنیا میں فساد و بگاڑ کا ماحول بنا ہوا تھا۔ ظلم و زیادتی ،قتل خوں ریزی، بدکاری و بداخلاقی ، چوری و زناکاری کا بازار گرم تھا۔ایسے میں نور کی کرن پھوٹی اور اس اندھیرے کو ختم کر دینے والا سورج نکل آیا۔تاریخ۱۲ربیع الاول، پیر کا دن ،شمسی کیلنڈر کے مطابق ۲۰؍اپریل ۵۷۰ عیسوی ،صبح کا وقت اور مقام خانۂ کعبہ تھا جہاں آپ ؐکی پیدائش ہوئی۔اسی سال  ابرہہ نے ہاتھیوں کی فوج سے خانۂ کعبہ  پرچڑھائی کی تھی، جسے پرندوں کے جھنڈنے اپنی چونچوں میں دبائی ہوئی  کنکریوں سے تباہ و برباد کردیا تھا اور خانہ ٔکعبہ محفوظ تھا۔

آپؐ کی پیدائش سے قبل ہی آپ کے والد عبداللہ کا انتقال ہو گیا تھا ۔آپ کے دادا عبدالمطلب نے اپنے یتیم پوتےکا نام محمد اور ماں نے احمد رکھا۔6برس کی عمر ہوئی تو امی جان کا انتقال ہو گیا۔پھر8 سال کے ہوئے تو دادا جان بھی دنیا سے چل بسے۔اس کے بعدآپ کے چچا ابوطالب نے اپنی آپ  کی پرورش کی۔

آپؐ بچپن سے ہی بہت ملنسا ، انسانوں کی عزت و احترام کرنے والے اوربااخلاق انسان تھے۔ آپؐ کی ایمانداری اور سچائی کو دیکھتے ہوئے لوگ آپ کو صادق اور امین کہہ کر پکارتے تھے۔25سال کی عمر میں اس وقت کی نہایت شریف اور خاندانی عورت حضرت خدیجہ ؓسے، جن کی عمر 40سال تھی ،آپ کا نکاح ہوا ۔ ان سے آپ کی چار بیٹیاں زینب ؓ،رقیہ ؓ،ام کلثومؓ اور فاطمہ ؓپیدا ہوئیں۔ 35سال کے تھے جب خانہ کعبہ کی تعمیر کے موقع پر اس میں حجر اسود  لگانے کے لیے قبیلے آپس میں لڑ پڑے اور جنگ اور خوں ریزی کی نوبت آ گئی  تو آپ نے  اس فساد کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

*رسالت سے ہجرت تک*
جب آپ 40 سال کے ہوئے تو اللہ نے آپؐ کو اپنا پیغمبر بنایا اور قرآن کی آیات آپ پر اترنے لگیں۔ پہلی وحی کے بعد آپ نے کچھ بے چینی محسوس کی تو آپ کی جانثار بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی اور کہا  :آپ سچ بولتے ہیں، غریبوں کی مدد کرتے  ہیں، مہمان نواز ہیں، رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں، امانت دار ہیں اور دکھیاروں کے خبر رکھتے ہیں۔ اللہ آپ ؐ کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘

آپ 13 سال مکے میں ایمان نہ لانے والوں  کے ظلم و ستم سہتے ہوئے ،  لوگوں کو اسلام  کی تعلیم دیتے رہے ۔ بہت سے لوگوں نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور آپ پر ایمان لے آئے۔انھیں صحابی کہاجاتاہے۔ ان میں حضرت خدیجہؓ ،ابو بکرؓ ،علیؓ ،زیدؓ پہل کرنے والے ہیں۔حضرت ابو بکر کی دعوت پر حضرت عثمانؓ،حضرت عبدالرحمنؓ ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ،حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ ،او رحضرت زبیر بن العوامؓ اسلام قبول کیا ۔ نبوت کے ساتویں سال بھر بعد دوبڑے بہادر ،جاں باز صحابہ حضرت حمزہؓ او رعمر بن الخطابؓ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ اس کے بعد کھلم کھلا دین کی تبلیغ کی جانے لگی او رصحابہ کرا مؓ آزمائشوں وتکالیف میں مبتلا  ہوئے۔ لوگو ں نے آپ کو شاعر اور جادو گر کہا۔ابولہب کی بیوی امّ جمیل نے آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے حضرت سمیہ کو نیزہ مار کر شہید کردیا گیا ۔حضرت زبیر کو کھجو ر کی چٹائی میں لپیٹ کر کوٹھری میں بند کر کے دھواں دیا گیا گرم گرم پتھروں پر لٹا یا گیا، پیروں میں رسی باندھ کر گھسیٹاگیا ۔نبوت کے پانچویں سال حضرت عثمانؓ اور دیگر بہت سے صحابہ ؓ حبشہ ہجر ت کر گئے ۔

اسی دوران مکے والوں نے  آپؐ کا بائکاٹ کردیا۔ تقریباڈھائی تین سال تک آپؐ اور آپؐ کے ماننے والے  ایک گھاٹی میں جو شعب ابی طالب کے نام سے مشہور تھی، تلخ صبرآزما زندگی بسر کرتے رہے ۔ اسی دوران آپ ؐ کے مہربان چچا ابوطالب اور جانثار بیوی حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہو گیا۔ اس وجہ سے اس سال کو عام الحزن (غم کا سال) کہاجاتا ہے۔ ۱۰نبوی کونظر بندی سے رہائی ہوئی،اس کے بعد آپ نے طائف کا سفر کیا ، وہاں کے لوگوں نے اپنے نوجوانوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا جنھوں نے آپ پر پتھر برسائے جس سے آپ کا جسم لہو لہان ہو گیا۔اللہ تعالی کے حکم سے فرشتہ آئے جنھوں نے پیش کش کی کہ ان دشمنوں کو  دوپہاڑ کے درمیان  پیس دیں۔ مگر انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ عظیم الشان نبی ؐنے ان کی غلطیوں کو در گرز کردیااور  ان کی نسل سے خیر کی امید رکھتے ہوئے انھیں معاف کر دیا۔ ۱۲نبوی ۲۷رجب المرجب دو شنبہ کو معراج ہوا او ر نماز کا تحفہ ملا ۔اس دوران مدینہ سے الگ الگ قافلے والوں نے اسلام قبول کیا۔نبوت کے تیرہویں سال جب مکہ والوں نے آپ کا جینا محال کر دیا اور دشمن آپ کے قتل کی سازشیں کرنے  لگے تو اللہ تعالی نے آپ کو مدینہ ہجرت کرجانے کا حکم دیا۔

*ہجرت سے وفات تک*
آپؐ بہت ایمان دار ،امانت دار تھے۔ اس وجہ سے مکہ والے آپ کے پاس اپنی امانتیں رکھا کرتے تھے ۔جس رات آپ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے والے تھے ،آپؐ نے اپنے چچازاد بھائی علی ؓکوسمجھا کر  سب کی امانتیں سونپ دیں اور اپنے جانثار صحابی حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ  مدینہ کی جانب ہجرت کی ۔ آپ ؐ یکم ربیع الاول بروز دو شنبہ کو غار سے نکلے ۔  ۸ربیع الاو ل کو قبا پہونچے اور وہاں ۱۴ دن قیام کیا ۔۱۲ ربیع الاول کومدینے میں قدم رکھا، جسے پہلے یثرب کہا جاتا تھا ۔اس وقت آپ پر جان چھڑکنے والے  بہت سے صحابہ کرام مدینہ میں موجود تھے ۔ ان سے مدینہ والوں نے آپ کی تعریفیں سن رکھی تھیں اور آپ سے ملنے کے لیے بے چین ہو رہے تھے ۔ انھوں نے آپ کی آمد پر والہانہ استقبال کیا۔حضرت ابوایوب ؓ کے گھر پر آپ کاقیام ہوا۔مسجد نبوی کی تعمیر کرائی گئی۔انصار اور مہاجرین کے درمیان مواخات کا عظیم الشان منظر سامنے آیا۔ جس کے نتیجے میں وہ  حقیقی بھائیوں سے بھی زیادہ قریبی ہوگئے۔

دو ہجری میں حق اورباطل کے درمیان  بدر کے مقام پر تاریخ ساز معرکہ  ہو ا، جس میں مسلمانوں کی تعداد (۳۱۳ )تھی  اور کفار ایک ہزارسے زائد تھے ،اس کے باوجود  مسلمانوں کو بہت بڑی کامیابی ملی اور کفار ومشرکین ذلیل ورسوا ہو کر ناکام و نا مراد  لوٹے اور ان کے  ۷۰ سرداران قتل کئے گئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے ۔اسی سال اذان کا حکم نازل ہوا اور خانۂ کعبہ کو قبلہ قرار دیا گیا ۔ اسی سال رمضان کے روزے فرض ہوئے۔

تین  ہجری میں زکوٰۃ کی فرضیت ہوئی ،اسی سال ماہ شوال میں غزوۂ احد پیش آیا۔اس میں حضرت حمزہؓ شہید ہوئے۔  آپؐ نے انہیں سیدالشہداء کا خطاب عطا کیا۔ اس جنت میں  رسو ل اللہ ﷺکی ایک ہدایت پر عمل نہ کرنے  کی وجہ سے مسلمانوں کوشکست کا منہ دیکھنا پڑا اوران کا بہت جانی نقصان ہوا مگربعد میں ان کا  عزم و حوصلہ بحال ہوگیا۔

چار ہجری میں ام الخبائث شراب کی حرمت نازل ہوئی ۔اسی سال بیئر معونہ کے مقام پر غزوۃ الرجیع میں ۷۰حفاظ قرآن شہیدہوئے تو قنو ت نازلہ کی ابتداء ہو ئی۔۵ہجری میں عورتوں کے لئے پردے کا حکم آیا اورآیت حجاب نازل ہوئی۔ماہ شوال  ۵ ہجری میں جنگ خندق (احزاب)پیش آئی ۔ اس موقع پر حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے سے خندق کھودی  گئی ۔ اس جنگ میں کفار ناکام و نامراد واپس ہوئے اور وہ مسلمانوں کو کچھ نقصان نہ پہنچاسکے۔

چھ ہجری میں صلح حدیبیہ ہوئی۔اس موقع پر آپ ﷺنے اپنے ساتھیوں سے موت پر بیعت لی، جسے بیعت رضوان کہا جاتا ہے۔ سورۃ فتح میں اس کا مکمل تذکرہ ہے ۔اسی سال آپ ؐ نے بادشاہوں کے یہا ں اپنے سفیر روانہ کیا اورانہیں اسلام کی دعوت دی۔

ماہ رمضان المبارک ۸ہجری میں مکہ فتح  ہوا۔ آپؐ  عظیم الشان فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر آپ نے مشہور  تاریخی جملہ کہا :’’ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، تم سب آزاد ہو۔‘‘ اتنی عظیم الشان  فتح بغیر خون خرابے کے  حاصل ہوئی۔ جو انسانیت کے لیے ایک بڑی مثال ہے۔اسی سال غزوۂ حنین عمل ہوا۔اسی دوران خالد بن ولید، عثمان بن ابی طلحہ ،عمر وبن العاص اورعکرمہ بن ابی جہل مدینہ آکر مسلمان ہوئے ،  ماہ رجب ۹ہجری  غزوۂ تبوک ہوا ،حج فرض ہوااورحضرت ابو بکرصدیق ؓ امیر الحج مقر ہوئے۔

دس ہجری میں آپ ؐنے ایک لاکھ چوبیس ہزار مسلمانوں کے ساتھ حج کیا ۔اسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔گیارہ ہجری میں آپؐ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

حضورپرنورسرکاردوعالم ﷺکی زندگی جہدومشقت،صبروقناعت اورزہدوعبادت کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ دوسری طرف آپؐ کی حیات طیبہ امارت وحکومت، سیادت و قیادت ،دلیری ،شجاعت اورکمال علم و عمل کی تصویر تھی۔آپؐ نے اختلاف وانتشار،قتل وغارت گری ،بدکاری وبداخلاقی سے مامورفضاکوپاک کیا۔ امن واطمینان ،اخوت وبھائی چارگی اورانسانیت کادرس دے کرایمان و حقائق کی روشنی سے انسانیت کو آگاہ کیا۔

عرب غروروتکبرمیں بدمست تھے۔ حسب ونسب پرفخرکرتے تھے، آپ ﷺنے ان کے سامنے وضاحت فرمائی کہ ’’تمام انسان آدم کی اولادہیں اور آدم مٹی سے پیداکئے گئے‘‘ مزید فرمایا:’’اے لوگو! بلاشبہ تمہار ارب ایک ہے اورتمہارا باپ بھی ایک ہے، جان لوکہ کسی عربی کو کسی عجمی پراور کسی عجمی کوکسی عربی پر، کسی سرخ کوکسی سیاہ پر اور کسی سیاہ کوکسی سرخ پر کوئی فضیلت اوربرتری حاصل نہیں ہے سوائے تقوی کے ،،۔  (مسنداحمد)

آپؐ نے اسلام کا ایسا قانون نافذ کیاجس میں عرب و عجم ، امیر وغریب ،بڑے چھوٹے ،گورے کالے سب قانون کے سامنے برابراوریکساں دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے ایک مجرمہ کے سلسلے میں حضرت اسامہ بن زیدؓ کی سفارش پر ارشاد فرمایا تھا :’’بخدااگراس کی جگہ فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔

آپؐ کی پوری زندگی ظلم وناانصافی کے خلاف برسرپیکارہے۔ آپ مظلوم اوربے کس ولاچارکی حمایت کرتے تھے ۔آپؐ نےانسانوں کو صرف اس کی عبادت کا حکم دیا اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا سلیقہ عطاکیا۔
 -----------------------------------------------
*اولاد نبیﷺ*
تین لڑکے:۱۔قاسمؓ   ۲۔عبد اللہؓ (طیب /طاہر)  ۳۔ابراہیمؓ                              
چار لڑکیا ں:  ۱۔ ز ینبؓ  ۲۔ رقیہؓ   ۳۔ام کلثومؓ   ۴۔فاطمہؓ
آپ ؐ کے سارے بچے حضرت خدیجہؓ سے ہوئے، سوائے ابراہیمؓ کےکہ  یہ حضرت ماریہ قبطیہؓ سے پیدا ہوئے۔

*امہات المؤمنین (ازواج مطہراتؓ )*
۱۔حضرت خدیجہ الکبریؓ ۲۔حضرت عائشہؓ ۳۔ اُم حبیبہؓ ۴۔اُم سلمہ۔حفصہ بنت عمرؓ
۶۔میومنہ بنت الحارثؓ ۷ ۔ زینب بنت جحشؓ ۸ ۔سودہ بنت زمعہؓ ۹۔زینب بنت خزیمہؓ
۱۰۔جویرہ بنت حارثؓ ۱۱۔صفیہ بنت حیّ ؓ ۱۲۔ماریہ قبطیہؓ

*داماد نبی ﷺ*        ۱ ۔ حضرت ابو العاصؓ ۲ ۔ حضرت عثمانؓ ۳۔حضرت علیؓ
*نواسۂ رسول ﷺ *   ۱ ؂ حضرت حسنؓ ۲ ؂ حضرت حسینؓ

***** 

Friday 16 November 2018

Musalman Buzdil Nahi



مسلمان بزدل نہیں مگر

مسلمان اقدامی یا دفاعی کوئی بھی پوزیشن اختیار کرے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی. مگر صیہونی قوت اس وقت کامیاب ہو جاتی ہے جب وہ مسلمانوں کے درمیان منافرت کی بیج بو کر اور دنیا کی محبت، چمک دمک میں پنھسا کر ان پر حملہ آور ہوتی ہے.اس لیے ہمیں اپنی ان کمزوریوں کے تدارک اور اس کے علاج پر غور کرنے کی ضرورت ہے. ایسے لوگوں سے محتاط رہیں جو منافرت پھیلانے کا کام کرتے ہیں اور ایسے عہدے داران اور نادان دوستوں پر نظر رکھی جائے جو ہمارے دشمنوں کا دانستہ یا ناداستہ آلہ کار بن جاتے ہیں.

تمام مسلمان محمد ﷺ کے امتی ہیں،قبلہ ایک قرآن ایک اس لیے باہم مل جل کر رہیں اور مخلصین کا ساتھ دیں اور اپنے نصب العین (برادران وطن میں دعوت دین) فریضہ انجام دیں.
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک (اقبال)

Thursday 1 November 2018

Angaron ki Do Zabanon wala Shakhs


انگاروں کی دو زبانوں والا شخص

ہم تصور کریں  کہ ایک ایسا شخص جس کے دوچہرے ہوں اور اس کے منہ میں دہکتے ہوئے شعلوں کی دوزبانیں ہوں ، وہ اس کا چہرہ کس قدر بھیانک اور کتنا بدترین ہوگا! اب ذہن میں سوال آئے گا کہ وہ شخص کون ہے؟ اس گھٹیا اور ناعاقبت اندیش شخص کی کیا پہچان ہے، جسے نبی کریم ﷺ نے من شرارالناس (بدترین انسانوں میں سے) قرار دیا ہے؟  تو آئیے ہم ایسے شخص کے بارے میں نبی ﷺ کی زبان مبارک سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔آپ کا ارشاد ہے:

إنّ من شرار الناس ذوالوجہین الذی یأتی ہولاء بوجہ وہولاء بوجہ۔ (مسلم)
’’یقیناً بدترین شخص وہ ہے جو دو منہ رکھتاہو، کچھ لوگوں کے پاس ایک منہ لے کرجاتا ہے اورکچھ لوگوں کے پاس دوسرامنہ لے کرجاتاہے۔‘‘

ایسے انسان کو آپﷺ نے کیوں بدترین انسان قرار دیاہے؟ اس سوال پر ہم غور کریں گے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اسلام، معاشرہ میں امن و سکون اور خوش گوار ماحول دینا چاہتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں میں باہمی ربط وتعلق مضبوط ہو ۔ایسے اسباب پیدا نہ ہوں جن کی وجہ سے ان کے درمیان کسی طرح سے قطع تعلق ، یا فساد و بگاڑ پیدا ہوجائے ۔ لہذا اسلام ان تمام بری خصلتوں اور گھٹیا عادتوں سے مسلمانوں کو دور رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ دورخی اختیار کرنا ،ان ہی بری خصلتوں میں سے ایک ہے۔چنانچہ اس کے لیے بڑی سخت وعید سنائی گئی ہے،تاکہ مسلمان اس بری عادت سے بچیں۔آپؐ نے فرمایا:

من کان لہ وجہان فی الدنیا، کان لہ یوم القیامۃ لسانان من نار۔(ابوداؤد)
’’جو شخص دنیامیں دوچہرے رکھتاہوگا، قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی دو  زبانیں ہوں گی۔‘‘

دورخی اختیار کرنے والا شخص سچ اورجھوٹ کوملاکر لوگوں میں فساد و بگاڑ پیداکرنے کی کوشش کرتاہے ۔اسی وجہ سے اس عادت بد کو نفاق کی علامت قراردیا گیاہے۔ ایسے شخص کو انسانیت کا دشمن اورمعاشرے کا ناسور سمجھاجاتاہے۔ وہ لوگوں کی کم زوریوں کی ٹوہ میں لگارہتاہے، تاکہ ان کی اطلاع دوسرں کو دے۔ اس طرح ان کے مابین قطع تعلق ہوجائے۔ اسی وجہ سے اس کا دل حسداور کینہ کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔

امام غزالیؒ نے دوطرفہ باتیں بنانے والی خصلت بد کوچغل خوری کی خصلت سے بھی بدتر بتایا ہے۔ چغلی میں آدمی صرف ایک کی بات کودوسرے کے یہاں نقل کرتاہے، جب کہ یہاں دوطرفہ مخالفانہ باتیں پہنچائی جاتی ہیں۔قیامت کے دن ایسے شخص کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوگی۔ 

یہ وہ برائی ہے جو مسلم معاشرے بھی عام ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسے میں ہمیں خود کامحاسبہ کرنا چاہیے کہ کہیں وہ بری خصلت ہم میں تو نہیں اگر ہے تو ہمیں اسے فوراً دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر  نہیں ہے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
محب اللہ قاسمی

Tuesday 30 October 2018

Yaqeen Mahkam Amal Paiham



یقیں محکم عمل پیہم

ہم سب مسلمان ہیں پر کیا واقعی مسلمان ہیں؟ کیا ایمان والوں سے ایمان کا مطالبہ نہیں کیا گیا؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ :
ہم نے اپنے حصے کا کام چھوڑا تو باطل اور ٹائم کرنے لگے اور تاریکیوں  نے پیر پسارنا شروع کردیا؟
ہم نے غیر مسلموں میں افہام تفہیم کا عمل چھوڑا تو وہ ہمارے اسلامی شعائر پر ہی حملہ آور ہو گئے؟
ہم نے اپنا نعرۂ تکبیر چھوڑ دیا تو ظالموں نے ظلم کا نعرہ بنلد کرنا شروع کردیا؟
ہم نےبہادری اور بے باکی کا گلا گھونٹ کر بزدلی کی راہ اپنائی تو ہمارے نوجوان بوڑھے بچے سب یک بعد دیگر موت کی گھاٹ اتارے جانے لگے؟
ہم نے دنیا کی چمک دمک، اونچی اونچی عمارت پر توجہ دی اور تعلیم سے دوری بنائی تو پھر فسطائی طاقتوں  نے ہمیں زمیں بوس کر نے کے فراق میں لگ گئے اور ہمیں موم کی ناک سمجھ کر جدھر چاہا ادھر موڑ دیا۔
ہماری شناخت اشدآء علی الکفار رحماء بینہم کی تھی جب ہم نے اس بر عکس پہچان بتائی تو ہمیں نیمبو کی طرح نچوڑ دیا گیا۔
ہماری زندگی مومنانہ ہونی چاہیے تو ہم نے (نعوذباللہ) طرز کافرانہ اختیار کیا۔
زوال و پستی کے اتنے سارے اسباب موجود ہیں پھر ہم زوال امت کے اسباب تلاش کر رہے ہیں۔ جب کہ قرآن کا اعلان ہے:
لاتہنوا و لا تحزنوا وانتم الاعلون ان کتنم مؤمنین (آل عمران:139)
تم نہ دل برداشتہ ہو اورنہ غم گین ہو، تم ہی سربلند رہوگے بشرط کہ تم مومن ہو۔
دریاؤں میں  گھوڑے دوڑانے والے اپنے یقین محکم اور عمل پیہم سے زمانے کا رخ موڑ سکتے ہیں۔
ورنہ نام کے مسلمانوں کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
 تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا الہ الا
لغت غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی
محب اللہ قاسمی


Monday 29 October 2018

Woh tere Nare Takbeer se Larazte the


وہ تیرے نعرۂ تکبیر سے لرزتے تھے

تاریخ شاہد ہے کہ ظلم جتنا سہا گیا، اس پہ جس قدر خاموشی اختیار کی گئی یا انصاف میں جتنی تاخیر ہوتی رہی ،ظلم اسی قدر بڑھتا گیا، ظالموں کے حوصلے اسی قدر بلند ہوتے گئے.معاشرہ میں فساد اور انسانیت سوز واقعات اتنے ہی بڑھتے گئے۔ اس وقت پوری دنیا سمیت ہمارے وطن عزیز کا بھی یہی حال ہے۔ظالموں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اس پر اٹھنے والی آواز سختی سے دبا ئی جا رہی ہے۔مظلوم انصاف کا لفظ سننے کو ترستا  ہوا دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ مگر اسے  انصاف نہیں ملتا۔ اس طرح بے قصور کی پوری زندگی محض الزام کی نذر ہوکر تباہ کر دی جا رہی ہے۔ 

ظلم سہنے  کا یہ عالم ہے کہ پے در پے اس ظلم کا شکار کسی خاص مذہب یا گروہ کے لوگ نہیں ہوتے بلکہ پوری انسانیت اس کی زد میں ہے۔ خاص طور پر جب کوئی مسلمان یا پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد ہو تو پھر اس کا خون بہانا ان ظالموں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں  رہ جاتی۔خواہ وہ بزرگ ہو یا ادھیڑ عمر کا یا پھر کوئی معصوم سا بچہ۔ نفرت کے سودا گر، سیاست کی روٹی سیکنے والے ان کے خون سے پیاس بجھا کر اپنے کلیجے کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔جب کہ ان مٹھی بھر فاسد عناصر کو دنیا تماشائی بنی دیکھتی رہتی ہے اور ظلم پر لب کشائی کو جرأت بے جا یا مصلحت کے خلاف تصور کرتی ہے۔

دوسری طرف مسلمان جس کا فریضہ ہی دنیا میں اللہ کے بندوں کو معرفت الٰہی سے روشناس کرانا ،عدل و انصاف کے ساتھ امن و امان قائم کرنا  اور ظلم و غارت گری کو جڑ سےختم کرنا ہے۔ وہ دنیا کی چمک دمک میں ایسا مست ہے کہ اسے عام انسان تو درکنار خود اپنے  نوجوان ، بچے، بوڑھے کی شہادت اور ان کے بہیمانہ قتل پر بھی کچھ درد محسوس نہیں ہوتا ۔اگر کوئی اپنا قریبی رشتہ دار ہے تو چند روز آنسو بہا کر خاموش ہو جانا ،  پھر چند ایام کے بعد ایسے ہی فساد کا شکار دوسرا کوئی مارا جاتا ہے، تو کچھ روز گریہ و زاری کر لینا اس کا مقدر بن چکا ہے۔ ہمارے قائدین، جو قوم و ملت کی قیادت کا فریضہ انجام دیتے ہیں، وہ اخبارات میں ان واقعات کی کھلی مذمت تو ضرور کرتے ہیں، مگر کوئی ایساٹھوس لائحہ عمل تیار کر کے عملی اقدام نہیں کر تے جس سے آئندہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوں ، ان کی قیادت پر اعتماد بحال ہو اور دل و جان سے ان پر قربان ہونے کو تیار رہے. 

جب کہ تاریخ نے انھیں ان کا مقام بتایا، اسلام نے ان کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا، ماضی کے واقعات نے ان کو اپنے فریضہ کی ادائیگی کا سلیقہ سکھایا اور نعرہ تکبیر نے ان کے اندر حوصلہ دیا کہ وہ ظالموں کو لرزا بہ اندام کرتے ہوئے ان کے ہی میدان میں انصاف کا جھنڈا گاڑ دیں۔ اسلام نے سسکتی انسانیت کو  جینے کے بنیادی حقوق دیے،ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ ساتھ ہی ظالموں کی سرکوبی کے لیے مسلمانوں کو باہمت،باحوصلہ اور بہادر بننے کی ترغیب دی۔مومن کو ایمانی اور جسمانی ہر اعتبار سے مضبوط بننے پر زور دیا۔ قرآن پاک اور احادیث رسول  میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ بزدلی کو مومنانہ شان کے منافی قرار دیتے ہوئے مومن بزدلی کے قریب بھی نہ پھٹکے اور اس سے بچنے کے لیے اللہ سے دعا کرتے رہنے کی تعلیم دی۔

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ (بخاري)
”اے اللہ! میں رنج و غم سے ،عاجزی و سستی سے،کنجوسی  اور  بزدلی سے، قرض کے غلبہ اور لوگوں کے تسلط سے تیری پناہ مانگتا ہوں“

اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے جب تک ہم عمل کا رد عمل پیش نہیں کرتے اور اس رد عمل کے لیے ٹھوس لائحہ عمل تیار کرکے اسے عملی جامہ نہیں پہناتے  تو دادری کے اخلاق سے دہلی کے عظیم تک قتل و خوں ریزی کا طویل سلسلہ جاری رہےگا ۔ بلکہ یہ سلسلہ مزید دراز ہوتا چلا جائے گا.
ہم دنیا کی محبت میں گرفتار، بزدلی کے شکار اپنا سب کچھ ختم کر لیں گے۔ دنیا تو تباہ ہوگی ہی ، آخرت میں بھی خسارے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا اور ہماری نسلیں ہمیں کوسیں گی کہ ہمارے آباواجداد نے اتنی قربانیاں دیں۔ ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا اوربعد میں اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں غلام بنا لیے گئے۔ ہمارےاتنے سارے ادارے قائم تھے پھر بھی ہمارا دینی تشخص، بنیادی حقوق، اپنے مذہب پر کاربند رہنے کی آزادی سب سلب کر لی گئی اور ہمیں کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر حالات میں لاکھڑا کردیا۔
عقل مند انسان وہی ہے جو پرفریب دنیا کی چاہت سے آزاد ہو کر مسقبل کو بہتر بنانے کے لیے ماضی سے سبق لے کر حال میں اپنی پوری جد وجہد صرف کردے۔
(محب اللہ قاسمی)

Bhatak na Jaye phir insan rah dikhao zara


غزل

بھٹک نہ جائے پھر انسان رہ دکھاؤ ذرا
چراغ پھر سے اندھیروں میں تم جلاؤ ذرا

وہ تیرے نعرہ تکبیر سے لرزتے تھے
لگاؤ پھر وہی نعرہ انھیں ڈراؤ ذرا

جو مانگ لیتے سلیقے سے جان دیدیتے
مگر دغا سے تمہیں کیا ملا بتاؤ ذرا

وہ دے گیا ہے دغا جس سے کی وفا برسوں
وفا کی کس سے اب امید ہو بتاؤ ذرا

اگر غزل میں تمہاری دوائے درد بھی ہے
تو آؤ میرے قریب اور غزل سناؤ ذرا

رفیق منزلیں آسائشوں سے بھاگتی ہیں
تمہارے پیٹ پہ پتھر ہے کیا دکھاؤ ذرا
(محب اللہ رفیق)



Sunday 21 October 2018

باوقار مربی اور باکمال متعلم



باوقار مربی اور باکمال متعلم

جب میں 2008میں مرکز جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوا اور یہاں کے مخلص کارنوں سے میرا تعارف ہواتو ان میں سے ایک صاحب کو میں نے بہت ملنسار، خوش مزاج اور مرکز کے تمام کارکنان سے اپنے رشتہ داروں جیسا معاملہ کرنے والے منکسرالمزاج، عالی ظرف پایا۔ وہ تھے جناب محمد اشفاق احمد صاحب،جو 20 اکتوبر 2018 کی صبح اپنے بہت سے محبین و متعلقین کو روتا بلکتا چھوڑ، اس دار فانی سے رخصت ہو کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے.  إنا للہ و انا الیہ راجعون.

جناب اشفاق صاحب کے لیے لفظ ’مرحوم‘ لکھتے اور بولتے ہوئے دل پر ایک عجیب سا جھٹکا لگتا ہے، مگر موت ایک ناقابل انکار حقیقت اس لیے یہ سوچ کر کہ اس دنیا میں کوئی بھی انسان ہمیشہ کے لیے نہیں آیا، اسے ایک نہ ایک دن یقیناً اس دنیا سے کوچ کرنا ہے، سو آپ بھی ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے.

آپ شعبۂ تعلیمات کے سابق مرکزی سکریٹری ہونے کے ساتھ رکن مجلس نمائندگان، بانی و صدر الحرا ایجوکیشن اینڈ ویلفیئر سوسائٹی اورنگ آباد اور سابق صدر ایس آئی او کے بھی رہ چکے ہیں. خلوص و للہیت کے ساتھ اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کی انجام دہی، اللہ پر بھروسہ اور جہد مسلسل میں یقین رکھتے ہوئے آخری سانس تک متحرک رہنے کا عزم اور دوسروں کو ایسے  ہی تیار کرنا ان کا خاصہ تھا.  

ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ آپ کو عربی زبان سیکھنے کا بھرپور شوق تھا، جو جنونی درجہ تک پہنچا ہوا تھا. لہٰذا کچھ لوگوں کو جوڑ کر باقاعدہ عربی زبان سیکھنے کے لئے پر عزم موصوف نے ایک ایسے نوجوان استاذ کا انتخاب کیا جس کے آپ خود مربی تھے۔ اکثر دفتر سے نکل کر مسجد جاتے ہوئے اس سے اس کے احوال پوچھتے اور صلاحیتوں کو پروان چڑھانے پر زور دیتے تھے، مرکز جماعت کے کیمپس میں واقع مسجد اشاعت اسلام کے مکتب کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے اکثر اسے مختلف درجوں کے معائنے کا حکم دیتے تھے، جسے وہ بہ رضا و رغبت قبول کر اپنے لیے باعث فخر محسوس کرتا.
مگر عربی زبان سیکھنے کے لیے انھوں نے اسے حکم نہیں دیا، بلکہ اپنے عالی ظرف ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اس سے  کچھ وقت نکالنے کی بات کی اور حسب  توقع وہ نوجوان اس کام کے لیے تیار ہو گیا.

اس طرح ایک باوقار مربی ایک  با کمال متعلم بن کر تقریباً دو سال تک عربی کی بنیادی کتابیں پڑھیں اور قرآن کے ترجمے پر غور و فکر کرنے کے لیے سورہ ٔبقرہ کی ابتدائی رکوع کو پورا کیا ۔انھوں نے اپنی پوری زندگی تعلیمی خدمات میں لگاتے ہوئے اپنے اس عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ علم حاصل کرنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ جب بھی موقع ملے کچھ نہ سیکھتے رہنا چاہیے.

راقم کے لیے ان کا دنیا سے رخصت ہوجانا ایک بڑا سانحہ ہے۔ وہ میرے مربی تھے اور مجھ سے عربی سیکھنے والے متعلم بھی. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کے  گناہوں کو معاف کرے، انھیں جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے، ان کے تمام لواحقین و متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائےاور امت کو ان کا نعم البدل عطا کرے. آمین یا رب العالمین.
محب اللہ قاسمی

Thursday 18 October 2018

Who is He?



وہ کون ہے؟
انسان کی عقلی پرواز کی انتہا یہ ہے کہ اسے اپنے رب کی معرفت حاصل ہوجائے اور وہ اس کے احکام کی پابندی سے اپنی زندگی کو بامقصد اور کام یاب بنا سکے ،اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو پہچانے کیوں کہ اللہ تعالی نے خود انسان کی پیدائش اور اس کے وجود میں بڑی نشانیاں رکھی ہیں۔ایک مشہور مقولہ ہے: من عرف نفسہ فقدعرف ربہ (جس نے خود کو پہچان لیا، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
جب انسان خود پر غورکرے گا تو اسے یہ ضرور خیال آئے گا کہ  وہ ایسے ہی زمین پر نہیں آ گیا ہے، بلکہ اسے ضرور کسی نے بنایا ہے اور اسی نے اس کو بھی پیدا کیا ہے۔ وہی سارے جہان کا خالق و مالک ہے۔ اس کے حکم سے دنیا کا سارا نظام چل رہا ہے۔ وہی سب کو مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے۔ انسان اس پر بھی غور کرے گا کہ وہ رب ہے کون ، جس کے دم سے سورج ،چاند،ستارے سب گردش میں ہیں۔ آسمان سے بارش کا برسنا، زمین سے پیڑ پودوں کا نکلنا، درختوں سے پھل ، کالی بھینس سے سفید دودھ ، پھول کا رس چوسنے والی مکھیوں سے صحت بخش شہد ، سمندروں کی طغیانی ، ہواؤں کی روانی اور انسانوں کو پچپن بڑھاپا اور جوانی کون دیتا ہے؟
ظاہر ہے اس کا جواب ہوگا کہ وہ صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے،جس کی قدرت میں ساری چیزیں ہیں ۔ وہ اکیلا سب کا مالک ہے، جسے لوگ مختلف ناموں سے جانتے ہیں اور اس سے فریاد کرتے ہیں۔اللہ تعالی انسانوں کو اپنی ذات اقدس کی  معرفت پر غور فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ وہ قرآن پاک میں فرماتا ہے:
(اس حقیقت کو پہچاننے کے لیے اگر کوئی نشانی علامت درکار ہے تو ) جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں اُن کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں ، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں ، اُن کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں ، بارش کے اس پانی میں ، جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور (اپنے اسی انتظام کی بدولت )زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے ،ہوائوں کی گردِش میں ، اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابعِ فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں ، بے شمار نشانیاں ہیں۔ (البقرۃ: 164)
انسانوں کی زندگی کا مقصد اللہ تعالی کی عبادت اور اس کے احکام کی اطاعت ہے ۔ اس کےلیے  اس کی معرفت ضروری ہے۔ مَنْ لَمْ یَعْرِفُہٗ کَیْفَ یَعْبُدُہٗ   (جو اپنے رب کو نہیں جانتا وہ کیسے اس کی عبادت کر سکتا ہے)۔
محب اللہ قاسمی

Wednesday 17 October 2018

غربت سے خاتمے کا عالمی دن


غربت سے خاتمہ گرممکن نہیں پر اسے کم تو کیا جاسکتا ہے؟
17 اکتوبر کو دنیا بھر میں غربت کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن دنیا بھر میں غربت، محرومی اور عدم مساوات کے خاتمے، غریب عوام کی حالت زار اور ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے سمینار، مذاکروں، مباحثوں اور خصوصی پروگراموں کا اہتمام کیا جا تا ہے۔
یہ دن منانے کا سلسلہ  1993ء سے بدستور جاری ہے۔25 برسوں سے یہ عالمی دن منا یا جا رہا ہے۔ اس دن سے غربت کے خاتمے کیلئے عالمی طور پر کوششیں کی جاری ہیں لیکن آج بھی دنیا میں غریب افراد کی تعداد دو ارب سے زائد ہے جن کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے بھی کم ہے۔ا ٓج بھی غریب بے گھر اور کسم پرسی کی بدترین حالت میں جی رہے ہیں ۔
غربت کے خاتمے کے حوالے سے  اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں باقاعدہ قرارداد منظور کی گئی تھی۔ عالمی بینک کی رپورٹ ”ورلڈ ڈیولپمنٹ انڈیکیٹر“ کے مطابق بھارت میں غربت کی شرح 68 اعشاریہ 7 فیصد ہے۔ ہندوستان میں سیاسی قائدین کی جانب سے غریبی کو دور کرنے کے مستانہ وار نعرے لگائے گئے،جن سے ان کی سیاسی دھاک قائم رہی  ساتھ ہی، غربت  بھی اپنے پاؤں پسارے وہی جمی رہی۔
دنیا کا سب سے زیادہ ترقی پذیر کہے جانے والے ملک امریکہ میں بھی 14 فی صد لوگ ہیں ۔غربت کی سب سے بھیانک شکل ہمیں ترقی پذیرممالک میں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جس طرح ٹاٹا گروپ نے ہندوستان میں غربت سے خاتمے کے لیے قابل قدر کوشش کی اور غریبوں کو مواقع فراہم کیا جسے اقوام متحدہ نے بھی سراہا ہے، اسی طرح امریکہ میں بھی ان ہی کامو کرنے والوں نے عوامی سطح پر غربت کے خاتمے کے لیے کوشش کی۔ اگر انھوں نے اس میدا ن میں دلچسپی نہ دکھائی ہوتی تو امریکہ کا بھی گراف بہت نیچے ہوتا۔
غربت کے خاتمے کے لیے ایک طرف کمیونزم نے 80سال تک کوشش کی اور  بزور طاقت تمام افراد کو ایک سطح پر لانے میں اپنی پوری توانائی صرف کردی، تودوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام نے لوگوں کو مال و دولت حاصل کرنے کی پوری   آزادی دی، پھر بھی غربت سے خاتمے کا مقصد حاصل نہ ہوسکا ۔ کیوں  کہ دونوں افراط اور تفریط کے شکار تھے۔ نتیجہ میں ناکامی ہاتھ آئی۔ اسلام کا نظریہ اس سے بالکل الگ ہے ۔ اس کا ماننا ہے کہ معیشت کا سودی نظام، جو اللہ تعالی کو بے حد ناپسند ہے ، یہ عام معیشت کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اس سے  امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہو جاتا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ غریبی کو بالکل ختم نہیں کیا جاسکتا، کیو ں کہ یہ اللہ تعالی کا نظام ہے  ، اس میں  امیر و غریب دونوں رہیں گے، مگر غربت کو کم سے کم ضرورر کیا جاسکتا ہے ۔ کم از کم یہ تو ہو ہی جائے کہ ایک غریب انسان کوبھی دووقت کی روٹی  اور بنیادی ضرورت کا سامان میسر ہوجائے۔
غربت کو کم  سے کم کرنے میں سب سے بڑی وکاوٹ یہ ہے کہ امیر مالدار سے مالدار تر ہوتے جاتے ہیں اور غریبوں میں مال کی مناسب تقسیم نہیں ہوتی ۔ امیروں اور غریبوں کے درمیان جس قدر فاصلہ بڑھے گا غربت کی شرح میں اسی قدر اضافہ ہی ہوگا۔ اس کے لیے سودی نظام، استعماریت اور پونجی واد کو فروغ دینے کے بجائے غریبوں کے ساتھ مساوات برتنا اور ان کی حالت زار کو محسوس کرتے ہوئے، ان کی جان و مال کا تحفظ اور سرکاری منصوبوں  کے اعلانات کے مطابق ان تک اموال کی فراہمی اور انھیں روزگار سے جوڑنا بے  حد ضروری ہے۔ انتخابات کے وقت جھوٹے اور پرفریب نعروں اور وعدوں کے بجائے انھیں حقیقت کا جامہ پہنانا ہوگا۔  رشوت اور کرپشن جیسی بیماریوں کو ختم کرنا ہوگا۔تبھی  ملک سے غربت کو کم سے کم کرنے میں کامیابی مل سکے گی، ورنہ ملک کی ترقی کے دعوےکا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ پھر یہ سوال برقرار رہے گا        ؎
دولت بڑھی تو ملک میں افلاس کیوں بڑھا

Friday 12 October 2018

Sick society (بیمار معاشرہ اور تشخیصِ مرض)



بیمار معاشرہ  اور تشخیصِ مرض

خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور استحصال کا موضوع ہمیشہ زیر بحث رہا ہے اور اس وقت یہ metoo# کی تحریک مزید حساس موضوع بن چکا ہے. جس پر کھل کر گفتگو ہو رہی ہے. جب کہ آزادی نسواں کے پر فریب نعروں سے نسواں تک پہنچنے کی آزادی نے نت نئے مسائل پیدا کر رکھا ہے. اس پر کوئی گفتگو نہیں ہو رہی ہے. خواتین کی جانب سے دعوت نظارہ دینے والے غیر ساتر لباس اور مردوں کو رجھانے والی اداؤں پر کچھ نہیں کہا جا رہا ہے. مرد و زن کے متعینہ حقوق ہیں تو کچھ ان کے واجبات بھی ہیں جنھیں نظر انداز کیا جا رہا ہے.

اسی طرح قدرتی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، اختلاط مرد و زن، لیو ان ریلیش شپ اور اب ایڈلٹری (497) وغیرہ سے معاشرہ پر اس کے منفی اثرات پڑے ہیں اور پڑیں گے، جس سے نہ صرف عورتیں متاثر ہوتی ہیں بلکہ مرد بھی متاثر ہوتا ہے؟

ایسے میں اسلام کا نقطہ نظر واضح طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں ان تمام مسائل کا حل موجود ہے.اس لیے اسلامی تعلیمات کو عام کرنا بہت ضروری ہے.

پرامن اور خوشگوار زندگی گزارنے کا خدائی نظام ۔ اسلام

اسلام انسانوں کے لیے رحمت ہے۔ زندگی کے تمام گوشوں کے بارے میں اسلام کے قوانین حکمت سے خالی نہیں ہیں۔ وہ انسان کی ضرورت اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ مثلاً قصاص کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

’’ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘(البقرۃ: 1799) بہ ظاہر اس میں ایک انسان کے خون کے بدلے دوسرے انسان کا خون کیا جاتاہے۔ مگر اس میں حکمت یہ ہے کہ دوسرے لوگ کسی کو ناحق قتل کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔ اسی طرح زنا کرنے والے کو، اگر وہ غیر شادی شدہ ہے خواہ مرد ہو یا عورت، سرعام سوکوڑے مارنے کا حکم دیاگیا ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ کوئی شخص زنا کے قریب بھی نہ جاسکے۔ عوتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ ان کی عزت و آبرو کی حفاظت ہو۔ نکاح کو آسان بنانے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ زنا عام نہ ہو اور معاشرے کو تباہی اور انسانوں کو مہلک امراض سے بچایا جاسکے۔ اس لیے وہ انسانوں کو پہلے اخلاقی تعلیم سے آراستہ کرتا ہے۔

اسلام کی اخلاقی تعلیمات
اسلام انسانوں کومعاشرتی زندگی تباہ وبرباد کرنے والی چیزوں مثلاً ظلم وزیادتی، قتل و غارت گری، بدکاری و بداخلاقی، چوری وزناکاری وغیرہ سے بازرہنے کی تلقین کرتاہے اورانھیں اپنے مالک اورپیدا کرنے والے کا خوف دلا کر ان کے دل کی کجی کودرست کرتاہے۔ آج معاشرے میں لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ، فریب اور جعل سازی وغیرہ کی جو بیماریاں عام ہوگئی ہیں، صرف اسلامی تعلیمات کے ذریعہ ان تمام مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔

جس طرح ہمیں اپنی بہوبیٹیوں کی عزت پیاری ہے اسی طرح دوسروں کی عزت وناموس کاخیال رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ آزادی کے نام پر جس طرح خواتین کھلونے کی مانند استعمال کی جارہی ہیں، گھراورحجاب کو قید سمجھنے والی خواتین کس آسانی کے ساتھ ظلم وزیادتی کا شکار ہورہی ہیں، یہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔ اس لیے اسلام نے خواتین کوایسی آزادی نہیں دی ہے جس سے وہ غیرمحفوظ ہوں اورنیم برہنہ لباس پہن کر لوگوں کے لیے سامان تفریح یا ان کی نظربد کا شکار ہوجائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے بھی اسلامی احکام کو اپنے لیے قید سمجھ کر اس سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی وہ دنیا کی بد ترین اور ذلت آمیز بیڑیوں میں جکڑ کر قید کرلیا گیا ہے۔

یہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ کائنات کے خالق و مالک اور احکم الحاکمین کا بنایا ہوا قانون ہے۔ اس لیے ا س میں کسی کو ترمیم کی اجازت نہیں ہے۔ اس میں کمی یا زیادتی کرنا اللہ کے ساتھ بغاوت ہے۔ یہ بغاوت پورے سماج کو تباہ و برباد کردتی ہے۔ یہی مسلمان کا عقیدہ ہے۔ جسے معمولی عقل و شعور رکھنے والا ہر فرد بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔

خواتین کے لیے ہدایات
اسلام نے خواتین کو علیحدہ طوربہت سی باتوں کا حکم دیا ہے اوربہت سی چیزوںسے روکاہے۔ مثلاً انھیں اپنے بناؤ سنگارکو دکھانے کے بجائے اپنی نگاہیں نیچی رکھنے اورپردہ کرنے کولازم قراردیا :
اور اے نبی ﷺ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوںکی حفاظ کریں، اوراپنا بناؤ سنگھارنہ دکھائیں بجزاس کے جوخود ظاہر ہوجائے، اوراپنے سینوںپر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں (النور:۳۱)

دوسری جگہ اللہ تعالی کافرمان ہے:
’’اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اوراہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلولٹکالیاکریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالی غفور و رحیم ہے۔‘‘ (سورۃ احزاب:۵۹)

اسی طرح غیرضروری طور پر بازاروں میں پھرنے کے بجائے گھروںمیں محفوظ طریقے سے رہنے اور عبادت کرنے کا حکم دیا: ’’اپنے گھروں میں ٹک کررہو اور سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔ نماز قائم کرو، زکوۃ دو، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتاہے کہ تم اہل بیت نبی ﷺ سے گندگی کودورکرے اورتمھیں پوری طرح پاک کردے۔‘‘ (سورۃ احزاب:
۳۳)

اس کے علاوہ خواتین کا ہروہ طرز عمل جو اجنبی مردوں کو ان کی طرف مائل کرے، یا ان کی جنسی خواہشات کو بھڑکائے،
اسے حرام قراردیاگیاہے۔آپ ؐنے ارشادفرمایا:’’ہر وہ خاتون جو خوشبو لگا کر کسی قوم کے پاس سے گزرے کہ وہ اس کی خوشبولے تو ایسی خاتون بدکار ہے۔ ‘‘(النسائی)


رسول اللہ ﷺنے ایسی خواتین پر سخت ناراضی کا اظہارکرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’دوطرح کے انسان ایسے ہیں جن کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا:ان میں وہ عورتیں ہیں جو لباس پہنے ہوئے بھی ننگی ہیں، لوگوں کی طرف مائل ہونے والی اوراپنی طرف مائل کرنے والی ہیں،ان کے سرکھلے ہونے کی وجہ سے بختی اونٹنیوںکی کہان کی طرح ہے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گی اورنہ ہی اس کی خوشبوپاسکیںگی۔‘‘ (مسلم)

علامہ شیخ عبدالعزیز بن بازؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: ’’یہ تبرج اورسفور اختیارکرنے والی عورتوں کے لیے سخت قسم کی وعیدہے: باریک اور تنگ لباس زیب تن کرنے اور پاکدامنی سے منہ موڑنے والی اور لوگوں کو فحش کاری کی طرف مائل کرنے والی عورتوں کے لیے ۔‘‘

مردوں کوتنبیہ
اسی طرح مردوں کوبھی تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ غیرمحرم (جن سے نکاح ہوسکتاہے) عورتوں کو ٹکٹکی باندھ کر نہ دیکھیں، اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور زنا کے محرکات سے بچیں چہ جائے کہ زنا جیسے بدترین عمل کا شکارہوں۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:’’زنا کے قریب مت پھٹکو وہ بہت برافعل (کھلی بے حیائی ) ہے۔اور براہی بڑا راستہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل :۳۲)

موجودہ دورمیں بوائے فرنڈاور گرل فرینڈ کا رجحان عام ہوگیا ہے، اختلاط مرد و زن، لیو ان ریلیش شپ اور اب ایڈلٹری (497) وغیرہ نے معاشرہ کو مزید متاثرہ کیا ہے۔ اسلام اس رشتے کو نہ صرف غلط قراردیتاہے بلکہ اجنبی خواتین سے میل جول اور غیرضروری گفتگو سے بھی بچنے کی تاکید کرتا ہے، کیوںکہ یہ وہ محرکات ہیں جو انسان کو بدکاری اورفحاشی تک پہنچادیتے ہیں۔نبی رحمت نے اپنی امت کو اس سے روکا ہے: عورتوں(غیرمحرم)کے پاس جانے سے بچو۔ (بخاری)

اگرکوئی ناگزیرضرورت ہو یاکسی اجنبی عورت سے کچھ دریافت کرنا ہوتو پردے کے ذریعے ہی ممکن ہے، قرآن کہتاہے: اگر تمہیں کچھ مانگنا ہوتوپردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اوران کے دلوںکی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے۔ (احزاب:
۵۳)


اسلام جرائم کو بالکل جڑسے اکھاڑنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ انسانوں کو زیوراخلاق وکردارسے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ کاش دنیا والے انسانوں کو اسلامی تعلیمات سے ڈرانے کے بجائے اس کی تعلیمات کوسماج میں نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہوتے۔اگروہ ایسا کرتے توان کی زندگی سکون واطمینان سے گزرتی اورہمارا معاشرہ صحت مندہوکر امن وامان کا گہوارہ ہوتا۔
ll
محب اللہ قاسمی

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...