Monday 22 December 2014

Islam Men Azmat-e-Insan ka Tahaffuz


اسلام میں عظمت انسان کا تحفظ

تمام انسان ،خواہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں رہتے ہوں، کسی بھی مذہب کو ماننے والے ہوں مگراللہ کا بندہ ہونے، اپنی تخلیق ،شکل وصورت اور آدم کی اولاد ہونے کی حیثیت سے برابر ہیں۔ جیسے درخت کی شاخیں بہت سی ہوتی ہیں ، لیکن اس کی  جڑ ایک ہوتی ہے۔اس لیے ان کا باہمی تعاون اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلو ک صالح معاشرے اور انسانیت کی بقا کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اسلام نے انسانوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنے اور باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے پر زور دیا ہے۔اس نے واضح کیا ہے کہ تمام انسان کو اللہ نے ہی پیدا کیا ہے۔ اس لیے ان سب کو اللہ سے ہی ڈرنا چاہیے:
یا ایہا الناس اتقوا ربکم الذی خلقم من نفس واحدۃ وخلق منہا زوجہا و بث منہما رجالا کثیراونساء
’’لوگو!  اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔‘‘ (النسائ:1)
 اللہ تعالی نے انسان کو اپنی دیگر مخلوقات پر فضیلت بخشتے ہوئے فرمایا:
وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلا         
(بنی اسرائیل: 70 (
’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ بنی آدم کو بزرگی (عزت) دی اور انھیں خشکی اور تری میں سواریاں عطاکیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت (فضیلت ) بخشی۔‘‘
(بنی اسرائیل: 70 (
اس لحاظ سے تمام انسان ایک آدم کی اولاد ہیں اور ان ہی کی نسبت سے ان کے درمیان تعلقات قائم ہیں ۔اس لیے کسی کو کسی پر کوئی فخرکی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی۔اللہ کے رسول ﷺ نے  تمام انسانیت کو مخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا:
یاایہا الناس الآان ربکم واحد وان اباکم واحد الآلافضل لعربی علی عجمی  ولالعجمی علی عربی ولالاحمرعلی اسود ولالاسودعلی احمرالابالتقوی۔ (مسنداحمد(
 اے لوگو!بلاشبہ تمہارارب ایک ہے اورتم سب کا باپ بھی ایک ہے۔جان لوکہ کسی عربی کوکسی عجمی پراورنہ ہی کسی عجمی کوکسی عربی پر،نہ کسی گورے  کوکسی کالے پر اورنہ کسی کالے کو کسی گورے پرکوئی فضیلت اوربرتری حاصل ہے ،سوائے تقوی کے ‘‘۔
انسان بہ حیثیت مخلوق اللہ کا کنبہ ہیں۔جس طرح ایک کنبہ میں مل جل کر خوش اسلوبی سے رہنے والا انسان اچھا مانا جاتا ہے ، اسی طرح اس دنیا میں امن و سکون اور محبت سے رہنے والا انسان اللہ کی نگاہ میں بہتر ہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الخلق عیال اللہ، فاحب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ (طبرانی(
’’مخلوق اللہ کا کنبہ ہے پس بہترین مخلوق وہ ہے جو اللہ کے بندوں کے ساتھ احسان اور بھلائی کا رویہ اختیار کرے۔‘‘
اس لیے انسان دین اور مذہب کی بنیاد پرانسانوں کے درمیان جنگ وجدال مناسب نہیں ہے۔ رنگ ونسل کی وجہ سے اختلاف و انتشاردرست رویہ نہیںہے۔ مال ودولت کی وجہ سے کسی کو باعزت و باوقار سمجھا جائے اور غربت و مفلسی کے سبب ذلیل وخوار کیاجائے یہ صحیح نہیں ہے۔بلکہ اچھے و برے کی اورعزت و شرافت کا پیمانہ یہ ہے کہ کون اللہ سے کتنا ڈرتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
یاایہاالناس اناخلقناکم من ذکرووانثی وجعلناکم شعوباً وقبائل لتعارفوا۔ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ۔   (الحجرات:۱۳)
’’اے لوگو!ہم نے تمہیںایک مرداورایک عورت سے پیداکیا۔(یعنی سب کی اصل ایک ہی ہے) اورتمہیںخاندانوںاورقبیلوںمیںبانٹ دیاتاکہ تم ایک دوسرے کوپہچانو،بے شک اللہ کے یہاںتم سب میںزیادہ عزت والا وہ ہے جوتم میںسب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہے۔‘‘(الحجرات:۱۳)
اس آیت کریمہ میں اللہ نے صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ تمام انسانوں کومخاطب کیا ہے اور ان کو یہ واضح پیغام ہودیا ہے کہ تمام انسانوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ،بلکہ سب کی تخلیق ایک ہی انداز سے ہوئی ہے۔ ان کا قبیلوں اور خاندانوں میں بانٹا جانا اس لیے نہیں ہوا کہ وہ اختلاف و انتشار کا شکار ہوں ، یا آپس میں لڑیں ،بھڑیں اور خوں ریزی کریں۔ یا خاندانی حسب و نسب کے غرور میں چور ہوکر دوسروں کو نیچا دسمجھیں بلکہ اس وجہ سے ہے تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی شناخت کرسکیں۔
اللہ تعالیٰ نے شرافت و سربلندی کا صرف ایک ہی معیار رکھا ہے اوروہ ہے تقوی، یعنی اپنے خالق و مالک کا ڈر ،مرنے کے بعد اپنے اعمال کی جوابدہی کا احساس۔ یہ معیار انسانوں کے دلوںکوباہم جوڑنے اور الفت ومحبت کے ساتھ رہنے کا پیغام دیتاہے۔نیک انسان اپنے کسی ذاتی مفاد کی خاطر کوئی ایسا اقدام نہیں کرتا جو اللہ کو ناپسند ہو بلکہ ہر حال میں وہ اپنے رب کی رضا کا خیال رکھتا ہے ۔یہ قابل رشک خصوصیت کسی کے اندر ہے تو وہ باوقار، قابل اعتبار اور لائق احترام ہے، خواہ وہ کسی معمولی گھرانے میں پیدا ہوا ہو۔ پھر ایسے لوگوں کااللہ تعالیٰ نگہبان ہوتا ہے۔ انھیں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہونے دیتا اور ان کی اس طرح مدد کرتا ہے کہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا و یرزقہ من حیث لا یحتسب (الطلاق:2)
جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا ۔ اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا۔(الطلاق:2)
اگر ہم سیرت کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ آپﷺ نے کفار و مشرکین اور اہل کتاب کے ساتھ انسانیت کے تحفظ اور قیام امن کے لیے بہت سے معاہدے کیے تاکہ ظلم وستم کا سد باب ہو، خوں ریزی کو روکا جاسکے ، کوئی مذہب کسی کے لیے وبال جان نہ بنے ، کسی کو محض اس لیے نہ قتل کرے کہ وہ دوسرے مذہب کا ہے یا دوسرے قبیلے اور خاندان سے ہے۔بلکہ لوگ بہ حیثیت انسان آپس میں ایک دوسرے کا احترام کرے۔اس کے ساتھ ہی آپ ﷺ انسانیت کے دشمن پر بھی کڑی نظر رکھتے ،تاکہ کہیں کوئی فساد سر نہ اٹھاسکے اور انسانیت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔
انسان جب اپنی اس حیثیت کو بھول جاتا ہے یااحساس برتری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو فتنہ وفسادپر آمادہ ہوجاتا ہے۔ پھرحسد، کبر، غیبت ، چوری ،چغلی، قتل و غارت گری، بدکاری و بداخلاقی جیسی بیماریوں کا شکار ہوجاتاہے۔اس صورت میں اس کی اصلاح و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مولانا حالی ؔ نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا:
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
آج انسان اپنی عظمت کھو بیٹھا ہے ، غلط جگہ پر اپنا معیار وقار تلاش کررہا ہے، دنیا کی عارضی عیش وآرام کو اپنی زندگی کا مرام(مقصد)بنا لیا۔ پوری طرح خواہش نفس کا غلام بن کر بے غیرتی اور بے عزتی کے حدود پار کررہاہے۔انسانی جان کا کوئی احترام باقی نہیں رہ گیا ہے۔انسان کے وہ سارے اخلاقی اقدار جن سے انسان اور شیطان میں امتیاز ہوگم ہوتے جارہے ہیں۔نتیجہ پوری دنیا تباہی کے دہانے پر آگئی  ہے۔ایسے میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ بہ حیثیت انسان لوگوں کا باہمی میل اور اس کے تعلقات خوشگوار ہوں اور بھولے بھٹکوں کو سیدھی سچی راہ دکھائی جائے،مذہب اور گروہ بندی کی بنیاد پر کسی قسم کی کوئی لڑائی نہ ہو ۔ انھیں اس نظام سے آگاہ کرایا جائے جو انسانیت کا خیرخواہ اور فلاح دارین کا ضامن ہے۔

Mohibbullah Qasmi 
321, Abul Fazl Enclave, Jamia Nagar, New Delhi-110025
Mob- 9311523016, Email: mohibbullah.qasmi@gmail.com




Monday 24 November 2014

Char Wasiyateen

رسول اکرمﷺ کی چار وصیتیں

          يا أيها الناس: أفشوا السلام، وأطعموا الطعام، وصِلُوا الأرحام، وصلّوا بالليل والناس نيام، تدخلوا الجنة بسلام

’’اے لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور رات کو جب لوگ سورہے ہوں تونماز( تہجد ) پڑھو، (ایسا کرنے کی صورت میں)سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔‘‘ (احمد،ترمذی)

         اس حدیث کے راوی حضرت ابویوسف عبداللہ بن سلامؓ ہیں۔ جو مدینے کے مشہور علمائے احبار (یہودی علماء) میں سے تھے۔جب نبی کریمﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے ،تو لوگوں کا ہجوم آپ ﷺ کے دیدار کے لیے امڈ پڑا۔ اسی ہجوم میں یہ بھی شامل تھے۔ انھوںنے آپؐ کا چہرۂ انور دیکھا تو کہنے لگے ،یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتااور اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔ان کا نام حصین تھا،جسے بدل کرآپ ؐنے عبداللہ رکھا ۔ چنانچہ وہ اسی نام سے مشہور ہوئے۔ ابویوسف آپ کی کنیت ہے۔ آپ کا شمار ان صحابہ کرام میں ہوتا ہے ، جنھیں نبی کریمؐ نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دی تھی۔ روایات تفسیر میں ہے کہ سورۃ احقاف کی آیت:۱۰ (اس جیسی بات پر تو بنی اسرائیل کا ایک گواہ شہادت بھی دے چکا ہے) ان کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔وہ حضرت عمرؓ کے ساتھ دو فتوحات (فتح قدس اور جابیہ)میں شریک رہے اور مدینہ منورہ میں سنہ ۴۳ ہجری میں وفات ہوئی۔
         مذکورہ حدیث کے سلسلے میںحضرت عبداللہ بن سلامؓ کا بیان ہے کہ یہ حضور کی پہلی گفتگو ہے جو انھوں نے آپ ؐ کی زبان مبارک سے سنی تھی۔ حدیث کے متن میںنبی کریم ﷺ نے امت کو چاراہم باتوںکی وصیت فرمائی ہے:۱۔سلام کو پھیلانا، ۲۔کھانا کھلانا، ۳۔صلہ رحمی کرنا۴۔تہجدپڑھنا۔ذیل میں اس حدیث کی مختصر تشریح پیش کی جارہی ہے۔

پہلی وصیت : سلام کو عام کرنا
         سلام اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ہے۔ اس کے معنی سلامتی کے ہیں۔ سلام محبت کی کنجی ہے،جس سے مسلمانوں کے درمیان باہمی تعلق میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے اجنبیت دور ہوتی ہے اور گھمنڈ جیسی بری خصلت جاتی رہتی ہے۔اس کے متعلق آپ ؐ کا ارشاد ہے:’’تم جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک کہ مومن نہ ہوجاؤ اور تم اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو۔  کیا میں تمھیں ایسی چیز نہ بتا دوں جسے تم کرو تو آپس محبت کرنے لگو۔ اپنے درمیان سلام کو عام کرو۔ ‘‘(مسلم(
معلوم ہوا کہ سلام اور محبت دونوں لازم اور ملزوم ہیں، اس سے ایمان مضبوط ہوتا ہے۔یہ اس امت کا شعار ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے ملے تو اسے ضرور سلام کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے جن چیزوں کو مسلمانوں کے باہمی حقوق شمار کیا ہے سلام ان میں سے ایک ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’جب گھروں میں داخل ہو اکرو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، دعائے خیر، اللہ کی طرف سے مقرر فرمائی ہوئی بڑی بابرکت اور پاکیزہ ہے۔ ‘‘(النور:۶۱(
         پسندیدہ کا طریقہ یہ ہے کہ سلام میں پہل کی جائے ،بلند آواز سے سلام کیاجائے تاکہ سننے والا اس کا جواب دے سکے ۔ چھوٹا بڑے کو سلام کرے، سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے،تنہا شخص گروہ کو سلام کرے ، اسی طرح کسی جگہ پر پہلے سے کچھ لوگ موجود ہیں تو آنے والا سلام کرے۔ دارالعلوم دیوبند میں جب میں دورۂ حدیث کے سال میں تھا تو میں نے اپنے استاذمفتی سعید صاحب پالنپوری کو دیکھا کہ وہ درسگاہ میں داخل ہوتے وقت پہلے سلام کرتے اور ان سے یہ جملہ بھی سنا : السلام علی من دخل(داخل ہونے والا شخص سلام کرے) ۔
سلام نیکوں میں اضافے کا باعث ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ایک مجلس میں ایک شخص آیا اور اس نے السلام علیکم کہا۔ آپؐ نے فرمایا: اسے دس نیکیاں ملیں۔ دوسرا شخص آیا اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا ، آپؐ نے فرمایا: اسے بیس نیکیاں ملیں۔ تیسرا شخص آیا ۔ اس نے ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ‘کہا تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: اس سے اسے تیس نیکیاں ملیں۔
          ہر قوم اور تہذیب میں دو افراد کے باہم ملتے وقت اظہار محبت کے لیے الگ الگ جملے رائج ہیں ،ان میں اسلامی طریقِ سلام کو سب سے زیادہ جامعیت حاصل ہے۔ اس سے نہ صرف ملنے والوں کے دلوںمیں محبت اور سرور پیدا ہوتا ہے بلکہ اسے سلامتی بھری زندگی کی دعا بھی ملتی ہے اور اس بات کا وعدہ بھی کہ تمہیں مجھ سے کوئی خوف نہیں تم میری زبان وہاتھ سب سے محفوظ ہو۔

دوسری وصیت : کھانا کھلانا
         غریبو ں اور یتیموں کو کھانا کھلانا جنت میں داخلے کا سبب ہے ۔اس سے انسان کے اندر فیاضی کی صفت پیدا ہوتی ہے اوربخل و حرص اور مال و دولت کی محبت جیسی بیماریاں دور ہوتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایاہے:
          اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ )ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلارہے ہیں ہم نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔ (الدہر۔۸-۹(
         ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں توہمیں ایسے بہت سے غریب مسکین لوگ مل جائیں گے جنھیںکھانے کو غذا میسر نہیں ہے۔ وہ بھوکے سوجاتے ہیں۔جب کہ قریب ہی کسی شادی یا دیگر تقریب میں بہت سارا کھانا کوڑے اور کچرے کے ڈھیرپر پھینک دیا جاتاہے۔اس طرح ایک مال دار گھرانہ تو خوب شکم سیر ہوکر کھاتا ہے مگر اس کا پڑوسی بھوکا سوجاتاہے۔ایسا کرنا ایمان کے بالکل منافی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ایسے لوگوں کے تعلق سے ارشاد فرمایاہے:
          ’’ وہ شخص مومن نہیں جو خود شکم سیر ہوکر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔‘‘(مسلم(
اس میں مہمان کی ضیافت بھی شامل ہے، چنانچہ آپﷺ نے اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے کی پہچان یہ بتائی ہے کہ وہ  مہمان نوازی بھی کرے:
         ’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان نوازی کرے۔‘‘(متفق علیہ(

تیسری وصیت : صلہ رحمی کرنا
         رشتے کو جوڑے رکھنا اور رشتہ داری کو نبھانا۔ایسی صفت ہے، جس کی قرآن و حدیث میں بہت تاکید کی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کوبگاڑنے سے پرہیز کرو۔‘‘(النساء:۱(
         خاص طور پر والدین کے ساتھ حسن سلوک پر بہت زور دیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ جب ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچے تو تم انھیں اف بھی نہ کہو اور نہ انھیں جھڑک کر بات کرو بلکہ ان کے سے احترام کے ساتھ بات کرو۔‘‘(سورۃ : اسراء:۲۳(
صلہ رحمی کو دخول جنت کے علاوہ دنیا میںرزق کے اضافے اور طول عمر کا سبب بھی قرار دیا گیا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
         ’’جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ اس کے رزق اور اس کی عمر میں اضافہ ہو تو اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔‘‘(متفق علیہ(
         صلہ رحمی کی ضد قطع تعلق ہے۔ یعنی ذرا ذرا سی بات پررشتہ توڑلینا ،نفرت کرنا ، میل جول ختم کرلینا وغیرہ۔اس کے اثرات کو دیکھئے تو یہ صرف تعلقات کو ختم کرنے تک محدود نہیں رہ جاتا بلکہ بسااوقات دل میں حسد اور کدورت کو ایسا جنم دیتا ہے جو بڑے فساد کا ذریعہ بن کر انسان کو ذلیل ورسوا بھی کردیتا ہے۔ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں۔
         اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:’’ قطع تعلق کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘ (بخاری(
         ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ رشتہ داری میں ذراسی ناروابات یا کوئی تلخی ہوگئی توبس ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کرلیاجاتاہے اور معاملات کودرست کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ اسے اپنے لیے کسرشان سمجھا جاتاہے۔جب کوئی حسن سلوک کرتا ہے تو اس کے ساتھ حسن ِسلوک کی روش اپنائی جاتی ہے یہ تو بدلہ ہے، صلہ رحمی نہیں ہے۔ اس لیے نبی کریمﷺ نے واضح طور پر بتادیا :
          ’’وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو (کسی رشتہ دار کے ساتھ) احسان کے بدلے میں احسان کرتا ہے، بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے، جب  اس سے قطع رحمی(بدسلوکی وغیرہ) کی جائے تو صلہ رحمی(حسن سلوک ) کرے۔ ‘‘(بخاری(

چوتھی وصیت : تہجد پڑھنا
         جب انسان رات کے تہائی حصے میں وضوکرکے نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے ،اسے صلوٰۃ تہجد کہتے ہیں۔ اس نماز میں ریا کاری کا شائبہ نہیں ہوتا۔ بندہ اس وقت اللہ کے بالکل قریب ہوتا ہے۔اس  سے تعلق اور قربت اس کے توکل میں اضافہ کرتا ہے جو ہر مشکل کو صبر کے ساتھ جھیلنے کی صلاحیت بخشتا ہے۔اللہ تعالیٰ اسے مقام محمود پر فائز کردیتا ہے:
         ’’اور رات کو تہجد پڑھو! یہ تمہارے لیے نفل (اضافی) ہے، بعید نہیں کہ تمہارا رب تمھیں مقام محمود پر فائز کردے۔‘‘ (سورۃاسرا: ۷۹(
         دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے: ’’ان کی پیٹھیںبستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ سجدۃ:۱۶)
 اللہ کے رسول ﷺ نے فرائض کے بعد جس نماز کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے، وہ تہجد ہے۔آپ ؐ نے اس تعلق سے ارشاد فرمایا:
          ’’فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی ہے۔‘‘(مسلم(
         تہجد آپؐ پر واجب تھی جب کہ امت پر یہ نفل ہے۔چنانچہ صحابہ ،تابعین اور سلف صالحین تہجد کا اہتمام کرتے تھے۔
اس حدیث کے آخری حصے میں آپ نے تمام نصیحتوں اور وصیتوں کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:تدخلواالجنۃ بسلام، یعنی اگر تم ان ہدایات پر عمل کروگے تو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤگے۔ خلاصہ یہ کہ اللہ کے رسول ﷺ کی مذکورہ چارں وصیتوں کی پابندی کی جائے اور اسے عملی طور پر اپنی زندگی میں لایاجائے تو ہمارا معاشرہ خوش حال اور مثالی اور امن و امان کا گہوارہ ہوگا۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اسورۂ رسولؐ پر عمل کی توفیق بخشے۔ آمین ll
Mob. 9311523016


Sunday 2 November 2014

مريض اسپتال اورزندگی

یہ خیال عام ہے کہ دنیا فطرت کے مطابق چلتی ہے، اگر ہم اس سے اعراض کرتے ہوئے سہولت کی خاطر غیر فطری طریقے اختیار کرلیں تو اندیشہ ہے کہ مصیبت میں گرفتار ہوجائیں گے۔ موجودہ دور میں وقتی سہولت کو ترجیح دیتے ہوئے غیر فطری طریقہ کار اختیار کرنے سے لوگ بالکل پرہیز نہیں کرتے۔مثلا اشیاء خورد ونوش میں قدرتی غذاؤں کے بجائے ، جنک فوڈ وغیرہ کا کوگ خوب استعمال کرتے ہیں، گھنٹوں ایک ہی سیٹ پر بیٹھے بس کام کیے جاتے ہیں، کبھی کبھی تو پہلو بھی نہیں بدل پاتے ،اس کے نتیجہ میں معدہ کی کمزوری اور اعضاء جسم کا منجمدہوجانا لازمی ہے۔
یہی حال علاج معالجہ کا ہے۔ پہلے علاج معالجہ اور دیگر انسانی ضرورتوں کی بنیادی اشیاء کس قدر عام اور بہ آسانی دستیاب تھیں ۔اس وجہ سے لوگوں کو علاج میں زیادہ پریشانی نہیں ہوتی تھی اور نہ قدم قدم پر بڑی رقم خرچ کرنے کی نوبت آتی تھی، جس کے سبب عام انسان کے لیے اپنا علاج کروانا اتنا مشکل نہیں تھا، جتنا کہ اب مشکل ہوگیا ہے۔
اس غیر فطری زندگی کی تیز رفتاری نے طرح طرح کی بیماریاںپیدا کردی ہیں۔ مثلاً ایک بخار جسے ڈینگوکا نام دیا جاتاہے۔ آج کل عام ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ مچھر کا کاٹنا ہے۔ عام اور غریب انسان، جسے اپنا نام سلیقہ سے یاد ہونہ ہو مگر اس بیماری کے نام سے وہ بہ خوبی واقف ہے۔اس کا طریقۂ علاج کیا ہے وہ بھی جان لیجئے ،سب سے پہلے مریض کواسے ڈینگوٹسٹ کروانا ہوگا،جس میں پلیٹ لیٹ ٹسٹ بھی شامل ہے۔ بیماری ہویا نہ ہو یہ ٹسٹ لازمی ہے، جس کی لاگت تقریباً دو ہزار سے ڈھائی ہزار تک ہے۔جیسا مریض ویسی قیمت ، اس کے بعد مسلسل دوتین بار پلیٹ لیٹ کی جانچ ضروری ہے،جس کا خرچ ہر بار تقریباً ڈیڑھ سوسے دوسوتک ہے۔
 اس کے بعد نمبر آتا ہے دواؤں کا ، کھانے کی خوراک اتنی ہویا نہ ہومگر دوائوںکی خوراک ہر وقت پابندی سے لینا ضروری ہے۔آپ چاہے بیس سے تیس روپے کاکھانا کھائیں مگر ایک وقت کی دوا کی قیمت تقریباً سوسے دوسوروپے ضرور ہوگی ،جسے آپ بادل نہ خواستہ لینے پر مجبور ہیں ۔ ارے بھائی انگریزی نام کا بخار ہے ، اتنی آسانی سے تھوڑا ہی جائے گا۔اس کے لیے پیسوں کوقربان ہونا ہی ہے۔
          جناب ابھی ڈاکٹر کی فیس باقی ہے۔ تقریباً پانچ سو سے سات سوروپے تک !ارے بھائی اے سی کا نظم ہے ، اتنی بڑی بلڈنگ ہے ، لفٹ اور دیگر بہت سی سہولیات ہیں، کیا ہوا اگر آپ نے ان کا استعمال نہیں کیا مگر چارج تودینا ہی پڑے گا نہ۔
اب ڈاکٹر اور مریض کا رشتہ پہلے کی طرح محسن اور ممنون کا نہیں بلکہ ایک بکرے اورقصائی کا ہے ۔ پہلے علاج ہوتا تھا اب علاج بکتا ہے۔پہلے مریض کو جلد سے جلد رخصت دی جاتی تھی اور علاج کو لمبا کرنے سے گریز کیا جاتا تھا ، مگر اب مریض گویا ایک اے ٹی ایم کارڈ ہے لگاتے جاؤ ، پیسہ نکالتے جاؤ ۔ پھر اتنی جلدی اس پیسے فراہم کرنے والی مشین کو کیسے الوداع کہہ دیا جائے۔یہ تو ایک تجارت ہے جہاں انسان کی زندگی کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ خوف دلاکر یا پھر بیماری سے نجات کا دلاسا دے کر گو مریض کو مرنا پھر بھی ہے ۔ اپنی زندگی گزار کر یا اپنی صحت کے عوض ان کی من مانی قیمت چکاکر۔
پہلے طبیب نبض دیکھ کردرجہ حرارت بتادیا کرتے تھے۔ اب یہ کام مشین کرے گی، پہلے لوگ زبان اور مریض کی کیفیت دیکھ کر اس کا علاج کرتے تھے اب یہ کام جانچ کی مشین کرے گی ، تو بھائی اس کی قیمت بھی ہوگی۔ جب سب کام یہی مشین ہی انجام دے رہی ہے تو پھر ڈاکٹر کی ضرورت کیا ہے؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے ، اتنا بڑا اسپتال ہے ، جس کا ایک مستقل نام ہے۔ اس کی حیثیت کا سوال ہے۔ رہی بات فیس کی تو فیس اگر کم رکھی گئی تو اسپتال کی حیثیت مجروح ہوگی، ڈاکٹر س کی ضروریات زندگی میں فرق آئے گا، پھر آپ کا علاج کیسے ہوسکے گا؟
          یہاں ٹھہر کر سوچیں تو یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ اگر یہی بات ہے تو لوگ کیوں نہیں سرکاری اسپتالوں میں چلے جاتے ہیں وہاں تو علاج مفت ہوتا ہے۔ بات درست ہے مگر وہاںآپ کو کوئی پوچھے گا بھی نہیں جب تک کوئی آپ کا جاننے والا نہ ہو۔ اسی طرح وہاں کی صورت حال ایک انار اور سوبیمار کی سی ہے۔ ایسے میں معمولی درجہ کا عقل رکھنے والا انسان بھی اپنی قیمتی زندگی کی بقا کے لیے کچھ تو کرے گا اور لازماً اسے ان ہی پرائیوٹ اسپتالوں میں آنا ہوگا۔ جہاں معمولی بیماری کوبھی ہمیشہ سیریس کیس مانا جاتاہے اور طریقہ ٔعلاج وہی گراں جس کا ذکر کیا گیا۔
          اب بتائیے کہ یہ ہے نا غیرفطری اور غیر اصولی زندگی! جہاں سب کچھ مشین کرتی ہے اور انسان کی مجبوری اور اس کے جذبات کو کیش کیا جاتاہے۔پورا پیشہ ٔ طب تجارتی ہوکر رہ گیاہے۔ جہاں مریض گراہک ہے، ڈاکٹر سوداگر اور اسپتال گویا دکان ہے۔
مگر زندگی کا ایک تصور وہ بھی ہے جس میںانسان کو اس کی فطرت سے روشناس کرایا جاتا ہے اور انسانوں کا باہمی تعلق الفت و محبت کا ہوتاوہاںاس انسان کو بہترین انسان قرار دیاجاتاہے جس سے لوگ خیر کی امید کریں اور اس سے کسی قسم کے شرکا کوئی اندیشہ نہ ہو۔وہ دوسروں کا ہمدر د وخیر خواہ ہو۔یہ ہے اسلامی زندگی جس نے انسانوں کو حیوانیت سے نکال کر انسانیت کے بلند مقام پر رکھا ہے۔جس میں دھوکہ دینا حرام تصور کیا جاتاہے چہ جائے کہ کسی کوتکلیف اور نقصان میںمبتلا کیا جائے۔
اللہ نے انسان کو معزز مخلوق بنایا، اسے قابل قدر اور باعث احترام بتایا۔ اللہ کا قانون وہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اللہ زمین پر کسی انسان کو راہ چلتے ہوئے کانٹا چبھے ، اس لیے راستے سے تکلیف دہ چیزکو ہٹادینے کو بھی شریعت نے صدقہ قرار دیا۔ چہ جائے کہ انسان ایک دوسرے کو دھوکہ دے اور قتل وغارتگری کے درپے ہو۔اللہ انسانوں میں اچھے اوصاف کو پسند کرتا ہے اور صالحین کا تذکرہ فرشتوں کے درمیان کرتا ہے۔ہدایت الٰہی کے مزاج کا تقاضہ ہے کہ انسانوں کے اندر ہمدردی اور محبت کا جذبہ بھرپور اور نمایاں طور پر ہو ،تاکہ اللہ کی خاص رحمتیں ان پر نازل ہوں ۔ ایسے اوصاف کے حامل لوگوں کے تعلق سے اللہ کے رسول ﷺ کا ارشادہے:
الراحمون یرحمہم الرحمن ارحمومن فی الارض یرحمکم من فی السماء    (ترمذی(
رحم وکرم اوردرگذرکرنے والوںپررحمن رحم کرتاہے۔لہذاتم زمین والوںپررحم کرو، آسمان والاتم پررحم کرے گا۔
          اس حقیقت کیکسی شاعر نے بڑی اچھی ترجمانی کی ہے:
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
          ہمدردی کی خوبی انسانوں کے درمیان باہمی الفت و محبت کو فروغ دیتی ہے۔ جب انسان کسی کے ساتھ ہمدردی کرتاہے اور اس کے دکھ درد کو اپنا درد سمجھتا ہے تو لوگوں پر اس کا غیرمعمولی اثر پڑتا ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں پر راج کرتاہے جب کہ مادیت کے حصول میں پھنسا انسان لاکھ کچھ حاصل کرلے مگر اسے یہ دولت حاصل نہیں ہوتی۔
دوسری جگہ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
 ’’  لایرحم اللہ من لایرحم الناس‘‘ جولوگوںپررحم نہیںکرتاخدابھی اس پررحم نہیں کرتا ہے۔ (مسلم)
اسلام دھوکہ کو پسند نہیں کرتا اور اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی شخص لوگوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کرے۔اسی لیے وہ اس شیطانی عمل سے باز رہنے کی تلقین کرتاہے ۔ اللہ کے رسول کا ایک واقعہ سبق آموز  ہے۔
 ایک مرتبہ آپ ﷺ بازار سے گزرے ،وہاں ایک شخص غلہ بیچ رہا تھا۔ آپ نے غلے میں ہاتھ ڈالا تواس کو بھیگا ہوا پایا۔ آپؐ نے دکاندار سے فرمایا:اے غلہ والے یہ کیا ماجراہے ؟ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول ﷺ رات  بارش کی وجہ سے بھگ گیا تھا۔آپؐ نے فرمایا:تو تم نے  بھیگے ہوئے غلہ کو اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لوگوں کونظر آتا۔ پھر آپ ؐ نے یہ ارشاد فرمایا:
جس نے دھوکہ  دیا وہ ہم میں سے نہیں ۔  (ترمذی)
          جب انسان میں دھوکہ دہی کی عادت پڑجاتی ہے تووہ لوگوں میں معیوب اورناپسندیدہ تصور کیاجاتاہے ۔ لوگ اس سے دور رہنے لگتے ہیں اور اس سے انسیت میں کمی آجاتی ہے ، جب کہ انسان یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس سے محبت کریں اور اس سے میل جول اور ہمدردی بھی رکھیں۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صاحب ایمان انسان کے ایک اچھے وصف ، کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
 المومن مالف ولا خیر فیمن لایالف ولایولف
          مومن محبت اورالفت کاحامل ہوتاہے اوراس شخص میں کوئی خوبی اوربھلائی نہیں جونہ خودمحبت کرے اورنہ لوگوں کواس سے الفت ہو۔(مسند احمد،بیہقی شعب الایمان(
اگر انسان اسوۂ رسول ﷺ کو اپنائے اوراپنے خالق و مالک کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق زندگی گزارے تو پھر وہ کسی قسم کی پریشانی میں  مبتلا نہیں ہوگا۔ طبیب بھی اپنی ذمہ داریاں بہ خوبی ادا کرے گا ، اس جھوٹی دنیاوی چمک دمک اور عیش پرستی کے حصول کومقصد نہیں بنائے گا۔ اس کے اندر یہ احساس بیدار ہوگا کہ وہ بھی ایک جسم رکھتا ہے، جس پر خود اس کا بھی کوئی اختیار نہیں ہے، وہ بھی  علاج کا محتاج ہوسکتا ہے یہ احساس ہو تو طبیب کومریض سے حاصل ہونے والے پیسے کی نہیں بلکہ اس کی جان کی فکر ہوگی ،دوسرں کے درد کو وہ اپنا درد تصور کرے گا اور مریض کے علاج کو گویا اپنا علاج مان کر پوری ہمدردی اور رعایت کے ساتھ اپنی خدمات انجام دے گا۔ اس طرح انسان کی زندگی کی قیمت بھیڑ بکریوںکی سی نہیں ہوگی بلکہ وہ انمول ہوگی،جسے بچانے کی بھرپور کوشش بھی کی جائے گی۔تب صرف طبیب ہی نہیں بلکہ ہر پیشہ سے وابستہ انسان اسلامی تعلیمات کو اپنا کر یقینا اپنے کام میں پوری ایمانداری کا ثبوت دے گا۔اس طرح صرف ڈاکٹر ،مریض اسپتال ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پرامن اور خوشحال معاشرے کی طرف لوٹ آئے گی۔

                                                 ٭٭٭



Monday 29 September 2014

قربانی کا مقصد،تقرب الٰہی اور تقوی کا حصول


                                        محب اللہ قاسمی 

قربانی ایک مختصر لفظ ہے ،لیکن انسانی زندگی میں  اس کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔  اس کی ضرورت انسان کو اپنی زندگی کے مختلف مقامات پر اور  مختلف انداز میں  پڑتی ہے۔ ساتھ ہی ہر قربانی کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصدہوتاہے ۔ انسان جواپنی زندگی زندگی کے مختلف مسائل میں  الجھا ہوتاہے،اسے قدم قدم پر قربانی دینی پڑتی ہے اور اس کے پیچھے اس کا کوئی نہ کوئی مقصد چھپا ہوتا ہے اور  مقصد جتناعظیم ہوتاہے قربانی بھی اتنی ہی بڑی ہوگی۔  مثلاًانسانی زندگی کا مقصد اطاعت الٰہی ہے جوتقرب الٰہی اور کیفیت تقوی کے بغیرممکن نہیں  اور  یہ تقرب الٰہی ،کیفیت تقوی کے بغیرحاصل نہیں  ہوتی۔  لہذا اطاعت کے لیے قربانی ضروری ہے۔
لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُم
’’نہ ان (قربانی کے جانوروں )کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں  نہ خون۔ مگراسے تمہارا تقویٰ پہنچتاہے۔ ‘‘  (سورۃ الحج:۳۷)

اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہے کہ اللہ کو مقصودان جانوروں کا خون یا ان کاگوشت نہیں  ہے ، بلکہ وہ اپنے بندوں کا تقوی دیکھنا چاہتاہے کہ وہ خداپر کس قدر یقین رکھتے ہیں  ؟اس کے احکام کی کس قدرپابندی کرتے ہیں اور  کس طرح وقت ضرورت قربانی پیش کرنے کو تیاررہتے ہیں ؟ تقوی کی صفت اللہ کوبے حدمحبوب ہے ، اسی صفت سے انسان نیک اعمال کوترجیح دے کرانھیں  اختیارکرتاہے۔  اگرکوئی شخص کسی عمل کو تقوی کی صفت کے ساتھ انجام دیتاہے تووہ خالصۃً للہ ہوتاہے۔ اس میں  ریا کا شائبہ نہیں  ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقوی کو ہی روزے جیسی اہم ترین عبادت کا مقصدقراردیاہے۔ اس طرح  ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ المُتَّقِیْنَ      ’’اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں (قربانی) قبول کرتاہے۔ ‘‘(سورۃ مائدہ:۲۷)

عیدالاضحی کا مقصدبھی جذبۂ قربانی کو بیدار کرنا اور اپنی عزیزسے عزیزترچیز کوحکم ربانی کے مطابق رضاء الٰہی کے حصول میں  قربان کرنے کا حوصلہ پیداکرنا یہی قربانی ہے ۔ اس سے ان کو یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی مقصد زندگی کے تمام شعبوں  میں  اپنی خواہشات پر رب کائنات کی مرضیات کو ترجیح دے۔  یہ دراصل انسان کی عملی زندگی کا ایک امتحان ہے، جس سے اس کے اندرنکھار اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ عربی کا مقولہ ہے۔ عندالامتحان یکرم الانسان اویہان ۔  جوشخص جس قدر آزمائش سے دوچارہوگا اور  اس میں  وہ خداکے احکام کو ترجیح دے گا وہ شخص اسی قدر اللہ کا محبوب اور اس کا عزیز تربندہ ہوگا۔ قربانی خداکے تقرب کا ایک ذریعہ ہے۔ یہ جو قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے۔  قرآن کہتاہے:
وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیْمَۃِ الْأَنْعَامِ فَإِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ فَلَہُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ  o      ’’ہرامت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقررکردیاہے۔  تاکہ (اس امت کے) لوگ ان جانوروں  پر اللہ کا نام لیں  جواس نے ان کو بخشے ہیں ۔  (سورۃ الحج:۳۴)
اسے سنت ابراہیمی سے بھی تعبیرکیاجاتاہے۔ صحابہ ؓ نے نبیؐ سے پوچھا ،یارسول اللہ ؐ! یہ قربانی کیاچیز ہے؟آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:’’ یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ ‘‘  (ترمذی،ابن ماجہ)

قربانی کے مفہوم کو ہم حضرت ابراہیم ؑ کی بے مثال ،قابل رشک زندگی سے سمجھ سکتے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک شخص کوجس سے جتنی محبت اور  لگاؤ ہوتا ہے، وہ اسی طرح اپنے محبوب کا امتحان بھی لیتاہے ۔  اس کرہ ارضی پررونماہونے والے تاریخی واقعات پر ہم نگاہ ڈالیں توہمیں  بے شمار عاشقوں کے عشق کی رنگینیاں ، دلفریباں  اور جلوہ سامانیاں دکھائی دیتی ہیں ۔  عقیدت ومحبت ،الفت ومودت کی انگنت کہانیاں سننے کو ملتی ہیں اور عشق کے جنون میں  ڈوبے تخت وتاج ، مال واسباب لٹادینے والے ،پتھروں ،چٹانوں سے دودھ کی نہریں  جاری کرنے میں  اپنی تمام ترجدوجہد صرف کردینے والے عشق کے شہنشاہوں کی ہزاروں داستانیں  تاریخ میں  ملتی ہیں ۔

مگرفدائیت وللہیت ،استقامت وثبات قدمی،ابتلاوآزمائش سے لبریز،دل سوز،سبق آموزاورناقابل فراموش داستان جوخلیل اللہ کی ہے اور جوایثاروقربانی ، اطاعت ربانی اور مشیت خداوندی کی تعمیل کے جذبہ کی کار فرمائی ، اس عاشق الٰہی میں  ملتی ہے۔ دیگرعشاق کائنات اس سے بالکل خالی وعاری ہیں ۔

اس عاشق نے اپنے محبوب کی تلاش میں حسین کائنات اور ا س کی اور  گل ا فشانیوں کوچھان مارا ۔ اس تلاش وجستجومیں  اچانک اس کی نگاہ ایک تاریک شب کی سیاہ چادرمیں  لپٹے ہوئے ،ایکستارے پرپڑی توفرحت و انبساط سے اس کا حسین چہرہ کھل اٹھا ۔ اپنے جذبات  کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کی زبان پر ’’ہذاربی‘‘ کے کلمات آگئے۔ مگرجونہیستارہ اس  کی نگاہ سے اوجھل ہوا فوراً اس کی زبان حرکت میں  آئی اور  صاف طورپراس نے’’لااحب الافلین‘‘کہہ کر بے زاری کا اظہارکیا اس کے بعد اس نے روشن چاند دیکھا تو ’’ ہذاربی ‘‘(یہ میرارب ہے) کہہ کرپکاراٹھا، لیکن جب ہوہ بادلوں کی اوٹ میں  چلاگیا تو اس نے اس کو بھی خداماننے سے انکار کردیا۔  اس کے بعد جیسے ہی روشن صبح نے انگڑائی لیتے ہوئے اپنے چہرے سے نقاب کشائی کی توایک چمکتادمکتااورآفتاب اپنی تابناکی کے ساتھ رونماہوا،اس کے اس انداز اور  بڑے پن کودیکھ وہ ان الفاظ میں گویاہوئے’’ہذاربی ہذا اکبر‘‘ ۔ یہ میرا رب ہے ، یہ بہت بڑا ہے۔ مگریہ کیا سورج بھی غروب ہوگیا۔ یہ دیکھا تو اس نے اس سے بھی بے زاری ظاہر کردیا اور اعلان کردیاکہ یہ میرا رب نہیں  ہوسکتا۔

اس طرح اس عاشق نے اپنے خالق ومالک کو ڈھونڈلیا اور کہا کہ میرا رب تووہ ہے جس نے سورج،چاند ، ستارے اور کائنات کی تمام چیزوں کوپیداکیا ہے جو سارے جہاں  کا مالک ہے اور دنیا کی ہرچیز اس کی محتاج ہے۔ جب اس نے اپنے موحدہونے(خداکوایک ماننے والا)کا اعلان کیاتو سارے لوگ اس کے خلاف ہوگئے ۔  اب اللہ کی طرف سے آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہواتوہرجگہ آپ اپنی قربانی  پیش کرتے چلے گئے ۔ چنانچہ بت پرست گھرانے کاہوتے ہوئے ،بت شکن ہونے کے سبب انھیں  بادشاہ وقت نمرود کے حکم سے آگ میں  ڈالاگیا۔ مگرہوا یہ کہ جو آگ شعلہ اگل رہی تھی وہ آپ کے لیے گلشن رحمت بن گئی، پھراللہ نے بڑھاپے کی عمر میں  آپ کوایک نیک اور بردباراولادعطاکی ۔ لیکن پھر اس کے معاملہ میں  بھی آزمائش کی۔ اسے اولاً توغیرذی ذرع وادی میں  چھوڑدینے کا حکم ہوا۔ جب اس آزمائش میں  بھی آپ  کامیاب ہوگئے اور یہ لڑکاجب دوڑنے کھیلنے کی عمرکوپہنچا۔ تواس کو بھی راہ خدامیں قربان کرنے کا حکم ہوا۔ قرآن کریم نے کچھ اس انداز سے اس کا نقشہ کھینچاہے:
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّیْ أَرَی فِیْ الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ إِن شَاء  اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ o

’’وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑدھوپ کرنے کی عمرکوپہنچ گیاتو(ایک روز) ابراہیمؑ نے اس سے کہا’’بیٹا میں  خواب میں  دیکھتاہو کہ تجھے ذبح کررہاہوں ۔  اب توبتا تیرا کیاخیال ہے؟‘‘اس نے کہا’’اباجان !جوکچھ آپ کوحکم دیاجارہاہے اسے کرڈالیے۔  آپ انشاء اللہ مجھے صبرکرنے والوں میں  سے پائیں  گے۔ (سورۂ الصافات:۱۰۲)

آپ ؑاپنے جذبات وخواہشات کو بالائے طاق رکھ اس عظیم قربانی کی انجام دہی کے لیے بھی تیارہوگئے ۔ بچے کو ذبح کرنے کے لیے لٹایا اور گردن پر چھری پھیرنے کے لیے تیارہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب بندے کی اطاعت کا یہ جذبہ بے حد پسندآیا اور فرمایا:
فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ oوَنَادَیْْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمُoقَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّاکَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنoإِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلَاء الْمُبِیْنُ o

 ’’آخرکو جب ان دونوں   نے سرتسلیم خم کردیا اور ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کوماتھے کے بل گرادیا۔ اور ہم نے ندادی کہ اے ابراہیم ، تونے خواب کو سچ کردکھایا۔   ہم نیکی کرنے والوں  کو ایساہی جزادیتے ہیں ۔  یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی۔ ‘‘   (سورۃ الصافات:۱۰۳۔ ۱۰۶)

مگراللہ کا مقصدتواس جذبۂ اطاعت کو دیکھنا تھا ۔  بچے کی قربانی مقصودنہ تھی۔  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَفَدَیْْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ  oوَتَرَکْنَا عَلَیْْہِ فِیْ الْآخِرِیْنَ  oسَلَامٌ عَلَی إِبْرَاہِیْمَ  oکَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ  o
’’اورہم نے ایک بڑی قربانی فدیہ میں  دے کر اس بچے کو چھڑالیا۔  اور اس کی تعریف وتوصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں  میں  چھوڑدی۔  سلام ہے ابراہیم پر، ہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی جزادیتے ہیں ۔ ‘‘               (سورۃ الصافات:۱۰۷۔ ۱۱۰)

اگر غورکیاجائے تو اللہ کی طرف سے آج بھی مختلف مواقع پر قربانی کا مطالبہ ہوتاہے۔ مگرانسان اسے نظراندازکردیتاہے اور وہ بھول جاتاہے کہ ایسی ہی قربانی سے ہمارے نبی حضرت ابرہیم کو خلیل اللہ کا خطاب ملاتھا ۔ جب تک قرآن کی تلاوت کی جاتی رہے گی تب تک لوگ ان پر سلام بھیجتے رہیں  گے۔  اور  جب بھی عیدالاضحی کا تاریخی دن آئے گا لوگ ان کی تاریخ کو دوہرائیں گے۔ اس لیے جو لوگ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں  اور اپنی زندگی کا مقصد جانتے ہیں  ،وہ اطاعت الٰہی کے لیے تقرب الٰہی کی راہ اپنائیں  اور اس راہ میں  قربانی دینے پر تیاررہیں ۔ کیوں کہ آج بھی    ؎

آگ ہے، اولاد ہے، ابراہیم ہے، نمبرود ہے
کیا کسی کو، پھرکسی کا، امتحان مقصود ہے

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...