Monday 25 February 2019

watan se Muhabbat



حب وطن پرمسلمانوں کوصفائی کی ضرورت نہیں


ایک آدمی کے نماز پڑھنے کو جرم سمجھتے ہوئے اگر کوئی اس پر دہشت گرد ہونے  کا الزام لگائے تو کیا اس کے جواب میں کہا جائے گا  کہ میں نے نماز نہیں پڑھی! اب میں نماز نہیں پڑوں گا!! ہر گز نہیں، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ ہاں میں نے نماز پڑھی ہے اور نماز پڑھنا دہشت گردی نہیں ہے اور اگر ہے تو میں دہشت گرد ہوں۔ اسی طرح اگر ایک مسلمان کو محض مسلمان ہونے  کی بنا پر دہشت گرد کہا جائے تو کیا وہ کہے گا کہ میں مسلمان نہیں ہوں! ہزگز نہیں، بلکہ وہ کہے گا کہ میں مسلمان ہوں اور محض مسلمان ہونا دہشت گردی نہیں ہے اور اگر ہے تو میں دہشت گرد ہوں!

عجیب حال ہے _ایک تماشا بنا رکھا ہے۔ کہیں بھی کچھ ہو، فوراً مسلمانوں کی گرفتاری، فوراً ان پر دہشت گردی کا الزام، فوراً غداری وطن کا الزام۔  حد ہے!

جب کہ یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ کون غدار ہے؟ کون ملک میں نفرت کی سیاست کر رہا ہے؟
 اب مسلمانوں کو یہ صفائی دینے کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ محب وطن ہیں ۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے خون سے  وطن عزیز ہندوستان کو سیچا ہے، ان کے خون میں وطن سے محبت شامل ہے۔ آزادی ہند میں مسلمانوں سے زیادہ کس نے قربانی دی؟ ظاہر  ہے، مسلمانوں نے ہی دی ہے ، یہی دارالعلوم دیوبند ہے جس نے  ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے میں   اہم کردار نبھایا ہے ! بڑی بے شرمی سے اسے دہشت گردی کا اڈہ بتایا جاتا ہے۔ وہاں کے طلبہ کو گرفتار کر کے انھیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کا انکاؤنٹر کر دیا جاتا ہے۔ یہ صلہ ہے وطن پر قربانی دینے اور اس کے لیے جانفشانی کرنے کا۔

یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم انتشار کا شکار ہیں، ہم سیاسی طور پر مستحکم نہیں۔ حسب تناسب پارلمنٹ میں ہماری نمائندگی نہیں۔ اس وجہ سے ہماری آواز دب جاتی ہے۔ مگر ظلم کے خلاف ہمیشہ صدائے احتجاج بلند ہوتی رہیں گی۔

برادران وطن اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایک سچا مسلمان کبھی اپنے وطن سے نفرت نہیں کرتا۔ وہ ملک کو بنانے، سنوارنے میں اپنے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ  دیتا ہے۔ وہ محنتی، ایماندار اور جفاکش ہوتا ہے _ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہر اپنی جان لگا دیتا ہے۔

 یہ مٹھی بھر امن کے دشمن یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی سیاسی روٹی سینکنے کے لیے ہم ہندوستانیوں کو آپس میں لڑا دیں گے، جیسا کہ وہ ہر بار کرتے آرہے ہیں، تو یقین جانیے اب ان شاء اللہ ایسا نہیں ہوگا۔ اب بڑی حد تک بیداری آئی ہے اور  لوگ نفرت کی سیاست کو سمجھنے لگے ہیں۔ ہمارے ملی قائدین کو بھی چاہیے کہ وہ مضبوطی کے ساتھ ملک میں مسلمانوں اور عام انسانوں پر ہو رہے مظالم کے خلاف آواز بلند کریں اور کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کریں ،تبھی  ملک میں خوش حالی آئے گی، ظلم مٹے گا اور ملک ترقی کرے گا۔
 (محب اللہ قاسمی)

Sunday 24 February 2019

Kalam e Ajiz


کلام: ڈاکٹد کلیم عاجز
پیشکش اور آواز: محب اللہ رفیق

 مجھے اس کا کوئی گلہ نہیں کہ بہار نے مجھے کیا دیا 
تری آرزو تو نکال دی ترا حوصلہ تو بڑھا دیا

گو ستم نے تیرے ہر اک طرح مجھے ناامید بنا دیا 
یہ مری وفا کا کمال ہے کہ نباہ کر کے دکھا دیا

کوئی بزم ہو کوئی انجمن یہ شعار اپنا قدیم ہے 
جہاں روشنی کی کمی ملی وہیں اک چراغ جلا دیا

تجھے اب بھی میرے خلوص کا نہ یقین آئے تو کیا کروں 
ترے گیسوؤں کو سنوار کر تجھے آئنہ بھی دکھا دیا

میری شاعری میں ترے سوا کوئی ماجرا ہے نہ مدعا 
جو تری نظر کا فسانہ تھا وہ مری غزل نے سنا دیا

یہ غریب عاجزؔ بے وطن یہ غبار خاطر انجمن
یہ خراب جس کے لئے ہوا اسی بے وفا نے بھلا دیا
کلیم عاجز

Thursday 14 February 2019

Mere ABBA: Kuch Yaden




میرے ابا: کچھ یادیں
محب اللہ قاسمی
 آج صبح جب میں اپنی میز پر بکھری کتابوں اور فائلوں کو سلیقے سے رکھ رہا تھا تو میری نگاہ مصباح اللغات، القاموس الجدید عربی اردو،اردو عری پر پڑی ۔ لغت کی یہ  کتابیں مدارس عربیہ کے طلبہ و اساتذہ کے ساتھ کالجوں یونیورسیٹیوں میں پڑھنے پڑھانے والوں کے لیے کس قدر مفید اور ضروری ہیں؟ یہ معلمین اور متعلمین خوب جانتے ہیں۔

مگر ان کتابوں  سے میری کچھ یادیں جڑی  ہوئی ہیں،جنھیں میں  بھلا نہیں سکتا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں عربی اول یا دوم کا طالب علم تھا ، معلم الانشا ء ، القراۃ الراشدۃ، قصص النبیین  اورصورمن حیاۃ الصحابہ جیسی عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھ رہا تھا۔ اس وقت میرے پاس لغت کی کوئی کتاب نہیں تھی ،جب کہ دیگر ساتھیوں کے پاس ایسی کئی کتابیں موجود تھیں۔ وہ بہ آسانی  ان لغات کی مدد سے جملے بنایا کرتے تھے اور آئندہ سبق کا مطالعہ بھی کر لیا کرتے تھے۔ میں سوچتا تھا کہ میرے پاس بھی کوئی لغت ہوتی تو کتنا اچھا رہتا۔میں نے ذہن بنا لیا کہ ابّا سے کہہ کر میں یہ کتابیں حاصل کروں گا۔

طویل عرصہ تک پٹنہ میں رہنے کے بعد ہم لوگ اپنے گاؤں فاطمہ چک آ گئے ، ابا تلاش رزق میں دہلی چلے آئے ، پڑھے لکھے تو تھےپر  کوئی کام نہیں آتا تھا ۔چنانچہ وہ آٹو چلانے لگے اورمیں مدرسہ جامع العلوم مظفرپور میں پڑھ رہاتھا۔

 اس وقت موبائل فون کا دور تو نہیں تھا، ہاں البتہ لینڈ لائن فون کا چلن شروع ہوگیا تھا ۔ مدرسے کے دفتر میں ایک فون تھا ، جس  پر بات ہوتی تھی ۔اتوار کو سستی کال ہوا کرتی تھی۔میرے والد محترم ہمیشہ اتوار کو مجھے فون کرتے میری خیر یت اور پڑھائی کے بارے میں معلوم کرتے ۔مصارف سے متعلق دریافت کرتے۔ منی آرڈر بھیج دیا ہے،اس کی اطلاع دیتے۔ ایک دن ابا کا فون آیا۔ غالباً شعبان کا مہینہ تھااور سالانہ امتحان کی تیاری چل رہی تھی۔میں نے اپنی بہت سی باتوں کے ساتھ ان سےدرج بالا تینوں لغات کے لیے  فرمائش کردی۔ کہنے لگے: بیٹا! فکر مت کرو۔ میں عید پر گھر آؤں گا تو إن شاء اللہ لیتا آؤں گا۔ بات ختم ہوگئی۔

میرے والد محترم (جو 25 جنوری 2019 بروز جمعہ اس دار فانی سے کوچ کرگئے ،جنھیں مرحوم لکھتے ہوئے دل دہل جاتا ہے) کی خاص بات تھی ۔عید کے موقع سے جب بھی آتے تو تمام گھر والوں کے لیے کپڑے، جوتے، سینڈل اور جس کی جو فرمائش ہوتی وہ سب  لے کر آتے تھے اور جس وقت گھر پہنچتے اسی وقت آنگن میں سب کو بلا کر سب کی فرمائش کی چیزیں دے دیتے۔

اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ ابا سب کی چیزیں ان کے حوالے کرنے لگے۔ مجھے بھی میرے کپڑے، گھڑی ملی اور بیگ خالی ہو گیا۔ مجھے لگا کہ ابا میری ڈکشنری لانا بھول گئے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا انھوں نے فوراً اپنی بڑی والی دوسری اٹیچی کھولی اور  دو تین کپڑے ہٹانے کے بعد ڈکشنری میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ لو بھئی تمہاری فرمائش، اب خوش ہو! میں نے کہا: ابا آپ کچھ بھی نہیں بھولتے ہیں،جو بھی ہم کہتے ہیں وہ پورا کر دیتے ہیں۔ تب انھوں نے کہا:  بیٹا !تم لوگوں کے علاوہ میرا ہے ہی کون۔ خوب دل لگا کر پڑھو!

مجھے یاد ہے ،جب میں جامع العلوم میں ہی زیر تعلیم تھا،  ابا مجھ سے ملنے آئے ۔ایک بار وہ دہلی جانے لگےتو مجھ سے کہا کہ بیٹا!انسان اچھا کام ریا کاری سے شروع کرتا ہے، پھر وہ عادت بن جاتی ہے، پھر جب اس میں خلوص اور پختگی آتی ہے تو وہ عبادت ہو جاتی ہے.

ابا مرحوم کی ہم لوگوں سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہم لوگوں کو کبھی مایوس نہیں ہونے دیتے تھے۔ ہمیشہ اچھا کرنے اور خوش رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ میں جامع العلوم مظفر پور سے دارالعلوم دیوبند جا پہنچا اور وہاں سے فضیلت حاصل کی.

میرے ابا آزاد ی ہند کے 14 سال بعد 5 فروری 1961 میں بہار کا موجودہ سب سے چھوٹا ضلع شیوہر کے ایک تعلیم یافتہ گاؤں فاطمہ چک کے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے،جس کی دادی نے بڑی محنت و مشقت کے بعد اپنے بیٹےمحمد رفیق کو پڑھا لکھا کر اس قابل بنایا تھا کہ وہ پٹنہ میں سرکاری ملازمت (ریکارڈ کیپر،پٹنہ سچیوالیہ)کرنے لگے۔ابا  اسی محمد رفیق(میرے دادا) کے بیٹے ہیں۔
ابا کی ابتدئی تعلیم پٹنہ کے ایک اسکول میں ہوئی۔ جہاں سے ساتویں کی ڈگری لے کر واپس گاؤں آگئے اور اس وقت کے غیر معمولی شہرت یافتہ ،جہاں کے بیشتر فارغین ضلع جوار میں سرکاری ٹیچر بحال ہیں یعنی مدرسہ اسلامیہ عربیہ ڈومری میں داخلہ لیا ۔ان سے بڑے دوبھائی بھی مدرسہ میں زیر تعلیم تھے جو اپنی ذہانت اور قابلیت سے پورے مدرسہ میں معروف تھے ،مگر جلد ہی ان کا انتقال ہو گیا  اور ایک بڑی بہن جو تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر مشاغل میں بھی مہارت رکھتی تھی ۔خواتین کو قرآن اور دینی تعلیم سے آراستہ کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ مگر وہ بھی شادی کے بعد انتقال کر گئیں۔
اب صرف ابا اور ان سےچھوٹے ایک بھائی اور تین بہنیں تھیں۔ ابا نے فوقانیہ  کے بعد مولوی  تک ہی تعلیم حاصل کی، مگر اپنے مشفق استاذ مولانا عبدالغفار صاحب (جو علوم دینیہ کے علاوہ علوم سائنس، ریاض اور سوشل سائنس کے ماہر تھے) کی شفقت و محبت سے انھوں نے اردو ،ہندی کے علاوہ انگریزی اور حساب میں کافی مہارت حاصل کر لی تھی۔ اس کے بعد وہ اہل خانہ کے ساتھ واپس پٹنہ چلا گئے ۔ وہاں کافی پیسے کمائے ۔بھائی اور ایک  بہن کی تو دادا نے شادی کی مگر دادا کے انتقال کے بعد کبھی انھیں اپنے والد کے نا ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔ دو بہنوں کی کفالت، اس کی تعلیم اور شادیکی ذمہ داری ابا نے بہ حسن خوبی انجام دی۔ باپ کی طرح سب کی پرورش کی۔  بھائی کو اور ان کے بچوں کو بھی جوڑے رکھا اور والدہ کی رہنمائی اور سرپرستی میں ساری ذمہ داری انجام دی۔
بشری کم زوری کے تحت انسانوں میں  بہت سی خامیاں اور کوتاہیاں ہوسکتی ہیں  ،مگر کچھ نمایاں خصوصیات ایسی ہوتی ہیں ،جنھیں بھلایا نہیں جاسکتا۔

ابا کی ایسی ہی چند خوبیاں آج بھی ہم سب کے دل و دماغ پر نقش ہیں۔مثلاً پٹنہ میں قیام کے دوران جب وہ پٹنہ سے آتے اور مسجد کی کوئی ضرورت تعمیر یا مرمت کی ہوتی تو بلا کسی  مطالبے کے خود ہی بہت ساکام ذاتی پیسوں سے کرتے، ضرورت مند کو کوئی رقم دیتے تو کبھی واپسی کا دن متعین نہ کرتے۔ کہتے: جب سہولت ہو، دے دینا۔ دل میں کبھی کسی سے کینہ یا بغض نہیں رکھا، کسی کو کچھ کہا تواس کے  منہ پر کہا۔ نہ کبھی کسی سے مرعوب ہوئے، نہ بڑوں سے بد تمیزی سے پیش آئے، وہ ہمیشہ  اپنے چھوٹوں سے بڑے مشفقانہ انداز میں ملتے اور بچوں سے تو انھیں بے حد لگاؤ تھا ،انھیں  روتا دیکھ کر اٹھا لیتے اور چسکاری دے کر ہنساتے۔


ایک وقت تھا جب ابا کی آمدنی بہت زیادہ تھی۔ گاؤں کے لوگ کہتے تھے کہ محمدحسیب(اباکانام) کے برابر کسی کی آمدنی نہیں، پیسوں کی بارش ہوتی ہے۔ مگر انھوں نے پیسوں سے کبھی محبت نہیں کی، خوب خرچ کیا۔ غریبوں اور بے کسوں پراس طرح انفاق کرتے گویا کوئی اپنے اہل و عیال پر خرچ کر رہا ہو اور مساجد و مدارس کو اس طرح عطیات دیتے جیسے اپنے مکان میں لگا رہے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ  آج ہم لوگوں کے پاس گرچہ کوئی نیا مکان نہیں اور نہ ہی کچھ زمین جائداد ہے۔مگر آج بھی گھر کا ماحول ایسا  ہے کہ اباکے چاہنے والے آتے ہیں، ضیافت کا لطف لیتے ہیں، ان کی خوبیوں کا تذکرہ ہوتا ہے اور دعائیں دے  کر چلے جاتے ہیں۔ اپنے مہربان، مشفق باپ کی یہ لائق تحسین ،قابل فخر خوبیاں جن کی یادیں میرے لیے سرمایہ حیات ہیں۔

اللہ تعالی سے دعا ہےکہ اللہ رب العالمین میرے والد محترم کے گناہوں، لغزشوں، کوتاہیوں کو اپنے بے پناہ فضل و کرم سے معاف کرے، انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام بخشے اور ہم (والدہ سمیت 4 بھائی اور 3 بہنوں) لوگوں کو صبر جمیل عطا کرے۔
آمین یا رب العالمین

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...