Wednesday 3 February 2021

Adl o Insaf aur Qanoon ki Baladasti

 

عدل و انصاف اور قانون کی بالا دستی

محب اللہ قاسمی

کسی بھی ملک میں امن و سلامتی کے لیے  قانون کی بالا دستی کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔اسی لیے جہاں مقننہ کو بہت ہی سوجھ بوجھ اور مفاد عامہ کا خیال رکھتے ہوئے  قانون سازی کاعمل انجام دینا چاہیے، وہیں عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدل و انصاف کے معاملے میں اپنا وقار برقرار رکھے اوراپنی حیثیت کو مجروح نہ ہونے دے ۔ وہ  کسی کے دباؤ میں آئے بغیر انصاف کا معاملہ کرے۔ تبھی عوام کی دلوں میں اس کے عزت  اور قدرومنزلت جا گزیں ہوگی اور اس کا وقار بحال ہو گا۔عوام و خواص میں سے ہرفرد جرم سے پہلے کانپ اٹھے گا۔پھرپولیس ہی نہیں، بلکہ عوام بھی قانون کی رکھ والے اور اس کے محافظ ہوں گے۔ مگر معاملہ جب اس کے برعکس ہو، جرم کا اطلاق مجرم کے نام، اس کے وضع قطع  کو  دیکھ کر کیا جائے اورعدل کے بجائے تعصب کا رویہ اپنایا جائے،  تو ایسی صورت میں بہت سے مسائل کھڑے ہوں گے، ہر طرف ظلم و ستم کا ماحول ہوگا، انصاف میں تعصب کا رویہ اور تاخیر مجرم کو مزید ڈھیٹ بنا دےگا، پھر معاشرہ میں بد امنی، فساد اور انارکی پھیلی گی۔بقول شاعر    ؎

اِس کے پیمانے میں کچھ ہے اُس کے پیمانے میں کچھ

دیکھ ساقی ہو نہ جائے تیرے میخانے میں کچھ

اس معاملے میں اگر ہم اسلام کامطالعہ  کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ عدل و انصاف کا علم بردار ہے۔اس کے یہاں کسی بھی صورت ظلم کی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ نےعدل و انصاف قائم کرنے کی سخت تاکید کی ہے اور حق و صداقت پر مبنی گواہی دینے کا حکم بھی دیا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:’’عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘۔

اس کا مزید ارشاد ہے:

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے گواہ بنو ،اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔ فریقِ معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب ، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے ۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔(النسا:135)

آپؐ عدل انصاف کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے، تاکہ معاشرہ میں امن و امان برقرار رہے۔ حلف الفضول کا واقعہ اس پر شاہد ہے۔جب دنیائے عرب میں حق تلفی،بدامنی اورفسادکا ماحول تیز ہو گیا تھا۔ ایسے حالات میں مظلوم و بے بس لوگوں کی فریادسنی گئی اور ایک تاریخی منشور لانے کے لیے قریش کے چند قبائل نے اقدام کیا،جس کا نام’حلف الفضول‘ ہے۔ جوقیام عدل و انصاف، بنیادی انسانی حقوق اوربے بسوں کی دادرسی کا تاریخ ساز معاہدہ قرارپایا۔نبیؐ اس معاہدہ کے ایک اہم رکن تھے۔ اس معاہدہ کے لیے آپؐ نے عین شباب میں بھرپور تعاون اورمؤثر کردار ادا کیا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ آپؐ نے دور نبوت میں ایک موقع پر ارشادفرمایاتھا:

”اس معاہدہ کے مقابلہ میں اگرمجھے سرخ اونٹ بھی دیے جائیں تومیں نہ لوں اورآج بھی ایسے معاہدے کے لیے کوئی بلائے تو میں شرکت کے لیے تیار ہوں۔“

نفاذ قانون میں کسی طرح کی کوئی لاگ لپیٹ اور قیل و قال کی گنجائش نہیں ہے۔اس معاملہ میں سیرت رسولؐ میں روشن مثالیں ملتی ہیں۔قبیلہ بنی مخزوم جو ایک معزز قبیلہ مانا جاتا تھا اس کی ایک خاتون نے چوری کی۔ لوگوں کا خیال ہوا کہ اس کو سزا نہ ملے۔ لہذا سزا ٹالنے کی سفارش کی گئی۔ اس سفارش پر آپؐ سخت ناگواری کا اظہار کیا پھر نہ صرف یہ کہ قانون نافذ کرتے ہوئے اس خاتون کا ہاتھ کاٹا گیا بلکہ اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جو فرمایا وہ فرمان قانون کی بالادستی کی اعلی مثال ہے: "اگر اس کی جگہ فاطمہ بنت محمد بھی چوری کی ہوتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا." (مسلم)

اس لیے یہ بات بے جا نہیں کہ کسی بھی صالح اور معاشرہ کا دارو مدار اسی عدل پر ہے۔ اگر اس سے عدل نکل جائے تو پھر وہ مستحکم نہیں رہ سکتا ہے ،بلکہ وہ ریاست اور معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر تباہ ہوجائے گا ۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:

’’سیاست شرعیہ کی عمارت دوستونوں پر قائم ہے: ایک ہے مناصب اور عہدے اہل تر لوگوں کو دینا اور دوسرا ہے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا۔ انصاف ہی پر دنیا  ودین کی فلاح کا دار و مدار ہے ۔ بغیرعدل کے فلاح دارین کا حصول ناممکن ہے۔‘‘ (نضرۃ النعیم)

آج پوری دنیا اسی عادلانہ نظام کے انتظار میں ہے۔جسے رہبر انسانیت حضرت محمد ﷺ نےرب العالمین کے فرمان کے مطابق قائم کیاتھا، جسے دین  اسلام  کہا جاتا ہے۔اس نظام کے تحت اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو معاشرہ ہر طرح کے فتنہ و فساد سے مامون ہو  جائے گا۔ پھر کسی کا کوئی حق  مارا جائے گا نہ کسی کو ظلم و تشد اور تعصب کا شکار بنایا جائے گا۔ہر طرف امن و امان کاقیام ہوگا۔ آپسی محبت،باہمی مساوات اور انسانیت کا فروغ ہوگا۔

 *****

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...