Friday 10 February 2023

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری

محب اللہ قاسمی


انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہمی میل جول اور تعلق کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ دوسروں کے درد کو وہ اپنا درد محسوس کرتاہے۔ چوں کہ اسلام خود سلامتی ومحبت کا پیغام دیتاہے۔ اس لحاظ سے ہر اچھا انسان فطرتا لوگوں پر رحم کرتا ہے۔ ان کی مصیبت میں کام آتاہے۔ ان کی مشکلات آسان کرتا ہے اور ان کا سہارا بنتا ہے۔ اس لیے ایک حدیث میں ایسے لوگوں کی پہچان بتائی کہ بہترین انسان وہ انسان ہے جو دوسروں کے لیے نفع بخش ہو ۔


چند روز قبل ترکی اور شام میں زلزے کے شدید جھٹکے  نے قہر برپا کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں مکانات زمین بوس ہوگئے اور ہزاروں لوگوں کی موت واقع ہوگئی اور اب بھی ملبے کے ڈھیر میں پھنسے لوگوں کو نکالنے اور انھیں محفوظ مقامات پر لے جانے کی کوشش جاری ہے۔ان میں بچے بوڑھے جوان مرد و خواتین سب شامل ہیں۔ اس حادثے کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے۔کروڑوں اور اربوں کا نقصان ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ  جائے حادثات سے موصول ویڈیوز  نے جہاں انسانیت کو دہلا کر رکھ دیاہے۔وہی ان ویڈیوز اور تصاویر کی زبانی مصیبت کے شکار لوگوں کی راحت رسانی کا کام دیکھ کر خوشی بھی ہوئی جس میں مختلف ممالک کے لوگوں نے اپنی جانب سے اس امدادی کارروائی میں حصہ لیا ہے اور انسانیت کے تئیں درد مندی کا ثبوت پیش کیا۔ 

اس تکلیف دہ اور درد ناک وقت میں حکم راں کا اپنی رعیت کے لیے حوصلہ افزا، قوت بخش اور اللہ سے جوڑنے والا یہ بیان یقیناً اس شفا بخش مرہم پٹی کی طرح ہے جو گہرے سے گہرے زخم کو مندمل کرنے میں کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔ آپ نے کہا : ’’اللہ نے جو مقدر کیا تھا، جو اس کی مشیت تھی وہ اس نے کیا، جنہیں ہم نے کھو دیا انہیں ہم واپس تو نہیں کر سکتے، البتہ جنہوں نے اپنا گھر کھویا ہے انہیں ہم اطمینان دلاتے ہیں کہ آپ کو اپنے گھروں کی تعمیر نو کیلئے  ایک "لیرہ" بھی نہیں صرف کرنا پڑے گا ، جو گھر اپ نے کھویا ہے ہم آپ کیلئے ان سے بہتر گھر بنائیں گے، اگر کسی شخص کو ایک درخت کا نقصان ہوا ہے تو ہم اسے دس درخت فراہم کریں گے۔‘‘

 ترک صدر رجب طیب اردغان کی جانب سے وائرل ان کے ہمدردی اور تسلی بھرے مذکورہ پیغام  نے عام انسانوں کو جذباتی طور پر بہت متاثر کیا اور  عوام نے اس حادثے سے دوچار ہوئے لوگوں کے ساتھ ان کے لیے بھی دعائیں کی۔


مصیبت زدہ، آفت کے ماروں، بے بسوں ولاچاروں اور بے کسوں کی صداؤں پر لبیک کہنے والے اور مجبور وپریشان لوگوں کا سہارا بننے والے ہی واقعی وہ انسان ہیں جن سے انسانیت زندہ ہے جو بلاتفریق مذہب وملت دوسروں کی مدد کے لیے ہر دم تیار رہتے ہیں  اور جب کبھی ،جہاں کہیں بھی انسانیت کسی مصیبت یا آفت سماوی یا ناگہانی حادثہ کا شکارہوتو ان کا ہمدرد بن کر ان کومشکلات سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف ایک اچھے انسان کا بلکہ اس کام کو بہتر انداز میں پورا کرنے والے بہترین معاشرہ اوراچھے ملک کی پہچان ہے۔یہ ان لوگوں کی طرح نہیں ہوتے جو دوسروں کے کراہنے پر قہقہا لگاتے ہیں اور معصوم لوگوں پر گولے داغے جانے کے مناظر کو پاپ کان کھاتے ہوئے دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔جب کہ 

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو 

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں

یہ بات درست ہے کہ جس دل میں محبت نہ ہو ہمیشہ اس میں نفرت کے الاوے پھوٹتے ہوں وہ انسان کا دل نہیں پتھر یا اس سے بھی بد تر ہے۔ اس لیے آئیے ہم انسانی ہمدردی کا ثبوت پیش کرے اور یہ عہد کریں کہ اپنے اہل خانہ پڑوسی سے لے کر جہاں تک ممکن ہوسکے تمام لوگوں سے اظہار یکجہتی قائم رکھیں گے اور بہ حیثیت انسان ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آئیں گے اورنفرت کے مقابلے محبت کا پیغام عام کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس حادثے کے شکار ان تمام لوگوں پر رحم فرمائے اور انھیں اس زلزلے سے آئی مصیبت سے نجات دلائے جو ابھی بھی ملبے کے ڈھیر میں پھنسے ہوئے زندگی کی کشمکش میں ہیں اور ان تمام لوگوں کو اجر عظیم عطا کرے جو اس نازک گھڑی میں مصبیبت زدہ لوگوں کے ساتھ راحت رسانی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

Friday 6 January 2023

Safar Hyderbad

معروف ادارہ کی مشہور شخصیت سے یادگار ملاقات

وادی ہدی سے قریب زمین سے کافی اونچائی پر حیدرآباد میں واقع ایک وسیع و عریض ادارہ المعہد العالی الاسلامی جو فارغین مدارس اسلامیہ کو علم و تحقیق کا عمل سکھانے اور انھیں معاشرے میں بہترین مربی و رہنما کی حیثیت سے خدمت انجام دینے کے لیے تیار کرتا ہے جو اسلام کے داعی بن کر اس کے حقائق کو عام کریں اور برادران وطن کے سامنے اس کی اصل خوبیاں پیش کر سکیں جن پر غلط فہمی اور منافرت کی دبیز چادر ڈال دی گئی ہے.

یہ ادارہ میں میری پہلی حاضری تھی۔بلندیوں پر چڑھتے ہوئے جب یہ ادارہ میری نگاہوں کے سامنے آیاتو زبان سے فوراً نکلا سبحان اللہ!  

ہم ادارہ میں پہنچے ایک ایک کر کے تمام شعبوں کا جائزہ لیا، جن میں تفسیر، فقہ، مطالعہ مذاہب اور انگریزی قابل ذکر ہے. چوں کہ تعلیم جاری تھی اساتذہ پڑھانے میں مشغول تھے. اس لیے ان سے کوئی بات نہیں ہوسکی۔ہم  ادارہ کی لائبریری میں چلے پہنچے جہاں ایک نوجوان موجود تھے۔ ان سے تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ دارالعلوم دیوبند 2007 بیچ کے تھے ۔ ان سے لائبریری کے متعلق باتیں ہوئیں ۔پتہ چلا کہ یہاں مختلف موضوعات پربیس ہزارکتب موجود ہیں.

پھر ہم لوگ طلبہ کے ہوسٹل میں گئے، جو کافی حد تک ٹھیک ٹھاک لگا۔ وہاں دو تین لڑکوں سے باتیں کیں۔حضرت مولانا کی آمد کا وقت ہو گیا تھا. اس لیے ہم لائبریری بلڈنگ سے اتر کر مہمان خانے والے دروازے سے باہر نکل ہی رہے تھے کہ اچانک سامنے محترم مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اپنے معاون مولانا شاہد صاحب کے ساتھ جلوہ نما ہوئے ۔

میری نگاہ مولانا پر پڑی، سلام کرتے ہی مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا دیا. مولانا نے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا : کیا توصیہ لینے آئے ہیں؟ میں نے فوراً  کہا : نہیں! محترم آپ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔

اچھا... کہتے ہوئے آپ کمرے میں چلے گئے. تھوڑی دیر بعد مولانا شاہد صاحب آئے اور کہنے لگے : مولانا آپ لوگوں کو بلا رہے ہیں۔ اس طرح میں اور ابصار الخیران قاسمی کمرے میں گئے اور پھر مولانا سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔

یہ پہلا ایسا موقع تھا جب میں فقیہ العصرعظیم مفکر اور علوم اسلامیہ کے ترجمان مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب سے باقاعدہ ملاقات و گفتگو کر رہا تھا۔یوں تو آپ جماعت اسلامی ہند کے بہت سے پروگراموں میں شریک رہے ہیں۔ مگر تبادلہ خیال کا یہ موقع میرے لیے پہلی بار کا تھا۔ جو بہت خوش گوار دلچسپ تھا۔تعارف کے بعد میں نے کہا: محترم ہم لوگ یہاں وادی ہدی میں سہ روزہ تربیتی اجتماع برائے مربی داعی رہنما کے پروگرام میں آئے تھے۔ سو آپ سے ملاقات کی خواہش میں  یہاں آ گئے۔ مولانا فرمانے لگے: ہاں وادیٔ ہدی یہاں قریب میں ہی ہے۔ میں وہاں ایک اسپتال کے سنگ بنیاد والے پروگرام میں شریک رہا ہوں۔سید سعادت اللہ حسینی صاحب سے میرے اچھے تعلقات ہیں۔ گفتگو کے دوران کئی موضوعات زیر بحث آئے، مگر مولانا نے خاص کر جس پر تفصیلی گفتگو کی وہ درج ذیل ہیں:

نئی تعلیمی پالیسی کے تحت آپ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اب نصاب میں کافی کچھ تبدیلیاں ہوں گی ۔ اسی پر بس نہیں ہے، بلکہ ریاضی جیسے پرچے میں بھی وہ غیراسلامی چیزیں پیش کررہے ہیں جس سے نئی نسل پر اسلام کے تعلق سے غلط بات بھی پروسی جائیں گی۔ اس لیے ضرورت ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ لوگوں کی ٹیم اس پورے نصاب پر نظر رکھے۔ جہاں ایسی کوئی بات آئے اس کی نشاندہی کرے۔اس پر میں نے کہا : محترم، اس تعلق سے جماعت اسلامی ہند کے لوگ کافی کچھ کررہے ہیں اور ان کے یہاں تو باقاعدہ تعلیم کا شعبہ قائم ہے جو نصاب تیار کرتا ہے اور ان سب چیزوں پر گہری نظر رکھتا ہے۔ مولانا فرمانے لگے: ہاں ! مگر جماعت اسلامی کو وہ عوامی مقبولیت حاصل نہیں ہے، اس وجہ سے ان کے کام کو مقبولیت حاصل نہیں ہو پاتی۔

مسلمانوں کی زبوحالی کاپر تذکرہ کرتے ہوئے مولانانے کہا: اس وقت امت کو مدرسے سے زیادہ اچھے اور معیاری اسکولوں کی ضرورت ہے، جہاں بچوں کو بنیادی اور اچھی تعلیم دی جا سکے اور انھیں عصری علوم کے ساتھ دینی تعلیم کا وہ ضروری حصہ پڑھایا جائے جس کا جاننا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔اس وقت غیر ضروری مدارس ، بے سلیقہ تعلیم اورکاغذوں پر موجود تعلیم گاہوں کی بہتات ہے جس سے اچھے اور میدان عمل میں بہتر  کام کرنے والے حضرات کے کام اور ادارے متاثر ہوتے ہیں۔ مسلمانوں میں تعلیم کا گراف اوپر نہیں آ پاتا۔ ہمارے نوجوانوں کی بہترین کاؤنسلنگ ہو اور انھیں اعلیٰ تعلیم کے لیے مواقع فراہم کیے جائیں۔ خاص کر وکیل، ڈاکٹر اور انجینئرس تیار ہوں، جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ اپنی گفتگو میں آپ نے بیدر کرناٹک کے شاہین گروپ کا تذکرہ کیا اور ان کی کاوشوں کو خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے میدان میں اچھا کام کر رہے ہیں۔

بہارمیں تعلیم کی کمی،غربت اور پسماندگی پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا نے کہا: مجھے وہاں کی بڑی فکر رہتی ہے ۔ بڑی تعداد میں بچے تعلیم سے محروم رہ جاتےہیں۔ معاشی پس ماندگی بھی ہے اور تعلیم کی جانب توجہ کی کمی بھی ایک سبب ہے۔ پھر آپ نے اخترالایمان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سیمانچل کی بڑی آبادی کھیتی باڑی کرتی ہے۔ کسان بہت ہیں، مگر غربت نے انھیں ایسا جکڑا ہوا ہے کہ وہ غیر مسلم بنیا سے قرض لے کر کھیتی باڑی کرتے ہیں اور ان سے ہی اپنا سامان فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس کی انھیں بہت کم قیمت ملتی ہے،ان کے لیے فصل لگاتے وقت قرض کا معقول انتظام ہو جائے اور وہ اپنی فصل کٹائی کے بعد مناسب در پر فرخت کرنے کے مجاز ہوجائیں تو ان میں خوش حالی آئے گی اور وہ اپنے بچوں کو مناسب تعلیم دے سکیں گے۔

برادر ابصار خیران نے کہا: محترم میں نے اپنے علاقے میں بچوں کے لیے ایسے ہی ادارہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے جہاں ابتدائی درجہ سے پانچویں کلاس تک کی تعلیم دی جائے جس میں بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم سے آگاہی ہو پھر اسے مزید آگے بڑھایا جاسکے۔ میں ایک تاجر ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس میدان میں سرمایہ کاری کی جائے۔اس پر مولانا بہت خوش ہوئے اور انھیں دعائیں دیں۔

گفتگو کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور میں دل ہی دل پریشان ہو رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم لوگ مولانا کا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہوں اور بعد میں مولانا محسوس کرے کہ وقت ضائع ہوگیا۔ مگر خود بھی بہت کھل کر بات کر رہے تھے اور نوجوانوں سے بڑے پرامید تھے۔ اس لیے پوری توجہ نئی نسل کی بہتری پر تھی اور اس کے لیے بہت سے مشورے بھی دے رہے تھے۔ سو میں نے بھی گفتگو طویل کر دی۔

میں نےمولانا سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ محترم، میں نے اس ادارہ میں، جو کہ تحقیق و تخصیص کا ہے، تقابل ادیان پر کوئی شعبہ نہیں دیکھا جہاں دیگر مذاہب کا جائزہ لیا جائے ۔ اس پر مولانا نے فرمایا کہ ہمارے مطالعۂ مذاہب کا شعبہ ہے اور اسی سے ہم یہ کام انجام دے رہے ہیں۔ تقابل ادیان وغیرہ کا لفظ چوں بہت زیادہ مفید نہیں ہے، اس لیے اس کا استعمال نہیں کیا گیا۔اس کے ساتھ ہی میں نے ایک اور سوال کر دیا ۔ محترم اس ادارے میں مسالک وغیرہ کا تو معاملہ نہیں ہے ،کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ امت میں اس کی وجہ سے بہت افتراق کا معاملہ ہے۔ ایسے حالات میں بھی امت میں مسالک کو لے کر شدت پائی جاتی ہےاور لوگ امت واحدہ کی شکل میں ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھ پاتے ۔ اس پر مولانا نے فرمایا: بھئی ہمارئے یہاں یہ مسئلہ نہیں ہے۔ چنانچہ یہاں صرف دیوبندی مکتب فکر کے طلبہ ہی نہیں ہوتے، بلکہ دیگر مکاتب فکر کے ریسرچراور اسکالر بھی ہوتے ہیں جو علم و تحقیق کے میدان میں آگے پڑھنےاور بڑھنے کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ اس وقت امت کو متحد ہوکر کوشش کرنی چاہیے۔ اسلام کی دعوت ، خدمت خلق کا کام اوردنیا اور آخرت میں سرخ روئی کے لیے  عوام الناس کے سامنے فکرآخرت کا پیغام عام کرنا چاہیے۔

ہم لوگوں نےمولانا محترم کا کافی وقت لے لیا تھا ۔ اس لیے رخصت کی اجازت طلب کی اور وہاں سے واپس آگئے۔ادارہ سے باہر آئے کچھ دور ہی چلے تھے کہ اچانک مولانا شاہد صاحب پھر مل گئے کہنے لگے: ارے بھائی !مولانا ان دنوں جلدی کسی سے نہیں مل رہے ہیں تھوڑی طبیعت وغیرہ کا مسئلہ رہتا ہے جیسا کہ آپ نے دیکھا وہ گلے میں پٹی لگائے ہوئے تھے اور کم ہی گفتگو بھی کرتے ہیں مگر آپ لوگوں سے تو کافی دیر تک بات کرتے رہے۔ ہم نے کہا : یہ سب اللہ کا کرم ہے۔ پھر ان سے بھی کچھ چیزیں پوچھ لیں ۔ آپ مولانا کے ساتھ رہتے ہیں؟ انھوں نے کہا :ہاں! تفہیم شریعت کا کواڈینٹر ہوں، لوگوں سے رابطہ وغیرہ کرنا رہتا ہے۔ زیادہ تر مولانا کے ساتھ ہی رہنا ہوتا۔ مولانا پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری ہیں اس لیے ابھی میں یہاں ان کے ساتھ ہوں۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے، دہلی میں ضرور ملاقات ہوگی۔

دل ہی دل خیال آیا ۔اف...مولانا محترم سے پرسنل لا بورڈ کے تعلق سے کوئی بات ہی نہیں ہوئی ۔ پھر دل خود ہی مطمئن ہو گیا کہ پہلی ہی ملاقات میں کیا پوری داستان سنوگے۔ مولانا سے ملنے کا پھر کبھی موقع نکالنا اور جو بات کرنی ہے پھر کر لینا اور یہ خیال لیے ہوئے واپس ہم وادیٔ ہدی پہنچ گئے۔

 

محب اللہ قاسمی

(دوران سفر حیدرآباد 13 تا 23 دسمبر 2022)

 

 

 

 

 


Saturday 15 October 2022

Kitabcha: Quran ki Dawat e Fikr or Amal

 

قرآن کریم کی دعوتِ فکر و عمل

اس میں  کوئی شک نہیں  کہ کلام پاک کی تلاوت اللہ کو بے حد محبوب ہے، اس کا  پڑھنا اور  سننا دونوں  کار ثواب ہے ۔ اس کی ایک ایک آیت پر اجر و ثواب کا وعدہ ہے۔ مگریہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا فہم ، اس میں  غور و تدبر اور اس پر عمل پیرا ہونا نہایت ضروری ہے۔ یہی نزول قرآن کا منشا ہے تب ہی تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارے لیے اللہ طرف سے نازل کردہ قرآن پاک جو ہمارا دستور حیات ہے اس میں ہمارے لیے کیا ہدایات، احکام اور پیغام ہے؟

اس کتابچے میں اسی بات کی وضاحت  کی گئی اور عوام الناس کو قرآن کے مقصدِ نزول ہدی للناس تمام انسانوں کے لیے ہدایت پر لہذا قرآن کے پیغام کو جاننے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دی گئی ہے۔

اس کی پی ڈی ایف فائل ارسال کی جا رہی ہے۔ ضرور ملاحظہ فرمائیں۔

https://drive.google.com/file/d/1zTzu-_UNTbhPFMpsNhgtQnjeXZoG2pGb/view?usp=sharing
طالب دعا

محب اللہ قاسمی


Monday 29 August 2022

Ek Azeem Murabbi Dayee Rahnuma

ایک عظیم مربی ، داعی اور رہنما ... مولانا سید جلال الدین عمری

 

جمعہ کا دن تھا دفتر بند تھا کیمپس میں واقع اپنے رہائشی کمرے میں اکیلے پریشان بیٹھا تھا تبھی میرے موبائل کی گھنٹی بجتی ہے. ریسپشین (استقبالیہ ) سے فون تھا۔ فون اٹھایا سلام کے بعد کسی نے کہا کہ محترم امیر جماعت (مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند) بات کریں گے. اتنے میں فون پر مولانا محترم کی آواز آئی. میں نے فوراً سلام کرتے ہوئے کہا :جی محترم فرمائیں. مولانا نے فرمایا: ’’بھئی آپ کے والد صاحب کے انتقال کی خبر ملی. بڑا دکھ ہوا. اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے. اللہ آپ کو صبر عطا کرے آپ بھائی بہنوں میں بڑے ہیں سب کو سنبھالیے.‘‘

یہ واقعہ 25 جنوری 2019 کا ہے.  ان کی ان تعزیتی کلمات سے مجھے جو حوصلہ ملا میں بتا نہیں سکتا۔ مولانا محترم کوئی اور نہیں مولانا سید جلال الدین عمری سابق امیر جماعت تھے۔

اورآج 26؍اگست 2022 بوقت شام برادر انوارالحق بیگ صاحب کا فون آیا:’’ ارے محب اللہ کہاں ہو جلدی الشفا اسپتال چلے آؤ سابق امیر جماعت کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے آکر مل لو.‘‘

(ہفتہ دن پہلے میں مولانا ولی اللہ سعیدی صاحب کے ساتھ مولانا محترم کی اعادت کے لیے الشفا اسپتال  ان سے مل کر آیا تھا۔ اس وقت تو کچھ بہتر لگ رہے تھے مگر بعد پھر آئی سی یو میں منتقل کر دئے گئے) میں پہنچا پتہ چلا ابھی ساڑھے آٹھ بجے شب بتاریخ 26 اگست 2022 مولانا محترم کا انتقال ہوگیا ہے. انا للہ وانا الیہ راجعون.

 

موت تو آخر موت ہے آنی ہے اور آتی رہتی ہے. اس لیے کہ دنیا میں جو بھی آیا ہے اسے ایک دن جانا ہے. نہ یہ دنیا ہمیشہ رہنے والی ہے نا یہاں کی کوئی شئی. کل من علیہا فان جو کچھ یہاں ہے سب کو فنا ہونا ہے کہ یہ دنیا خود فانی ہے.

 

اللہ کا فرمان ہے کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے. بس دیکھنا ہے کہ مہلت عمل لے کر دنیا میں آنے والا انسان اپنے خالق و مالک کی رضا کی خاطر کیا کچھ اپنے نامہ اعمال میں لے کر جاتا ہے.

سابق امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری صاحب جلیل القدر شخصیت، با وقار جید عالم دین، درجنوں کتاب کے مصنف، بے باک خطیب اور عظیم مربی داعی اور رہنما تھے۔ مولانا مرحوم کے خطبے کی وہ بے باک بات جو آج بھی اسی گرج کے ساتھ میرے کانوں میں گونجتی رہتی ہے "ہم کوئی حرف غلط نہیں جسے مٹا دیا جائے"

 

مولانا محترم اسلام کی تفہیم و اشاعت اور اس پر عمل کے سلسلے میں تفردات اختیار کرنے کے بجائے دین کو اس کے اصل ماخذ سے پر عبور کے باعث اجتماع  امت کی بھرپور اتباع کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب جماعت اسلامی کے کیمپس میں واقع مسجد اشاعت اسلام میں ماہ رمضان کے دوران شعبہ تربیت مرکز کی جانب سے ہر اتوار کو دینی سوالات و جوابات کا پروگرام رکھا جاتا تھا جس میں عوام کی جانب سے سوالات ہوتے اورمولانا محترم اس کا جواب دیتے تھے۔بہت سے سوالات میں ایک سوال تراویح کی بیس اور آٹھ رکعات سے متعلق تھا اور مسجد اشاعت اسلام میں 20 رکعات تراویح ہوتی تھی۔ آپ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا :

’’ جنھیں لگتا ہے کہ وہ بیس کے بجائے 8 رکعات پڑھنی ہے تو وہ اس مقام پر جائیں جہاں 8رکعات کا اہتمام ہوتا ہے اور بیس پڑھنے والے بیس 20 والے مقام پر پڑھیں اس پر بضد ہونا کہ آٹھ والی جگہ بیس ہو یا بیس والی جگہ آٹھ یہ بہتر نہیں‘‘۔ مذکورہ واقعہ جو مجھے پہلے سے بھی معلوم ہوتا مگر جب مولانا عبدالسلام اصلاحی سابق معاون شعبہ تربیت مرکز نے اس واقعہ کا تذکرہ کیا تو وہ یاد تازہ ہوگئی۔

 

مولانا محترم مسلم پرسنل بورڈ کے نائب صدر تھے اور اپنی علمی و فکری صلاحیت و صالحیت کی بنا پر نا صرف اپنے حلقہ یعنی جماعت اسلامی ہند میں معروف شخصیت تھے بلکہ دیگر مکاتب فکر میں بھی یکساں طور پر قابل قدر اور علم دوست کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.

 

جلسے و اجتماعات میں  آپ کی تقریر و گفتگو ایک عجیب سی روحانی کیفیت پیدا کردیتی تھی جس سے دل اللہ کی طرف مائل ہو جاتا تھا اور آنکھیں گناہوں کو یاد کرتےہی چھلکنے لگتی تھیں۔ کئی بار مرکزی تربیت گاہ کے اختتامی پروگرام میں جب آپ زاد رہ کے طور پر اظہار خیال کرتے اور دعا فرماتے توشرکاکے ساتھ میری بھی آنکھیں نم ہوئیں اور دل میں ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی۔ تحریکی کارکنان سے گفتگو کرتے ہوئے بطور نصیحت انھیں ذاتی تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی تلقین فرماتے اور انھیں  احساس دلاتے کہ دفتر اور کام کاج کے بعد جو وقت آپ کو ملتا ہے اسے ضائع اور لغو کام میں برباد کرنے کے بجائے اسے مطالعہ کتب اور اپنی تربیت پر لگانا چاہیے۔

 

یہ بات درست ہے آپ کے وضع قطع اور نورانی چہرے کو دیکھ کر خدا یاد آتا تھا۔ آپ یقیناً اس دار فانی سے رخصت ہو کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ہیں مگر کتابوں کی شکل میں آپ نے جو علمی ذخیرہ چھوڑا ہے، خطبات کی شکل میں اسلامی موقف کی تائید و وضاحت کی ہے اور اپنے خدمت دین کے جذبوں سے امت کو جو پیغام دیا ہے لوگ ان سے مستفید ہوں گے جو ان شاءاللہ تعالیٰ آپ کے لیے صدقہ جاریہ اور ذخیرہ آخرت ثابت ہوگا.

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے مولانا محترم کی مغفرت، آپ کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور لواحقین صبر جمیل عطا کرے آمین.

محب اللہ قاسمی

معاون شعبہ تربیت مرکز جماعت اسلامی ہند

 

  

Sunday 21 August 2022

Achchi kitab Achcha Sathi

 

اچھی کتاب، ایسا اچھا ساتھی ہے جو زندگی بدل دے

محب اللہ قاسمی

 انسان جب شخصیات کو پڑھتا ہے تو انھیں اپنی زندگی میں محسوس کرتا ہے۔ اس وقت اسے یہی خیال گھیرے رہتا ہے کہ میں بھی ان کے جیسا بنوں، خاص طور پر جب ایسی کوئی  کتاب بچپن میں پڑھی جائے۔ہم سب اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں کہ اچھی کتاب ایک بہترین ساتھی  موثر مربی ہے جو ہماری مناسب خطوط پر رہنمائی کرتی ہے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے اور سنوارنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ایسی ہی کتابوں میں سے ایک کتاب جو میرے سامنے آئی وہ اعلی شخصیات پر بڑےخوب صورت اور دل چسپ انداز کی پہلی کتاب تھی۔  اسےعربی زبان میں پڑھنے کا اللہ تعالی نے مجھے شرف بخشا ۔ داخل نصاب ہونے کے سبب میں اسے سبقاسبقا پڑھ رہا تھا۔

 

صحابی کون ہوتے ہیں ؟ یہ جانتا تو تھا، پھر یہ بھی معلوم تھا کہ صحابہ ؓدنیا کی بڑی نیک شخصیات اور بڑے  اچھے انسان تھے۔مگر ان کی زندگیاں کیسی تھیں ؟ آخر کیسے انھیں رضوان اللہ علیہم اجمعین کا الٰہی خطاب ملا؟ ان سب چیزوں سے نا واقف تھا۔ پہلے دن کا پہلاسبق ہی اتنا دل چسپ لگا اور اس قدر مؤثر تھا کہ پورا دن سوچنتا ہی رہ گیا؟

 

عنوان تھا

’’ سعید بن عامرجمحیؓ‘‘ 

ان ہزاروں انسانوں میں سے ایک نوجوان سعید بن عامرجمحی ؓ بھی تھا جو سرداران قریش کی دعوت پر مکہ سے باہر مقام تنعیم پر صحابی رسولﷺ حضرت خبیب بن عدی ؓ کے قتل کا تماماشا دیکھنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ جیسے روساء قریش کے پہلو بہ پہلو جا کھڑا تھا۔ زبردست ہجوم میں سعید بن عامر خبیب کو دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ خبیب کہہ رہا ہے "اگر تم لوگ چاہو تو قتل سے پہلے مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کا موقع دے دو" پھر سعید نے دیکھا کہ خبیب بن عدی نے قبلہ رو ہوکر دو رکعتیں پڑھیں۔ اور خبیب نے زعماء قریش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "واللہ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم میرے متعلق اس بدگمانی میں مبتلا ہوجاؤ گے کہ میں موت سے ڈر کر نماز کو طول دے رہا ہوں تو میں اور لمبی اور اطمینان کے ساتھ نماز پڑھتا"

 

آج کا سبق یہی ختم ہو گیا۔

 

اب میں پورے دن اسی خیال میں گم  رہا کہ آخر کیا ہوا ہوگا حضرت خبیبؓ کے ساتھ۔ کہیں واقعی ان ظالموں نے انھیں شہید کر دیا ہوگا، یا کوئی ایسی ترکیب ہوئی ہوگی جس سے وہ بچ گئے ہوں گے؟ خیر رات میں کچھ حصہ خود سے مطالعہ کرنے لگا۔ کیوں کہ آئندہ کا سبق پہلے سے ہی مطالعہ کر کے جانا اس کلاس کے استاذ محترم کی خاص ہدایت تھی۔ٹوٹے پھوٹے انداز میں جو کچھ پڑھا تو پتہ چلا:

 

سعید نے بہ چشم سر اپنی قوم کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ زندہ ہی خبیب کا مثلہ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتے جاتے ہیں۔

“کیا تم یہ بات پسند کرو گے کہ اس وقت محمد(ﷺ )تمہاری جگہ یہاں ہوتے اور تم اس تکلیف سے نجات پاجاتے”

 

خبیب نے جواب دیا(اور اس وقت ان کے جسم سے بے تحاشا خون بہ رہا تھا)’’ واللہ مجھے تو اتنا بھی گوارا نہیں کہ میں امن و اطمینان کے ساتھ اپنے اہل و عیال میں رہوں اور اللہ کے رسولﷺ کے پاؤں کے تلوے میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے”

 

یہ سنتے ہی لوگوں نے اپنے ہاتھوں کو فضا میں بلند کرتے ہوئے چیخنا شروع کر دیا۔ مارڈالو اسے، قتل کرڈالو اسے۔ پھر سعید بن عامر کی آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ خبیب نے تختہ دار ہی سے اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا: اَللّٰھُمّ احصَہم عَدداً وَاقتُلھُم بَددا وَلا تُغَادر مِنھُم اَحَدا "خدایا! انہیں ایک ایک کر کے گن لے،انہیں منتشر کرکے ہلاک کر اور ان میں سے کسی کو نہ چھوڑ" پھر انہوں نے آخری سانس لی اور روح پاک اپنے رب کے حضور پہنچ گئی۔ اس وقت ان کے جسم پر تلواروں اور نیزوں کے ان گنت زخم تھے۔

 

نوجوان سعید بن عامر جمحی، خبیب کی مظلومیت اور ان کے دردناک قتل کے اس دل خراش منظر کو اپنے لوح ذہن سے اک لمحہ کے لیے محو نہ کرسکا۔ وہ سوتاتوخواب میں ان کو دیکھتا اور عالم بیداری میں اپنے خیالات مین ان کو موجود پاتا۔ یہ منظر ہر وقت اس کی نگاہوں کے سامنے رہتا کہ خبیب تختہ دار کے سامنے بڑے سکون واطمینان کے ساتھ کھڑے دورکعتیں ادا کر رہے ہیں۔ اوراس کے پردہ سماعت سے ہروقت ان کی وہ درد بھری آواز ٹکراتی رہتی جب وہ قریش کے لیے بد دعا کر رہے تھے اور اس کو ہروقت اس بات کا ڈر لگا رہتا کہ کہیں آسمان سے کوئی بجلی یا کوئی چٹان گر کر اسے ہلاک نہ کر دے۔ پھر خبیب نے سعید کو وہ باتیں بتا دیں جو پہلے سے اس کے علم میں نہ تھیں۔ خبیب نے اسے بتایا کہ حقیقی زندگی یہی ہے کہ آدمی ہمیشہ سچے عقیدے کے ساتھ چمٹا رہے اور زندگی کی آخری سانس تک خدا کی راہ میں جدوجہد کرتا رہے۔ خبیب نے سعید کو یہ بھی بتادیا کہ ایمان راسخ کیسے کیسے حیرت انگیز کارنامے انجام دیتا ہے اور اس سے کتنے مخیر العقول افعال ظہور پزیر ہوتے ہیں۔

 

خبیب نے سعید کو ایک اور بڑی اہم حقیقت سے آگاہ کیا کہ وہ شخص جس کے ساتھی اس سے اس طرح ٹوٹ کر محبت کرتے ہیں، واقعی برحق رسول اور سچا نبی ہے اور اسے آسمانی مدد حاصل ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سعید بن عامر کے سینے کو اسلام کے لیے کھول دیا۔ وہ قریش کی ایک مجلس میں پہنچا اور وہاں کھڑے ہوکر اس نے قریش اور ان کے کالے کرتوتوں سے اپنی لاتعلقی و نفرت اور ان کے معبودان باطل سے اپنی بیزاری و برات اور اپنے دخول اسلام کا برملا اور کھلم کھلا اعلان کر دیا۔

 

 اس کے بعد سعید بن عامر ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے اور مستقل طور پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی صحبت اختیار کرلی۔ غزوہ ٔخیبر اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمرکاب رہے اور جب نبی اکرم ﷺ اپنے رب کے جوار رحمت میں منتقل ہو گئے تو سعید بن عامر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دونوں خلفاء ابوبکر صدیق اور عمر کے ہاتھوں میں شمشیر برہنہ بن گئے اور انہوں نے اپنی تمام جسمانی اور نفسانی خواہشات کو خدائے تعالیٰ کی مرضیات کے تابع کر کے اپنی زندگی کواس مومن صادق کی زندگی کا نادر اور بے مثال نمونہ بنا کر پیش کیاجس نے دنیوی عیش و عشرت کے عوض آخرت کی ابدی و لافانی کامیابی اورفائز المرامی کو سودا کر لیا ہو۔

 

ایک بار وہ  حضرت عمر فاروق ؓکے دور خلافت کے ابتدائی ایام میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نصیحت کرتے ہوئے ان سے کہا:

 

“عمر! میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ رعایا کے بارے میں ہمیشہ خدائے تعالٰیٰ سے ڈرتے رہیے اور خدا کے معاملے میں لوگوں کا کوئی خوف نہ کیجئے اور آپ کے اندر قول و عمل کا تضاد نہ پایا جا ئے۔ بہترین قول وہی ہے جس کی تصدیق عمل سے ہوتی ہو‘‘

 

 انہوں نے سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا:

 

’’ عمرؓ! دور و نزدیک کے ان تمام مسلمانوں پر ہمیشہ اپنی توجہ مرکوز رکھیے جن کی ذمہ داری اللہ تعالٰیٰ نے آپ پر ڈالی ہے اور ان کے لیے وہی باتیں پسند کیجئے جو آپ خود اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیے پسند کرتے ہیں اور حق کی راہ میں بڑے سے بڑے خطرے کی بھی پروا نہ کیجئے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کو خاطر میں نہ لائیں‘‘

 

 سعیدؓ! یہ سب کس کے بس کی بات ہے؟ حضرت عمرؓ نے ان کی یہ باتیں سن کرکہا۔

 

یہ آپ جیسے شخص کے بس کی بات ہے جس کو اللہ تعالٰیٰ نے امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ دار بنایا ہے، جس کے اور خدا کے درمیان میں کوئی دوسرا حائل نہیں ہے" سعید نے کہا۔ اس گفتگو کے بعد خلیفہ نے سعید بن عامر سے حکومت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں تعاون کی خواہش ظاہر کی اور فرمایا: سعید میں تم کو حمص کا گورنر بنا رہا ہوں۔ ‘‘

 

عمرؓ ! میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے آزمائش میں نہ ڈالیے" سعید نے جواباً عرض کیا۔

 

 ان کا یہ جواب سن کر حضرت عمرؓنے قدرے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: "خدا تمہارا بھلا کرے ۔تم لوگ حکومت کی بھاری ذمہ داریاں میرے سر ڈال کر خود اس سے کنارہ کش ہوجانا چاہتے ہو، اللہ کی قسم میں تم کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا‘‘

پھر حضرت عمرؓ نے حمص کی گورنری ان کے سپردکیا۔

 

ایک مرتبہ حضرت عمر ؓنے ان کے لیے ایک ہزار دینار بھیجے، تاکہ ان سے وہ اپنی ضروریات پوری کریں۔ جب ان کی اہلیہ نے ان دیناروں کو دیکھا تو بولیں کہ اللہ  کا شکرہے کہ اس نے ہم کو آپ کی خدمت کرنے سے بے نیاز کر دیا۔ آپ اس رقم سے ہمارے لیے ایک غلام اور ایک خادمہ خرید دیں۔ یہ سن کر سعید نے کہا :

 

’’ کیا تم کو اس سے بہتر چیز کی خواہش نہیں؟ ‘‘اس سے بہتر؟ اس سے بہتر کیا چیز ہے؟اہلیہ نے پوچھا۔

 

’’یہ رقم ہم اس کے پاس جمع کر دیں جو اسے ہم کواس وقت واپس کر دے جب ہم اس کے زیادہ ضرورت مند ہوں۔‘‘ سعید نے بات سمجھائی۔ اس کی کیا صورت ہوگی؟اہلیہ نے وضاحت چاہی۔

 

سعید نے کہا :’’ ہم یہ رقم اللہ تعالٰیٰ کو قرض حسنہ دے دیں‘‘ اہلیہ نے کہا: ’’ہاں، یہ بہتر ہے۔ اللہ آپ کو جزائے خیردے‘‘

پھر سعید نے اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے ان تمام دیناروں کو بہت سی تھیلیوں میں رکھ کر اپنے گھر کے ایک آدمی سے کہا :

’’انہیں فلاں قبیلے، فلاں قبیلے کے یتیموں، فلاں قبیلے کے مسکینوں اور فلاں قبیلے کے حاجتمندوں میں تقسیم کردو‘‘

 

 اللہ تعالیٰ سعید بن عامر جمحی سے راضی ہو۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خودمحتاج اور ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔

 

اس سال میں مدرسہ جامع العلوم مظفرپورمیں عربی اول کا طالب علم تھا اور جس کتاب سے  صحابی رسول ؓ کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ ڈاکٹر عبدالرحمن پاشا کی کتاب ’’صورمن حیاۃ الصحابہ‘‘ ہے ۔ اس کتاب کی کئی جلدیں ہم لوگوں نے الگ الگ کلاس میں پڑھیں۔ اس وقت دل میں خیال آتا تھا کہ کاش کوئی اس کا خوب صورت ا ردو ترجمہ کر دیتا تو یہ عام مسلمانوں کے لیے، جو عربی نہیں جانتے، کس قدر مفید ہوتا ۔اور اس طرح میں پھر جب میں دارالعلوم دیوبند آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کاشاندار ترجمہ ’’زندگیاں صحابہؓ کی‘‘ کے نام سے 1994میں ہی شائع ہو چکا ہے۔ یہ ترجمہ ابوجاوید اقبال قاسمی صاحب نے کیا ہے ۔ اس مضمون میں اس سے استفادہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالی مصنف اور مترجم دونوں کو جزائے خیر عطا کرے اور قارئین کو کتاب سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے،اس عکس صحابہ ؓکوسامنے رکھ کر اپنی زندگی بنانے اور سنوارنے کی توفیق بخشے۔ آمین

***

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...