Tuesday 21 January 2020

Jahannam Numa (Story)

جہنم نما




جہنم نما
(کالا قانون کی حقیقت اور اس کے انجام سے روبرو کراتی ایک پرسوز کہانی)

Sunday 19 January 2020

Story : Jahannam Numa



جہنم نما
( کالا قانون کی حقیقت اور اس کے انجام سے روبرو کراتی ایک پرسوز کہانی ضرور پڑھیں )
       
جلدی کرو مجھے نہانا ہے۔ دوہفتے ہو گئے نہائے ہوئے۔ ایک ہفتے تک تو نہانے کے لیےپانی ہی نہیں میسر تھا۔اب پانی کے لیے لمبی قطار کہ نمبر ہی نہیں آ رہا ہے۔ آج تو میں کسی طرح نہاکر ہی رہوں گا۔ جسم سے بڑی بدبو آ رہی ہے۔اگر چہ اس جگہ سبھی بدبودار ہوگئے تھے پانی کی سہولت سے محروم تھے۔ بیت الخلا میں بھی لمبی لائن لگی تھی۔ سونے کے لیے بستر چٹائی تو دور، جگہ تک نہیں تھی کہ کدھر سر رکھیں کدھر پیر؟ ہر شخص ایک دوسرے پر پاؤں رکھے سو رہا تھا، بلکہ آنکھیں بند ہونے لگتیں تو ہٹو ہٹو، ادھر جاؤ ،ادھر جاؤ، کی آواز سے آنکھیں کھل جاتی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی لمبے روٹ کی ٹرین ہے، جس کے جنرل ڈبے میں لوگ ٹھسے ہوئے ہیں۔

        صابرکو بڑی مشکل سے نہانے کا موقع ملا۔ چہار دیواری سے گھرے ہوئے دو بڑے سے ہال، جن میں تقریبا ً500 لوگ، جن کے لیے 15بیت الخلا اور نہانے کے لیے صرف دوبڑے غسل خانے اور ان میں 4 لگے ہوئے نل تھے۔ سینکروں لوگ نہانے کے لیے لائن میں لگے ہوئے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ خیر صابر بڑی مشکل سے نہاکر گیلے کپڑوں کے ساتھ باہر آیا۔ اسی دوران سنٹر کی چہار دیواری کے اندر ایک شخص جو اس کا ذمہ دار تھا کھانے پینے کا سامان لیے ہوئے آیا۔ یہ کھانے کا سامان تین دن بعد آیا تھا۔بھوک سے نڈھال لوگ اس پر بھوکے شیر کی طرح ٹوٹ پڑے۔ اس شخص بے رحم نے اپنے جلاد ساتھیوں کو اشارہ کیا۔ اس نے سب پر بڑی بے دردی سے چمڑے کا چابک برسانا شروع کر دیا۔

         اس سینٹر پر آنے والا ہر شخص غریب، جاہل، بے سہارا نہیں تھا، بلکہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے ،جن کا شمار اپنے خاندان کے بڑاےباوقار مال دار اپنے علاقہ کے خوش حال لوگوں میں ہوتا تھا، جن کے طرز زندگی پر لوگ ناز کرتے تھے، جنھوں نے نے بڑی مشکل اور محنت سے اپنی خوش حال زندگی کے لیے کچھ بنایا تھا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ یہاں بڑی تعداد میں غریب مزدور، ان پڑھ اور گنوار لوگ تھے، مگر سارے بے بسی، بے کسی اور مجبور زندگی کے مشکل ترین حالات سے دوچار تھے۔

        یہ کوئی چور، ڈاکو، لٹرے، قیدی یا خونخوار مجرم نہیں تھے، جن کو سزا دینےکے لیے اس کال کوٹری سے بھی بدتر جگہ میں ڈال کر مرنے کے لیے مجبورکر دیا گیا تھا۔ بلکہ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے ہی وطن میں اپنی شہریت ثابت کرنے سے قاصر رہےتھے ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ یہاں پیدا نہیں ہوئے، یا ان کے باپ دادا یہاں کے نہیں تھے۔ ان کے پاس آدھار کارڈ، راشن کارڈ نہیں تھا، بلکہ ان کے پاس ان سب کے علاوہ ووٹر کارڈ بھی تھے، جس کے ذریعہ وہ حکم راں چنتے تھے۔ ان کے باپ دادانے آزادی وطن کی جنگ میں انگریزوں کے خلاف سینہ سپر ہوکر مقابلہ بھی کیا تھا۔

         ہاں ان کے پاس نہیں تھا تو وہ کاغذ جس سے یہ ثابت ہوتا کہ ان کے ابا اس دیش میں کب پیدا ہوئے؟ کچھ نے اسے بڑے اہتمام سے سنجو کے رکھا بھی تھا ،مگر انھیں کیا پتہ تھا کہ سیلاب ان کے اس گھریلو سامان، اناج پانی کےساتھ ان کے تمام ڈاکومنٹس کو بھی بہا لے جائے گا۔ آگ زنی میں ان کے گھر مکان کے ساتھ ان کے وہ کاغذات بھی جل جائیں گے۔

        جن کے پاس کاغذات بچے بھی تھے، ان کے ناموں میں اسپیلنگ مسٹیک تھا،یا پھر کوئی اور نقص۔ کیو ںکہ آدھار اور ووٹر کارڈ تو اس کے لیے قابل قبول تو تھا نہیں، جنھیں وہ پیش کر کے اس نرک سے بچ جاتے۔ اس طرح کی چیزوں نے ان کا معاملہ خراب کر دیا تھا۔ ان کے کاغذات بھی غیر معتبر ہوگئے تھے، جس کے سبب وہ سب کال کوٹھری میں بند کر دیے گئے۔

        وہاں صابر ہی ایسا نہیں تھا جس کو مسلم گھس پیٹھیا سمجھ کر جہنم کی وادی میں ڈال دیا گیا ہو، بلکہ کاغذات پورے نہ کرنے والوں میں بہت سے دوسرے مذاہب کے لوگ بھی شامل تھے ، جن کی بڑی تعداد ان قیامت خیز مصائب میں مبتلا کر دی گئی تھی۔

        جب یہ نرک ہے تو اس میں پریشانیاں اور ظلم کے علاوہ تو کچھ ہوگا۔اس میں یہ بھی تھا کہ ایک ہی خاندان کے بہت سے لوگوں میں کسی کابھائی ڈالا گیا تو دوسرا باہر ، کسی کی بیوی کو اندر کیا گیا تو اس کا شوہر اور بچہ باہر۔ کسی کا بیٹا اندر تو باپ باہر۔ کسی کی بیٹی قیدکی گئی تو اس کی ماں باہر، الغرض ایک عجیب سی ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ وہ بھی صرف اس لیے کہ ان کے پاس کاغذات نہیں تھے، جن سے یہ ثابت کر سکیں کہ وہ اسی دیش کے رہنے والے ہیں۔ پھر یہ بھی پریشانی تھی کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ یہاں کے نہیں تو پھر کہاں کے ہیں ؟جہاں کے بھی ہیں وہاں ان کو بھیجنے کا بندوبست کیا جاتا۔

        ان کاغذوں کے ماروں پر ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ظالموں نے پورے ملک میں مذہب کو شہریت کی بنیاد بنا کر شہریت کا نیا قانون بنا ڈالا، جو خود اس دیش کے دستور ی اور بنیادی حقوق کے خلاف تھا اور اس کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب یہاں کی عوام کو الگ الگ حصوں میں بانٹ دیا۔ اس طرح پورے ملک میں اسی خاص قسم کے کاغذکی ضرورت سب کو ہوگی ،جس کے نہ ہونے کے سبب وہ جہنم میں ڈالے گئے تھے۔اس کی وجہ سے اب  یہ ہوگا کہ مسلمانوں کو الگ کر کے انھیں تو اس جہنم میں باقی رکھا جائے گا، مگر جو مسلمان نہیں ہوں گے ان کو شرنارتھی کا کاغذ بنا کر اسے یہاں سے نکال لیا جائے گا۔

        اس نرک میں رہنے والے لوگوں کے ساتھ صابر بھی بے بہت پریشان تھا۔ اسے ہمیشہ اپنوں سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھنا اچھا لگتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے خود آج نہائے ہوئے کئی دن ہوگئے تھے۔ وہ اپنے کھانے میں سے دوسروں کو بھی کھلادیتا تھااور خود کسی طرح بھی دن کاٹ لیتا تھا۔

        اس دوران کئی لوگوں کی موت ہوگئی اور بہت سے لوگ سوکھ کر کانٹا ہوگئے تھے۔ کھانا بانٹنے والوں نے ہنگامے کوروکنے کے لیے ایک زور کا ہنٹرچلایا جس سے صابر کے بازو میں کھڑاشخص، جو مسلمان نہیں تھا، اس کے ہاتھ پر ایسا لگا، جس سے اس کے کھانے کی تھالی دور جاگری اور پورا کھانا بکھر گیا۔ پھر کیا تھا؟ وہ سب لوگوں پر ہنٹر برسانے لگا۔ سب ڈرے اورسہمے ہوئے تھے۔ صابر زور زور سے چلانے لگا ۔ ارے صاحب! ہم لوگوں کو کیوں مارتے ہو؟ہمیں مت مارو،ہمیں مت مارو۔۔۔!

        تبھی خالد ،مکیش ،زینب، ریکھا،ست ویر اورڈیسوزا چونکے ۔کہنے لگے: کیا ہوا بھائی؟ کیوں چلا رہے ہو؟ نیند میںکیا بڑبڑا رہے تھے؟

        صابر نے اِدھر ُادھر لوگوں کو دیکھا ۔ سب احتجاج کر رہے ہیں اورابھی رات کے تین بجے ہیں۔ وہ کافی دنوں سے سی اے اے اور این آرسی کے خلاف احتجاج میں شریک ہو رہا تھا۔ اس لیے کئی دنوں سے سویا نہیں تھا۔ آج پلک جھپک گئی تو خواب بھی ایسا کہ اللہ کی پناہ ۔ سب نے کہا :گھبراؤ مت ،وہ خواب تھا۔ حقیقت کی دنیا میں اب ایسا کچھ نہیں ہوگا۔

        خوشیوں کا پیغام لیے صبح نمودار ہوئی ۔معلوم ہوا سبھی نیوز پیپر ،ٹی وی چینلوں اور تمام میڈیا میں خبر آگ کی طرح گردش کررہی تھی کہ حکومت نے کالا قانون واپس لے لیا ہے۔ اب دیش میں این آرسی نہیں ہوگا۔
***



Thursday 16 January 2020

Zalimun ko Zulm se Roku Speech in Shaheen Bagh Protest Against CAA NRC &...







ظالموں کو ظلم سے روکو!
ایمان اور خوف ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتا. ظالموں
کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انھیں ظلم سے روکنے کی کوشش کی جائے ان سے ڈرنے اور
گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں. چاہے اس راہ ہمیں کتنی ہی قربانی دینی پڑے مسلمان
کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا. کیونکہ مسلمان بزدل نہیں ہوتا. وہ ظالموں کے خلاف
سینہ سپر رہتا ہے
.
شاہین باغ
کی ہماری ماں بہنوں اور دادیوں کو میرا سلام، جو تقریباً ایک ماہ سے دہلی کی سرد
راتوں میں اپنے شیرخوار بچوں کو لیے مسلسل احتجاج کی خاطر اکٹھا ہوتی ہیں. آپ سب
ہمارے پیارے رسول صلی اللہ و سلم جن پر ہمارا سب کچھ قربان کی حدیث پر عمل پیرا
ہیں. جس کا بہترین بدلہ اللہ تعالیٰ عطا کرے گا. آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد
ہے
:
عن انس، عن النبي صلى الله
عليہ و سلم قال: " انصر اخاك ظالما او مظلوما "، قلنا: يا رسول الله،
نصرته مظلوما، فكيف انصره ظالما؟ قال: " تكفه عن الظلم فذاك نصرك إياه "
(ترمذی)
حضرت انس
رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بھائی
کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم“، صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے مظلوم
ہونے کی صورت میں تو اس کی مدد کی لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کیسے
کروں؟ آپ نے فرمایا: ”اسے ظلم سے باز رکھو، اس کے لیے یہی تمہاری مدد ہے“۔

اس لیے کالاقانون کے خلاف ہمارا احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ یہ ظالمانہ قانون ختم
نہ ہو جائے. اللہ ہمارا مدد گار ہے
.
محب اللہ قاسمی







ظالموں کو ظلم سے روکو!
ایمان اور خوف ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتا. ظالموں
کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انھیں ظلم سے روکنے کی کوشش کی جائے ان سے ڈرنے اور
گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں. چاہے اس راہ ہمیں کتنی ہی قربانی دینی پڑے مسلمان
کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا. کیونکہ مسلمان بزدل نہیں ہوتا. وہ ظالموں کے خلاف
سینہ سپر رہتا ہے
.
شاہین باغ
کی ہماری ماں بہنوں اور دادیوں کو میرا سلام، جو تقریباً ایک ماہ سے دہلی کی سرد
راتوں میں اپنے شیرخوار بچوں کو لیے مسلسل احتجاج کی خاطر اکٹھا ہوتی ہیں. آپ سب
ہمارے پیارے رسول صلی اللہ و سلم جن پر ہمارا سب کچھ قربان کی حدیث پر عمل پیرا
ہیں. جس کا بہترین بدلہ اللہ تعالیٰ عطا کرے گا. آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد
ہے
:
عن انس، عن النبي صلى الله
عليہ و سلم قال: " انصر اخاك ظالما او مظلوما "، قلنا: يا رسول الله،
نصرته مظلوما، فكيف انصره ظالما؟ قال: " تكفه عن الظلم فذاك نصرك إياه "
(ترمذی)
حضرت انس
رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بھائی
کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم“، صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے مظلوم
ہونے کی صورت میں تو اس کی مدد کی لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کیسے
کروں؟ آپ نے فرمایا: ”اسے ظلم سے باز رکھو، اس کے لیے یہی تمہاری مدد ہے“۔

اس لیے کالا
قانون کے خلاف ہمارا احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ یہ ظالمانہ قانون ختم
نہ ہو جائے. اللہ ہمارا مدد گار ہے
.
محب اللہ قاسمی

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...