Wednesday 21 November 2018

Aap se keun na Zamane ko Muhabbat hoti

آپؐ سے کیوں نہ زمانے کو محبت ہوتی
                                                                      محب اللہ قاسمی
 انسان دنیا کا مالک نہیں ہے تو وہ اس کا نظام چلانے والا بھی نہیں ہوسکتا ۔ جو مالک ہے ، وہ انسانوں میں سے ہی عظیم اور بہترین انسان کو چن کر دنیا میں بھیجتا ہے، تاکہ وہ دنیا والوں کو اس کے خالق و مالک کے بارے  میں بتائے اور اسی کی مرضی کے مطابق ان کواچھے کاموں اور صحیح طریقے سے جینے کا ڈھنگ سکھائے ۔اس طرح دنیا میں امن و شانتی اور خوش حالی آئے اور تمام انسان اپنے اچھے یا برے کرموں کے بدلے مرنے کے بعد جنت کے باغات یا جہنم کی آگ کے مستحق بنیں۔ دنیا میں یہ تمام وہ پیغمبر آئے ۔آخر میں حضرت محمدﷺ  تشریف لائے۔آپؐ نبوت کے سلسلے کی آخری کڑی تھے۔آپ کے نبی ہونے اور دنیا میں بھیجے جانے کی خوش خبری پہلے کی آسمانی کتابوں میں موجود ہے ، اسی طرح دوسرے دھرم گرنتھوں میں بھی اس عظیم رہبر اور انسانیت کے رہنما کا تذکرہ ملتا ہے۔ آپؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چل کرہی  انسان دنیا  میں امن و سکون ، خوش حالی اور ترقی حاصل کرسکتا ہےاور مرنے کے بعد جنت اس کا ٹھکانا ہوگا۔

آپ ﷺکی زندگی کو آسانی سے سمجھنے کے لیے  اسے تین ادوار میں بانٹا جاسکتا ہے۔
 v   ولادت سے رسالت تک    v   رسالت سے ہجرت تک   v   اور ہجرت سے وفات  تک

*ولادت سے رسالت  تک*
آپ سرزمین عرب میں ،مکہ شہر کے باوقار اور شریف خاندان بنی ہاشم میں پیدا ہوئے۔ اس وقت پوری دنیا میں فساد و بگاڑ کا ماحول بنا ہوا تھا۔ ظلم و زیادتی ،قتل خوں ریزی، بدکاری و بداخلاقی ، چوری و زناکاری کا بازار گرم تھا۔ایسے میں نور کی کرن پھوٹی اور اس اندھیرے کو ختم کر دینے والا سورج نکل آیا۔تاریخ۱۲ربیع الاول، پیر کا دن ،شمسی کیلنڈر کے مطابق ۲۰؍اپریل ۵۷۰ عیسوی ،صبح کا وقت اور مقام خانۂ کعبہ تھا جہاں آپ ؐکی پیدائش ہوئی۔اسی سال  ابرہہ نے ہاتھیوں کی فوج سے خانۂ کعبہ  پرچڑھائی کی تھی، جسے پرندوں کے جھنڈنے اپنی چونچوں میں دبائی ہوئی  کنکریوں سے تباہ و برباد کردیا تھا اور خانہ ٔکعبہ محفوظ تھا۔

آپؐ کی پیدائش سے قبل ہی آپ کے والد عبداللہ کا انتقال ہو گیا تھا ۔آپ کے دادا عبدالمطلب نے اپنے یتیم پوتےکا نام محمد اور ماں نے احمد رکھا۔6برس کی عمر ہوئی تو امی جان کا انتقال ہو گیا۔پھر8 سال کے ہوئے تو دادا جان بھی دنیا سے چل بسے۔اس کے بعدآپ کے چچا ابوطالب نے اپنی آپ  کی پرورش کی۔

آپؐ بچپن سے ہی بہت ملنسا ، انسانوں کی عزت و احترام کرنے والے اوربااخلاق انسان تھے۔ آپؐ کی ایمانداری اور سچائی کو دیکھتے ہوئے لوگ آپ کو صادق اور امین کہہ کر پکارتے تھے۔25سال کی عمر میں اس وقت کی نہایت شریف اور خاندانی عورت حضرت خدیجہ ؓسے، جن کی عمر 40سال تھی ،آپ کا نکاح ہوا ۔ ان سے آپ کی چار بیٹیاں زینب ؓ،رقیہ ؓ،ام کلثومؓ اور فاطمہ ؓپیدا ہوئیں۔ 35سال کے تھے جب خانہ کعبہ کی تعمیر کے موقع پر اس میں حجر اسود  لگانے کے لیے قبیلے آپس میں لڑ پڑے اور جنگ اور خوں ریزی کی نوبت آ گئی  تو آپ نے  اس فساد کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

*رسالت سے ہجرت تک*
جب آپ 40 سال کے ہوئے تو اللہ نے آپؐ کو اپنا پیغمبر بنایا اور قرآن کی آیات آپ پر اترنے لگیں۔ پہلی وحی کے بعد آپ نے کچھ بے چینی محسوس کی تو آپ کی جانثار بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی اور کہا  :آپ سچ بولتے ہیں، غریبوں کی مدد کرتے  ہیں، مہمان نواز ہیں، رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں، امانت دار ہیں اور دکھیاروں کے خبر رکھتے ہیں۔ اللہ آپ ؐ کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘

آپ 13 سال مکے میں ایمان نہ لانے والوں  کے ظلم و ستم سہتے ہوئے ،  لوگوں کو اسلام  کی تعلیم دیتے رہے ۔ بہت سے لوگوں نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور آپ پر ایمان لے آئے۔انھیں صحابی کہاجاتاہے۔ ان میں حضرت خدیجہؓ ،ابو بکرؓ ،علیؓ ،زیدؓ پہل کرنے والے ہیں۔حضرت ابو بکر کی دعوت پر حضرت عثمانؓ،حضرت عبدالرحمنؓ ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ،حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ ،او رحضرت زبیر بن العوامؓ اسلام قبول کیا ۔ نبوت کے ساتویں سال بھر بعد دوبڑے بہادر ،جاں باز صحابہ حضرت حمزہؓ او رعمر بن الخطابؓ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ اس کے بعد کھلم کھلا دین کی تبلیغ کی جانے لگی او رصحابہ کرا مؓ آزمائشوں وتکالیف میں مبتلا  ہوئے۔ لوگو ں نے آپ کو شاعر اور جادو گر کہا۔ابولہب کی بیوی امّ جمیل نے آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے حضرت سمیہ کو نیزہ مار کر شہید کردیا گیا ۔حضرت زبیر کو کھجو ر کی چٹائی میں لپیٹ کر کوٹھری میں بند کر کے دھواں دیا گیا گرم گرم پتھروں پر لٹا یا گیا، پیروں میں رسی باندھ کر گھسیٹاگیا ۔نبوت کے پانچویں سال حضرت عثمانؓ اور دیگر بہت سے صحابہ ؓ حبشہ ہجر ت کر گئے ۔

اسی دوران مکے والوں نے  آپؐ کا بائکاٹ کردیا۔ تقریباڈھائی تین سال تک آپؐ اور آپؐ کے ماننے والے  ایک گھاٹی میں جو شعب ابی طالب کے نام سے مشہور تھی، تلخ صبرآزما زندگی بسر کرتے رہے ۔ اسی دوران آپ ؐ کے مہربان چچا ابوطالب اور جانثار بیوی حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہو گیا۔ اس وجہ سے اس سال کو عام الحزن (غم کا سال) کہاجاتا ہے۔ ۱۰نبوی کونظر بندی سے رہائی ہوئی،اس کے بعد آپ نے طائف کا سفر کیا ، وہاں کے لوگوں نے اپنے نوجوانوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا جنھوں نے آپ پر پتھر برسائے جس سے آپ کا جسم لہو لہان ہو گیا۔اللہ تعالی کے حکم سے فرشتہ آئے جنھوں نے پیش کش کی کہ ان دشمنوں کو  دوپہاڑ کے درمیان  پیس دیں۔ مگر انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ عظیم الشان نبی ؐنے ان کی غلطیوں کو در گرز کردیااور  ان کی نسل سے خیر کی امید رکھتے ہوئے انھیں معاف کر دیا۔ ۱۲نبوی ۲۷رجب المرجب دو شنبہ کو معراج ہوا او ر نماز کا تحفہ ملا ۔اس دوران مدینہ سے الگ الگ قافلے والوں نے اسلام قبول کیا۔نبوت کے تیرہویں سال جب مکہ والوں نے آپ کا جینا محال کر دیا اور دشمن آپ کے قتل کی سازشیں کرنے  لگے تو اللہ تعالی نے آپ کو مدینہ ہجرت کرجانے کا حکم دیا۔

*ہجرت سے وفات تک*
آپؐ بہت ایمان دار ،امانت دار تھے۔ اس وجہ سے مکہ والے آپ کے پاس اپنی امانتیں رکھا کرتے تھے ۔جس رات آپ مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے والے تھے ،آپؐ نے اپنے چچازاد بھائی علی ؓکوسمجھا کر  سب کی امانتیں سونپ دیں اور اپنے جانثار صحابی حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ  مدینہ کی جانب ہجرت کی ۔ آپ ؐ یکم ربیع الاول بروز دو شنبہ کو غار سے نکلے ۔  ۸ربیع الاو ل کو قبا پہونچے اور وہاں ۱۴ دن قیام کیا ۔۱۲ ربیع الاول کومدینے میں قدم رکھا، جسے پہلے یثرب کہا جاتا تھا ۔اس وقت آپ پر جان چھڑکنے والے  بہت سے صحابہ کرام مدینہ میں موجود تھے ۔ ان سے مدینہ والوں نے آپ کی تعریفیں سن رکھی تھیں اور آپ سے ملنے کے لیے بے چین ہو رہے تھے ۔ انھوں نے آپ کی آمد پر والہانہ استقبال کیا۔حضرت ابوایوب ؓ کے گھر پر آپ کاقیام ہوا۔مسجد نبوی کی تعمیر کرائی گئی۔انصار اور مہاجرین کے درمیان مواخات کا عظیم الشان منظر سامنے آیا۔ جس کے نتیجے میں وہ  حقیقی بھائیوں سے بھی زیادہ قریبی ہوگئے۔

دو ہجری میں حق اورباطل کے درمیان  بدر کے مقام پر تاریخ ساز معرکہ  ہو ا، جس میں مسلمانوں کی تعداد (۳۱۳ )تھی  اور کفار ایک ہزارسے زائد تھے ،اس کے باوجود  مسلمانوں کو بہت بڑی کامیابی ملی اور کفار ومشرکین ذلیل ورسوا ہو کر ناکام و نا مراد  لوٹے اور ان کے  ۷۰ سرداران قتل کئے گئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے ۔اسی سال اذان کا حکم نازل ہوا اور خانۂ کعبہ کو قبلہ قرار دیا گیا ۔ اسی سال رمضان کے روزے فرض ہوئے۔

تین  ہجری میں زکوٰۃ کی فرضیت ہوئی ،اسی سال ماہ شوال میں غزوۂ احد پیش آیا۔اس میں حضرت حمزہؓ شہید ہوئے۔  آپؐ نے انہیں سیدالشہداء کا خطاب عطا کیا۔ اس جنت میں  رسو ل اللہ ﷺکی ایک ہدایت پر عمل نہ کرنے  کی وجہ سے مسلمانوں کوشکست کا منہ دیکھنا پڑا اوران کا بہت جانی نقصان ہوا مگربعد میں ان کا  عزم و حوصلہ بحال ہوگیا۔

چار ہجری میں ام الخبائث شراب کی حرمت نازل ہوئی ۔اسی سال بیئر معونہ کے مقام پر غزوۃ الرجیع میں ۷۰حفاظ قرآن شہیدہوئے تو قنو ت نازلہ کی ابتداء ہو ئی۔۵ہجری میں عورتوں کے لئے پردے کا حکم آیا اورآیت حجاب نازل ہوئی۔ماہ شوال  ۵ ہجری میں جنگ خندق (احزاب)پیش آئی ۔ اس موقع پر حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے سے خندق کھودی  گئی ۔ اس جنگ میں کفار ناکام و نامراد واپس ہوئے اور وہ مسلمانوں کو کچھ نقصان نہ پہنچاسکے۔

چھ ہجری میں صلح حدیبیہ ہوئی۔اس موقع پر آپ ﷺنے اپنے ساتھیوں سے موت پر بیعت لی، جسے بیعت رضوان کہا جاتا ہے۔ سورۃ فتح میں اس کا مکمل تذکرہ ہے ۔اسی سال آپ ؐ نے بادشاہوں کے یہا ں اپنے سفیر روانہ کیا اورانہیں اسلام کی دعوت دی۔

ماہ رمضان المبارک ۸ہجری میں مکہ فتح  ہوا۔ آپؐ  عظیم الشان فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر آپ نے مشہور  تاریخی جملہ کہا :’’ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، تم سب آزاد ہو۔‘‘ اتنی عظیم الشان  فتح بغیر خون خرابے کے  حاصل ہوئی۔ جو انسانیت کے لیے ایک بڑی مثال ہے۔اسی سال غزوۂ حنین عمل ہوا۔اسی دوران خالد بن ولید، عثمان بن ابی طلحہ ،عمر وبن العاص اورعکرمہ بن ابی جہل مدینہ آکر مسلمان ہوئے ،  ماہ رجب ۹ہجری  غزوۂ تبوک ہوا ،حج فرض ہوااورحضرت ابو بکرصدیق ؓ امیر الحج مقر ہوئے۔

دس ہجری میں آپ ؐنے ایک لاکھ چوبیس ہزار مسلمانوں کے ساتھ حج کیا ۔اسے حجۃ الوداع کہا جاتا ہے۔گیارہ ہجری میں آپؐ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

حضورپرنورسرکاردوعالم ﷺکی زندگی جہدومشقت،صبروقناعت اورزہدوعبادت کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ دوسری طرف آپؐ کی حیات طیبہ امارت وحکومت، سیادت و قیادت ،دلیری ،شجاعت اورکمال علم و عمل کی تصویر تھی۔آپؐ نے اختلاف وانتشار،قتل وغارت گری ،بدکاری وبداخلاقی سے مامورفضاکوپاک کیا۔ امن واطمینان ،اخوت وبھائی چارگی اورانسانیت کادرس دے کرایمان و حقائق کی روشنی سے انسانیت کو آگاہ کیا۔

عرب غروروتکبرمیں بدمست تھے۔ حسب ونسب پرفخرکرتے تھے، آپ ﷺنے ان کے سامنے وضاحت فرمائی کہ ’’تمام انسان آدم کی اولادہیں اور آدم مٹی سے پیداکئے گئے‘‘ مزید فرمایا:’’اے لوگو! بلاشبہ تمہار ارب ایک ہے اورتمہارا باپ بھی ایک ہے، جان لوکہ کسی عربی کو کسی عجمی پراور کسی عجمی کوکسی عربی پر، کسی سرخ کوکسی سیاہ پر اور کسی سیاہ کوکسی سرخ پر کوئی فضیلت اوربرتری حاصل نہیں ہے سوائے تقوی کے ،،۔  (مسنداحمد)

آپؐ نے اسلام کا ایسا قانون نافذ کیاجس میں عرب و عجم ، امیر وغریب ،بڑے چھوٹے ،گورے کالے سب قانون کے سامنے برابراوریکساں دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے ایک مجرمہ کے سلسلے میں حضرت اسامہ بن زیدؓ کی سفارش پر ارشاد فرمایا تھا :’’بخدااگراس کی جگہ فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔

آپؐ کی پوری زندگی ظلم وناانصافی کے خلاف برسرپیکارہے۔ آپ مظلوم اوربے کس ولاچارکی حمایت کرتے تھے ۔آپؐ نےانسانوں کو صرف اس کی عبادت کا حکم دیا اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا سلیقہ عطاکیا۔
 -----------------------------------------------
*اولاد نبیﷺ*
تین لڑکے:۱۔قاسمؓ   ۲۔عبد اللہؓ (طیب /طاہر)  ۳۔ابراہیمؓ                              
چار لڑکیا ں:  ۱۔ ز ینبؓ  ۲۔ رقیہؓ   ۳۔ام کلثومؓ   ۴۔فاطمہؓ
آپ ؐ کے سارے بچے حضرت خدیجہؓ سے ہوئے، سوائے ابراہیمؓ کےکہ  یہ حضرت ماریہ قبطیہؓ سے پیدا ہوئے۔

*امہات المؤمنین (ازواج مطہراتؓ )*
۱۔حضرت خدیجہ الکبریؓ ۲۔حضرت عائشہؓ ۳۔ اُم حبیبہؓ ۴۔اُم سلمہ۔حفصہ بنت عمرؓ
۶۔میومنہ بنت الحارثؓ ۷ ۔ زینب بنت جحشؓ ۸ ۔سودہ بنت زمعہؓ ۹۔زینب بنت خزیمہؓ
۱۰۔جویرہ بنت حارثؓ ۱۱۔صفیہ بنت حیّ ؓ ۱۲۔ماریہ قبطیہؓ

*داماد نبی ﷺ*        ۱ ۔ حضرت ابو العاصؓ ۲ ۔ حضرت عثمانؓ ۳۔حضرت علیؓ
*نواسۂ رسول ﷺ *   ۱ ؂ حضرت حسنؓ ۲ ؂ حضرت حسینؓ

***** 

Friday 16 November 2018

Musalman Buzdil Nahi



مسلمان بزدل نہیں مگر

مسلمان اقدامی یا دفاعی کوئی بھی پوزیشن اختیار کرے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی. مگر صیہونی قوت اس وقت کامیاب ہو جاتی ہے جب وہ مسلمانوں کے درمیان منافرت کی بیج بو کر اور دنیا کی محبت، چمک دمک میں پنھسا کر ان پر حملہ آور ہوتی ہے.اس لیے ہمیں اپنی ان کمزوریوں کے تدارک اور اس کے علاج پر غور کرنے کی ضرورت ہے. ایسے لوگوں سے محتاط رہیں جو منافرت پھیلانے کا کام کرتے ہیں اور ایسے عہدے داران اور نادان دوستوں پر نظر رکھی جائے جو ہمارے دشمنوں کا دانستہ یا ناداستہ آلہ کار بن جاتے ہیں.

تمام مسلمان محمد ﷺ کے امتی ہیں،قبلہ ایک قرآن ایک اس لیے باہم مل جل کر رہیں اور مخلصین کا ساتھ دیں اور اپنے نصب العین (برادران وطن میں دعوت دین) فریضہ انجام دیں.
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک (اقبال)

Thursday 1 November 2018

Angaron ki Do Zabanon wala Shakhs


انگاروں کی دو زبانوں والا شخص

ہم تصور کریں  کہ ایک ایسا شخص جس کے دوچہرے ہوں اور اس کے منہ میں دہکتے ہوئے شعلوں کی دوزبانیں ہوں ، وہ اس کا چہرہ کس قدر بھیانک اور کتنا بدترین ہوگا! اب ذہن میں سوال آئے گا کہ وہ شخص کون ہے؟ اس گھٹیا اور ناعاقبت اندیش شخص کی کیا پہچان ہے، جسے نبی کریم ﷺ نے من شرارالناس (بدترین انسانوں میں سے) قرار دیا ہے؟  تو آئیے ہم ایسے شخص کے بارے میں نبی ﷺ کی زبان مبارک سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔آپ کا ارشاد ہے:

إنّ من شرار الناس ذوالوجہین الذی یأتی ہولاء بوجہ وہولاء بوجہ۔ (مسلم)
’’یقیناً بدترین شخص وہ ہے جو دو منہ رکھتاہو، کچھ لوگوں کے پاس ایک منہ لے کرجاتا ہے اورکچھ لوگوں کے پاس دوسرامنہ لے کرجاتاہے۔‘‘

ایسے انسان کو آپﷺ نے کیوں بدترین انسان قرار دیاہے؟ اس سوال پر ہم غور کریں گے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اسلام، معاشرہ میں امن و سکون اور خوش گوار ماحول دینا چاہتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں میں باہمی ربط وتعلق مضبوط ہو ۔ایسے اسباب پیدا نہ ہوں جن کی وجہ سے ان کے درمیان کسی طرح سے قطع تعلق ، یا فساد و بگاڑ پیدا ہوجائے ۔ لہذا اسلام ان تمام بری خصلتوں اور گھٹیا عادتوں سے مسلمانوں کو دور رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ دورخی اختیار کرنا ،ان ہی بری خصلتوں میں سے ایک ہے۔چنانچہ اس کے لیے بڑی سخت وعید سنائی گئی ہے،تاکہ مسلمان اس بری عادت سے بچیں۔آپؐ نے فرمایا:

من کان لہ وجہان فی الدنیا، کان لہ یوم القیامۃ لسانان من نار۔(ابوداؤد)
’’جو شخص دنیامیں دوچہرے رکھتاہوگا، قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی دو  زبانیں ہوں گی۔‘‘

دورخی اختیار کرنے والا شخص سچ اورجھوٹ کوملاکر لوگوں میں فساد و بگاڑ پیداکرنے کی کوشش کرتاہے ۔اسی وجہ سے اس عادت بد کو نفاق کی علامت قراردیا گیاہے۔ ایسے شخص کو انسانیت کا دشمن اورمعاشرے کا ناسور سمجھاجاتاہے۔ وہ لوگوں کی کم زوریوں کی ٹوہ میں لگارہتاہے، تاکہ ان کی اطلاع دوسرں کو دے۔ اس طرح ان کے مابین قطع تعلق ہوجائے۔ اسی وجہ سے اس کا دل حسداور کینہ کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔

امام غزالیؒ نے دوطرفہ باتیں بنانے والی خصلت بد کوچغل خوری کی خصلت سے بھی بدتر بتایا ہے۔ چغلی میں آدمی صرف ایک کی بات کودوسرے کے یہاں نقل کرتاہے، جب کہ یہاں دوطرفہ مخالفانہ باتیں پہنچائی جاتی ہیں۔قیامت کے دن ایسے شخص کے منہ میں آگ کی دو زبانیں ہوگی۔ 

یہ وہ برائی ہے جو مسلم معاشرے بھی عام ہوتی جا رہی ہے ۔ ایسے میں ہمیں خود کامحاسبہ کرنا چاہیے کہ کہیں وہ بری خصلت ہم میں تو نہیں اگر ہے تو ہمیں اسے فوراً دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر  نہیں ہے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
محب اللہ قاسمی

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...