Friday 29 December 2017

Asa no ho to Kalimi hai kare bebunyad.

عصاء نہ ہو تو کلیمی ھے کار بے بنیاد
محب اللہ قاسمی


موجودہ دورکا مشاہدہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس میں وہ تمام خرابیاں آچکی ہیں جن سے معاشرہ بدحال ہے ،جس میں ظالم ظلم کرتے ہوئے بھی نادم نہیں ہے ، طاقتور کمزوروں کو ستا رہا ہے، اکثریت اقلیت کے وجود کو تسلیم کرنے سے گریزکررہی ہے اوران کے جان کے درپردہ ہے۔  بستیاں جلائی جارہی ہیں، پہ درپہ ہونے والے فسادات، گؤ آتنکواد کی خونی بھیڑ اور کھلے عام غنڈہ گردیوں سے انسانیت دم بخود ہے، کبھی سر عام تو کبھی ٹرینوں میں حتی کے گھروں میں گھس کر لوگوں کی جان لی جا رہی ہے، بے قصوروں کو مارا جا رہا ہے، ان زیادہ متاثر مسلمان ہیں جن کی خبروں سے اخبارات بھرے نظر آتے ہیں، مسلمانوں کی بے بسی اوراس کی لاچاری کی اس کیفیت پر علاقہ اقبال کا یہ مصرع ذہن میں تازہ ہوتاہے     ؎

ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات


یہ بات پوری طرح مسلم ہے کہ معاشرے میں دوطرح کے گروہ پائے جاتے ہیں ایک وہ جوتعصب کی بنیاد پر انسانیت کا گلا گھونٹتے ہیں اورفساد کا ماحول پیدا کرکے معاشرے میں فرقہ پرستی کو فروغ دے کر اسے تباہ وبرباد کرنا چاہتے ہیں دوسرے وہ جو امن وامان کے خواہاں ہوتے ہیں اور معاشرے کی تعمیر وترقی کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان امن پسند اور امن کے دشمن دونوں میں سے ہرایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہیں۔ کوئی کسی کا وجود تسلیم کرنے کو تیار نہیں، ایسا ہوبھی نہیں سکتا کیوںکہ یہ دونوں دومتضاد چیزیں ہیں ۔اسی وجہ سے ان کا آپسی ٹکراؤ اور تصادم یقینی ہے، جو روز اول سے چلا آرہاہے اورتاقیامت جاری رہے گا۔ ان میں جو غالب ہوگا معاشرہ کی صورت حال ویسی ہی بھلی یا بری ہوگی۔

ایسے ماحول کے لیے اسلامی تعلیمات کیاہیں؟ اسے عام کرنے کی ضرورت ہے۔اس ضرورت کی تکمیل کے لیے لازم ہے کہ اسلام کے علم بردارطاقت ور ہوں۔ وہ قوت، خواہ ایمانی لحاظ سے ہو، جیسے خدا پر کامل یقین، اپنے موقف پر استقامت، مشن کے لیے ہرممکن راہ اختیار کرنے کاعمل، فکر کی مضبوطی اور شریعت اسلام کوہی مکمل نظام حیات ہونے کا قولی وعملی دعوی ۔ یا پھرجسمانی قوت مثلاً مخالف گروہ کے حملے اورفسادات سے نمٹنے کے لیے دفاعی طاقت، جس کے لیے جسمانی ورزش، ایسے کھیل جن سے جسمانی ورزش ہوتی ہو، دوڑ، تیراکی اور کشتی وغیرہ ۔

جہاں تک ایمانی قوت کا تعلق ہے توایک مومن کواپنے مشن میں کامیاب ہونے کے لیے یہ لازمی جز ہے۔ اس کے بغیر کسی کامیابی کا تصور محال ہے۔چنانچہ اس کی طرف  ہمیشہ توجہ دلائی جاتی ہے ، برابر تقریروں اور تحریروں سے اس کی وضاحت بھی کی جاتی ہے ۔بڑے بڑے جلسوں میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالی جاتی ہے، مگر دوسری طاقت جواللہ کو بے حد محبوب ہے، اس کی طرف بھی توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی نازک حالات کے پیش نظر اپنے محبوب بندوں سے فرمایا:

’’اورتم لوگ ،جہاں تک تمہارابس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اورتیاربندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیارکھو، تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اوراپنے دشمنوںکواوران دوسرے اعداء کوخوف زددہ کروجنھیں تم نہیں جانتے مگراللہ جانتاہے ۔ (سورۃ انفال:60)

یہ سرزمین خدا کی ہے،  وہ ظلم وبربریت کو پسند نہیں کرتا لہذا عدل وانصاف کا قیام ہونا چاہیے۔ وہ بری باتوں کوپسند نہیں کرتا، اس لیے نیکی کی راہ ہموار کی جائے ۔ مذکورہ تمام اعمال وافعال خدا کوماننے والا اس کے احکام کی پابندی کرنے والا ہی بخوبی انجام دے سکتا ہے ۔ مگر یہ کام آسان نہیں ہے اس لیے انھیں اپنے اندرجہاں ایک طرف ایمان کی مضبوطی کی ضرورت ہے وہیں باطل گروہ سے ٹکراؤ کے وقت مضبوط اور مستحکم لائحہ عمل کے ساتھ دفاعی قوت وصلاحیت کی بھی ضرورت ہے ،جس میں تمام مسلمانوں کو ایک ساتھ مل کرتعان علی البروالتقوی کا ثبوت پیش کرنا ہوگا۔

اس کام کے لیے دیگر ان تمام امن پسند لوگوں کو بھی اکٹھا کرنا ہوگا جو مٹھی بھر لوگوں کے ظلم و ستم اور ان کے قہر سے چھٹکارا پاکر ملک میں امن و سکون چاہتے ہیں۔ جس کا مظاہرہ نوٹ ان مائی نیم کی شکل میں زبردست احتجاج کے ساتھ کیا گیا.

نبی کریم ؓ نے صحابہ کرام میں ان دونوں قوتوں (ایمانی قوت اوردفاعی صلاحیت ) کو پروان چڑھایا۔ اس لیے ہم صحابہ کرام کی زندگی کو دیکھتے ہیں توان میں جہاں ایمان کی حلاوت اور حمیت ملتی ہے، وہیں وہ جنگی لحاظ سے مضبوط، طاقتور اور بہادر دکھائی دیتے ہیں۔ جنگ بدرکا واقعہ ہے کہ جب کفارومشرکین (عتبہ ،شیبہ اور ولید ) نے دعوت مبارزت دی توان کے مقابلے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے اولاًانصارمیں سے تین صحابہ کرامؓ آگے آئے، مگرمشرکین نے اپنے یعنی قریش میں سے اپنا مقابل طلب کیا ،جس پر تین نہایت قوی اورجنگی فنون کے ماہر حضرات آگے آئے، جنھوںنے اپنے مقابل کا کام تمام کیا۔وہ تھے عبیدۃن الحارثؓ، حضرت حمزہ ؓاور حضرت علی ؓ صرف حضرت عبیدۃبن الحارثؓ معمولی زخمی ہوئے۔ اتنے مضبوط اوربہادرہوتے تھے صحابہ کرام ؓ!

قرآن کریم نے رسول اللہ ﷺاورصحابہ کرام کے  اوصاف کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا:
محمد رسول اللہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینہم (سورۃ الفتح:۲۹)
محمد اللہ کے رسول ہیں اورجولوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں.

اس کی تفسیر میں مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں ۔
’’صحابہ کرامؓ کے کفار پر سخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ موم کی ناک نہیں ہیں کہ انھیں کافرجدھرچاہیں موڑدیں۔ وہ نرم چارہ نہیں ہیں کہ کافرانھیں آسانی کے ساتھ چبا جائیں۔ انھیں کسی خوف سے دبایا نہیں جا سکتا۔ انھیں کسی ترغیب سے خریدا نہیں جا سکتا۔ کافروں میں یہ طاقت نہیں ہے کہ انھیں اس مقصد ِ عظیم سے ہٹا دیں جس کے لیے سردھڑکی بازی لگا کر محمدﷺ کا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں۔ (اورآپس میں رحیم ہیں) یعنی ان کی سختی جوکچھ بھی ہے دشمنان دین کے لیے ہے، اہل ایمان کے لیے نہیں ہے۔ اہل ایمان کے مقابلے میں وہ نرم ہیں، رحیم و شفیق ہیں، ہمدرد و غمگسار ہیں۔ اصول اورمقصدکے اتحاد نے ان کے اندرایک دوسرے کے لیے محبت اورہم رنگی وسازگی پیدا کردی ہے۔‘‘ (ترجمہ قرآن مع مختصرحواشی)

اگرکوئی شخص کسی مومن کی جان کے درپے ہوتوایسی صورت میں اس کے لیے بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے رحم وکرم کی بھیک مانگنے کے بجائے دفاعی صورت اختیار کرنا لازمی ہو جاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اپنی جان اور اپنے مال کی حفاظت کی خاطر دفاعی صورت میں اگرکسی مسلمان کی جان چلی جائے تو اسلام نے اسے شہید کا اعزاز بخشا ہے ۔ دفاعی صورت کے لیے قوت ضروری ہے اوراس کا صحیح استعمال جرأت وبہادری کے ذریعے ہوتاہے ۔

عصاء نہ ہو تو کلیمی ھے کار بے بنیاد


نبی کریمؐ نے اس تعلق سے اپنی امت کو بڑی ہی جامع بات بتائی جومعاشرے کی فلاح و بہبود اور قیام امن وامان کے لیے بے حد ضروری ہے۔آپؐ کا ارشاد ہے:

’’مومن ِ قوی بہتر اورخداکے نزدیک محبوب ترہے مؤمن ضعیف سے۔اوریوں تو ہر ایک میں بھلائی اورخیر پایا جاتا ہے۔ جو چیز تیرے لیے نافع ہو اس کا حریص ہو اورخدا سے استعانت طلب کراور عاجز نہ ہو۔ اوراگر تجھے کوئی مصیبت پہنچے تو یہ نہ کہہ کہ اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ہوتا بلکہ کہہ کہ خدانے یہی مقدرفرمایا اوراس نے جوچاہا کیا، کیوںکہ لفظ ’’اگر‘‘شیطان کے کام کا دروازہ کھولتاہے۔‘‘(مسلم)

مذکورہ حدیث سے واضح ہوتاہے کہ ضعف اورکمزوری، خواہ ایمانی ہو یا جسمانی، کسی بھی صورت میں پسندیدہ نہیں ہے۔ اس لیے اللہ کے نزدیک  مضبوط مؤمن کمزورسے بہتر ہے، کیوں کہ اس سے دینی ودنیوی امورکے مصالح کاحصول ہوتاہے۔ ساتھ ہی خیر کی طرف رغبت اور اس بھلائی کے حصول میں کسی طرح کا عجز ظاہر کرنے کی ممانعت پائی جاتی ہے۔ عجز ضعف کی علامت ہے جوانسان کو اپنے مشن میں استقامت سے روکتی ہے اوراسے متزلزل کردیتی ہے۔ مومن کا یہ شیوہ ہے کہ وہ احکام الٰہی کا پابندرہے اگرکامیابی ملی توفبہاورنہ توغم نہ کرے یہ من جانب اللہ مقدر تھا۔

ہمارے اسلاف نے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کیا اور وقت کی نزاکت کے ساتھ اس راہ کو بھی اپنا یا جس کے لیے انھوں نے بے حد مشق کی ۔ آج ہندوستان آزاد ہے، اگرتاریخ اٹھاکردیکھیں تو ہم بڑے فخرسے کہتے ہیں کہ علماء نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا اور خود میدان میں کود پڑے، مسلمانوں نے علمائے کرام کا ساتھ دیا اور اپنے خون سے اس ملک کوآزاد کرایا ۔

یہ اس لیے ہوا کہ انگریزوں نے نہ صرف ظلم وبربریت کا ماحول گرم کیا تھا بلکہ مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیرنے کی پالیسی بھی تیارکی تھی ۔ ان کا جینا بھی مشکل کردیاتھا۔ ایسی صورت جب بھی پیش آئے گی اس کے لیے یکبارگی کوئی عمل سامنے نہیں آتا بلکہ اس کی تیاری کی جاتی ہے ۔ تاکہ ماحول کے مطابق مسلمان خود کو تیاررکھیں۔ایسا محسوس ہوتا ہےکہ کچھ فاسد عناصر ہندوستان کی پرامن فضا کو نفرتوں اور عداوت سے زہر آلود کر رہے ہیں، جس کے لیے وہ درندگی کی حد تک چلے گئیے ہیں بہ حیثیت مسلمان ہماری یہ اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ امن پسند لوگوں کو جوڑ کران درندوں سے مقابلہ ہو اور نفرت کے چراغ کو بجھا کر امن و محبت کا چراغ روشن کیا جائے۔ جس کے لیے ہمارے اسلاف نے بڑی قربانیاں دی تھیں۔

گنوادی ہم نے جواسلاف سے میراث پائی تھی
ثریاسے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا


اگراسلام کے ماننے والے اپنی بہتری اوربھلائی کے لیے اللہ کا حکم اوراس کے نبی ﷺ کا طریقہ چھوڑکرکوئی اور طریقہ اپنائیں یا چوپائے کی طرح بے مقصد اوربے چارگی کی زندگی گزاریں، توپھران کو ذلت وپستی اوررسوائی سے کوئی نہیں بچاسکتا، چہ جائے کہ وہ قوم کے فساد و بگاڑ کو روک سکے یا اس کامقابلہ کرسکے اورنہ ہی کوئی اس کی مدد کر سکتا ہے۔

Sunday 19 November 2017

Talba ki Hausla Afzai

طلبہ کی حوصلہ افزائی

الحمد للہ... آج صبح 10 بجے ہیومن ویلفیئر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام دسویں کلاس کے امتحان میں نمایاں نمبرات سے کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کے لئے میڈل، سرٹیفکیٹ اور اسکالر شپ تقسیم کا پروگرام رکھا گیا تھا.
یہ پروگرام پٹنہ گاندھی میدان سے متصل ایے این سنہا انسٹی ٹیوٹ میں رکھا
گیا تھا جس میں فاطمہ چک سے دو طلبہ اور ایک طالبہ کو منتخب کیا گیا تھا مگر کسی وجہ سے ایک طالبہ شریک نہ ہو سکی.. شریک ہونے والے دو طالب علم محمد یوسف بن کلیم اللہ اور محمد منت اللہ بن محمد حسیب شریک ہوئے. دو پہر 2 بجے یہ پروگرام بہ حسن و خوبی اختتام پذیر ہوا.

واضح رہے کہ درج بالا فاؤنڈیشن کی جانب سے تقسیم اسناد کا یہ پروگرام 2013 سے جاری ہے البتہ اس میں پہلی بار فاطمہ چک سے طالب شریک ہوئے ہیں. اس میں شرکت کے لئے %72 کا کٹ آف رکھا گیا تھا. تقریباً150 بچوں کو اسکالر شپ سے نوازا گےا۔

اللہ تعالی ان بچوں کو مزید ترقی دے اور دین دنیا دونوں میں کامیابی و کامرانی عطا کرے۔ آمین یا رب العالمین
محب اللہ قاسمی





Sunday 29 October 2017

Zara Deer Lagegi

غزل

گر مجھ کو تڑپنے میں ذرا دیر لگے
ان کو بھی مچلنے میں ذرا دیر لگے گی
طوفانِ بلا خیز سرراہ ہے حائل
منزل پہ پہنچنے میں ذرا دیر لگے گی
خود ہوگا شکاری بھی شکار، ایک نہ اک دن
حالات بدلنے میں ذرا دیر لگے گی

میں حرف نہیں ہوں کہ مٹادے گا مجھے تو
یوں مجھ کو مٹانے میں ذرا دیر لگے گی
تم رکھتے رہو زخمِ دلِ زار پہ مرہم
گھائل کو سنبھلنے میں ذرا دیر لگے گی
دعویٰ تو رفیقؔ اس کا، رفاقت کا ہے لیکن
نیت کو پرکھنے میں ذرا دیر لگے گی
محب اللہ رفیق

Tuesday 24 October 2017

Ghazal: Zindagi keya hai

غزل  …  زندگی کیا ہے

راہِ پر خار سے جو گیا بھی نہیں
زندگی کیا ہے اس کو پتا بھی نہیں

کس قدر گہرا رشتہ ہے امید سے
میں نے اس کا لیا، جائزہ بھی نہیں

درد دے کر وہ کہتے ہیں ہمدرد ہوں
اس سیاست کا کوئی سرا بھی نہیں

آرزو لے کے ملنے گیا تھا مگر
میں نے کچھ کہا اور سنا بھی نہیں

اس سے برسوں تعلق تھا مرا مگر
اب مری قسمت وہ دیکھتا بھی نہیں

داغ چھپ جائیں چہرے کے جس میں سبھی
جگ میں ایسا کوئی آئینہ بھی نہیں

ہے رفیقؔ اپنا رشتہ ہر انسان سے
میں کسی کو کبھی جانچتا بھی نہیں


محب اللہ رفیقؔ

Ghazal: woh Shaksh hi dunya men mahboob

غزل

وہ شخص ہی دنیاں میں محبوب خدا ہوگا
جس کے لیے اسوہ ہی آئینہ بنا ہوگا

اس پر نہ بھروسہ کر دشمن سے ملا ہوگا
اس دشمن جانی سے کب، کس کا بھلا ہوگا

صرف اس کی عبادت پر بخشش تو نہیں ممکن
بندوں کا بھی حق تجھ سے جب تک نہ ادا ہوگا

اس نسل کی حالت بھی یونہی نہ ہوئی بد تر
اس میں تو قصور آخر اپنا بھی رہا ہوگا

دریائے رواں خوں کا اعلان یہ کرتا ہے
اس قتل کا منصوبہ پہلے سے بنا ہوگا


محب اللہ رفیقؔ


Ghazal Ghayel Hua hun mai

غزل

کچھ ایسے ان کے ناز کا محمل ہوا ہوں میں
گویا کسی کے تیر سے گھائل ہوا ہوں میں

میں بے خودی میں ڈھونڈتا رہتا ہوں بس اسے
اب تو اسی کے کوچے کا سائل ہوا ہوں میں

اس کی نگاہ شوخ کبھی اٹھ نہیں سکی
اس کی اسی حیا کا تو قائل ہوا ہوں میں

حالات بگڑتے ہی وہ لوگ کٹ گئے
جن کے غموں کے بحر کا ساحل ہوا ہوں میں

لوگوں کے درد بانٹ کر میں بن گیا رفیق
مدت سے اس طریق پہ عامل ہوا ہوں میں

محب اللہ رفیقؔ


Ghazal: Bhole Nahi hain ham

غزل

غم توملے بہت مگر، روئے نہیں ہیں ہم
دل کو اداس تو کیا توڑے نہیں ہیں ہم

روکے بہت گئے تری یادوں کے قافلے
بڑھتے رہے قدم کبھی لوٹے نہیں ہیں ہم

کہتے تھے لوگ لوٹ جا مشکل ہے رہ گزر
چادر قنوط کی کبھی اوڑھے نہیں ہیں ہم

یادوں نے کیا مجھ کو بہت مضطرب صنم
راتوں کو کبھی چین سے، سوئے نہیں ہیں ہم

ماں باپ کی محبت و شفقت ہے لازوال
حقا کسی بھی گام پہ بھولے نہیں ہیں ہم

دنیا کی لذتوں نے ہمیں کردیا نڈھال
ورنہ بہت ہیں آج بھی تھوڑے نہیں ہیں ہم

چھیڑوں نہ بار بار ہمیں اے ستم گرو!
تاریخ ہے گواہ کہ کورے نہیں ہیں ہم

حالات زار پوچھتے ہیں، وہ بھی اے رفیقؔ
جن کے جفا و جور بھولے نہیں ہیں ہم


محب اللہ رفیقؔ

Wednesday 18 October 2017

Beti - Short Story

 کہانی

بیٹی

بشری کو سرکاری نوکری مل گئی۔
جب شام کو گھر آئی ، ماں کے قریب جاکر بولی :
’’ماں ! منہ کھولو؟‘‘

 یہ کہتے ہوئے ڈبے سے مٹھائی نکالی اور جلدی سے ماں کے منہ میں ڈال دی۔
’’ماں آج تیری بیٹی کو نوکری مل گئی‘‘

’’سچ؟؟ میری بچی کو نوکری مل گئی ! اللہ کا شکر ہے! ‘‘یہ کہتے ہوئے ماں کی آنکھ سے خوشی کے آنسو نکل پڑے۔

’’ ماں اب تمہیں کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں!۔‘‘ بشری نے کہا۔

’’بیٹا ابھی تیری شادی باقی ہے۔تیرے ہاتھ پیلے کر نے کے لیے سامان تیار کرنا ہے۔ اس لیے میں جب تک کام کرسکتی ہوں کرنے دو۔ ‘‘ماں نے کہا۔

’’نہیں ماں اب تو کام پر نہیں جائے گی۔ بس!اب جو ہوگا میں دیکھوں گی۔‘‘ بشری نے ضد کی۔
’’ ٹھیک ہے۔اب میں کام نہیں کروں گی بس!‘‘

بشریٰ روزانہ صبح دفتر جاتی اور شام کو آتے ہی ماں کی خدمت میں لگ جاتی۔
ایک دن دفتر سے آنے کے بعد بشریٰ نے خلاف معمول ماں سے سنجیدہ لہجے میں پوچھا:

ماں میں نے جب بھی آپ سے ابا کے بارے میں جاننا چاہا تو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ تو پڑھ لکھ بڑی ہو جائے گا اورتجھے نوکری مل جائے گی تو سب بتاؤں گی۔ ماںاب تو مجھے نوکری بھی مل گئی ہے ! بتاؤ ناابا کے بارے میں،انھوں نے تو ہم لوگوں کو کیوں اکیلا چھوڑ دیا؟

والد کا ذکرآتے ہی ماں کی پلکیں بھیگ گئیں اوربولیں:
       بیٹا وہ درد ناک رات یاد کرکے کلیجہ منہ کوآ جاتا ہے۔ جب تومیری گود میں تھی۔تیرے ابو نے تجھے مارڈالنے کی کوشش کی کہ تو لڑکی کیوں پیدا ہوئی؟ بچانے لگی تو مجھے گھر سے نکال دیا۔میں تجھے لے کر اپنے منہ بولے بھائی محمود کے پاس گئی تاکہ میری مدد ہوسکے، لیکن گاؤں کا معاملہ تھا انھوں نے تمھیں دودھ لاکر دیا اور مجھے مجھے کھانا کھلایا لیکن گھر میں ٹھہرانے کو راضی نہ ہوئے۔آخر کار میں تجھے گود میں لے کر تاریک راہوں کا سفر طے کرکے ہائی وے تک پہنچی۔خدا خدا کرکے رات گزاری صبح سویرے ایک بس شہر کو جارہی تھی اس پر سوار ہو کر نئے لوگوں کے درمیان پہنچ گئی۔ تمام چہرے انجان کوئی رفیق نہیں۔

کرکے ہائی وے تک پہنچی۔خدا خدا کرکے رات گزاری صبح سویرے ایک بس شہر کو جارہی تھی اس پر سوار ہو کر نئے لوگوں کے درمیان پہنچ گئی۔ تمام چہرے انجان کوئی رفیق نہیں۔
پٹنہ میرے لیے نیا شہر تھا۔ نئے لوگ اور الگ طرح کی طرز زندگی دیکھ کرمیں  پریشان تھی مگر ہمت اور حوصلے سے کام لیا۔ اللہ نے ایک نیک بندے کو میرے پاس بھیج دیا۔ اس نے میری حالت دیکھ کرپوچھا۔

میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا:
’’صاحب جی! میں غریب دکھیاری ہوں ، میرے شوہر نے مجھے اور بچے کو گھر سے باہر نکال دیا ہے۔ اب یہاں کام کی تلاش میںآئی ہوں،کوئی کام مل جائے تو میں اپنے بچے کی پرورش کرسکوں۔‘‘

میری بات کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا :
’’ٹھیک ہے !آپ میرے گھر چلیے میری بیوی بچے ہیں ، وہیں گھر یلوکام کاج میں ان کا ہاتھ بٹانا اور وہیں رہ لینا، جب کوئی اوراچھا کام مل جائے گا تو پھرآپ چاہیں تو رکیںگی ورنہ کہیں بھی جاسکتی ہیں۔ اس طرح سر راہ کہاں بھٹکتی پھریں گی۔ راستے پر ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ‘‘

ان کی باتوں سے انسانیت جھلک رہی تھی۔
پھر میں  تجھے اپنے کندھوں پر اٹھائے ان کے گھر چلی آئی۔ ان کے گھر کاکام کاج کرنے لگی۔ جب تو بڑی ہوئی تو اسکول میں داخلہ کرایا گیا اور میں گھریلو کام کاج کے بعد ایک سلائی سنٹر میں کام کرنے لگی۔ تیرے اسکول کی فیس اور اخراجات پورے ہونے لگے۔

پھرماں نے گہری سانس لی اورتھکی ہوئیآواز میں بولی:
بیٹا ! میں تجھ سے یہ سب واقعہ نہیں بتائی تاکہ تیرے دل میں اپنے والد کے خلاف نفرت نہ پیدا ہوجائے آج تو بڑی افسر بن گئی ہے۔‘‘

میری خواہش ہے کہ تورتن پور جا اور ان کو اپنے ساتھ لیآنا۔انھیں ان ضرورت ہوگی۔یہ کہتے ہوئے ماں نے اپنی بات مکمل کی۔

’’ماں ! ابا نے آپ کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ جب ہمیں ان کی ضرورت تب تو کبھی پوچھا نہیں ، کسی سے معلوم بھی نہیں کیا کہ ہم کہاں ہیں، اب ہمیں ان کی کوئی ضرورت نہیں!میں ان سے ملنے نہیں جاؤںگی۔انھیں یہاں لاؤں گی‘‘

’’نہیں رے! یہ سب تو تقدیر کا کھیل ہے۔ جو ہوا سو ہوا۔ تمھیں خدا کا واسطہ تم ان کو ضرور لاؤگی۔‘‘

ٹھیک ہے ماں!یہ آپ کا حکم ہے تو میں ایسا ہی کروںگی۔ اب رات کافی ہوگئی چلو ہم لوگ کھانا کھائیں پھر سونا بھی ہے۔یہ کہتے ہوئیوہ ٹیبل پر پلیٹ لگانے لگی۔سردی کا موسم تھا ماں کو کھانا کھلانے کے بعد ان کو  ان کے کمرے میں بستر پر لٹا دیا اور لحاف ڈال کر پاؤں دبانے لگی۔ماں گہری نیند سورہی تھی اور میں اپنی جنت کے قدموں میں پڑی اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی کہ اس مالک نے ہماری آزمائش کے دن پورے کیے۔

٭٭٭
بچوں کی دنیا - اکتوبر2017





Maulan Anzar sb ki Bayezzat rehahi.

اللہ کا شکر ہے مولانا انظرشاہ صاحب باعزت بری ہوئے!
مگر سوال یہ ہے کہ قید کی مدت اور ان کی عزت بھی واپس ہوگی۔یہ وہ سوال ہے جو ہر بار کسی بے گناہ بے قصور مسلمانوں کی با عزت رہائی پر اٹھتے رہے ہیں مگر آج تک اس پر کوئی عمل در آمد نہ ہو سکا جس کی وجہ سے آئے دن بے قصور مسلمانوں کو گرفتار کر لیا جاتا ہے اور لمبی مدت تک انھیں جیل کی سزا کاٹنی پڑتی ہے 
18-10-2017



🤔

Wednesday 23 August 2017

شریعت میں مداخلت ناقابل برداشت

شریعت میں مداخلت ناقابل برداشت

طلاق پر اب وہ قانون بنائے گا جس نے اپنی بیوی کو بیوی ہونے کا حق نہیں دیا... 🤔🤔🤔



مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند... شریعت میں مداخلت ناقابل برداشت ہے...شریعت پر عمل کرنا یہ مسلمان کا بنیادی حق ہے.


جب طلاق اور خلع کا کوئی سسٹم باقی نہیں رہے گا تو عورتوں پر وحشیانہ مظالم کا اندیشہ ہے، جس سے چھٹکارا پانا مشکل ہوگا ۔۔۔ طلاق فطری نظام ہے۔#तलाक़

Saturday 19 August 2017

Bihar Men Sailab ki Tabahkari

بہار میں سیلاب کی تباہ کاری

محب اللہ قاسمی


انس ومحبت انسان کی فطرت کا خاصہ ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیراسے باہمی میل جول اورتعلق کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ دوسروں کے درد کو وہ اپنا درد محسوس کرتاہے۔ چوں کہ اسلام خودسلامتی ومحبت کا پیغام دیتاہے۔ اس لحاظ سے ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں پر رحم کرے ،ان کی مصیبت میں کام آئے،ان کی مشکلات آسان کرے اوران کا سہارابنے ۔

چند روز قبل بہار میں سیلاب نے قہر برپا کر رکھا ہے ،اس کے 38؍اضلاع میں سے تقریبا 18 سیلاب سے متاثر ہیںجن میں سیمانچل(کشن گنج، سہرسہ، کٹیہار، ارریہ، سوپول اور فوربس گنج ) کا علاقہ بہت زیادہ متاثر ہواہے۔دوسری طرف مدھوبنی دربھنگہ ،مظفرپور،سیتا مڑھی،شیوہراورچمپارن،کے علاقے بھی متاثر ہیں۔جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔کروڑوں اور اربوںکا نقصان ہواہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی پل بہہ گئے ، ٹرین کی پٹریاںپانی میںڈوب گئیں، جس کی وجہ سے آمدو رفت کا سلسلہ پوری طرح منقطع ہوگیا۔اس حادثے نے جہاں انسانیت کودہلا کررکھ دیاہے ،وہیں طوفانی سیلاب سے متاثرہونے والوں کے دردناک حالات ٹیلی ویژن اورسوشل میڈیا پر وائر ل ہورہے ہیں۔ویڈیوز اور تصاویر کی زبانی مصیبت کا شکار لوگ مسلمانوں کو آواز دے ر ہے ہیںکہ اے دردکا درماںکہلانے والو !تم کہاںہو؟ہمارے پاس آؤ !ہماری مدد کرو!!مصیبت میں پھنسے ہم لوگوں کو نکالو!!!

لاچاروں،بے بسوں اور بے کسوں کی صداؤں پر لبیک کہنے والے اورمجبور وپریشان لوگوں کا سہارابننے والے پیغمبرکے امتی ہونے کے سبب مسلمانوںکو چاہیے کہ بلاتفریق مذہب وملت دوسروں کی مددکریں اورجب کبھی ،جہاں کہیں بھی انسانیت کسی مصیبت یا آفت سماوی یا ناگہانی حادثہ کا شکارہوتو ان کا ہمدرد بن کر ان کومشکلات سے نکالنے کی کوشش کریں۔یہ ہمارا دینی و اخلاقی فریضہ ہے ۔

اس لیے میری پوری امت سے درخواست ہے کہ وہ اس نیک کام میں آگے آئیںاور مصیبت زدگان کی راحت رسانی کا فریضہ انجام دیں اور خاص طور سے مسلم تنظیمیں اس معاملہ میں دلچسپی لیں۔کیوںکہ

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو 
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں


Tuesday 15 August 2017

Urdu Short Story : Waqt ki Dahleez par

وقت کی دہلیز پر

      محمد محب اللہ

’’ماں آپ ہروقت پڑھتی رہتی ہیں۔ یہ لومٹھائی کھاؤ!یہ میری پہلی تنخواہ کی مٹھائی ہے۔آج مجھے تنخواہ ملی ہے، اس لیے میں نے اس میں سے کچھ پیسے غریبوں میں بانٹ دیے ،کچھ کی میٹھایاں خریدی اور دفتر سے واپسی پر رشیدہ خالہ اور سمیہ پھوپھی اور صوفیہ بھابی سب کے گھر مٹھائی دے آیا۔‘‘
’’بہت اچھا کیا میرے لال!خوشی ہمیشہ مل بانٹ کر ہی مناتے ہیں۔‘‘ کتاب رکھتے ہوئے سلمی نے جواب دیا۔

اسی دوران خالد بھی آگیا: کیا بات ہے؟ خوب مٹھایاں کھائی جارہی ہیں؟ زید نے بلا تاخیر جواب دیتے ہوئے مٹھائی ابو کے منہ میں ڈالی اورپوری بات بتائی۔ خالد نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دعائیں دیں۔بیٹا آپ کی بڑی امی کہاں ہیں؟ سلمی نے کہ کہا:
’’ابھی میرے پاس ہی بیٹھی تھیں۔ شائستہ (بیٹی) آئی تھی کچھ دیر بیٹھی اور وہ دونوں بالائی منزل پرہیں۔‘‘

خوشی سے اچھلتے ہوئے زید نے کہا:’’ اچھا شائستہ آپا آئی ہیں۔ پھر تو میں ان کے پاس جارہاہوں۔انھیں بھی تو مٹھائی کھلانی ہے۔‘‘
اب سلمی نے خالد سے پیار بھرے انداز میں کہا : ’’کیوں جی آج بڑی تاخیر ہوگئی۔ خیریت تو ہے نا ۔‘‘
’’ ہاںذرا ٹرافک میں پھنس گیا تھا۔اور تم بتاؤ آج تو بہت خوش ہوگی ۔ بیٹے کو نوکری لگی اور اس کی مٹھائی بھی مجھ سے پہلے ہی کھا چکی۔‘‘سلمی کو چھیڑتے ہوئے خالد نے جواب دیا۔
’’کیوں جی آپ نے مٹھائی نہیں کھائی ۔اچھا اب باتیں بنانا چھوڑیے اور جلدی سے فریش ہوجائیے میں آپ کے لیے اچھی سی چائے بناکر لاتی ہوں۔‘‘
 یہ کہتے ہوئے سلمی کچن کی طرف چل پڑی۔آج سلمی بہت خوش تھی اس نے کیتلی لی فریز سے دودھ کا پیکٹ نکال کر اسے ابالنے کے لیے اور دودھ کیتلی میں ڈال دی پرانی یادوں میں کہیں کھوگئی۔

سلمی دین دار گھرانے سے تھی گاؤں والوں میں وہ گھرانہ دین داری میں مشہور تھا۔ اس کے والد سرکاری ٹیچر تھے۔ گھر میں دوبڑے بھائی اور اس سے تین چھوٹی بہنیں تھیں۔ خوشحال گھرانہ اورعمدہ ماحول کی وجہ سے اس کی فکر بھی بلند اور شعوری طور پر مضبوط عزم وارادہ کی مالک تھی ۔جذبہ ترحم اور ایثار کی مثال تھی ۔ اپنی سہیلی کی چھوٹی موٹی ضرورت پوری کردینا اور ان کے مشکل وقت میں کام آنا گویا اپنے والدین سے ہی سیکھ لیا ہو۔ مزید براں اس کی دینی تعلیم نے اسے مزید پختہ کار بنادیا تھا۔
اسی گاؤں میں ایک نیک صالح اور غیر معمولی شہرت کا حامل ایک ہونہار آدمی جس کا بچپن میں ہی نکاح ہوگیا تھا اور عین جوانی میں رخصتی ہوگئی۔ مگر بیوی کمزور شعور اورفطری طور پر کم عقل ہونے کے سبب یہ خوبرواور ہردل عزیز ذہین لڑکا اپنی ازدواجی زندگی میں ایسی بیوی کے احساس سے محروم رہا جواس کے دکھ درد میں اسے تسلی دے ۔ اس کی خوشی کو خوشی اور تکلیف کو تکلیف محسوس کرکے اسے حوصلہ دے۔ یا اپنی ذہانت سے کوئی رائے دے کر اس کو مشکل وقت سے نکلنے کا راستہ بتائے۔ کیوں کہ اس میں بیوی میں قدرتی طور پر یہ ساری خوبیاں نہیں تھیں جو عام طور پر خواتین میں ہوتی ہیں۔

الغرض زندگی کی گاڑی جیسے تیسے قدرت کی مرضی کے ساتھ چل رہی تھی۔ اس دوران اس کے کئی بچے بھی ہوئے ۔ وہ نہ صرف بچوں کی کفالت کرتا بلکہ اپنے والدین اور بھائی بہنوں کی دیکھ ریکھ اور ان کی کفالت بھی مریض والدکے سبب ان کے ہی کندھوں پر تھی۔

ایک روز سلمی کی سہیلی نے اس آدمی کے سلسلے میں اس کے سامنے بات رکھی اور اس کے حالات کے بارے میں بتایا۔سلمی ساری باتیں سنتی رہی پھر کہا: ارے ہاں وہ تو بہت اچھے انسان ہیں ۔میں نے کئی بار اپنے گھر میں ان کاتذکرہ سنا ہے۔خیر اللہ رحم کرے۔ بڑا ترس آتاہے اس پر۔پر خدا کی جو مرضی۔

اس پر اس کی سہیلی نے مذاق کے انداز میں اس سے کہا : ’’برا نہ مانوتو ایک بات کہوں؟ ‘‘
سلمی نے کہا: ’’ہاں بولو! میں تمہاری کسی بات کا برا مانتی ہوں!‘‘
سہیلی نے کہا:’’تم چاہوں تواس نیک، شریف انسان کی مدد کرسکتی ہو۔وہ بھی احسن طریقہ سے‘‘
سلمی نے کہا: ’’ہٹ پگلی ! میں کیا کرسکتی ہوں‘‘
سہیلی نے کہا:’’تو اس سے شادی کرسکتی ہے۔ اس طرح تو اس کی خانگی زندگی بہتر اور مستحکم بناسکتی ہے۔یہ کوئی بری بات بھی نہیں ۔ تیرے ابوکے قاسم چاچاسے اچھے تعلقات ہیں وہ دونوں اچھے دوست ہیں۔‘‘
سلمی نے کہا:’’تو بھی نہ کیسی کیسی بات لے آتی ہے!‘‘

سہیلی کے جانے کے بعد سلمی نے اس کی بات کو ہوا میں اڑا دیا۔ وقت گزرتا چلا گیا۔اسی دوران اس کا نکاح ہوگیا ۔ایک دن خبر آئی کہ سلمی کا جس سے نکاح ہوا تھا، اس لڑکے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور موقع پر ہی اس کا انتقال ہوگیا۔اس طرح سلمی رخصتی سے قبل ہی بیوہ ہوگئی۔ 
کچھ دن بیت گئے۔ سلمی کے والد کو اپنی بیٹی کی شادی کا خیال ستانے لگا ۔ اس نے اپنے دوست قاسم سے اس کا تذکرہ کیا۔قاسم بھی اپنے دوست کی پریشانی سے دکھی تھا۔ اس نے ایسے ہی اپنے گھر میں اس کا تذکرہ کردیا۔ اس پر خالد نے کہا:
’’بہت افسوس ہے ۔ خیر اس کی کہیں اور شادی کردی جائے ! ‘‘

قاسم نے کہا : ’’بیٹا!تو ابھی نہیں جانتا ۔ اس کے والد ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تھوڑی ہی بیٹھے ہیں ۔ یہاں سماج کا حال یہ ہے کہ اس سے شادی کرنے کو معیوب سمجھا جارہاہے۔ کون کرے گااس سے شادی ؟ جہاں کہیں رشتہ کی بات ہوتی ہے ، بیوہ سنتے ہی بات ختم کرلیتے ہیں۔ غیر قوموں کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی لوگ بیوہ سے شادی کرنے سے کتراتے ہیں۔کاش میرے دوسرے بچے بڑے ہوتے !‘‘

اس پر خالد نے کہا:’’اگر یہ بات ہے ابوجان …تو آپ میرے عقدثانی کا پیغام ان کے گھر بھجوادیجیے۔ویسے بھی اسلام میں چارشادیوں کی گنجائش ہے۔ اگر انھوں نے قبول کیا تو ٹھیک ورنہ آپ کی طرف سے بات تو پوری ہوجائے گی اور آپ اس سماجی برائی کا حصہ بننے سے رہ جائیں گے۔‘‘

قاسم کو اپنے بیٹے کی یہ بات بھلی لگی۔ پر اس کے ذہن میں کچھ سوالات ابھرنے لگے۔
اس نے بیٹے سے پوچھا’’بیٹا ایک تو تو ویسے ہی تمام گھریلو اخرجات کی ذمہ داری تیرے سر ہے اور میں بیماری کی وجہ سے کچھ کر نہیں پاتا۔ایسے میں تو…!‘‘خالدنے اپنے والد کی بات پوری کرتے ہوئے کہا:
’’ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ میں اس کی کفالت کیسے کرسکوںگا۔ آپ اس کی فکر نہ کریںایک آدمی کے بڑھنے سے اخراجات بہت زیادہ نہیں بڑھیں گے اور پھر ہر آنے والا اپنا رزق اپنے ساتھ لے کر آتاہے۔ اللہ تعالی برکت دے گا۔ وہ کوئی نہ کوئی صورت ضرورنکال دے گا۔‘‘

اب قاسم کو کسی طرح کا کوئی تردد نہ رہا وہ اپنے دوست سے بات کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ دوست کے گھر جاکر ساری باتیں اس کے سامنے رکھ دی۔

سلمیٰ اپنی ماں کے ساتھ گھر میں بیٹھی ساری باتیں سن رہی تھی اور اپنی سہیلی کی پرانی باتوں کو یاد کرنے لگی ۔آج خالد اس کی نگاہ میں ایک عظیم انسان کی تصویر میں ابھر کر اس کے سامنے کھڑا تھا۔

’’بیٹی !کہاں کھوگئی ؟تو راضی ہے نا؟‘‘بیٹی کو جھنجھوڑتے ہوئے سلمی کی ماں نے اس سے پوچھا۔
 سلمی نے کہا : ’’ماں! مجھے ذرا سوچنے کا وقت دو۔‘‘
 اس جواب پر قاسم نے کہا کوئی بات نہیں بیٹی! تجھے انکار کرنے کا پورا ختیار ہے۔ ایسی کوئی جلد بازی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی زور زبردستی ہے۔ میں اپنے بیٹے کو جانتا ہوں ۔ وہ تیرے حقوق کی ادائیگی میں ذرا بھی فرق نہیں آنے دے گا۔ 

چند ماہ بعد سلمی نے حامی بھر لی۔اور بیوہ بن گئی سہاگن۔ اس طرح اس نے اسلام کے اس قانون کو عملی طورپر بہتر محسوس کیا جسے وہ کبھی کتابوں میں پڑھ کر آئی تھی۔

ابھی دودھ ابل کر بہنے ہی والا تھا کہ خالد نے آواز دی سلمی کیا ہوا … ’’چائے بنارہی ہو یا بربل کی کھچڑی۔‘‘
سلمی چونکی ۔اس نے فوراً کیتلی چولہے سے اتارتے ہوئے کہا ۔ ابھی لا رہی ہوں، ذرا صبر کرلو۔اور اللہ کا شکر ادا کیا۔

Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...