رب کی طرف لوٹ
زائرہ وسیم کوئی پہلی لڑکی نہیں جس کی
روح نے اسے آواز دی ہو اور وہ پر فریب دنیا کی لذتوں اور بے حیائی کے تعفن زدہ
ماحول کو اپنے مالک حقیقی سے تعلق جوڑنے کے لیے چھوڑنے کا فیصلہ لیا ہو اور اپنے
اس فیصلے کو دنیا کے سامنے برجستہ پیش کرنے کے لیے واضح اور طویل تحریر لکھی ہو.
بلکہ ہر وہ انسان جس کے ایمان کی حلاوت
اس کے دل میں ہو اور اس کی لذت سے انسان آشنا ہو جائے تو اسے اطاعت ربانی کے سوا
سب کچھ پھیکا نظر آتا ہے. پھر اسے گناہوں کی بستی میں گھٹن محسوس ہوتی ہے اور وہ
بے حیائی کے ماحول میں جی نہیں. نور الہی اسے اندھیرے سے کھینچ کر واپس باحیا خوش
گوار اور پاکیزہ زندگی کے ماحول میں لے آتا ہے.
ایک مسلمان سے اس کا دین ایمان اور
اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی کسی نہ کسی سبب چھین لی جائے جو اس کی زندگی کا سب سے
بڑا سرمایہ ہے۔ پھر اس کی دولت، شہرت اور مرتبت اس کے کس کام کی۔
یہی وجہ ہے کہ انسان خواہ ذلت و رسوائی
کی پستی میں ہو یا پھر شہرت و مقبولیت کی بلندی پر، اگر وہ محسوس کرتا ہے کہ اپنے
دین مذہب اور شریعت کے خلاف زندگی گزار کر جہنم کی طرف بھاگا چلا جا رہا ہے تو اس
کا پاکیزہ نفس اسے ملامت کرتا ہے اور اس کی بے چین روح اسے واپس اپنے رب کی اطاعت
کی طرف لے آتی ہے۔ گویا کوئی اس سے کہہ رہا ہو ففروا الی اللہ (دوڑو اپنے اللہ کی
طرف).
یہ عمل کبھی، کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا
ہے۔ فطرت سلیمہ کا یہی تقاضا ہے کہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹے اور کائنات کے خالق و
مالک کی مرضی کے مطابق اپنا مقصد حیات متعین کرکے دونوں جہاں میں کامیابی حاصل
کرے۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے اندر یہ
کیفیت پیدا ہوتی ہے اور وہ دنیا کی پر فریب، عارضی چمک دمک اور اس کے کھوکھلے پن
کو الوداع کہہ کر واپس اپنے رب کی طرف پلٹتے ہیں اور اس راہ حق میں پیش آنے والی
تمام آزمائشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں.
ایسے لوگ جب اپنے رب کے حضور پیش ہوتے
ہیں تو اللہ تعالیٰ اس سے کہتا ہے.
’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تو
اپنے رب سے راضی ہو۔ تو تو میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو
جا۔‘‘