Wednesday 21 December 2016

Talaq ka Sarhi Qanoon Insanon ki Zarurat

طلاق کاشرعی قانون انسان کی ضر ورت
محب اللہ قاسمی

اسلام انسانوں کے لیے رحمت ہے۔ زندگی کے تمام گوشوں کے بارے میں اسلام کے قوانین حکمت سے خالی نہیں ہیں۔ وہ انسان کی ضرورت اور اس کی فطرت کے عین مطابق ہے۔مثلاً قصاص کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:’’ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘(البقرۃ:  179) بظاہر اس میں ایک انسان کے خون کے بدلے دوسرے انسان کا خون کیا جاتاہے۔ مگر اس میں حکمت یہ ہے کہ دوسرے لوگ کسی کو ناحق قتل کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔ اسی طرح زنا کرنے والے کو، اگر وہ غیر شادی شدہ ہے خواہ مرد ہو یا عورت، سرعام سوکوڑے مارنے کا حکم دیاگیا ہے ۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ کوئی شخص زنا کے قریب بھی نہ جاسکے۔عوتوں کو پردے کا حکم دیا گیا ہے ، تاکہ ان کی عزت و آبرو کی حفاظت ہو۔ نکاح کو آسان بنانے کا حکم دیا گیا ہے ، تاکہ زناعام نہ ہو اور معاشرے کو تباہی  اور انسانوں کو مہلک امراض سے بچایا جاسکے۔
 یہ انسانوں کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ ان کے خالق ،کائنات کے مالک اور احکم الحاکمین کا بنایا ہوا قانون ہے۔ اس لیے ا س میں کسی کو ترمیم کی اجازت نہیںہے۔ اس میں کمی یا زیادتی کرنا اللہ کے ساتھ بغاوت ہے۔ یہی مسلمان کا عقیدہ ہے۔اسی طرح میاں بیوی کے درمیان کسی بھی صورت نباہ نہ ہونے کی شکل میں ان کا شرعی طریقہ سے جدا ہونا طلاق اور خلع کہلاتا ہے، جواسی قانون الٰہی کا حصہ ہے۔اس فطری قانون میں بھی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں، جسے معمولی عقل و شعور رکھنے والا ہر فرد بہ آسانی سمجھ سکتا ہے۔

طلاق اور دیگر مذاہب
دیگر  مذاہب کا جائزہ لیں توپتہ چلتا ہے کہ اس میں نکاح کے بعد طلاق کا کوئی طریقہ مذکور نہیںہے ۔ اگر کہیں ہے تو وہ افراط اور تفریط کا شکار ہے ،جس سے یا تو شوہر پر ظلم ہوتا ہے یا عورت اس ظلم کا شکار ہوتی ہے ۔ مثلاً:  یہود کے نزیک اگر شوہر طلاق دینا چاہتا، تووہ صرف طلاق کا نوشتہ دیوار پر لٹکا دیتا اور دونوں میں جدائی ہو جاتی ۔ جب کہ عیسائیت میں زنا کی مرتکب عورت (مزنیہ)کو ہی طلاق دی جاسکتی ہے بجزاس کے طلاق دینا جائزہی نہیں ہے۔ ہندوازم  میں تو کسی صورت میں طلاق ہی نہیں ہے ۔ایک عورت کی شادی ہوگئی اب وہ بہر صورت وہیں رہی گی، چاہے اس کی زندگی اجیرن اور اس کا جینا محال ہوجائے ۔ عورتوں کے دل میں یہ تصور بیٹھا دیا گیا ہے کہ وہ ڈولی سے سسرال گئی ہیں اب وہاں سے ان کی ارتھی ( جنازہ) ہی نکلے گی۔دوسری کسی بھی صورت میںوہ وہاں سے نہیں نکل سکتیں خواہ ان کے شوہر ان کی زندگی تباہ کر دیں ،یا ان کی عزت کا سودا کریں ،یاانھیں جان سے مار ڈالیں۔اب جا کر انھیں یہ حق ملا ہے کہ وہ طلاق لے سکتی ہیں مگر اس کے باوجود یہ عمل اتنا دشوار ہے کہ ایک عورت کو طلاق لینے یا شوہر کو طلاق دینے میں لمبا عرصہ گزر  جاتا ہے، مگر طلاق کی کارروائی پوری نہیں ہوپاتی۔ جس کے نتیجہ میںایسی بے شمار عورتیں اپنی زندگی کو رو رہی ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔اس کی ایک مثال موجودہ وزیر اعظم کی بیگم جسودہ بین ہیں ۔ وہ ایک لمبے عرصہ سےشوہر کی موجودگی کے باجود بناشوہر کے زندگی گزاررہی ہیں، مگر انھیںانصاف نہیں ملا ۔اگر طلاق کا آپشن ہوتا تو وہ اپنے شوہر سے آزادی حاصل کرکے خوشگوار زندگی کا آغاز کرسکتی تھیں۔

اسلام کا تصور طلاق:
طلاق کیا ہے؟  طلاق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی کھولنے اور چھوڑ دینے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں عورت کو نکاح سے خارج کردیناطلاق کہلاتا ہے۔ اسلام نے انسان کی اس ضرورت کو محسوس کیا اور اسے طلاق کا حق دیا۔ اورطلاق کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام نے اس عمل کو تمام جائزکاموں میں ناپسندیدہ عمل قرار دے کر اسے آخری علاج قرار دیاتاکہ کوئی شخص بات بات میں طلاق کی دھمکی نہ دے، بلکہ سوچ سمجھ کر یہ اقدام کرے۔جس طرح نکاح سوچ سمجھ کیا جاتا ہے ،جس کے نتیجہ میں ایک خاتون اس کی زندگی میں آتی ہے ، اسی طرح طلاق کے غلط اور بے جا استعمال سے وہ عورت اس کی زندگی سے رخصت بھی ہوجائے گی۔اسی طرح عورت کو متنبہ کیا گیاکہ وہ بات بات پر طلاق کا مطالبہ نہ کرے، تنبیہ کی گئی کہ ایسی عورتیں جنت کی خوشبوسے بھی محروم رہیں گی۔طلاق کے بارے میں اسلام کی اتنی حساسیت صرف اسی لیے ہے تاکہ حتی الامکان ازدواجی زندگی کوایک دوسرے کے تعاون سے بہتر انداز میں چلانے کی کوشش کی جائے۔کیوں کہ میاں بیوی کے درمیان اختلاف پیدا کرنا  اور اس کی وجہ سے خاندانی نظام درہم برہم کر دینا شیطان کا محبوب مشغلہ ہے۔

 نکاح ایک معاہدہ ہے :
نکاح ایک معاہدہ ہے، جس کا مقصد زوجین کا پیار و محبت کے ساتھ معاشرتی نظام کو جاری رکھنا ہے۔جب کوئی شخص نکاح کرتا ہے تو وہ اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں شامل ہونے والی خاتون کا نان ونفقہ ،رہنے سہنے کا بندوبست کرے گا اور اس کے تمام حقوق زوجیت کو ادا کرے گا۔ اسی طرح خاتون کی جانب سے بھی یہ عہد ہوتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کو خوش رکھے گی ،لتسکنو الیہا(تاکہ تم اس سے سکون حاصل کرو)کے تحت اسے ذہنی و جسمانی سکون بخشے گی، شوہرکی غیر موجودگی میں اس کے مال و اسباب کے ساتھ ساتھ اپنی عزت و آبرکی حفاظت کرے گی جو شوہر کی امانت ہے۔

طلاق-  نقض معاہدہ:
اب اس معاہدے میں کسی کی جانب سے کمی یا کوتاہی ہوئی تو سب سے پہلے دیکھا جائے گا کہ یہ غلطی کس درجہ کی ہے، پھر اسے دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کی جائے گی اور فریقین کو سمجھانے بجھانے کے لیے دونوں جانب سے لوگ تیار کیے جائیںگے ، جو انھیں شوہر کی اہمیت اور بیوی کی ضرورت پر گفت و شنید سے مسئلہ کو حل کرنےکی شکل نکالیں گے ، اس کا ہر طرح سے علاج کرکے اسے درست کرنے کی کوشش کریں گے ۔ اس کے باوجود اگر کوئی صورت نہ بنے اور دونوں کی زندگی تلخ سے تلخ تر ہوجائے اورگھر جہنم کی تصویر بن جائے اور اس بات کا خوف ہو کہ وہ اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو اس آخری مرحلہ میںاسلام نے اس معاہدہ کو توڑنے کی اجازت دی ہے۔

طلاق سنجیدہ عمل:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:  ’’طلاق دو بار ہے، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو ۔ البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زَوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ۔ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے ، تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے۔ یہ اللہ کی مقررکر دہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو۔ اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کریں ، وہی ظالم ہیں۔‘‘(البقرۃ229)
طلاق کا طریقہ بھی مبنی بر حکمت ہے۔شوہر اس طہر کی حالت میں، جس میں اس نے بیوی سے جماع نہ کیا ہو ،طلاق دے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ مردکو غور خوض کرنے یا عورت کو بھی سنبھلنے کا موقع مل جاتا ہے ۔اس درمیان وہ رجعت(طلاق سے رجوع کرکے) اسے رکھ سکتا ہے۔جب کہ ایک ساتھ تین طلاق دینے کی صورت میں یہ اختیار بھی ختم ہوجاتاہے۔اسی لیے عہد رسالت میں اسے بہت معیوب اور شریعت کے ساتھ کھیل جیسا عمل قرار دیا جاتا تھا، جب کہ عہد فاروقی میں اس عمل پر کوڑے مارے جاتے تھے۔ مگر تین طلاق واقع ہوجایا کرتی تھی۔

طلاق کا اختیار
چوںکہ طلاق نقض معاہدہ ہے تو کوئی بھی اپنی جانب سے اسے توڑسکتا ہے ،البتہ اللہ نے مردو ں کوقوام (نگہبان اور ذمہ دار) بنایا اور انھیں ایک درجہ فضیلت بخشی ہے،اس وجہ سے انہی کو طلاق دینے کا بھی اختیاربخشا ۔جو مبنی بر حکمت ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ معاہدہ ہے جسے ختم کرنے کا عورت کو بھی حق دیا کہ اگر اس کا نباہ نہیں ہورہاہے تو وہ شوہر کو راضی کر کے یاقاضی کی معرفت خلع لے لے۔

 عورت کو خلع کا حق:
خلع کہتے ہیں کسی چیز کو اتارنا، مثلاً اپنا لباس اتار نا، جوتا اتار نا، وہ چیز جو پہنی گئی تھی اسے اتار دینا، اسی طرح عورت نے معاہدہ کی شکل میں جو لبادہ پہن رکھا تھا اسے اتاردینا خلع کہلاتا ہے۔ پھر وہ عدت کے بعد آزاد ہے ، وہ کہیں بھی شادی کرکے نئے سرے سے اپنی زندگی کا خوشگوار آغاز کرسکیں۔اگر عورت کو خلع کا حق نہ ملتا تو یہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوتی جب کہ اسلام کا نظام مبنی بر عدل ہے۔
طلاق ظلم نہیں
اب جو لوگ طلاق پر سوال اٹھاتے ہیں اور اسے عورتوں پر ظلم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عورت طلاق کے بعد سڑک پر آ جاتی ہے، اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ؟ اس اعتراض کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ طلاق عورتوں پر ظلم نہیں اس میں تو مردو ں کا بھی نقصان ہے کہ اتنے اخراجات کے بعد شادی ہوئی کسی ناچاقی کے سبب طلاق ہو گئی اور بیوی گھر سے چلی گئی۔پھر شادی کے لیے عورت کو وہ اخراجات نہیں اٹھانے پڑتے جو پھر سے شوہر کو مہر اور دیگر اخراجات کی شکل میں اٹھانے پڑ سکتے ہیں۔یہ سب نقصان مردوں کا ہی نقصان ہے۔ اسی طرح معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی طلاق کی حکمت کو سمجھ سکتا ہے ۔مثلاً جب جسم کا کوئی حصہ خراب ہوجائے جس کی وجہ سے پورا جسم متاثر ہو ، جس کے علاج کا ڈاکٹر نے آخری حل آپریشن ہی تجویز کیا ہو تو کون نادان ہوگا جو آپریشن کراکے اس مصیبت سے نجات حاصل نہیں کرنا چاہیے گا۔ یہ پھوڑا یا خراب عضو میا ںبیوی میں سے کوئی ایک بھی ہوسکتا ہے۔جو اس کی خوشگوار زندگی کو متاثر کر رہا ہےاور اس کا کوئی حل نہ نکل رہا ہو،لہذا اس کا آخری حل طلاق ہے ۔
اسی طرح طلاق کے بعد دوران عدت اس کے تمام اخراجات تو شوہر کو ہی برداشت کرنےہوتے ہیں۔بلکہ اگر بچہ  چھوٹا ہے،تو اس کی پرورش تک اس کی دیکھ بھال کرنا اس کے بدلے اس کا معاوضہ ادا کرنا بھی شوہر ہی کے ذمہ ہوتا ہے۔ اگر طلاق کے معاملے میں لوگ جذباتی فیصلہ لینے کے بجائے سوچ سمجھ کر، اس عمل کی حکمت کو سامنے رکھتے ہوئے ناگزیر صورت حال میں ا حسن طریقہ سے طلاق دیں تو پھرزندگی کے بہت سے عائلی مسائل حل ہوجائیںگے۔ورنہ جس طرح بے وقت اور غلط آپریشن سے جس طرح مریض کی زندگی جاسکتی ہے اور اس کا جینا مشکل ہو سکتا ہے ، اسی طرح طلاق کے بے جا استعمال سے معاشرہ کو تباہی سے بچانا مشکل ہے۔


Turky & Sirya Zalzala

 ترکی و شام میں زلزلے کی تباہ کاری اور انسانیت کی ذمہ داری محب اللہ قاسمی انسان جس کی فطرت کا خاصہ انس ومحبت ہے ۔ اس لیے اس کا ضمیر اسے باہم...